The Latest

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے رکن صوبائی اسمبلی سید محمد رضا رضوی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ تکفیریوں کی جانب سے شیعہ سنی کے مابین دوریاں پیداکرنے کی ہرسازش باہمی اتحادواتفاق سے ناکام بنادیں گے۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے آئین اورسبزہلالی پرچم پریقین رکھنے والے پاکستان کے تمام مظلوموں کوامن و استحکام ، اقوام و مذاہب ومسالک کے مابین ہم آہنگی اوررواداری کے لئے متحدکرے گی۔ملت جعفریہ کو پاکستان کے دیگرمسلمانوں سے علیٰحدہ کرنے کاخواب دیکھنے والے تکفیری آج پاکستان میں خودتنہاہوکررہ گئے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ ملت جعفریہ کے عوام امن وآشتی اورمحبت ودوستی کے راستے کے راہی ہیں۔جوپاکستان میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجودملک بھرمیں پیارومحبت، اخوت و برادری، قومی ، سیاسی و مذہبی رواداری کے فروغ اورپاکستان میں امن کے خواہاں ہیں۔کوئٹہ میں مظلوم ،پُرامن اورشیعہ ہزارہ قوم کے دھرنوں نے پاکستان کے شیعوں اور مظلوموں کوبیداری کاایک نیاسمت اورسوچ دیاہے۔شیعہ ہزارہ قوم کا جینامرنابلوچستانی عوام کے ساتھ ہے۔بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان کی ترقی میں ہمارے بزرگوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ہم کسی قیمت پربلوچستان چھوڑنے کے لئے تیارنہیں ہوں گے۔وہ کیاوجوہات ہیں جن کی وجہ سے بھاری مینڈیت سے منتخب ہونے والاوزیراعظم ؛پاک فوج اورمظلوم عوام کے قاتلوں کے خلاف کاروائی کرنے سے پس و پیش سے کام لے رہی ہے؟گزشتہ کئی ادوار سے کوئٹہ میں آبادشیعہ ہزارہ قوم کوشناختی کارڈ اورپاسپورٹ کے حصول کے لئے دانستہ طورپرتنگ کیاجارہاہے ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ پاسپورٹ آفس میں کمیشن خوروں کا راج ہے۔ پاکستانی ہونے کاثبوت دینے کے لئے ہمیں مزیدکتنی قربانیاں دینی پڑیں گی۔کوئٹہ میں ہمارے لئے سانس لینامحال بنادیاگیاہے۔ ہمیں مجبورنہ کیاجائے کہ ہم کوئٹہ میں اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے بارے میں اقوام متحدہ سے رجوع کریں۔

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر جب بھی پڑھتا ہوں تو سوچ میں غرق ہوجاتا ہوں کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ جوان، پیروں کے استاد ہوجائیں، لیکن جلد ہی آنکھوں کے سامنے ایسے مناظر گھومنے لگتے ہیں جس سے اندازہ ہو کہ ہاں جوان بھی پیروں کے استاد ہوسکتے ہیں اور وہ ایسے ایسے کام کر دکھاتے ہیں جو پیروں کے بس میں نہیں ہوتے۔ عالم اسلام کی حالیہ بیداری کی لہر، جس میں جوانوں نے مصر سے بحرین تک حکومتی ایوان کے در و دیوار ہلا دیئے اور ان جوانوں کی قربانیوں، عزم و حوصلے کے سامنے چار عشروں سے قائم آمریتیں ریت کے گھروندوں کی مانند زمین بوس ہوتی رہیں، جوانوں کی استادی کی اس سے بڑی مثال شاید کوئی نہیں۔ وطن عزیز میں بھی جوان ہر شعبہ زندگی میں بزرگوں سے بڑھ کر کارنامے سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ اگر جوانوں کی یہ پیش رفت بزرگوں کے احترام کے ساتھ جاری رہے تو اس جیسی کوئی دوسری شے نہیں۔

 

ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ قم سے پلٹے ہوئے چند جوان علماء نے، ملک میں موجود چند جوانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی، یہ تنظیم جب وجود میں آئی تو کوئی بھی توقع نہ کرسکتا تھا کہ یہ تنظیم اتنی جلدی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ملک میں تشیع کی رہبری و قیادت کا فریضہ سرانجام دے گی۔ جوانوں کے اس قافلے کو ابتدائے سفر میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہوا۔ جس میں سب سے بڑی مشکل خود ان کی جوانی اور نوعمری تھی۔ بزرگ کسی طرح بھی ان جوانوں کے تحت یا ساتھ کام کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ بزرگوں کی عدم سرپرستی اور حمایت کے باوجود ان جوانوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ہم بزرگوں کے خلاف نہیں بلکہ ملت کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

 

مجلس وحدت مسلمین کے نوجوان علماء اور کارکنوں نے قوم کو مایوسیوں کے اندھیروں سے نکالا۔ خاموشی جو ہمارے بہت سے مسائل کا بنیادی سبب تھی ٹوٹی اور قوم ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں وارد ہوئی۔ دنیا کو معلوم ہوا کہ شیعہ فقط مرنا ہی نہیں بلکہ اپنی شہادتوں کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں۔ کوئٹہ کے دھرنے جو بنیادی طور پر شہداء کے ورثاء کی آواز تھی، پر ان جوان علماء اور ان کے رفقاء نے لبیک کہا۔ یہ لبیک ہر شیعہ شہری کے دل کی آواز تھی۔ وطن عزیز میں یہ طبقہ گذشتہ تین دہائیوں سے انجانے جرم کے سبب قتل و غارت کا شکار ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ کوئی بھی ان کی آواز سننے والا اور ان سے ہمدردی کرنے والا نہیں تھا۔ واقعہ کے روز چند تک بیانات سامنے آتے اور پھر اگلے واقعہ کا انتظار شروع ہو جاتا۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ شیعہ کا امن ایک قتل سے دوسرے قتل کے مابین کا وقت ہے۔ صورتحال اس نہج تک کیوں پہنچی، میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ میری نظر میں جب معاملات درست سمت چل پڑیں تو گڑھے مردے اکھاڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

 

بہرحال مجلس وحدت مسلمین نے چند ہی سالوں میں قوم کے اندر وہ رسوخ حاصل کیا جو کسی بھی تنظیم یا گروہ کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ میں مجلس کے ہر فیصلے کو درست سمجھتا ہوں ممکن ہے اور بھی بہت سے حضرات مجلس کے بہت سے فیصلوں سے اختلاف رکھتے ہوں، تاہم جو چیز مجھے مجلس کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، ان کا بروقت اقدام کرنا اور موثر قدم اٹھانا ہے۔ سانحہ عاشورہ، راولپنڈی کو ہی لے لیجئے، ملت عجیب سی سراسیمگی کا شکار تھی۔ عاشور کی رات بہت سے امام بارگاہوں پر حملے ہوئے، لیکن اس کے باوجود شیعہ قوم میڈیا کے واویلا کے سبب عجیب سی گھبراہٹ اور تجسس سے دوچار تھی۔ ایسے میں مجلس وحدت مسلمین کی قیادت ایک مرتبہ پھر میدان میں آئی اور اس نے میڈیا پر آکر اصل صورتحال سے پردہ اٹھایا، جس کے سبب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ عام پاکستانی کو اصل حقائق کا علم ہوا اور مسلکی نفرت کی آگ ٹھنڈی ہوئی۔

 

مجلس وحدت کا تازہ اقدام دہشت گردی کا شکار ہونے والی پاکستان کی مختلف اقلیتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور شدت پسند گروہ کے خلاف ایک اتحاد کو تشکیل دینا ہے۔ یہ ایک نہایت کٹھن اور پرپیچ راہ ہے، جس پر اب تک مجلس وحدت مسلمین کی قیادت عزم و استقلال سے رواں دواں ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کا ایک اور اہم عمل سنی اتحاد کونسل کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کا آغاز ہے، جس نے ثابت کیا کہ مجلس وحدت امت پر یقین رکھتی ہے، ساتھ ہی ساتھ اس اقدام نے ملک کے تکفیری ٹولے کو جو ہمیشہ سے ملت تشیع کو تنہا کرنے کی کوشش میں ہے، تنہا کر دیا گیا۔

 

مجلس نے جہاں بین المسالک ہم آہنگی کے لیے اقدام کیا وہیں اس تنطیم کی قیادت نے ملت کے اندر پائے جانے والے مختلف گرہوں کو مشترکہ مفادات کے تحفط کی بنیاد پر مجتمع کیا، یہی وجہ ہے کہ آج مجلس کے اجتماعات میں جہاں ہمیں علماء نظر آتے ہیں وہیں ذاکر، ماتمی دستوں کے سالار بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ ابتدائے سفر ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مجلس کی قیادت ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ملت کے تمام گروہوں کو چاہے یہ گروہ ان کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں، ایک پرچم تلے جمع کرنے کی سبیل کرے۔ اسے چاہیے کہ وہ سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ تربیتی میدان پر بھی اپنی بھرپور توجہ مبذول رکھے، کیونکہ یہی تربیت شدہ افراد کسی بھی تنظیم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی کے روحانی فرزندوں کا یہ کاروان تبھی اپنی درست سمت پر رواں دواں سمجھا جاسکتا ہے کہ جب یہ اپنے محبوب قائد کی فکر اور تعلیمات سے نہ صرف پیوستہ رہے بلکہ عملی طور پر بھی ثابت کرے کہ یہ ایک نظریاتی گروہ ہے، جو حق کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہے۔

تحریر: سید محمد سبطین شیرازی

وحدت نیوز(گلگت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا شیخ نیئرعباس مصطفوی نے اپنے ایک بیان میں طالبان سے مذاکرات کے حکومتی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ملکی آئین کو تسلیم نہ کرنے اور ہزاروں بیگناہ و معصوم پاکستانی عوام کے خون سے ہولی کھیلنے والے دہشت گردوں سے مذاکرات درحقیقت شہداء کے خون سے غداری اور ملک میں طالبان کی فکر کو پروان چڑھانے کے مترادف ہے۔ انکا مزید کہنا ہے کہ مذاکرات کے نام پر دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کی حوصلہ افزائی اور محب وطن پاکستان شیعہ و سنی عوام کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے جو استحکام پاکستان کیخلاف سوچی سمجھی سازش ہے۔

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے لاہور میں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں پشاور میں تکفیری دہشتگرد طالبان کی جانب سے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان سے مذاکراتی کمیٹی اور طالبان کی نمائندہ کمیٹی گھناوُنے جرم کے ذمہ دار ہیں اور طالبان کے نمائندہ حکومت تحریک انصاف خیبر پختونخوا دھماکے میں معصوم محب وطن شہریوں کیساتھ طالبان کی ایما پر ناروا سلوک کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں زخمیوں کا کوئی پرسان حال نہیں، لوگ اپنے پیاروں کے علاج کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں، حکومتی بے حسی پر ہم صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔

 

علامہ اسدی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو محب وطن پاکستانیوں نے طالبان نوازی پر اپنے ردعمل کی ایک جھلک مال روڈ دھرنے میں دکھا دی تھی، اگر خیبر پختونخوا کی حکومت نے پشاور دھماکے کے زخمیوں کیساتھ یہی سلوک روا رکھا تو چاروں صوبوں اور تمام اضلاع میں پی ٹی آئی کے دفاتر کا گھیراو کریں گے۔ علامہ اسدی کا مزید کہنا تھا کہ یہاں طالبان طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں معصوم شہریوں کا خون آئے دن بہایا جا رہا ہے اور اس خونین کھیل کے ذمہ دار بزدل حکمران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ ہونیوالے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، یہ وقت کا ضیاع ہے اور طالبان کی چال ہے، جس کے ذریعے وہ وزیرستان سے کہیں اور محفوظ ٹھکانوں پر منتقل ہوجائیں گے اور اس کے بعد ہونے والے آپریشن میں فوج کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

 

علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا تھا کہ حکومت طالبان کے سرپرستوں کی چالوں میں نہ آئے اور اس حوالے سے ڈو ٹوک فیصلہ کیا جائے۔ دہشتگرد ایک جانب مذاکرات کر رہے ہیں تو دوسری جانب دہشتگردی کے واقعات بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ مخلص نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین ہر مذہب کو آزادی دیتا ہے، آئین کے رو سے پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں چلے گا جو شریعت سے متصادم ہو تو پھر طالبان کس شریعت کے نفاذ کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے اگر طالبان کے مطالبات تسلیم کر لئے تو ان درندوں کا پہلا شکار خود حکمران ہی ہوں گے اور تب حکمرانوں کے ہاتھ سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں آئے گا، اس لئے حکمران بیداری کا مظاہرہ کریں اور طالبان کے خلاف آپریشن کیا جائے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکریٹری جنرل علامہ مختار احمد امامی نے کہا ہے کہ پشاور دھماکہ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، عوام کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے بجائے قاتلوں سے مذاکرات کئے جارہے جو شریعت کے منافی ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی اپیل پر جمعہ کو سندھ بھر میں پشاور دھماکے اورطالبان سے مذاکرات کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت ہاؤس کراچی سے جاری ایک بیان میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخوا میں عوام کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، ایک طرف تو مظلوم عوام پر دھماکے ہورہے ہیں تو دوسری طرف ان دھماکوں میں زخمی ہونے والے افراد ہسپتالوں میں علاج کے لئے پریشان ہیں لیکن ملک میں انقلابی تبدیلی کا نعرہ لگانے والے آج طالبان دہشت گردوں سے خوفزدہ ہوکر ان سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ علامہ مختار امامی نے مزید کہا کہ طالبان سے مذاکرات کیخلاف مجلس وحدت مسلمین کا مؤقف واضح ہے ہم ایسے کسی مذاکرات کو تسلیم نہیں کرتے کہ جو 55 ہزار شہداء کے خانوادوں کی تضحیک کے مترادف ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پشاور دھماکے اور طالبان سے مذاکرات کیخلاف علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے حکم پر جمعہ کو سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے اورعزم کا اعادہ کیا جائے گا کہ بانیان پاکستان کی اولادیں اپنے وطن کے دشمنوں سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کو مسترد کرتی ہیں۔

وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبر پختونخوا کے رہنماء علامہ سید عامر حیدر شمسی نے کہا ہے کہ ہم پشاور میں مسجد و امام بارگاہ میں ہونیوالے خودکش حملے میں جان بحق ہونیوالے دس پاکستانیوں کی شہادت اور اس بہیمانہ و دہشتگردانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور آج وارثان شہدا یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک اور اسلام دشمن طالبان دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کرنیوالے پاکستان کی عوام کو بتائیں کہ آخر کتنے پاکستانیوں کا مزید خون درکار ہے اور آخر کتنے پاکستانیوں کے مزید قتل عام کے بعد امن قائم ہوگا؟ حکومت پاکستان نے مذاکرات کے نام پر طالبان دہشت گردوں کو پاکستانی شہریوں کے قتل عام کا لائسنس جاری کر دیا ہے اور ایک مرتبہ پھر پشاور ملت جعفریہ کے عمائدین کے خون سے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔

 

علامہ عامر حیدر شمسی نے کہا کہ پشاور میں علی اصغر قزلباش کی شہادت کے بعد فعال کارکن ولی اللہ پر حملہ کیا گیا اور پھر یکے بعد دیگرے تیسرے حملے میں ملت جعفریہ کے عمائدین کو خودکش دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا جانا خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ان تمام سیاسی و مذہبی قائدین سے سوال کرتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ آخر مملکت خداداد پاکستان میں کب تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہے گی اور ملک و اسلام دشمن طالبان دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کے نام پر پاکستانیوں کو موت کی نیند سلایا جاتا رہے گا، حکمرانوں کی اپنی اولادیں ملک سے باہر عیش و عشرت کی زندگیاں بسر کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کے بیٹوں کو طالبان دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، ہم نے پہلے واضح کر دیا تھا کہ اگر کوئی دہشتگردی کا واقعہ رونما ہوا تو اس کے ذمہ دار حکومت اور مذاکراتی کمیٹی میں شامل افراد ہونگے، لہذا ہم اس تمام دہشت گردانہ واقعات کا ذمہ دار حکومت اور مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کو سمجھتے ہیں۔

 

علامہ عامر حیدر شمسی نے بزرگ عالم دین علامہ خورشید انور جوادی کے ساتھ ایل آر ایچ کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی اور جلد صحت یابی کے لئے دعا کی۔ علامہ خورشید انور جوادی نے زخمیوں میں حسینی فاونڈیشن کے جانب سے امدادی رقم بھی تقسیم کی۔ اس دوران مجلس وحدت مسلمین اورکزئی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل علامہ مصطفی بہشتی ، صوبائی آفس مسئول ارشاد حسین بنگش، اور ضلعی عہدار بھی موجود تھے۔

وحدت نیوز(پشاور) مملکت خدادادپاکستان میں شیعہ برادری کا تسلسل سے قتل عام ہو رہا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ دنوں میں کئی بے گناہ شہری قتل ہوئے اور حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیاں خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔گزشتہ روز پشاور شہر میں دہزت گردی کی  تین وارداتیں  ہوئیں اور مجرمین باآسانی موقع سے فرار ہوئے۔


    ۴فروری  ٢٠١٤   کی صبح کو پشاور شہر کے وسط میں دن دھاڑے ایک شیعہ رہنما اصغر علی جیو کو شہید کیا گیا۔ کل شام کو شیعہ کمیونٹی کے ایک امام بارگاہ کے ساتھ خودکش حملہ ہوا جس میں ٩ بے گناہ شہری شہید اور متعدد افراد زخمی ہوئے اور کل شام ہی ایک شیعہ جوان ولی اللہ پر قاتلانہ حملہ ہوا ان سب واقعات کے پیچھے جو دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہ حکمرانوں اور سیکیورٹی ایجنسیو ں کے لیے جانے پہچانے ہیں مگر ہمارے باربار مطالبات کے باوجود ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوری ٰ نظارت کے رکن علامہ سید جواد ہادی نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کر تے ہو  ئے کیا ۔ اس پریس کانفرنس کا انعقادمجلس وحد ت مسلمین صوبہ خیبر پختون خواہ ، آئی ایس او  پشاور ڈویژن ، طوری بنگش کونسل ، جامعہ شہید کے اساتیداور پاک ہوٹل انتظامیہ کے جانب سےمشترکہ طور پر کیا گیا تھا،اس موقع پر علامہ خورشید انور جوادی  صدر امامیہ علماء کونسل،علامہ مصطفیٰ بہشتی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین  اورکزئی ایجنسی،علامہ اصغررجائی استادجامعہ شہیدحسینی ،علامہ عابد شاکری  خطیب جامعہ شہیدحسینی ،گلاب حسین چیرمین طوری بنگش کونسل اور بلال حسین نائب صدر آئی ایس او پشاور ڈویژن بھی موجود تھے۔

 

علامہ جواد ہادی کا کہنا تھا کہ سنی ہمارے بھائی ہے مگر چند مٹھی  بھر دہشت گرد ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں اگر ان دہشتگردوں کو نہ روکا گیا تو اس کے نتیجے میں پورے ملک میں حکومت کی رٹ ختم ہو جائی گی۔ہم اس کانفرنس میں واضح اور دو ٹوک اعلان کرتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔ارباب اقتدار ان دہشت گردوں سے خوف زدہ ہیں لہٰذا ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے ۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے اور ان کے خلاف ٹارگٹ آپریشن کیا جائے پشاور میں شیعہ کمیونٹی کے دینی مراکز کو تحفظ فراہم کیا جائے شہداء اور زخمیوں کو معاوضہ دیا جائے ۔

 

پریس کانفرنس کے اختتام پر  علمائے کرام کی جانب سے۶ نکاتی مطالبات بھی پیش کیئے گئے جن کے مطابق
1۔ہم مطالبہ کرتے ہے کہ پاک ہوٹل دھماکہ اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصیر کو بے نقاب کیا جائے ۔
2۔پاک ہوٹل سمت پشاور کے تمام شیعہ کمیونٹی کے عبادت گاہوں سمت شحصیات کو سیکورٹی فراہم کی جائے۔
3۔پاک ہوٹل کے سیکورٹی بہتری کے لئے گیٹ لگائے جائے
4۔دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے بجائے اپریشن کیا جائے آئین کو نہ ماننے والوں کے ساتھ مذکرات قوم کی توہین ہیں۔
5۔شہداء اور زخمیوں کو معاوضے کو جلد سے جلد اعلان کیا جائے۔ اور زخمیوں کی بہترین علاج کے لئے دیگر ہسپتالوں میں شفٹ کیا جائے۔
6۔کالعدم دہشت گرد جماعتوں کے خلاف ٹارگٹنگ اپریشن کیا جائے۔

وحدت نیوز(ڈیرہ غازی خان) پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے آٹھ نئے یونٹس تشکیل دے دیئے گئے ہیں ، ایم ڈبلیو ایم تحصیل تونسہ شریف کے سیکریٹری جنرل سید زوالفقار شاہ نقوی نے وحدت نیوز کو جاری بیان میں بتایا کہ انتھک محنت اور شب و روز رابطوں کے بعد ایم ڈبلیو ایم تحصیل تونسہ شریف میں آٹھ نئے یونٹ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے ،نئے تشکیل کردہ یو نٹس اور منتخب عہدیداران کی تفصیل اس طرح ہے ، ۱)ایم ڈبلیو ایم بستی گمب یونٹ ، سیکریٹری جنرل مولاناغلام رسول اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل ملک اعجاز منتخب ہو ئے ۔۲)ایم ڈبلیو ایم بستی کھریونٹ ،سیکریٹری جنرل  مولانا سید مرید کاظم شاہ اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل ملک محمود  منتخب ہو ئے ۔۳)ایم ڈبلیو ایم بستی فتح خان یونٹ ،سیکریٹری جنرل نذر حسین ملک   اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل  جاوید عباس منتخب ہو ئے ۔۴)ایم ڈبلیو ایم بستی گراں والایونٹ ،سیکریٹری جنرل مولانا ارشاد حسین    اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل الطاف حسین    منتخب ہو ئے ۔۵)ایم ڈبلیو ایم قصبہ ممدانی طبی یونٹ ،سیکریٹری جنرل حاجی بشیر احمد اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل حاجی منظور احمد  منتخب ہو ئے ۔۶)ایم ڈبلیو ایم بستی عظیم    یونٹ ،سیکریٹری جنرل نور احمد      اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل تنویر حسین شاہ    منتخب ہو ئے ۔
۷)ایم ڈبلیو ایم بستی کھر والا  یونٹ ،سیکریٹری جنرل اختر عباس شاہ     اور ڈپٹی سیکریٹری جنرل خضر عباس   منتخب ہو ئے ۔۸)لٹری شمائیل یونٹ ، سیکریٹری جنرل غضنفر عباس ڈپٹی سیکریٹری جنرل ریاض حسین منتحب ہو ئے ۔

وحدت نیوز(پشاور)  تمام شیعہ تنظیموں مجلسِ وحدتِ مسلمین (خیبر پختونخواہ)، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان پشاور ڈویژن، اور جامعہ شہید جماعت نے پشاور قصہ خوانی بازار میں امام بارگاہ علمدار(پا ک ہوٹل)پر بم دھماکے،ولیﷲ(جنرل سیکرٹری انصارالحسین) پر قاتلانہ حملے ،سردار علی اصغر(صوبائی صدر تحریکِ نفاذفقہِ جعفریہ)کی شہادت اور حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیاجس میں کثیر تعداد میں علماء تنظیمی احباب اور عوام نے شرکت کی۔

 

تنظیمی احباب اور علما ء کرام نے شدید الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت پورے صوبے اور پر خاص طور پر پشاورمیں امن و امان لانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔مقررین نے مطالبات پیش کرتے ہوئے کیا کہ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے علامہ خورشید انور جوادی نے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کا راج ہے ہر طرف بے گناہوں کے لاشیں گر رہے ہیں مظلوںکاکوئی پرسان خال نہیں ۔ایسے حالات میں ہر شخص مجبور ہوجائے گا کہ بندوق اٹھا کر اپنی دفاع خود کرے مگر بھر ملک کاخداہی خافظ ہوگا۔ یہ کہاں کا قانوں ہے جو پیارے ملک پاکستان کے ساتھ محلص ہو اس کو دیوارکے ساتھ لگایا جائے اور جوملک میںدھماکے کرے اس کے ساتھ مذکرات کئے جاتے ہو۔ انہوں نے مطالبات کرتے ہوکہا کہ


١۔خیبر پختونخواہ خاص طور پرپشاور میں ٹاگٹ کلنگ میں ملوث گروپ کے خلاف آپریشن کیا جائے۔
٢۔حکومت کو سب کچھ معلوم ہے کہ کون کیا کر رہا ہے ان کے ٹھکانے کہاں ہیں حکومت ان کے خلاف کاروائی کرے۔
٣۔شہدا ء اور زخمیوں کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جائے۔
٤۔شیعہ آبادی اورمکانات کو خصوصی سیکورٹی فراہم کی جائے۔
٥۔امام بارگاہ اور ہوٹل کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔

 

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ ہم پشاور میں مسجد و امام بارگاہ میں ہونیوالے خودکش حملے میں جاں بحق ہونیوالے دس پاکستانیوں کی شہادت اور اس بہیمانہ و دہشتگردانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور آج وارثان شہداء یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک اور اسلام دشمن طالبان دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کرنیوالے پاکستان کی عوام کو بتائیں کہ آخر کتنے پاکستانیوں کا مزید خون درکار ہے اور آخر کتنے پاکستانیوں کے مزید قتل عام کے بعد امن قائم ہوگا؟ حکومت پاکستان نے مذاکرات کے نام پر طالبان دہشت گردوں کو پاکستانی شہریوں کے قتل عام کا لائسنس جاری کر دیا ہے اور ایک مرتبہ پھر پشاور ملت جعفریہ کے عمائدین کے خون سے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ وہ لاہور میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ اس موقع پر سید ناصر عباس شیرازی، علامہ ابوذر مہدوی، علامہ حیدر علی موسوی اور سید فضل عباس بھی موجود تھے۔

 

علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پشاور میں علی اصغر قزلباش کی شہادت کے بعد ولی اللہ پر حملہ کیا گیا اور پھر یکے بعد دیگرے تیسرے حملے میں ملت جعفریہ کے عمائدین کو خودکش دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا جانا خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ان تمام سیاسی و مذہبی قائدین سے سوال کرتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ آخر مملکت خداداد پاکستان میں کب تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہے گی اور ملک و اسلام دشمن طالبان دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کے نام پر پاکستانیوں کو موت کی نیند سلایا جاتا رہے گا، حکمرانوں کی اپنی اولادیں ملک سے باہر عیش و عشرت کی زندگیاں بسر کر رہی ہیں جبکہ پاکستان کے بیٹوں کو طالبان دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا، ہم نے پہلے واضح کر دیا تھا کہ اگر کوئی دہشتگردی کا واقعہ رونما ہوا تو اس کے ذمہ دار حکومت اور مذاکراتی کمیٹی میں شامل افراد ہونگے، لہذا ہم اس تمام دہشت گردانہ واقعات کا ذمہ دار حکومت اور مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کو سمجھتے ہیں۔

 

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ طالبان کی نمائندگی کی بجائے عوام کی جان و مال کے تحفظ پر کام کریں اور ان شہداء کے قاتلوں کی فی الفور گرفتاری عمل میں لائی جائے، ورنہ وہ وقت اب دور نہیں کہ پاکستان کی عوام کے ہاتھ حکمرانوں کے گریبانوں تک جا پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کیا طالبان سے مذاکرات کیلئے کوئی گارنٹی موجود ہے؟ ہیں تو وہ کون ہیں؟ کیا تحریری گارنٹی موجود ہیں؟ ہزاروں محافظین وطن کے اعلانیہ قاتلوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے قتل کے مقدموں میں سزا یافتہ افراد کو قید کرنے کا کیا جواز ہے؟ قاتلوں کو عام معافی دیکر ملک کو بنانا ریپبلک بنانے کا اعلان کر دیا جائے، تاکہ جس کے پاس طاقت ہو وہ مذاکرات کے نام پر اپنے مطالبات منوائے اور قانون، عدلیہ اور آئین کا تصور ختم ہو کر رہ جائے، بتایا جائے ان مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ آئین پاکستان ریاستی قانون کو نہ ماننے والی کالعدم جماعتوں سے مذاکرات کو رد کرتا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ کیا طالبان سے مذاکرات کے نام پر دہشتگردی کو دی جانے والی رعایتیں اور مربوط معاملات ان کیمرہ نہیں ہونے چاہیے، کیا ان کی تمام تر تفصیلات میڈیا اور عام لوگوں کیلئے واضح نہیں ہونی چاہیں۔؟ خفیہ مذاکرات چہ معنی دارد؟ دہشتگردوں سے مذاکرات کا دم بھرنیوالے مظلومین اور شہداء کی تشفی کیلئے کیوں نہیں جاتے؟ وارثان شہداء سے رائے کیوں نہیں لی جاتی؟ صرف دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کی رائے کیوں اہم ہے؟ امریکی پٹھو، عرب ممالک کے مسلسل دورہ جات اور طالبان کیلئے حکومتی نرم گوشہ کن مفادات کے پیش نظر ہے؟ کیا نام نہاد مذاکراتی عمل کا یہ دورانیہ متعین شدہ ہے؟ ہے تو کیا؟ نہیں ہے تو کیوں؟ وطن عزیز میں دہشتگردی کے سب سے بڑے شکار مکاتب فکر اور جماعتوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ مذکراتی ٹیم کا ماضی شیعہ دشمنی اور تعصب سے بھرا ہے، میجر عامر، شہید عارف حسین الحسینی کے قتل میں ملوث پایا گیا ہے، رستم مہمند 1988ء سانحہ ڈیرہ اسماعیل خان جس میں دسیوں افراد شہید ہوئے تھے، کا مرکزی ملزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا واضح ثبوت موجود ہے کہ شیعہ اور اہلسنت کے قاتلوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔

 

علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ مذہبی آزادی پر قدغن لگانا طالبان کا اعلانیہ مطالبہ رہا ہے، مذاکرات کے پردے میں مذہب کے نام پر ملک میں تباہ کن تبدیلیاں مقصود ہیں، جن کا ہدف طالبان کو حکومت میں شریک کرنا اور طالبان کے نظام کو قانونی شکل میں رائج کرنا ہے، مجلس وحدت مسلمین اس تمام عمل کو پاکستان توڑنے کی عالمی سازش کا حصہ قرار دیتی ہے اور بھرپور عوامی حمایت کیساتھ فی الفور منظم اور بھرپور فوجی کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے، دہشتگردوں سے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے قانون، آئین اور عدلیہ کی بلادستی کو یقینی بنانے کا عہد کرتی ہے، اس سلسلے میں 2 فروری کو کوئٹہ میں عظیم الشان پیام شہداء و اتحاد امت کانفرنس پاکستان میں عوامی لائحہ عمل کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ اس کانفرنس میں سنی اتحاد کونسل، تحریک منہاج القرآن، اقلیتی نمائندے اور کئی دیگر پارٹیاں بھی شریک تھیں، عوامی قوت سے دہشتگردوں کو شکست دیں گے، جس کا عملی مظاہرہ ایک مرتبہ پھر ہنگو کی سرزمین پر شہید اعتزاز حسن نے کیا ہے۔

 

علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ حسینی عزم سے یزیدیت کو شکست فاش دیں گے اور سیاسی طالبان اور قلمی دہشتگردوں کے ہتھکنڈوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے، چاہے ہمیں ہزاروں شہداء کے مقدس لہو کی قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل نے محب وطن کونسل کا اجلاس فروری کے پہلے ہفتہ میں طلب کر لیا ہے، جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں طالبانائزیشن کے مقابلے میں عوامی تحریک کا آغاز متوقع ہے، ایک درجن سے زائد جماعتیں محب کونسل میں شامل ہونے کیلئے رسمی طور پر آمادگی کا اظہار کرچکی ہیں، محب وطن قوتیں مل کر دہشتگردوں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور آئندہ چند دنوں میں اس کا عملی اظہار ملک کے طول و عرض میں نظر آئے گا۔

 

انہوں نے کہا کہ صحافی دوستوں سے گزارش ہے کہ حقیقی عوامی موقف کو پھیلانے میں ہمارا ساتھ دیں اور طالبان کی دھمکیوں کی پرواہ نہ کریں، ہم ملک میں جاری شیعہ نسل کشی اور نام نہاد مذاکرات کیخلاف بروز جمعہ ملک بھر میں مظاہرے کریں گے۔ طالبان دہشتگردوں کیخلاف بھرپور کارروائی کے حق اور مذاکرات کے عمل کیخلاف عوامی ریفرنڈم کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس سلسلہ میں 2 فروری کو بلوچستان میں ریفرنڈم ہوچکا ہے۔ ہزاروں شہداء کے لواحقین نے مذاکرات کو ملک دشمنی قرار دیتے ہوئے رد کر دیا ہے۔ آئندہ ملک بھر میں عوامی تحریک کا اعلان کیا جاچکا ہے، جس کے مطابق 9 مارچ کو ڈیرہ اللہ یار بلوچستان، 16 مارچ کو اندرون سندھ، خیرپور میرس، آخر مارچ فیصل آباد اور اپریل میں سکردو میں عظیم الشان عوامی اجتماع ہونگے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree