وحدت نیوز (آرٹیکل) کرپشن تہذیب کی دشمن ہے۔ہر مہذب انسان کرپشن سے نفرت کرتا ہے۔پاکستان میں کرپشن کرنے والے اور کرپشن سے نفرت کرنے والے دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں۔چنانچہ پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے نیب کے نام سے ایک ادارہ بھی موجود ہے۔اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود نیب کا ادارہ ہمارے لئے ایک غنیمت ہے۔تاہم دیگر اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی نوابوں،جاگیرداروں اور زرداروں کے سامنے بے بس نظر آتاہے۔

پاکستان میں جہاں ہر طرف طاقتور کی حکمرانی ہے  اور غریب و کمزور ہونا جرم بن گیا ہے وہاں نیب جیسے ادارے کا نام کسی نہ کسی حد تک امید کی کرن دکھا ہی دیتا ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب غریب اور کمزور لوگ بے شعور بھی ہوں تو پھر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا اور بھی آسان ہوجاتاہے۔ہمارے ہاں عوام کی بے شعوری کا یہ عالم ہے کہ اگر 12 ارب سے زیادہ کا فراڈ کرنے والے ڈبل شاہ کی طرح کا کوئی کرپٹ شخص نیب کے ذریعے جیل میں چلا بھی جائے تو رہائی کے موقع پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کا استقبال کرتی ہے اور ایک جلوس کی صورت میں اسے رہائش گاہ تک لایا جاتاہے۔

اس ملک میں ہزاروں  چور دروازے ہیں اور ہر چور دروازے پر ایک نواب بیٹھا ہوا ہے  اور ہر نواب کے پیچھے لاکھوں بے شعور لوگوں کا جم غفیر موجود ہے۔

ابھی کل کی خبر ہے  کہ پاکستان میں سینکڑوں پاسپورٹوں میں غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے عمرے پر جانے والےلوگوں کے ویزے نہیں لگ سکے،لوگوں نے پاسپورٹ آفس میں رابطہ کیا تو انہیں کہا گیا کہ دوبارہ فیس جمع کروا کر نئے پاسپورٹ بنوا لیں،اسی طرح ایک صاحب نے بتایا ہے کہ وہ تہران  میں قائم پاکستان ایمبیسی میں  بچے کا پاسپورٹ بنوانے کی فیس جمع کروانے کے بعد چار سال تک چکر لگاتے رہے ،چار سال کے بعد جب پاکستان گئے اور وہاں پاسپورٹ آفس میں رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں چار ہزار روپے دیں اور پاسپورٹ لے لیں۔اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔لوگ پریشان حال مارے مارے پھرتے ہیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں۔

ایک پاسپورٹ آفس میں تو اس طرح ہوتا تھا کہ  سائل کے فارم کو دیکھتے ہی بڑے صاحب  ایک دوغلطیاں نکال کرکہتے تھے کہ آپ کا تو پاسپورٹ بن ہی نہیں سکتا،یہ سنتے ہی خصوصا وہ سائل  جسے پاسپورٹ بنوانے کی جلدی ہو، پریشان ہوکرفوراً منتیں ترلے کرنے  شروع کردیتاتھا، کچھ دیر بعد بڑے صاحب اسے کہتے تھے کہ اچھا آپ نہیں چھوڑتے تو چلیں جائیں یہ ساتھ والے کمرے میں جو صاحب بیٹھے ہیں ان سے بات کریں وہ آپ کو کوئی راہِ حل بتائیں گے۔

جب چند لوگوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو ایک دم میرے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ ساتھ والے کمرے میں آخر کونسا مشکل کشا بیٹھا ہوا ہے!؟

جب میں ساتھ والے کمرے میں گیا تو وہاں موجود صاحب ہر شخص کا فارم دیکھ کر افسوس کرتے تھے کہ آپ کا کام تو بہت مشکل ہے اور پھر انتہائی رازدارانہ لہجے میں کہتے تھے کہ میرے پاس فقط ایک راہ حل ہے شاید اس سے کچھ ہوجائے۔سائل فورا اچھل پڑتا تھا جی بتائیے !میں ضرور اس پر عمل کروں گا۔

وہ صاحب سائل کو ایک اکاونٹ نمبر دیتے تھے کہ جاو یہ ساتھ والے بینک میں اتنے ہزار ڈال کر آجاواور رسید مجھے دے دو۔وہ شخص خوشی کے مارے دوڑ کرجاتاتھا اور اس اکاونٹ میں پیسے ڈال کر اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ میرا مسئلہ حل ہونے والا ہے۔اس کے بعد اس کا فارم جمع ہوجاتا تھا اور پھر وہ پاسپورٹ فیس جاکر دوسرے اکاونٹ میں جمع کرواتا تھا۔

ابھی آئیے  لودھراں میں ٹرین حادثے کی بات کرتے ہیں  جہاں  ٹرینوں کے ڈرائیوروں نے احتجاجا استعفے دے دئیے ہیں۔ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ پیش آتاہے تو اصلی ذمہ داروں کو پکڑنے کے بجائے نچلے طبقے کے کسی شخص کو قربانی کا بکرا بنایا جاتاہے۔انہوں نے کہا کہ ریل کی پٹڑی پر چلانے کے لئے جو پٹاخوں کی رقم ملتی ہے وہ اعلی ٰ حکام خود ہی ہڑپ کرجاتے ہیں۔

اب چلئے ذرا کوئٹہ کی بھی بات کرتے ہیں جہاں کتنے ہی عرصے سے مسافروں کی چیخیں نکل رہی ہیں،کچھ مخصوص لوگ ہیں جو مسافروں کو کانوائے کے نام پر محصور کرکے رکھتے ہیں اورسفر زیارت کی غرض سے جانے والے مسافروں کو  اپنے ہوٹلوں اور مسافر خانوں کے  علاوہ کہیں اور ٹھہرنے بھی نہیں دیتے اور نہ ہی اپنی گاڑیوں کے علاوہ دوسروں کی گاڑیوں میں سفر کرنے دیتے ہیں۔

کوئٹہ سے آگے نکلیں تو جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر ایف سی والے لوگوں کی توہین کرتے اور رشوت وصول کرتے نظر آتے ہیں۔کسی کو پوچھ گچھ کا  کوئی خطرہ نہیں،ہر کسی نے لوٹنے کے لئے چند بہانے تیار کررکھے ہیں۔جب تک یہ بہانے چلتے رہیں گے کرپشن چلتی رہے گی۔

ضرورت اس مر کی ہے کہ نیب کا ادارہ عوام کے درد کو محسوس کرے اور عوام کے ذریعے کرپٹ عناصر کا سراغ لگائے۔

جہاں پر عوام کے ذریعے کرپٹ لوگوں کا سراغ لگانا ضروری ہے وہاں عوام کو کرپشن سے آگاہی  اور کرپشن کے خلاف بولنے کا شعور دینا بھی ضروری ہے۔

آخر میں ہماری دعا ہے کہ خدا ہماری ملت کے حال پر رحم کرے اور ہمارے اداروں میں دیانتدار اور امین لوگ ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے نظر آئیں۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (آرٹیکل) حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی پھیلانے والے مدارس کی کروڑوں روپے کی مدد کی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کئی ایک دیوبندی مدارس کو بھاری رقوم کی گرانٹ دی ہے۔ حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ جب ان گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ فتوحات حاصل کر رہے تھے، جب اس وقت وہ کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکے تو آج وہ انہیں کبھی نہیں جھکا سکتے۔ وہ آج تو زوال کی طرف بڑھ رھے ہیں، وہ معنوی طور پر شکست خوردہ ہیں۔ آج محب وطن عوام کی حمایت سے انہیں راہ راست پر لانا آسان ہے، لیکن اگر وہ مخلص عوام سے ہماری فوج کو تنھا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان ایک نئے بحران میں داخل ہو جائے گا، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔
 
کرم ایجنسی:
کرم ایجنسی پاکستان کی تمام ایجنسیز میں سے خوبصورت ترین اور اہم ایجنسی ہے۔ یہاں پر اکثریت طورى قبائل آباد ہیں۔ ارض پاکستان کی جنت نظیر وادی اور اسٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کا حامل انتہائی اہم علاقہ پاراچنار افغانستان کے تین صوبوں (ننگر ہار، خوست اور پکتیا) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و اسٹرٹیجک خدوخال اور اکثریتی شیعہ  آبادی ہونے کی وجہ سے تکفیری، وہابی و دیوبندی عسکری گروہوں، سیاسی قوتوں اور انکے بانیان و سہولتکار مقامی و بین الاقوامی طاقتوں کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے، جنہوں نے پے در پے حملوں اور مسلسل سازشوں سے اسے میدان جنگ بنا رکھا ہے، یہ علاقہ باقی تمام قبائلی علاقوں کی نسبت افغان دارالحکومت کابل سے نزدیک اور کم ترین فاصلے پر واقع ہے، اس علاقے کا دارالخلافہ اور صدر مقام پارا چنار ہے۔

پارہ چنار:
پارا چنار افغانستان کے تین صوبوں (ننگرہار، خوست اور پکتیا) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ پارا چنار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مغرب کی طرف 574 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کرم ایجنسی کا ایک خوبصورت اور اہم شہر ہے، جو افغانستان کے بارڈر کے ساتھ واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ جو تمام قبائل و ایجنسیوں کے شہروں سے بڑا اور دلکش اور خوبصورت شہر ہے۔ اس ایجنسی کے لوگ پشتو، اردو، فارسی اور انگریزی زبان بولتے ہیں۔ اسکا کل رقبہ  3,310 کلو میٹر ہے اور آبادی تقریباً ساڑھے چھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔

طوری و بنگش قبائل کی وطن دوستی:
پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔
1۔ پارہ چنار کے سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں پاکستان کے ترانے پڑھے جاتے ہیں۔
2۔ فوج و ایف سی پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کی وجہ سے محفوظ ہے، جن پر کوئی خودکش حملہ تو دور کی بات حتٰی کہ فوج و ایف سی کے اہلکار پارہ چنار بازار میں بغیر ہتھیار کے گھوم پھر سکتے ہیں۔
3۔ جب پاکستان آرمی کو ملک میں قیام امن کیلئے آپریشنز اور قربانیوں کے لئے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، اسی علاقے کے بہادر سپاہی و آفیسرز پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔
4۔ طوری و بنگش قبائل کسی ملک دشمن قوت کے آلہ کار نہیں اور نہ انکے کسی سے روابط ہیں۔ انہوں نے ملک میں نہ کبھی خودکش حملے کئے اور نہ ہی جی ایچ کیو و پی این ایس مہران پر حملوں جیسی دہشتگردی میں حصہ  لیا۔
5۔ انھوں نے کبھی افواج پاکستان کے ساتھ لڑائی کو جہاد قرار نہیں دیا اور نہ ہی انکے ہاں بغاوت پر مبنی آزادی کے ترانے گائے جاتے ہیں۔
6۔ اسے علاقے کے لوگ معاہدوں کی پاسداری کرتے ہیں، ماضی میں مری معاہدہ ہو یا حکومتی سرپرستی میں ہونے والے دیگر معاہدے، انہیں تکفیری دہشتگردوں نے ہی ہمیشہ توڑا ہے۔

حکمرانوں کا رویہ:
1۔ تاریخ گواہ ہے کہ پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ حکمرانوں نے سوتیلی ماں جیسا سلوک اور ریاستی دہشت گردی جیسا انداز اپنا رکھا ہے۔ ارباب اختیار کی طرف سے تکفیری دہشتگردوں کے لئے ہی صرف ترقیاتی پیکیج دیئے جاتے ہیں، انھیں عدالتوں کے ذریعے عبرت ناک سزا دینے کی بجائے  VIP پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے ملک میں دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
2۔ یہ لوگ اس ملک کے محب وطن شہری ہیں اور انکے جان و مال اور ناموس کی حفاظت حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، یہ باقی شہریوں کی طرح ٹیکس دیتے ہیں اور شمال مغربی سرحد کے محافظ بھی ہیں۔ انکی وجہ سے کوئی وطن دشمن قوت خواہ اندرونی ہو یا بیرونی، پاکستان کے پہلو کو زخمی یا داغدار نہیں کر سکتی۔
3۔ گذشتہ تین دھائیوں یعنی جب سے پاکستان میں سعودی اور امریکی نفوذ میں اضافہ ہوا، انھوں نے وہابیت، تکفیریت اور نفرتوں کی ترویج شروع کی، انکے جوار میں مخصوص وہابی تکفیری سوچ کے حامل افراد کی مسلح تنظیمیں اور گروہ بنے، اس وقت سے اس علاقے کے عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، کیونکہ انکے خلاف لشکر کشیاں، دھماکے، قتل و غارت اور حملے معمول بن چکے ہیں، ہماری حکومت اور مسلح افواج نے ہمیشہ تماشائی کا رول ادا کیا ہے اور ہمیشہ حملہ آوروں کو روکنے کی بجائے سبز جھنڈیاں دکھائی گئیں۔
4۔ حکمرانوں کی طرف سے پریشر ڈالا جاتا رہا کہ لوگ پہاں سے ہجرت کر جائیں، تاکہ یہ علاقے دہشگردوں کے پاس چلے جائیں۔ ضیاء الحق  کے دور میں (1984-1987) تو اس علاقے کے مہاجرین کے لئے بھکر اور میانوالی کے علاقوں میں کیمپ بھی بنائے گئے۔ دوسری طرف طالبان اور دیگر جھادی تکفیری گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا، انہوں نے بھی طوری و بنگش قبائل کی عوام کا گھیرا تنگ کیا اور ظلم کی داستانیں رقم کیں، لیکن غیرتمند اور بہادر طوری و بنگش عوام نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

جنرل ضیاء دور سے ابتک تکفیری دہشتگردوں کے حملے:
1۔ 1981ء و 1982ء میں کرم ایجنسی کے تمام متعصب سنی قبائل نے افغان مہاجرین کے ساتھ مل کر صدہ قصبہ میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول کر دادو حاجی کے سارے خاندان قتل کر دیئے اور صده قصبے سے شیعہ آبادی کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا گیا، جو آج تک آباد نہیں ہوسکے۔
2۔ 1987/88ء ضیاءالحق کے دور میں پاکستان میں وحدت اسلامی کے علمبردار اور شیعہ مسلک کے قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا اور علاقے کے سنی متعصب قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر مقامی شیعہ آبادی پر حملہ کر دیا، جو صده قصبے سے ہوتے ہوئے بالش خیل و ابراہیم زئی جیسے بڑے گاؤں کو روندتے اور جلاتے ہوئے سمیر گاؤں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، بعد میں طوری لشکر نے انہیں پسپا کرکے واپس صده کی طرف دھکیل دیا، لیکن دسیوں گاؤں جلائے اور لوٹے گئے، امام بارگاہیں اور مساجد مسمار کر دی گئیں۔ 17 دن پر محیط لڑائی میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔ اس لڑائی میں انتظامیہ نے مداخلت نہیں کی۔
3۔ 1996ء میں رسول اللہ (ص) کے چچا اور حضرت علی کے والد حضرت ابو طالب علیہما السلام کی توہین کی گئی اور مقامی شیعہ آبادی کو اشتعال دلا کر خونریز جنگ کا آغاز کیا گیا، جو کئی ہفتے تک جاری رہی۔ پارا چنار ہائی سکول میں اسکے پرنسپل اسرار حسین کو قتل کیا گیا، جسے بعد میں صدارتی تمغہ دیا گیا۔

4۔ 2001ء میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے اور پیواڑ پر لشکر کشی کی گئی، پیواڑ کے مختلف گاؤں سمیت مرکزی امام بارگاه پر بمباری کی گئی، جس میں درجنوں لوگ قتل کئے گئے۔
5۔ 2007ء میں طالبان نے انجمن سپاه صحابہ پاراچنار کے سیکرٹری جنرل کیساتھ ملکر 12 ربیع الاول کے عید میلاد النبی کے جلوس میں حسین مرده باد اور یزید زنده باد کے اشتعال انگیز نعروں کی وجہ سے فرقہ وارانہ جنگ کا آغاز کیا۔ جس میں حکیم الله محسود اور منگل باغ نے جنگ کی کمان سنبھالی اور وزیرستان سے لیکر خیبر تک کے متعصب سنی قبائل کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی پر حملہ آور ہوئے۔ سینکڑوں قتل ہوئے اور امام بارگاه سمیت آدھے پاراچنار شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ پانچ ہزار سے زیاده ہلاکتیں ہوئیں۔ صده کے مین بازار میں شیعہ افراد گاڑیوں سے اتار کر قتل کئے گئے۔ یہ لڑائی پانچ سال تک جاری رہی۔
6۔ 2011ء میں شلوزان تنگی اور خیواص میں فسادات ہوئے۔ جس میں خیواص گاؤں پر حملہ کرکے جلایا گیا، ایک سو سے زیاده لوگ قتل کئے گئے اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔

پارہ چنار کا تقریباً ساڑھے چار سالہ محاصرہ (2007 تا 2011)
کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی کو محصور کیا گیا اور انکے لئے پارا چنار تک رسائی کے واحد راستے ٹل پاراچنار روڈ کو بند کر دیا، یہ پارا چنار کو پاکستان سے ملانے والی واحد شاہراه تقریباً ساڑھے چار سال تک بند رہی۔ اسی طرح پارا چنار شہر اور اطرف کے علاقوں کا محاصره جاری رہا۔ اس علاقے کے طوری و بنگش قبائل افغانستان کے راستے تیس گھنٹے کا سفر طے کرکے پارا چنار پہنچتے تھے۔ انکی زندگی کا نظام معطل کر دیا گیا، حکومت، ایف سی اور فوج سب انکے سامنے خاموش اور ان کے جرم میں برابر کے شریک رہے۔ پارہ چنار غزہ کے اسرائیلی محاصرے کی طرح کئی سال محصور رہا۔ طوری و بنگش قبائل پر عرصہ زندگی ہر لحاظ سے تنگ کر دیا گیا، حتٰی کہ انکے بچے ادویات و خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے اور لوگ فاقے کاٹنے پر مجبور ہوئے۔ 26 جولائی 2011ء کو علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی سربراہی میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اعلٰی سطحی وفد کاروان امن لیکر اسلام آباد سے روانہ ہوا، جس میں دوائیں، غذائی اجناس اور زندگی کے دیگر لوازمات پر مشتمل سامان سے بھرے دسیوں ٹرک شامل تھے، جنہوں نے آکر اس ساڑھے چار سالہ محاصرے کو توڑا اور ٹل کے زمینی راستے سے یہ کاروان پارہ چنار میں وارد ہوا، جس کا وہاں کی عوام نے بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔

تازہ ترین بین الاقوامی حالات اور ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں میں شیعہ دشمن پالیسی:
1۔ متحدہ عرب امارات حکومت کی متعصابہ پالیسی اور حکومت پاکستان کی خاموشی
گذشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی افراد کو متحدہ عرب امارات نے مذہبی تعصب اور انتقام کی پالیسی کے تحت نکالا، جن میں سب سے بڑی تعداد طوری اور بنگش قبائل کے افراد کی تھی۔ ہماری حکومت نے نہ تو کوئی قابل ذکر احتجاج کیا اور نہ ہی ان بے روزگار ہونے والے افراد کی مدد کی۔ یہ لوگ جہان ملک کے زر مبادلہ میں اضافہ کا سبب تھے، وہیں اپنے اپنے خاندانوں کا سہارا اور انکے کفیل تھے، انکے بے روزگار ہونے سے اس علاقے کے لاکھوں پاکستانی متاثر ہوئے، لیکن حکومت نے ذرا برابر ہمدردی نہیں دکھائی۔ یہ بھی گمان کیا جا رہا ہے کہ خلیجی ریاست نے فقط شیعہ تعصب کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس علاقے کا  اقتصادی لحاظ سے استحصال اور انکی دفاعی پوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے ایک منظم پالیسی کے تحت یہ قدم اٹھایا۔

2۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا رخ دہشتگردی زدہ شیعہ عوام کی طرف موڑنا
طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے دہشت گرد، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں اہل تشیع کو انفرادی اور اجتماعی طور پر قتل کرتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں، آج انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں نے نئی پالیسی طے کی ہے کہ دہشتگردی کیخلاف اس جاری جنگ کا رخ محب وطن شیعہ عوام کی طرف موڑا جائے، انکا پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور سیاست میں نفوذ ہے اور یہ سعودی اشاروں پر چلتے ہیں۔ درست ہے کہ پاکستانی عوام کے ارادے اور پارلیمنٹ کے فیصلے کی وجہ سے یہ ہماری فوج کو  یمن پر مسلط کردہ جنگ کا ایندھن نہیں بنا سکے، لیکن اپنے آقاوں کو راضی کرنے اور ڈالر و ریال کمانے کے لئے پاکستان کو خطرناک بحران میں جھونک رہے ہیں، اس ٹاسک کے حصول کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات قابل ملاحظہ ہیں۔

3۔ پاک آرمی کو عوامی حمایت سے محروم کرنا
دہشتگردی کے خلاف اس جنگ سے متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے۔ دہشتگردوں کے زیر قبضہ علاقوں کی آزادی، کبھی سوات میں، کبھی وزیرستان، کبھی دیگر قبائلی اور شہری علاقوں میں انکے خلاف آپریشن میں ہزاروں فوجی جوان و آفیسرز درجہ شھادت پر فائز ہوئے، انکی وجہ سے سرحدوں پر موجود خطرات کے سیاہ بادل شہر شہر پر منڈلانے لگے، ملک اقتصادی اور امن و امان کے حوالے سے بحرانوں کا شکار ہوا، پاکستان کی شیعہ سنی عوام اور اقلیتوں نے اپنی فوج کا مکمل ساتھ دیا اور کسی حد تک کامیابیاں ہوئیں، لیکن دیوبندی اور وہابی سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ میں موجود کالی بھیڑوں نے ہمیشہ روڑے اٹکائے، اب یہی قوتیں پوری کوشش کر رہی ہیں کہ پاک آرمی کو محب وطن عوام کے سامنے لا کھڑا کیا جائے۔ گذشتہ 3 شعبان کو پارہ چنار میں پاک آرمی کے ہاتھوں بیگناہ 4 شیعہ افراد کو قتل کیا گیا، لیکن اہل تشیع نے سازش کو بھانپتے ہوئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد آرمی کے ذمہ داران نے اپنی غلطی کا اعتراف اور قبول کیا کہ 3 شعبان کو شہید ہونے والے افراد قومی شہید ہیں، انکے ورثا کی ایسے ہی مدد کی جائے گی، جیسے قومی شھداء کے لواحقین کی مدد کی جاتی ہے۔ لیکن شاید تکفیری نفوذ کا ایجنڈا نہیں رکا۔ کوہاٹ کے نواحی علاقے سے آرمی آپریشن کے ذریعے وہ دفاعی اسلحہ جو علاقے میں قیام امن کی ضمانت تھا، جس کے ذریعے قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے والے، پاک آرمی اور عوام پر حملہ آوروں کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، اسے تحویل میں لے لیا گیا اور عوام کو دہشتگردوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا گیا، حالانکہ یہ اسلحہ کبھی بھی عوام اور فوج کے خلاف استعمال نہیں ہوا تھا۔ ابھی پھر تیسرا خطرناک تریں حملہ پارہ چنار کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ آرمی میں موجود تکفیری نفوذی عناصر پارہ چنار کو نہتا کرنے کے درپے ہیں، حالانکہ اس علاقے کے اطراف میں تکفیری قوتیں مسلح اور پورے پاکستان میں انکی دہشتگردی کی کارروائیاں زوروں پر ہیں، انکے حملوں کے ڈر سے زائرین ابھی بھی کانوائے کی شکل میں جاتے ہیں۔

4۔ دہشتگردوں كو سياسی طور پر مضبوط کرنا:
پاکستان میں تکفیریت اور نفرتوں کے بانی حق نواز جھنگوی کے فرزند کو فقط پنجاب اسمبلی میں ہی نہیں پہنچایا گیا بلکہ اس دہشتگرد کو امن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ ملک میں امن اور دہشتگردی کے پیمانے بدلے جا رہے ہیں۔ یوں نظر آ رہا ہے کہ ہمارے حکمران ملک کی باگ دوڑ دہشتگردوں کے حوالے اور انھیں عسکری طور پر مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
5۔ حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی كي مدد:
حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی پھیلانے والے مدارس کی کروڑوں روپے کی مدد کی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کئی ایک دیوبندی مدارس کو بھاری رقوم کی گرانٹ دی ہے۔ حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ جب ان گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ فتوحات حاصل کر رہے تھے، جب اس وقت وہ کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکے تو آج وہ انہیں کبھی نہیں جھکا سکتے۔ وہ آج تو زوال کی طرف بڑھ رھے ہیں، وہ معنوی طور پر شکست خوردہ ہیں۔ آج محب وطن عوام کی حمایت سے انہیں راہ راست پر لانا آسان ہے، لیکن اگر وہ مخلص عوام سے ہماری فوج کو تنھا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان ایک نئے بحران میں داخل ہو جائے گا، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔


تحریر۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی

حلب اور موصل کے بعد

وحدت نیوز(آرٹیکل) طرفداری اور حمایت کے بھی اصول ہوتے ہیں۔اصولوں کے بغیر کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔خصوصا کسی بھی تحریک یا تنظیم کی حمایت کرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ  عوامی ہے یا نہیں،دوسری بات یہ کہ مقامی بھی ہے یا نہیں اور تیسری بات یہ کہ آزادی اور استقلال کی خاطر ہے یا نہیں۔

عوامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس تنظیم یا تحریک کو عوام میں مقبولیت حاصل ہونے چاہیے ،وہ تشدد اور دھونس دھاندلی کے بجائے عوامی جدوجہد پر یقین رکھتی ہو،جبکہ مقامی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ تنظیم یا تحریک باہر سے نہ چلائی جارہی ہو بلکہ مقامی لوگ ہی اس کے چلانے والے ہوں اور آزادی و استقلال سے مراد یہ ہے کہ وہ تحریک یا تنظیم اپنی ملت کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کروانے اور استقلال کی خاطر ہو۔

ہم پاکستانیوں کے بھی کیا کہنے!کسی کی حمایت یا مخالفت کا ہمارے ہاں کوئی اصول نہیں،ہمیں اپنے  ملک کے علاوہ باقی سب کی فکر ہے۔سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ہم آنکھیں بند کرکے دوسروں کے جھگڑوں میں کودنے کے عادی ہیں۔جب سے شام میں باغیوں نے سر اٹھایا ہے ہم بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔باغی  کون ہیں اور وہ بشارالاسد سے کیوں جھگڑ رہے ہیں!؟ ہمیں اس سے کوئی غرض ہی نہیں۔باغیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ کون دے رہاہے !؟ہمیں اس سے بھی کوئی مطلب نہیں ،ہم نے تو صرف  کسی کی مخالفت یا حمایت کرنی ہوتی ہے سو اپنی اپنی جگہ کررہے ہیں۔

چنانچہ چند سالوں سے مسلسل ہماری مسجدوں ،منبروں اور میڈیاسے شام کی جنگ لڑی گئی۔مسلسل باغیوں کو مجاہدین اسلام اوربشارالاسد کو ڈکٹیٹر کہاگیا،ہماری حمایت اور دنیا کی بے حسی  کانتیجہ یہ نکلا کہ  شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز حلب چھ سال تک باغیوں کے قبضے میں رہا۔

اللہ کی لاٹھی بھی بے آواز ہے،شامی حکومت نے اپنی توانائیوں کو جمع کیا اور ۲۰۱۶کے آخر میں حلب کو حملہ آوروں سے آزاد کروالیا۔شامی حکومت کی سرپرستی میں مندرجہ زیل گروہ باغیوں سے ٹکرائے۔

۱۔شام کی سرکاری فوج۲۔حزب اللہ لبنان،۳۔لشکر فاطمیون(افغانستان)،۴ ۔لوالقدس(فلسطین)،۶۔ جیش دفاع الوطنی،۷۔ گروه مقاومت اسلامی نُجَباء۔۔۔وغیرہ

شام کو اس جنگ میں نمایاں فتح ہوئی اورحملہ آور پسپا ہوکر آجکل صحراوں کی خاک چھان رہے ہیں۔اس وقت ان کی ایک بڑی تعداد موصل میں عراقی حکومت سے دوبدو ہے۔

موصل  بھی حلب کی طرح انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ  ہے۔ یہ عراق کے   شمال میں واقع ہے اوردارالحکومت بغداد کے بعد آبادی اور تجارت کے لحاظ سےدوسرا اہم مرکز ہے۔یاد رہے کہ اب ۲۰۱۴ سے اس پر داعش کا قبضہ ہے۔داعش میں امریکہ، یورپ،ترکی،سعودی عرب،افغانستان  اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کے لوگ بھرتی ہیں۔حلب کی آزادی کے بعد جہاں داعشی مفرورین  پناہ کے لئے موصل کی طرف بھاگ کر آئے ہیں وہیں  عراقی حکومت نے بھی اپنی تمام تر توجہ موصل پر مرکوز کررکھی ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق  اب موصل میں بھی باغیوں کی شکست یقینی ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ شام اور عراق میں ہونے والی پے در پے شکستوں کے بعد باغی اپنے اپنے ملکوں کو واپس   بھی لوٹ سکتے ہیں۔یہ وہ خطرہ ہے کہ جس کا اظہاران دنوں برطانیہ کے سیکورٹی وزیر بین وولیس نے بھی  کیا ہے۔ان کے بقول  شام اور عراق میں مسلسل پسپائی پر مجبور شدست پسند تنظیم داعش میں شامل برطانوی شدت پسندوں کی واپسی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اورداعش واپس لوٹنے والے اپنے تربیت یافتہ جنگجووں کو استعمال کر کے وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی پلاننگ کر سکتی ہے۔

برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر برائے سیکورٹی کا کہنا ہے کہ شدت پسندتنظیم برطانیہ میں کیمیائی حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے ۔ داعش کے پاس ان حملوں کی صلاحیت موجود ہے جو اس سے قبل مشرق وسطی میں استعمال بھی کرچکی ہے ۔

ہم یہاں پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ خطرہ فقط برطانیہ کو درپیش نہیں بلکہ ہر اس ملک کو لاحق ہے جس کے افراد داعش میں بھرتی ہوئے ہیں اور جس میں پائی جانے والی تنظیموں کے ڈانڈے داعش سے ملتے ہیں۔ایسے میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو بھی انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ہم نے افغانستان میں دہشت گردی کے جو بیج بوئے تھے اس کی فصل ابھی تک کاٹ رہے ہیں اب شام اور عراق کا ثمر بھی ملنے والا ہے۔

پاکستان میں جہاں عام حالات میں دہشت گرد ایک حملہ کرکے سکول کے ڈیڑھ سو کے قریب بچوں کو شہید کردیتے ہیں،جہاں جی ایچ کیو اور پولیس کے مراکز اور ائیرپورٹس کو پہلے سے ہی نشانہ بنایاجاتاہے وہاں داعش کے مقابلے کے لئے خصوصی حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔دہشت گردٹولوں اور شدت پسندوں سے کسی بھی طرح کی نرمی  یا غفلت ہمیں کسی بھی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی ہے۔


تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل) حلب میں کیا ہوا؟مجھے ایک مرتبہ پھر حلب کو سمجھانا پڑرہاہے،اس کی ضرورت بعض لوگوں کو دھاڑیں مار مارکر روتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوئی۔رونے والوں کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ اگرکسی نے حلب  کو سمجھنا ہے تو کراچی کو سمجھے،یوں فرض کیجئے کہ شام کا کراچی، شہرِحلب ہے۔ یعنی شام کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور روشنیوں کا شہر حلب ہے۔جس طرح پاکستان کے مختلف مناطق میں طالبان اور داعش نے پاکستان سے بغاوت کررکھی ہے ،اسی طرح انہوں نے شام میں بھی بغاوت کی ہوئی ہے۔یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ باغی چاہے کتنے ہی مضبوط ہوں وہ ایک قومی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔لیکن شام میں  چونکہ باغیوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی کھلی حمایت حاصل تھی،چنانچہ انہوں نے شام کے صحراوں سے سر نکالا اور شام کے تجارتی دارالحکومت حلب پر قابض ہوگئے۔

یہ ایک پر امن اور بارونق شہر پر صحرائی ڈاکووں کا حملہ تھا،چنانچہ انا ًفاناً دکانیں لوٹ لی گئیں،مارکیٹوں سے سب کچھ چرا لیا گیا،مقامی لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو قیدیوں کی طرح محبوس کردیاگیا۔

امریکہ اور سعودی عرب نے ڈاکووں کو یہ یقین دلایا  کہ عنقریب یہ شہر دنیا میں ان کا دارلحکومت بنے گا اور اس کے بعد ہر جگہ ان کی خلافت کا سکہ چلے گا۔چنانچہ سعودی عرب اور امریکہ کا نمک خوار میڈیا باغیوں کے مظالم اور سفاکیت پر خاموش رہا۔

حلب شہر پر ڈاکووں اور باغیوں کے غاصبانہ اور غیرقانونی  قبضے کو داعش کی ایک بڑی کامیابی قراردیاگیا۔حلب تقریبا چھ سال تک سعودی عرب اور امریکہ کی جارحیت کا نشانہ بنا رہا۔

آپ فرض کریں کہ پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی پر خدا نخواستہ طالبان یا داعش اپنا قبضہ جما لیں تو غیرت مند پاکستانیوں پر کیا بیتے گی؟

چھ سال تک اہلِ شام اپنے سب سے بڑے تجارتی مرکز کے چھن جانے کے غم میں جلتے رہے،سعودی عرب کے جہاز اور امریکہ کے پالتودرندے نہتے عوام پر شب خون مارتے رہے۔جیسے جیسے ۲۰۱۷ کا سال نزدیک آتا جارہاتھا،امریکہ اور سعودی عرب، داعش اور طالبان کو حلب میں ایک خود مختار ریاست کا یقین دلاتے جاتے تھے۔

اب آپ تصور کریں کہ اللہ نہ کرے کہ اگر کراچی پر امریکہ اور سعودی عرب کے پالتو درندے قبضہ کرلیں تو پھر ہماری فوج کے کیا جذبات ہونگے۔۔۔!؟

جیسا کہ۸ جون ۲۰۱۴ میں طالبان نے کراچی پر قبضے کی کوشش کی بھی تھی۔اگر آپ کو یاد ہوتو اتوار کی رات کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر طالبان نے حملہ کیا تھا جس میں ۲۹ افراد مارے گئے تھے،تاہم اس حملے کو پاک فوج کے جوانوں نے ناکام بنا دیاتھا۔اس حملے کی ذمہ داری  پیر کے روز کالعدم تحریک ِ طالبان پاکستان  کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے قبول کی تھی، ڈی جی رینجرز رضوان اختر نے پیر کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملنے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گرد غیر ملکی تھے۔

اسی طرح  طالبان کی طرف سےمئی 2011میں کراچی ائیرپورٹ سے چند کلومیٹر کےفاصلے پر واقع بحریہ کی مہران ایئر بیس پر اور دسمبر 2012میں پشاور کے باچا خان ائیرپورٹ پرنیز کامرہ ایئر بیس پر اور 2009میں جی ایچ کیو پر حملہ کر کے قبضے کی کئی  ناکام کوششیں کی گئیں۔

خوش قسمتی سے پاکستان کی غیور فوج نے ان سارے حملوں کو ناکام بنادیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ  پاکستان میں جب بھی کہیں پر سعودی عرب اور امریکہ  کے کرائے دار حملہ کرتے ہیں تو  کیا پاکستانی خوش ہوتے ہیں یا غمگین!؟اسی طرح جب کہیں پر باغیوں کے مقابلے میں پاکستانی فوج کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ملت پاکستان جشن بناتی ہے یا سوگ!؟

اگر کو ئی پاکستانی فوج کی کامیابی پر جشن بنانے کئ بجائے باغیوں کی شکست پر آنسو بہائے تو اسے آپ وفادار کہیں گے یا غدار!؟

بالکل ایسا ہی شام میں بھی ہوا۔باغیوں نے شام کے ایک تجاری مرکز پر قبضہ کرلیا تھا،شام کی غیرت مند فوج نے چھ سال بعد اس مرکز کو باغیوں سے چھڑوا لیا،اب آپ فیصلہ خود کیجئے کہ اہل شام کو اس فتح پر جشن بنانا چاہیے یا گریہ کرنا چاہیے۔

یہاں پر ہم پاک فوج کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ جولوگ شام میں قومی فوج کے خلاف  ہیں اورباغیوں کے ہمدرد ہیں وہی پاکستان میں بھی باغیوں کے سرپرست اور پاکستانی فوج کے لئے خطرہ ہیں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

حقیقت تو یہ ہے

وحدت نیوز (آرٹیکل) جب سے شام کے شہر حلب میں دہشتگردوں کو شکست ہوئی ہے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر ایسا ہل چل مچ گیا ہے اور سچ کو کچھ اس طرح چھپایا جا رها ہے کہ ہالی ووڈ کی فلمی کلیپز اور دوسرے ممالک میں ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کو کربلائے حلب کے نام سے چلایا جا رہاہے ایک تو ہم بھی کچھ ایسے ہوگئے ہیں کہ حقیقت سے بے خبر کسی خبر یا ویڈیوز کی تحقیق کئے بغیر اُسے لائک کرتے ہیں اور بلا ججک شئیر  کرنےکے ساتھ ساتھ کمینٹس بھی کر دیتے ہیں۔اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ سئینر صحافی حضرات کھلے عام لوگوں کو گمراہ کرنے اور فرقہ واریت کی فضاء پیدا کرنے میں دن رات محنت کر رہے ہیں ، تاریخ کے مختلف واقعات اور فلمی مناظر کو حلب کے ساتھ جوڑ کر آل یہود کی ہدایت پر عمل پیرا ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے مظالم تو ان کو نظر نہیں آتے اور ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے والے واقعات کو یہ لوگ چشم دید گواہ بن کے پیش کرتے ہیں، ہمسائیہ میں کوئی غریب بھوک سے مر جائے یا دن دھاڑے امن وامان اور محبت بھائی چارگی کا پیغام پھیلانے والوں کا ٹارگٹ کلنگ ہو، علماء ،ڈاکٹرز،انجیئنر اور مزدوروں کا قتل ہو یا معروف قوال امجد صابری کا قتل، حلب پر اس وقت ماتم کرنے والوں نے کبھی وطن عزیز میں ہونے والے مظالم پر آواز بلند نہیں کی، کیونکہ سقوط حلب کے نام پر واویلا کرنے والوں اور شام ،عراق،افغانستان اور پاکستان میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کرنے والوں کی سوچ یکساں ہے یہ ایک خاص تکفیری سوچ کے حامل افراد ہے جو آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں پر فاتحہ بھی پڑھنے کو بدعت اور وزیریستان میں پاک فوج کے خلاف لڑنے والوں کو شہید کہتے ہیں اور ان کی مغفرت کے لئے دعا کرتے ہیں ۔

شام ، عراق میں داعش،القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے کئی سالوں سے بے گناہ انسانوں کا قتل عام جاری ہے، جن کا ثبوت خود دہشت گردوں کی جانب سے جاری کردہ تصاویر اور ویڈیوز ہیں جس میں انھوں نے اسلام کے نام پر جس درندگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے خود جنگل کے درندے بھی شرمندہ ہے، میں ان دہشت گردوں کے حمایت کرنے والوں سے سوال کرتا ہوں کیا ان دہشت گردوں کا طرزعمل اسلام کے مطابق ہے؟ کیا ان کے مظالم کسی سے پوشیدہ ہے؟ کیا یہ لوگ مسلمان کہلانے کے قابل ہے؟کیا ان کی وجہ سے ساری دنیا میں اسلام کا نام اور مسلمان بدنام نہیں ہوئے؟ شام میں چھ سالوں سے جاری جنگ میں کبھی کسی نے دہشت گردوں کی حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی؟، کبھی ان کے مظالم پر قلم اُٹھا یا؟، آج حلب کی آزادی پر محمد بن قاسم کو یاد کرنے والو پہلے  محمد بن قاسم کے اصل کہانی کو تو منظر عام پر لاؤ اس شخص کے ساتھ کیا ہوا یہ بھی تو بتاؤ، فتح حلب کے بعد وہاں پر آہوں سسکیوں کی آوازیں سنے والو جب تکفیری دہشت گرد کھلے عام حوا کی بیٹیوں کو بازاروں میں فروخت کر رہے تھے تو اُس وقت تم کہاں تھے؟ داعش کے چنگل سے آزادی پا کر آنے والی لڑکیوں کی سسکیاں اور داستانیں تمہیں سنائی نہیں دیتی؟ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ ان دہشت گردوں کے حق میں فتویٰ کون جاری کرتا ہے ، پیسے کون دیتا ہے اسلحہ کہاں سے آتا ہے ۔۔۔ سعودی عرب جو کہ دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ خریدنے والا ملک ہے ان کے اسلحہ کہاں جاتا ہے؟مغربی دنیا کیوں ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے؟ امریکہ برطانیہ اسلحہ ڈیلر ہے عرب ممالک سب سے بڑا خریدار، یہ اسلحہ زیادہ تر مشرق وسطی میں ہی استعمال ہو رہے ہیں ، بنانے والا یہود و نصاری خریدنے والا نام نہاد مسلمان لیکن استعمال عام انسانوں پر ،افریقہ سے لیکر افغان پاکستان تک یہی اسلحہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں ۔ آج دہشت گردوں کی حمایت میں بولنے والوں نے کبھی فلسطین کی حمایت میں بھی کچھ بولا ہے ؟ کیا قبلہ اول بیت المقدس پر مسلمان آزادی سے عبادت کرسکتے ہیں؟ کیا فلسطین میں مسلمان خواتین کو اسرائیلی قتل نہیں کر رہے ہیں؟ کیا فلسطین میں قتل ہونے والوں کی فریاد تم تک نہیں پہنچتی؟ آزادی فلسطین کے لئے جدو جہد کرنا ہم سب کا فرض نہیں ہے ؟ ان دہشت گردوں نے کبھی آزادی القدس کا نعرہ بلند کیا ہے؟ اگر یہ حقیقی مجاہد ہوتے تو سب سے پہلے فلسطین کو غاصب صہونیوں سے آزاد کرا تے۔ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے اسلام سے مخلص ہیں تو فلسطین میں مقاومتی تحریکوں کو کامیاب بناتے ان کی مدد کرتے ، یہ تکفری دہشت گرد اور ان جیسے ممالک کی حقیقت مسلۂ فلسطین پر آکر کھل جاتا ہے ، یہ کیسے آزادی فلسطین کی بات کر سکتے ہیں اگر یہ فلسطین کی بات کریں تو مغربی دنیا اور اسرائیل ان کی مخالف ہو جائیں گے اور ان کے تخت و تاج کو خطرہ ہوگا اسی لئے یہ لوگ کبھی مسئلہ فلسطین پر بات نہیں کرتے نہ ہی برما کے مسلمانوں کو یاد کرتے ہیں بلکہ جہاں جہاں مغربی مفادات ہوں یہ وہاں پرچم لے کر نکلتے ہیں ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ بے گناہ مرد، خواتین اور بچے ان کے مفادات کی نظر ہو رہے ہیں ان کو صرف اپنے مفادات کا تحفظ چاہیے۔ ان تمام حقیقتوں کے باوجود پڑھے لکھے افراد کا دہشت گردوں کی حمایت کرنا اور عوام کو بے وقوف بنا نا نے کی کوشش کرناحقیقت میں جہالت و نادانی کے سوا کچھ نہیں۔اب تو سقوط حلب یا کربلائے حلب کی بھی حقیقت سامنے آگئی ہے مسلمانوں کو گمراہ کرنے والے گروہ مصر میں گرفتار ہوگئے جنہوں نے حلب کے نام پر جھوٹی ویڈیوز اور تصاویر بنائی اور فیک آئی ڈیز سے ان کو نشر کیا لیکن کچھ عناصر اب بھی دہشت گردوں کی بولی بولنے میں مصروف ہے۔

ایک طرف سال دوہزار سولہ ختم ہونے کو ہے اور شامی عوام نئے سال کی آمد کے لئے نئے امیدوں اور نیک تمناوں کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں، ان کی خوشیاں قابل دیدنی ہے اور یہ لوگ پر جوش ہے کہ چھ سال سے جاری جنگ انشااللہ 2017 میں داخل نہیں ہوگا دوسری طرف حلب پر گریہ کرنے والوں کا چہرہ آہستہ آہستہ آشکار ہو رہے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو دہشت گردوں کی شکست تمام مسلمانوں کی فتح ہے جنہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ دہشت گردوں سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے اور تکفیری سوچ کے حامل افراد خود مغرب کی پیدا کردہ ہے اور تکفیریت کے خلاف جنگ میں تمام باشعور انسان ایک پرچم تلے جمع ہے، شام تقریبا دہشت گردوں  کے ناپاک وجود سے پاک ہو چکا ہے عراق میں بھی جنگ آخری مرحلہ میں ہے ۔ دنیا میں اور کہی پر بھی تکفیریت موجود ہے تو وہاں پر بھی اتحاد و آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ ہم حقیقت سے باخبر رہیں اور اسلام دشمنوں کی سازشوں کو بے نقاب کر تے رہیں۔

 تحریر۔۔۔ ناصر رینگچن

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر دینی دارہ اللہ کا گھر ہے۔وہ مسجد ہویا مدرسہ، اہل ایمان کے لئے مقدس اور محترم ہے۔کچھ عرصہ پہلےایک مدرسے کے مدیر صاحب انتقال کرگئے،عوامِ علاقہ کو مدرسے کی دیکھ بھال کی سوجھی،قوم کے ہمدرد جمع ہوئے،مولانا مرحوم کی خدمات کو سراہاگیا،مدرسے کی آمدن کا اندازہ لگایاگیا اور پھر مدرسے کو از سرِ نو فعال کرنے کے لئے سوچ بچار کی گئی۔مدرسے کو فعال کرنے کے لئے  مدیر کی ضرورت تھی۔مسئلہ بن گیا کہ  اب مدرسے کا مدیر  اور وارث کسے بنایاجائے۔!؟

اتفاق سے مولانا مرحوم کی کوئی اولاد نہیں تھی ،چنانچہ مولانا مرحوم کے ایک دور کے رشتے دار کو ڈھونڈا گیا ،پھر انہیں  دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے راضی کیا گیا ،جب وہ راضی ہوگئے تو انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک دینی مرکز میں داخل کروادیاگیا۔

اب جب تک کچھ لکھ پڑھ نہیں جاتے اس وقت تک اس مدرسے کو چلانے کے لئے حوزہ علمیہ قم کی ایک فاضل شخصیت کو عارضی طور پر مدرسہ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اس واقعے سے جہاں ہمارے ہاں عوام کے دلوں میں  علما کےاحترام کا پتہ چلتاہے  وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ دینی اداروں کو موروثی سمجھتے ہیں ۔لوگوں کے نزدیک ایک دینی  مدرسہ ،مولانا صاحب کی ذاتی پراپرٹی ہوتا ہے لہذا اسے  نسل در نسل  مولانا صاحب کی نسل میں آگے منتقل ہونا چاہیے۔

اسی طرح بہت سارے لوگ سھم امام اور مال امام سے ادارے بناتے ہیں اور یاپھر خمس و صدقات جمع کرکے دینی اداروں کی بنیاد رکھتے ہیں اور ساتھ ہی  قانونی کاروائی کے دوران خود ہی  ان اداروں کے تاحیات سرپرست اور متولی بنتے ہیں اور بعض اوقات قانونی کاغذوں میں  اپنی آئندہ نسلوں کو بھی  ہمیشہ کے لئےمتولی درج کرواتے ہیں۔

بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت ساری مساجد کے کلین شیو اور بے نمازی متولی بھی دیکھنے کو ملتے ہیں،ایسے متولی جو پیش نماز کو ایک ملازم سے زیادہ اور مسجد کواپنی پراپرٹی سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔اگر کہیں مسجد کا متولی خود پرہیزگار بھی  ہو اور وہ مسجد کو اپنی پراپرٹی  نہ بھی بنانا چاہے تو اس کے باوجود بھی  لوگوں کی شعوری حالت یہ ہے کہ  لوگ اس کے بعد اس کے بیٹے کوہی  مسجد کا متولی بنانے میں اپنی نمازوں کی قبولیت سمجھتے ہیں۔

آپ تھوڑا سا آگے بڑھیں اور اپنے ہاں منعقد ہونے والی دینی محافل و مجالس کے بانیان پر ایک نگاہ ڈالیں،ان میں سے بھی بہت سارے آپ کو براہ نام دیندار ،کلین شیو اور مجالس و محافل کو اپنے سٹیٹس کے لئے منعقد کروانے والے ملیں گے۔

بات آگے ہی بڑھ رہی ہے تو ذرا ان لوگوں کی بات بھی ہوجائے جن کا کوئی ذریعہ آمدن مشخص نہیں ہے اور انہوں نے اپنا ذریعہ معاش ہی دینی اداروں کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنا بنا رکھا ہے۔انہوں نے برائے نام ٹرسٹ بھی بنا رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس کی بات نہ کرے،چنانچہ کتنی ہی مساجد،مدارس اورامام بارگاہوں کے چندے  سالہاسال  اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور وہ  ادارےہمیشہ زیر تعمیر ہی رہتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے لوگ بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور جدید تعلیمی ادارے بنانے کی باتیں بھی کرتے ہیں حالانکہ خود انہیں جدید تعلیم کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی اوراگر یونیورسٹی یا کالج بنوانے کا حربہ کارگر نہ ہوتو پھر مساجد  و مدارس کی تعمیر کے لئے ڈونرز کی تلاش میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔

بعض دینی اداروں اور ٹرسٹ وغیرہ کی تو یہ صورتحال ہے کہ وہ پہلے سے ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں عادل سمجھیں اور آنکھیں بند کرکے ہماری مددکریں اور اس کے بعد یہ نہ پوچھیں کہ ہم خرچ کہاں  پرکرتے ہیں۔ان کے بقول آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ ہم عین عدالت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔چنانچہ ہمیں  اپنے ملک میں جس مقدار میں فطرانہ،قربانی کی کھالیں اور دیگر صدقات و خیرات جمع کرنے والے ادارے نظر آتے ہیں ،اس طرح  غربا میں   صدقات  تقسیم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور اگر کہیں پر غربا کی مدد ہوبھی تو چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا کہ جمع آوری کتنی ہوئی اور تقسیم کتنی ۔۔۔

بلکہ غربا کی مدد کرنے والے اداروں میں کلیدی شخصیات جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں  اکثر بجٹ بھی اسی علاقے میں انہی کے عزیزوں،دوستوں اور رشتے داروں پر ہی صرف ہوجاتاہے۔آج کے دور میں  اکثر اوقات  مسجد کی تعمیر سے لے کر سکالر شپ کے حصول تک عام آدمی کی رسائی ممکن  نہیں رہی ، چنانچہ اب اسی کے علاقے میں شاندار مسجد بنتی ہے اور اسی کو  دینی داروں کی طرف سے سکالرشپ ملتا ہے جس کے کہیں نہ کہیں  تعلقات ہوتے  ہیں۔

یاد رہے کہ ایسے میں ہمارے ہاں ایسے مخلصین کی بھی کمی نہیں جو ہر طرح کی منفعت سے بالاتر ہوکر خدمت دین کررہے ہیں۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں جائیداد،آمدن اور موروثیت سے بالاتر ہوکر کام کرنے والے مخلص اداروں،ٹرسٹیز اور بانیان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ  موروثیت اور بیت المال کے غلط استعمال کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھیں،اسی طرح  عوام  اور خصوصا ڈونرز حضرات کی بھی شعوری سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ہر دینی ادارہ مقدس اور محترم ہے لیکن ڈونرز حضرات کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ  کوئی بھی ادارہ کسی شخص یا خاندان کا ذریعہ آمدن ہے یا پھر ملک و ملت پر خرچ کرنے اور دین کی خدمت کرنے  کا وسیلہ ہے۔

ملک و ملت کی ہدایت اور  فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے والوں کو یہ بھی سوچناچاہیے کہ  بنجر زمینوں پر بارش برسنے سے سبزہ نہیں اگا کرتا۔اگر ہم اپنی ملت کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر تحقیق کرکے اور آنکھیں کھول کر ہی صدقات و عطیات جمع کروانے چاہیے۔

آخر میں مخیر اور ڈونرز حضرات سے دست بستہ یہ عرض کرتا چلوں کہ بیت المال اگر صحیح ہاتھوں تک پہنچے گا تو اس کا استعمال بھی صحیح ہوگا اور جب بیت المال کا استعمال صحیح ہوگا تو ہماری ملی حالت بھی سدھرے گی۔

تحریری۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree