وحدت نیوز(آرٹیکل) جنرل (ر) راحیل شریف پاکستان کی تاریخ میں واحد جنرل گذرے ہیں جنہیں پاکستانی قوم نے خوب عزت دی یہاں تک کہ انکی ریٹارئرمنٹ کے معمالہ پر بھی قوم نے افسردگی کا اظہار کیا گیا ، جنرل (ر) راحیل شریف کی وجہ مقبولت انکا دہشتگردوں کے خلاف سخت اقدام، فوجی عدالتوں کے ذریعہ دہشتگردوں کو سزائیں دلوانا اور قومی وقار کو بلند کرنا تھا، عوام ان سے بے حدمحبت کرتی اور انہیں قومی ہیرو تسلیم کرتی تھی حتیٰ کہ سول قیادت سے زیادہ فوجی قیادت پر عوام کا اعتماد تھا۔

لیکن جنرل (ر) صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد انکی بڑھتی ہوئی مقبولیت میں اس وقت کمی واقع ہوئی جب انہوں نے سعودی عرب کی قیادت میں بنے والے ایک متنازعہ فوجی اتحاد کی قیاد ت سنبھالنے کی ذمہ داری قبول کی، اسکی وجہ خود سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے یہ نام نہاد اسلامی اتحاد تھا جسکے اہداف اور عزائم تک دنیا کے سامنے آشکار نہیں ، جبکہ اس اتحاد کی تاسیس ہی ایک ایسے ڈرامائی انداز میں ہوئی جس کی وجہ سے اس اتحاد پر کافی سوالات اُٹھےمثال کے طور پر ۱۵ دسمبر کو اس سعودی فوجی اتحاد کا قیام عمل میں آیا، باقاعدہ سعودی نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمدبن سلمان نے اس فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا جس میں کہا گیا سعودی عرب کی قیادت میں بنے والے اس فوجی اتحاد میں34اسلامی ممالک شامل ہیں ، ان 34ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل تھا،اگلے دن ۱۶ دسمبر کے اخبارات اور نیوز ویب سائٹ سرچ کرکے دیکھے جاسکتے ہیں پاکستانی وزارت خارجہ نے صاف صاف اعلان کردیا تھا کہ پاکستان کو اس سعودی اتحاد کے قیام کا علم نہیں۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سیکرئٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا تھا کہ سعودی قیادت میں بنے والے فوجی اتحاد میں پاکستان کا نام سن کر حیرانی ہوئی ہے، انہوںنے کہاکہ ریاض میں موجود پاکستانی سفیر سے اس خبر کی وضاحت طلب کرلی گئی ہے۔

اس بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ سعود ی عرب نے پاکستان کے ساتھ بادشاہ اور غلاموں والا سلوک رو رکھا تھا ،بادشاہ کے بیٹے نے پاکستان کو یہ بتانا بھی گوار ا نہیں کیا کہ وہ پاکستان کو فوجی اتحا د میں شامل کررہے ہیں۔

یقیناً پاکستان کی گستاخی بادشاہ سلامت کو ناگوار گذری ہوگی اور انہوںنے ہمارے بخشو حکمرانوں کی جب کلاس لی اور انہیں احسانات یاد دلائے ہونگے تو پھر کھسیانی بلی کی طرح اس اتحاد میں شامل ہونے کی خبر یں بھی سامنے آنے لگیں ،لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس اتحاد میں شامل ہونے کی واضح مخالفت کی تھی ،پارلیمنٹ سے منظوری نا ملنے کے بعد بادشاہ سلامت نے مذہبی کارڈ استعمال کیا او ر پھر ہم نے دیکھا یہ نائب ولی عہد سے لے کر امام کعبہ تک نے پاکستان کے دورہ جات کیئے اور اس اتحاد میں شامل ہونے کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشیش کی، پاکستان کی شدت پسند نظریات کی حامل جماعتوں سے ان شخصیات کی مسلسل ملاقتوں اور سعودی عرب کے سرکاری دورہ جات کے بعد دفاع حرمین شرفین کانفرنسز، ریلیاں، جلسے جلوس اور فارم تشکیل پاتے بھی ہمیں دیکھائی دیئے ، یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ، لیکن پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے فیصلہ کرنے والے ادارے پارلیمنٹ اور اپوزیشن جماعتیںاور کئی صحافتی و سنجیدہ حلقے ناصرف جنرل راحیل شریف کے اس اتحاد کے سربراہ بننے بلکہ یمن جنگ میں براہ راست ملوث ہونے پر شدید مخالف ہیں۔

اس مسئلے کو جاننے کے لئے اس سعودی فوجی اتحاد کے بننے اور اسکی مخالفت کرنے کی وجہ کو باریکی سے سمھجنے کی ضرورت ہے۔

سعودی اتحاد کیوں بنا؟

 سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے ۱۵ دسمبر ۲۰۱۶ کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ سعودی عرب کی قیادت میں دہشتگرد ی کے خلاف جنگ کے لئے ایک نیا اسلامی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے یہ اتحاد سعودی عرب کی قیادت میں کام کرے گا اور اس کا ہیڈ کوارٹرز ریاض میں قائم کیا جائے گا۔ اس اتحاد کا مقصد دہشت گردی اور زمین پر فساد برپا کرنے والے اداروں اور گروہوں کے خلاف جنگ کو مربوط بنانا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ 34 مسلمان ملکوں کا یہ اتحاد مسلک اور عقیدہ کی تخصیص کے بغیر ہر اس گروہ کے خلاف کارروائی کرے گا جو دہشت گردی کے ذریعے معصوم افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اسلامی ملکوں کے اس نئے عسکری اتحاد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا اعلان سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نےخود کیا کیونکہ عام طور سے شاہی قیادت اس طرح میڈیا کے ذریعے پیغام پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی، شہزادے محمد بن سلمان نے اپنے بیان میں کہا کہ عراق ، شام ، لیبیا ، مصر اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مربوط کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ یہ اتحاد اس وقت عمل میں آیاتھا جب یمن  میں سعودی عرب کو بری طرح شکست کا سامنا کرناپڑ ا، عرب ممالک پر مشتمل فوج یمن میں ان عزائم کو حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی تھی جسکے کے لئے سعودی عرب کی جانب سے یمن پر یہ جنگ مسلط کی گئی تھی، جبکہ اقوام متحد ہ کی جانب سے یمن میں جنگ بندی کروانے کے بعد محمدبن سلمان نے اپنی شکست چھپانے کے لئے اس نئے اسلامی اتحاد کا ڈرامہ کیا یہی وجہ تھی کہ اس اتحاد میں شامل کیئے جانے والے بیشتر ممالک اس اتحاد کے حوالے سے لاعلم تھے، کیونکہ یہ اتحاد یمن میں جنگ بندی کے بعد فوراً ری ایکشن کےطور پر سامنے آیا تھا۔ لہذا اس اتحاد میں انہی ممالک کو سعودی عرب کی جانب سے شامل کیا گیا جنکےبارے میں انہیں یقین تھاکہ بغیر بتائے بھی یہ ممالک سعودی اتحاد میں شامل ہونے پر راضی ہوجائیں گے، جبکہ اسکے مقابل وہ ممالک جو سعودی سیاسی تسلط سے آزاد ہیں انہیں اس اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔دوسری جانب اس دوران شام و عراق میں بھی سعودی عزائم کافی حد تک خاک میں مل رہے تھے۔

ایک اور اہم نقطہ کہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ عراق ،شام ،مصر وغیرہ میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی جائے گی لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ متاثرہ ممالک اس اتحاد میں شامل نہیں، جبکہ یمن کا نام محمد بن سلمان کی جانب سے براہ راست نہیں لیا گیا جس سے وہ برسرپیکار ہیں۔

لہذا خلاصہ سامنے آیا کہ اس اتحاد کے ظاہری مقاصد کے ساتھ ساتھ خفیہ مقاصد بھی ہیںجو وقت کے ساتھ ساتھ آشکار ہورہے ہیں، جسکی ایک مثال عرب میڈیا کی اس خبر کے بعد سامنے آئی کے پاکستانی فوج کو یمن بارڈر پر تعینات کردی گئی ہے، اسی طرح کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ سعودی عرب اپنی بادشاہت کے تحفظ کے لئے ایک عسکری اتحاد تشکیل دے رہا ہے کیونکہ تیزی سے تبدیل ہوتے علاقائی حالات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ آل سعود کی بادشاہت اب زیادہ عرصہ چلنے والی نہیں۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اتحاد عالم اسلام کے بنیادی ترین مسئلہ فلسطین پر خاموش ہے ، یہ خاموشی اس بات کی جانب اشارہ کررہی ہے اس اتحاد کی اصل کمان امریکا و اسرئیل کے ہاتھ میں ہے اور شام و عراق و یمن میں داعشی پروجیکٹ کی ناکام کے بعد اس اتحاد کے ذریعہ مکروہ عزائم حاصل کیے جائیں گے ۔

سعودی اتحاد اور پاکستان

اس سعودی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر پارلیمنٹ نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا کہ ہم کسی بھی بین الاقوامی مسئلہ میں خود کو شامل نہیں کرسکتے جبکہ ہم خود حالات جنگ میں ہیں، دوسری جانب سے یہ رائے بھی سامنے آئی تھی کہ پاکستان مسلم ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے ناکہ کسی کا فریق بن جائے کیونکہ روز روش کی طرح یہ بات عیاں ہے کہ سعودی فوجی اتحاد یمن کے خلاف تشکیل پارہا ہے جبکہ دوسر ی جانب اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اس اتحاد کو سعودی عرب ایران کے مشرق وسطی اور افغانستان میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے استعمال کرے گا یہاں سے یہ اتحاد فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلے گا۔لہذا پاکستان کی باوقار پارلیمنٹ میں اس جنگ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن ہمارے بخشو حکمران بادشاہ سلامت کی نافرمانی کرنے سے خود کو نا روک سکے۔

جنرل راحیل شریف اور سعودی اتحاد
جنرل (ر) راحیل شریف کی شخصیت بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے داغ دار ہورہی ہے،جسکا براہ راست فائدہ لیگی حکمرانوں کو پہنچ رہا ہے ، سامنے جنرل صاحب کو رکھ کر یہ لیگی حکمرانوں عرب بادشاہوں سے اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنارہے ہیں، دوسری جانب جنرل صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرنے کی صورت میں اس اتحاد کی کمان سنبھالیں گے، اب جبکہ وہ قیادت سنبھالنے جارہے ہیں تو کیا ہمیں یہ سمھجنا لینا چاہئے کہ سعودی عرب نے جنرل صاحب کوثالثی کا کردار ادا کرنے کی اجازت دیدی ہے ؟ کیا بادشاہ صفت افراد سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو اتنے اختیارات دیے دیں گے؟

سابق لیفٹنٹ جنرل عبدالقادر بلوچ جو کہ وفاقی وزیر بھی انہوںنے بھی ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جنرل (ر) راحیل شریف اگر اس فوجی اتحاد کی قیادت کو قبول کرتے ہیں وہ متنازعہ شخصیت بن جائیں گے اور جو بھی عزت انہوںنے کمائی ہیں وہ گنواں بیٹھیں گے۔

واضح رہے کہ ۲۵ مارچ کو ملک کے وزیر دفاع نے اپنے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ حکومت نے سعودی درخواست پر جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کا این او سی جاری کردیا گیا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس مسئلے کو ایک با ر پھر پارلیمنٹ میں اُٹھانے کا اعلا ن کیا ہے۔

پاکستان کو اس اتحاد کا حصہ کیوں نہیں بنانا چاہئے!

کیونکہ
پاکستان افغانستان کے مسئلے میں شامل ہونے کا نتیجہ دیکھ چکاہے، جسکا خمیازہ ہم ۳۰ سال سےسہہ رہے اور ۶۰ ہزار پاکستانی افغان جنگ کے نتیجے میں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

اس اتحاد میں شامل ہونا پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی کی نفی ہے ، کیونکہ ہمارا آئین ہمیں اسلامی ممالک سے خوش گوار تعلقات استوار کرنے پر زور دیتا ہے،اس اتحاد میں شامل ہوکر اسلامی دنیا میں پھوٹ پڑنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہونے والے۔

اس اتحاد میں شامل ہونا سعودی جرائم میں پاکستان کو شامل کرنے کے معترادف ہوگا، کیونکہ کسی سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سعودی عرب ہی دنیا بھر میں شدت پسند تنظیموں اور دہشتگردوں کو مالی و لوجسٹک تعاون فراہم کرتا رہا ہے۔

اس اتحاد کو عالمی سطح پر ایران مخالف اتحاد سمجھا جارہا ہے، جبکہ ایران پاکستان سے اپنے بارڈر بھی شیئر کرتا ہے لہذا پڑوسی سے تعلقا ت بگاڑ کر سمند پار بیٹھے بادشاہ کو خوش کرنا بے وقوفی تصور کی جائے گی۔

اس اتحاد کے ذریعہ پاکستانی فوج کے لئے عالم اسلام خصوصاً ان ممالک میں جہاں سعودی عزائم کی تکمیل کے لئے یہ اتحاد استعمال ہوگا وہاں کے مسلمانوں کے دلوں میں احساسات اور جذبات میں کمی واقع ہوگی۔

پاکستان کے اندار موجود ۵ کڑور سے زائد شیعہ مسلمانوں کے خدشات میں اضافہ ہوگا۔

کیونکہ اس لئے کہ پاکستان کا کسی بین الاقوامی الائنس میں شامل ہونے کا فیصلہ تنہا وفاقی حکومت نہیں کرسکتی ۔

لہذا پاکستان ملک کی مخلص قیادت ،پارلیمنٹ اور حکمرانوں سے بھی درخواست ہے خدارا ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملک کو کسی نئی دلدل میں داخل ہونے سے بچائیں،  ہم نے عالم اسلام کے تمام مسائل کو حل کرنے کا ٹھیکا نہیں اُٹھا رکھا ، اگر سعودی عرب کی حکومت گرتی ہے تو گرنے دیں کیونکہ اپنی اس حالت کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اور رہی با ت حرمین شرفین کی تو اسکی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے اُٹھائی ہے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

تحریر۔۔۔۔سید احسن مہدی

وحدت نیوز (آرٹیکل) قرار داد پاکستان کے وقت  قائداعظم نے فرمایا کہ  "لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان  ایک علیحدہ قوم ہے اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن اپنا علائقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہئے  ، ہم چاہتے ہیں کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہم سایوں کے ساتھ  امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں  اور اپنی روحانی ، ثقافتی ،معاشی ، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اس طریق پر زیادہ سے زیادہ ترقی دیں جوہمارے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نسب العین سے ہم آہنگ ہو ۔"

اے قائد تیرااحسان ہے ہم پر کہ ہمیں ہماری شناخت دی ہمیں آزادی دلائی ہمیں اپنا وطن دیا جس پر ہم جتنا فخرکریں کم ہے کہ ہم غلامی کی
 ذلت سے  سے آزادی و حریت  کی عزت  وعظمت سے ہمکنار ہوئے مسلمانوں کے اس وطن میں کہیں بھی لسانی ، سیاسی یا  فرقہ ورانہ گروہ بندی کا کوئی شائبہ تک نہیںتھا  ،  مگر دشمن کو یہ بہت ناگوار گذرا  اس نے اس وقت سے لے کر آج تک ہم سے اسی کا بدلہ لینا شروع کیا جو ہم نے اتحاد آپ کی قیادت میں دکھایا  دشمن نے آپ کوبھی بہت دکھ دیئے اور ساتھ ساتھ آپ کی دلائی ہوئی آزادی کو بھی پارہ پارہ کردیا دشمن کا ہمیں کوئی  ڈر اور دکھ نہیں مگر اب تو شکوہ اپنوں کا ہے ۔

 آج کسی دوست نے پیغام بھیجا کہ مردم شماری والے دوسری معلومات کے ساتھ  جب مسلم لکھواتے ہیں تو فرقے کے بارے میں بھی پوچھتے ہیں کہ سنی ہو یا شیعہ  اگر کوئی سنی لکھواتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ بریلوی ہو دیوبندی  اہلحدیث ہو  ہووغیرہ وغیرہ   ۔یہ سن کر حیرانی ہوئی یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے اداروں کو ہماری نسب العین کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہماری حکومتیں بھی ان کے آلہ کار کے طور پر ان کے ہی ایجنڈا پر کام کرنا شروع کردیتی ہیں اور قانون اور آئین کی یوں سرعام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور ادارے خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہتے ہیں اور سب اسمبلیاں جہاں آئین کے تقدس کی رٹ لگی رہتی ہے وہ بھی ایسے خاموش ہو جاتے ہیں جیسے ان کے منہ میں زبان نام کی کوئی چیز ہی نہ ہو خیر ان کو کیا پڑی کہ وہ اپنے آقائوں کے خلاف ہوں جبکہ اس میں ان کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو بڑے بڑے قانون کے ماہر جن کی فیس سن کر ہی ان کے بڑے قانوندان ہونے کا احساس ہوتاہے وہ بھی اس معاملے سے نظریں چرارہے ہیں اور حکومت تو ویسے بھی اپنے جرم چھپانے میں اتنی مصروف ہے کہ اس کو کوئی دوسرا ہوتا ہواجرم نظر ہی نہیں آتا ، اور عدلیہ بھی کیا کرے کہ اس کے پاس سو ئوموٹو کا اب فیشن ہی نہیں رہا  یاپھر  شاید وہ بھی ایک موسم کی طرح ہی ہوتا ہے ۔

بحرحال  جب قرارداد پاکستان اور آئین پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو فرقہ ورانہ تقسیم کہیں نظر نہیں آتی بلکہ پاکستانی من حیث القوم  ایک قوم ہی ملتی ہے جسے  دشمن  نے مختلف  لسانی اور علائقائی  اور سیاسی گروہوں میں تو تقسیم کرہی دیا ہے  اور اب  اسے فرقوں میں تقیم در تقسیم کیا جارہا ہے ۔

جب مسلم کی حیثیت سے اس سارے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتاہوں تو قرآن کی روشنی میں  ایک بات ملتی ہے کہ اگر حکمران فرعوں کی طرز کا ہو تووہ بڑی بڑی قوموں کو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے تاکہ اس میں ضعف پیدا ہوجائے ۔
(سورہ قصص  )  
اب یہ سمجھ نا ہے کہ یہ فرعون کوئی لوکل ہے یا امپورٹیڈ یا کہیں بیٹھ کر ان کو اپنے اشارے پر نچارہاہے اس طرح ہمارے ملک کو مسلکی بنیاد پر تقسیم کرنایقیناَ بے وجہ تو نہیں خصوصاَ اس وقت جب مذہبی ہم آہنگی کی مسلمانوں میںپہلے سے زیادہ ضرورت ہو ایسے وقت میں مسلمانوں کی مسلکی تقسیم کچھ خاص اشارہ تو کرہی رہی ہے ۔  

یہ سب ہونے کے بعد اس آفت زدہ قوم سے کہ جو صبح اٹھتی ہے تو چائے بنانے کے لئے سوئی گیس نہیں ہوتی ، آفس جانے کے لئے کپڑے استری کرے توبجلی نہیں ہوتی ، گھر سے آفس جائے توباہر سڑک نہیں ہوتی حد تو یہ کہ باہر نکلا تو واپسی کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی  ایسی بے یارومددگار قوم کو اس قدر تقسیم کرکے اس قوم سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس ملک میں  ایک قوم بن کر رہواس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی مضحکہ خیز بات ہو کہ جس کو حکومتی سطح پر تقسیم کرنے کی اس قدر کوششیں کی جائیں اسی سے ہم آہنگی اور یکجہتی  اور ایک قوم بننے کا مطالبہ بھی کیا جائے ۔

کیا کوئی تاریخ پاکستان کا ماہر بتا سکتاہے کہ  1940  میں  جب قرارداد پاکستان پیش ہوئی تھی تو اس وقت اس اجلاس میں بیٹھے ہوئے ایک لاکھ کے مجمع میں جس میں شیعہ سنی موجود تھے کسی ایک کے وہم و گمان میں بھی یہ بات تھی کہ جس  قوم کوہم آزادکرا رہے ہیں اس کو  اسی ملک میں سرکاری سطح پر تقسیم کیا جائے گا ۔  اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ہم کو مننا پڑے گا کہ ہم اپنے اس نظریے سے کتنی وفا کررہے ہیں  ۔

اس آئینے میں دیکھنے کے بعد ہمیں مردم شماری کی اصلیت کو سمجھنا چاہئے جبکہ ابھی تک حکومت کی جانب سے ریفیوجیز کیمپس جو کچی آبادیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں کے بارے میں کوئی پالیسی واضع نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی اب تک فارم کچی پینسل سے پر کرنے پر حکومت نے کوئی ایکشن لیا ہے نہ ہی اس مردم شماری میں کوئی متناسب نمائیندگی موجود ہے  اس مردم شماری کے نتیجے میں آبادیاتی و ثقافتی تبدیلی آجائے گی جو کسی بھی قوم کے لئے موت کے مترادف ہے  امید ہے اگر حکومت  اور سیاسی پارٹیاں اس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہیں  تو ہم عوام اپنی زندگی اور موت کے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں ۔


تحریر۔۔۔۔عبداللہ مطہری

وحدت نیوز(آرٹیکل) سیانے بہت کچھ کہتے ہیں،مثلا مشورہ کر کے فیصلہ کرنا چاہیے، فیصلہ کر کے قدم اٹھاناچاہیے، بولنے کے بعد سوچنے سے بہتر ہے کہ سوچنے کے بعد بولا جائے، صحیح بات بھی غلط موقع پر نہیں کرنی چاہیے۔ جیسے خوارج کی بات صحیح تھی لیکن موقع محل غلط تھا،جب موقع و محل تبدیل ہوتا ہے تو زبان و ادبیات کے تقاضے ، رہن سہن کے آداب اور سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں۔

ہماری ایک بہت محترم اور قریبی شخصیت کے بارے میں کچھ بتا تا چلوں، موصوف کا شمار اچھے خاصے سیانوں میں ہوتا ہے، آئی ٹی میں پی ایچ ڈی ہیں، آج کل ایک عرب ملک میں پروفیسر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب پہلی مرتبہ  ایک عرب ملک  کی  یونیورسٹی میں  انہوں نے ملازمت کے لئے اپلائی کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں  بلا کرصاف کہہ دیا کہ آج سے آپ  ان طالب علموں کے مرشد ہیں۔

مرشد کی اصطلاح سنتے ہی موصوف کے ذہن میں پاکستانی پیرومرشد گھومنے لگے۔وہ کہتے ہیں کہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایڈوائزر کو یہاں کی اصطلاح میں مرشد کہا جاتا ہے۔

اسی طرح ایک مرتبہ انہیں کسی کام کے سلسلے میں تھانے جانے پڑا  تو وہاں ایک کمرے کے باہر لکھا تھا مکتب سیر و سلوک۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو خوش ہوئے کہ یہاں تو تھانوں سے میں بھی عرفانی باتیں ہوتی ہیں اور سیروسلوک کا شعبہ موجود ہے ، شاید بعض مجرموں کی سیروسلوک سے اصلاح کی جاتی ہو،  پوچھنے پر پتہ چلا کہ جس شعبے سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، اسے یہاں کی اصطلاح میں مکتب  سیرو سلوک کہا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ  بعدازاں مجھے پتہ چلا کہ یونیورسٹی کے طلاب کو اولی الامر سے بھی پالا پڑتا ہے۔ اولی الامر کے بارے میں چھان بین کی تو یہ جان کر ہنسی آگئی کہ یہاں گارڈین کو اولی الامر کہا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے شہر کے چوک میں تیر کے نشان کے ساتھ ایک بورڈ لگا ہو ہے ولایۃ مدحا، ہمیں بہت تجسس ہواکہ ولایت فقیہ تو سنا تھا اب یہ کونسی ولایت ہے، مقامی لوگوں نے استفسار پر بتایا کہ یہاں پر اس کلمے سے مراد ضلع ہے۔

موصوف کے مطابق، یونیورسٹی کے دفتر میں بعض ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آئے  کہ وہ کسی کو سامنے کھڑا کر کے انت حرامی کہہ دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فورا اس بدتمیزی کے خاتمے کے لئے ایکشن لینے کا سوچا تو ہمیں بتا یا گیا کہ یہاں غلطی کرنے والے کو حرامی کہا جاتا ہے ، لہذا اگر کوئی دفتری اہلکار کوتاہی کرے تو اسے محبت سے سمجھاتے ہوئے حرامی ہی کہاجاتا ہے۔

بات اصطلاحات کی ہی ہو رہی ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ انتہائی نازک کام ہے۔ چالاک لوگ چند اصطلاحات کے ساتھ ہی اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔مثلا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح، اس اصطلاح سے وہی لوگ استفادہ کررہے ہیں جو خود دہشت گردوں کے سرپرست ہیں۔ اسی طرح دینی طالب علم کی اصطلاح کو ہی لیجئے،  یہ اصطلاح خود طالب علموں کا حق مارنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے، مثلا آپ ایک کام  اگر کسی اور سے کروائیں تو اسے آپ کو حق زحمت دینا پڑتا ہے لیکن آپ ایک دینی  طالب علم سے اپنا کام نکلوائیں اور پھر  آرام سے کہہ دیں کہ آپ تو دینی طالب علم ہیں۔۔۔

دینی طالب علم بھی تو دو طرح کے ہیں، ایک وہ ہیں جو پاکستان اور بانی پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں اور پاکستان دشمنوں کے ایجنٹ ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو پاکستان کی محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں اور ملک و ملت کے تحفظ کی خاطر جان دینے کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔

آج کل ہمارے ہاں جو بھی دینی طالب علم ہو اسے دہشت گرد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہمارے حساس ادارے بلاتفریق سارے دینی طالب علموں کو ملک دشمن ہی سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ ملک دشمن دینی مدارس کی تنظیمیں، ٹرسٹ،مدرسے ، مساجد،مفتی ، مولوی، مراکز اور مذہب وغیرہ سب کچھ مشخص ہے۔

اپنے ملک کے سیکورٹی اداروں سے ہماری گزارش ہے کہ اگر آپ واقعی اس ملک کی سلامتی کے لئے مخلص ہیں تو پھر عام شہریوں خصوصا دینی طالب علموں کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آئیں، آپ ملکی سلامتی کے لئے بھرپور تحقیق اور تفتیش کریں لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ،اس انداز میں باز پرس کریں  کہ پاکستانی عوام   اور دینی طالب علم اس میں اپنی توہین یا خوف محسوس نہ کریں ۔

اسی طرح ہمارے ہاں استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح اقلیت کی بھی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں اقلیت میں ہونا کوئی جرم ہے۔ حتی کہ صفائی کے اشتہار میں بھی خاکروبوں کی بھرتی کے لئے  اقلیت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ خاکروب اس لئے خاکروب نہیں ہیں کہ وہ اقلیت میں ہیں ، بلکہ وہ اس لئے اس پیشے کو اختیار کرتے ہیں کہ وہ تعلیمی حوالے سے پسماندہ ہیں۔لہذا خاکروب کے لئے اقلیت کے بجائے تعلیمی پسماندگی شرط ہونی چاہیے تاکہ لوگ کسی  اقلیت کو پسماندہ اور گھٹیا سمجھنے کے بجائے تعلیمی پسماندگی سے نفرت کریں ۔

حالیہ دنوں میں خیبر پختونخواہ میں خاکروبوں کی بھرتی کے لئے  اقلیت میں ایک مسلمان فرقے کا نام بھی لکھا گیا، جس کے بعد لوگوں نے احتجاج کیا اور  خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اس پر معذرت کر لی۔

یہ معذرت کی اصطلاح بھی ایک فیشن بن گئی ہے۔  کیا اس لفظ معذرت سے حکومت  کی ذمہ داری ادا ہوگئی ہے!؟

اس معذرت کے بعد تو حکومت اور عوام سب کی اجتماعی ذمہ داری شروع ہوتی ہے ۔ اب ضروری ہے کہ ہم غلطی، احتجاج اور معذرت کے دائرے سے باہر نکلیں۔  بلاتفریق مذہب و مسلک تمام پسماندہ طبقات کے لئے ایسے خصوصی اور معیاری تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جہاں ہنگامی بنیادوں پر علم کی روشنی کو پھیلایاجائے۔

یاد رکھئے !سیانے بہت کچھ کہتے ہیں،مثلا جب موقع و محل تبدیل ہوتا ہے تو زبان و ادبیات کے تقاضے ، رہن سہن کے آداب اور سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں۔  اس وقت موقع و محل کے اعتبار سے  فقط معذرت کے لفظ پر خوش ہوجانا بہت بڑی غلطی ہے۔ خوشی کا مقام تب ہے کہ جب  پسماندہ طبقات کی پسماندگی کے خاتمے کے لئے ادارے اور سکول  بھی بنائے جائیں۔

ہمیں ایک لفظ کی غلطی پر معذرت طلب کرنے کے بجائے اس پر معذرت کرنی چاہیے کہ ہم ایک عرصے سے اپنے ملک میں  تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے فریضے سے غافل تھے۔ اس واقعے سے ہم جاگے ہیں اب معذرت کی لوریاں سننے کے بعد دوبارہ سوجانا کوئی عقلمندی نہیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) فضائل کی دوقسمیں ہیں۔ ایک ذاتی فضائل اور دوسری نسبی فضائل ۔  ذاتی فضائل سے مراد وہ کمالات ہیں جو کسی شخصیت کے اندر ذاتی طور پر موجودہوتاہے ۔ فضائل نسبی وہ صفات ہیں جو دوسری چیز کے ساتھ نسبت دینے سے اس کے اندرلحاظ ہوتی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا  میں دونوں طرح کی صفات اور فضائل ہیں۔ وہ فضائل جو کسی اور سے منسوب ہونے کی وجہ سے ان میں پائے جاتے ہیں اور وہ فضائل جو کسی سے منسوب ہوئے بغیر خود ان کی ذات کے اندر موجود ہیں۔ اس  مختصر مقالہ میں ہم حضرت  فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے فضائل کا تقابلی جائزہ لینے کی کو شش کریں گے۔

۱۔خاندانی شرافت
قانون وراثت کے مطابق والدین کی صفات جیسے نجابت و شرافت  وغیرہ  فرزند کی طرف منتقل ہوتے ہیں ۔ابن عساکر اور ابن اسحق کے بیان کردہ شجرہ نسب کے مطابق حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے والد گرامی جناب عمران حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے اور بنی اسرائیل کے امام تھے ۔ ان کی خاندانی شرافت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جناب عیسی ٰ علیہ السلام جسے اولوالعزم نبی اس خاندان سے آئے ۔قرآن کریم میں اس خاندان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:{ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحا و آل ابراھیم و آل عمران علی العالمین } بے شک اللہ نے آدم ، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالمین پر برگزیدہ فرمایا ۔

جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی خاندانی شرافت تمام مسلمانوں کیلئے روشن ہے سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے اس خاندان سے محبت کو  اجررسالت قرار دیا ہے ۔امام رضا علیہ السلام کی روایت کے مطابق اوپر والی آیت میں آل ابراہیم سے مراد خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے ۔ اس کے علاوہ آیت تطہیر میں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں واضح  طور پر فرمایا ہے ۔سورۃ ابراہیم میں اس خاندان کو شجرۃ مبارکۃ  سے تعبیر کیا ہے اسی طرح سورہ انسان اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں نے نازل ہواہے ۔

۲۔والدین   
 جناب مریم سلام اللہ علیہاکے والد گرامی جناب عمران تھے اور ان کا سلسلہ نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے ملتا ہے امام صادق علیہ السلام واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ جناب عمران اور جناب زکریا دونوں اپنے دور کے پیغمبروں میں سے تھے ۔  
جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہاکے والد گرامی محمد بن عبداللہ خاتم انبیاء اور خاتم الرسل ہیں۔ آپ تمام مخلوقات سے اشرف و اعلیٰ ہیں انہی کی وجہ سے خداوند عالم نے کائنات کو خلق فرمایا : یا احمد ! لولاک کما خلقت الافلاک  اے احمد میں تجھے خلق نہ کرتا تو کائنات کو خلق نہ کرتا ۔
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی والدہ اپنے زمانے کی عبادت گزار خاتون تھیں اور صاحب اولاد نہیں تھی انھوں نے خدا سے اولاد کی دعا کی تو لطف الہی سے حاملہ ہوئیں ۔ان کی شرافت اتنی تھی کہ خدا ان کی نذر قبول کر کے فرماتا ہے {فتقبلھا ربھا}  اس کے رب نے اسے قبول کیا۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی والدہ گرامی وہ عظیم خاتون ہیں جس کے بارے میں رسول  خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں ۔ {واللہ ما اخلف لی خیرا منھا ، لقد اٰمنت بی اذکفر الناس صدقتنی اذکذبنی الناس ۔۔۔۔۔} خدا کی قسم ! مجھے خدیجہ سے بہتر بیوی عطا نہیں کی گئی ۔ اس نے اس وقت مجھ پر ایمان لایا جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے ۔ اور اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے ۔ دوسری جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جناب زہراء سلام اللہ علیہاسے فرماتے ہیں { ان بطن امک کالامامۃ و عاء} گویا تیری والدہ کا شکم امامت کے لئے ایک ظرف کی مانند تھا ۔ جناب خدیجہ نے اپنا سارا مال راہ اسلام میں خرچ کئے۔ جناب خدیجہ ان چار خواتین میں سے ہیں کہ بہشت ان کی مشتاق ہے۔  

۳۔اسم گذاری
جناب مریم سلام اللہ علیہاکا نام ان کی والدہ نے رکھاجیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:{ انی سمیتھا مریم }  میں نے اس بچی کا نام مریم رکھا جس کا معنی عابدہ اور خدمتگزارکے ہے ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکا نام خداوند عالم کی جانب سے معین ہوا ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا کے نزدیک فاطمہ سلام اللہ علیہاکے نو اسماءہیں :فاطمہ ، صدیقہ ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ ، محدثہ اور زہرا  ۔  امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب فاطمہ سلام اللہ علیہاکی ولادت ہوئی تو خدا نے ایک فرشتہ کو بھیجا تا کہ نام فاطمہ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان پر جاری کرے اور اس طرح آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا۔

۴۔ظاہری حسن
امام باقر علیہ السلام جناب مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں فرماتے ہیں:{ اجمل النساء}  وہ ساری عورتوں سے زیادہ خوبصورت خاتون تھیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن ان عورتوں کے سامنے جو اپنی خوبصورتی کو فساد کا بہانہ قرار دیتی ہیں جناب مریم سلام اللہ علیہاکو پیش کیا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم مریم سلام اللہ علیہا سے بھی زیادہ خوبصورت تھی ؟  
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتے ہیں :{ کانت فاطمۃ سلام اللہ علیہاکوکبا دریا بین النساء العالمین } حضرت زہراء سلام اللہ علیہاعالمین کی تمام عورتوں کے در میان ستارہ ضوفشاں ہیں ۔ بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکو زہرا ان کے نورانی چہرے کی وجہ سے کہا گیا  ہے۔ رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ فاطمۃ حوراء الانسیۃ } فاطمہ انسانی شکل میں حور ہیں ۔ مجموعہ روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب سیدہ کے چہرے سے نور پھوٹتا تھا اور وہ چودھویں چاند کی طرح چمکتا تھا جب مسکراتی تھیں تو ان کے دانت موتی کی طرح چمکتے تھے۔
۵۔ایمان کامل
حضرت مریم سلام اللہ علیہااورحضرت زہراءسلام اللہ علیہا دونوں ایمان کامل کے درجہ پر فائز تھے۔ جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں:{ کمل من الرجال کثیر و لم یکمل من النساءالا مریم بنت عمران و آسیۃ امراۃ فرعون و فاطمہ } مردوں میں سے بہت سارے لوگ  ایمان کامل کے درجے پر فائز تھے لیکن عورتوں میں سے سوائے مریم بنت عمران ،آسیہ اور فاطمہ کے کوئی کامل نہیں ۔

۶۔ ظاہری آلودگیوں سے پاک
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو خط نجاشی کو لکھا اس میں جناب مریم سلام اللہ علیہاکو بتول کے نام سے یاد  فرمایا ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق مریم سلام اللہ علیہا اور فاطمہ سلام اللہ علیہادونوں بتول تھیں ۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ بتول سے مراد کیاہے ؟ تو فرمایا :{البتول لم ترحمرۃ قط ای لم تحضن فان الحیض مکروہ فی بنات الانبیاء} بتول یعنی وہ خاتون جس نے کبھی سرخی نہیں دیکھی ہو یعنی کبھی حائض نہ ہوئی  ہوکیونکہ حیض انبیاء کی بیٹیوں کیلئے ناپسند ہے۔ قندوزی نے ینابیع المودۃ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بتول اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ خداوند عالم نے اسے حیض و نفاس سے دور فرمایا ہے ۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے لئے صفت طہارت کا ہونا قطعی امر ہے جبکہ جناب مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں روایات مختلف ہیں بعض روایات کے مطابق خاص دونوں میں جناب مریم سلام اللہ علیہامسجد سے باہر جایا کرتی تھی ۔  

۷۔کفیل اور سرپرست
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی والدہ گرامی ان کی ولادت سے پہلے ہی فوت ہو چکی تھی ان کی والدہ نے ان کومعبد کے لئے نذر کر چکی تھی جب مریم سلام اللہ علیہا کو معبد منتقل کردی گئی تو معبد کے راہبوں کے درمیان ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف ہوا اس لئے قرعہ اندازی ہوئی تو جناب زکریا کا نام آیا جو کہ بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے خالو تھے۔  {و کفلھا زکریا}  
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے کفیل اور سرپرست ان کے بابا حضرت محمد مصطفی  ہیں ۔حضرت زکریا علیہ السلام جب جناب مریم سلام اللہ علیہاکے محراب عبادت میں داخل ہوتے تھےتو غیر موسمی پھل دیکھ کر حیران ہوجاتے تھے لہذا پوچھتے تھے :{کلما دخل علیہا زکریا المحراب وجد عندھا رزقا قال یا مریم سلام اللہ علیہا انی لک ھذا } اسی طرح بی بی دو عالم فاطمہ سلام اللہ علیہاکی کرامات دیکھ کر اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  جیسے سلمان و ابوذر بی بی حیران ہوجاتے تھے ۔

۸۔عصمت اور طہارت
خداوند عالم نے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو نجاستوں سے پاک فرمایا :{و اذ قالت الملائکۃ یا مریم سلام اللہ علیہا ان اللہ اصطفک و طھرک۔۔۔۔۔}  ( وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا بے شک اللہ نے تمھیں برگزیدہ کیا ہے اور تمھیں پاکیزہ بنایا ہے۔ جناب زہراء سلام اللہ علیہاکیلئے اللہ تعالی  فرماتا ہے:{ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطہرکم تطہیرا}  اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی پاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ یقینا فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا قطعی طور اس آیت کی مصداق ہیں بہت سارے اہل سنت مفسرین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاجزء اہل بیت اور اس آیت میں شامل ہیں ۔

۹۔تمام خواتین پر فضیلت
جناب مریم سلام اللہ علیہاکو اپنے زمانے کی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے جب کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکو تمام زمانوں کی عورتوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ خداوند عالم جناب مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرماتا ہے:{ ان اللہ اصطفاک و طہرک و اصطفاک علی نساء العالمین} جناب زہراء سلام اللہ علیہاکی فضیلت تمام زمانے کے عورتوں پر ہے اور اس کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:{ کانت مریم سیدۃ  نساء  زمانہا اما ابنتی فاطمہ فہی سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الاخرین } جناب مریم   اپنے زمانے کی تمام عورتوں کی سردار تھی لیکن فاطمہ تمام زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہامحراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو ۷۰ ہزار مقرب فرشتے ان کو سلام کرتے تھے اور اور کہتے تھے اے فاطمہ! خداوند عالم نے تجھے چن لیا، پاک کردیا اور تجھے تمام عورتوں پر فضیلت دی ہے ۔  

۱۰۔فرشتوں سے ہم کلام ہونا
جناب مریم سلام اللہ علیہامحدثہ تھی اور جبریل ان پر نازل ہوتے تھے :{ قالت الملائکہ یا مریم سلام اللہ علیہا ان اللہ یبشرک ۔۔۔۔}  جب جناب مریم سے فرشتوں نے کہا اے مریم! خدا تجھے اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ جناب مریم سلام اللہ علیہاسے گفتگو کرتے ہیں:{فقال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا} جناب مریم سلام اللہ علیہاجب حاملہ ہوئیں اور بہت زیادہ غمگین ہوئیں تو آواز آئی اے مریم غمگین نہ ہوجاؤ:{ فناداھا من تحتھا الا تحزنی }  
جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بھی محدثہ تھیں امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہاکو محدثہ کہتے ہیں کیونکہ فرشتے آسمان سے ان پر نازل ہوتے تھے اور اسی طرح ندا دیتے تھے جیسے جناب مریم سلام اللہ علیہاکو دیتے تھے ۔ مصحف فاطمہ فرشتوں سے فاطمہ سلام اللہ علیہاکی گفتگو کا نتیجہ ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ ان عندنا مصحف فاطمہ }ہمارے پاس مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہاہے ۔ حضرت زہراء جب اپنے بابا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بہت زیادہ غم و اندوہ سے دچار ہوئیں تو خداوند عالم نے ان کو تسلی دینے کیلئے جبرئیل اور فرشتوں کو بھیجا تا کہ ان کو تسلی دیں ۔ امام خمینی  رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق حضرت زہراء کی سب سے بڑی فضیلت  ۷۵ یا ۹۵ دن تک جبرئیل امین کا مسلسل در خانہ زہرا پر نازل ہونا ہے،اوریہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے مخصوص فضیلت ہے ۔

۱۱۔کرامت اور تصرف تکوینی
حضرت مریم سلام اللہ علیہانے خدا کے حکم سے کھجور کے خشک درخت کو ہلا یا تو فورا پھل دار درخت بنا اور تازہ کھجوریں نکل آئے اور جناب مریم سلام اللہ علیہانے اسے تناول کیا ۔ {و ھزی الیک بجذع النخلۃ ۔۔۔۔ جنیا} اس کھجور کے درخت کی ٹہنی کو ہلاؤ تیرے لئے تازہ کھجوریں گریں گی ۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہابھی صاحب کرامات تھیں اور آپ کے بہت ساری معجزات آپ کے تصرف تکوینی کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ جیسا کہ چکی کا خود بخود چلنا ۔ بچوں کے جھولے کا خود بخود جھولنا  غذا کا آمادہ ہونا وغیرہ ۔یہ آپ کی تصرفات تکوینی کی مثالیں ہیں ۔ حضرت ابوذر غفاری کہتے ہیں : کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نےامام علی علیہ السلام کو بلانے کے لئے بھیجا جب میں امام علی علیہ السلام کے گھر
گیا اور آواز دی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا لیکن میں نے دیکھا کہ چکی خود بخود چل رہی ہے اور گندم آٹے میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔ جب کہ کوئی بھی چکی کے پاس کوئی بھی نہیں ہے ۔ میں واپس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں  نےایسی چیز دیکھی جس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی میں حیران ہوں امام علی علیہ السلام کے گھر میں چکی خود بخود چل رہی تھی اور کوئی بھی چکی کے پاس نہیں تھا ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہر لحاظ سے خداوند عالم نے میری بیٹی کے دل کو یقین سے اور اس کے وجود کو ایمان سے پر کردیا ہے ۔

۱۲۔بہشتی غذا کا ملنا
 بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہشتی کھانے خدا کی طرف سے ان کو میسر ہوتے تھے:{ کلما دخل علیہا زکریا۔۔۔ وجد عندھا رزقا ۔۔۔۔بغیر حساب}
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکے لئے بھی مختلف مواقع پر بہشتی غذا  میسر ہوئے۔ جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں: ایک دفعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بھوکے تھے اور آپؐ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور کھانے کا سوال کیا۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ حسنین بھی بھوکےہیں۔رسول خدا واپس چلے گئےاتنے میں ایک عورت نے دو روٹی اور ایک گوشت کا ٹکڑا جناب حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کی خدمت میں لے کر آیا۔آپؑ نے اسے پکایا اور رسول خدا ﷺکو کھانے پر دعوت دی درحالیکہ حسنین علیہم السلام  اور حضرت علی علیہ السلام بھی بھوکے تھے۔آپ ؑنے غذا کے برتن کو رسول خدا ﷺکے سامنے رکھ دیا ۔رسول خداﷺ نے جب برتن کو کھولا تو برتن گوشت اور روٹی سے بھرے ہوئے تھے۔پیغمبر اکرم ﷺنے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سےسوال کیا بیٹی اسے کہاں سے لائے ہو ؟آپؑ نے فرمایا:{ہو من عند الله ان الله یرزق من یشاء بغیر حساب} یہ اللہ کی طرف سےہے اور خدا جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا کرتا ہے۔رسول خدا نے فرمایا:{الحمد لله الذی جعلک شبیہۃ سیدۃ نساء بنی اسرائیل} تمام تعرفین اللہ کے لئے جس نے تجھے مریم جیسا قرار دیا ۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ اس غذا کو تمام ہمسائیوں نےبھی تناول کیا اورخدا نے اس میں برکت عطا کی ۔

۱۳۔مصائب و آلام
مشکلات کمال کے راستے میں ایک موثر عامل اور تقرب الہی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے لہذا خداوند عالم کے تمام اولیاء خاص مصائب و آلام کے شکار بھی ہوئے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:{ ان اشد الناس بلاء النبیون ثم الوصیون ثم الامثل فالامثل ۔۔۔۔} جناب مریم سلام اللہ علیہابھی بہت سارے مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہوئیں پوری زندگی والدین سے جدا ہونا ، بچپن میں بیت المقدس کی خدمتگزاری، تمام تر طہارت کے باوجود لوگوں کے ان کے بارے میں سوء ظن کرنا اور تہمت لگانا ، جناب عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کسی کا پاس نہ ہونا  ، باپ کے بغیر بچے کی پرورش کرنا یہ سارے مصائب و مشکلات  جناب مریم سلام اللہ علیہاپر آئے  ۔
جناب زہراء سلام اللہ علیہاکے مصائب و   مشکلات بے شمار ہیں۔ جب مادر گرامی کے شکم میں تھیں تب بھی اپنی والدہ کی تنہائی اور پریشانی
کو درک کرتی تھیں جب آپ دنیا میں تشریف لائیں تو اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام تر مشکلات اور اذیتوں کومشاہدہ کیں۔ پیدائش کے چند سال بعد اپنے بابا کے ساتھ شعب ابی طالب میں میں محصور ہوئیں اور  اس کے بعدرسول خدا کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوہ احد کے موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وفات کے بعد زہراء پر مصائب کا ہجوم آیا اور ایک نئی رخ سے مصائب کا آغاز ہوا اور آپ مسلسل گریہ کرتی رہیں ۔ آپ کا پہلو شکستہ ہوگئی آپ کا فرزند محسن شہید ہوا اس قدر مصیبتیں آئی کہ آپ موت کی تمنا کرنے لگیں ۔

۱۴۔موت کی آرزو
جناب مریم سلام اللہ علیہا شدت غم اور لوگوں کے جھٹلانے کی وجہ مرنے کی آرزو کرتی ہیں :{یا لیتنی مت قبل ھذا } اے کاش میں اسے پہلے مرگئی ہوتی ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی شدت غم کی وجہ سے مرنے کی آرزو کرتی تھیں اور فرماتی تھیں :{اللہم عجل وفاتی سریعا } خدایا ! جلد از جلد میری موت آئے خداوند عالم نے بھی ان کی دعا قبول کی ۔

۱۵۔ روزہ سکوت
حضرت مریم سلام اللہ علیہانے خدا کے حکم سے نادان لوگوں کی اہانت کے مقابلے میں سکوت کا روزہ رکھا تھا اور ان کے ساتھ بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا تھا { فلن اکلم الیوم انسیا} میں آج کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی ۔
جناب فاطمہ زہرا نے بھی خلیفہ اول و  دوم کے سامنے سکوت اختیار کی اور ان سے بات کرنے کو اپنے اوپر حرام قرار دیا اور فرمایا کہ میں ہرگز ان سے بات نہیں کروں گی:{  واللہ لااکلمک ابدا}  خدا کی قسم ! میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گی ۔

۱۶۔پاکیزہ  فرزند
 حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں قرآن میں آیا ہے :{ اللتی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا } مریم بنت عمران نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہیں ہم نے اپنی روح اس میں پھونک دی ۔خداوند عالم نے ان کی پاکیزگی کے نتیجے میں اپنی روح ان میں پھونک دی جس کے نتیجے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ خداوند عالم نے جناب زہراء سلام اللہ علیہاکو ان کی پاکدامنی کے نتیجے میں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام جیسے طاہر فرزند عطا کیے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :{ان فاطمۃ سلام اللہ علیہااحصنت فرجھا فحرم اللہ ذریتھا علی النار} بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہانے اپنی عصمت کی حفاظت کی پس خدا نے ان کی نسل پر آگ حرام کر لیا۔
حسان بن ثابت اسی بات کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے :
و ان مریم سلام اللہ علیہا احصنت فرجھا و جاءت بعیسی علیہ السلام کبدر الدجی
فقد احصنت فاطمۃ سلام اللہ علیہابعد ھا و جاءت بسبطی نبی الھدی۔  
بے شک جناب مریم سلام اللہ علیہانے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور چاند جیسے حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں لائیں ۔
فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی اپنی عصمت کی حفاظت کی اور رسول خدا کے دو نواسوں کو دنیا میں لائیں ۔
علامہ اقبال حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہتےہیں :
                                                               آن یکی شمع شبستان حرم
                                                                حافظ جمعیت خیر الامم
اسلامی تاریخ کی یہ وہ درخشاں ترین شخصیت ہے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا اور یہ ثابت کر دیا کہ امت کی شیرازہ بندی میں امام کی حیثیت، نظامِ کائنات میں سورج کی مانند ہوتی ہے۔
                                                              تانشیند آتشِ پیکارو کین
                                                              پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین
امام حسین علیہ السلام کے بارے میںعلامہ اقبال کہتے ہیں :
                                                        آن دگر مولائے ابرارِ جہان
                                                        قوتِ بازوئے احرارِ جہان
تمام عالم کے ابراروں کے مولا و سردار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں، دُنیا میں جتنے بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے وہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  کا بیٹا حسین علیہ السلام ہے۔

۱۷۔عبادت و بندگی
قرآن کریم حضرت مریم سلام اللہ علیہاکے بارے میں فرماتا ہے:{ و کانت من القانتین } ان آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہامسلسل اطاعت ، نماز ، طولانی قیام اور دعا میں مشغول  رہتی تھیں ۔ ابن خلدون لکھتا ہے کہ جناب مریم سلام اللہ علیہانے اس قدر عبادت کی کہ لوگ ان کی مثال دیتے تھے ۔ جناب مریم سلام اللہ علیہا محراب میں خدا کی عبادت میں مشغول رہتی تھی۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی محراب عبادت میں خدا سے راز و نیاز کرتی تھیں امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں :{اذا قامت فی محرابہا    ۔۔ نورھا لاہل السماء} جب وہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی تھیں تو اہل آسمان کیلئے ان کا نور چمکتا تھا۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہانے بھی اپنی مختصر زندگی میں اس قدر عبادت کی کہ امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے شب جمعہ اپنی والدہ کو محراب عبادت میں دیکھا کہ وہ مسلسل رکوع و سجود بجالاتی رہیں یہاں تک کہ صحیح کی سفیدی نمودار ہوئی اور میں نے سنا کہ مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعا کرتی تھیں۔  حسن بصری کہتا ہے کہ اس امت میں فاطمہ سلام اللہ علیہاسے بڑھ کر کوئی عبادت گذار نہیں ملتا اس قدر عبادت میں کھڑی رہیں کہ ان کے پاؤں میں ورم آچکے تھے ۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عبادت و قنوت اس حد تک تھی کہ آپ مصداق آیہ کریمہ  {الذین یذکرون اللہ قیاما و قعوداً} تھیں  ۔

۱۸۔معصوم کے ہاتھوں غسل
جناب مریم سلام اللہ علیہاکی وفات کے بعد جناب عیسی علیہ السلام نے انھیں غسل دیا ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکو بھی امام علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا ۔مفضل نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا فاطمہ سلام اللہ علیہاکو کس نے غسل دیا تھا  فرمایا : امیر المومنین علیہ السلام نے۔ مفضل کہتا ہے میں یہ بات سن کر حیران ہوا لہذا امام نے فرمایا گویا تم یہ بات سن کر غمگین ہوئے ہو میں عرض کیا جی ہاں میری جان آپ پہ قربان !ایسا ہی ہے ۔ امام نے مجھ سے فرمایا غمگین نہ ہو جاؤ، کیونکہ فاطمہ سلام اللہ علیہاصدیقہ تھیں اور سوائے صدیق کے کوئی غسل نہیں دے سکتا تھا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ مریم سلام اللہ علیہا کو سوائے عیسی علیہ السلام کے کسی اور نے غسل نہیں دیا۔  

حوالہ جات:
   امام حافظ ، عماد الدین ، قصص الانبیاء ، ص ۵۴۰۔
   آل عمران : ۳۳۔
   شوریٰ : ۲۳۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۳ ، ص : ۱۶۶۔
   الاحزاب : ۳۳۔
  ابراھیم : ۲۴۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۲ ، ص : ۱۸۴۔
   قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد ، ص : ۶۳۔
   مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ، ج ۱۴، ص ۱۹۴۔
   آل عمران ، ۳۷۔
   محدث اردبیلی، کشف الغمہ ، ج۱، ص ۴۷۹۔
  مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۴۳۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص ۵۳۔
   آل عمران : ۳۶۔
   طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ج۳ ، ص : ۱۷۳۔
   محدث اردبیلی ، کشف الغمہ ، ج:۱ ، ص ۴۳۹۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج۴۳، ص : ۱۳۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ج۱۴ ، ص ۲۰۴۔
   یضاً ، ص: ۱۹۲۔
   بحرانی، ھاشم بن سلیمان، البرھان فی تفسیر القرآن ، ج۴ ، ص : ۶۶۔     
  قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد ، مترجم الطاف حسین  ص ۲۳۱۔
   ایضاً ، ص : ۱۸ ۔
   سیوطی ، عبدالرحمن ، الدر المنثور ، ج۲ ، ص : ۲۳۔
   آیتی ، عبدالمحمد، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ص ۴۳۴۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۴۳، ص : ۱۴۔
   قندوزی ، سلیمان، ینابیع المودۃ، ص : ۳۲۲، حدیث : ۹۳۰ ۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ص ۱40، ص ۱۹۷۔
   حافظ، عماد الدین ، قصص الانبیاء، ص : ۵۴۰۔
   آل عمران ، ۳۶۔
   آل عمران : ۳۷۔
   آل عمران : ۴۲۔
   الاحزاب :۳۳۔
   طبرسی، جامع البیان فی تفسیر القرآن ، ج: ۲۲، ص : ۷، سیوطی ، عبدالرحمن ، الدرالمنثور، ج۵، ص : ۱۹۸، قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ ، ج۱،ص :۳۱۹۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار، ج۴۳، ص : ۲۲، ۲۴، ۷۸۔
   مکارم شیرازی، زہراء برترین بانوی جہان۔
   ایضاً، ص : ۴۹۔
   آل عمران : ۴۵۔
   مریم : ۱۹۔
   مریم : ۲۴۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ج۴۳، ص ۷۸۔
   مجلسی ،محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص ۷۹۔
   مریم : ۲۵۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۲۹۔
   ایضاً : ص: ۴۵۔
   ایضا:ص :۳۰۔
   آل عمران :۳۷۔
   مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص ۲۷، ۳۱ اور ۷۷۔
   زمحشری نے کشاف میں اور سیوطی نے در المنثور میں سورۃ آل عمران کی آیت 37 کی تفسیر میں اس واقعے کو نقل کئے ہیں ۔
   خمینی رحمۃ اللہ علیہ  ، روح اللہ ، چہل حدیث ص : ۲۰۳۔
   مجلسی ، محمدباقر ، بحارالانوار ج ۴۳، ص : ۴۳۲۔
   نجمی محمد صادق ، سیری در صحیحین ، ص ۳۲۴۔
   ایضاً ، ص : ۳۲۵۔
   مریم : ۲۳۔  
   دشتی ، محمد، فرھنگ سخنان حضرت زھرا، ص : ۱۷۷۔
   مریم : ۲۶۔
   قزوینی ، محمد کاظم ، فاطمہ من المھد الی اللحد، ص : ۵۷۱۔
   تحریم : ۱۱۔
   شافعی ، ابراہیم ، فرائد السمطین ، ج۲ ، ص ۶۵۔
   مجلسی ، بحارالانوار ، ج۴۳، ص : ۵۰ ۔
   تحریم : ۱۲۔
   آیتی ، عبدالحمید، تاریخ ابن خلدون ، ج:۱، ص : ۱۶۰۔
  ابن بابویہ، محمد بن علی ، علی الشرائع ص : ۱۸۱۔
   ابن بابویہ ، محمد علی، علل الشرائع ، ص : ۱۸۲۔
   مجلسی ، محمد باقر ،بحارالانوار ، ج ۷۶، ص : ۸۴۔
   ٓل عمران : ۱۹۱۔
   ابن بابویہ ، محمد علی ، علل الشرائع ص : ۱۸۴۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل) سوریہ میں ذلت آمیز شکست اور یمن کی دلدل میں غرق ہو جانے کے بعد ، سعودیہ کے پاس کوئی اور چارہ ہی نہیں مگر یہ کہ وہ اپنی جائدادیں نیلام کرے....!اور جب وائٹ ہاؤس کا تخت نشین درجہ اول کا تاجر ، سوداگر  اور ڈیلنگ کا ماہر شخص ہو وہ یقینا اس مایوسی اور دیوالیہ کے دھانے پر پہنچنے والی مملکت کے سب سے بڑے حصے کا سودا کرے گا.  بن سلمان کو طلب کرنے کا اقدام خسارے میں جانے والی امریکی کمپنی کی پراپرٹیز کو اپنی تحویل میں لینے کے مترادف ہےاور سلسلے میں واقعات ،حیثیات ، اعداد وشمار اور حقائق قارئین کرام کے پیش خدمت ہیں۔

1-  محمد بن سلمان کی واشنگٹن ملاقات سے پہلے اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے. کہ اس آل سعود حکومت پر اصل کنٹرول امریکن سیکورٹی ٹیم کا ہے جو مختلف امور کے اسپیشلسٹ افراد پر مشتمل ہے. اور وہ دارالحکومت ریاض، امریکی سفارتخانے  میں مقیم ہے.اور وہ سعودیہ کے مختلف اداروں کے افراد سے ملکر ڈائرکٹ کام کرتی ہے. اور یہ ٹیم مختلف ممالک کے ما بین رائج باضابطہ اور تھرو پراپر چینل اسلوب اختیار نہیں کرتی اور نہ اسکی پابند ہے.

1- اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی حکومت کا کردار فقط عائد کردہ وظائف وفرائض کو ادا کرنا ہے. اور اسی بناء پر ریاض سفارتخانے میں مقیم امریکی سیکورٹی ٹیم مندرجہ ذیل اداروں سے ملکر کام کرتی ہے.
- وزیر دفاع ، محمد بن سلمان
- وزیر داخلہ ، محمد بن نایف
- ڈائریکٹر انٹیلی جینس ، الحمیدان
- وزیر خارجہ ، عادل جبیر

3- اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ امریکی سیکورٹی ٹیم ہی تمام تر معاملات چلاتی ہے اور سعودی حکمران فقط اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں. وہ حال ہی میں امریکی انٹیلی جینس کے سربراہ کا دورہ ہے.ابھی نئے امریکی صدر کی طرف سے جس شخص نے ریاض کا پہلا دورہ کیا وہ سی آئی اے (CIA) کے سربراہ بامبیدو تھے. جنھوں نے سعودی وزیر داخلہ محمد بن نایف سے ملاقات کی اور انھیں CIA کے لئے بہترین خدمات سرانجام دینے پر جورج ٹی نیٹ تمغہ امتیاز پہنایا. اور اس نے نہ ملک سلمان سے ملاقات کی اور نہ ہی انکے بیٹے محمد بن سلمان سے ملاقات کی.

4- اور محمد بن سلمان کو بذات خود امریکہ طلب کرنے کا مقصد یہ ہے. کہ امریکی حکومت اس بات سے آگاہ ہے کہ جب سے اسکا باپ ملک سلمان سعودیہ کا سربراہ بنا ہے اس نے اپنے بیٹے کو مختلف امور میں کافی حد تک با اختیار بنا دیا ہے.اور وہ اہم فیصلے کر سکتا ہے.اور اسی لئے اسے طلب کیا گیا (نہ کہ اسے واشنگٹن دورے) کی  دعوت دی گئی.

5- یاد رہے کہ اس ملاقات کا صدر ٹرامپ کو مشورہ سینیٹر جان مکین نے دیا تھا.  جب اس نے 21 /02 / 2017 کو محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی.اور مختلف امور پر بات چیت کی تھی. جن میں سے اہم بات امریکی اسلحہ کو سعودیہ کے لئے فروخت کرنا تھا. اس کے بعد محمد بن سلمان نے بذات خود امریکی عسکری مصنوعات کی کمپنی (Raytheon) کے مینجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات بھی کی تھی .

5- جان مکین کے واپس پہنچنے کے بعد اوباما کے دور سے سعودی کو اسلحہ فروخت کرنے کے معاملہ پر جو پابندی عائد کی تھی انہیں  09/03/2017 کو اٹھا لیا گیا. جس کی قیمت ایک ارب ایک سو پندرہ ملین ڈالرز تھی.سعودیہ کی فوری ڈیمانڈ کے پیش نظر ریتھرن کمپنی نے اس اپنے بنائے ہوئے اسلحہ کی ایک مقدار، اسرائیلی سورسز کے مطابق ،  اسرائیل کے اسٹورز سے نکال کر سعودیہ بھیجی.

6-  یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ Raytheon کمپنی پاٹریارٹ میزائل ، توماہونگ میزائل BGM 109 اور Sidewinder Aim 9 میزائل بھی بناتی ہے. اور یہ وہ میزائل ہیں جنہیں امریکی جنگی طیاروں نے یمنیوں کے سروں پر برسایا. اس لے علاوہ Phased Array Radar ریڈار سسٹم بھی بناتی ہے جوکہ ایرانی ویمنی ساخت پلاسٹک میزائل کا سراغ لگاتا ہے. ریتھرن کمپنی کی مصنوعات میں زمین سے فضاء میں ہدف کو نشانہ بنانے والے اور کاندھے پر رکھ کر چلانے والے اسٹنگر میزائل بھی شامل ہیں جو عنقریب امریکہ کی جانب سے شامی باغیوں کو دئیے جائیں گے.

7- امریکی صدر سے 14/03/2017 کی ملاقات سے پہلے محمد بن سلمان کی ملاقات جان ماکین کے بعد Citygroup کے مینجنگ ڈائریکٹر سے بھی کراوئی گئی. سیٹی گروپ مضبوط فنانشل گروپ پے.جس کے مالیاتی ذخائر کی مالیت ایک ٹریلین اور سات سو بانوے بلین ڈالرز ہے.  جس کے حسابدار دو سو ملین افراد ہیں جنکا تعلق سو سے زیادہ ممالک سے ہیں. اور اس کے دو سو اکتالیس ہزار ملازمین ہیں. اور 2008 سے یہ گروپ شدید اقتصادی بحران میں مبتلا ہے.اور امریکی حکومت اس وقت سے اسکی مدد کر رہی ہے. یہ مالیاتی گروپ دنیا کے تین بڑے گروپس میں سے ایک ہے.( اسکے کئی بینک ہیں جن میں ایک سیٹی بینک ہے. اور مختلف فیلڈز کی دسیوں کمپنیاں بھی ہیں.  اس کا ہیڈ آفس منھاتن نیو یارک میں ہے.اور ٹرامپ کی کمپنیوں کا مرکز بھی وہاں ہے.)

8- امریکی صدر سے محمد بن سلمان کی ملاقات کی ماحول سازی کے لئے سعودی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر خالد فالح جوکہ بن سلمان کے قریبی شمار ہوتے ہیں ان سے بیان دلوایا گیا کہ سعودیہ چاہتا ہے کہ الاخفوری پٹرول کو امریکہ میں تیار کرے اور یہ بن سلمان کے 2030 ویژن اور پلان کا حصہ ہے اور اس سلسلے میں ایک سرمایہ گزاری فنڈ امریکہ میں قائم کرنے کا ارادہ بھی ہے.

9- پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت عشائیے پر بن سلمان کی ملاقات امریکی صدر ٹرامپ سے رکھی گئی. جس میں مندرجہ ذیل امور زیر بحث آئے.

ا- سعودیہ کی ارامکو کمپنی کو پرائیویٹ سیکٹر میں دینا، جسکی عالمی منڈی میں قیمت ایک ٹریلین ڈالرز بنتی ہے.اور جس کے شیئرز کی خریداری  میں ٹرامپ گروپ کی دلچسپی ہے۔

ب- پیٹروکیمیکل بڑی سعودی کمپنی " سابک" کی بھی پرائیویٹائزیشن کا امکان ہے. اور اسکے اسرائیلی حیفا ریفائنری کمپنی کے ساتھ ممکنہ تعاون کہ جسے اسرائیلی پیٹروکیمیکل صنعتی کمپنی چلاتی ہے  زیر غور ہے .اور اس ضمن میں حاویات الامونیا جسکی رجسٹریشن کی مینیجمنٹ ٹرمپ کے بھائی کے پاس ہے۔

ج- ایران کا مقابلہ اس سلسلے میں امریکا چاہتا ہے کہ آل سعود اور دیگر خلیجی ممالک امریکی اقدامات کو مالی طور پر سپورٹ فنڈ فراہم کریں خواہ یہ اقدامات اقتصادی اور مالیاتی محاصرے کی شکل میں ہوں یا عسکری ہوں سعودیہ اس ہدف کی خاطر تمام تر امریکی کمپنیوں کے نقصانات اور اخراجات کی ادائیگی کی ضمانت دے. امریکا اسے خلیج میں ایرانی نفوذ کو روکنے اور خلیجی ممالک کی حمایت کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔

د- محمد بن سلمان کو ہدایات جاری کی گئيں کہ وہ عراق اور شام میں امریکی افواج کو مالیاتی فنڈز فراھم کرے.اور اس میں الرقہ ، لیبیا اور یمن کا معرکہ شامل ہے. اور یہ معاملہ طے پایا کہ حمایت بالمقابل اموال.اور اس ڈیل میں سوریہ میں ترکی کی ہم آہنگی کے ساتھ جاری جارحیت اور مختلف دھشگرد گروپوں کی مدد کو جاری رکھنا بھی شامل ہے. اس ملاقات کا لب و لباب ایک امریکی کامیاب تاجر ڈونلڈ ٹرمپ اور  امن کے بھکاری اوباما کے یتیم آل سعود کے نمائندے محمد بن سلمان کے ما بین ایک بھاری مقدار کی تجارتی سودا بازی تھی. ان مختلف اقدامات پر اتفاق ہوا کہ جن سے اس بات کی ضمانت ملے ، اور جس کے ذریعے امریکہ اس خطے اور عربوں کے ذخائر اور ثروت کو لوٹتا رہے. اور مشرق وسطیٰ میں بدامنی جاری رہے. اور غیر معینہ مدت تک امریکہ  ایران کو دھمکیاں دینے کے عوض عربوں سے مال وصول کرتا رہے. اس کے علاوہ پٹرول والے ممالک اور اسرائیل کے مابین سفارتی وتجارتی تعلقات وسیع طور پر قائم ہوں. اور بڑے کامیاب بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر سایہ مشترکہ پراجیکٹس جیسا کہ سعودی کمپنی " سابک " اور اسرئیلی حیفا ریفائنری کمپنی کے مابین تعاون اور تعلقات پروان چڑھیں.
ابھی تک ہم زندہ ہیں کہو یا اللہ۔

 

بقلم : محمد صادق الحسینی
ترجمہ:ڈاکٹر علامہ   شفقت حسین شیرازی

ذرا حکومت سے ہٹ کر!

وحدت نیوز (آرٹیکل) میں ایک سال میں تیسری مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں، دینی اداروں اور دینی مدارس کا موضوع انتہائی اہم ہے،  اگر معیاری دینی  اداروں؛ خصوصاً دینی مدارس کی بھرپور معاونت اور سرپرستی کی جائے تو بلاشبہ بڑی حد تک معاشرے سے جہالت، افلاس اور پسماندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔

 معاشرہ سازی میں دینی مدارس اپنی مثال آپ ہیں، رضاکارانہ طور پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ،دینی مدارس کا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے ہاں جہاں پر مخلص علمائے کرام اور با اصول لوگوں کی کمی نہیں وہیں پر دین کے نام کی تجارت کرنے والوں کی بھی بھرمار ہے۔

دین اس لئے بھی مظلوم ہے کہ دین کے نام پر کوئی جو چاہے کرے اکثر اوقات دیندارلوگ خاموش رہتے ہیں۔ اس خاموشی کی ایک وجہ لوگوں کی دین سے محبت اور ہمدردی بھی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے تحقیق کا دروازہ کھولاتو شاید دین کا نقصان ہوجائے گا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین کا نقصان تحقیق کے بجائے غیرمعیاری دینی مدارس سے ہورہاہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس کے نصاب اور اساتذہ کو بھی زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے لیکن اس میں بحث کی گنجائش موجود ہے کہ کس مدرسے کو حقیقی معنوں میں ایک دینی مدرسے کا عنوان دیا جانا چاہیے۔

ہمارے ہاں ابھی تک علمائے کرام نے ملکی سطح  پرایک دینی مدرسے کے عنوان کے لئے  کوئی معیار ہی طے نہیں کیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی قسم کی منصوبہ بندی  کی ہے ۔ اس عدمِ معیار کی وجہ سے بعض اوقات ایسے بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ   کچھ جگہوں پر دینی مدارس کا عنوان فقط  پیسے جمع کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

کسی بھی چاردیواری میں اِدھر اُدھر سے  مجبوری کے مارے ہوئے چند بچے اکٹھے کر لئے جاتے ہیں اور پھر ان کے نام پر صدقات و عطیات کی جمع آوری شروع ہو جاتی ہے۔بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں سے کئی کئی لاکھ روپے فطرانہ جمع ہوتا ہے لیکن وہاں موجود بیواوں اور یتیموں کی بدحالی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

بعض جگہوں پر ایسے بھی ہوا ہے کہ  کچھ متولی کہلوانے والے حضرات پہلے تو صدقات و عطیات سے  ایک مدرسے کی بلڈنگ کھڑی کرتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر ہوتی ہے پھر لائبریری اور پھر۔۔۔ ایک لمبے عرصے تک یہ تعمیرات ہی ختم نہیں ہوتیں اور پھر اس مدرسے کے طالب علموں کی مدد کے عنوان سے گھر گھر میں چندہ باکس رکھ کر  منتھلی آمدن کا بھی انتظام کیا جاتا ہے، ا س کے علاوہ قربانی کی کھالیں اور فطرانہ بھی جمع کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ایک متولی کہلوانے والے فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتاہے اور پھر اسی شخص کی نسلوں کو آگےمنتقل ہوتا رہتا ہے۔

ایک ایسا ملک جہاں دینی طالب علموں کے لئے کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں،تعلیم کے بعد روزگار نہیں، اگربیمار ہوجائیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگرخدانخواستہ  حادثہ ہوجائے تو کوئی سہارا دینے والا نہیں ،اس ملک میں ایسے دینی مدارس بھی ہیں جنہوں نے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی طلاب کی خدمت کے نام پر مختلف  مارکیٹیں ، ہوٹل اور حسینئے(امام بارگاہیں)بھی بنا رکھے ہیں لیکن اگر کوئی دینی طالب علم کبھی مجبوری سے کسی ہوٹل یا حسینئے میں رہنے کے لئے چلا جائے تو نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی بلکہ سب سے گندے کمرے طالب علموں کو ہی دئیے جاتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے لوگوں نے اپنے اوپر مختلف  اداروں کے لیبل بھی لگا لئے ہیں ، اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ فلاں تنظیم، انجمن یا ٹرسٹ کا مدرسہ ہے جبکہ عملاً سب کچھ فردِ واحد کے پاس ہی ہوتا ہے۔

حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر ہمارے ہاں کے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک طرف تو نصاب، اساتذہ اور طلاب کی تعداد کے حوالے سے دینی مدارس کے عنوان کے لئے ایک معیار طے کریں اور کسی بھی شخص کو دینی مدرسے کے معیار کو پامال کرنے  کی اجازت نہ دیں۔ جبکہ دوسری طرف مخیر حضرات کو یہ شعور دینا بھی علمائے کرام کی ہی ذمہ داری ہے کہ  دیانت دار اور امین لوگوں تک  وجوہات شرعی پہنچائے بغیر ان کی ذمہ داری ادا نہیں ہو جاتی۔

لہذا مخیر حضرات کسی بھی ادارے  کے پمفلٹ پڑھ کر یا کسی کی باتوں سے متاثر ہوکر اسے  عطیات و وجوہات دینے کے بجائے ممکنہ حد تک اس  ادارے کا وزٹ کریں، اس کے طالب علموں کا رزلٹ دیکھیں، اس کے اساتذہ کی علمی صلاحیت اور معیار کا پتہ لگائیں، اس ادارے کے ممبران یا ٹرسٹیز  کے بارے میں معلومات لیں کہ واقعتا سب کچھ چیک اینڈ بیلنس کے تحت ہورہاہے یا فقط ادارے کا نام استعمال ہورہاہے۔ یہ بھی دیکھنے والی چیز ہے کہ جو لوگ دینی و جدید تعلیم کے حسین امتزاج کا  نعرہ لگاتے ہیں ان کے بارے میں یہ بھی معلوم کیا جائے کہ وہ خود کس قدر جدید تعلیم سے آشنا ہیں۔

المختصر یہ کہ مخیر حضرات کو چاہیے کہ کسی بھی ادارے کی پراسپیکٹس اور ادارے کی حقیقی صورتحال کا  خود یا  کسی بھی ممکنہ طریقے سے  ضرور جائزہ لیں۔

یہ ہمارا اجتماعی مزاج بن گیا ہے کہ ہم حکومتی کاموں پر تو تنقید کرتے ہیں اور حکومتی امور کوٹھیک کرنے کے لئے احتجاج کرتے ہیں لیکن دینی امور اور اداروں میں اصلاح کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہم ملک کی بہتری کے لئے تو یہ سوچتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہونے چاہیے، سربراہ کو بدلنا چاہیے، اقتدار کو موروثی نہیں ہونا چاہیے،نئے لوگوں کو موقع ملنا چاہیے لیکن دینی اداروں کی نسبت یہ سوچ ہمارے دماغوں میں کبھی نہیں آتی۔

عجیب بات ہے یا نہیں کہ پورے ملک کو چلانے کے لئے ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اور  ایک نیا مدیر مل جاتاہے لیکن بعض دینی  مدارس کو چلانے کے لئے   الیکشن اس لئے بھی نہیں ہوتے چونکہ نیا مدیر ہی  نہیں ملتا اور اگر نیا مدیر مل بھی جائے تو وہ پہلے والے مدیر کا بھائی، بیٹا، پوتا، بھتیجا ، بھانجا یا داماد وغیرہ ہی ہوتا ہے۔یعنی پہلے والے مدیر کے خاندان کے علاوہ کسی اور میں مدیریت کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی۔

دین اس لئے بھی مظلوم ہے کہ دین کے نام پر کوئی جو چاہے کرے  لوگ احتجاج کی سوچتے بھی نہیں، اگر ایک مسلک کے دینی مدارس میں جہاد کے نام پر دہشت گردی کی ٹریننگ دی جائے تو دیگر مسالک کے لوگ اور علما خاموش رہتے ہیں، اگر کسی نام نہاد مولوی کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں تو اس کے خلاف کہیں کوئی ریلی نہیں نکلتی، اگر کوئی مولوی صاحب طالبان کے کتے کو بھی شہید کہیں تو لوگ اس پر بھی خاموش رہتے ہیں، شاید لوگ اس خاموشی کو بھی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ مخلص اور جیدعلمائے کرام کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ دینی مدارس کا معیار طے کریں اور  لوگوں میں دین کی نسبت درد کو بیدار کریں تا کہ وہ   تحقیق  سے ڈرنے کے بجائے   خوب تحقیق کریں اور اس کے بعد  حقیقی  معنوں میں خدمت دین کرنے والےدینی مدارس کی مدد و معاونت کریں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree