وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کی شریف ترین میراث، تہذیب ہے، انسان، علم حاصل کرتا ہے، اخلاق سیکھتا ہے، استادوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتا ہے،  مشاعروں میں جاتا ہے، دانش وروں کے جوتے سیدھے کرتا ہے، یونیورسٹیوں میں وقت صرف کرتا ہے، علما کی محفلوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے،  کتابیں کھنگالتا ہے تا کہ ان سے تہذیب سیکھے اور  مہذب بنے۔

اگر انسان کے پاس علم آجائے، اخلاق کی بڑی بڑی کتا بیں پڑھ لے، فی البدیہہ اشعار کہہ لے،  دنیا میں اس کی دانش کا سکہ چلنے لگے لیکن مہذب نہ ہو، چھوٹے بڑے کا احترام نہ کرے، دستر خوان پر بیٹھنے  کے آداب نہ جانتا ہو، دوستوں سے بات کرنے کے سلیقے سے عاری ہو،   ہمسائے  کو بلانے کی تمیز نہ ہو اور  قانون کو خاطر میں نہ لاتا ہو۔۔۔

ایسےانسان کو زیادہ سے زیادہ الفاظ کا مخزن تو کہا جاسکتا ہے لیکن انسانوں کے لئے  مشعل ِ راہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے جس ہستی کو عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل اور مشعل راہ قرار دیا ہے،  اس ہستی نے  انسانوں کو فقط الفاظ نہیں سکھائے بلکہ انہیں تہذیب سکھائی ہے   اور مہذب بنایا ہے۔

یہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سکھائی ہوئی تہذیب کا ہی نتیجہ تھا کہ  ماضی میں پانی پینے پلانے پر جھگڑنے والے ،اسلام قبول کرنے کے بعد ،  خود پیاسے رہتے تھے اور دوسروں کو پانی پلا کر فرحت اور تسکین محسوس کرتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں ہمسائیوں کو تنگ کرنے والے، اسلام قبول کرنے کے بعد  خود بھوکے رہتے تھے اور ہمسائے کے گھر میں کھانا بھیجتے تھے،  دیگر مکاتب و مذاہب اور قبائل پر شبخون مارنے والے، مسلمان بننے کے بعد سب کو مکالمے، دوستی اور بھائی چارے کی دعوت دیتے تھے، بچیوں کی ولادت کو ننگ و عار کا باعث سمجھنے والے ، کلمہ طیّبہ پڑھنے کے بعد بیٹیوں کو  رحمت کا باعث سمجھنے لگے۔ یہ تھی پیغمبرِ اسلام ﷺ کی سکھائی ہوئی تہذیب کہ جس نے کالے اور گورے، عربی اور عجمی، قریشی اور حبشی کا فرق مٹا دیا تھا،  جی ہاں!  یہ تھی وہ تہذیب جس نے قرن کے اویسؓ، حبش کے بلالؓ، یمن کے مقدادؓ اور مدینے کے ایوب انصاریؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ، آج ہمارے پاس اسلام کے نام پر فقط الفاظ باقی رہ گئے ہیں اور اسلامی تہذیب ختم ہوتی جا رہی ہے ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ  اسلام کے نام پر بنائے جانے والے اس ملک کے ایک شہر سیالکوٹ  میں لوگوں کا ہجوم ایک شخص کو بجلی کے کھمبے سے باندھ کر  اتنا مارتا ہے کہ اس کی روح پرواز کر جاتی ہے،  لیکن کوئی مسلمان اسے بچانے کے لئے آگے نہیں بڑھتا ، اور ہمارے  اسلامی ملک کی فوج اور پولیس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔

اسی طرح کچھ دن پہلے سرگودھا میں ایک پیر صاحب نے لوگوں کو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا ۔ یعنی لوگ اسلام کی  تہذیب  کو سیکھنے کے بجائے پیری مریدی کی تہذیب پر قربان ہو گئے،  مردان یونیورسٹی میں جس درندگی کے ساتھ مشال خان کو قتل کیا گیا اس کی بھی اسلامی تہذیب میں کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔

  اس وقت خیبر پختونخواہ  کے ضلع سوات کی  صورتحال یہ ہے کہ  خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں خواتین کی خودکشیوں کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ ضلع میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے خوئندو جرگہ، دی اویکننگ اورپولیس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران سوات میں 377عورتوں نے خودکشی کر کے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرديا ہے۔

خیبرٹیچنگ ہسپتال کے سائیٹکری وارڈ کے ڈاکٹراعزاز جمال سوات کی خواتین کے خودکشی کے وجوہات پر تحقیق کررہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سوات میں جھوٹے خودکشی کے واقعات کے تو اپنی جگہ لیکن حقیقت میں بھی حالیہ چند برسوں میں یہاں پر خودکشی کے واقعات میں ڈبل اضافہ ہوا ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق خیبرپختونخوا میں گزشتہ چند سالوں میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات سوات میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر اعزاز جمال نے میڈیا کو بتایا کہ سوات کے بعد جنوبی اضلاع بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ میں خودکشی کے  زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں  اور ان واقعات میں اٹھارہ سے تیس سال عمر خواتین کی شرح زیادہ ہے۔

ابھی حالیہ دنوں میں ہی پاکستان کے دارالحکومت میں ،ایئرپورٹ پر تعینات ایف آئی اے اہلکار وں نے دو مسافر خواتین  کو مار مار کر بے حال کر دیا، ایف آئی اے اہلکاروں نے دونوں کو کمرے میں لے جا کر مبینہ طور پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ خواتین کی حالت بگڑ گئی تو انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہی  ایک اور واقعے  میں ایف آئی اے اہلکاروں نے مانچسٹر کے قریبی قصبے اولڈہم جانے والی مسعود نامی شخص کی  فیملی کی بھی خوب  مار پیٹ کی ، جس پر لڑکی کے بھائی نے احتجاج کیا تو باپ اور  بیٹے دونوں پر  وحشیانہ تشدد کیا گیا۔

آج جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ، اس وقت  پسرور کے نواحی گاوں ننگل مرزا میں 3 بہنوں نے ملکر  13 برس بعد گستاخی مذہب کے الزام میں ایک شخص فضل عباس کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ برقعہ پوش افشاں، آمنہ اور رضیہ، ننگل مرزا میں دم کرانے کے بہانے مظہر حسین سید کے گھر میں داخل ہوئیں اور فضل عباس سے ملنے کی خواہش کی۔ جب فضل عباس سامنے آیا تو اسے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ تینوں خواتین نے الزام لگایا کہ فضل عباس نے 2004ء میں مذہب کی گستاخی کی تھی۔

یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب  سے ناآشنائی  کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس کے اصل ذمہ دار ، اسلامی تہذیب سے عاری وہ علمائے سو ہیں جنہوں نے لوگوں کو مذہبی غیرت کے نام پر قتل وغارت، سنگسار  اور خودکشیاں کرنا نیز  کافر کافر کے نعرے تو سکھائے لیکن لوگوں کو اسلامی تہذیب نہیں سکھائی۔

موجودہ صورتحال کو سنبھالنے کے لئے مخلص علمائے کرام کی اوّلین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو کلمہ طیبہ سکھانے کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب بھی سکھائیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ دین اسلام میں فوج اور پولیس کا اخلاق کیسا ہونا چاہیے، عوام کو حکومتی اداروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے، خواتین کے حقوق کیا ہیں  اور اسلامی معاشرے میں ان کی اہمیت و حیثیت کیا ہے!  مذہبی اختلافات کو حل کیسے کیا جاتا ہے اور مذہبی مسائل میں بولنے کا حق کسے حاصل ہے! دین اسلام میں قانون کی بالا دستی اور قانون کا احترام نیز سرکاری اداروں کی رٹ کیسے قائم کی جانی چاہیے۔۔۔ یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن پر علمائے کرام کی طرف سے باقاعدہ کام کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کو مزید ابتری کی طرف جانے سے روکا جائے۔

یاد رکھئے ! جس معاشرے میں انسان درندگی پر اتر آئیں یا  خود کشی پر مجبور ہو جائیں،  لوگ احترام باہمی کو بھول جائیں، افراد قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں،  معاشرہ ماورائے عدالت سزائیں دینا شروع ہو جائے، اور انسانیت اپنا احترام کھو دے ، وہ معاشرہ  اور تمدن بڑی بڑی مسجدوں اور لمبی لمبی اذانوں کے باوجود  کبھی بھی اسلامی نہیں ہو سکتا۔

آخر میں مختصرا ایک جملے میں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہمارے معاشرے کو بگاڑنے میں علمائے سو کا ہاتھ ہے اور اب اسے سنوارنے کے لئے  علمائے حقہ کے حسنِ اخلاق کی ضرورت ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ایام میں یہ عالم بالعموم اور ملک عرب بالخصوص ہر لحاظ سے ایک ظلمت کدہ تھا۔ہر طرف کفر وظلمت کی آندھیاں نوع انسان پر گھٹا ٹوپ اندیھرا بن کر امڈ رہی تھی۔انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا ۔ اغواء قتل وغارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنامعمول زندگی تھا۔ذراسی بات پر تلواریں نکل آتیں اورخون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ دنیا چشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی ۔راہزن رہنماء بن گئے ۔جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آرابن گئےاور  سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔

تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کاباعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑدیے۔دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بعثت سے بڑکر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعدرسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اورآپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الہٰی قوانین کی بعثت ہے ۔

امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ اس عظیم دن کے بارےمیں فرماتے ہیں : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ایک انقلاب برپا ہو ا ہے اور اس دنیا میں تدریجاً ایسی چیزیں رونما ہوئی ہیں کہ جو پہلے نہیں تھیں ۔ وہ تمام معارف وعلوم جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے پوری دنیا میں پھیلے، ان کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ بشریت ان کے لانے سے عاجز ہے اور جو لوگ صاحب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ معارف کیا ہیں اور ہم کس حد تک ان کا ادراک کرسکتے ہیں؟ تمام انسانوں کا ان معارف وعلوم کے لانے میں عاجز ہونا اور بشریت کے فہم وادراک سے اس کا ما فوق ہونا ایک ایسے انسان کیلئے بہت بڑا معجزہ ہے۔

رہبر انقلا ب اسلامی امام خامنہ ای مد ظلہ اس بابرکت دن کے  بارے میں فرماتےہیں:روز بعثت بے شک انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اورجس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، یعنی نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا گران مایہ ترین سرمایہ اور ذات اقدس الہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں خود اسم اعظم الہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی [یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت، بنی نوع انسان پر موجود بھاری وزن کو برطرف کرنا اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی] ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی۔ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا ور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی۔ لہذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔

اس عظیم دن کی مناسبت سے ہم یہاں انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بعض اہداف بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

حضرت علی  علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :{و لیعقل العباد عن ربہم ما جہلوہ، فیعرفوہ بربوبیتہ بعد ما انکروا ، و یوحدوہ بالالویہہ بعد ما عندوا}اس نے پیغمبروں کو بھیجا تا کہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت ،ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔

آپ  فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ  فرماتے ہیں :
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرتہ}تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں ۔
2۔خداو ند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروہم  منسی نعمتہ}انہیں  اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہو سکے ۔{و یحتجوا علیہم بالتبلیغ}تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا :{و یثیروا لہم دفائن العقول}تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا:{ویروہم الایات المقدرۃ، من سقف فوقہم مرفوع،ومہاد تحتہم موضوع ....} تاکہ وہ انہیں قدرت الہیٰ  کی نشانیاں دکھلائیں ان کے سروں کے اوپرموجودبلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کےذریعے۔۔۔۔}
6۔انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پراتمام حجت کرنا:{وجعلہم حجۃ لہ علی خلقہ، لئلا تجب الحجۃ لہم بترک الاعذار الیہم}  اللہ نے انبیاءکو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے ۔

ائمہ معصومین علیہم السلام  سے نقل شدہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ انسان ہمیشہ آسمانی ہدایت کا محتاج ہےاور یہ نیازمندی دو طرح کی ہے:1۔ معرفت و شناخت کے لحاظ سے2۔ اخلاقی و تربیتی لحاظ سے،کیونکہ ایک طرف انسان کی معرفت کا سرچشمہ عقل وشہود اور حواس ہیں جو  محدودہونے کی بنا پر ہدایت ا ور فلاح کے راستے میں انسان کی تمام ضروریات کا حل پیش کرنے سے قاصرہیں۔علاوہ از یں بسا اوقات انسانی غرائز اسے نہ صرف عادلانہ قانون تک پہنچنے نہیں دیتےبلکہ اس کی بعض سرگرمیاں اسے اپنی خلقت کے اصلی ہدف اور اس عظیم مقصد سے غافل  بھی کراتی ہیں۔ اسی بنا پر انسان ہمیشہ وحی کی رہنمائی اور آسمانی رہنماوٴں کامحتاج ہوتا ہے۔ خداوند متعال کی حکمت کا تقاضابھی یہی ہے کہ وہ انسان کی اس اہم ضرورت کو پوری کرے کیونکہ اگر وہ اسے پوری نہ کرے تو لوگ اسی بہانے عذر پیش کریں گے اوران کے پاس بہانے کا حق باقی رہے گا جیساکہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :{ رُّسُلًا مُّبَشرِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَکُونَ لِلنَّاسِ عَلی اللَّہِ حُجَّۃ
ُ  بَعْدَ الرُّسُل} یہ سارے رسول بشارت دینےوالے اور ڈرانے والے اس لئےبھیجےگئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسان خدا کی بارگاہ میں کوئی عذر یا حجت نہ پیش کر سکے”۔

قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کےاہداف میں شمار کرتاہے  :
1۔لوگوں کو توحیدکی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا:{ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فی کُلّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّہَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت}  یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہےتا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا:{ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَہُمُ الکِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط} بےشک ہم نےاپنےرسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کےساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔انسان کی تعلیم و تربیت:  اس خدا نے  مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا:  {فطری لحاظ سے}سارے انسان ایک قوم تھے ۔پھر اللہ نے بشارت دینے والے اورڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔

مذکورہ مطالب سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی ، اجتماعی،مادی او رمعنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت  ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الہیٰ  ہے جو انسانوں پر حجت ہے۔ امام موسی  کاظم علیہ السلامانبیاء اور ائمہ اطہار علیہم السلام کو خداوند متعال کی ظاہری حجت اور عقل کو خداوند متعال کی باطنی حجت قرار دیتے ہیں ۔{و ان لللہ  علی الناس حجتین :حجۃ ظاہرۃ و حجۃ باطنۃ : فاما الظاہرۃ فالرسل و الانبیاء و الائمہ علیہم السلام و اما الباطنۃ فالعقول}
خواجہ نصیر الدین طوسی انبیاء کی بعثت کے اہداف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :انبیاء اور پیغمبروں کی ضرورت اس لئے ہے  تاکہ وہ انسانوں کو خالص عقائد ،پسندیدہ اخلاق اور شایستہ اعمال سکھائیں جو انسان کی دنیوی و ا خروی زندگی کے لئے فائدہ مند ہونیز ایسے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھیں جو خیر وکمال  پر مشتمل ہواور امور دینی میں ان کی  مدد کرےعلاوہ از یں جو لوگ صراط مستقیم سے منحرف ہو جائیں انہیں مناسب طریقےسے کمال و سعادت کی طرف دعوت دیں ۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

 

 

 

حوالہ جات:
 ۱۔امام خمینی رح
  ۲۔امام خامنہ ای ۔[17 نومبر 1998ء]۔
  ۳۔نہج البلاغۃ ،خطبہ 143۔
۴  ۔نہج البلاغۃ ، خطبہ 1۔
 ۵۔  نہج البلاغۃ ، خطبہ 144.
  ۶۔نساء،165۔
  ۷۔نحل،36۔
  ۸۔حدید،25۔
۹  ۔جمعہ،2۔
۱۰  ۔بقرۃ،213۔
۱۱۔اصول کافی ،ج1 کتاب العقل و الجہل ،حدیث 12۔
   ۱۲۔تلخیص المحصل،ص367۔

وحدت نیوز (نقطہ نظر) کوئی آپشن نہیں بچا شام کے بحران میں تین اہم واقعات (پلمیرا میں اسرائیلی حملہ ،خان شیخون کاکیمکل پروپگنڈہ،اور الشعیرات ائیربیس پر امریکی میزائل حملہ )علاقائی و عالمی سطح پر انتہائی اہمیت کے حامل واقعات ہیںخاص طور پر عسکری اور خطے میں طاقت کے توازن کے اعتبار اس کے اثرات بے حددرجہ اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں ۔

شام میں موجود بحران کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل بیانات پر توجہ دی جائے ۔

الف:روسی وزیر خارجہ لاروف:دنیا کا مستقبل شام کے بحران سے جڑاہو ہے ،نئی دنیا کی مرکزیت اور طاقت کا توازن ،ٹوتے بگڑتے اتحاد کا انحصار اس پہلو پر ہے کہ جس پہلو جاکر شام کا بحران ختم ہوجاتاہے ۔

ب:ہیلری کلنٹن :اسرائیل کو تین پہلو سے خطرات ہیں :ڈیموگرافک(جغرافیائی)،ٹیکنالوجکل ،آئیڈیالوجکل یعنی،فلسطین میں بڑھتی ہوئی آبادی ،۔۔مقاومت کے وہ راکٹ اور میزائل جو دن بہ دن بڑھتے اور بہتر ہوتے جارہے ہیں ۔۔مزاحمت(مقاومت) کا نظریہ جو صیہونیت اور امریکاکیخلاف پنپتا جارہا ہے ۔

ج:سینیٹر جان مکین:یہ خطہ(مشرق وسطی) ہمارے ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے ،اگر ہم سنجیدہ نہ ہوئےتو ہمارے اتحادیوں کا مستقبل خطرے سے دوچار ہوگا ،امریکی اتحادیوں کو اس وقت مشرق وسطی میںآئیڈیالوجکل اور ٹیکنالوجکلی طورپر اپنے وجود کی بقا کےخطرات لاحق ہیں ،واشنگٹن کو چاہیے کہ براہ راست مداخلت کرے اور انہیں نجات دے ۔

د:جان کیری سابق امریکی وزیر خارجہ :ہم سب داعش کے پھیلاو کو دیکھ رہے تھے لیکن ہم نے نظریں چرالیں کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ اسد پر دباو بڑھے تاکہ وہ ہماری مرضی کے مذاکرات پر راضی ہو ،ہم چاہتے تھے کہ اسد کے ساتھ مذاکرات کے وقت اس لسٹ کو پہلے نمبر پر رکھیں گے جسے سن 2003میں کولن پاول نے حافظ اسد کے آگے رکھا تھا اور اس لسٹ میں اہم ترین مطالبہ ’’(فلسطینی )مقاومتی تحریکوں کو شام سے بھگانا ،ایران سے دوری اختیار کرنا شامل تھا ۔

گذشتہ پانچ سال سے مسلسل ہر قسم کی کوشش کے باوجود امریکہ اسرائیل اور خطے میں اس کے عرب اتحادی بشمول ترکی کے کسی ایک ایجنڈے کو بھی شام میں عملی شکل دینے میں ناکام رہے ۔

ٹرمپ جو کہ اپنی انتخابی مہم میں مشرق وسطی کے بارے میں قدرے مختلف خیالات کا اظہار کررہا تھا جیسے وہ شام میں حکومت گرانے اور شدت پسندوں کو ٹول کے طور پر استعمال کرنےکے بجائے داعش کیخلاف جنگ کی بات کررہا تھا ،عرب بادشاہوں خاص کر سعودی عرب کو شدت پسند وھابی ازم کا مرکز قرار دے رہا تھا لیکن جوں ہی نے ٹرمپ نے اقتدار کی کرسی سنبھالی اسے یقین ہو چلاکہ امریکی سامراجیتی ایجنڈےاور مفادات اس کی حکمت عملی سے بالکل بھی ہم آہنگ نہیں ہیں دوسری جانب انتخابی عمل میں ٹرمپ اور غیر ملکی طاقتوں کے درمیان تعلقات کے اسکینڈل نے بھی سے شدید دباو کا شکار کیا اوریوں اس کا فائدہ ان امریکی ادراوں نے بھر پور انداز سے اٹھایا جو امریکی امپریالزم یا سامراجی ایجنڈوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں ۔

ظاہر ہے کہ اس وقت خود ٹرمپ کی کیفیت اس صدر کی جیسی ہے’’ جس کے سامنے اس موضوع پر کسی قسم کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں ہے‘‘اور وہ پوری طرح امریکی اداروں کے ایجنڈے کو فالو کرنے پر مجبور ہے ۔

لیکن دوسری جانب سامراجیت کا امریکی پلان مشرق وسطی میں لبنان سے لیکر عراق اور پھر فلسطین تک بری طرح ناکامی سے دوچارہے تو خطے میں نئے نئے چلینجز میں بھی مزید اضافہ ہورہا ہے  ۔

صیہونی غاصب ریاست اسرائیل جو پورے مشرق وسطی میں مکمل قبضے کے لئے شام کو ایک کوریڈور کے طور پر استعمال کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی سخت پریشانی کا شکار ہے ۔

شام میں کبھی کبھی اس کے طیاروں کی جانب سے حملے اس کی اسی جھنجلاہٹ کو عیاں کرتی ہے لیکن پلمیرا حملے میں شام کی جانب سے جوابی کاروائی اور دو طیاروں کے نقصان کے بعد شائد اس کے لئے کھلے معنوں اپنی جھنجلاہٹ کا اظہار اب آسان بھی نہیں رہا ۔

امریکیوں نے شام کے الشعیرات ائربیس پر میزائل مارنے کی ناکام کوشش کے زریعے خطے میں اپنے وجود کی مضبوطی کا اظہار کرنا چاہالیکن اس حملے کے حقائق نے انہیں کف افسوس ملنے پر مجبورکردیا ۔

سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ نے شام کے الشعیرات ائر بیس پر حملے کے لئے طیارے استعمال کیوں نہیں کئے ؟جبکہ اس کے ائربیس شام کے اطراف موجود اکثر ممالک میں موجود ہیں ۔

الف:امریکہ شام کی جانب سے حملہ آور اسرائیلی طیاروں کیخلاف جوابی کاروائی سے واقف تھا اور وہ جانتا تھا کہ شام ایسا ڈیفنس سسٹم رکھتا ہے جو امریکی طیاروں کو نشانہ بناسکتے ہیں ۔

ب:امریکہ نے الشعیرات پر حملے کے لئے لبنانی فضا کا استعمال کیا تاکہ شام کے ساحلی علاقوں میں پھیلے روسی دفاعی سسٹم سے بچاجاسکے لیکن اس کے باوجود صرف 23میزائل ہی ائربیس تک پہنچ پائے جبکہ باقی میزائل اپنے ہدف سے ہی منحرف کردیے گئے ،جبکہ بعض زرائع کا کہنا ہے کہ صرف تین میزائل ایسے تھے جو ہدف تک پہنچ پائے تھے جن میں سے ایک نے ایئر ڈیفنس پلیٹ فارم کو نقصان پہنچایا تھا۔

ج:اگر شام کی زمین پر امریکی طیارہ مارگرایا جاتا اور پائلٹ قیدی بنایا جاتا تو اس صورت میں کیا امریکہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ انہیں ریسکیوکر پاتا ؟کیا اس کے لئے ایسا ممکن تھا کہ فوجی آپریشن کے زریعے انہیں چھڑا لیتا ۔؟

د:امریکہ اپنی جاسوسی کی ٹیکنالوجی (SpywareTechnology)کو لیکر بہت اتراتا ہےتو اب تک اس نے الشعیرات ائربیس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی سٹیلائیٹ یا وڈیوپروف سامنے کیوں نہیں لایا جوکم ازکم یہ ظاہر کرے کہ کتنے میزائل ائربیس پر آلگے تھے ؟تاکہ پینٹاگون کے اس دعوئے کو مان لیا جائے کہ 59میں سے 58میزائلوں نے ائربیس کو نشانہ بنایا اور وہ ہدف تک رسائی حاصل کرسکے تھے ۔

کیا افغانستان کی پہاڑوں پر مدربم گرانے اور شمالی کوریا کیخلاف دھمکیوں کا مقصد شام میں ناکام میزائل حملے کے شور کو دبانا تھا ؟اور اب جبکہ شمالی کوریا کیخلاف حملے کے شورکی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے تو اس کے پاس اگلا آپشن کیا ہوگا ؟کیا پھر سے کسی بحران زدہ غریب ملک کی پہاڑوں پر کوئی بم گرایا جائے گا جیسے یمن پر۔۔۔؟
افغانستان میں گرائے گئے بم کے بارے کہا گیا کہ وہ داعش کے ٹھکانوں پر گرایا گیا تھا جبکہ تمام تر شواہد بتارہے ہیں کہ یہ بم ان پہاڑوں کے اپر گرایا گیا تھا جن کے نزدیک طالبان عسکریت پسند موجود تھے ۔

امریکی ادارے جانتے ہیں کہ مشرق وسطی سے لیکر دیگر خطوں تک اب ان کے آگے دروازے اس طرح کھلے نہیں رہے کہ جب وہ چاہیں اپنے لشکر کے ساتھ داخل ہوجائیں وہ جانتے ہیں کہ ان کا پلان بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور امپریالزم اور سامراجیت کا خواب چکنا چور ہونے جارہا ہے اور وہ اسے بچانے کی بھی پوزیشن میں نہیں ۔
اس کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو سامراجی عزائم کو ترک کرے یا پھر ایک وسیع جنگ کے لئے تیار ہوجائے جس کے نتائج کے بارے کم ازکم اسے یقین ہے کہ اس کے حق میں نہیں نکلے گے ۔

 

تجزیہ وتحلیل۔۔۔حیدر قلی

یہ اللہ والے۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) غفلت کا علاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی ہے جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ شام میں جاری جنگ کے حوالے سے روس، ایران اور قطر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، معاہدے کی رو سے پہلے مرحلے میں فوعہ اور کفریا کے علاقوں سے 5 ہزار اور دہشت گردوں کے زیر قبضہ علاقے مادایا اور زبدانی سے 2200 افراد کا انخلا کیا جانا تھا، 15 اپریل 2017ء کو جنگ سے متاثرہ علاقوں سے انخلا کے لئے ہزاروں افراد دہشت گردوں کے محاصرے والے علاقے راشدین میں جمع تھے، کچھ لوگ اس علاقے سے نکلنے کے لئے بسوں پر سوار ہوچکے تھے اور کچھ ہو رہے تھے کہ اس دوران ایک خودکش دھماکہ کرکے ایک سو چھبیس کے لگ بھگ بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا گیا اور تقریباً اتنے ہی زخمی بھی ہوئے۔

مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی دہشت گردی عرصہ دراز سے جاری ہے۔ دہشت گردی کی تربیت دینے والے اور تربیت حاصل کرنے والے دونوں ہی چونکہ بہت زیادہ اللہ، اللہ اور اسلام اسلام کرتے ہیں، اس لئے عام لوگ بھی انہیں پکا مسلمان اور مجاہد ہی سمجھتے ہیں۔ ان اللہ والوں نے چن چن کر مسلمانوں کے ڈاکٹروں، ادباء، شعراء، بیوروکریٹس، پولیس اور فوج کے جوانوں، سکول کے بچوں، حتٰی کہ قوالوں اور نعت خوانوں کا بھی قتل عام کیا۔ انہوں نے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے مزارات، اولیائے کرام کے آستانوں اور قائد اعظم کی ریزیڈنسی کی بھی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ان کی تاریخ شاہد ہے کہ عراق، شام، افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان سمیت جہاں ان کا بس چلا انہوں نے عام مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا اور مسلمانوں کے مقدس اور محترم مقامات پر حملے کئے۔

اسلام دشمنوں نے، ان کے اللہ اللہ کے نعروں سے  خوب فائدہ اٹھا یا انہیں منہ مانگے فنڈز فراہم کئے اور ان کے نعرہ تکبیر اور انہی کی شمشیر کے ذریعے مسلمانوں کے گلے کٹوائے۔ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کے بعد اب انہیں ایک نئے انداز میں مسلمانوں کے قتل کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ نیا انداز پہلے سے بھی زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے، اس کی ایک مثال افغانستان کے دارالحکومت کابل کی ملاحظہ فرمائیں، جہاں دو سال پہلے ایک ستائیس سالہ، قرآن مجید کی حافظہ کو لوگوں کے ہجوم نے قرآن مجید کی شان میں گستاخی کا الزام لگا کر اتنا زدوکوب کیا کہ وہ مر گئی، اس کے بعد اس کی لاش کو آگ لگائی گئی، پولیس نے موقع پر موجود ہونے کے باوجود بے بسی کا اظہار کیا، پھر اسے دریا میں پھینکا گیا، جہاں سے بعد میں اس کی لاش نکالی گئی، اس کے تابوت کو خواتین نے کندھا دیا اور  پھر اسے دفن کیا گیا، قانونی کارروائی اور میڈیا کی تحقیقات نے گستاخی کے الزام کی تردید کی،  تحقیقات سے یہ ثابت ہوگیا کہ لڑکی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نمازی اور نیک و باحیا خاتون تھی اور اس پر گستاخی کا الزام بالکل جھوٹا تھا، لیکن جن کا مقصد ہی اسلام کو بدنام کرنا تھا، انہوں نے اپنا کام کیا اور بس۔۔۔۔

اس کے ٹھیک دو سال بعد بالکل وہی کہانی مردان یونیورسٹی میں بھی دہرائی گئی، جہاں ایک طالب علم کو نعوذ باللہ گستاخ رسول کہہ کر اتنا پیٹا گیا کہ وہ  ہلاک ہوگیا، کابل کی کہانی کی طرح پولیس یہاں بھی موجود تھی، لیکن بے بسی کی ایکٹنگ کرتی رہی، اس کی لاش کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ساتھ یہ افواہ بھی اڑائی گئی کہ یہ آدمی اتنا بد کردار تھا کہ اسے یونیورسٹی نے بھی نکلنے کا حکم دیا تھا۔ اب اس طالب علم کی کونسی بدکاری، یونیورسٹی کو پسند نہیں تھی، اس کے لئے آپ اس لنک پر موجود اس کا وہ انٹرویو دیکھ لیں، جو اس نے اپنے قتل سے صرف دو دن پہلے دیا تھا۔

یہ تھی اس کی بد کرداری جس کی  سزا اسے دی گئی، آپ اس کا انٹرویو سنیں تو آپ کو احساس ہو جائے گا کہ اس طرح کے آدمی پر جیب سے چرس برآمد ہونے کا الزام تو لگ نہیں سکتا تھا، لہذا اس پر گستاخی کا الزام لگا دیا گیا۔

انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ  وائس چانسلر تعینات کیوں نہیں کیا جا رہا، اس سے ہماری ڈگریاں متاثر ہو رہی ہیں اور کچھ پروفیسرز نے دو، دو اور تین تین عہدے سنبھال رکھے ہیں، ایسا کس قانون کے تحت ہو رہا ہے، اس کے علاوہ باقی سرکاری اداروں میں آٹھ دس ہزار پر سمیسٹر فیس بنتی ہے، یہاں پچیس ہزار تک کیوں لی جاتی ہے۔ اس نے ان مسائل کے حل کے لئے احتجاج کا فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد مجمع عام نے اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔ وہی اللہ اکبر کے نعرے جو شام میں خودکش لگاتے ہیں اور جو کابل میں قاتلوں کے ہجوم نے لگائے، وہی مردان کا ہجوم بھی لگا رہا تھا۔ ابھی مردان یونیورسٹی میں اللہ اکبر والوں کے ہجوم کی گونج باقی ہی تھی کہ لیاقت میڈیکل ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی جامشورو میں ایم بی بی ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورین لغاری کو  لاہور سے داعش کے ساتھ ہم کاری کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ اس گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب داعشی فکر مدارس کے بعد یونیورسٹیوں میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کر چکی ہے۔

اگر ہمارے سکیورٹی ادارے داعشی و طالبانی فکر کا مقابلہ کرنے میں مخلص ہیں تو انہیں یہ حقیقت سامنے رکھنی ہوگی کہ کسی بھی یونیورسٹی کے اسٹاف میں جب تک داعشی و طالبانی فکر موجود نہ ہو، اس وقت تک یونیورسٹی کے طلباء میں داعشی سرایت نہیں کر سکتے۔ عین اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو پنجاب یونیورسٹی لاہور بھی نعرہ تکبیر ۔۔۔ اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہی ہے۔۔۔ یعنی۔۔۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اسٹاف میں بھی اللہ والے اپنا کام کر رہے ہیں اور وہاں بھی کوئی مشعل گل ہونے کو ہے۔ اگر ہمارے حکام اور عوام، تعلیمی درسگاہوں میں ان گل ہوتی ہوئی مشعلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر یاد رکھئے! غفلت کاعلاج فقط بیداری ہے۔ بیداری کا تقاضا تجزیہ و تحلیل ہے اور تجزیہ و تحلیل کا نتیجہ سمجھداری ہے، سمجھداری بھی اسے نصیب ہوتی ہے، جو تحقیق اور تجزیہ و تحلیل کے دوران غیر جانبداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) مقتول بہت براتھا،  وہ ملحد، مشرک ، ناصبی اور بدبخت تھا،  اس پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے  روس سے سول انجئیرنگ کی تعلیم بھی حاصل کی تھی لہذا وہ کافر بھی تھا، اس کے ملحد ہونے ہونے کے لئے یہ بھی کافی ہے کہ وہ کسی دینی تنظیم کا ممبر بھی نہیں تھا،  الغرض وہ چرس پیتا تھا، نشہ کرتا تھا، شراب فروخت کرتا تھا۔۔۔ یہ  بھی اہم بات ہے کہ  مشال خان کے موبائل اورسوشل میڈیاسے کوئی  توہین آمیزموادبرآمدنہیں ہوا،[1] تاہم پھر بھی  آپ جو چاہیں اس کے بارے میں کہہ لیں۔

اب جنہوں نے اسے قتل کیا ہے ، ان کی اسلام دوستی، شرافت  اور ان کے مہذب ہونے کا اندازہ آپ اس کےقتل کی ویڈیو دیکھ کر خود سے لگا لیجئے!؟ ہر باشعور انسان جب اس ویڈیو کو دیکھتا ہے تو اسے خود بخود یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس  کے قاتل کتنے ، مہذب، اسلام پسند اور شریف  شہری ہیں۔

دوسری طرف سیکورٹی اداروں کی بے بسی اور بے حسی کو اپنی جگہ رہنے دیجئے ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ  اس ملک کی اہم  سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اس قتل کے بعد کسی ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔  عمران خان سمیت اکثر شخصیات نے صرف زبانی کلامی مذمت پر ہی اکتفا کیا ہے اور کسی نے مقتول کے جنازے میں شریک ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ،  مشال خان پر توہین مذہب کا الزام لگانے والوں نے ہاسٹل کے جس کمرے میں اسے گولی ماری اور تشدد کیا، اس کمرے کی دیوار پر مشال خان نے خود لکھ رکھا ہے کہ ’’اللہ سب سے بڑا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں‘‘۔[2]

اب قاتلوں کی اسلام پسندی اور منصف مزاجی کا اندازہ اس سے بھی  لگا لیجئے کہ  مشال کے قتل کے بعد اس  کی یونیورسٹی سے اس کی معطلی کا نوٹیفکیشن سامنے آ گیا۔ نوٹیفکیشن پر قتل کے دن کی ہی تاریخ لکھی ہے۔ تفتیش کاروں کیلئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسی نوٹیفکیشن نے طلبہ کو مشتعل کیا؟

 اگر مشال نے توہین کی تو تفتیش سے پہلے معطل کیسے کر دیا گیا؟  ایک دوسرا نوٹیفکیشن بھی اسی روز جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ مشال کو معطل نہیں کیا کیا گیا بلکہ  اس کے دو ساتھیوں کو معطل کیا گیا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ  مشال نے کچھ ماہ پہلے اپنے فیس بک اکائونٹ پر لکھا تھا کہ کسی نے اس کا جعلی فیس بک اکائونٹ بنا رکھا ہے۔ جعلی اکائونٹ سے گستاخانہ پوسٹ مشال کے قتل کے کئی گھنٹے بعد کی گئی۔ مشال زندہ ہی نہیں تھا تو اس کے جعلی اکائونٹ سے کس نے پوسٹ کی؟[3]

اگر قاتل اپنے دعووں میں سچے ہوتے تو تب بھی ان کے پاس  قانون کو  اپنے ہاتھ میں  لینے کا کوئی جواز نہیں تھا  اور قتل کی واردات کے بعد جعلی نوٹیفکیشنز کا جاری کروانا اور اس کے جعلی اکاونٹ سے گستاخانہ پوسٹس کا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ قاتل کتنے سچے اور اسلام پسند ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ حملہ آوروں میں یونیورسٹی کے اسٹاف کے لوگ بھی موجود تھے، اسٹاف کے لوگوں کا شامل ہونا اس بات کی واضح اور شفاف دلیل ہے کہ اس کے  قتل کا فیصلہ کہیں اور کیا گیا ہے۔[4]

تیسری اہم بات یہ ہے کہ  مشال کو کمرے میں دو گولیاں مار کر پھر گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور اس کے بعد مجمع عام نے اللہ اکبر کے نعرے لگاکر ثواب حاصل کیا۔  قاتل نے پہلے گولیاں ماریں اور پھر مجمع عام اس پر کود پڑا ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اتنے لوگوں کو پہلے سے ہی اس کام کے لئے  ذہنی طور پر تیار کیا گیاتھا۔ اتنے لوگوں کا لاش کو زدوکوب کرنا اور اس پر کودنا یہ بتا رہا ہے کہ یہ کسی  مشتعل شخص کی کارروائی نہیں بلکہ ایک پلاننگ کا نتیجہ ہے۔

اس طرح بلوہ عام میں لوگوں کا کسی شخص کو پیٹ پیٹ کر ماردینا اور قانونی اداروں کا اپنے آپ کو بے بس ظاہر کرنا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کے ہاتھوں سے بڑا ایک ہاتھ موجود ہے جو قانون کے ہاتھوں  پر بھی اپنی گرفت رکھتا ہے۔

وہ ہاتھ اتنا طاقتور ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے اس کی گرفت کے باعث بالکل بے بس ہیں، یوں تو یہ سب کو معلوم ہے اور ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں کس کے قبضہ گروپس ہیں اور کون شدت پسندوں کو پال رہاہے!؟

 دودھ بیچنے والے گامے سے لے کر ریڑھی لگانے والے جورے تک ،سب کو پتہ ہے کہ کون یونیورسٹیوں میں داعش اور طالبان کی فکر کو در آمد کر رہاہے، کس کے ہم فکر افراد یونیورسٹیوں کے سٹاف میں بیٹھ کر نہتے طالب علموں کا استحصال کرتے ہیں!؟  کون قانون کا لٹیرا ہے، کون دہشت گردوں کے لئے فنڈنگ کرتا ہے؟ کون ہے جو نعرہ تکبیر اور اللہ اکبر کے نعرے لگا کر قانون، مذہب اور  لوگوں کی جانوں سے کھیلتا ہے!؟ کون   طلبا   سے طاقت اور دھونس  کی زبان میں بات کرتا ہے، کون تعلیمی اداروں میں  کلنک کا ٹیکہ ہے۔۔۔ سب جانتے ہیں لیکن اگر نہیں پتہ تو ہمارے سیکورٹی اداروں کو نہیں پتہ۔

سیانے کہتے ہیں کہ  آپ ایک عدد گاجر لے کر اس کے دوٹکڑے کر لیں، ایک ٹکڑے کو پانی اور چینی کے شیرے  میں ڈال کر رکھ دیجئے اور دوسرے کو پانی اور نمک کے محلول میں رکھ دیجئے،  کچھ عرصے  کے بعد ایک ٹکڑا مربّے میں اور دوسرا اچار میں تبدیل ہو جائے گا ۔ گاجر ایک ہی تھی لیکن ماحول کا اختلاف اس کے ذائقے  اور تاثیر کو تبدیل کردے گا۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ  اپنی آئندہ نسلوں کو دہشت گردی سے پاک ، پاکستان ورثے میں دیں  اور اپنے  ملک کی  حقیقی معنوں میں حفاظت کریں تو ہمیں اپنی یونیورسٹیوں کے ماحول کو شدت پسندی سے پاک کرنا ہوگا اور یونیورسٹیوں کے اسٹاف میں موجود، طالبان اور داعش کی ہم فکر  کالی بھیڑوں کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کرنی ہوگی۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا ایک اور کامیاب پروگرام عرفان ولایت کنونشن ہر حوالے سے ایک مثالی پروگرام تھا جس میں تنظیمی معاملات کو طے کرنے کے ساتھ ساتھ عمومی پروگرامز بھی کئے گئے جشن مولود کعبہ امام متقیان کی شان میں منعقد ہونے والا جشن اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ولایت علی ؑپر کتنا گہرا ایمان رکھتی ہے عشق مرتضیٰ ؑ میں قصیدہ خوانی اور مقررین کے بیان تذکرہ امام متقیان کرتے رہے اور عاشقان مولا علی ؑ ولایت علی میں جھومتے رہے اور اپنی روح کی تسکین کرتے رہے ۔
    
شب شھداءبھی ایک اچھی سوچ کا حامل پروگرام تھا جس میں شھداءکے بچوں کی شرکت نے اس کو چار چاند لگا دئیے تھے اور ساتھ ہی ساتھ شھداءکی تصاویر کے آگے پھول پتیاں نچھاور کی گئیں چراغاں کیا گیا اور اس پروگرام کی اہم بات یہ تھی کہ متذکرہ شھداءمیں صرف ملت جعفریہ کے شہدا ہی کا تذکرہ نہیں کیا گیا بلکہ ہر اس پاکستانی شہیدکا ذکر تھا جس نے پاکستان کی عظمت حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اس میں شیعہ سنی کے ساتھ ساتھ پولیس آرمی اور دیگر سیکورٹی فورسز کے شہداءکی تصاویر کو بھی انتہا کی خوبصورتی کے ساتھ سجایا ہوا تھا ،یہ یقینا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اپنے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے ایک منفرد انداز تھا ۔

تنظیمی نشستوں میں تنظیمی کارکردگی رپوٹس پیش کی گئیں جن کو دیکھ کر اور سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ تمام تر سیاسی ومذہبی دباﺅ کے باوجود مجلس وحدت مسلمین پاکستان ہرآنے والے دن میں آگے کی طرف بڑھ رہی ہے اور اپنے عزم سے کبھی متزلزل نہیں ہو گی۔اور شیعہ حقوق کی جنگ لڑتی رہے گی اور آخر کار کامیابی اس کا مقدر بنے گی ۔

کم ترین وسائل اور بدترین دشمنی میں آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اخلاص سے جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے ،مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک کے اندر جو شیعہ سنی بھائی چارہ کی فضا قائم کی ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی ، دستوری  ترامیم بھی لائی گئیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے اندر یہ فکر موجود ہے کہ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر مناسب ترامیم کر کے آگے بڑھا جائے۔

یہاں رک کر میں پاکستان کی شیعہ برادری کو بالخصوص اور مظلومین پاکستان کو بالعموم دعوت دیتا ہوں کہ آئیے اور قوم سازی کی اس تحریک کا حصہ بنئیے اگر آپ ملک عزیز پاکستان اور پاکستان میں بسنے والی ملت جعفریہ اور مظلومین کی محرومیاں دور کرنا چاہتے ہیں تو آگے بڑھیں شخصیت پرستی کے بتوں کو توڑ کر نظریات کی خاطر میدان میں نکلنے والوں کا ساتھ دیں کیونکہ یہ بات جتنی جلدی آپ کو سمجھ آجائے اتنی ہی جلدی قوم فروشوں کو شکست دی جا سکتی ہے اور اہداف کے حصول کو جلدی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

امید ہے وہ افراد وہ ادارے وہ شخصیات جو ملت کی سربلندی اور عظمت چاہتے ہیں میرے اس پیغام پر غور کریں گے اور اپنی قومی جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ہاتھ مضبوط کریں گے ۔دوسری طرف پاکستان کے تمام اداروں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں ہم دہشت گرد نہیں ہیں ہم نے اپنے خون سے دہشت گردوں کو روکا ہے ۔ہم غدارِ وطن نہیں بلکہ میں نے ہمیشہ وطن کے غداروں کو بے نقاب کیا لہذآپ پاکستانی ادارے اس بات کا ادراج کریں اور ملت تشیع کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو روکیں یہی ملک وقوم کے لئے بہتر ہے ۔

علامہ راجہ ناصر عباس کی بے باک نڈر اور مخلص قیادت اس وطن عزیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گی ہمیں اور بھی شہادتیں دینی پڑی تو ہم دیں گے،ہماری تاریخ گواہ ہے نہ ماضی میں ہم کبھی میدان سے بھاگے اور نہ ہی آج راہ فرار اختیار کرنے والے ہیں۔

تنظیمی فعالیت میں تیزی کے لئے تجویز کئے گئے اقدامات یقینا قابل ستائش ہیں مضمون کی طوالت کے پیش نظر بہت ساری چیزوں کو چھوڑ رہا ہوں ،بس یہی کہوں گا کہ شیعہ علماءکااتنی بڑی تعداد میں علماءشیعہ کنونشن میں شریک ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ علماءکرام نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی قیادت پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ہے اور دشمنوں کے منفی پراپیگنڈے کسی کام کے نہیں ،آﺅ سونے اور لوہے کی پہچان کرو اپنے شعور کو کسوٹی بناﺅ پرکھنے کا انداز بدلو اور جو درد رکھتا ہے کچھ کرنا چاہتا ہے اس کا ساتھ دو میدان میں نکلو پاکستان میں اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے منظم ہو جاﺅ اپنا معاشی، معاشرتی ، سیاسی، اخلاقی ، مذہبی ، سماجی وروحانی کردار ادا کرکے یہ بات ثابت کردو کہ آپ واقعا پیروکاران محمد وآل محمد ہو ۔

آﺅ اس ملک کو محبت سے بھر دو نفرتوں کو دفن کردو آﺅ آج وقت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے اس سوال سے بچ جاﺅ کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ؟تا کہ مولا کے اس سوال سے بچ جاﺅ کہ تم نے میری سیرت پر کیسا عمل کیا ہے ؟تا کہ اے عزاداران امام حسینؑ اس سوال سے بچ جاﺅ کہ میری کربلا میں قربانی کے مقاصد کے حصول کے لئے تم نے کیا کیا؟۔

آﺅ آگے بڑھو اور بڑھتے چلے جاﺅ تاکہ تاکہ امام زمانہؑ کے ظہور کی راہیں ہموار ہو سکیں ۔

خدا وند متعال محمد وآل محمد واصحاب محمد کے صدقہ اور طفیل ہمیں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے(الہی آمین)

رہزنوں کا رہبروں سے رابطہ محفوظ ہے
لٹ گیا میرا وطن اور فیصلہ محفوظ ہے


تحریر۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی  

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree