وحدت نیوز(بلتستان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے زیراہتمام یوم القدس کی مناسبت سے ایک عظیم الشان "قدس کانفرس " کا انعقاد نیورنگاہ آفس کے سبزہ زار پر کیا گیا۔ جس میں حوزہ علمیہ قم، حوزہ علمیہ مشہد مقدس، حوزہ علمیہ نجف اشرف کے علاوہ بلتستان بھر کے علماء اور تنظیمی کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ قدس کانفرنس سے علمائے قم کی نمائندگی کرتے ہوئے حجتہ الاسلام شیخ فدا علی شیخزادہ نے کہا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں یوم القدس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ امام راحل کی کمال دانشمندی تھی کہ انہوں نے رمضان کے آخری جمعہ کو بالخصوص فلسطینی مسلمانوں اور بالعموم مستضعفین جہاں سے منسوب کیا اور اس دن کو نہ منانے والوں کی حقیقت بھی واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دن کو نہ منانے والے استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اس وقت دنیا میں عالم انسانیت اور عالم اسلام کو بےشمار مشکلات ہیں اگر ان مسائل کی ترتیب کریں تو مسئلہ فلسطین مسلمانوں اور انسانوں کا اساسی مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ بربریت نے نہتے اور غریب سات سو کے قریب فلسطینی مظلوموں کی جانیں لی ہیں اور دوسری طرف عالمی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں فقط مگر مچھ کے آنسو بہانے پر اکتفاء کر رہی ہیں۔ عالم اسلام بالخصوص عرب کے نام نہاد اسلامی ممالک کے دل فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ان آمروں کو نہ قبلہ اول کی کوئی فکر ہے اور نہ اسلام کی۔ انہیں اپنا اقتدار چاہیئے اور بس۔
قدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ محمد علی ممتاز نے کہا کہ قدس کی آزادی کے لیے دنیا بھر میں اٹھنے والی آواز اور تحریکیں دراصل حق و باطل کے درمیان ایک سرحد ہے۔ مسئلہ قدس کو بھولنا گویا حق سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے۔ قدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن علامہ شیخ زاہد حسین زاہدی اور صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آغا مظاہر حسین موسوی کا کہنا تھا کہ تمام اسلامی ممالک بالخصوص مملکت عزیز پاکستان کو بھی غزہ کے مظلومین کی امداد کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ہمارے حکمران صرف زبانی مذمت سے بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہیں جو کہ ناقابل قبول عمل ہے۔ اگر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان سے فوج نہیں بھیجی جا سکتی تو کم از کم زخمیوں کی علاج معالجے کے لیے ماہرین اور ادویات اور خوراک کی شیپیں آزادی کاروان کی صورت میں بھیجنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے حکمران اسلام سے مخلص ہوتے تو اب تک غزہ کے مظلوموں کی امداد اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کچھ کر چکے ہوتے۔ دوسری طرف ہماری خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی کی ضرورت ہے سابقہ 67 سالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ اسلام اور پاکستان دونوں کا دشمن ہے اس کے ساتھ مزید دوستانہ تعلقات نبھانا مظلوم فلسطینوں اور دنیا بھر کے مظلوم انسانون کے ساتھ خیانت ہے کیونکہ غزہ میں اسرائیلی بربریت اور دنیا بھر میں امریکی مظالم اور جنایت کاریوں کے پیچھے شیطان بزرگ امریکہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی نادانی کی یہی انتہاء ہے کہ اب بھی امریکہ سے امداد اور پاکستان کی ترقی کو امریکہ سے وابستہ کر کے رکھا ہوا ہے جبکہ 67 سالوں میں امریکہ نے پاکستان کو دیا کیا ہے جو اب دے گا۔ ہمارے حکمرانوں کو سرابوں سے نکل کر، غلامی سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھنا چاہیئے اور اپنی خارجہ پالیسی کو امریکہ کی خوشنودی سے منسوب کرنے کی بجائے آزادانہ خارجہ پالیسی اہنانی چاہیئے۔ دنیا میں اور بھی قومیں وجود رکھتی ہیں جو امریکہ سے دشمنی مول لینے کے بعد بھی دنیا میں سرخرو اور ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان اپنے قدم پر کھڑا ہو کر بیساکھیوں کو توڑ ڈالے تو غزہ کے مسلمانوں کی حمایت کے لیے عملی اقدام کیا جا سکتا ہے۔