جہالت کا معاشرہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) آج میں اپنے کالم میں معاشرے میں جو جہالت ہے اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں لیکن میرا اپنا تعلق ایک کَٹر بریلوی خاندان سے ہے، یہ محض اس لیئے بتانا مقصود تھا کہ کہیں میری اس تحریر کو کوئی بھی شخص کسی مذہبی فرقہ واریت سے نہ جوڑ دے، کیونکہ یہ بات بھی درست ہے کہ میں کوئی عالم دین اور نہ ہی حافظ قرآن ہوں، یہ تحریر فقط ہمارے معاشرے کا ایک خوفناک پہلو دکھانے کی کوشش ہے۔ ہم سب ہی اولیاء کرام کی تہہ دل سے عزت و احترام کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ اولیاء کرام نے دین اسلام کی ترویج اور تربیت انسانیت میں بہت بڑا کردار رہا ہے جسکو شاید ہی کوئی شخص رد کر سکے، لیکن میری تحریر کا مقصد فقط شر پسند عناصر کی پہچان کروانا ہے۔ ان عظیم پیروں ، فقیروں نے اشاعت اسلام کے لئے اہم کردار ادا کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ معاشرے سے شرک بدعت اور رسومات کے خاتمے کے لئے بنیادی کردار ادا کئے پیروں فقیروں سے اللہ نے خوب کام لیا۔

 انہی عظیم لوگوں میں حضرت حسن بصری، حضرت جنید بغدادی، حضرت سید عبدالقادر جیلانی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت نظام الدین دہلوی، حضرت قطب الدین، حضرت امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت بہائو الدین زکریا، حضرت علی ہجویری، حضرت میاں میر، حضرت خلیفہ، غلام محمد، حضرت احمد علی جیسی عظیم ہستیاں ہیں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔معاشرے کے بگڑے ہوئے لوگ ان اکابرین اور ان کے خلفاء کے پاس آتے تھے تو پھر ان کی اصلاح ایسی ہوتی تھی کہ وہ تہجد گزار بن کر برائیوں سے بچنے والے اور نیکیاں کرنے والے بن جاتے تھے۔ لیکن آج اس مقدس مشن کو دولت کے بٹورنے اور دنیا کی اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور حالت یہاں تک آپہنچی ہے جعلی پیر اور عامل معصوم لوگوں کی جان لے رہے ہیں اور دولت جمع کرنا ان کا مقصد بن چکا ہے۔ جعلی پیروں اور عاملوں کی بڑھتی ہوئی یہ تعداد یقیناً ملک و قوم کے لئے نقصان کا باعث ہے کیونکہ ملک میں سادہ لوح عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ان جاہلوں کے حکم پر چلتے ہیں جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنے لوگ جان، مال اور عزت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ عقل کا استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی عامل اور پیر
لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ جعلی پیر ہمارے معاشرے کا وہ کردار ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے لیکن پھر بھی لوگ ان کا پیچھا نہیںچھوڑتے۔آخر کب تک یہ لوگ جہالت میں ڈوب کر جعلی پیروں سے اپنی عزتیں لٹواتیں رہے گے؟ 65سالوں میںجعلی عاملین، جعلی پیروں اور جادوگروں کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا، اس وقت ملک بھر میں ہزاروں عامل عوام کے مال وجان سے کھیل رہے اورکھلے عام مکروہ دھندے کی تشہیر میں مصروف ہیں، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں،حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،ان جاہل عاملوں کے کہنے پر جہالت کے مارے ان کے معتقد دوسروں کو قتل کررہے ہیں اور ماں کی گودیں اجاڑ رہے ہیں، حکومت کو چاہیے فوری طور پر ان عاملوں کے خلاف آپریشن کرے۔

میرے مطابق حکومت کو ایسے تمام آستانے کو بند کرنا چاہئے بلکہ ایسے لوگوں کے خلاف کاروئی ہونی چاہئے اس حوالے سے مذہبی علما کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

واضح رہے ملک میں جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کی بڑی تعداد عوام کی جان، مال، عزت و آبرو کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہے۔آئے دن ان عاملوں کے حوالے سے رونگٹے کھڑے کردینے والا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے۔انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ 21ویں صدی میں بھی ملک میں بہت سے لوگ توہم پرستی کا شکار ہیں،سادہ لوح افراد دھڑا دھڑ ان عاملوں کے آستانوں کا رخ کرتے ہیں جن کی بدولت ان کے یہ آستانے آباد ہیں۔ جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے جال میں پھنسنے والوں میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔گھریلو جھگڑوں سے نجات، شوہر کوراہ راست پر لانے، مقدمہ بازی، کاروباری بندش، اولاد کے حصول، بیرون ملک رہائش ودیگر مقاصد کے حصول کے لیے خواتین کی بڑی تعداد جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے آستانوں کا رخ کرتی ہیں۔ گلی گلی میں پھیلے عاملوں کے دعوے، اشتہاری مہم، وال چاکنگ، ہورڈنگز، بینرز، پمفلٹ اور اشتہارات کی بھرمارسے متاثر ہوکرمسائل کے گرداب میں پھنسی مختلف طبقات کی تعلیم یافتہ، ان پڑھ، ہرعمر کی خواتین انہیں اپنے مسائل کا ’’ واحد حل‘‘ سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ ’’عاملین‘‘ چٹکی بجاتے میں ان کے مسائل کو حل کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم بٹور تے ہیںاور سادہ لوح مایوس خواتین ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکرمسائل کے حل کے لالچ میں اپنی جمع پونجی سے محرومی سمیت عزت گنوانے جیسے مسائل کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ملک میں متعدد بار جعلی عاملوں اور پیروں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔

دوسری جانب میڈیا بھی عوام کو گمراہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جعلی دوایاں، جعلی ڈاکٹر، جعلی پیر، تعویز گنڈے اور نہ جانے کس کس طرح کے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں۔ بلکہ کئی چینلز پر تو کئی ایسے پروگرامز بھی نشر کئے جارہے ہیں جو جعلی عاملوں کے کام کو تقویت دیتے ہیں۔پیمرا کو چاہئے کہ وہ میڈیا پر نشر ہونے والے پروگرامز اور اشتہارات پر پابندی عائداور جعلی پیروں اور عاملوں کے فروغ دینے والے چینلز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔حکومت ،علماء اکرام کی عدم توجہی اور عوام کی جہالت کی بدولت ملک میں ڈبہ پیروں اور جعلی عاملوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ جعلی پیروں اور عاملوں کی بڑھتی ہوئی یہ تعداد یقینا ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث ہے، کیونکہ ملک میں سادہ لوح عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے ان جاہلوں کے حکم پر چلتے ہیں ، جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنے لوگ جان، مال اور عزت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
 
بہت سے مختلف واقعات بھی میرے علم میں دوستوں اور میڈیا والوں کی طرف سے آتے رہے لیکن یہ معاملہ ایسا ہی لگنے لگا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ مرض اب ہمارے معاشرے میں مْوذی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس مرض کا سب سے زیادہ نقصان اور شکار ہماری خواتین ہیں، اس لیے ہم سب لوگوں کو اپنی خواتین کی اس حوالے سے تربیت کرنی چاہیے ورنہ مردوں کو عذاب الہیٰ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ مردوں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور اس جرم میں آپ بھی برابر کے شراکت دار بن رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو خواتین بھی ایسے حیوان طبعیت بابووں کی ہوس کا شکار ہوئیں، اْنکے ان گناہوں کا مداوا کیسے ہوگا ؟ خیر یہ تو ہے، ہمارے آج کے معاشرے کا المیہ کہ ہم اصل عقائد بھول کر بہروپیوں کی بھی تقلید اور اْنکے تحفظ اور دفاع میں اْٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بھی سمجھنے کو تیار نہیں یہ سب جعلی پیر، بابے اور عامل، حقیقی، سچے پیر اور اللہ کے ولیوں کے نام بھی داغدار کررہے ہیں۔ ہم سب کو اپنے اپنے گھروں سے ان کے خلاف آپریشن شروع کرنا چاہیے اور اپنے نیک لوگوں اور اللہ کے پسندیدہ بندوں کی حْرمت بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔


  تحریر۔۔محمد عتیق اسلم  

وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ کا نام محمد بن علی بن موسی اور امام جواد کے لقب سے معروف ہیں۔آپ10 رجب سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور والدہ سبیکہ،خیزران یا ریحانہ خاتون ہیں۔

ولادت امام
شیخ مفیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔

امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرائمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں ۔

مبارک ترین مولود
امام محمد تقی علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام کی عمر کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپ کی ولادت سے قبل امام کی کوئی اولاد نہ تھی لہذا مخالفین کہتے تھے کہ "امام رضاعلیہ السلام سے کوئی نسل موجود نہیں ہے لہذا امامت کا سلسلہ منقطع ہوگا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو پیدائش کے بعد امام رضا علیہ السلام کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا: هہذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم برکۃ علی شيعتنا منہ"۔یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ برکت والا مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا ہے۔ ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابو یحیی صنعانی کہتے ہیں:{ إنا لعند الرضا عليہ السلام بمنی إذ جبئ بأبي جعفر عليہ السلام قلنا: هذا المولود المبارک ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم برکۃ منہ} ہم امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ عظیم برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا۔

آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمہ، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ

کرامات  امام
آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں ہم یہاں کچھ نمونے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

۱۔استجابت دعا
داؤد بن قاسم کہتے ہیں: "ایک دن میں امام جوادعلیہ السلام کے ہمراہ ایک باغ میں پہنچا اور میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں مٹی اور گارا کھانے کا بہت شوقین ہوں؛ آپ دعا فرمائیں (تاکہ میں اس عادت سے چھٹکارا پاؤں)۔ آپ نے جواب نہیں دیا اور چند روز بعد بغیر کسی تمہید کے فرمایا: "اے ابا ہاشم! خداوند متعال نے مٹی کھانے کی عادت تم سے دور کردی"۔ ابو ہاشم کہتے ہیں: اس دن کے بعد میرے نزدیک مٹی کھانے سے زیادہ منفور چیز کوئی نہ تھی۔  

۲۔درخت کا بارور ہونا
بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادعلیہ السلام کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امام نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔  مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امام نے پانی منگوایا اور درخت کے ساتھ بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالایا اور بعدازاں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔  

مناظرات امام
امام محمد تقی   ؑ کے درباری علما اور فقہا سے کئی علمی مناظرے ہوئے جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ  رہا۔ہم یہاں بعض مناظرات کو بیان کریں گے:
مامون کے دور میں بغداد میں امام جوادعلیہ السلام کا ایک اہم مناظرہ یحیی بن اکثم کے ساتھ ہوا۔ مامون نے امام محمد تقی کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی ۔ عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے معترضین سے کہا: تم ان [امام جواد] کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام جوادعلیہ السلام کے درمیان مناظرے  کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ امام کا امتحان لے سکیں۔ مناظرے کا آغاز قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم نے کیا اور پوچھا: اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟ آپ نے جواب میں فرمایا : اے یحیی ! تمہارا سوال بالکل مبہم ہے ،یہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف؟، اس نے عمدا اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سے قتل ہوگیا تھا؟ ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ؟، شکارپرندہ تھا یا کوئی اور جانور؟چھوٹا تھا یا بڑا؟وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ ، رات کو چھپ کراس نے اس کا شکار کیا یا اعلانیہ طور پر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔یحیی  کے چہرہ پر شکستگی کے آثار پیدا ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔مامون نے امام جواد علیہ السلام سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو اس کا علم ہو ۔

امام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد "حل" میں شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا  اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوں گے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منی میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے ، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا ۔ اس کے بعد امام جواد نے یحیی سے سوال کیا:اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی ، دن چڑھے حلال ہوگئی ، پھرظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی ، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی ، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی ، آدھی رات کو حرام ہوگئی ، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی ، بتاو ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی ۔

امام کی  زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا ، اور انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ ہی اس کی وضاحت فرمادیں ۔امام نے فرمایا : وہ عورت کسی کی کنیز تھی ،اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی ، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی ، حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی ، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا ،حلال ہوگئی۔اہلیان دربار اور عباسی علما نے آپ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔   

اسی طرح ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرئیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امام نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بےشک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الانسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ}  اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں ۔تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔ یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ {أنّ مثل أبي بکر وعمر في الاَرض كمثل جبرئيل وميکائيل في السماء} بےشک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔  امام نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرئیل اور میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر اور عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔

اصحاب و شاگردان امام
آپ کے زیادہ تر اصحاب آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور آپ کے فرزند فرزند امام ہادی علیہ السلام کے بھی شاگرد تھے جو مختلف فقہی اور اعتقادی کتابوں کے مصنفین و مؤلفین تھے ۔امام جوادعلیہ السلام کے اصحاب اور رواۃ کی تعداد تقریبا 120 ہے جنہوں نے تقریبا 250 حدیثیں آنجناب سے نقل کی ہیں۔ ان روایات کا تعلق فقہی، تفسیری اور اعتقادی موضوعات سے ہے۔ آپ کے اصحاب اور راویوں میں علی بن مہزیار، احمد بن ابی نصر بزنطی، زکریا بن آدم، محمد ین اسمعیل بن بزیع، حسن بن سعید اہوازی، عبدالعظیم حسنی، ابراہیم بن ہاشم قمی، زکریا بن آدم اور احمد بن محمد برقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ امام جوادعلیہ السلام کے راوی صرف شیعہ ہی نہ تھے اہل سنت سمیت دوسرے فرقوں کے افراد نے بھی آپ سے روایات  نقل کی ہے۔

اہل سنت مشاہیر کے اقوال
مامون اور معتصم کے زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے مکالمات و مناظرات علما کو درپیش پیچیدہ فقہی مسائل کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوتے تھے اور شیعہ اور سنی علما کے اعجاب اور تحسین کا سبب بنتے تھے۔ چنانچہ اگر وہ ایک طرف سے شیعیان اہل بیت کے امام تھے تو دوسری طرف سے اہل سنت کے علماء نے بھی ان کی علمی عظمت کی تصدیق کی ہے اور آپکی علمی شخصیت کو ممتاز گردانا ہے۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال ذکر کرتے ہیں ۔

۱۔سبط ابن جوزی:امام جواد علم، تقوی، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے۔
۲۔ابن حجر ہیتمی:مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم وآگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے۔
۳۔فتال نیشابوری:مامون ان کا شیدائی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔
۴۔جاحظ عثمان معتزلی: وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں۔

حوالہ جات
    کلینی، اصول کافی،ج1، ص492۔
    مفید،ارشاد ص ۴۷۳
   المناقب، ج4، ص394
   کلینی، اصول کافی، ج1 ص321۔
  مجلسی، بحارالانوار، ج50، صص20و23و35۔   شیخ مفید، الارشاد ص 279۔
    اعلام الوری ص ۲۰۰
   ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضۃ الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ۔
   شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص586۔
  ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص390۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص278۔فتال نیشابوری، ص241و242۔
  طبرسی، احتجاج، ص443و444۔
      ق،۱۶۔
   طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
  سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304
  طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
   سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص359۔
   ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص206۔
   فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص237۔
  عاملی، مرتضی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص106 ۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ناکامی ہی کامیابی کا زینہ ہے۔ انسان ناکامیوں سے سیکھتا ہے۔ سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ناکامی کے اسباب کو سمجھا جائے۔ پارہ  چنار میں حالیہ بم دھماکہ پہلا یا آخری نہیں ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ  پارہ چنار میں ہونے والا نواں  دھماکہ ہے اور جغرافیائی لحاظ سے  پارہ  چناراسلام آباد سے مغرب کی طرف 574 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

 اس کی ریاستی اہمیت یہ ہے کہ یہ کرم ایجنسی کا دارالحکومت ہے اور پاکستان کی تمام ایجنسیو ں میں دلکشی کے اعتبار سے منفرد اور رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا شہر ہے۔

دفاعی طور پر  پارہ  چنار انتہائی حساس علاقہ ہے ، چونکہ اس کے  ساتھ تین طرف سے افغانستان کا بارڈر لگتا ہے جبکہ صرف ایک طرف سے یعنی فقط  مشرق  کی طرف سے یہ علاقہ پاکستان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

یہ اس علاقے کے لوگوں کی پاکستان سے محبت اور نظریاتی وابستگی ہی ہے جس نے اس علاقے کو پاکستان کے ساتھ ملا کر رکھا ہوا ہے۔

دشمن طاقتوں نے ہر دور میں اس علاقے کو پاکستان سے جدا کرنے کی  اپنی طرف سے بھرپور کوشش کی ہے ۔ سال ۲۰۰۵ میں باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اس علاقے کو  زمینی طور پر  بنگلہ دیش کی طرح پاکستان سے کاٹ کر الگ کردیاگیا۔اس دوران  یہاں کے لوگ  ایک لمبا چکر کاٹ کر افغانستان سے ہو کر  پارہ چنار پہنچتے رہے۔ بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ  ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ملک دشمن عناصر ، یہاں کے لوگوں کو اغوا کر کے ان کے جسموں کے ٹکڑے کرتے رہے اور انہیں لاپتہ کرتے رہے۔ چنانچہ آج بھی یہاں کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد لاپتہ ہے۔  اس کے علاوہ  حسبِ ضرورت ، افغانستان سے اس علاقے پر میزائل بھی داغے جاتے ہیں، یہاں پر میزائل داغنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ملکی دفاع کی کے لئے ایک کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان ساری مشکلات کے دوران یہاں کے باسیوں نے  آج تک وطن کی سلامتی پر کسی طرح کی آنچ نہیں آنے دی۔  چاہیے تو یہ تھا کہ پورا پاکستان مل کر یہاں کے عوام کی ہر ممکنہ مدد کرتا اور انہیں یہ احساس دلاتا کہ مشکل کی ہر گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

حق بات تو یہ ہے کہ آج تک  پارہ چنار کے لوگ ، افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا مقابلہ تن تنہا کر رہے ہیں۔یہ ایک المیہ ہے کہ  جب یہاں کوئی  ناگوارواقعہ پیش آجاتا ہے تو پورے ملک کی سیاسی ، سماجی ،دینی اور سرکاری شخصیات چند مذمتی بیانات دینے کے بعد اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں اور یوں یہ علاقہ دوبارہ فراموشی کی نظر ہوجاتاہے۔

اتنے اہم علاقے میں بار بار بمب دھماکوں کا ہونا ، صرف سیکورٹی اداروں اور ملکی سلامتی کے ذمہ داروں کی  ہی ناکامی نہیں بلکہ  مجموعی اور قومی سطح پر ہم سب کی ناکامی ہے۔

ہمارا تعلق خواہ کسی اجتماعی، رفاہی، سیاسی یا مذہبی تنظیم سے ہو  یا پھر حکومتی سیٹ اپ  یا میڈیا سے ہو ، ہم سب مشترکہ طور پر   پارہ  چنار کی حفاظت میں ناکام ہوچکے ہیں۔

سیکورٹی کے حوالے سے ،  پارہ چنار کے عوام کو جو مشکلات درپیش ہیں، ان کا جاننا، اور ان کے  حل کے لئے حکومت کو تذکر دینا ، اور ان مشکلات کو حل کروانا یہ ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔

ظاہر ہے جب ہم اپنی قومی ذمہ داری کو ادا نہیں کریں گے تو قومی سطح پر ناکام ہی ہوں گے۔ ایک دانشمند کے بقول کسی بھی حکومت یا تنطیم یا ادارے کی ناکامی کی چار وجوہات ہیں:۔

۱۔ تنظیمی یا سرکاری عہدوں کا بغیر اہلیت کے مل جانا۔

جب کسی ادارے میں صلاحیت اور اہلیت کے بجائے، رشوت ، دھونس ، چاپلوسی یا دوستی اور رشتے داری کی بنا پر مسئولیتیں تقسیم ہونے لگیں تو پھر مسئولین اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے۔ ایسے لوگ بظاہر مسئول تو بن جاتے ہیں لیکن عملا  صلاحیت کے فقدان کے باعث وہ کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کرپاتے اور اسی طرح منصوبہ بندی سے ان کی دلچسبی بھی نہیں ہوتی لہذا ایسے لوگ  فقط بیانات تک محدود رہتے ہیں۔  کوئی واقعہ پیش آجائے تو بیان دے دیتے ہیں اور اسی کو اپنی کارکردگی بناکر پیش کرتے ہیں۔جس ملک کی  کلیدی پوسٹوں پر بیٹھنے والے فقط بیانات تک محدود ہو جاتے ہیں تو پھر اس ملک کو ناکام ریاست بننا ہی پڑتا ہے۔

آپ نیشنل ایکشن پلان سے لے کر آپریشن رد الفساد کو ہی لے لیں۔ آپ دیکھیں گے کہ فقط بیانات کی حد تک تبدیلی آئی ہے۔ عملا کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر سرکاری سطح پر عملا کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تو پھر  اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے ہماری مذہبی  اور سیاسی تنظیموں نے ابھی تک کسی مشترکہ  پلاننگ کا اعلان کیوں نہیں کی!؟

یعنی ہمارے ہاں ہر طرف خواہ کوئی  سرکاری سیٹ اپ ہو یا غیر سرکاری ، یہاں ہر طرف مسئولین  موجود ہیں، لیکن اپنی مسئولیت سے عہدہ برا ہونے کا  مطلوبہ احساس  اور منصوبہ بندی نہیں ہے۔

اس بات کو ہم  پارہ  چنار کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہم لوگوں نے کس قدر اپنی مسئولیت کو ادا کیا ہے!؟

۲۔ ناکامی کا دوسرا سبب کاموں میں شفافیت کا نہ ہونا ہے۔

ہمارے ہاں فعالیت تو بہت انجام دی جاتی ہے لیکن کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ آپ یہ جو فعالیت انجام دے رہے ہیں ، کیا اس وقت یہی فعالیت ہونی چاہیے!؟

مجازی فعالیت کر کے اصلی فعالیت پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔  مثلا اگر کسی ادارے کی طرف سے کہیں پر   تعلیم و تربیت کا کام کرنے کا عزم کیا جائے تو  اکثر اوقات چند   افراد آپس میں  مل کر اپنے ہی عزیزوں اور رشتے داروں  اور اپنی پارٹی یا تنظیم کے حوالے سے  افراد کی تعداد کو دیکھ کر ہی کوئی تعلیمی ادارہ کھولیں گے یا پھر سکالر شپ دیں گے۔بظاہر تعلیم و تربیت کے نام پر ہی فعالیت ہورہی ہوتی ہے لیکن در حقیقت  صرف اپنوں کو نوازا جاتا ہے۔

 اسی طرح اگر کہیں پر لوگوں میں غربت و افلاس اور پسماندگی  کا مسئلہ ہو تو لوگوں کی اقتصادی و اجتماعی مشکلات کو حل کرنے ، نیز بیواوں اور یتیموں کی سرپرستی کے بجائے وہاں پر ایک مسجد یا مدرسے کی عمارت کھڑی کر دی جاتی ہے اور  تمام ممکنہ ذرائع سے روپیہ پیسہ جمع کر کے اس عمارت پر صرف کردیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں بڑی بڑی شاندار بلڈنگیں تو بن جاتی ہیں لیکن انہیں آباد کرنے کے لئے دوردراز سے بچوں کو لاکر بھرتی کیا جاتا ہے۔ یوں مقامی لوگوں کی حالت جوں کی توں ہی رہتی ہے۔ بظاہر اس علاقے میں فعالیت تو ہو رہی ہوتی ہے لیکن مطلوبہ فعالیت پر گردو غبار ڈال دیا جاتا ہے۔

ہم لوگ اداروں کی رپورٹس دیکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ  یہ فعالیت اس علاقے کی ضرورت کو کس حد تک  پورا کرتی ہے!؟

فقط فعال ہونا کافی نہیں ہے بلکہ درست سمت میں فعالیت ضروری ہے۔ ہمیں  پارہ  چنار  کے حوالے سے بھی اپنی فعالیتوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے وہاں پر شہدا اور لاپتہ ہونے والے افراد کے یتیموں اور بیواوں کی سرپرستی کے لئے اب تک کیا عملی کام کیا ہے!؟

۳۔ ناکامی کا تیسرا سبب ایمانداری کا فقدان ہے۔

اگر قومی و ملی اداروں میں ایمانداری کے بجائے خانہ پری سے کام لیا جائے گا تو بلاشبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہمارے ہاں جس طرح سرکاری اداروں میں رشوت اور کرپشن کا دروازہ کھلا رہتا ہے اسی طرح غیر سرکاری اداروں میں بھی امور کی نظارت اور دیکھ بھال فقط برائےنام ہوتی ہے۔

جو لوگ نظارت اور دیکھ بھال پر مامور ہوتے ہیں ، ان کا منہ مختلف طریقوں سے بند کردیا جاتا ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جاتی ہیں۔

ایسے ناظر اور مامور افراد، معاملات کا ایمانداری سے نوٹس لینے کے بجائے  فقط دستخط اور امضا کرنے والی  اور بیانات داغنے والی مشینیں بن جاتے ہیں۔چنانچہ  پریس ریلیز اورلیٹر پیڈز پر فقط ان کے نام چھاپے جاتے ہیں اور خطوط پر صرف ان کی مہریں ثبت کی جاتی ہیں۔  پارہ  چنار کے حوالے سے بھی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم نے اس حوالے سے آج تک کسی کو  پارہ  چنار کی صورتحال پرناظر مقرر کیا تھا اور اس نے اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے انجام دیا ہے!؟

۴۔ناکامی کا چوتھا سبب ، احترام باہمی کا فقدان

ہمارے  اردگرد بہت سارے مخلص  اور انتھک محنت کرنے والے موجود ہوتے ہیں، لیکن ان  میں “دوسروں کے  احترام  کے“نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ وہ کام  تو بڑی محنت اور جانفشانی سے کرتے ہیں لیکن دوسروں کی بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ خود دوسروں سے کٹ جاتے ہیں بلکہ وہ جس ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں، اسے بھی دوسروں کی نظر میں منفور بنا دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ  کسی بھی ادارے کی جتنی خدمت کرتے ہیں اس سے زیادہ اس کے بارے میں نفرت پھیلا تےہیں۔

دوسری تنظیموں اور اداروں سے ہٹ کر خود ان کا اپنے ہی ادارے کے لوگوں  اور دوستوں کے ساتھ برتاو فرعونوں کی طرح کا ہوتا ہے۔  جب تک  ہمارے اداروں سے  من مانی، فرعونیت  اور انانیت کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔

 پارہ چنار میں قومی سلامتی کے حوالے سے ہماری ناکامی  کی ایک اہم وجہ  وہاں کی سرکاری انتظامیہ میں پائی جانے والی فرعونیت ہے۔  وہاں پر عوامی مطالبات کو اصلا اہمیت نہیں دی جاتی اور دھماکوں کے بعد ہونے والے مظاہروں پر بھی گولی چلا دی جاتی ہے۔

اب تک کتنے ہی لوگوں کو مظاہروں کے درمیان گولیاں مار کر شہید کیا گیا ہے لیکن اس فرعونیت کے خلاف ہماری سیاسی اور قومی تنطیمیں بالکل خاموش ہیں۔

جب تک ہم  پارہ  چنار میں فرعونیت کا راستہ نہیں روکیں گے تب تک وہاں امن و سلامتی کے حوالے سے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔

اگر ہم نے ناکامی سے کامیابی کی طرف سفر کرنا ہے تو پھر پارہ چنار کے حوالے سے فقط حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے ، ہمیں اپنی اجتماعی مسئولیت، شفافیت، ایمانداری اور باہمی ادب و احترام پر بھی  توجہ دینی پڑے گی۔ ہمیں اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اگر پاراچنار کی سلامتی کے حوالے سے ہماری قومی تنظیموں اور اداروں کے پاس کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہوتو اسے حکومت کے سامنے رکھا جاسکتا ہے لیکن اگر ہماری کوئی پلاننگ ہی نہ ہوتو پھر ہمیں ابھی سے یہ جان لینا چاہیے کہ فقط بیانات سے ہم صورتحال پر قابو نہیں پا سکتے۔ بیانات دینا بھی ایک فعالیت ہے لیکن  یہ پاراچنار کے حوالے سے مطلوبہ فعالیت  نہیں ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر آئے دن کڑیل جوان بیٹوں، کمسن بچوں اور عمر رسیدہ بوڑھوں کا نذرانہ پیش کرنا ایک زندہ قوم کی نشانی ہے۔ اور کتنے باعظمت ہیں یہ شہداء جو اپنے خون سے مکتب کی خشک جڑوں کی پھر سے آبیاری کراتے ہیں اور قوم کی خواب غفلت میں سوئی ضمیریں جنجھوڑتی ہیں، انہیں یاد دلاتی ہیں کہ کہیں دنیا کی رنگینیوں میں مگن ہو کر ہمارا مقصد بھول نہ جائیں۔ اور پھر کتنی قابلِ تحسین اور قابلِ رشک ہے وہ قوم جو شہداء کا پاکیزہ خون رائیگان نہیں جانے دیتی اور شہداء کے خون کو مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ بنا لیتی ہے۔

گزشتہ روز یعنی ۳۱ مارچ کو ایک مرتبہ پھر پارہ چنار میں خون کی  ہولی کھیلی گئی،  قیامت خیز مناظر دیکھنے کو ملے، ہرطرف خون ہی خون بکھرا پڑا تھا، آہ و سکسیوں کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں، بوڑھا باپ اپنے کمسن بیٹے کا خون پارہ لاشہ ہاتھوں میں لیے آسمان کی طرف سر اٹھائے شکر بجا لا رہا ہے تو کوئی اپنے عزیر کے گولیوں سے چھلنی جسم سے لپٹ کر رو رہا ہے۔ لیکن جس منظر نے مجھے خون کے انسو رلایا وہ ایک مرجھائی ہوئی کلی تھی جو سجدے کی حالت میں بکھری پڑی مسلمانوں سے اپنے جرم کا ثبوت مانگ رہی تھی۔

بہرحال، ہماری تاریخ  خون سے لکھی جا چکی ہے اور حق و باطل کے درمیان معرکہ صدیوں سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہے گا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ان قربانیوں سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ ’’تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے، جب تک ان چیزوں کو اللہ کی راہ میں پیش نہ کرو جو تمہیں پسند ہیں‘‘۔۔۔ بہرحال ہم اتنی عظیم قربانی تو دے چکے۔ تاہم اگر اس کے باوجود ہم ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئے تو ہم نے شہداء کے خون کی پاسداری نہیں کی۔ اگر ہم نے آپس کی کدورتوں اور نفرتوں کو فراموش نہیں کیا تو ہم نے شہداء کے خون کو رائیگان جانے دیا۔

تاریخ میں بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے ۵ جون ۱۹۶۳ (۱۵ خرداد ۱۳۴۲ ھ ش) کو شاہ کے خلاف مظاہروں میں بے گناہ عوام کا خون بہایا گیا تو ایرانی قوم نے شہداء کے خون کی پاسداری کی جس سے رفتہ رفتہ اسلامی انقلاب کے لیے راہیں ہموار ہو گئیں۔

اسی طرح ۱۹۹۲ء کو حزب اللہ کے سابق راہنما سید عباس موسوی کی شہادت کی تپش ہی اسرائیلیوں کی چنگل سے لبنان کی آزادی کا باعث بنی۔  یا حال ہی میں یمن کا انقلاب ملاحظہ فرمائے۔ جس کی ابتدا ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ کو وسیع پیمانے پر شیعوں کے قتل عام سے ہوئی۔ اور یہی قتل عام، یمن انقلاب کے لیے اولین چنگاری ثابت ہوئی۔ جس کے بعد پورے یمن میں بیداری کی لہر دوڑی گئی، لوگ سڑکوں پر آئے اور یوں ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کی بائیس سالہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

چلو مان لیتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت حالات سازگار نہیں ہیں، اور شیعہ اقلیت میں ہیں لہذا یہاں ولایت فقیہ اور شیعہ طرزِ فکر پر حکومت قائم نہیں ہو سکتی تو کم از کم پاکستان کے شیعہ متحد ہو کر ایک مقتدر قوم کے طور پر تو ابھر سکتے ہیں جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں، اور ایسی قوم بنیں جو’’آشداء علی الکفار، رحماء بینھم‘‘ کا مصداق بن کر آپس کی تمام تر تلخیوں اور کدورتوں کو پس پشت دالتے ہوئے دشمن کی آنکھ میں کانٹا اور آپس میں رحمدل بن جائیں۔

اور یہ اللہ تعالیٰ کا آٹل فیصلہ ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو خیال جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا


تحریر۔۔۔ ساجد مطہری

وحدت نیوز (آرٹیکل) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔
-1علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے،ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولد ہوئے۔

-2آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا۔ آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں۔

-3آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے۔

-4علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود  ارشاد ہے کہ”  علمنامنطق الطیر و اوتینا من کل شئی  “ ہمیں \پرندوں تک کی زبان سکھا گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے۔

-5روضۃ الصفاء میں ہے : خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اور ہم ہی شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں۔ علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن ، تفسیر قرآن ،علم السیرۃ ،علوم وفنون وادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین و امام حسین کی اولاد میں سے کسی اورسے ظاہرنہیں ہوئے۔

-6صاحب صواعق محرقہ لکھتے ہیں : عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثارکے راسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجز و ماندہ ہیں ۔ آپ کے ہدایات وکلمات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے۔

-7علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراور وسیع الاطلاق تھے۔

8۔علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے ۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔

-9امام باقرعلیہ السلام نے تقریبا چار سال کی عمر میں کربلاکا خونین واقعہ دیکھا۔آپ اپنے جد  امام حسین علیہ السلام کےپاس موجود تھے۔آپ کی شرافت اور بزرگی کو اس حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک نیک صحابی جابربن عبد اللہ انصاری سے فرمایا:اے جابر : تم زندہ رہوگے اور میرےفرزند محمد ابن علی ابن الحسین سے کہ جس کا نام توریت میں باقر ہے ،ملاقات کروگے ،ان سے ملاقات ہونے پر میرا سلام پہنچادینا۔جابر نے ایک طویل عمر پائی اور یوں وہ دن بھی آیا کہ امام باقرعلیہ السلام کے سامنے جابر کھڑا تھا۔جب معلوم ہوا کہ آپ امام باقر ہیں توجابر نے آپ کے قدموں کا بوسہ لیا اورکہا اے فرزند پیغمبر میں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام و درود قبول فرمائیں۔انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا تھا۔

آپ کا علم بھی دوسرے تمام ائمہ علیہم السلام کی طرح چشمہ وحی سے فیضان حاصل کرتا تھا۔جابر ابن عبد اللہ انصاری آپ کےپاس آتے اور آپ کے علم سے بہرہ مندہوتے اور بار بار عرض کرتے تھے کہ اے علوم کو شگافتہ کرنےوالے،میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ بچپن ہی میں علم خدا سے مالا مال ہیں ۔آپ کا علمی مقام ایساتھا کہ جابر بن یزیدجعفی ان سے روایت کرتے وقت کہتے تھے،وصی اوصیا اور وارث علوم انبیاء محمد بن علی بن حسین نے ایسا کہا ہے ۔حضرت امام باقر علیہ السلام نے علوم و دانش کے اتنے رموز و اسرار وضع کئے ہیں کہ سوائے دل کے اندھے کے اور کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا۔اسی وجہ سے آپ نے تمام علوم شگافتہ کرنے والے اور علم و دانش کا پرچم  لہرانے والے کا لقب پایا۔آپ نے مدینہ میں علم کا ایک بڑا دانشگاہ بنایا تھا جس میں سینکڑوں درس لینےوالے افراد آپ کی خدمت میں پہنچ کر درس حاصل کیا کرتے تھے۔امام باقر علیہ السلام کے مکتب فکر میں مثالی اور ممتاز شاگردوں نے پرورش پائی تھی ان میں سے کچھ افراد یہ ہیں :

1۔ ابان بن تغلب: ابان نےتین اماموں کی خدمت میں حاضری دی ،چوتھے امام ،پانچویں امام اور چھٹے امام۔ابان کی فقہی منزلت کہ وجہ سے ہی امام باقر علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ مدینہ کی مسجد میں بیٹھو اور لوگوں کےلئے فتوی دو تاکہ لوگ ہمارے شیعوں میں تمہاری طرح کے میرے دوست دار کو دیکھیں ۔

2۔زراۃ ابن اعین:امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتےہیں : ابو بصیر ،محمد ابن حکم ، زراۃ بن اعین اور بریدہ ابن معاویہ نہ ہوتے توآثار نبوت مٹ جاتے یہ لوگ حلال اور حرام کے امین ہیں ۔

3۔ کمیت اسدی: ایک انقلابی اوربامقصد شاعر تھے ۔دفاع اہل بیت کے سلسلے میں لوگوں کوایسی جھنجھوڑنے والی اور دشمنوں کواس طرح ذلیل کرنےوالی شاعری تھی کہ دربار خلافت کی طرف سےموت کی دھمکی دی گئی۔جب کمیت نے امام کی مدح میں چند اشعار پڑھ لئے تب
امام نے اسے اپنا لباس دے دیا۔

4۔ محمد ابن مسلم: امام باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے سچے دوستوں میںسےتھے۔آپ کوفہ کے رہنےوالے تھے لیکن امام کے علم بیکراں سے استفادہ کرنےکے لئےمدینہ تشریف لائے۔ایک دن ایک عورت محمدابن مسلم کے گھر آئی اور سوال کیا کہ میری بہو مر گئی ہے اور اس کے پیٹ میں زندہ بچہ موجود ہے۔ہم کیا کریں؟ محمد نے کہا کہ امام باقرعلیہ السلام نےجو فرمایا ہے اس کے مطابق توپیٹ چاک کر کےبچہ کو نکال لینا چاہئے اور پھر مردہ کو دفن کر دینا چاہئے۔پھر محمد نے اس عورت سےپوچھاکہ میرا گھر تم کو کیسےملا؟ عورت بولی میں یہ مسئلہ ابو حنیفہ کےپاس لے گئی۔انہوں نے کہا محمد ابن مسلم کےپاس جاو اور اگر فتوی دیں تومجھے بھی بتادینا۔

امام باقر علیہ السلام کی رہبری کا ۱۹ سالہ زمانہ نہایت ہی دشوار حالات اور ناہموار راہوں میں گزرا۔اپنے آخری ایام میں امام نے اپنے بیٹےامام جعفر صادق علیہ السلام کو حکم دیا کہ ان کے پیسوں میں سےایک حصہ ۸۰۰ درہم دس سال کی مدت تک عزاداری میں صرف کریں۔عزاداری کی جگہ میدان منی اور عزاداری کا زمانہ حج کا زمانہ قرار دیا گیا۔حج کا زمانہ دور افتادہ اور نا آشنا لوگوں اور دوستوں کی وعدہ گاہ ہے اگر کوئی پیغام ایسا ہو کہ جسے تمام عالم اسلام تک پہنچانا ہو تو اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں اور امام نے بھی عزاداری کے لئے حج کے ایام اور اس جگہ کو معین کیا تاکہ ہر سال مجلس عزاء برپاہونےپر ہر آدمی یہ سوال کرنے پر مجبور ہو کہ آخر کس کے لئےیہ مجلسیں برپا ہوتی ہیں اور عالم اسلام کی بلند شخصیت محمد ابن علی ابن الحسین علیہ السلام کی موت آخر طبیعی نہ تھی ۔ان کو کس نے قتل کیا اور کیوں؟ آخر ان کا جرم کیا تھا،کیا ان کا وجود خلیفہ کے لئے خطرے کاباعث تھا؟دسیوں ابہام اور اس کے پیچھے اتنے ہی سوالات اور جستجو والی باتیں اور صاحبان عزاء اور صاحبان معرفت کی طرف سے جوابات کا ایک سیلاب۔

۷ ذی الحجہ ۱۱۴ ہجری کو ۵۷ سال کی عمر میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ظالم و جابربادشاہ ہشام ابن عبد الملک نے آپ کو زہر دلوایا اور اس زہر کےاثر سے آپ کی شہادت واقع ہوئی اور دنیائے علم و دانش ہمیشہ کے لئے سوگوار ہوگئی۔اس آفتاب علم و ہدایت کو بھی ظالموں نےباقی رہنےنہ دیا۔شہادت سےپہلے امام جعفرصادق علیہ السلام سے ارشاد  فرمایا: میں آج کی رات اس دنیا سےکوچ کر جاوٴں گاکیونکہ میں نے اپنےپدر بزرگوار کو خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے شربت پیش کر رہےتھے جسے میں نےپیا  ہے وہ مجھے زندگی جاویداوراپنے دیدار کی بشارت دےرہے تھے۔ دوسرےدن اس آفتاب علم و دانش کے دریائے بیکران کوجنت البقیع میں امام حسن علیہ السلام اور امام سجاد علیہ السلام کےپہلو میں دفن کر دیا لیکن وقت کے ظالم و جابر حکومتوں نے اس قبر مطہر پر سائباں بھی گوارہ نہ کیا۔

 دن کی دھوپ اوررات کی شبنم میں یہ قبر مطہر آج بھی مطلومیت کی مجسم تصویر ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵۔
۲۔جلاء العیون ص ۲۵۹۔
۳۔ مطالب السؤال ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱
۴۔اعلام الوری ص ۱۵۶۔
۵۔ مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱۔
۶۔ کتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷۔
۷۔صواعق محرقہ ص ۱۲۰
۸۔ وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰ ۔
۹۔ تذکرۃالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱۔
۱۰۔ تاریخ اسلام۔


تحریر۔۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

آؤ پھر عہد کریں۔۔۔۔۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) 23مارچ کا دن وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں واقع ’’منٹو پارک‘‘ موجودہ ’’اقبال پارک‘‘ میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور 23 مارچ ہی کے دن 1956 ء میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا. 23 مارچ کی تاریخی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر سال 23 مارچ کو سرکاری طور پر یوم پاکستان منانے کا اعلان کیا گیا، اس تاریخی دن کو منانے کیلئے پورے پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں. 23 مارچ 1940 ء کو قائد اعظمؒ کی زیر صدارت منظور کی گئی قرارداد پاکستان نے تحریک پاکستان میں نئی روح پھونکی, جس سے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا اور بالآخر 14 آگست 1947 کو وطن عزیز پاکستان وجود میں آیا۔

اس سال 23 مارچ یوم پاکستان ایک دفعہ پھر قومی جوش و جذبے سے منایا گیا جس میں بری،  بحری اور فضائی افواج نے جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا اور وطن عزیز کے دشمنوں کو بتا دیا کہ پاکستانی فوج جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ 23 مارچ کے حوالے سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ "آج پھر عہد کریں کی فسادیوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہے"۔

یقیناً اس عظیم موقع پر تمام پاکستانیوں کو اپنے آباء و اجداد کے عظم، نظم، جرات اور بہادری کو یاد کرتے ہوئے ملک کو فسادیوں، دہشت گردوں، دہشت گردوں کے سہولت کاروں، کرپٹ لوگوں اور غداروں سے پاک کرنے کے لئے پھر سے عہد کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو ہر قسم کے ناپاک لوگوں سے پاک کیا جاسکے۔ پہلے تو ہندو مسلمان کا مسئلہ تھا، آج مسلمان اور منافقین کا مسئلہ ہے، محب وطن اور غداروں کا مسئلہ ہے، ظالم اور مظلوم کا مسئلہ ہے، آج کا پاکستان وہ پاکستان نہیں ہے جو علامہ اقبال اور قائد اعظم کا پاکستان تھا۔ قائد اعظم، علامہ اقبال اور دیگر رہنماؤں نے پاکستان اس لیے تو نہیں بنایا تھا کہ ہم مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوں, پاکستان بنانے کا  اصل مقصد سادہ الفاظ میں یہ تھا کہ مسلمان آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد پر آزادانہ طریقے سے عمل کر سکیں مگر افسوس کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں آج اسلام محفوظ نہیں ہے, اقلیتوں کی بات تو دور نہ تو کوئی مسجد محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی امام بارگاہ.۔

لہذا اب یوم پاکستان کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کو اور خصوصاً پاکستان کے سیکورٹی اداروں اور عدلیہ کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ اس ملک میں غداروں، لٹیروں اور امن و سلامتی کے دشمنوں کو سر چھپانے کی بھی کوئی جگہ نہیں دیں گے۔ ہمیں آپریشن ردالفساد کو کامیاب بنانا ہوگا اور فساد کی جڑوں کو کاٹنا ہوگا، ہمیں اس ملک میں بسنے والے ہر شہری کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو, ہمیں تمام مذاہب و فرقوں کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا، ہمیں خاکروب کی اسامیوں سے مذہب کی قید کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ ایک اسلامی معاشرے کو کسی صورت یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسرے مذاہب کی تذلیل کریں. ہمیں ضرب عضب، ردالفساد اور نیشنل ایکشن پلان کے زریعے قائد کے اس قول کو عملی جامہ پہنانا ہوگا کہ "آپ آزاد ہیں، آپ کو اس ملک پاکستان میں آزادی ہے۔ آپ مسجد میں جائیں, مندر، چرچ یا اور کسی جگہ اپنی عبادت کے لئے جائیں ہماری ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کس ذات اور عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمارا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم سب اس ملک میں برابر کے شہری ہیں."

ہمیں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو پھر سے بحال کرنا ہوگا، ہمیں روشنیوں کے شہر کراچی کو پھر سے روشن کرنا ہوگا، ہمیں لعل شہباز قلندر کے مزار پر پھر  سے دھمال ڈالنا ہوگا،  ہمیں لاہور سمیت پنجاب بھر سے دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے زندہ دل لاہور کی رگوں میں محبت و اخوت کے خون کو دوڑانا ہوگا، ہمیں نو گو ایریاز کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں کسی کے فریق بننے کے بجائے ثالث کا کردار نبھانا ہوگا، ہمیں غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ہوگا. اس وقت ہم میں سے ہر ایک فرد ایک لاکھ بیس ہزار روپے کا مقروض ہے, ہمیں پاکستان کو بچانا ہے تو پاناما اور سوئیس اکاونٹز سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانا ہوگا اور عالمی بینک کے قرضوں کو چکانا ہوگا. مگر اس سب سے پہلے ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے ادا کرنا ہوگا، ہمیں ہر اچھے کام کرنے اور برے کام سے روکنے کا عہد کرنا ہوگا، ہمیں صرف قائد اعظم کے ان دو مندرجہ زیل فرامین پر عمل کرنے کا عہد کرنا ہوگا:-

1- "ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سےکوئی بھی سندھی ، بلوچی ، بنگالی ، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئیے۔" (15 جون، 1948)۔
2- "انصاف اور مساوات میرے رہنماء اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔" (قانون ساز اسمبلی 11 اگست ، 1947)۔

اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی مصلحتوں اور آپس کی رنجیشوں کو بھلا کر پھر سے متحد ہو جائیں. آج 71 سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر ہمیں اپنے اندر 23 مارچ 1940 ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے اور تجدید عہد وفا کرتے ہوئے قرار داد پاکستان کے اغراض و مقاصد کی تکمیل اور قائد اعظم اور دیگر قومی رہنمائوں کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں پھر سے ایک قوم بننا ہوگا اور دنیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان کے قیام کے خواب کو پورا کیا تھا، ہم وہی قوم ہیں جس نے اپنے قائد کی رہنمائی میں دو قومی نظریے کو سچ ثابت کرکے دکھایا تھا، ہمیں قرار داد پاکستان کی روشنی میں مملکت خدادا ,پاکستان, کو پروان چڑھانے کیلئے انفرادی و اجتماعی طور پر سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شاہین بننا ہوگا۔ خدا تعالیٰ پاکستان اور پاکستانی قوم کا حامی و ناصر ہو۔ آمین.


تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree