راولپنڈی سانحہ یا سازش اور مجلس وحدت مسلمین کا کردار

03 دسمبر 2013

محرم الحرام ۱۴۳۵ ؁ء ھجری بروز جمعتہ المبارک ، شہر راولپنڈی کے باسیوں کے لئے حقیقی طور پہ یوم عاشور سے کم نہ تھا ، راولپنڈی کے امامبارگاہوں سے نکلنے والے تمام چھوٹے بڑے جلوس اپنے مقرر شدہ راستوں سے گذرتے ہوئے ظہرین کے وقت فوارہ چوک میں پہنچ چکے تھے، سنت سیدالشہداء کو زندہ رکھتے ہوئے سوگواران حسینؑ نے نماز ظہرین فوارہ چوک میں ادا کی جس کی امامت حسب معمول مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی صاحب نے کرائی نماز ظہرین کی ادائیگی کے بعد عزاداری سید الشہداء کا سلسلہ دوبارہ جاری ہو ا اور خطباء نے کربلا اور سیرت امام حسینؑ کے مختلف پہلوؤں پہ گفتگو کی اور دور حاضر میں حسینیت کی عظمت بیان فرمائی۔

 

دن کے تقریباً ۳ بجے جب شرکاء جلوس مراسم عزاداری میں ادا کررہے تھے ،اسی اثناء میں جلوس سے آگے چلنے والے کچھ معمر افراد اور کچھ بچے جو گذشتہ کئی دنوں سے عشق حسین ؑ سے سرشار مسلسل عزاداری کی مراسم میں مصروف تھے تھکاوٹ سے بے حال ہو کے آرام کی غرض سے مسجد ( جو اس فتنہ کی جڑہے) کے سامنے بیٹھے، ان عزادارن کی موجودگی میں اور مقامی پولیس فورس کے اعلیٰ عہدیداران کی موجودگی میں مسجد کے خطیب نے انتہائی شر انگیز گفتگو کی جس کی تمام تفصیلات بعض قومی اخبارات اور خود سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنی رپورٹ میں نقل کی ۔ اس تقریر میں نواسہ رسول محافظ شریعت سیدالشہداء امام حسین ؑ کی شان میں جسارت کی گئی اور نعوذبااللہ یزید لعین کو خلیفہ برحق کہا گیا۔اسی اثناء میں مسجد کے سپیکر سے کفریہ نعرے بلند ہوئے اور یزیدیت زندہ باد حسینیت مردہ باد جیسے کفریہ کلمات بلند ہوئے جس سے گرد و نوح میں موجود سنی و شیعہ اہل ایمان کے جذبات مجروع ہوئے ابھی نعروں کی گونج ختم نہ ہوئی تھی کہ مسجد کی چھت سے نسل یزید کے پیروکاروں نے سوگواران سیدالشہداء پہ پتھروں کی بارش کر دی نیز عینی شاہدین کے مطابق سائیلینسر لگی گنوں سے عزاداران سیدالشہداء پہ فائرنگ کی گئی جس سے کم و بیش آٹھ افراد زخمی ہوئے، یاد رہے یہ سب کچھ اس وقت ہورہا تھا جب مقامی انتظامیہ کے کئی اعلیٰ عہدہ داران اسی مقام پہ اپنی ڈیوٹی پہ تعینات تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ’’ کسی اوپر والے ‘‘کے حکم پریہ سب کچھ خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد بعض افراد نے جو کہ ہر گز جلوس و عزاداری کا حصہ نہ تھے لیکن غیرت ملی سے یقیناًسرشار تھے انہوں اپنے دفاع میں تھوڑی سی قدرت کا اظہار کیا جس سے مسجد میں تکفیری ٹولہ سے تعلق رکھنے والے بعض شر پسند جن تعداد آٹھ تھی ہلاک ہو گئے۔

 

یہ تو تھی اس واقعہ کی مختصر تفصیل لیکن اب ہمیں یہ جائزہ لینا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا یا سوچی سمجھی سازش؟ اس کے لئے ہمیں گذشتہ چند ایام میں ہونے والے بعض اہم واقعات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیں گے
کہ یہ واقعہ کیا ہے؟
اس کی حقیقت کیا ہے؟
اس سے کس کو فائدہ ہوا؟
اس کا ہدف کیا تھا؟


ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مقتدر سیاسی ٹولہ جسے سعودیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ ریاست کی عزت و حرمت کو داؤ پہ لگا کر مٹھی بھر دہشت گردوں کو ہر صور ت میں پناہ دینا چاہتا ہے اور ان کی خوشی کے لئے افواج پاکستان، سیکورٹی اداروں اور ہزاروں بے گناہ مظلوم پاکستانی شہریوں کے درندہ صفت قاتلوں ظالمان یعنی تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے لئے ماحول آمادہ کرتا ہے ۔ حکومت کے اس فعل کو مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک اور دیگر کئی محب وطن سیاسی قوتوں نے یکسر رد کیا ۔ اسی اثناء میں اس دھرتی کا ناسور یعنی حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملہ میں واصل جہنم ہو جاتا ہے۔

 

یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے محب وطن اور منافق وطن فروش قوتوں میں واضح تفریق کر دی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن نے اپنے ایک بیان میں حکیم اللہ لعین کو شہید قرار دیا اور اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ طالبان کی حقیقی نمائندگی کرتے ہوئے افواج پاکستان کی تضحیک کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ میں پاکستانی فوج کے سپاہی کو شہید تسلیم نہیں کرتا۔ اسی دوران ملک کی ایک اور سیاسی و مذہبی شخصیت اور جمعیت علماء اسلام کے راہنما ء مولانا فضل الرحمٰن نے بھی طالبان کا حق نمک ادا کرتے ہوئے حکیم اللہ کی ہلاکت پہ یہ کہا کہ اگر ’’ امریکیوں کے ہاتھوں کوئی کتا بھی مارا جائے تو وہ اسے شہید قرار دیں گے

‘‘

ان حالات میں میڈیا کے بعض ذمہ دار چینلز، آئی ایس پی آر، مجلس وحدت مسلمین اور دیگر کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ان نام نہاد کے مذہبی راہنماؤں اور طالبانی فکر کے محافظوں کی بھرپور درگت بنائی اور محبان وطن کی درست نمائندگی کی اور ایسا بھر پور دفاع کیا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی ساکھ خطرے میں پڑ گئی۔

 

ان حالات میں پنجاب حکومت کا کردار بھی سو فیصد مشکوک ہے ، پنجاب کے وزیر قانون نے تین محرم کو راولپنڈی کے تمام امامبارگاہوں کا غیرمتوقع دورہ کیا اور قارئین کے لئے یہ بات یقینی طور پہ حیرت انگیز ہو گی کہ اسی روٹ پہ جہاں پہ اس وزیر موصوف نے تفصیلی دورہ کیا شر پسند عناصر نے گھیراؤ جلاؤ کیا اور ان تمام امامبارگاہوں کو ں نذرآتش کیا گیا جہاں اس وزیر نے پولیس اور ایجنسیوں کی ایک بڑی ٹیم کے ساتھ دورہ کیا ، گو یا لگتا ایسا ہے کہ راولپنڈی سانحہ کا پلاٹ پہلے ہی کہیں تیار ہو چکاتھا اور یہ مشکوک دورہ بھی اسی پلاٹ کا ایک حصہ تھا۔

 

اب دوبارہ ہم اس مقام پہ آتے ہیں کہ جہاں سے اس گھناؤنی سازش کا آغاز ہوا۔ تمام مساجد میں نماز جمعہ ادا ہو چکی لیکن اس ’’ مسجد ضرار‘‘ میں تین بجے تک انتظامیہ کی موجودگی میں سپیکر سے شر انگیز تقریر کا نشر ہونا اس امر کی دلالت ہے کہ مقامی انتظامیہ نے کسی’’بڑے‘‘ کے کہنے پہ شر پسند اور فسادی ملاں کو کھلی رعایت دی کہ وہ اپنی شر انگیزی پھیلائے۔نیز سوشل میڈیا کے ٹھوس شواہد سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مخصوص ٹولہ کے مسلح شرپسندوں کو ایس ایم ایس کے ذریعہ نو محرم کو جلوس عزا روکنے کے لئے مسجد میں آنے کی دعوت دی گئی اور اس مخصوص ٹولہ کے مرکزی کرداروں کی میٹنگ بھی دوروز قبل منعقد کی گئی۔

 

یاد رہے یہ مسجد ہمیشہ سے وجہ نزاع رہی اور اس مسجد سے ہمیشہ پاکستان کے دونوں بڑے مکاتب فکر یعنی بریلوی اہلسنت اور اہل تشیع کے خلاف فتوے دیئے جاتے رہے۔ اس مسجد سے ہمیشہ میلاد اور عزاداری کے جلوسوں کی مخالفت کی جاتی رہی اور دونوں مکاتب فکرکے مقدسات کی توہین کا سلسلہ جار ی رہا ۔آیا اس کیفیت میں مقامی انتظامیہ نے کوئی اقدام کیا ، جس کا جواب یقیناًنفی میں ہے۔

 

سانحہ راولپنڈی کے فوری بعد شر پسند ٹولے کے سینکڑوں منظم کارکن جو پٹرول اور دیگر کیمیائی مواد سے لیس تھے انہوں مسجد، مارکیٹوں اور امامبارگاہوں کا رخ کیا اور مقدسات اسلامی کی توہین کرتے ہوئے نہ صرف معصوم شہریوں کی املاک جلائیں بلکہ چھ امامبارگاہوں کو نذر آتش کیا اور یہ سب کچھ عین اس وقت ہوا جب کرفیولگا دیا گیا اور فوجی و نیم فوجی دستوں نے تمام راستوں کو بند کردیا، گویا یوں محسوس ہوتا تھا کہ پر امن اور نہتے شہریوں کو بند کیا گیا اور شر پسندوں کو کھلی چھٹی دی گئی کہ وہ باآسانی اپنی شرانگیزی کو پھیلائیں۔ مسجد اور مارکیٹوں کے ساتھ ہی اندرون شہر کم و بیش چھ امامبارگاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور کئی سو قرآن مجید کے نسخوں سمیت تبرکات اور علم مبارک کو نذر آتش کیا گیا ۔ ان امامبارگاہوں میں قدیمی امامبارگاہ، چٹی ہٹیاں، ٹائروں والی ، حفاظت علی، یادگار اور کرنل مقبول شامل ہیں ۔ یاد رہے فیکٹ فاینڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ مسجد اور امامبارگاہ کو جلانے میں ایک ہی قسم کا کیمیکل استعمال ہوا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ تمام کارروائی ایک ہی شر پسند ٹولے کی ہے۔

 

اب اس بات کا جائزہ لینا باقی ہے کہ اس سارے واقعہ کا فائدہ کس نے اٹھایااور نقصان کس کا ہوا۔ جیسے ہی یہ واقعہ رونما ہوا ،جماعت اسلامی، جمعیت علما ء اسلام (ف) جمعیت علماء اسلام(س) سپاہ صحابہ اور دیوبندی مکتبہ فکر کے حامل تمام جید علماء ایک ہی راگ الاپ رہے تھے اور وہ یہ تھا ’’ محرم و عزاداری‘‘ کے جلوسوں کو محدود کیا جائے۔ نیز اس واقعہ کو میڈیا میں انتہائی مہارت سے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔ کہا گیا کہ بیسیوں بے گناہ نہتے قاری قرآن طلباء کو ذبح کیا گیا جبکہ تحقیقات کے بعد آر پی او راولپنڈی نے یہ بریفنگ دے دی ہے کہ مرنے والوں میں مدرسہ تعلیم القرآن کا کوئی طالبعلم نہیں۔ اسی طرح برما اور بحرین کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے ظالم کو مظلوم بنانے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا کو گمراہ کرنے کی سازش کی گئی ۔ اس کے نتیجہ میں نہ صرف پورے ملک میں فرقہ وارنہ فسادات کی آگ بڑھکائی گئی بلکہ پنجاب بھر میں پولیس فورس اور انتظامی مشینری کے ذریعہ عزاداری سید الشہدا ء کو متاثر کیا گیا۔ ان سب کوششوں کا ھدف ایک ہی تھا۔ کسی طرح بھی عزاداری کو محدود کیا جائے، وہ لوگ یا شخصیات جن کے منافقانہ چہرے قوم کے سامنے آچکے ہیں انہیں دوبارہ ڈھانپا جاسکے ، ملت جعفریہ کے حقوق کو پامال کیا جاسکے۔

 

ان حالات میں مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی قیادت نے اپنے قومی و ملی فریضہ کو جس ثابت قدمی کے ساتھ ادا کیا پوری ملت جعفریہ اس کی شاہد ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی کوششوں کو اگر درپیش چیلنجز کے تناظر میں دیکھا جائے توقارئین کو اندازہ ہو گا کہ یہ سازش کتنی گھناؤنی تھی اور ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کی بابصیرت رہنمائی میں پوری مرکزی ٹیم نے کس جانفشانی سے اس سازش کو ناکام بنایا یہ عصر حاضر میں ملت تشیع ایک تاریخی کامیابی کے مصداق ہے۔

 

میڈیا میں ایک ہجوم تھا اور سارا میڈیا ملت تشیع کے خلاف ایک محاذ کی شکل میں کھڑا تھا ، وہ ملت جس نے ہزاروں شہداء دیئے تھے، وہ ملت جو گذشتہ کئی دہائیوں سے ظلم و بربریت کا شکار تھی اسے یکسر ظالموں کی صف میں کھڑا کرنے سازش کی گئی ، نیز پوری قوت کے ساتھ ملت تشیع کو تنہا کرنے کی سازش کی گئی ۔

 

ان حالات میں مجلس وحدت کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمدامین شہیدی صاحب نے ایک بھر پور میڈیا وار لڑی اور اس میں دیگر مرکزی افراد جن میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات برادر ناصر شیرازی ، علامہ سید شفقت شیرازی، علامہ حسن ظفر نقوی ،علامہ صادق تقوی اورعلامہ ناصر عباس جعفری صاحب نے ٹاک شوز میں مقدس دفاع کا فریضہ سرانجام دیا اور ملت تشیع کے موقف کی درست ترجمانی کی جس سے میڈیا یعنی ذرائع ابلاغ میں اس تاثر کو زائل کیا گیا کہ خدانخواستہ عزاداری سیدالشہداء کسی ایک فرقہ کا مسئلہ ہے بلکہ یہ ثابت کیا کہ عزاداری سیدالشہدا ء مقدسات اسلامی اور شعار اللہ میں سے ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

 

شعبہ سیاسیات کی شبانہ روز محنت اس وقت رنگ لائی جب ۲۲ سنی جماعتوں پر مشتمل سنی اتحاد کونسل نے میڈیا کے اہم چینلز پہ آکر واشگاف الفاظ میں ملت تشیع کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور پاکستان دشمن اور اسلام دشمن قوتوں کو ننگا کردیا، اسی طرح دیگر بریلوی علماء کے ساتھ مل کر اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں نہ صرف پریس کانفرنسز منعقد کی گئیں بلکہ مشترکہ جلوس بھی نکالے گئے جنہوں اس فرقہ وارانہ سازش کو ناکام بنا دیا۔

 

اس کے بعد دوسرا مسئلہ اس خوف و ہراس کی فضا کو توڑنا تھا جو شہر راولپنڈی کے باسیوں اور بالخصوص مومنین پہ طاری کر دی گئی۔ مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی کابینہ کا ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا اور اس خوف و ہراس کی کیفیت کو توڑنے کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ فوری طور پہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا جائے ۔ اس طرح رات آٹھ بجے کم وبیش ۱۵ افراد پہ مشتمل ایک وفد علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں اسلام آباد سے راولپنڈی کی طرف عازم سفر ہوا ۔ یاد رہے اسوقت راولپنڈی میں کرفیو لگا ہو ہوا تھا اور کوئی ’’بڑا‘‘ چمپیئن اپنا قومی قائدانہ کردار ادا کرنے کو تیار نہ تھا ۔ ’’قیادتین‘‘ کا شہر راولپنڈی اور اس شہر میں سہمے ہوئے مومنین منتظر تھے کہ اس کسم پرسی میں کوئی ہے جو ان کی نصرت کو آئے۔

 

الحمداللہ ناصر ملت نے اس بحرانی کیفیت میں ایک بار پھر ثابت کیا کہ شہید قائد کے معنوی جانشین ہیں ۔ رات دوبجے تک یہ وفد تمام امامبارگاہوں کے متولیوں ، متاثرہ مومنین اور متاثرہ علاقوں میں تمام تر خطرات مول لیتے ہوئے اپنا حسینی ؑ کردار ادا کرتے رہے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرتے رہے ۔ ناصر ملت اور ان کے رفقاء کے دورہ نے مومنین کو حوصلہ اور ہمت عطا کی۔

 

تیسرا اہم مسئلہ آنے والے دنوں میں عزاداری کو برپا کرنا اور موجودہ صورتحال میں عزاداروں کو تحفظ فراہم کرنا تھا اور لوگوں کو حوصلہ مند کرنا تھا کہ وہ حسب معمول مراسم عزاداری کو جاری رکھیں ۔ اس سلسلہ میں مرکزی آفس نے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور ڈپٹی سیکرٹری علامہ سید شفقت شیرازی صاحب نے ایک تمام مقامی انجمنوں، ٹرسٹیوں اور امامبارگاہوں کے متولیوں پہ مشتمل ایک گرینڈ میٹنگ بلائی اور حالات کی نزاکت کا احساس دلایا۔ اس موقع پہ مرکزی سیکرٹٖری سکاؤٹس برادر سید فضل عباس نقوی نے عزاداری کے تحفظ کے لئے شعبہ سکاؤٹس کی خدامات پیش کیں اور مرکزی سکاؤٹس کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عزاداری سید الشہدا ء کو برپا کرنے میں ہم اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے اور راولپنڈی میں کم و بیش ۲۰ سکاؤٹس پہ مشتمل مرکزی ٹیم تاحال تحفظ عزاداری کے امور میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

 

چوتھا اور اہم ترین مسئلہ حکومتی مشینری کا اس سازش کی آڑ میں ملت تشیع اور اہلیان راولپنڈی کے گھر وں پہ پولیس کے ذریعہ کریک ڈاؤن اور اس کا تدارک تھا۔ الحمداللہ اس مسئلہ میں مجلس وحدت مسلمین کے شعبہ روابط نے بھرپور کام کیا۔ مرکزی سیکرٹری روابط برادر اقرار حسین نے گرفتار شدگان کے گھروں کا تفصیلی دور ہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے نہ صرف اظہار ہمدردی کیا بلکہ تمام کوائف کو منظم و مرتب کیا ۔ اس وقت برادر اقرار حسین ، آغا امین شہیدی اور ایڈوکیٹ سید سیدین زیدی صاحب کی سرپرستی میں وکلاء کا ایک پینل قانونی امور پر دن رات اپنے امور سر انجام دے رہا ہے۔گرفتار شدگان کی رہائی، متاثرہ امامبارگاہوں کا معاوضہ، چادر و چاردیواری کا تقدس اس کمیٹی کی ذمہ داریوں میں سے ہے اور بہت سے دیگر قانونی امور پر یہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہی ہے جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ۔

 

تحریر: برادر ملک اقرار حسین



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree