وحدت نیوز (آرٹیکل) دین اسلام میں عقل اور تفکر عقلی کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے  یہاں تک کہ اسلام کے منابع میں سے ایک عقل کو قرار دیا گیا ہے۔عقل کی حجیت کی واضح دلیل یہی ہےکہ خود وجود خدا اور ضرورت دین عقلی تفکر اور عقلی استدلال  پر موقوف ہیں ۔
قرآن کریم اور تفکر عقلی :
قرآن کریم میں اکثر مقامات پر تفکر عقلی پر زور دیا گیا ہے جیساکہ ارشادہوتا ہے :بے شک زمین وآسمان کی خلقت اورروز وشب کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ۔جولوگ اٹھتے ،بیٹھتے اورلیٹتے ہوئےخدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں ،کہ خدایا تو نے یہ سب بیکار پیدا نہیں کیا ہے۔ تو پاک و بے نیاز ہے۔تو ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔۱
قرآن کریم نظام خلقت کے بارے میں غوروفکر کرنے والےافراد کی تعریف کرتا ہے بلکہ ان لوگوں کی مذمت کرتاہےجو دنیا کےحقایق کی شناخت کے لئے اپنی عقل سے استفادہ نہیں کرتے تا کہ خدا شناسی کے مرحلے تک پہنچ جائیں۔جیساکہ ارشاد ہوتا ہے :اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔۲
اسی طرح ایک اورمقام پرارشاد ہوتا ہے : اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قراردیتاہے جوعقل سے کام نہیں لیتےہیں۳۔ اس کےعلاوہ قرآن کریم دینی عقائدکے اثبات کے لئے برہان اور عقلی استدلال سے استفادہ کرتا ہے ۔جیسے توحید خداوند کے بارے میں فرماتا ہے ۔ا گر زمین وآسمان میں اللہ کےعلاوہ اور خدا ہوتے توزمین وآسمان دونوں برباد ہوجاتے ۔۴۔ اسی طرح قیامت کےاثبات پراس دلیل کا ذکر کرتا ہے۔کیاتمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نےتمہیں بیکار پیداکیا ہےاور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائےجاؤگے؟ ۔۵۔ اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کی اطاعت کے لاز م ہونے کے بارے میں استدلال کرتا ہے ۔اورکیا جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابل اتباع ہے یا وہ جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے ؟  آخر تمہیں کیاہوگیا ہے اور تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟۔۶۔
ان کے علاوہ اوربھی بے شمار نمونے موجود ہیں۔قرآن کریم مشرکین اور کفار سے ان کے عقائد کے بارے میں دلیل طلب کرتا ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے:ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تواپنی دلیل لے آوٴ۔” اس کے بعد صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ یہ اپنے ظن پرعمل کرتے ہیں اور اہل یقین نہیں ہیں ۔۷۔یہ صرف گمان کا اتباع کرتےہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۸۔قرآن کریم کی نظر میں مشرکین و کفار کی سوچ یہی تھی کہ وہ اپنے آباءواجداد کی روش پر چلتے تھے حالانکہ ان کی روش غیر عاقلانہ تھی۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے  :جب ان سے کہا جائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس  روش کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ و دادا کو پایا  ہے ۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بےعقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہےہوں؟۹۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کی طرف سے حکمت ،موعظہ حسنہ اور جدال احسن کے ذریعے لوگوں کو توحید اور دین کی دعوت دینےپر مامور تھے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتاہے:آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین ہو۱۰۔ اس عقلی روش کے مختلف مراحل ہیں۔موعظہ حسنہ پہلامرحلہ ہے، جدال درمیانی مرحلہ ہے  جبکہ حکمت آخری مرحلہ ہے۔
پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی عقائدکےبیان میں ان تین طریقوں سے استفادہ فرمایا ہے جیسا کہ اس کے کچھ نمونے قرآن کریم ، احادیث اورتاریخ کی کتابوں میں مذکورہیں ۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوالات کئے ۔ الف:خداوند متعال کہاں ہے ؟ ب:خداوند متعال کا  وجودکیسا ہے ؟آپ ؐنے اس کے جواب میں فرمایا:
الف: خداوند متعال کے لئے خاص جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ محدود نہیں ہے لہذا وہ ہر جگہ موجود ہے ۔
ب:خدا وند متعال کو کیفیت کے ذریعے بیان نہیں  کیا جا سکتاکیونکہ کیفیت خود مخلوق ہے اور ہم مخلوقات کے ذریعے اس کی صفات بیان نہیں کر سکتے ۔۱۱۔اسی طرح ایک اور یہودی عالم نے آپ ؐسے مختلف چیزوں کے بارےمیں سوال کیا تو آپ ؐنے تمام سوالوں کے جوابات دیے۔
پہلا سوال :آپ وجود خداوند متعال کو کس طرح ثابت کریں گے ؟آپ ؐنے فرمایا:اس کی نشانیوں اور آیات کے ذریعے۔
دوسراسوال:تمام انسانوں کو اسی نے خلق کیا ہے ۔پھر صرف بعض افراد کو رسالت کےلئے کیوںمنتخب کیا ہے ؟
آپ ؐنے فرمایا : کیونکہ یہ افراد دوسروں سے پہلے خداوند متعال کی ربوبیت پر ایمان لائے تھے ۔
تیسرا سوال:خداوند متعال کیوں اور کس لئے ظلم نہیں کرتا؟
حضور ؐنے فرمایا:کیونکہ وہ ظلم کی قباحت کو جانتا ہے اور ظلم سےبے نیاز ہے ۔{لعلمہ بقبحہ و استغنائہ عنہ}۱۲۔علمائے عدلیہ عدل الہی کو اسی دلیل کے سےثابت کرتےہیں چنانچہ محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں:{و علمہ و استغناوہ یدلان  علی انتفاءالقبح عن افعالہ}۱۳علم خدا اور اس کی بے نیازی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے فعل قبیح سرزد نہیں ہوتا ۔
ائمہ معصومین علیہم السلام اور تفکر عقلی:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں کے یہاں مختلف فرقے موجود نہیں تھے۔صرف  بت پرستوں اور اہل کتاب کے ساتھ کلامی و اعتقادی بحث و گفتگو ہوتی تھی لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانے میں بہت سارے فرقے نیز مختلف فکری و کلامی مکاتب وجود میں آچکےتھے ۔ایک گروہ قرآن و حدیث کےظواہر پر عمل کرتاتھا اور ہر قسم  کی عقلی بحث و گفتگو کو ممنوع سمجھتا تھا۔یہ اہل حدیث کا گروہ تھا۔دوسرا گروہ تمام معارف و احکام کو اپنی عقل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتاتھا۔یہ معتزلہ کا گروہ تھا ۔لیکن ائمہ اطہارعلیہم السلام درمیانی راستے کو منتخب کر کے لوگوں کو ہر قسم کے افراط و تفریط سے منع فرماتے تھے ۔حضرت علی علیہ السلام خدا وند متعال کی شناخت میں عقل کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :{لم یطلع العقول علی تحدید صفتہ و لم یحجبہا عن واجب معرفتہ}۱۴اس نے عقلوں کو اپنی صفتوں کی حد و نہایت سے مطلع نہیں کیا اور بقدرضرورت معرفت حاصل کرنے کی راہ میں پردے بھی حائل نہیں کیے ۔
ائمہ اطہارعلیہم السلام کے نزدیک عقل اصول دین اور مبادی دین کی شناخت کےلئے کافی ہے لیکن احکام کی تفصیل جاننے کے لئے اسےوحی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اسی وجہ سے خدا نے دو چیزوں کے ذریعے انسانوں پرحجت تمام کیاہے ۔ان میں سے ایک عقل  ہےاور دوسری وحی ۔امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان لله علی الناس حجتین:حجۃ ظاہرۃو حجۃ باطنۃ،اماالظاہرۃ ، فالرسل والانبیاءوالائمہ واماالباطنہ فالعقول}۱۵خدا نےلوگوں پرحجت کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک ظاہری حجت ہےاور دوسری باطنی حجت۔ظاہری حجت انبیاء ورسل اور ائمہ اطہارعلیہم السلام ہیں جبکہ باطنی حجت عقول ہیں ۔
مکتب اہل بیت علیہم السلام میں عقل اور وحی ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کیونکہ ایک طرف سے انبیائےالہی وحی الہی کے ذریعے انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں تودوسری طرف سے انسانی عقل حجت الہی کی تائید کرتی ہے  ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : بعثت انبیاءکا  ایک فلسفہ یہ ہے کہ انبیاء انسان کی عقل کو پختہ اور شکوفا کرتےہیں۔ اس کےبعد آپ ؑفرماتےہیں :{ولیثیروا  لہم دفائن العقول}۱۶وہ عقل کے دفینوں کوابھارتے ہیں۔اسی طرح امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں :{ان الله تبارک وتعالی،اکمل للناس الحجج بالعقول}۱۷خداو ند متعال نے عقول کے ذریعے اپنی حجت کو انسانوں پر تمام کیا ہے۔
شیعہ علماءاور تفکر عقلی :
شیعہ علماء قرآن و سنت سے الہام لیتےہوئے معرفت دینی میں عقل کے لئے خاص مقام کے قائل ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف شیعہ متکلمین حسن و قبح عقلی کی حمایت کرتے ہوئے عدل الہی کو اسی کے ذریعہ ثابت کرتےہیں تودوسری طرف سےفقہائےامامیہ احکام شرعیہ کے استنباط میں عقل کو قرآن و سنت کے برابر قراردیتے ہوئے قاعدہ تلازم کو ثابت کرتےہیں۔یعنی ان کے مطابق حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان تلازم ہے کیونکہ قرآن و سنت کو سمجھنے میں عقل وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے نیز قرائن عقلی مفسرین اور مجتہدین کے لئے {قرآن کی تفسیر اور احکام الہی کے استنباط میں}رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہناچاہیے کہ انسانوں کے لئے جوچیز وحی کی طرح حجت الہی شمار ہوتی ہے وہ مستقلات عقلیہ اور ملازمات عقلیہ ہیں  نہ کہ وہ ظنون جو قیاس واستحسان پر مشتمل ہو ں۔اسی وجہ سے مکتب اہل بیت علیہم السلام اور فقہ امامیہ میں شرعی احکام کے استنباط میں عقل کو ایک محکم وپایدار راستےکی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ قیاس و استحسان {جوظن و گمان پر مشتمل ہوتےہیں}کی پیروی ان کے ہاں سخت ممنوع ہیں ۔
امام جعفرصادق علیہ السلا م نے ابان ابن تغلب سے مخاطب ہو کر فرمایا :{ان السنۃ لا تقاس ، الا تری ان المراۃتقضی صومہا و لا تقضی صلاتہا یا أبان ان السنۃ اذا قیست محق الدین}۱۸سنت {شریعت الہی}میں قیاس {تشبیہ وتمثیل}کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔{یہ حجت نہیں}اسی لئے ماہانہ عادت کی وجہ سےاگرعورت روزہ نہ رکھے اورنماز نہ پڑھے تو اس پر روزے کی قضا واجب ہے لیکن نماز کی قضا واجب نہیں{حالانکہ اسلام میں نماز کی اہمیت روزے سے زیادہ ہے۔ }اے ابان: سنت کوقیاس سے ثابت کیاجائے تو دین  الہی برباد اور نابود
ہوجاتاہے۔
خلاصہ یہ کہ عقل کا دین شناسی اور معرفت دینی میں بہت زیادہ کردار ہے ۔جن میں سےبعض یہ ہیں:
1۔ عقل دین کی بنیادی باتوں کو ثابت کرتی ہے جیسے وجود خدا ، بعض صفات الہی اورضرورت دین وغیرہ ۔
2۔عقل، وحی کی طرح بعض احکام شرعیہ کا استنباط کرتی ہے اور استنباط احکام کا ایک منبع شمار ہوتی ہے ۔
3۔عقل قرآن و سنت کو سمجھانے میں چراغ کا کام کرتی ہے  اور خود ان میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتی۔
4۔عقل محدود پیمانے پرفلسفہ احکام دین کو بیان کرتی ہے لیکن عبادات میں عقل کا کردار بہت ہی کم ہے۔ معرفت علمی اورتفکر عقلی کے ذریعے فلسفہ یا حکمت احکام الہی کے بارے میں جوکچھ کہاجا سکتا ہےانہیں اکثر اوقات احکام الہی کی علت اصلی کے طور پر اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ لہذا کسی موضوع کے حکم کو دوسرے مشابہ موضوعات کے لئے بھی قیاس کے ذریعے ثابت کرنابہت مشکل او ردشوار ہے ۔
حوالہ جات:
۱۔آل عمران ،190 – 191۔
۲۔انفال ،22۔
۳۔یونس،100۔
۴۔انبیاء،22 ۔
۵۔مومنون،115۔
۶۔یونس،35۔
۷۔بقرۃ ،111 ۔
۸۔انعام ،ص 116۔
۹۔بقرۃ،170۔
۱۰۔نحل ،125 ۔
۱۱۔وحید صدوق ،ص310،فصل 44،حدیث 1۔
۱۲۔توحید صدوق ،ص397،باب 61۔
۱۳۔کشف المراد،تیسرا حصہ،تیسری فصل۔
۱۴۔نہج البلاغۃ،خطبہ 49۔
۱۵۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۶۔نہج البلاغہ،خطبہ ،1۔
۱۷۔اصول کافی ،ج1 ،ص 13،کتاب عقل و جہل ،حدیث 12۔
۱۸۔وسائل الشیعۃ ،ج18،ص25۔

تحریر۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سال۸ مارچ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منائی جاتی ہے اور تقریباََ دنیا کے تمام ممالک میں اس دن خواتین کو درپیش مسائل کا ذکر اور اُن کے حقوق کے لئے مختلف سیمینار یا پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کی تاریخ کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے یہ لگ بھگ ایک صدی قبل روس میں Bread and Peace کے مظاہرے کے بعد سے منایا جانے لگا۔ 1908 میں روس کی فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین نے مشقت اور اجرت میں کمی کے باعث مظاہرےشروع کئے تھے تاکہ ان کے کام کے اوقات کو دس گھنٹے کے بجائے آٹھ گھنٹے کیا جائے اور اُن کی اجرت کو بڑھایا جائے ۔اسی طرح پھر امریکہ میں, 28 فروری 1909 خواتین کے قومی دن کے طور پر منایا گیا۔ اس کے بعد خواتین نے اپنے حقوق کی آواز کو دبنے نہیں دیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ مختلف حادثات و واقعات بھی رونما ہوئے اور خواتین نے زبردست جدو جہد کا مظاہرہ کیا اور ہر موقع پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے لگیں۔ بلآخر 1975 میں اقوام متحدہ نے آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منانا شروع کیا اور اس کے بعد ہر سال دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

اگر ہم خواتین کی حقوق کے حوالے سے تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب، یونان،مصر،مشرق وسطیٰ ،ہندوستان غرض یہ کہ ہر جگہ عورت مظلوم تھی عورت کی کوئی معاشرتی شخصیت نہیں تھی۔ قدیم یونان میں عورت کو ایک تجارتی سامان کی طرح سمجھی جاتا اور بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی تھی یہاں تک کی شوہر کی موت کے بعد زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا تھا۔ بعض جگہوں پر باپ یا شوہر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بیویوں اور بیٹیوں کو قتل کریں یا بیچ دیں۔ ہندوستان میں شوہر کی موت کے بعدعورت کو بھی شوہر کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ اس طرح شوہر کو تنہائی سے نجات ملے گی ۔ عرب میں بھی لڑکیوں کی پیدائش شرمندگی اور بے عزتی تصور کی جاتی تھی اور پیدائش کے ساتھ ہی لڑکیوں کو زندہ در گور کر دیا جاتا تھا اور خواتین کو میراث سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ جس زمانے میں عورت کو یورپ اور دیگر اقوام میں انسانوں میں بھی شمار نہیں کیا جاتا تھا ، صنف نازک کو فقط کاروبار یا خواہشات نفسانی کی تسکین کا سامان سمجھا جاتا تھا اُس وقت اسلام نے خواتین کی مقام و منزلت اور ان کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کی. عورت کو ذلت سمجھنے والوں کو اسلام نے بتادیا کہ عورت ایک عظیم ہستی ہے۔ حضرت بی بی فاطمہ ؑ کے احترام میں رسول اللّٰہ کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور رسول اللّٰہ کا یہ عمل دنیا والوں کو عورت کی مقام و منزلت اچھی طرح سمجھا رہا ہے۔ اسلام نے عورت کو باقاعدہ طور پر ایک مقام عطا کیا اور ان کے حقوق کو تفصیل سے بیان کیا اور یہ بتایا کہ عورت کو زندہ رہنے کا حق ہے، ملکیت کا حق ہے،آزادی رائے کا حق ہے، ووٹ کا حق ہے،زندگی جینے کا حق ہے، اور عورت معاشرے میں ہر جگہ مردوں کے برابر حق رکھتی ہے۔

اسلام عور ت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح، ادارہ اور اختیار کا حامل سمجھتا ہے ، اسی لئے اسلام دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا ہے اور اسی لیے قرآن پاک میں دونوں کو "یا ایھالناس" اور "یا ایھاالذین آمنو " کے زریعے مخاطب کیا گیا ہے, اسلام نے دونوں کے لئے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دیے ہیں۔ اسلام بغیر کسی رکاوٹ کے عورت کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کے مالی معاملات انجام دے جیسا کہ ارشار ہوتا ہے:" مردوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا ہے اور عورتوں کے لئے وہ حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ہے"(سورہ نساء، آیت۳۲)۔ آج جن ممالک کی ہم پیروی کرتے ہیں اور اُن کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں کچھ عرصے پہلے تک وہاں پر بھی عورتوں کو ذلیل و حقیر تصور کیا جاتا تھا بلکہ آج بھی جس طرح اسلام نے عورتوں کے حقوق اور تحفظ کا ذکر کیا ہے کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں وہ حقوق عورتوں کو میسر نہیں ہیں، عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور بداخلاقی کے واقعات اسلامی ممالک سے ذیادہ روشن خیال ملکوں میں نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں آج بھی صدر کے انتخاب کے لیے کسی خاتون کے مقابلے پر کسی سیاہ فام کو ترجیح دینا پسند کرتے ہیں جبکہ رنگی و نسلی تعصب کوٹ کوٹ کے ان کی رگوں میں موجود ہےلیکن پھر بھی یہ لوگ جتنا پست و کمتر عورت کو سمجھتے ہیں کالوں کوبھی نہیں سمجھتے. اسلام نے تو پہلے ہی رنگ و نسل کی برتری کی نفی کی ہے, جس زمانے میں عورتوں کو اپنے نظریے اور رائے کے اظہار کا کوئی حق نہیں تھا  اُس زمانے میں دینِ اسلام مرد و عورت کے لئے نظریہ دینے ،ووٹ ڈالنے (بیعت کرنے) اور مساوات و برابری کا قائل تھا۔

 رسول اکرم ؐ کا ارشار ہے"عورتیں تم مردوں کے لئے لباس ہیں اور تم مرد بھی عورتوں کے لئے لباس ہو" دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں"تم میں سے وہ شخص سب سے بہتر ہے کہ جو اپنی بیوی اور بیٹیوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئے"۔ اس کے علاوہ بھی قرآنی آیات و احادیث خواتین کے حقوق ،فضائل اور احکامات سے بھری پڑی ہیں مگر یہ کہ ہر مسلمان مرد و عورت اسلامی تعلیمات کے بارے میں صحیح سے تحقیق کرے تو اُس کو اسلامی اصولوں کا علم ہو۔ پہلے زمانے میں تعلیم حاصل کرنا ہر ایک کے بس میں نہ تھا آج کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے تمام معلومات ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔ اگر ہم ان سہولیات کو فضول کاموں کے بجائے اچھے کاموں کے لئے استعمال میں لائیں تو معاشرے سے برائیاں بھی ختم ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ہم اپنی مشکلات کا حل بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی صاحبِ عقل تحقیق کرے اور دنیا بھر میں موجود مسائل کا حل تلاش کرے تو اُس کو اسلامی تعلیمات و احکامات ہی سب پر سبقت لیتے نظر آئیں گے۔ ہم اس قدر دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنا ہوش ہی نہیں، ہم مغرب سے آئی ہر چیز کو بلا چوں و چراں سر آنکھوں پر رکھ لیتے ہیں ہم کبھی اس کے مثبت اور منفی اثرات اوراُس کے مقاصد کی طرف توجہ نہیں کرتےاور اس کی جگہ اگر کوئی اسلامی چیز یا اسلام کے نام سے کچھ آجائے تو فوراََ ہزاروں سوالات کر ڈالتے ہیں کیوں کہ ہم کھانے پینے سے لے کر تعلیم کے حصول تک مغرب کی پیروی کرتے ہیں اور اپنی دینی تعلیمات کو صرف نام کی حد تک رکھے ہوئے ہیں تو ظاہر سی بات ہے ہمیں مغربی چیزوں میں ہی زیادہ حقیقت نظر آئے گی۔

 آج کے اس ترقی یافتہ دور میں کسی کی سوچ و فکر کو تبدیل کرنا کوئی ناممکن بات نہیں ہر حقیقت کو وہم اور ہر وہم کو حقیقت بنا کر پیش کرنا عام سی بات ہے جس کی وجہ سے ہم صحیح و غلط کی تمیز نہیں کر پا رہے۔ یہ بلکل اس مثال کی طرح ہے کہ اسلامی ممالک میں گٹر کا ڈھکن کھلا ہو تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے اور مغربی ممالک میں ہر پانچ سیکنڈ میں ایک عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے تو روشن خیالی اور آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم واقعی مسلمان ہیں تو پھر ہمیں اسلامی علوم اور قوانین پر عمل کرنا ہوگا، ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے تو پھر مغربی سیرت کو چھوڑ کر سیرت حضرت محمد ؐ کو اپنانا ہوگا، ہمیں اس تہذیب و تمدن کی جنگ کو جیتنا ہوگا, ہم کیوں دوسروں کے رہن سہن, تہذیب و ثقافت کو اپنائیں، دوسروں کی تہذیب کو اپناتے وہ ہیں جن کی اپنی کوئی تہذیب نہ ہو اور الحمد اللہ ہمارے پاس زندگی گزارنے سے لیکر حکومتی قانون تک سب کچھ موجود ہے، نہیں ہے تو صرف جستجو ، شعوراور عمل نہیں ہے۔ اس شعور کو پھیلانے کی ذمہ داری حکومت، عوام اور میڈیا تینوں کی ہے۔ اگر کوئی بھی ذمہ دار شخص پہلے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور پھر معاشرتی حالات کو مد نظر رکھ کر کام کرے تو پھر کوئی چیز ناممکن نہیں۔

میں عالمی خواتین کے دن کا مخالف نہیں ،ناہی اُن خواتین کی جدوجہد کو نظر انداز کرتا ہوں جن کی وجہ سے آج دنیا والے آٹھ مارچ کو خواتین کے نام سے منانے پر مجبور ہیں۔ مگر میری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں ،سرکردہ لوگوں اور عالمی حقوق کے علم برداروں سے صرف یہ گزارش ہے کہ اگر ہمارے ملک میں یوم خواتین کو سردار انبیاء ، رحمت اللعالمین ؐ کی بیٹی خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃالزہرا ؑ کی ولادت کے دن یعنی بیس جماد الثانی کو منایا جائے تو بہتر نہ ہوگا؟ کیونکہ جب عرب میں لڑکیوں کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا اور اُن کو زندہ دفن کیا جاتا تھا اور باقی دنیا میں بھی خواتین کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو  اس وقت رسول اکرم ؐ نے دنیا کو بتایا کہ خواتین کی عظمت اورحقوق کیا ہیں اور دوسری طرف حضرت فاطمہ زہرا (س) کی زندگی خود بھی خواتین کے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت فاطمہ (س ) کی شان کے لئے رسول اکرم (ص ) کی یہ احادیث کافی ہیں، *حضور اکرم (ص ) فرماتے ہیں: "فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ھیں"،"فاطمہ میرا ٹکڑا ھے جس نے اسے تکلیف پھنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ھے"* یہ دو احادیث ہمارے لئے کافی کہ ہم ایک ایسی ہستی کو اپنا آئیڈیل بنائیں جس کی زندگی کا ہر پہلو قیامت تک کی خواتیں کے لئے روشن ستارے کی مانند ہیں۔

تحریر۔۔۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز (آرٹیکل) ذمہ دار لوگوں کے گرد سارا معاشرہ گھومتا ہے، جولوگ اپنی ذمہ داری کا صحیح تعین کرتے ہیں اور پھر اسے ٹھیک طریقے سے ادا کرنے کا عزم کرتے ہیں وہی معاشرے میں کوئی سنجیدہ کردار ادا کر پاتے ہیں۔ ایک مورخ نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ گورنمنٹ ہاوس کراچی پہنچ کر قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے اپنے ہمراہ سے کہا تھا کہ شاید تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ مجھے کبھی یہ امید نہ تھی کہ پاکستان میری زندگی میں قائم ہوجائے گا۔ہم نے جو کچھ حاصل کر لیا ہے ہمیں اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔[1]

اس سے پتہ چلتا ہے کہ قائداعظم نے اپنی ذمہ داری ادا کی تھی اور نتیجہ انہیں ان کی امید سے بڑھ کر ملا۔ مارچ کے مہینے میں یہ جملہ ہمیں بھی کثرت سے سننے کو ملتا ہے کہ ذمہ داری کوئی چیز نہیں بلکہ احساس ذمہ داری بڑی چیز ہے۔

یہ جملہ واقعتا آب زر سے لکھنے کے قابل ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ملت اس جملے کابار بار تکرار کرتی ہے وہی احساس ذمہ داری کے بجائے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔غیر ذمہ داری فقط ذمہ داری سے بھاگ جانے کا نام نہیں ہے بلکہ جس کام کی صلاحیت نہ ہو اس کی ذمہ داری اٹھا لینا بھی ایک طرح کی غیر ذمہ داری ہے اور اسی طرح کسی ذمہ داری کو قبول کرکے پھر ٹال مٹول سے کام لینا یہ بھی غیر ذمہ داری ہی ہے۔

ٹال مٹول سے یاد آیا کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کراچی پہنچنے کے بعد جب پہلے دن روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے عملے کے ایک آدمی سے کہا کہ فوری طور پر میرے کمرے میں ایک ریڈیو سیٹ لگوادیا جائے تاکہ میں آج کی خبریں سن سکوں۔

ملازم نے کہا جناب عالی ! آپ بہت سفر کر کے آئے ہیں اور بہت تھک چکے ہیں اس وقت آرام کریں کل ریڈیو سیٹ بھی لگوا دیں گے۔۔۔

یہ سننا تھا کہ محمد علی جناح ؒ نے صاف الفاظ میں کہا دیکھو میاں میرے ساتھ یہ ٹال مٹول سے کام نہیں چلے گا۔

آج ہمارے سارے کے سارے ملی کام ٹال مٹول کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں، دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر  ملکی تعمیروترقی تک ہر طرف ٹال مٹول سے کام لیا جارہاہے، وہ دفاتر سے رشوت کے خاتمے کا مسئلہ ہو، نادرا سے شناختی کارڈ اورپاسپورٹ بنوانے کی بات ہو، ایران سے گیس خریدنے کا منصوبہ ہو، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی خبر ہو ہر طرف ذمہ داریوں سے فرار نظر آتا ہے۔

اس سال بھی سات مارچ  کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی برسی بنائی گئی۔ان کے افکارو نظریات کو دہریا گیا اور بار بار یہ نعرے لگائے گئے کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔

ڈاکٹر کے بارے میں منعقد ہونے والے پروگراموں  میں ہونے والی گفتگوسے مجھے یہی پتہ چلا کہ  ڈاکٹر کا سب سے بڑا نعرہ احساسِ ذمہ داری تھا۔آج اگرچہ  ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے  لیکن ہمارے قومی اداروں میں غیر ذمہ داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،پہلے لوگ سیاستدانوں سے مایوس ہوتے تھے تو دینی اداروں سے اصلاح احوال کی امید رکھتے تھے اب ہمارے مذہبی مدارس اور دینی  ٹرسٹ ایک طرف سے تو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں اور دوسری طرف  تیزی سے موروثی  جائیدادوں میں بدل رہےہیں، جو بھی ملت و دین کے نام پر کوئی ادارہ قائم کرتا ہے وہی اس کا تاحیات مالک بن جاتا ہے اور پھر اس ادارے کی پراپرٹی اور بینک بیلنس  اس کے بعد اس کی نسلوں کو منتقل ہوجاتا ہے،  سیاستدان الیکشن کے موقع پر چند اچھے اچھے نعرے لگانے کے بعد غائب ہوجاتے ہیں، بین الاقوامی برادری جیسے چاہتی ہے ہمارے سیاستدانوں اور دینی مدارس سے استفادہ کرتی ہے اور پھر بھی ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔

اگر ہمیں ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہوتا اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیتے تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ مٹھی بھر کرپٹ سیاستدان ہمیں اپنا غلام بنا لیتے اور چند نام نہاد مذہبی کاسہ لیس دینی مدارس اور اداروں کی قسمت سے کھیلتے۔

آج ضرورت ہے کہ ملت کے ہرفرد کو عملی طور پر  احساس زمہ داری دلایا جائے،  ہمیں اپنے وطن کے ایک ذرے سے لے کر بلند و بالا کہساروں اور سیاست و اقتصاد سے لے کر مسجد و محراب تک ہر سمت اپنی زمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ذمہ داری بڑی ہو بلکہ ضروری ہے کہ ذمہ داری کی نسبت احساس بڑا ہو۔

یہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ  ایک دن  انہوں نے  اپنی سرکاری  رہائش گاہ کے معائنے کے دوران لائبریری میں کچھ الماریاں خالی دیکھیں، پوچھنے پر پتہ چلا کہ سندھ کے گورنر صاحب کوٹھی خالی کرتے وقت یہ  کتابیں بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں، یہ سنتے ہی قائداعظم نے فورا وہ کتابیں واپس منگوا کر کتاب خانے میں رکھوائیں۔

ایک طرف قائداعظم جیسا حساس شخص ہے جو کسی قومی ادارے سے چند کتابیں اٹھنے پر بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور دوسری طرف ہمارے جیسے لوگ ہیں جن کے سامنے قومی اداروں کو لوٹ کر کھایا جاتاہے اور ملت اور دین کانام فقط تجوریاں بھرنے کے لئے لیا جاتا ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

ہاں اگر ہم اپنے دینی و قومی معاملات میں حساس ہو جائیں اور ملک ودین کی خاطر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں  تو پھر بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے۔۔۔

لیکن جب تک ہم ذمہ داریوں سے بھاگتے رہیں گے، ایک دوسرےپر ڈالتے رہیں گے، ٹال مٹول کرتے رہیں گے اور اپنے سامنے ملک و قوم کے ساتھ ہونے والی خیانتوں پر خاموش رہیں گے یعنی جب تک ہم ذمہ داریوں سے فرار کرتے رہیں گے تب تک کوئی تبدیلی رونما ہونے والی نہیں۔

مورخ تاریخ لکھ رہا ہے اور اگر تاریخ اسی طرح لکھی گئی جیسے کہ لکھی جارہی ہے تو پھر ہماری آئندہ نسلیں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی  مناتے ہوئے یہ افسوس بھی کیا کریں گی کہ کاش شہید نقوی کے بعد ہمارے اباواجداد اپنی ذمہ داریوں سے نہ بھاگے ہوتے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) کچھ دنوں پہلے ایک قریبی عزیز کے ساتھ اسلام آباد کے ہسپتالوں کا چکر لگانے کا موقع ملا اور جو حالات و واقعات پیش آئے اس حقیقت سے چشم پوشی نہ کر سکا کیونکہ یہ واقعات میرے دیس کے ہر عام شہری کے ساتھ روزانہ پیش آتے ہیں،ہوا کچھ یوں کہ میرے عزیز کو  پیٹ میں تکلف ہوئی جس کی وجہ سے ہم اُسے اسلام آباد کے ایک کلینک میں لے گئے  تو وہاں موجود ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ مریض کو فوری ڈرپ چڑھانے کی ضرورت ہے بحرحال شام تقریبا چھ سات بجے سے لیکر رات ۱۱ بجے تک ڈاکٹر صاحب ڈرپ پہ ڈرپ چڑھاتے رہے مگر درد کی شدت میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوتا گیا، مریض کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر سے بیماری کا دریافت کیا تو کہنے لگے جناب ابھی تو میں چیک کر رہا ہوں کہ درد کی وجہ کیاہے جب ڈاکٹر صاحب کے اِس جواب کو سنا تو ایک لمحے کے لئے دل چاہا کہ ڈاکٹر صاحب کو بیڈ پر لیٹا کر جتنے ڈرپ اور انجیکشن مریض کو چڑھائے ہیں اُسی کو کو چڑھا دوں مگر اپنی بے بسی پر خاموش رہا تھوڑی دیر میں نرس صاحبہ آئی اور کہنے لگی، ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے بیماری کا وجہ معلوم نہیں ہو سکا لہٰذا آپ اپنا  پیمینٹ کر کے فوری طور پر پی آئی ایم ایس یا پولی کلینک لے جائیں ۔بیماری سے مجبور ڈاکٹر کی فیس، ڈرپ دوائیوں کے پیسے ادا کرکے ہم پولی کلینک گئے وہاں پر بھی پہنچتے ہی درد کم کرنے کے انجکشن کے ساتھ ڈرپ لگادیئے گئے اور صبح ڈاکٹر کے پاس آنے کا کہا گیا۔

ہم اگلے روز جب بتائے گئے ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو پتہ چلا یہاں تو پرچی لینے کے لئے لوگ صبح چھے بجے سے آئے ہوئے ہیںاللہ اللہ کر کے جب ہمیں موقع ملا تو ڈاکٹر صاحب نے کچھ پوچھنے کی زحمت نہیں کی اور ساتھ بیٹھے میڈیکل ریپ نے کہنا شروع کیا آپ فلاں دوائی فلاں کمپنی کی لے لیں انشااللہ خدا جلد شفا دے گا ساتھ ہی ڈاکٹر نے ہاں میں ہاں ملایا اور وہی دوائی لکھ کر دے دی۔نہ چاہتے ہوئے پرچی لی اور گھر کو آگئے، ایک دن تو دوائی نے اپنا اثر دیکھا یا مگر اگلے دن پھر وہی درد، لہٰذاہم پھر ڈاکٹر کے پاس گئے ۔ڈاکٹر کے سیکریٹری نے ہمیں پریشانی کی حالت میں دیکھا تو کہنے لگے صاحب اس طرح تو آپ کی بیماری کا علاج نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو کم از کم مہینہ آپ کو ہسپتال کا چکر کاٹنا ہوگا ۔آپ فوری علاج چاہتے ہیں تو میں ایڈریس دیتا ہوں ڈاکٹر صاحب فلاں نجی ہسپتال میں اِس ٹائم بیٹھتے ہیں فیس تھوڑا زیادہ ہے مگر پریشانی کے بغیرعلاج ممکن ہے ہم بھی بیماری سے پریشان تھے فوراََ ہامی بھر لی اور ایڈریس لیکر اسلام آباد کے ایک مشہور پرائیوٹ ہسپتال پہنچے اور فیس ادا کر کے ڈاکٹر صاحب سے ملے اور اُس کو یاد دہانی کرایا کہ ایک دن قبل سرکاری ہسپتال میں آپ نے یہ دوائیاں دی تھی ابھی ہم اپنی بات مکمل نہیں کرپائے تھے، ڈاکٹرصاحب بڑے ہی شفیقانہ انداز میں کہنے لگے رہنے دیجئے اُس پرچی اور دوائی کو ،وہ سرکاری اداراہ تھا ابھی آپ یہ دوائیاں استعمال کریں انشااللہ ٹھیک ہوجائے گا ۔

یقین جانئے ہم یہ رویہ دیکھ کر پریشان ہوگے ۔ایک ہی ڈاکٹر، ایک ہی مریض اور ایک ہی بیماری مگر الگ رویہ الگ دوائی اور الگ ہمدردی۔۔۔ ہمارے ملک کے تقریبا تمام سرکاری ہسپتالوں کے حالات زارکچھ ایسے ہی ہیں جس ہسپتال میں جائیں تو ہر جگہ کچرے کا ڈھیر، مریضوں کی لمبی قطاریں، ڈاکٹرز اول تو ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوں گے اگر خدانخواستہ موجود ہوں تو ہڑتال یااحتجاج کے نام پر گھپے مارتے چائے بسکٹ کے مزے لیتے نظر آئیں گے اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو مریضوں سے ایسے برتائو کرتے نظر آئیں گے کہ جیسے ملزم پولیس کے ہتھے چڑ گیا ہو۔ جس طرح پولیس تفتیش کرتی ہے ،اسی طرح  مریض سے سوالات کرتے ہیں ، پھر لمبی چوڑی ایف آئی آر یعنی نسخے لکھتے ہیں۔ اب پولیس والے تو رشوت کے چکر میں لگ جاتے ہیں اور ڈاکٹرمیڈیسن کمپنیوں کی جانب سے گاڑی ، دبئی کی سیراور میڈیکل ریپ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مریض کو ایسے ہی چکر لگواتے ہیں جیسے ملزم کو عدالت کا، آخر میں نہ ملزم کے کیس کی سماعت ہوتی ہے اور نہ ہی مریض کا مرض ٹھیک ہوتا ہے۔مریض اگلے مرحلے میں سسکتے ہوئے پرائیوٹ ہسپتالوں کا روخ کرتے ہیں جہاں سے علاج تو ستر فیصد ہو جاتا ہے مگر مریض خاندان سمیت روڑ پر زندگی گزانے پر مجبور ہوجاتاہے ۔ دوسری طرف سیاست دان چھینک بھی آئے تو باہر ممالک میں چیک اپ کے لئے جاتے ہیں۔آخر عوام اور رعایا کے درمیاں اس قدر فاصلے کیوں؟ کیا عام شہری کو ان سہولیات کا حق نہیں ہیں، کیا غریبوں کے جانوں کی کوئی حیثیت نہیں ؟ آخر ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟کیا سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر مفت میں کام کرتے ہیں؟ کیا ایک میڈیکل کا اسٹوڈنٹس سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کی جانوں سے کھیل کر ڈاکٹر نہیں بنتا؟کیا یہ پیشہ انتہائی اہم اور ذمہ دارانا نہیں ؟ کیا ڈاکٹر ز کی زرا سی غفلت سے مریضوں کی جان نہیں چلی جاتی؟ دنیا کی لالچ میں مریضوں کو ایسی دوائیاں دی جاتی ہے جو محض پیسے بنانے کے سوا کچھ نہیں۔آخر اس میں غلطی کس کی ہے کیا ہمارے ملک میں کوئی نظم و ضبط اور قانون نامی کوئی چیز نہیں ہے؟

 جی ہاں!قانون تو ہر جگہ بنے ہوئے ہیںمگر عمل کرنے والا کوئی نہیں ۔ دیکھا جائے تو غلطی ہماری ہی ہے ،کسی بھی قانون پر عمل درآمد کروانے میں عوام پربھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم غلاموں کی طرح ہر ایک کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور تھوڑے پیسوں کے عوض بک جاتے ہیں۔ہم کبھی معاشرے میں ہونے والی برائیوں پر اپنے لب نہیں ہلاتے ہم اُس وقت تک خطرہ کا نوٹس نہیں لیتے جب تک کہ اپنے دامن کو آگ نہ پکڑ لے،ہم کرپشن کے خلاف اُس وقت تک آواز بلند نہیں کرتے جب تک ہماری جیب سے پیسے نہ نکلیں، ہم اتنے بے وقوف ہیں کہ بار بار اُسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں اوراُسی کو سپورٹ کرتے ہیں جس نے ہر دفعہ جھوٹے وعدوں اورکھوکھلے  نعروں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ ہم رنگ زبان سرحد اور مذہب کے چکر میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ۔ ہم کسی بھی برائی کو اُس وقت تک برا نہیں سمجھتے جب تک اُس برائی کا اثر ہمارے اپنے گھر تک نہ پہنچ جائے ۔ہم اپنے بچوں کے اسکول ایڈمیشن سے لیکر نوکری تک سفارش رشوت کا سہارا لیتے ہیں پھریہ بھی امید لگا تے ہیں کہ باقی سب کے بچے میرٹ پر سلیکٹ ہوں۔ ہم ہمیشہ اپنی کمی اور کوتاہی کو ماننے کے بجائے فوراََ دوسروں کے اچھے کاموں اور دوسروں کی قابلیت میں خامیاں تلاش کرتے ہیں تو معاشرے میں تبدیلی کیسے ممکن ہوگی؟ ہر کام کی ابتدا اپنی ذات سے شروع ہوتی ہیں سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ جب ہم کسی دوسرے کوکچھ بولیں تو اس بات میں اثر ہوں۔

ایک اور ہماری سب سے بُری عادت یہ ہے کہ ہم ہر کام دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیںاور اپنی ذمہ داریوں سے بری ذمہ ہونا چاہتے ہیں۔کسی بھی معاشرے کی بہتری کے لئے تعلیم اتحاد، بھائی چارگی اور صبر کا ہونا ضروری ہے ۔ ہماری سوچ اور فکر وسیع ہونی چائیے تاکہ ہم لانگ ٹرم پالیسی پر عمل کر سکیں ۔ راستے کے بیج کسی کانٹے کو دیکھیں تو فورا اسے کنار کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے نہ کہ یہ سوچ کر گزر جائے کہ لوگوں کو آنکھیں کھول کر راہ چلنا چاہیے۔نہیں جناب ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا ہمیں آنکھیں کھول کر اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کا خیال رکھنا ہوگا ، ظاہری فائدے کو چھوڑکر ابدی فائدے کو دیکھنا ہوگا۔جب تک عوام کے بنیادی حقوق کا خیال نہیں رکھا جائے گا وہ معاشرہ ترقی کی منزلوں کی طرف نہیں بڑھ سکے گا۔لیکن ہر چیز کے لئے اس کا طلب ہونا بھی ضروری ہے جس دن ہم میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا حقیقی معنوں میں جستجو پیدا ہوجائے اور ہمیں عوامی طاقت کا اندازہ ہو جائے تو ہمیں اس ملک سے غربت ، دہشت گردی اورکرپشن کو ختم کرنے میں دیر نہیں لگے گی ۔


تحریر۔۔۔۔ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل)  وہ ہم سب کیلئے نمونہ عمل تھے،ان کا اوڑھنا بچھونا ،سونا جاگنا،چلنا پھرناسب کچھ اسلام ناب محمدی کی تبلیغ،ترویج اور عملی نفاذ کیلئے تھا،وہ بت شکن زمان حضرت امام خمینی کے سچے اور عملی فدائی تھے ۔وہ واحد پاکستانی تھے جنہوں نے اپنے عمل سے انقلاب اسلامی اور نظریہ ولایت فقیہ سے اپنے اخلاص کو دوسروں پر ثابت کیا،بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی ذات سے ان کے عشق اور محبت کیلئے صرف دو مثالوں سے استفادہ کرتا ہوں ، نوزائیدہ انقلاب اسلامی ایران پر جب امریکہ نے اپنے ایجنٹ صدام کے ذریعے حملہ کیا تو اسے امریکہ ،نیٹو سمیت تمام عرب ممالک کی مدد حاصل تھی ،ستاون ممالک صدام کے ساتھ ملکر ایران کو فتح کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے،اس موقعہ پر امام خمینی کی الہٰی شخصیت کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اسلام محمدی سے عشق کرنے والوں کیلئے صبح امید کی حیثیت رکھتے تھے،یہ سب ایران اور ایران سے باہر امام خمینی کے سچے اورکھرے عاشق اور فدائی تھے،جنگ تحمیلی کے دوران امام خمینی نے جہاد کی فرضیت بارے کوئی فتوٰی نہیں دیا ،ہاں بس اتنا کہا کہ جو بھی استطاعت یا طاقت رکھتا ہے وہ جبہ یعنی محاذ پر جائے،پاکستان جو ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور انقلاب اسلامی ایران کو پسند کرنے والوں کی یہاں بھی بڑی تعداد موجود تھی ان پاکستانیوں میںسے جس شخصیت نے امام خمینی کی اس خواہش کو سنا اور اسے پورا کرنے کی کوشش کی وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید تھے ،جو اپنے چند رفقا ء کے ہمراہ جبہ پر پہنچ گئے تھے،انہوں نے محاذ جنگ پر بے انتہا خدمات سرانجام دیں وہ ڈاکٹر تھے جن کی محاذ جنگ پر اشد ضرورت ہوتی ہے ،ان کی خدمات کو اہل ایران ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
    
سانحہ مکہ ہوا تو آل سعود کی طرف سے اہل ایران پر حج کی پابندی لگا دی گئی،لبنان کے جوانوں پر بھی عمر کے حساب سے پابندیاں لگائی گئیں،امام خمینی کی خواہش تھی کہ حج پر حسب دستور دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج کرام کو اصل حج یعنی برا ء ت از مشرکین کا پیغام یاد کروایا جائے،وہ پیغام جس کو پہنچاتے ہوئے چار سو سے زیادہ حجاج نے اپنے خون کی قربانی دی تھی اور جائے امن پر جہاں ایک چیونٹی کو مارنا بھی منع کیا گیا ہے کو بلا جواز،بلا جرم و خطا خاک و خون میں غلطاں کیا گیا تھااس پیغام کو پہنچانے کا انتظام و انصرام اور ذمہ داری فدائے امام خمینی ڈاکٹر محمد علی نقوی کے حصہ میں آئی ،ڈاکٹر محمد علی نقوی نے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اس پیغام امام کو احسن طریقہ سے حجاج کرام تک پہنچایا،اوراس موقعہ پر اسیر ہوئے،انہیں سزائے موت کا حکم ہوا مگر انہیں خدا نے مزید کام کا موقعہ دیا اور وہ رہا ہو گئے،انہوں نے رہا ہونے کے بعد بھرپور کام کیا اور سات مارچ 1997ء کی دم صبح  لاہور کے یتیم خانہ چوک میں سامراجی ایجنٹوں کے ہاتھوں درجہ شہادت کو پایا،وہ ہم سب کے دلوں پر حکمرانی کرتے آ رہے ہیں ،بائیس سال ہوگئے ہم نے ان کی یادوںکا چراغ روشن رکھا ہے اور اسے تیز ہوائوں میں بھی بجھنے نہیں دیا، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان کی یاد منا کر ،ان کی باتیں سنا کر ان کی تصویریں سجا کر یا ان کے اہل خانہ پر کوئی احسان کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ ملت کے محسن ہیں انہوں نے اپنی ظاہری زندگی میں بھی ملت کی فلاح،نظریہ کی بقا،اور اسلام حقیقی کے احیا ء کیلئے زندگی کو وقف کیئے رکھا اور ان کی بعد از شہادت زندگی بھی ہم یعنی ملت کیلئے باعث رشد و کمال ہے ،یہ شہداء ہی ہیں جن کی وجہ سے قوم و ملت کو سربلندی نصیب ہوتی ہے اور انہیں اوج و کمال حاصل ہوتا ہے ،ان کی یاد منا کر ،ان کے کارناموں اور کمالات کو سامنے لانے کا مقصد مستقبل کی ملت اور سرمائے کو جنہوں  نے قوم و ملت کی باگ ڈور سنبھالنا ہے،ان تاریخی کرداروں سے آشنائی کروانا ہے تاکہ ایسے کردار پھر بھی سامنے آتے رہیں،اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہے تا وقتیکہ وقت کے امام کا ظہور نہیں ہو جاتا اور مظلومین مستکبروں پر غلبہ نہیں پالیتے،کمزور بنا دیئے گئے حکومت و اختیار حاصل نہیں کر لیتے۔
    
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہماری ملت کے سرخیل اورملت کے خلاف جاری استعماری جنگ میں ہمیشہ خط مقدم پر رہنے والے تھے،انہوں نے اپنی تمام زندگی ملت بالخصوص نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ،شعور کی بیداری،تحرک،رفاہ و فلاح،مسائل و مصائب کے حل،قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے دن رات ایک کیئے رکھا اور ایک پروفیشنل ڈاکٹر ہونے کے باوجود علماء سمیت ہر طبقہ ء فکر کیلئے نمونہ   قرار پائے انہیں بہت سے اعزا ز حاصل ہے،جن کو اس مختصر کالم میں زیر تحریر لانا ممکن نہیں ہاں ہم ان کارناموں اور اعزازات کی ایک فہرست یہاں پیش کر سکتے ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح ان کا حق ادا کر سکوں گا ،بہرحال ہم ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو سالار شہدا سمجھتے ہوئے ان کی یاد منا کر ان کے کارہائے نمایاں اور ایثار و قربانیوں کو یاد کر کے اپنے اندر تحرک و تحریک محسوس کرتے ہیں ،یہ کیا کم ہے کہ وہ لوگ جو شہید ہو گئے اپنی شہادت کے بعد بھی ہمارے تحرک و بیداری کا باعث بنتے ہیں حالانکہ ہمیں ایسی قیادتیں بھی ملتی ہیں جن کے وجود سے تحرک و بیداری تو نہیں مایوسی و بددلی کا احساس ضرور جنم لیتا ہے اور انسان ان کی رہنمائی پا کر کسی منزل کی جانب بڑھنے کے بجائے اپنا راستہ ہی بھلا بیٹھتا ہے جبکہ ڈاکٹر شہید ایسی شخصیت نے اتنے زیادہ کام کیئے ہیں کہ انہیں کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ان کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
            میرے قبیلہ سرکش کا  تاجور ہے  وہ شخص
            بڑھے جو دار کی جانب پیغمبروں کی طرح

آج ان کی بائیسویں برسی مناتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتا کہ بہت سے لوگ ان سے جلن محسوس کرتے تھے اور ان پر تہمتیں بھی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے  مگر یہ شہید ڈاکٹرہی تھے جو اپنے ہدف اور منزل کی طرف بڑھتے رہے اور شہادت کا بلند مقام پا کر اپنا میرٹ ثابت کیا،میں ایسے بہت سے لو گوں کو جانتا ہوں جو تنظیمی ہونے کے دعویدار ہیں،ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں ان کے ساتھ احسان اور بھلائی بھی کی ہو گی مگر ان کو ڈاکٹر شہید کی یاد منانا اچھا نہیں لگتا،ڈاکٹر شہید کی برسی ،قائد شہید کی برسی اور رفقا ء شہیدین کی یاد منانا ذرا بھی نہیں بھاتاجبکہ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ یہ شخصیات ہی تھیں جن کے وجود کی برکات سے ہم ہمیشہ لطف اندوز ہوتے تھے،اس موقع پر میں اہل ایران کی مثال دونگا کہ جنہوں نے اتنی قربانیاں دی ہیں کہ ان کا شمار ہی ممکن نہیں اور انہیں شہدائے گمنام کا باب کھولنا پڑا ہے ،جا بجا شہدائے گمنام کے مقابر بنائے گئے ہیں ان کی یاد گاریں  قائم ہیں ،لوگ ان پر حاضر ہوتے ہیں،اسی طرح آپ ایران میں جہاں بھی جائیں ہر سو ،ہر شہر میں شہدا ء کے نام سے منسوب قبرستان یعنی گلزار شہداء بنائے گئے ہیں،آپ ان میںجمعرات کے دن جائیں کیسے عجیب مناظر دیکھنے کوملتے ہیں شہدا ء کے ورثا ء و رفقاء ان شہدا ء کو کبھی نہیں بھولتے اس لیئے کہ شہدا ء بھی انہیں فر اموش نہیں کرتے،جگہ جگہ شہدا ء کی یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں ،ان کی تصاویر دیواری سائز میں لگائی ہوتی ہیں،ان کے اقوال نمایاں اور انتہائی خوبصور ت انداز میں لکھے ہوتے ہیں،ان کے گھروں کا سارا خرچ بنیاد شہید اٹھاتی ہے،ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام خصوصی طور پر کیا جاتا ہے،آپ کو ان شہدا ء کے نام سے ریلوے اسٹیشنز،میٹرو اسٹاپ،ادارے،این جی اوز،کالجز،اسکول،یونیورسٹیز،او نا جانے کیا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے،ان پر کتابیں لکھی جاتی ہیں،ان پر ڈاکٹریٹ کروائی جاتیں ہیں،ان پر مقالے لکھے جاتے ہیں،مقابلے کروائے جاتے ہیں، مگر ہمار ے ہاں شہدا ء کی یاد منانا بھی عیب سمجھا جاتا ہے،شخصیات کو شہدا ء کی یاد منانے سے اپنا قد چھوٹا محسوس ہوتا ہے،شائد یہی وجہ ہے کہ قوم کی قیادت و سیادت پر فائز شخصیات نے شہید قائد علامہ عارف الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے نام سے کوئی موسسہ،کوئی ادارہ،کوئی اسکول،کوئی کالج،کوئی شہر ،کوئی گائوں،کوئی ہسپتال تعمیر نہیںکیا بھلا کس طرح ترقی کر سکتے ہیں ،کس طرح ہماری ملت اپنا وقار اور عظمت بحال کروا سکتی ہے جبکہ ہم شہدا ء وہ بھی شہید قائد اور شہید ڈاکٹر جیسی شخصیات کو فراموش کر بیٹھے ہیں ہم نے اس کا کوئی انتظام نہیں کیا،اس پر ذمہ داران سوچیں،غور کریں اگر ممکن ہو اور کچھ کر سکتے ہوں توضرور کریں ورنہ ان شہدا ء بالخصوص شہید ڈاکٹر کے روحانی فرز ند اور بھائی تو کچھ نا کچھ کرتے ہی رہتے ہیں اور کچھ نا سہی تو ایک سالانہ برسی ہی سہی،اپنی عقیدتوں کے سلام پیش کرنے اور نئی نسل کو ان کے کردار و عمل سے آگاہ رکھنے کیلئے یہ سیمینار،کانفرنسز،اور برسی کے پروگرام بھی بہت ضروری ہیں،ان کی یاد منانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سب لوگ مل کر کم از کم ان کے شروع کردہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں،ان کے شروع کردہ پروگراموں کی رونق کو ماند نا پڑنے دیں،خدا سلامت رکھے،شہدائے ملت کی یادوںکے چراغ روشن رکھنے والوں کو۔

میں تو انہیں یاد کر کے یہی کہوں گا۔۔۔
رونق تو وہی ہے پھر بھی جیسے
اک شخص کی شہر میں کمی ہے

تحریر۔۔۔ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب بھی دہشت گردی کی کوئی وارادت، بم دھماکہ یا خود کش حملہ ہوتا ہے تو ہمارے قومی میڈیا،سوشل میڈیا میں پرانی بحث نئے انداز سے شروع ہو جاتی ہے کہ اس کا تدارک کیا ہونا چاہیئے،کیا ہوا،یہ ہوا،وہ ہوا،یہ کیوں نہیں ہوا،،حکومت کی غفلت،دہشت گردوں کی اس قدر قوت،اور طاقت،دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا کردار،اور جوبے گناہ شہید کر دیئے گئے ان کی مالی امداد،زخمیوں کا علاج و سہولیات ،اور اس سے مربوط وہ ساری باتیں جو ہر دھماکے اور دہشت گردی کے واردات کے بعد سامنے لائی جاتی ہیں اور جن پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے،دہشت گردی کی حالیہ لہر جو خاصی سنگین واقع ہوئی ہے اس کے بعد بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ قومی میڈیا اور حکومتی ایوانوں سے لیکر اپوزیشن جماعتوں ،مذہبی سیاست مداروں او سول سوسائٹی میں اس سے پہلے گذرے کسی بھی بڑے واقعہ کے بعد سامنے آنے والی باتوں ،تجزیوں،تجاویز،احساسات،نقصانات،اور تدبیرات کا تکرار واضح ہے ،دہشت گردی کا یہ فیز در اصل پاراچنار میں ہونے والے بدترین دھماکے سے شروع ہوا،پاراچنار سبزی منڈی میں مورخہ 21جنوری کو صبح سویرے ایک خود کش حملہ کیا گیا ،جس میں تیس کے قریب لوگ شہید ہو گئے ،اب اس کے بعد دھماکوں کی سیریز چلی ہے جس کا تسلسل ابھی بھی جاری ہے اور لوگ پاراچنار کو بھول گئے ہیں، اس کے بعد لاہور مال روڑ پہ بد ترین سانحہ پیش آیا اس کے بعد سیہون میں شدید دھماکہ سے نوے کے قریب شہید اور تین سو تک زخمی ہوئے جس سے خوف و ہراس اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی،دو دن پہلے ہی چار سدہ میں کچہری میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا اس پہ سب شکر ادا کر رہے ہیںکہ بہت بڑا نقصان نہیں ہوا،حالانکہ سات لوگ شہید ہو گئے پچیس تک زخمی ہو ئے،اب روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی ہو رہی ہے کوئی دن ہی شائد خالی جاتا ہو،یہ تحریر لکھی جا رہی تھی کہ لاہور کے ڈیفنس میں ایک بم دھماکے کی خبر نے ہلا کے رکھ دیا ،ڈیفنس لاہور کا پوش ایریا ہے جہاں ایک زیر تعمیر بلڈنگ  کے سامنے دھماکہ ہوا جس میں ابتدائی طور پہ سات لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ پچیس تک کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی ہے ،ایک خوف ہراس کی فضا نے اہل لاہور پہ چھائی ہوئی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ جس کا نقصان ہوتا ہے اسے ہی پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہوا ہے،اس پہ جو گذرتی ہے اس کا اندازہ صرف اسے ہی ہوتا ہے جس کا نقصان ہوتا ہے،جس کا سہاگ اجڑتا ہے،جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ چھن جاتا ہے،جس کی امید دم توڑ جاتی ہے،جس کی جوانی لٹ جاتی ہے یا جس کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا جاتا ہے۔۔۔


یہ  میں  ہی  جانتا  ہوں  جو  مجھ  پہ  گذر  گئی
دنیا  تو  لطف  لے  گی  میرے  واقعات  سے

 
لاہور،پشاور،سیہون،مہمند،شب قدر،کراچی،کوئٹہ اور پاراچنار میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کو مختلف ناموں سے بھی تسلیم کیا گیا ہے اور کئی ایک واقعات کو صرف جماعت الاحرار کے نام سے تسلیم کیا گیا ہے،لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے بھی دہشت گرد اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔دہشت گرد کتنے سنجیدہ ہیں اور حکمران کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ ان کے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے۔
 دہشت گردی ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے ،اس کا کوئی بھی نام ہو سکتا ہے،یہ نام تبدیل بھی ہو جاتا ہے مگر ہدف اور مقصد وہی رہتا ہے،جو لوگ پاکستان میں کل تک داعش کے وجود سے انکاری تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہم داعش کا سایہ بھی پاکستان پر نہیں پڑنے دینگے اب اس کے خلاف آپریشن ردالفساد کرنے جا رہے ہیں جبکہ ہم کئی برسوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ داعش،طالبان،جماعت الاحرار ،جند اللہ،لشکر جھنگوی،سب ایک ہی فکر و سوچ کی حامل ایک ہی چھتری تلے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں ہیں،مگر ہماری کون سنتا ہے ،اتنے لوگ مروا کے،اتنے بے گناہ لوگ اور خاندان اجاڑ کے اب یہ خیال آیا ہے کہ پنجاب میں بھی ان کے خلاف کاروائی کی ضرورت ہ ے ۔داعش جسے عراق و شام میں نام نہاد خلافت بنا کے قائم رکھنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہاں کی باغیرت حکومتوں اور عوام کے عزم کے سامنے یہ کرائے کے ٹٹو اب اپنے بلوں میں گھستے دکھائی دے رہے ہیں تو ان کا خطرہ ہر سو محسوس کیا جا رہا ہے اب تو کھل کے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں اگر داعش کو شکست دینی ہے اور اس کا راستہ پاکستان میں روکنا ہے تو افغان طالبان کا ساتھ دینا ہو گا،داعش ہی ہے جو افغانستان اور پاکستان سمیت علاقے کے دیگر ممالک اور ریاستوں کیلئے چیلنج بن کے سامنے آ رہی ہے،ہماری وفاقی حکومت ہو یا پنجاب و سندھ کی حکومتیں ہمیشہ سے اس سفاک تنظیم کے وجود سے انکار کرتی آئی ہیں جبکہ گزشتہ تین چاربرس سے مسلسل اس حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی آ رہی ہیں،داعش کے بارے ہم اس سے قبل بھی قارئین کو بتاچکے ہیں کہ اس کے وجود کا اظہار بنوں،میانوالی،اور کراچی و کوئٹہ میں وال چاکنگ کے بعد سامنے آیا تھا،بنوں جو وزیرستان سے منسلک اور جڑا ہوا ہے یہاں ابوبکر بغدادی کی بیعت کے اعلان پر مشتمل وال چاکنگ کی گئی اگرچہ داعش تمام تر سفاکیت،اسلام دشمنی،اور اسرائیلی مفادات کی نگران ہونے کی واضح حکمت عملیوں اور کاروائیوں کے باوجود سپاہ صحابہ اور طالبانی فکر سے منسلک سوشل میڈیا اکائونٹس سے مسلسل اس تنظیم کو خوش آمدید کہا جا رہاتھا،حد تو یہ کہ داعش کو اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کے پیارے ملائوں نے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا اور ابوبکر بغدادی سے مدد طلب کی گئی اس کی ویڈیو ریلیز کی گئی، مگر مجال ہے اس بات کا کسی نے نوٹس لیا ہو کوئی ایجنسی حرکت میں آئی ہو کسی پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہو جبکہ اس کے مقابل ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر کوئی ناپسندیدہ کام کرنے کی پاداش میں ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص سینکڑوں پرچے شیعہ نوجوانوں پر کاٹے گئے سخت دفعات لگا کر انہیں جیلوں میں پھینکا گیا۔کل تک پنجابی طالبان کے وجود کا انکار کرنے والی نون لیگ کی پنجاب حکومت داعش کے وجود کی بھی انکاری رہی اور ادھر ملک بھر میں اس تنظیم کی چاکنگ سامنے آ تی رہی اور مقامی انتظامیہ اپنی جان چھڑوانے کیلئے لوکل میڈیا کو اس حوالے سے خبریں بلیک آئوٹ کرنے کی منت سماجت کرتی ،دیواروں پر چونا پھروا دیاجاتااور یہ تاثر دیا جاتا کہ داعش کا وجود نہیں ہے یہ بھی کہا جاتا کہ یہ کسی کے ذاتی جذبات ہو سکتے ہیں مگر دانا کہتے ہیں ریت میں سر چھپانے سے حقیقت کہاں چھپ سکتی ہے حکمران جتنا بھی بات کرنے سے گریزاں رہیں یہ سفاک تنظیم ہوا میں تحلیل نہیں ہو سکتی تھی،سیانے کہتے ہیں کہ قالین کے نیچے گرد چھپانے سے حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے جو بہرحال سامنے آجاتا ہے۔اب جماعت الاحرار جو طالبان سے جدا ہوئی اور پہلے پہل جماعت الاحرار ہند کے نام سے سامنے آئی بعد ازاں اس کے کمانڈرز نے داعش کا پرچم تھام لیا اورپاکستان میں کاروائیاں تسلیم کرنے لگے اب لاہور میں ہونے والے دھماکے کو تسلیم کر کے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی ہے ۔


    یہ بات بہت ہی عجیب ہے کہ دہشت گردوں کی اندرونی خبریں عالمی میڈیا ہی نشر کرنے میں سبقت رکھتا ہے،ہمارے ملک کے وہ ایریاز جہاں ہمارے صحافی جانء میں دشواری محسوس کرتے ہیں وہاں کی خبریں بھی عالمی میڈیا کے ذریعے ہی سامنے آتی ہیں،اس حوالے سے ہمیں یاد ہے کہ عالمی میڈیا نے ہی سب سے پہلے یہ خبردی کہ داعش کرم ایجنسی اور ہنگو کے ایریاز میں بھرتی کر رہی ہے اور اس نے بڑی تعداد میں تربیت یافتہ لوگ بھرتی کر لیئے ہیں،اس دوران تحریک طالبان سے وابستہ اہم ترین کمانڈرز نے بھی ملاں عمر سے الگ ہونے اور ابوبکر بغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کیا ایک ویڈیو پیغام میں  ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد، خالد خراسانی اور حافظ سعید سابق کمانڈر و ترجمان نے طالبان سے الگ اپنا نیا دھڑا داعش کے نام سے بنانے کا اعلان کیاادھر گوانتا نامو بے میں امریکیوں کے پاس کئی سال تک قید رہنے والے ملا عبدالرئوف نے افغانستان میں داعش کا پرچم لہرایا اور ہلمند میں افغان طالبان سے اس کی جھڑپیں بھی ہوئیں،،کئی اہم علاقوں پر داعش نے افغانستان میں قبضہ بھی کیا جبکہ پاکستان میں حافظ سعید جس کا تعلق اورکزئی سے بتایا جاتا ہے کو پاکستان و افغانستان کیلئے امیرکے طور پر سامنے لایا گیا ویڈیو میں کئی اہم افغان کمانڈرز کو بھی دکھایا گیا کہ وہ بیعت کر رہے ہیں شائد اس طرح اپنی طاقت و قوت کا اظہار کرنا تھا ۔داعش نے افغانستان کے شمالی صوبے ننگرہار اور ہلمند میں اپنی قوت کو مضبوط کیا ۔[حافظ سعید کے بارے بعد ازاں خبر آئی کہ اسے افغانستان میں ننگر ہار کے یریا میں ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے] یہ خبر بھی میڈیا میں گردش کرتی رہی ہے کہ افغانستان و پاکستان کیلئے داعش نے ابو محمد العدنی کو کمانڈر مقرر کیا ہے،اس سے بھی قبل پاکستان میں داعش کے سربراہ کے حوالے سے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے خبر دی تھی کہ یوسف السلفی پاکستان میں اس کا سربراہ ہے جو یہاں بھرتیا ں کر رہا ہے،بعد ازاں لاہور کے نواحی ایریا سے یوسف السلفی کو دو دیگر ساتھیوںسمیت گرفتا ر بھی کر لیا گیا تھا معلوم نہیں اس کا کیا بنا سے کہاں رکھا گیا ہے،سانحہ صفورا میں پکڑے جانے والے دہشت گرد عبداللہ منصوری کا تفتیشی افسران کویہ کہنا تھا کہ عبداللہ یوسف عرف ثاقب داعش کا سربراہ ہے جو شام سے پاکستان نیٹ ورک چلانے کیلئے آیا وہ لوگ ان کے ساتھ رابطے میں تھے جبکہ یہ خبر بھی آئی کہ کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق زبیر الکویتی نامی بندہ اپنے سات دیگر ساتھیوں سمیت افغانستان کے راستے پاکستان آئے ہیں ان میں ایک انڈین سعید الاسلام بھی ہے جو داعش کے مالیات کو دیکھتا ہے،ان لوگوں نے کالعدم لشکر جھنگوی،اہل سنت والجماعت،طالبان ،جماعت الاحرار اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے روابط کر کے تنظیم کو مضبوط کرنے اور سفاکانہ کاروائیاں کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔یہ خبر بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہندوستان کے کرناٹک ایریا سے بنگلور سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی 2014میں گرفتار کیا گیا تھا ،یہ شخص داعش کا ٹویٹر اکائونٹ چلا تا تھا اور اہم خبریں انگریزی میں نشر کرتا تھا،اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس خطے میں اس منحوس ،سفاک و دہشت پسند گروہ کا وجود بہت پہلے سے ہی تھا،یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران اب بھی اس کا انکار ہی کرتے نظر آئے اب جس ویب سائٹ سے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے اس کا آئی پی ایڈریس بھی ہندوستان سے بتایا جا رہا ہے،جس کا واضح طور یہی مطلب لیا جا رہا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے پس پشت ہندوستان ہے جو افغانستان میں کافی موثر ہے اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس چلانے کیلئے اس کی خفیہ ایجنسی وہاں ڈیرہ لگا چکی ہے۔

حکومت کی سنجیدگی؛
اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ انڈیا پاکستان کا ازلی دشمن ہے ،کسی بھی دشمن سے دشمنی کی ہی توقع رکھی جاتی ہے مگر جو لوگ پاکستان کے دوست ہونے کے دعویدار ہیں ان سے دشمن کے ساتھ کھڑے ہونے کی خبر ہلا کے رکھ دیتی ہے،عرب ممالک،سعودیہ،قطر،متحدہ عرب امارات  سے جسطرح ان پاکستان دشمن قوتوں کی مدد کی جا رہی ہے اور ان کے ویزوں سے لیکر فنڈز کا لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے اس پہ ہمارے حکمران اور ذمہ دار ادارے خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیںہمارے خیال میں اگر نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیاجاتا اور ان کی فنڈنگ روک لی جاتی،مدارس کے نام پر دہشت گردی کے ہزاروں مراکز کو کنٹرول کیا جاتا تو آج نوبت یہان تک نہ آتی مگر ہم کیا کریں ان عرب بدوئوں کے سامنے ہمارے حکمرانوں کی حالت ایسے ہی ہے جیسے ہم ان کے غلام اور خریدے گئے ہیں،اگر حکمرانوں نے اب یہ ٹھان لی ہے کہ اس شر اور فساد کا خاتمہ کرنا ہے تو ہر صورت میں مدارس کے نام پر ،تحفظ حرمین کے عنوان سے ریالوں اور پیٹرو ڈالرز کی جھنکار کو روکنا ہو گا،اس بات کو سیکیورٹی ادارے بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو پاکستان کے کن مدار س سے آپریٹ کیا جاتا ہے اور کون کون غیرملکی فنڈنگ کے تحت اس ملک کو غیر مستحکم کر رہا ہے،افسوس کہ یہاں بے گناہوں کو تو بہت ہی معمولی باتوں پر غائب کر لیا جاتا ہے جبکہ دہشت گرد کھلے عام گھوم رہے ہیں ان کے سہولت کار بھی سب کے سامنے پھر رہے ہیں ،اب جب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں رینجر کو محدود اختیارات کے تحت دہشت گردی کے خلاف میدان میں لایا جا چکا ہے تو ان کی کاروائیوں کے زاویوں سے حکمرانوں کا خلوص جانچا جا سکے گا جس  حکومت کے وزرا دہشت گرد و کالعدم گروہوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور شروع سے ان پہ انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں آیا ان گروہوں اور ان کے اصلی سہولت کاروں کے خلاف بھی کوئی اقدام سامنے آئے گا ،ایک ملک کا وزیر دفاع ایک عالمی کانفرنس مین جب یہ تسلیمکرتا ہے کہ حافظ سعید کو ایک ایسے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جو شر و فساد پھیلانے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تو ایسے شریروں کے خلاف مستقل بنیادوں پر کیوں قانون حرکت میں نہیں آتا،ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نام بدل کے کام کرنے والے کالعدم گروہ جن سے پنجاب حکومت کے وزرا کے قریبی تعلقات ہیں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو یہ کہا جا سکے گا کہ حکمران دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیںاور اگر معروف کالعدم گروہ جو تمام دہشت گردوں کو پنیری فراہم کرنے کا کام کرر ہا ہے پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی تو پھر اس آپریشن رد الفساد پر بھی اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان کی طرح فاتحہ پڑھ لیں،آپریشن رد الفساد کا آغاز ایسے وقت میں ہوا ہے جب قومی سطح پر فوجی عدالتوں کے قیام میں تاخیر کی جا رہی ہے اور بہت سے دہشت گردوں کو سزا ینے کا عمل رکاہوا ہے ،اب یہ سزا شائد پولیس مقابلوں کی شکل میں دی جا رہی ہے، ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree