The Latest
شمالی کوریا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جو امریکی سرزمین کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
یہ بیان امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان میزائلوں کے بارے میں ہونے والے ایک معاہدے کے بعد آیا ہے
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’جاپان، گوام، اور امریکہ‘ کے اندر فوجی اڈے شمالی کوریا کے میزائلوں کی زد میں ہیں۔
اتوار کو جنوبی کوریا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے میزائل نظام کی پہنچ میں تقریباً تین گنا اضافہ کر رہا ہے۔
شمالی کوریا کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنا رہا ہے، لیکن اس کے دو حالیہ تجربے ناکام ہوگئے تھے۔
شمالی کوریا کے پڑوسی ممالک کا کہنا ہے کہ اپریل دو ہزار نو اور اپریل دو ہزار بارہ میں ہونے والے یہ تجربے طویل فاصلے تک مار کرنے والے تائی پو دونگ دو میزائل نظام سے متعلق تھے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس نظام کا مقصد مرکزی امریکی سرزمین (ہوائی اور الاسکا کو چھوڑ کر بقیہ امریکی ریاستیں) تک پہنچنا ہے۔ تاہم اس کا ابھی تک کامیاب تجربہ نہیں کیا جا سکا۔
شمالی کوریا جنوبی کوریا اور امریکہ کے خلاف سخت بیانات دیتا رہتا ہے۔
اس بیان میں، جو سرکاری خبررساں ادارے کے سی این اے نے نشر کیا اور جسے شمالی کوریا کے قومی دفاعی کمیشن سے منسوب کیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا کسی بھی دشمن کا مقابلہ ’جوہری کے بدلے جوہری اورمیزائل کے بدلے میزائل‘ سے کرے گا۔
اتوار کے روز جنوبی کوریا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس کا امریکہ کے ساتھ بیلسٹک میزائلوں کی رینج بڑھانے کے سلسلے میں معاہدہ ہوا ہے۔
امریکہ کے ساتھ ایک سابق دفاعی معاہدے کے تحت جنوبی کوریا کو ایسے میزائلوں تک محدود کر دیا گیا تھا جن کی پہنچ تین سو کلومیٹر تھی۔ نئے معاہدے میں یہ پہنچ بڑھا کر آٹھ سو کلومیٹر کر دی گئی ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ رہنما علامہ ولایت حسین جعفری نے کوئٹہ میں شیعہ نسل کشی کے حوالے سے بریف کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ جیسے پرامن شہر میں دہشت گردی اب ایک رواج میں بدل گئی اور اسے رواج دینے والے انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں ہر دوسرے دن دو سے ایک فرد ہزارہ شیعہ کا شہید کردیا جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے شیعہ نسل کشی کے بارے میں مکمل چپ سادھ لی ہے اور اس مسئلے کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو لوٹ کھسوٹ سے شاید فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ اس قتل عام کی جانب توجہ دے یا پھر حکومت کے لئے اہل تشیع کی نسل کشی کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے
انہوں نے کوئٹہ میں ہزارہ اہل تشیع کے قتل عام کے بارے میں مزید کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتہائی پلان اور منظم سازش اور منصوبے کے تحت یہ نسل کشی کی جارہی ہے اور عملی طور پر کوئٹہ شہر آہستہ آہستہ نہ صرف اپنی رونقیں کھو رہا ہے بلکہ صوبے سے الگ ہوتا جارہا ہے
انہوں نے مزید کہا کہ اب اس بات پر افسوس کرنا ہی فضول ہے کہ عدلیہ اس مسئلے میں بالکل خاموش اور کسی حدتک اس مسئلے کو اٹھاتے ہوئے خوفزدہ نظر آتی ہے
ایران کے مایہ ناز دانشور اورثقافتی کونسل کے رکن حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی پروفیسر جناب حسن رحیم پور ازغدی کی گستاخانہ فلم کے خلاف گفتگو بعنوان ’’اسلامی مقدسات کی توہین کا تجزیہ‘‘ (یا اہانت پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پس پردہ عوامل) واضح رہے کہ یہ گفتگو ابناء سائیٹ پر نشر ہوئی تھی جسے کچھ ترامیم کے بعد پیش کی جارہی ہے
*جب تک دشمن اسلام کی جانب سے تشویش محسوس کریں گے اور دین اسلام کو ایک سنجیدہ اور تہذیب ساز دین اور ظلم و جور کے نظامات کے لئے رقیب اور حریف سمجھیں گے، توہین کرتے رہیں گے۔
* اگر اسلام کا دور ختم ہوچکا ہوتا اور اگر وہ ایک مردہ شیعہ کو اپنے سامنے پاتے تو اس قدر ہاتھ پاؤں نہ مارتے، ایل یورپ دینی مطالعات کرتے ہیں، ان کے ہاں دینی ڈپارٹمنٹس ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اسلام مسلسل ترقی کررہا ہے اور فروغ پارہا ہے۔
* وہ کب توہین کرنے لگتے ہیں؟ وہ اس وقت گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں جب محسوس کرتے ہیں کہ اسلام کی تہذیب نمایاں طور پر پھل پھول رہی ہے اور اسلام تہذیب و ثقافت اور فردی و معاشرتی اخلاق، قانون سازی، حکومت کی تشکیل ور تہذیب وتمدن کے سلسلے میں ایک چلینج بن کر ابھر رہا ہے جب ہی انہوں نے اسلام کی توہین کرنا شروع کردیاہے۔
* یہ گستاخیاں ایک طرف سے اپنے اندر ایک مثبت پہلو بھی رکھتیں ہیں اور ایک طرف سے منفی بھی؛منفی پہلو یہ ہے کہ کیونکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان اقدس میں گستاخی ہوئی ہے اور آپ (ص) کی شان میں گستاخی ہوئی ہے اور ایک طرف سے یہ اپنے اندر مثبت پہلو بھی رکھتیں ہیں کہ یہ اس بات کی نوید ہے کہ انہیں اسلام ایک مردہ اسلام کا نہیں بلکہ زندہ دین کا سامنا کرنا پڑرہا ہے؛ یہ خوشی کی بات ہے کہ وہ اسلام کو ایک لاش اور ایک میت کی شکل میں غسال کے ہاتھ میں نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ اسلام ایک زندہ موجود ہے۔
* یہ گستاخیاں نئی نہیں ہیں، کیتھولک عیسائی صلیبی جنگوں کے بعد اور نشاۃثانیہ (Renaissance) کے دوران اسلام کی توہین کیا کرتے تھے؛ اور (نعوذباللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو "کیتھولَک عِیسائیوں کا مرتد پادری" کا عنوان دے کر توہین کیا کرتے تھے اور بارہویں صدی عیسوی کے بعد مختلف نمائشی اور سمعی بصری فنون کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اسلام کی نہایت احمقانہ تصویر کشی کیا کرتے تھے۔ حتی کہ وہ یورپ میں قرآن مجید کا ترجمہ تک برداشت نہیں کرتے تھے۔
* پروٹسٹنٹ اور ایوینجلیکل (Protestant ۔ Evangelical) عیسائیوں میں "لوتھر" نے قرآن کا ایک قلمی ترجمہ پیش کیا اور دعوی کیا کہ یہ قرآن ہے اور اس کے بعد پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے حضرت عیسی اور حضرت مریم (سلام اللہ علیہما) سے لے کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک تمام مقدسات کی توہین کی کیونکہ صرف دولت اور مادی مفادات ان کے ہاں اقدار سمجھے جاتے ہیں۔
* حال ہی میں جب ایک نہایت واہیات قسم کی فلم کے ذریعے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان اقدس میں گستاخی کی کوشش گئی ہے اور پوری دنیا میں مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا تو مسلمانوں کے اعتراضات کے جواب میں امریکی صدر اوباما نے کہا: "ہمارے ملک میں حضرت مسیح اور مریم (سلام اللہ علیہما) کی شان میں بھی گستاخی ہوتی ہے چنانچہ مسلمانوں کو ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے! لیکن ہمارا یہ کہناہے کہ اگر وہ سچ بولتے ہیں تو کیا اگر امریکہ میں صہیونیوں اور طاقت و دولت کے مراکز کی توہین ہوجائے تو پھر بھی اوباما یہی بات دہرائیں گے؟"۔
* پروگراموں، جلسوں، جلوسوں، مظاہروں اور ریلیوں کا انعقاد بہت اچھا ہے لیکن ہمیں ان پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے؛ دینی مدارس کی ذمہ داریاں بہت بھاری ہیں، ہم اس انتظارمیں نہ رہیں کہ وہ ایک بار توہین اور گستاخی کریں اور اس کے بعد آپ کام کرنا شروع کریں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعارف کرائیں۔
* یورپ اسلام سے ناراض ہے کیونکہ اسلام نے سب کے نظریات اورانداز تخاطب کو متنازعہ بنا دیا، صلیبی اور سرمایہ دارانہ تصورات سب مشکوک اور متنازعہ ہوچکے ہیں اور ایک جنگ احزاب شروع ہوچکی ہوئی ہے اور عالم اسلام کے سامنے صف بندیاں کر چکے ہیں
* جو لوگ میدان میں موجود ہیں ان کو اہم نہ سمجھیں اور ان کی طرف توجہ نہ دیں، یہ اس مسئلے کے ظاہری کردار ہیں،یہ ایسے گدھے ہیں جو جاسوسی سروسز کو سواری فراہم کر رہے ہیں، آپ کوہشیاررہنا چاہئیے کہ کہیں یہ اسلامی بیداری جو عالم اسلام میں رونما ہوئی ہے اور یہ تاریخی موڑ جو معرض وجود میں آیا ہے، بھلا نہ دیا جائے۔
* عرب دنیا میں بھی عوام "اللہ اکبر" کا نعرہ لگا کر سڑکوں پر آتے ہیں، ڈکٹیٹروں کے خلاف قیام کرتے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ اسلام پسندی کے حوالے سے مسلم اقوام میں مشابہت موجود ہے، نہ کہ یورپ نوازی اور فرقہ نوازی ، ہماری توقعات کی انتہا یہی ہے۔
* اسلامی بیداری کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، سنی فقہ اور سنی کلام (علم عقائد)، شیعہ فقہ اور شیعہ کلام سے مختلف ہے، جب تک اجتہاد کا عنصر نہیں ہوگا یہ خطرہ موجود رہے گا کہ عربوں کی اسلام پسندی تکفیریت اور شدت پسندی کے ہاتھوں میں چلی جائے گی یا روشن خیالی کا شکار ہوکر یورپ کی گود میں چلی جائے گی؟
* بنیادی بات یہ ہے کہ عالم اسلام میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور مغربی طاقتیں اس تبدیلی کو جوکہ تاریخ میں بالکل بیمثال ہے اسلام اور عیسائیت کے درمیان یا شیعہ اور سنی کے درمیان جنگ یا پھر قومی اور لسانی جنگوں کی طرف لے جاکر منحرف کردیں اور یہی وہ واحد راستہ ہے جو ان کے پاس باقی ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا سب سے کمزور پہلوبھی یہی ہے۔
* وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ناراض ہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان تمام تبدیلیوں کا سرچشمہ ہیں لیکن ہمیں کبھی بھی ادیان و مذاہب کی جنگ کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئے؛ ادیان و مذاہب کا مسئلہ کبھی بھی جنگوں کے ذریعے حل نہیں ہوا اور حل نہ ہوگا۔
* آج ہماراپہلا فریضہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کیا جائے، جو لوگ تفرقہ اور اختلاف کو ہوا دیتے ہیں اور جزئی و فروعی مسائل پر زور دیتے ہیں،ہ وہ شاہ ایران اور صدام کے زمانے میں تقیہ کرنے کے حوالے سے مشہور تھے ،لیکن آج وہی لوگ جزئی مسائل کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں اور اعتراضات کرتے پھر رہے ہیں۔
* دشمن مسلمانوں کے درمیان قومی، لسانی اور مذہبی جنگ چاہتا ہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو اسلام اور عیسائیت کو لڑانا چاہتے ہیں۔
* حالیہ توہین آمیز فلم کے پس پردہ عوامل کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، عالم اسلام میں ایک نیا اسلامی تمدن جنم لے رہا ہے اور ہم ایک تاریخی موڑ سے گذر رہے ہیں اور اس حقیقت نے مغرب کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔
* سوال یہ ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین کی وجہ سے اسلام کو شکست ہوئی ہے یا شکست ہوگی؟ اور جواب یہ ہے کہ "یہ محال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنگ ہوازن میں فرمایا: اسلام وسائل اور ہتھیاروں کی کمی اور مجاہدین کی تعداد کی قلت کی وجہ سے شکست نہیں کھائے گا؛ پوچھا گیا: تو پھر کونسی چیز میں خطرہ ہے؟؛ فرمایا: اسلام کو شکست اس وقت ہوگی جب اس کو الٹے چغے کی مانند الٹ پلٹ دیا جائے اور اس کی ظاہری اور باطنی صورت بری اور بدصورت بناکر پیش کی جائے۔
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں براہ راست حملے سے فکرمند نہیں ہوں بلکہ میں فکرمند ہوں کہ مسلمان ایک ایسا اسلام متعارف کرادیں جو الٹ پلٹ دیا گیا ہو اور اس میں عقل و استدلال کو نظر انداز کیا گیا ہو۔
* اسلام کو اگر الٹ پلٹ دیا گیا اور اس کی تحریف کی گئی تو وہ مسلم معاشروں کے اندرونی مسائل کو حل نہیں کرسکے گا اور بیرونی دنیا کا جواب بھی نہیں دے سکے گا۔
* عمل میں اسلامائزیشن اور اسلامی بنانے کا عمل نافذ ہونا چاہئے اور اسلامی ہونے میں دنیا والوں کو نمونہ عمل بننا چاہئے؛ ہمیں توہین و اہانت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ہمیں اپنے آپ سے ڈرنا چاہئے؛ امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا: "دشمن سے مت ڈرو اپنے آپ سے ڈرو"۔
* اسلام کے محتوا اور متن میں مذہب اور مذہب دشمن کا تصور ابھی تک موجود ہے اور علمائے حق اور علمائے سوء نیز خالص اسلام اور جعلی اسلام کا تصور ابھی باقی ہے اورخالص اسلام جعلی اسلام کی وجہ سے شکست کھائے گا۔
* اسلام کفر کی وجہ سے نیست و نابود نہیں ہوگا، یہ قرآن کا وعدہ ہے کہ "ان الباطل کان زھوقا"؛ اگر دنیا پر باطل چھایا ہوا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ "جاء الحق" ابھی تک عملی صورت نہیں اپنا سکا ہے؛ حق کی بات کہنی چاہئے کیونکہ حق نہ آنے کی وجہ سے باطل کی حکمرانی ہے۔
* پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین افسوس ہے لیکن آپ کو اس اقدام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے یہ ہماری فتح اور ان کی شکست کی علامت ہے؛ تحریف شدہ اسلام، تحریف شدہ تشیع، تحریف شدہ فقہ سے اسلام شکست ہوتی ہے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام کفار کے ہاتھوں قتل نہیں ہوئے بلکہ ایسے شخص کے ہاتھوں شہید ہوئے جو کبھی آپ (ع) کے لشکر میں لڑتا رہا تھا۔ کربلا میں دینداروں کی دو قسمیں تھیں اور دین فروش ظاہری طور پر اسلام کے بھیس میں آئے تھے۔
* کوئی بھی ہم سے زیادہ ذمہ دار نہیں ہے؛ ہمیں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کی درست تبلیغ کرنی چاہئے؛ ہماری ذمہ داری زیادہ بھاری ہے؛ حوزہ علمیہ اور دینی مدارس کی ذمہ داریاں بہت بھاری ہیں۔
* سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صحیح پہچانا ہے کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا درست تعارف کراسکیں؟ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کس حد تک پہچانا ہے؟
* سوال یہ ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسی کوئی وجہ چھوڑی ہے جس کی بنا پر لوگ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نفرت اور دشمنی کریں؟ جواب یہ ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: خداوند متعال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے تمام دشمنیوں اور کینہ و نفرت کو ختم کردیا اور جنگوں کی آگ بجھا دی اور الفت اور محبت کو جاری فرمایا۔
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انسانی قلب اور عقل کے ذریعے بات کیا کرتے رہتے تھے، سراسر عشق و محبت تھے، سراسر اخلاق تھے اور حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بدترین دشمن ابوسفیان سے منقول ہے کہ اس نے کہا: خدا قسم! میں نے قیصر و کسری کو اس قدر محترم نہیں دیکھا!۔
* جن دلیلوں کی بنا پر ابولہب اور ابو جہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کرتے تھے ان ہی دلیلوں کی بنیاد پر آج دشمنان اسلام آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی توہین کررہے ہیں۔
* سوالات اور شبہات کا جواب اخباری طرز فکر سے نہیں بلکہ اجتہادی نقط و نگاہ سے ہونا چاہئے؛ آج ہمارے معاشرے میں ایک نیا اخباری تفکر جنم لے رہا ہے جس کے علمبردار قرآن اور عقل کے بغیر بات کرتے ہیں اور صرف بعض خاص روایات کو مطمع نظر بنائے ہوئے ہیں۔
* یہ بھی ایک بنیادی سوال ہے کہ کیا مغربی قومیں اور معاشرے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہیں پہچانتے؟ جواب یہ ہے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات کو مغرب میں سنسر کردیا گیا ہے اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو پہچانتے تھے انھوں نے خود حذفی (Censorship ۔Self۔) کا اہتمام کیا یا پھر ان کو سنسر کردیا گیا۔
* مغرب میں جو لوگ مذہب کے خلاف ہیں، وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بھی بہت تَکلِیف دِہ تعبیرات اور تشریحات سے یاد کرتے ہیں لیکن پیغمبر صلی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں دلچسپ آراء ظاہر کرتے ہیں؛ والٹر کا کہنا ہے: "میری آرزو ہے کہ کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جوتوں کا تسمہ ہوتا"؛ یا نیٹشے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کہنا ہے: "ہم جب محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا عیسائیت کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں، یہ دین جو عیسائیت پیش کررہی ہے کمزوری اور ضعف کا دین ہے جو کمزور اور کم جرات افراد کے لئے مختص ہے جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دین عقل وطاقت کا دین ہے اور عیسائیت نے زندگی کی طرف سے منہ موڑلیا ہے جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دین کا رخ زندگی کی جانب ہے"۔
* گوکہ مستشرقین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توہین کی ہے لیکن بعض مستشرقین نے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی مدح میں دلچسپ خیالات کا اظہار کیا ہے۔
* اسلام تیزی سے عالمگیر ہورہا ہے بشرطیکہ اسلام کے ترجمان اچھے، عالم، فصیح و بلیغ اور صاحب عقل و منطق ہوں؛ اور انہیں معلوم ہو کہ انسانوں کے مسائل کیا ہیں۔
* دنیا میں کام کرنے کے لئے بہت بڑی ظرفیت موجود ہے؛ مجھے یقین ہے کہ ظہور کے زمانے میں بنی نوع انسان کی اکثریت امام زمانہ (عَجَّلَ اللہْ تَعالی فَرَجَہْ الشَّرِیف) کی طرف آئے گی
* اسلام کی تشریح ،عقل اور اہل بیت علیہم السلام کی تفسیر سے اور شیعہ اور سنی کے درمیان کسی جنگ اور تنازعے کے بغیر، آج ہمارا سب سے بڑا مشن ہے
مجلس وحدت المسلمین شوریٰ عالی کے سربراہ نے کہا ہے کہ قرآن و احادیث اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ان میں اتحاد اور باہمی یکجہتی پر شدید زور دیا گیا ہے اور شریعت مقدسہ میں وحدت اسلامی اور بھائی چارگی کی بہت زیادہ ہی اہمیت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا. انہوں نے کہا کہ عصر حاضر کے مصلح، دانشور اور روشن فکر افراد اسلامی فرقوں میں باہمی، اتحاد و یکجہتی کو ہر زمانے سے زیادہ اس دور میں ضروری سمجھتے ہیں۔
جرمنی کی اردو ویب سائیٹ ڈی ڈبلیو میں نشر ہونے والی ایک خبر کے مطابق جرمنی کو سلفی طرز فکر رکھنے والے مسلمانوں سے سخت خطرات ہیں ویب سائیٹ لکھتی ہے ۔
جرمنی کی تحفظ آئین کی عدالت نے کہا ہے کہ ان کےملک کو سلفی انتہا پسندوں کے نئے حملے کے خطرات کا سامنا ہے۔ جرمن روزنامے رائنِشے پوسٹ کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے اندرون ملک خفیہ ایجنسی کے سربراہ ’ہانس گے اورگ ماسن‘ کے مطابق رواں سال جون میں سلفیوں کی تنظیم ’ملت ابراہیم ‘ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اُس کے بعد سے اس تنظیم کا ایک چوٹی کا اہلکار ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں جرمن زبان کے ایک میڈیا سینٹر کے قیام کی کوششوں میں مصروف ہے، جس کا مقصد جرمنی میں اسلام پسندوں پر زیادہ سے زیادہ غلبہ حاصل کرنا ہے
مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی کابینہ کی جانب کی اھم میٹنگ میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ عشرہ تحفظ ناموس رسالت 15سے 25اکتوبرمنایا جائے گا اور اس فیصلے کی مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے منظوری دے دی
مجلس وحدت مسلمین کے میڈیا سیل سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق دفاع ناموس رسالت مآب تحریک کو مزید تقویت دینے اور مسلم امہ کی بیداری اور وحدت کے فروغ کے لئے مرکزی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ملک بھر میں 15اکتوبر تا 25اکتوبر عشرہ ناموس رسالت منانے کا اعلان کر دیا ہے۔
شہید ناموس رسالت شہید رضا تقوی کا چہلم بیس اکتوبر کو کراچی سمیت ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں منایا جائے گا
اسی مناسبت سے کراچی میں مجلس وحدت کراچی کے زیر اہتمام لبیک یا رسول اللہ کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں مختلف مکاتب فکر کی اہم شخصیات خطاب کرینگی۔
واضح رہے کہ شہید رضا تقوی کو زمین کے سب سے بڑے فسادی امریکہ اور اس کے زرخریدوں نے اس وقت شہید کردیا تھا جب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی گستاخانہ فلم کیخلاف نکالی جانے والی ریلی گستاخاخ رسول کے قونصلیٹ کی جانب بڑھ رہی تھی اور ریلی کے شرکاء قونصلیٹ کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرنا چاہتے تھے لیکن اچانک زمین کے سب سے بڑے فسادیوں کے کہنے پر ان کے چند زیرخریدوں نے عاشقان رسول کی ریلی پر فائرنگ کردی اور اس فائرنگ سے سچے عاشق رسول علی رضا تقوی جام شہادت نوش کر گئے ۔
اور آج تمام عالم اسلام کے نزدیک شہید ناموس رسالت کا مقدس اور ابدی عنوان عشق رسول اور حرمت رسول اللہ کی خاطر جان دیکر اپنے نام کر گئے
تحریک بیداری امت رسول (ص) کے زیراہتمام ’’اجتماع امت رسول (ص)‘‘ کانفرنس کے اختتام پر برآت از مشرکین مردہ باد امریکہ ریلی نکالی گئی، جو ناصر باغ سے برآمد ہو کر مال روڈ سے ہوتی ہوئے پنجاب اسمبلی کے سامنے اختتام پذیر ہوئی۔ ریلی کی قیادت ممتاز عالم سرپرست جامعہ عروۃ الوثقی دین علامہ سید جواد نقوی ،اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے علمائے کرام نیز مدارسہ کے اساتذہ ،اہلسنت علمائے کرام نے کی، جبکہ مجلس وحدت مسلمین، امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، امامیہ آرگنائزیشن، مدارس دینیہ اور دیگر شیعہ سنی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں نے اس ریلی میں بھرپور شرکت کی۔
مظاہرین ’’حرمت رسول پر جان بھی قربان ہے، گستاخ رسول کو پھانسی دو، ملعون پادری کو ہمارے حوالے کرو‘‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔ ریلی میں خواتین کی بھی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تحریک بیداری امت رسول (ص) کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آج کی ہماری یہ کامیاب کانفرنس دشمنان اسلام کے لئے موت کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کی پوری امت مسلمہ نے اپنے باہمی اتحاد سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ حرمت رسول (ص) پر یکجا و متحد ہیں۔
ریلی کے شرکاء نے مختلف رنگوں کے پرچم اٹھا رکھے تھے جن پر تحریک بیداری امت رسول (ص) کا لوگو بنایا گیا تھا۔ ریلی کے چاروں طرف پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی، جبکہ اس موقع امریکی قونصلیٹ کے سامنے بھی پولیس کی خصوصی نفری تعینات کی گئی تھی۔ ریلی اپنے مقررہ راستے سے ہوتی ہوئی پنجاب اسمبلی پہنچی اور وہاں سے پرامن طور پر شرکاء منتشر ہوگئے۔ ریلی میں شریک ہر شخص محبت رسول (ص) سے سرشار اور اپنی جانیں قربان کرنے کے عزم کیساتھ شریک تھا
مجلس وحدت مسلمین کراچی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور شہید علی رضا تقوی کے بھائی مولانا صادق تقوی نے کہا ہے کہ شہیدعلی رضا نے گولیوں کی گونج میں اپنی جان دے کر شیعیت اور اسلام کا سر فخر سے بلند کردیا، شہید علی رضا نے ثابت کردیا کہ وہ نام کا بھی علی اور کام میں بھی غلام علی ہے، آج کا یہ اجتما ع شہید ناموس رسالت شہید علی رضا تقوی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے،
تحریک بیداری امت رسول کے’’اجتماع امت رسول‘‘ میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی و صوبائی رہنماؤں کی شرکت نے اتحاد کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کو ناکام بنا دیا۔ اس سے قبل یہ افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ مجلس وحدت مسلمین نے اس اجتماع کا بائیکاٹ کر دیا ہے جبکہ کچھ اور جماعتوں کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ جاری تھا۔
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی اور صوبائی رہنماؤں میں ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی کی قیادت میں علماء کا وفد اپنے کارکنوں کے ہمراہ اجتماع امت رسول میں شریک ہوا۔ علامہ عبدالخالق اسدی کے ہمراہ آنے والوں میں علامہ ابوذر مہدوی، علامہ اعجاز حسین بہشتی، علامہ احمد اقبال رضوی، علامہ اصغرعسکری، علامہ صادق رضا تقوی اور دیگر علما شامل ہیں۔
دوسری جانب ایم ڈبلیو ایم کے میڈیا ایڈوائزر مظاہر شگری بھی پنڈال میں موجود ہیں اور میڈیا کے افراد کو ڈیل کر رہے ہیں جس کے بعد مخالفین کا یہ تاثر دم توڑ گیا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے آغا جواد نقوی کیساتھ اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب آئی ایس او پاکستان کے کارکنوں کی بھی کثیر تعداد کانفرنس میں شریک ہے جبکہ اہلسنت رہنماؤں نے بھی اپنی شرکت سے کانفرنس کو اتحاد امت کا مظہر بنا دیا ہے۔
اس وقت کانفرنس کی کارروائی نماز ظہرین کی وجہ سے روک دی گئی ہے، نماز و طعام کے بعد کانفرنس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ کانفرنس کی صدار ت جامعہ عروۃ وثقیٰ کے پرنسپل اور ممتاز عالم دین علامہ سید جواد نقوی کر رہے ہیں۔ جامعہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس دشمنان رسول کے خلاف ہے اور ان کے نمک خوار اس کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں جو کہ ناکامی وذلت سے ہی دوچار ہوں گے۔