وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت کی ضرورت اور اس کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شیعہ امامت  کے وجوب کو دلیل عقلی سے جبکہ اہل سنت اسےدلیل نقلی سے ثابت کرتے ہیں ۔ اہل سنت کے نزدیک اگرچہ منصب امامت پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت و جانشینی ہے لیکن  ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس بارے میں فیصلہ کرنا چا ہیے اور ایسے فرد کو امام  منتخب کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہو نیز معاشرے میں اسلامی احکام کو نافذ کر سکتا ہو  جیسا کہ ابن خلدون اس بارے میں لکھتے ہیں:{وقصاری امرالامامۃ انہا قضیۃ مصلحیۃ اجماعیۃ ولا تلحق با لعقائد}۱مسئلہ امامت کے بارے میں بطور خلاصہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ {اسلامی معاشرے کی }ضروریات کے مطابق اور اجماع مسلمین یا اجماع {ارباب حل و عقد }کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ عقائد کے ساتھ مربوط نہیں۔اس کے برعکس شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ الہیٰ قرار دیتا ہے ۔ امام پیغمبر اور نبی کی طرح خداوند متعال کی طرف سے معین ہوتا ہے۔ اسی لئے امام اور پیغمبر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ پیغمبر پر وحی ناز ل ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو وحی  الہیٰ ٰ پہنچاتا ہے لیکن امام پر وحی نازل نہیں ہوتی کیونکہ  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و وحی کا سلسلہ ختم ہوا ہے ۔یہاں ہم قرآن کریم ،احادیث معصومین علیہم السلا م اور عقلی دلائل سے استفادہ کرتے ہوئے امامت کی مختلف ذمہ داریوں کو بیان کریں گے۔

1۔امام فضائل اخلاقی کا عملی نمونہ
امام فضائل اخلاقی اور کمالات نفسانی کےلحاظ سے بلندمقام پرفائزہوتا ہے ۔وہ چمکتےہوئے سورج کے مانند ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور انسان انہیں کی وساطت سے انسانیت اور فلاح کےراستےکو پہچان سکتا ہے۔ لوگ انہیں نفس کی تربیت کرنے اورفضائل اخلاقی کسب کرنے نیزرذائل اخلاقی کودور کرنے کے لئے نمونہ قراد دے سکتے ہیں  ۔امام رضا علیہ السلامنےامام کی جوصفات بیان فرمائی ہیں ان میں سے بعض عبارت یہ ہیں ۔{الامام النار علی الیفاع،الحار لمن اصلی بہ ،والدلیل فی المہالک،من فارقہ فہالک}2۔ امام اس آگ کے مانند ہے جو کسی بلندی پر لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے روشن کی جائے۔امام ہلاکت خیز میدانوں میں صحیح راستہ بتانے والا ہے۔ جو اس سے الگ رہا  ہلاک ہوا ۔

حضرت علی علیہ السلا م بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کے نام خط میں لکھتے ہیں :{ الا و ان لکل ماموم اماما یہتدی بہ و یستضیئ بنور علمہ،الا و ان امامکم قد اکتفی من دنیاہ بطمریہ و من طعمہ بقرصیہ ، الا و انکم لا تقدرون علی ذلک و لکن اعینونی بورع و اجتہاد و عفہ و سداد}3۔یاد رکھو کہ ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ اقتداء کرتا ہے اور اسی کے نور علم سے کسب ضیا ء کرتا ہے ۔ تمہارے  امام نے تو اس دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور  دو روٹیوں پر گزارہ کیا ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ ایسا نہیں کر سکتے  لیکن کم از کم احتیاط ، کوشش ، عفت اور سلامت روی سے میری مددتو کرو۔

امام کے اس کلام میں سب سےزیادہ امامت کے اخلاقی و تربیتی پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ آپ ؑسعی وکوشش، عفت ،تقوی ،پرہیز گاری، قناعت و سادگی وغیرہ پر زیادہ زور دیتے ہیں کیونکہ عثمان بن حنیف کسی ایسی محفل میں شریک ہوا تھا جہاں ثروتمند لوگ جمع تھے اور اس محفل میں کوئی غریب شامل نہیں تھا ۔

2۔ معارف دینی کی تعلیم
 نبوت کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف کتاب و حکمت کی تعلیم ہے ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ يُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَ الحکْمَۃ}{نبی انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے } قرآن و حکمت کی تعلیم کا مرحلہ تلاوت قرآن اور وحی کے ابلاغ کے بعد کا ہے  ۔{ يَتْلُواْ عَلَيہْم}{ ان کےسامنے آیات کی تلاوت کرتا ہے} شریعت و وحی کا ابلاغ نبوت کےساتھ مختص ہے لیکن ختم نبوت کےساتھ معارف و احکام دین کی تعلیم ختم نہیں ہوتی ۔خاص طور پر مختلف سیاسی اور اجتماعی موانع کی وجہ سے مسلمان عصر رسالت میں  تمام معارف و احکام اسلامی سےآشنا  نہ ہو سکے ۔ علاوہ ازیں وحی پر مبنی ان آسمانی معارف و احکام کو لوگوں تک نہ پہنچانے کی صورت میں غرض نبوت وہدف وحی حاصل نہیں ہوگا  لہذا عقل و حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعدان علوم و حقائق کو کسی ایسے فرد کے حوالے کرے جو آپ ؐکےبعد مناسب مواقع پر لوگوں کو معارف و احکام اسلامی بیان کرے ۔اسی بنا  پر ائمہ اطہار علیہم السلام کی حدیثوں میں  ان کے راسخون فی العلم ہونےنیز قرآن کے تمام حقائق و معارف سے آشنا ہونے  پرزور دیا گیا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو علم کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ جیساکہ آپ ؐفرماتے ہیں :{انامدینۃ العلم و علی بابہا فمن اراد العلم فلیات الباب}4۔ میں علم کا شہر ہوں  اور علی اس کا دروازہ ہے  ۔پس جو شخص علم کا طالب ہو اسے دروازے سے داخل ہونا چاہیے۔
 
3۔ اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری
انسانی معاشرے میں ایک سیاسی نظام کی ضرورت  بدیہی امور میں سے ایک ہے ۔اسی لئے تاریخ بشریت  کی ابتداءسے لے کر اب تک ایسا کوئی انسانی معاشرہ پیدا نہیں ہو سکا جہاں ایک سیاسی نظام حاکم نہ ہو ۔البتہ تاریخ بشریت میں وجود میں آنے والے سیاسی نظاموں میں بہت سارے اختلافا ت موجود تھے ۔انسانی معاشرے میں سیاسی نظام قائم کرنے والے اکثر حاکموں نے ظلم و استبداد کی روش اختیار کی جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ حکومت کی ضرورتکے منکر ہوگئے  جنہیں{ Anarchist}}{حکومت مخالف عناصر} اور ان کے نظریہ کو { Anarchism}کہاجاتا ہے  ۔اسی طرح  تاریخ اسلام میں بھی بہت سے لوگوں نے حکومت  کی ضرورت کی مخالفت کی جیساکہ حکمیت کے مسئلے میں بہت سے لوگ فکری طورپر خطا کر گئے وہ حکم یعنی قانون ا ور حکم یعنی فرمانروا میں  اشتباہ  کرکئےاور اس آیت {لاحکم الا لله} سے استدلال کرتے ہوئےاصل حکمیت کے  ہی منکر ہوگئے اور اسے ناجائز قراردے کر  حضرت علی علیہ السلام اور باقی افراد کوکافر قراردینےلگے۔ اگرچہ ان حالات میں حکمیت کا مسئلہ عاقلانہ و مصلحت آمیز نہیں تھا۔اسی لئے حضرت علی علیہ السلام  اس کے سخت مخالف تھے لیکن  آپ ؑنے خوارج کے اصرار پر  مجبور ہوکر حکمیت کو قبول فرمایا البتہ اصل حکمیت عقل و وحی کے خلاف تو نہیں تھا ۔ آپ ؑنے مختلف مقامات پر خوارج کی غلطیوں کے بارے ارشاد فرمایا :جیساکہ{نعم لاحکم الا لله ، لکن ہولاء یقولون لا امرہ الا الله و لا بد للناس من امیر بر او فاجر} بے شک حکم صرف اللہ کا ہے لیکن ان لوگوں کا کہنا ہےکہ حکومت اور امارت بھی اللہ کے لئے ہے حالانکہ واضح سی بات ہے کہ نظام بشریت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہت ضروری ہے  چاہےنیک ہو یا فاسق ہو۔”یعنی اگرکوئی نیک و صالح امیر موجود نہ ہو اور معاشرے  میں ہرج و مرج کا خطرہ ہوتو لوگوں کو ناصالح امیر کی حکومت کو بھی قبول کرنا چاہیے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خوارج جو حکومت مخالف تھے جب حروراء نامی جگے پر پہنچے تو انہوں نے سب سے پہلا جو کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے حکومتی عہدوں کو  تقسیم کیا اور ہر  عہدے کے لئے الگ الگ مسئول مقرر کیا ۔

امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اسلامی  معاشرے کی سیاسی رہبری ہے جس پر تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے ۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و امان کا قیام،فتنوں اور شورشوں کی سرکوبی،دشمنوں سے جنگ ، حدود  الہیٰ  کانفاذ کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا وغیرہ امامت  کےمختلف سیاسی پہلو ہیں ۔5متکلمین کی طرف سےامامت کی جو مشہور تعریف بیان ہوئی ہے اس  میں بھی سیاسی  امامت مراد ہے ۔ مثلا یہ تعریف کہ  امامت سے مراد اسلامی معاشرے کےدینی اور دنیوی امور میں  لوگوں کی رہبر ی کرنا ہے {الامامۃ رئاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا}۔امام رضا علیہ السلام امامت کے بارےمیں فرماتے ہیں :{ان الامامۃ زمام الدین ، و نظام المسلمین، و صلاح الدنیا و عز المومنین ، ان الامامۃأس الاسلام النامی و فرعۃ السامی ، بالامام تمام الصلاۃ و الزکاۃ و الصیام و الحج و الجہاد و توفیر الفئ و الصدقات و امضاء الحدود و الاحکام و منع الثغور و الاطراف .الامام یحل حلال الله و یحرم حرام الله و یقیم حدود الله و یذب عن دین الله و یدعو الی سبیل ربہ بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و الحجۃ البالغۃ}6۔امامت زمام دین اور نظام مسلمین ہے اور اس میں امور دنیا کی درستی اور مومنین کی عزت ہے ۔امامت اسلام کی مضبوط بنیاد  اوراس کی بلند شاخ ہے۔امام ہی سےنماز،زکوۃ،روزہ،حج وجہاد کا مل ہوتےہیں ۔ وہی مال غنیمت کا مالک ،صدقات کا وارث ،حدود و احکام کا جاری کرنے والااور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا ہے ۔امام حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام قرار دیتاہے ۔وہ حدود  الہیٰ  کو قائم کرتا ہے اور دشمنوں کو دین خدا سے دور کرتا ہےنیز لوگوں کو دین خدا کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کےذریعے بلاتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے کامل حجت ہے ۔

مذکورہ مباحث سےواضح ہو تا ہے کہ امام کی ذمہ داری صرف  اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری اورمسلمانوں کے امور کو نمٹانانہیں  بلکہ  اسلامی معاشرے کےمعنوی اور دینی مصالح کی بجا آوری بھی اما م ہی  کی ذمہ داری میں شامل ہے۔مذکورہ بالا نکات پر شیعہ و سنی دونوں متفق ہیں ۔بعبارت دیگر کسی مذہب کے نزدیک بھی دین سیاست سے جدا نہیں ہے ۔شیعوں کے نزدیک سیاسی رہبری کا بہترین نمونہ اس وقت کامل ہو تا ہے جب امامت کے دوسرےپہلو بھی موجود ہوں۔ بنابریں  امام  وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ،ہادی او ر ان کا رہنما ہو جو مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالےنیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی وجہ سے معاشرے میں واقع ہونے والے شگاف کو بھی پر کرے۔پس ان عالی ترین مقاصد تک رسائی حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیات کےبغیر  حاصل نہیں ہو سکتی جنہیں  خداوند متعال نے جان ونفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قراردیا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف حدیث {من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ}7 {اگر کوئی وقت کےامام کی معرفت کےبغیرمر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے ۔} سےواضح ہوتا ہےکہ امامت صرف سیاسی جہت نہیں رکھتی کیونکہ معاشرےکے سیاسی رہبر کی عدم شناخت اور جاہلیت کی موت کے درمیان کوئی تلازم نہیں پایا جاتا ۔ اگر کوئی شخص کسی دور درازمقام پر زندگی گزار  رہا ہو  اور اسے اسلامی معاشرے کے سیاسی رہبر کے بارےمیں کوئی علم نہ ہو لیکن احکام دینی کو جانتا ہو اور وہ اس پر عمل کرتا ہو تواس شخص کے بارے میں ہر گز یہ نہیں کہاجا سکتا کہ یہ شخص جاہلیت کی موت مرے گا ۔ بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ایک ایسے مقام و منزلت پر فائز ہے جوہدایت و گمراہی اور ایمان و کفر کا معیار ہے ۔

4۔ باطنی ہدایت
امامت کے مختلف  مراتب میں سے ایک اس کا عرفانی اور معنوی پہلو بھی ہے ۔ امامت کا یہ مرتبہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مقام نبوت و رسالت  کے بعد ہی مقام امامت پرفائز ہوئے جیسا کہ ارشاد ہوتاہے :{ وَ إِذِ ابْتَلیَ إِبْرَاہیمَ رَبُّہُ بِکلَمَاتٍ فَأَتَمَّہُنّ ۔۔۔۔}8اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور اس نے انہیں پورا کر دیا تو خدا نے کہا: ہم تجھے لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔ البتہ مقام امامت کا مقام نبوت اورسالت سےبالاتر ہونےکا لازمہ یہ نہیں کہ امام کا مقام پیغمبر کےمقام سے بھی بالاتر ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص پیغمبر بھی  ہو اور امام بھی  ،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی بھی تھے اور امام بھی ۔اما م رضاعلیہ السلام ایک مفصل حدیث میں امامت کی حقیقت اور اس کے اہداف نیز امام کی خصوصیات اور مقام و منزلت بیان فرماتے ہیں : کیا لوگ امامت اورمقام امامت کی قدر کو پہچانتے ہیں ؟کیا ان کو اس کے متعلق اختیار دیا گیا ہے ؟امامت منزلت کے لحاظ سے بہت ہی بلند و برتر ہےاور شان کے اعتبار سے بھی بہت عظیم نیز ان کا  محل و مقام بھی بہت بلند ہے اور اپنی طرف غیر کے آنے سےبھی مانع ہے اور اس کا مفہوم بہت ہی گہرا ہے ۔لوگوں کی عقلیں اس تک پہنچ نہیں سکتیں اور ان کی راہیں اس کو پا نہیں سکتیں۔ وہ اپنے اختیار سے اپنے امام کو نہیں بنا سکتے ۔خداوند متعال نے ابراہیم خلیلؑ کو امامت سے سرفراز کیا۔نبوت اور خُلّت کے بعد امامت کا مرتبہ ہے ۔خدا نے ابراہیم کو اس کا شرف بخشا اور اس کا یوں ذکر کیا :{ إِنی ّ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا}میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوش ہوکر کہا:اورکیاتو میری اولاد کو بھی امام بنائےگا؟اللہ نے فرمایا:{ لَا يَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِين}ظالم لوگ میرے عہدکو نہ پا سکیں گے۔اس آیت نے قیامت تک ہر ظالم کی امامت کو باطل کر دیا  ۔امام  محمدباقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتےہیں :{لنور الامام فی قلوب المومنین انورمن الشمس المضیئۃ بالنہار}9مومنین کےدلوںمیں امام کا جو نورہے وہ نصف النہار کے سورج سےزیادہ روشن ہوتا ہے۔

نتیجہ بحث:
شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت کی ضرورت اور اس کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شیعہ امامت  کے وجوب کو دلیل عقلی سے جبکہ اہل سنت اسےدلیل نقلی سے ثابت کرتے ہیں ۔ اہل سنت کے نزدیک اگرچہ منصب امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت و جانشینی ہے لیکن ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے اور ایسے فرد کو امام  منتخب کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہو اس کے برعکس شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ  الہیٰ  قرار دیتا ہے۔

امام فضائل اخلاقی اور کمالات نفسانی کےلحاظ سے بلندمقام پرفائزہوتا ہے ۔وہ چمکتےہوئے سورج کے مانند ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور انسان انہیں کی وساطت سے انسانیت اور فلاح کےراستےکو پہچان سکتا ہے۔ لوگ انہیں  نفس کی تربیت کرنےاورفضائل اخلاقی کسب کرنے نیزرذائل اخلاقی کودور کرنے کے لئے نمونہ قراد دے سکتے ہیں  ۔ آیت اکمال، حدیث مدینۃ العلم اور وہ روایات جو حضرت علی علیہ السلام کےوسیع علم  پر  دلالت کرتی ہیں  اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ امامت کے پہلووٴں میں سے ایک مسلمانوں کو معارف و احکام  الہیٰ  کی تعلیم دینا ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام نے بعض معارف و احکام  الہیٰ  کو بیان فرمایا ہے اور بعض معارف و احکام  الہیٰ  کو دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کے سپرد کیا  ہے ۔ امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اسلامی  معاشرے  کی سیاسی رہبری ہے جس پر تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و امان کا قیام،فتنوں اور شورشوں کی سرکوبی،دشمنوں سے جنگ ، حدود  الہیٰ  کانفاذ کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا وغیرہ امامت  کےمختلف سیاسی پہلو ہیں ۔ بنابرین امام کی ذمہ داری صرف  اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری اورمسلمانوں کے امور کو نمٹانانہیں  بلکہ  اسلامی معاشرے کےمعنوی اور دینی مصالح کی بجا آوری بھی اما م ہی  کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ امامت کے مختلف   مراتب میں سے ایک اس کا عرفانی اور معنوی پہلو بھی ہے ۔ امامت کا یہ مرتبہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے۔ بنابریں امام کی باطنی ہدایت  ایصال الی الطریق نہیں ہوتی بلکہ ایصال الی المطلوب ہوتی ہے، یعنی  امام صرف راستہ نہیں دکھاتابلکہ  منزل تک پہنچاتا ہے ۔

حوالہ جات:
۱۔ اصول کافی ،ج1 ،ص 155۔ باب نادر فی جامع فضل الامام و صفاتہ۔
۲۔نہج البلاغہ، نامہ 45۔
3 ۔المستدرک،ج3،ص 127۔ البدایۃ و النہایۃ ،ج7،ص359۔
۴۔ شرح المواقف، ج8،ص346۔شرح المقاصد،ج5،ص233۔
۵۔ اصول کافی،ج1، کتاب الحجہ ،باب جامع فی فضل الامام۔
۶۔ شرح المقاصد ،ج5،ص 239۔شرح العقائد النسفیہ،ص110۔
۷۔ بقرۃ،144۔
۸۔ اصول کافی،ج1 ،کتاب الحجۃ،باب فی فضل الامام ،ص 154۔
۹۔اصول کافی ،ج ،کتاب الحجۃ ،ص 150،باب ان الائمۃ نور اللہ عزوجل ۔

تحریر۔۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی

دین تو بے چارہ ہے۔۔۔۔۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) اس دور میں دین  اسلام تو بے چارہ ہوگیا ہے، بعض لوگ تو دین کو ایک پرمٹ کے طور پر استعمال کرنے لگےہیں،  اب آپ دینی لبادے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، آپ اللہ اکبر کے نعرے لگا کر مسلمانوں کے گلے کاٹیں تو یہ بھی جہاد ہے، آپ اسلام کا نام لے کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کریں تو یہ بھی نیکی ہے ، آپ کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں اور آپ مبلغ اسلام کہلوائیں تو یہ بھی رواہے،  آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمانوں پر خود کش حملے کریں تو یہ بھی جہاد ہے۔۔۔

گزشتہ دنوں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال یا مشعل نامی طالب علم کو جس بے دردری اور لاقانونیت کے ساتھ قتل کیا گیا، اس لاقانونیت کے لئے بھی دین کا سہارا ڈھونڈا جا رہاہے۔ میڈیا رپورٹس اور  پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پہنچی تو مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔[1] یعنی اگر مقامی پولیس لاش کو اپنی تحویل میں نہ لیتی تو اس لاش کو جلا کر مزید ثواب  حاصل کرنے کا پروگرام بھی تھا۔

اس کے ساتھ ہی  اگر مقتول پر حملے کی ویڈیو دیکھی جائے تو اللہ اکبر کے نعرے بھی صاف سنائی دیتے ہیں۔ یعنی جو طریقہ داعش اور طالبان کا تھا وہی یہاں پر بھی نظر آرہاہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ داعش اور  طالبان کے تانے بانے مدرسوں سے ملائے جاتے تھے اور یہ سب کچھ ایک یونیورسٹی میں ہوا ہے۔

بس اب آپ یوں سمجھ لیجئے کہ  وہی دماغ جو طالبان اور داعش کے پیچھے فعالیت کررہاتھا اب یونیورسٹیوں میں بھی فعال ہو گیاہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مقتول توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے تو پھر بھی اسے سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یا عام لوگوں کی!؟

ایک عرصے سے ہم سنتے چلے آ رہے تھے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی قبضہ گروپس ہیں، ہاسٹلز میں کمروں پر قبضے کئے جاتے ہیں، خوف و ہراس پھیلایا جاتاہے، ہاسٹلوں میں دہشت گرد پناہ لیتے ہیں اور بڑی بڑی نامی گرامی دہشت گرد تنظیمیں یونیورسٹیوں میں طلبا کی برین واشنگ کررہی ہیں۔ وہ دعوے کتنے سچے تھے اس کا تو ہمیں کچھ علم نہیں لیکن اس حادثے کی ویڈوز دیکھنے کے بعد یہ حقیقت بالکل سمجھ میں آ رہی ہے کہ عدم برداشت اور خون خرابے کا جو طوفان  ہمارے بعض مخصوص مدارس سے اٹھا تھا اب اس نے ہماری یونیورسٹیوں کے اندر بھی اپنے وجود کا برملا اظہار کردیاہے۔

ہمارا قومی تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ عدم برداشت اور دینی لیبل کو استعمال کرنے کا یہ سلسلہ کبھی بھی دلیلوں اور مناظروں سے نہیں رک سکتا۔  ہمیں قومی و اجتماعی طور پر اس واقعے کو ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کے طور پر دیکھنے کے بجائے ، اپنی ملکی تاریخ میں متشدد تحریکوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔  ایسی تحریکیں جب شروع ہوتی ہیں تو ایک آدھ فرد سے ہی شروع ہوتی ہیں اور جب آگے بڑھتی ہیں تو ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

پاکستان میں جب فرقہ واریت کی تحریک شروع ہوئی تھی تو ایک مخصوص فرقے کے  دینی مدارس کے طالب علموں نے شروع کی تھی،  ان دنوں میں  صرف ایک ہی فرقے کے خلاف تقریریں کی جاتی تھیں اور اسی فرقے کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تھا۔ دیگر فرقوں کے لوگ اس مسئلے سےلاتعلق اور خاموش رہتے تھے، پھر یہ مسئلہ اتنا آگے بڑھا کہ پاک فوج کے جوانوں سے لے کر مارکیٹوں اور بازاروں سمیت سب کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور اب دہشت گردی کسی ایک فرقے کے بجائے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔

یہ واقع بھی بظاہر ایک یونیورسٹی کے  طالب علم کے قتل سے شروع ہوا ہے ، اس پر یونیورسٹیز اور کالجز کے سنجیدہ حلقوں کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اس کی جڑیں  کہاں ملتی ہیں!؟

کوئی چاہے یونیورسٹی سے تعلق رکھتا ہو یا دینی مدرسے سے، ہم سب کے سامنے حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ کی ذات گرامی بطور نمونہ عمل موجود ہے۔ آپ زندگی کے تمام پہلووں میں ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور خداوند عالم نے بھی آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

ختمِ نبوت ﷺ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان آپ ؐ کی سیرت طیبہ کو نمونہ عمل سمجھ کر اس پر عمل کریں۔

حضورﷺ نے اپنی حیات طیّبہ میں حسنِ اخلاق، عفو و درگزر، حلم اور معافی کی لافانی مثالیں قائم کی ہیں ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ کے سامنے ان گستاخوں کو بھی لایا گیا کہ جن میں سے کسی نے آپؐ کے چچا  حضرت حمزہؓ کے سینے میں نیزہ مارا تھا اور کسی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا اور کسی نے ان کا جگر چبایاتھا۔ سرور دوعالم ﷺ نے ان سارے گستاخوں کو معاف کر کے پورے عالم بشریت میں احسان و نیکی کی ایک لازوال مثال قائم کی۔

حضورﷺ نے  میدان جنگ میں لڑنے والوں اور جنگی قیدیوں کے لئے بھی آداب و اخلاق مقرر کئے اور آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی شرائط مقرر کیں۔

لیکن آج لوگوں کے سامنے عفو و درگزر اور بخشش و احسان کو  فلٹر کر ایک مخصوص اسلام کو  پیش کیا جارہاہے۔  یونیورسٹیوں میں مذہبی قتل و غارت یقینا ایک افسوسناک المیہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ  یونیورسٹیوں میں بھی ختم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو بطور نمونہ عمل پیش کیا جائے۔تمام سیاسی،رفاہی اوردینی جماعتوں  و  شخصیات کو لاتعلق رہنے کے بجائے اس مسئلے پر اپنا موقف پیش کرنا چاہیے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے یونیورسٹیز کے طالب علموں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

حکومت کو چاہیے کہ  تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر یونیورسٹیوں سے قبضہ گروپس اور متشدد سوچ کا خاتمہ کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیاجائے ، چونکہ   یہ ایک منطقی بات ہے کہ کسی بھی ملک میں اس وقت لاقانونیت کو فروغ ملتا ہے جب لوگوں کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اٹھ جاتاہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ لاقانونیت کو جڑوں سے اکھاڑیں، اسی میں پاکستان اور اسلام کی بھلائی ہے۔

 

 

نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) سرگودھا کے نواحی چک95شمالی کے مقام پر، ایک پیر صاحب کے آستانے پر، بیس آدمی موت کے گھاٹ اتر گئے، قاتل کا تعلق طالبان سے نہیں تھا، نہ ہی قتل کرنے والا کسی کالعدم تنظیم کا سرپرست یا ممبر تھا، بلکہ  اس مرتبہ قاتل تو الیکشن کمیشن  کا افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی بابا   اور ایک درگاہ کا متولی بھی تھا۔ یعنی ایک قاتل میں کئی خوبیاں تھیں، نام اس کا تھا عبدالوحید اور کام اس کا لوگوں کے گناہ جھاڑنا تھا،  لوگ اپنے گناہوں کو بخشوانے کے لئے پیر صاحب کے پاس آتے تھے  اور پیر صاحب  ڈنڈے مار مار کر ان کے گناہ جھاڑتے تھے، لیکن اس مرتبہ شاید پیر صاحب کچھ زیادہ ہی جلا ل میں تھے، انہوں نے گناہوں کے ساتھ ساتھ بندے بھی جھاڑ دئے۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر  لوگ بہت سارے گناہوں کو گناہ سمجھتے ہی نہیں ، پھر نجانے یہ لوگ کون سے گناہ بخشوانے گئے ہونگے۔ مثلا ٹیکس چوری، بجلی چوری ، پانی چوری اور جنگلات سے لکڑی چوری وغیرہ کو عام طور پر گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ، اسی طرح اسی طرح کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ، کم تولنے ، بیوی بچوں بچوں کے ساتھ بد اخلاقی، ہمسائے کو اذیت اور جھوٹی قسم وغیرہ کو بھی گناہ نہیں سمجھا جاتا اور اگر ان کاموں کو کوئی گناہ سمجھے بھی تو انہیں بخشوانے کی فکر بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔

یہ بیس آدمی اپنے گناہوں کو بخشواتے ہوئے اپنی جانیں تو گنوا بیٹھے تاہم ایک پیغام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی چھوڑ گئے ہیں کہ اس سلسلے میں بھی تحقیق کی جانی چاہیے کہ وہ کونسے گناہ تھے جو لوگ پیر صاحب سے بخشوانے کے لئے آیا کرتے تھے۔ ممکن ہے اگر اس زاویے سے تفتیش کی جائے تو مزید کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آئیں۔

اس واردات کے بعد خود پاکستان کے روحانی مشائخ اور سجادہ نشین حضرات کی طرف سے بھی کوئی مشترکہ بیانیہ  آنا چاہیے تھا لیکن ممکن ہے ان میں سے بعض کے نزدیک ایسے موقع پر کوئی ردعمل دکھانا اور بیانیہ دینا بھی گناہ ہو!۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ذکر آیا  ہے تو عرض کرتا چلوں کہ  گزشتہ  روز  سیالکوٹ کے نواحی علاقے رنگ پورہ میں بھی ایک عجیب واردات ہوئی ہے۔اس میں بھی تحریک طالبان سمیت کسی کالعدم تنظیم  کا کوئی ہاتھ نہیں، واقعہ کچھ یوں ہے کہ چندا نامی شخص شامی کباب کی ریڑھی لگاتا تھا، اس نے ریڑھی کی کمائی سے کچھ سیٹھ  قسم کے لوگوں  سے ایک دکان خریدی اور پھر اسی میں کباب بیچنے شروع کئے، سیٹھ برادران نے ستر لاکھ روپے وصول کرکے بھی رجسٹری اس کے نام نہیں کی اور کچھ دن پہلے انہوں نے وہی دکان کسی اور کو آگے بیچ دی ،  اور پھر گزشتہ روز دکان کا قبضہ لینے چلے گئے۔ دکان پر جھگڑا ہوا اورچندا نے حملہ آوروں پر گولی چلائی  ، گولی لگنے سےموقع پر ہی ایک آدمی ہلاک ہو گیا،  اس کے بعد  سیٹھ لوگوں نے اسے کو پکڑ کر مارنا شروع کردیا اور پھر کھمبے سے باندھ کر اتنا مارا کہ اس کی ریڑھ اور بازو کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں اور سر پر لوہے کے راڈ لگنے سے مغز بھی باہر آگیا۔

یہ سب کچھ دن دیہاڑے ہوا اور اس میں تقریبا ایک گھنٹہ لگا، اس ایک گھنٹے میں کسی قانون کے محافظ نے ادھر پر نہیں مارا ، کوئی پولیس کی گاڑی بھول کر بھی ادھر سے نہیں گزری اور شہریوں کی سلامتی سے متعلق کسی حساس ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

خیر پولیس اور خفیہ اداروں سے تو ہمیں شکایت رہتی ہی ہے لیکن مجھے تعجب ہوا ان لوگوں پر جو اس سارے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے لیکن کسی نے بھی   آگے بڑھ کر اس وحشتناک کارروائی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔

یہ اکیسویں صدی کا واقعہ ہے کہ جب شہر اقبالؒ کے نزدیک  ، کسی انسان کو  سرعام  ایک  جانور کی طرح باندھ کر، ڈنڈوں اور پتھروں کے ساتھ مارا گیا لیکن  قانون کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی، مساجد کے سپیکروں سے کافر کافر کے نعرے لگانے والے ، کسی نہتے مسلمان کی مدد کو نہیں پہنچے،  صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والے اور اپنے آپ کو مصلح اعظم کہلوانے والے اس آزمائش کے وقت کہیں دکھائی نہیں دئیے،  دفاع حرمین الشریفین کیلئے مرمٹنے کی باتیں کرنے والے اپنی ہی سرزمین پر ایک کلمہ گو مسلمان کا دفاع نہیں کر سکے، سارادن مسجدوں سے اذانیں دینے  اور نماز پڑھنے اور پڑھانے والے مرد مومن ،  ایک انسان کو اس طرح درندگی کا نشانہ بننے سے نہ بچا سکے۔

سوال یہ ہے کہ  اگر ایسا ہی سلوک ،کسی عورت کے ساتھ کیا جاتا تو کیا پھر بھی ہمارا معاشرہ  اسی طرح تماشائی بنا رہتا!؟

کیا اگر یہی سلوک کسی کالعدم تنظیم کے کسی ممبر کے ساتھ کیا جاتا تو کیا پھر بھی  اس کے پیٹی بھائی حرکت میں نہ آتے!؟

کیا اگر ریڑھی بان کے بجائے ، کسی سیٹھ ، زردار یا وڈیرے کے ساتھ یہی کچھ کیا جاتا تو پھر بھی پولیس موقع پر نہ پہنچتی!؟

عجیب بے حس لوگ ہیں ہم کہ اگر کہیں پر کوئی جعلی پیر بیس آدمیوں کو قتل کر دے یا  پھرکہیں پر بیس آدمی مل کر کسی ایک آدمی کو درندگی کا نشانہ بنادیں، توہم لوگ وقت پر کوئی ردعمل نہیں دکھاتے، اور اسی ہمارے رد عمل نہ دکھانے کی وجہ سے ہی ہم پربرے لوگوں کا تسلط ہے۔ ظالم کو دیکھ کر  ہم جیسے خاموش رہنے والے لوگ پھر کوچہ و بازار میں یہ   گلے بھی کرتے ہیں کہ  کہیں پر ہماری شنوائی نہیں ہوتی اور کہیں سے ہمیں انصاف نہیں ملتا!۔  لگتا ہے کہ ہم بھول گئے ہیں کہ  اس دنیا میں جو بولتا ہے اسی کی شنوائی ہوتی ہے اور جو جدوجہد کرتا اور قربانی دیتا ہے اسی کو انصاف ملتا ہے۔

ہم لوگ  عدل و  انصاف کے تو متمنی ہیں  لیکن ظلم کے خلاف ردعمل نہیں دکھاتے، ہم انسانی مساوات کے تو نعرے لگاتے ہیں لیکن انسانی زندگی کی قدروقیمت کے قائل نہیں ہیں، ہم کافروں کو مارنے کے تو شوقین ہیں لیکن مسلمانوں میں صلح وصفائی  سے بے فکر ہیں، ہم دنیا بھر کی اصلاح پر تو کمر باندھے ہوئے ہیں لیکن اپنے گھر اور محلے کی اصلاح سے غافل ہیں ۔

شاید ہم میں سے  کچھ کے نزدیک ، پانی چوری، بجلی چوری اور ٹیکس چوری کی طرح ظلم  کو ہوتا دیکھ کر خاموش ہوجانا بھی کوئی  گناہ نہیں ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ بےشمار احادیث  ایسی ہیں جن میں  حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی  کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے ۔سیوطی آیت کریمہ {وَلَتَعْرِفَنَّ ہُمْ فیِ لَحْن ِالْقَوْل} {اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے}کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ :آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے ۔ اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے :{ما کنا نعرف المنافقین علی عہد رسول الله{ص}الا ببغضہم علی ابن ابی طالب{ع}} پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتےتھے ۔نسائی {متوفی 303ھ}نے خصائص امیر المومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرادیا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین حدیثیں نقل کرتےہیں جن میں آپ ؐفرماتے ہیں :امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا {اسی طرح}منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے ۔

خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں جن کے مضامین اس طرح  کے ہیں:

1۔ {انی افترضت محبۃ علی ابن ابی طالب علی خلقی عامۃ}حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے ۔

2۔ {لواجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار} اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلامکی محبت پر متفق ہو جاتےتو خدا وند جہنم کو خلق نہ کرتا ۔

3۔اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلامکی اس عمر  کے برابر{جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری}عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفاو مروہ کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن {حضرت}علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔

4۔{من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی}جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا  اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے ۔

5۔{ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء} ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے ۔

6۔{من زعم انہ امن بی و بما جئت بہ و هو یبغض علیا فی و کاذب لیس بمومن}جوشخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان  رکھتا ہومگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی رکھتاہوتو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے ۔

 اسی طرح شبلنجی شافعی  نےنور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیاہے :

1۔مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے :{والذی فلق الحبۃ و برا النسمۃ انہ لعہد النبی الامی بانہ لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق}خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کےسوا کوئی مجھ سےبغض نہیں کرتا ۔

2۔ترمذی ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں :{کنا نعرف المنافقین ببغضہم علیا} ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بے شمارحدیثیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔لہذامذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھےگرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت  رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کونفاق کا معیار سمجھا گیا ۔ اس صورت حال میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیر المومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ ونمونہ قرار دیتے  تھے۔

گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےنزدیک آپ  سب سے زیادہ عزیز تھے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی ۔ ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں ۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہوجاتاہے ۔ کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قرار دیا گیا ہے حالانکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لہذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط وخصوصیات کا حامل ہونا چاہیے ۔

محمدبن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:ابوبکر ،عمر، عثمان ،طلحہ اور زبیر ۔ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی اس کے بعد کہا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کےمانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نےاپنےباپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کےبارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے جواب دیا :ابو بکر ،عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتےہیں ۔عبد اللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا  سکتا ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں  پر برتری رکھتاہے ۔{ ان زوجک خیر امتی اقدمہ اسلاما و اکثرہم علما و افضلہم حلما} اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ  ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔

جابر بن عبد اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:{ انہ اولکم ایمانا معی ، واوفاکم بعہد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیۃ و اقسمکم بالسویۃ و اعظمکم عند الله فریۃ}حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتاہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے ۔جابر اس کے بعد کہتےہیں کہ آیت شریفہ{إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئکَ ہُمْ خَيرْ الْبرَيَّۃ}حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قد جاءخیر البریۃ}  اس  سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں لیکن یہاںسب کو بیان نہیں کر سکتے ۔

خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتےتھے وہی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سےحضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاہر کر دیتے تھے اسی بنا پر اس زمانے میں  ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ہو اتھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ  شیعہٴ علی علیہ السلام کے نام سے پہچاناجاتا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتےرہتےتھے اور انہیں قیامت کے دن کامیاب وکامران ہونے کی بشارت دیتے تھے۔

حوالہ جات:
  ۱۔ محمد،30
  ۲۔الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
۳۔  الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
  ۴۔خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
۵۔  المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
۶۔  نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
۷۔  الریاض النضرۃ  ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔
  ۸۔آل عمران 61۔
  ۹۔البیہقی ،المحاسن ج1 ص 39،الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1 ،ص 574۔
۱۰۔  طبقات الحنابلۃ ،ج2 ،ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1،ص 575۔
  ۱۱۔خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
  ۱۲۔خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
  ۱۳۔خطیب خوارزمی ،المناقب حدیث 120 ،ص 111 – 112۔


تحریر ۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

تنگ نظری

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروںکی کمیوں پرنظررکھتاہے،اسے اپناعیب نظرنہیںآتا۔ہمارے مسلم معاشرے میں یہ مرض کچھ زیادہ ہی سرایت کرگیاہے اس لیے ہم دوسروں کے ردعمل پرچیخ پڑتے ہیںاوراحتجاج اورمظاہرے کرکے پورے دنیاکویہ بتادیتے ہیں کہ مسلمان واقعی بڑابے صبرا،کمزوراوربے شعورہے ۔دینِ اسلام کو پھیلانے کے لیے کتنی قربانیاں دی گئیں حضرت اما م حسین علیہ اسلام نے اپنا سر سجدے میں قلم کروا کر جس دینِ اسلام کی شان کو بچایا کیا لاج رکھی ہے جا رہی ہے آج اس اسلام کی میں یہ کہنا چاہوں گا آج کے مسلمانوں کو کہیں فرقوں میں بٹے ہو کہیں ذاتوں کا رونا ہے باعثِ شرم میرے لیے تمہارا مسلمان ہونا ہے ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے انسان ہو کر انسانیت کا کوئی خیال نہیں ہے اور مسلمان ہو کر مسلمان ہونے کا خیال نہیں ہے کیا بدلاو لاو گے تم دھرنا دے کر ؟ کیا حاصل کرنا چاہتے ہو ؟ آزادی ؟مجھے ان مسلمانوں سے کوئی شکوہ نہیں ہے جو آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں مجھے تو ان مسلمانوں سے شکوہ ہے جو آزاد ہو کر بھی غلام ہیں میرا ایک سوال ہے آج کے مسلمانوں سے ؟ہم زندہ قوم ہیں باہندہ قوم ہیں کیا یہ ترانہ سننے کا حق ہے تمہیں ؟ کیا تم زندہ باہندہ قوم ہو؟جاگو مسلمانو جاگو جاگنے کا مطلب نیند سے جاگنا نہیں ہے اپنے ایمان کو جگاو اپنے اسلام کو جگاو اپنے دلوں میں قرآن کو جگاو ایک سچا مسلمان بن کر دکھاو پھر دھرنا دو کے ہمیں اسلام کے قوانین کے تحت نیک اور ایماندار حکمران چاہیے پھر دیکھو بدلتی ہے کے نہیں اس ملک کی تقدیر بدلتے ہیں کے نہیں تمہارے حالات چپ چاپ تماشہ دیکھنے والوں میں سے رہو گے تو ایک دن تم بھی تماشہ بن کے رہ جاو گے دشمنوں کو کہاں ڈھونڈتے ہو سر حد پار ؟دشمن تو تم خود ہو اپنے آج مسلمان ہی مسلمان کا قاتل ہے یہ تمہارے اعمال کی سیاست ہے جو حکمران تمہارے ساتھ کر رہے ہیںاگر یعی حال رہا مسلمانو تو یاد رکھنا تم جلد ہی اپنے وجود کو مٹا دو گے بدلاو لانا ہے تو پہل اپنے آپ سے کرو پہلے خود کو بدلو پھر دوسروں میں بدلاو لانے کی کوشش کرو ، لیکن آزادی خواب ہے اس بہن کی جس کے بھائیوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا۔ یہ خواب ہے اس باپ کا، جس کے بڑھاپے کے سہارے کو کِر پانوں نے چیر ڈالا۔ یہ خواب ہے اس ماں کا، جس کی مامتا کو بٹوارے کی آڑ میں بانٹ دیا گیا۔ یہ خواب ہے یہ خواب ایک سچے مسلمان بیٹے عتیق اسلم کا بھی ہے کہ فلسطین،شام ،کشمیر،انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کو آزادی ملنی چاہیے یہ خواب ہے اس بچے کا ،جس کی غلیل نے انگریزی جہازوں پر شستیں باندھی تھیں۔ یہ خواب ہے اس بچی کا، جو گڑیوں کی شادی میں انگریزی ٹائی والے گڈے نکا ل باہر کرتی ہے۔ یہ خواب ہے اس بخت نامہ کا جو آخری ہچکی سے پہلے اپنے لہو سے آزادی کا لفظ مکمل کر تی ہے۔کہ آج نام نہاد ترقی یافتہ، مذہب کو بنیاد پرستی کے نعروں میں گم کرنے والے خود صلاح الدین کی قبر کو ٹھو کر یں مار مار کر غیرتِ مسلمان کو للکارتے ہیں، اور مسلمان کرے تو کیا کرے، ہاتھ پرہاتھ دھرے آسمان کی وسعتوں سے ابابیلوں کا منتظر ہے۔تو کوئی طوفاں ہی آیا کر تا ہے کہ جب ہر ملک دوسرے ملک کو یہ تلقین کر تا ہے۔

 امریکہ جو بڑے بڑے دعوئے حقوق انسانیت پر کرتا ہے آج شام میں وہ جو کر رہا ہے پوری دنیا کو معوم ہے تو کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں سرزمین فلسطین ،شام ،کشمیر پر ظالم اور سفاک یہودیوں ،کافروںکا قبضہ اس عالمی سازش کا ایک حصہ ہے جوروز ازل سے مسلمانوں کے خلاف جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام میں مغربی استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ ان کی روایتی مسلمان اور اسلام دشمنی کا عکاسی کرتا ہے۔سرزمین فلسطین پر یہودی آبادیاں تعمیر کر کے جس طرح فلسطین کے مقامی باشندوں اور یہودی مہاجرین کے توازن کو بگاڑا گیا اس نے عربوں میں پھوٹ ڈال کر نہ صرف ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا بلکہ نئے معاشی واقتصادی حربوں کے ذریعے انہیں ایسا قلاش اور مفلوک الحال بنا دیاکہ اپنی اراضی یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے۔اور اس طرح ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت پر بھی کاری ضرب لگی اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اگر مسلمان اسی وقت ایک ہو جاتے اوریہ تہیہ کر لیتے کہ ان مٹھی بھر یہودیوں کا سر کچلنا ہے تو آج یقینا حالات مختلف ہوتے۔ لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے اور متحد ہونے کے بجائے باہم دست و گریبان رہے۔ یہ جوبھی دینا میں ہو رہا ہے ایک تنگ نظریہ ہے جو انسان کو انسا ن سے لڑوا رہا ہے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا اس سے ذیادہ امریکہ شام میں کر رہا ہے ۔

جہاں تک فلسطین ،شام کے معاملے میں پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ پاکستان دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو امت مسلمہ کی قیادت کا شرف حاصل ہے اور ہمارے حکمرانوں کو بغیر کسی خوف و خطر اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین رکھتے ہوئے امت مسلمہ کا یکجا کرنا ہوگا۔ بلکہ اس کی قیادت کرنا ہو گی اوریقینا ہمیں عالمِ اسلام کی پاکستان سے وابستہ امیدوں کا بھرم رکھنا ہو گا۔

 

 

تحریر۔۔۔محمد عتیق اسلم رانا

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب کوئی فوجی اتحاد بنتا ہے تو وہ کسی مشترکہ دشمن کے خلاف بنتا ہے. قوم کو بتایا جائے کہ یہ اتحاد کس کے خلاف ہے.؟
1- یہ اتحاد پہلے تو اتحاد ہی نہیں کیونکہ اتحادی نہ اکٹھے ہوئے اور نہ ہی مشترکہ دشمن کا تعین کیا۔

2- عموما مسلمانوں کا علی الاعلان دشمن اسرائیل تھا اب تو وہ بھی سب کا دشمن نہیں رھا کیونکہ بہت سے عرب ممالک جن میں سعودیہ سر فہرست ہے اسرائیل کو اپنا دشمن نہیں مانتے بلکہ بہترین دوست اور پارٹنر مانتے ہیں .تو پھر اس کے خلاف تو یہ اتحاد نہ بنا۔

3- انڈیا بھی ہمارے نزدیک دشمن ہے اسکی فوجی مداخلت سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا .اور کشمیر میں تقسیم ہند کے وقت سے فوجیں اتار کر بیگناہ ہمارے بھائیوں کو قتل کر رھا ہے اور طاقت کے ذریعے قابض ہے. لیکن عربوں اور دیگر اتحاد میں شامل ممالک کا انڈیا گہرا دوست بھی ہے. اس لئے یہ اتحاد انڈیا کے خلاف بھی نہیں۔

4- کہتے ہیں کہ یہ دہشتگردی کے خلاف ہے۔اگر خطے کے حالات کا جائزہ لیں تو گذشتہ 2011 سے خطے میں دو بلاکوں کے مابین جنگ جاری ہے. ایک طرف امریکی بلاک ہے اور دوسری طرف مقاومت کا بلاک.
اب دھشت گرد کون ؟
ہر بلاک دوسرے کو دھشتگرد کہتا ہے۔

امریکی بلاک : ایک طرف امریکہ ، فرانس ، اسرائیل ، ترکی ، سعودی عرب ، قطر ، امارات پوری طاقت کے ساتھ پیسے ، جدید ترین اسلحہ ، انٹیلیجنس معلومات اور ٹریننگ مختلف مسلحہ گروہوں کو فراہم کر رہے ہیں. جن میں النصرۃ فرنٹ ، القاعدہ اور داعش سر فہرست ہیں. اور انکے روابط کسی سے پوشیدہ نہیں . بلکہ بنانے والے خود بھی ان تعلقات کا اعتراف کر چکے ہیں. ان تکفیری مسلح گروہوں کو سعودی عرب اور اسکے اتحادی دشمن نہیں سمجھتے بلکہ جہاں پر بھی قابض ہوئے وہ علاقہ ان مسلح گروہوں کے حوالے کیا. جیسے لیبیا میں قذافی حکومت گرا کر اب انہیں وھاں مضبوط کر دیا گیا ہے . یمن میں بھی جو علاقے سعودیہ اور اسکے اتحادیوں کی بمبارمنٹ سے خالی ھوئے وھاں پر یہی گروہ مسلط ہوئے. اور اسی طرح باقی ممالک میں بھی. تو ثابت ہوا کہ یہ فوجی اتحاد ان تکفیری مسلح گروہوں کے خلاف بھی نہیں بن رہا۔

5- مقاومت کا بلاک : انکے مد مقابل اس مسلط کردہ جنگ میں اپنا دفاع کرنے والے ممالک اور انکے اتحادی ہیں. جن میں شام ، عراق ، ایران ، حزب اللہ ، انصار اللہ ، حشد الشعبی ، روس اور چین ہیں۔

عقل ومنطق اور تازہ ترین صورتحال تو یہی کہتی ہے کہ یہ اتحاد تکفیری مسلح گروہوں کے عراق و شام سے قدم اکھڑ جانے اور پے در پے شکست کھانے کے بعد بنایا جا رھا ہے. اس کا ہدف انھیں زندہ رکھنا اور جن قوتوں کے خلاف یہ لڑ رھے تھے انکے خلاف جنگ کرنا ہی ہو سکتا ہے ۔

یا تو یہ اتحادی سب کے خلاف علی الاعلان لڑیں گے یا ان میں تقسيم کی پالیسی اختیار کی جائے گی.اور بعض کے خلاف جنگ لڑی جائے گی. اب ہر پاکستانی اپنی حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا یہ مقاومت کا بلاک ہمارا دشمن ہے.؟ یا اس بلاک کے اندر ہماری دشمن قوتیں شامل ہیں ؟ اگر کوئی ہے تو وہ کون ہے.؟ کیا وہ شام ہے یا عراق، ایران ہے یا حزب اللہ ، یا انصار اللہ یا یمن ، یا روس ہے یا چین.؟ ہمارے حکمرانوں کو اسے پاکستانی عوام کے سامنے واضح کرنا ہو گا. البتہ دوسرا بلاک (امریکی بلاک ) پاکستان کے دوست نما دشمنوں سے بھر پڑا ہے. جس میں امریکہ ہے جو پاکستان میں ڈرون حملے کرتا ہے. پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے. وغیرہ وغیرہ ۔

اسرائیل ہے جسے پاکستان تسلیم ہی نہیں کرتا اور نہ ان سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں. جو ہمیشہ سے اس گھات میں ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر عراق اور سوڈان کی طرز کا حملہ کر دے۔

اس بلاک کی سرپرستی میں وہ مسلح تکفیری گروہ ہیں جو پاکستان کے خلاف جہاد کے فتوے دے چکے ہیں. جن کا قلع قمع کرنے کے لئے ہم نے ضرب عضب اور رد الفساد جیسی عسکری کارروائیوں کا اعلان کیا. کیا ہم پاکستان میں ان سے لڑیں گے اور بیرون ملک انکی تقویت کریں گے۔

اور کیا اس اتحاد کا بانی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی پاکستان میں دہشگردی کرنے والے مدارس ، شخصیات ، مراکز اور تنظیموں کی مدد اور پاکستانی امور میں مداخلت کسی سے پوشیدہ ہے. کیا گوادر پورٹ کو یہ ہضم کر پائیں گے یا اس اقتصادی ترقی کی امید کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کریں گے ؟

براہ کرم اس فاسٹ میڈیا کے دور میں پاکستان عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش نہ کی جائے اور اس حساس فیصلے پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور تمام شکوک وشبہات کی وضاحت کی جائے اور اسے مذھنی رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی مخصوص سوچ کی تاثیر میں اتنا بڑا قومی فیصلہ کیا جائے۔

 

 

تحریر۔۔۔ڈاکٹرعلامہ سید شفقت حسین شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree