The Latest
وحدت نیوز(اسلام آباد)علامہ سید احمد اقبال رضوی وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ لسبیلہ مکران کوسٹل ہائی وے پر زائرین کی بس کو پیش آنے والا حادثہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اندوہناک واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔حادثے کے زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں۔بس حادثے میں شہید زائرین کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔حکومت زائرین کی میتوں کو آبائی علاقوں میں پہنچانے کیلئے فوری اور موثر اقدامات کرے،متاثرہ افراد و زخمیوں کی ہر ممکن اور بروقت طبی امداد کو یقینی بنایا جائے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ راولپنڈی کہوٹہ کے قریب بس کھائی میں گرنے سے قیمتی انسانی جانوں کےضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں ۔اندوہناک واقعے میں جاں بحق افراد کے سوگوار خاندانوں سے دلی تعزیت و ہمدردی کرتا ہوں۔واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کی جلد صحت یابی کیلئے دعا گو ہوں۔مقامی انتظامیہ اور ریسکیو ادارے زخمیوں اور متاثرہ افراد کی فی الفور اور ہرممکن مدد کریں۔حکومت ملک بھر میں فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کو فوری اور سختی سے بند کرے۔بس کمپنیوں کے مالکان خود ہی پرانی گاڑیوں کو بند کریں تاکہ آئے روز انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے وائس چیئرمین علامہ سید احمد اقبال رضوی نے اپنے ایک بیان میںکہا ہے کہ پاکستان میں شیعہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ کراچی میں مسنگ پرسنز کے اہل خانہ کی جانب سے چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کی ہم پرزور حمایت کرتے ہیں۔شہریوں کی جبری گمشدگی قانون و آئین کی بدترین پامالی اور قابل مذمت عمل ہے۔شیعہ مسنگ پرسنز گزشتہ کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔اگر وہ ریاست کے مجرم ہیں تو انہیں قانون کے مطابق عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ حال ہی میں انجینیئر ممتاز حسین کو کراچی سے اغوا کیا گیا ان کے اہل خانہ کراچی میں احتجاج کی کال دے چکے ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قانون اور آئین کی بالادستی ہمارا اولین مطالبہ ہے ۔متعلقہ حکام مسنگ پرسنز کے حوالے سے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
وحدت نیوز(کراچی) چہلم امام حسینؑ کے حساس موقع پر شہر قائد کا امن وامان تباہ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ کالعدم تکفیری دہشت گرد جماعت کو اس حساس موقع پر جلسہ جلوس کی اجازت کس نے فراہم کی ؟ گولیمار میں شیعہ عزاداروںپر حملہ ایک منظم سازش کے تحت کیا گیا۔ ان خیالات کا اظہارمجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے صدر علامہ صادق جعفری نے گولیمار علی بستی میں شہید ہونے والے جنید حیدر کے اہل خانہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر عزاداری ونگ کراچی سید رضی حیدر رضوی، حسن کمیل ، علی حیدرکاظمی ودیگر رہنما بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔
علامہ صادق جعفری نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کالعدم تنظیم کی فعالیت کا فوری نوٹس لے ،وہ کون سے حکام ہیں جنہوں نے چہلم امام حسینؑ کے حساس موقع پر ان شرپسند عناصر کو شہر کا امن بربادکرنے کیلئے جلسے جلوس کی اجازت فراہم کی، بے گناہ عزادارجنید حیدر کو بے دردی سے فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری طور پر قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ملت جعفریہ میں اس دہشت گرد حملے کے خلاف شدید اشتعال پایا جاتا ہے، اگر شیعیان حیدر کرارؑ کو انصاف نا ملا تو پر امن احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
وحدت نیوز(کربلائے معلیٰ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی علامہ مقصود علی ڈومکی نے مشی کے دوران پول نمبر 833 پر موکب نداء الاقصی میں فلسطین کے علماء کرام اور وارثان شہداء سے ملاقاتیں کیں اور عظیم فلسطینی قوم خصوصاً غزہ کے بہادر اور مظلوم عوام کو سلام عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے نداء الاقصی میں آئے ہوئے لبنان اور شام کے علماء کرام سے بھی ملاقاتیں کیں اور میڈیا سے گفتگو کی۔ اس موقع پر انہوں نے اہل سنت علماء کرام کے ہمراہ نماز با جماعت ادا کی اور تحریک آزادی فلسطین کے حق میں منعقدہ جلسے میں بھی شرکت کی۔ اس موقع پر علمائے کرام اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ کربلا کا پیغام ظلم کے خلاف قیام کا پیغام ہے اور آج مظلوم فلسطینی عوام حضرت امام حسین علیہ السلام کے پیغام حریت کی روشنی میں اسرائیلی ظلم و بربریت کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خدا کی نصرت سے اسرائیل کو شکست ہوگی اور فلسطین جلد آزاد ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے پیروکار پوری دنیا میں ملت مظلوم فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں اور یزید عصر امریکہ اور اسرائیل سے اعلان برائت کر رہے ہیں۔ کیونکہ کربلا ہمیں ہر دور کے ظالم سے ٹکرانے کا ہنر سکھاتی ہے۔ چالیس ہزار مظلوم شہداء کے قتل پر ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے، جبکہ ہمارے دل ملت مظلوم فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اس موقع پر فلسطین کے وارثان شہداء نے بتایا کہ عرب اور مسلم حکمرانوں کی مسلسل خیانتوں کے سبب فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے اور اس مشکل وقت میں بھی ہمسائے عرب ممالک مصر اور اردن فلسطین کی مدد کرنے کی بجائے دشمن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ایران، حزب اللہ، انصار اللہ اور حشد الشعبی کے علاؤہ کوئی ہماری عملی مدد نہیں کر رہا ہے۔
وحدت نیوز(لاہور)مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی صدر سیدہ معصومہ نقوی نے اربعین شہدائے کربلا کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ اربعین حسینی امت مسلمہ کی یکجہتی اور قوت کا مظہر اور اسلامی دنیا میں بیداری کا ذریعہ ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کے عشق میں کروڑوں زائرین کربلا کا رخ کرتے ہیں اس عظیم الشان حسینی تحریک کا مشاہدہ کر کے دنیا انگشت بدندان ہے انہوں نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کی سربراہی میں شروع ہونے والی حسینی تحریک کا ایک اہم پہلو بیداری اور احیاء پر مبنی تھا، اربعین حسینی استعمار و استکبار کے خلاف مبارزے اور دنیا بھر کے مظلومین کی امید کا نام ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اربعین حسینی کا تذکرہ انسانیت کے اصولوں کی پاسداری اور حق کے لئے کھڑا ہونے کی تاریخی مثال فراہم کرتا ہے اور تمام عزادارنِ امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری ہے کہ اربعین حسینی کی اس فقید المثال تحریک کو بیداری اور با مقصد انداز میں فروغ دیں ۔
وحدت نیوز(کوئٹہ)مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے صوبائی نائب صدر و امام جمعہ علامہ علی حسنین حسینی نے کہا ہے کہ پی بی 42 کوئٹہ پر مسلط کردہ نمائندے کی کارکردگی صفر ہے۔ عوام الناس سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے شخص کو قوم پر فارم 47 کے ذریعے مسلط کیا گیا، جو حلقے پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے۔ عوام الناس کو ان کے حقوق دلانے کے لئے آواز اٹھائیں گے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ رواں سال کے انتخابات میں حلقہ پی بی 42 اور پی بی 40 سے ایسے امیدواروں کو مسلط کیا گیا، جن کا عوام الناس اور عوامی مسائل سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی انہیں حل کرنے میں کوئی دلچسپی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ گزشتہ چھ ماہ میں مذکورہ نام نہاد نمائندوں نے کہیں بھی قوم کی نمائندگی نہیں کی۔ عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔ اسمبلی میں نام نہاد نمائندوں کی آواز تب سنائی دیتی ہے جب بات ان کے مفادات کی ہوتی ہے۔ قوم پر مسلط نمائندے عوام الناس کی آواز سے منہ موڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ پی بی 42 اور پی بی 40 مسائل کا انبار بن گیا ہے۔ خود کو عوامی پکارنے والے فارم 47 کے نمائندے عوام کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ عوامی مینڈیٹ کو چرا کر اسمبلی تک پہنچنے والے خود اپنی قابلیت سے واقف ہیں۔ اگر انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو ایسے افراد کو کبھی نمائندگی کا موقع نہ ملتا۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ نمائندوں کو ڈی نوٹیفائی کرکے فارم 45 کے مطابق عوامی ووٹوں سے جیتنے والے نمائندوں کو نمائندگی کا موقع دیا جائے۔ عوام الناس کی امید اسی طرح بحال کی جا سکتی ہے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) اربعین، اسلامی تاریخ کا ایک عظیم اور ناقابل فراموش دن ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیس دن بعد 20 صفر کو منایا جاتا ہے۔ عربی زبان میں "اربعین" کا مطلب "چالیس" ہے اور یہ دن امام حسینؑ کی عظیم قربانی کے چالیس دن بعد کی یادگار ہے۔ امام حسینؑ کی شہادت نے اسلامی تاریخ میں ایک سنگ میل قائم کیا، جو آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی نے نہ صرف اسلامی اصولوں کی حفاظت کی بلکہ پوری انسانیت کے لیے حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی۔
اربعین کا دن نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی اور روحانی موقع ہے بلکہ یہ دن دنیا بھر میں ظلم کے خلاف جدوجہد کا ایک عالمی استعارہ بھی بن چکا ہے۔ امام حسینؑ نے دینِ محمدی (اصل دینِ اسلام) کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی اور ان کا یہ عمل آج بھی دنیا بھر میں مظلوموں کے لیے ایک امید کا پیغام ہے۔ اربعین کے موقع پر امام حسینؑ کی قربانی کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کے مشن کو یاد کرتے ہوئے یہ عہد کیا جاتا ہے کہ ہم بھی ظلم کے خلاف حق و انصاف کے اصولوں کی پاسداری کریں گے۔
کربلا کا معرکہ: حق و باطل کا استعارہ
کربلا کا معرکہ اسلامی تاریخ کے سب سے اہم اور یادگار واقعات میں سے ایک ہے، جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کو یہ درس دیا کہ حق و انصاف کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ معرکہ 680 عیسوی میں پیش آیا جب امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کیا کیونکہ یزید کا طرزِ حکومت دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے منافی تھا۔ یزید کی حکومت جبر، ظلم اور فساد پر مبنی تھی اور امام حسینؑ نے اس کے سامنے حق کی آواز بلند کی۔
امام حسینؑ کا انکار اس بات کا ثبوت ہے کہ دین محمدی کی اصل روح عدل، انصاف، اور سچائی پر مبنی ہے اور جب ان اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہو، تو مومن کے لیے خاموش رہنا ممکن نہیں۔ امام حسینؑ نے اپنے خاندان اور ساتھیوں کے ساتھ کربلا کے میدان میں اپنی جانیں قربان کرکے یہ ثابت کیا کہ ظلم کے خلاف مزاحمت ہر مومن کا فرض ہے، چاہے اس کے لیے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
کربلا کا یہ معرکہ آج کے دور میں بھی ایک روشن مثال ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی نے ہمیں یہ سکھایا کہ جب باطل قوتیں حق کو مٹانے کے درپے ہوں، تو ایمان کی سچائی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کی قربانی ضروری ہے۔ یہ واقعہ ایک دائمی استعارہ بن چکا ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ جانا اور حق و انصاف کے لیے اپنی جان کی قربانی دینا، اسلام کی حقیقی تعلیمات کا حصہ ہے۔
اربعین مَشی: کربلا کی خاک پر حق و صداقت کا سفر
اربعین مَشی، جو ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں افراد کو کربلا کی جانب کھینچ لاتی ہے، ابتدا میں ایک مذہبی فریضہ کے طور پر شروع ہوئی تھی۔ یہ واک امام حسینؑ کی قربانی کی یاد میں ایک مقدس فریضہ کے طور پر ادا کی جاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اربعین مَشی میں شریک ہونے والے زائرین نہ صرف امام حسینؑ کی قربانی کو یاد کرتے ہیں بلکہ ان کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا عہد بھی کرتے ہیں۔
اربعین مَشی کی روایت میں زائرین سینکڑوں کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرتے ہیں تاکہ کربلا پہنچ سکیں۔ یہ سفر عمومی طور پر 20 دنوں پر محیط ہوتا ہے، جس میں زائرین عراق اور ایران کے مختلف شہروں سے پیدل چلتے ہوئے کربلا کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ اس سفر کا مقصد امام حسین کی قربانی کی یاد منانا اور ان کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانا ہے۔
نجف سے کربلا تک کا سفر، جو تقریباً 80 کلومیٹر پر محیط ہے، اس مَشی کی سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت ہے۔ نجف، جہاں امام علی علیہ السلام مدفون ہیں، سے کربلا تک کا یہ سفر نہ صرف جسمانی مشقت کا تقاضا کرتا ہے بلکہ یہ ایک گہرے روحانی تجربے کا بھی حصہ ہے۔ زائرین، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، اس سفر کو امام حسینؑ کے اصولوں کی یاد میں طے کرتے ہیں۔ یہ سفر ایمان کی تازگی اور روحانی تجدید کا ایک ذریعہ بنتا ہے، جہاں ہر قدم امام حسینؑ کی قربانی کی یاد دلاتا ہے۔
اربعین مَشی کا یہ سفر ایک عقیدتی فریضہ سے زیادہ، ایک عالمی تحریک کی صورت میں سامنے آتا ہے، جہاں دنیا بھر سے لوگ نہ صرف امام حسینؑ کی یاد میں بلکہ ان کے اصولوں کو اپنانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اربعین مَشی میں شامل ہونے والے زائرین کے لیے یہ سفر ایک روحانی تجدید، عزم کی تجدید، اور امام حسینؑ کے پیغام کے ساتھ جڑنے کا ایک ذریعہ ہے۔
زیارتِ اربعین: ایک مقدس دعا اور انسانی فطرت کی عالمی ضرورتیں
زیارتِ اربعین ایک دعائیہ کلام ہے جو امام حسینؑ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، ان کی فضیلتوں اور قربانیوں کو یاد کرتا ہے اور اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ زیارت کرنے والا امام حسینؑ کے مشن کا حامی اور ان کے دشمنوں کا مخالف ہے۔ یہ دعا اللہ کی حمد سے شروع ہوتی ہے اور امام حسینؑ کو اللہ کے منتخب کردہ رہنما کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔
زیارتِ اربعین امام حسینؑ کی جدوجہد کے اخلاقی اور روحانی پہلوؤں پر زور دیتی ہے، جو یزید کی ظالمانہ حکومت کے خلاف تھی۔ اس دعائیہ کلام میں امام حسینؑ کی مشکلات اور مصائب کے لیے گہرا غم و اندوہ ظاہر کیا جاتا ہے اور زیارت کرنے والا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ امام حسینؑ کے راستے پر چلتے ہوئے حق و انصاف کی حمایت کرے گا۔
زیارتِ اربعین کا عمل بہت سے مومنین کے لیے روحانی تجدید اور امام حسین کے اصولوں کے قریب تر ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ زیارت اچھائی اور برائی، انصاف اور ظلم کے درمیان جاری جدوجہد کی یاد دہانی کراتی ہے اور مومنین کو اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی تلقین کرتی ہے۔
زیارتِ اربعین کو روحانی تطہیر کا ایک طاقتور ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ عقیدہ ہے کہ خلوص دل سے اس زیارت کی ادائیگی کے ذریعے مومن کے گناہ معاف کئے جا سکتے ہیں اور وہ ایک بلند روحانی مقام حاصل کر سکتا ہے۔ یہ زیارت عالمی مسلمانوں کی برادری کے ساتھ یکجہتی کا ایک ذریعہ بھی ہے، جو لاکھوں افراد کو ایمان اور عقیدت کے اظہار میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتی ہے۔
عوامی انتظامات: سخاوت اور مہمان نوازی کی بے مثال مثال
اربعین مَشی کی سب سے منفرد اور قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام انتظامات عوامی سطح پر کیے جاتے ہیں۔ یہ ایک عوامی حمایت یافتہ ایونٹ ہے، جس میں نہ کوئی تنظیم ملوث ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی حکومت۔ یہ عوام کی جانب سے کی جانے والی رضاکارانہ خدمات کا ایک بے مثال مظاہرہ ہے، جس میں ہر شخص اپنے حصے کا کردار ادا کرتا ہے۔
اربعین مَشی کے دوران زائرین کے لیے جگہ جگہ عوامی موکب (عارضی خیمے یا اسٹیشن) لگائے جاتے ہیں۔ یہ موکب عام طور پر مقامی لوگوں، دکانداروں، اور خاندانوں کی طرف سے لگائے جاتے ہیں، جو اپنی جیب سے خرچ کر کے زائرین کے لیے کھانا، پانی، آرام کی جگہیں اور دیگر ضروریات فراہم کرتے ہیں۔
یہ موکب نہ صرف جسمانی ضروریات کو پورا کرتے ہیں بلکہ زائرین کو روحانی سکون بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان موکب میں قرآنی آیات کی تلاوت، نعت خوانی، اور امام حسینؑ کی شہادت کی یاد میں تقاریر کی جاتی ہیں، جو زائرین کے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں اور انہیں امام حسین کے راستے پر چلنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
موکب کی یہ روایت نہ صرف عراق اور ایران کے لوگوں تک محدود ہے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے زائرین بھی ان خدمات میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ایک عالمی سطح پر یکجہتی اور بھائی چارے کا عملی مظاہرہ ہے، جو امام حسینؑ کے اصولوں پر عمل کرنے کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔
امام حسینؑ کا پیغام: انسانی فطرت کی عالمگیر ضرورت
امام حسین علیہ السلام کا پیغام انسانیت کی بنیادی ضروریات کو مخاطب کرتا ہے جو صدیوں سے تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے۔ امام حسینؑ کی قربانی، انصاف اور انسانی وقار کی پاسداری کے اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ اصول دراصل انسانی فطرت کی گہرائیوں میں پیوست ہیں اور ہر انسان کے دل میں بسنے والی فطری ضرورتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ پیغام کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، سچائی اور انصاف کے اصولوں پر ڈٹے رہنا اور انسانی وقار کی حفاظت کرنا ہر انسان کا فرض ہے، ایک عالمگیر سچائی بن چکا ہے۔ اربعین کی زیارت میں شرکت کرنے والے لاکھوں افراد، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا ثقافت سے ہو، اسی اصول کی پاسداری کرتے ہوئے امام حسینؑ کے مشن کو زندہ رکھتے ہیں۔
یہی وہ عالمگیریت ہے جو امام حسینؑ کے پیغام کو آج کے دور میں بھی زندہ اور متعلقہ بناتی ہے۔ اربعین کی زیارت میں شرکت کرنے والے افراد اس بات کا عملی اظہار کرتے ہیں کہ امام حسینؑ کا پیغام کسی ایک مذہب یا قوم تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی آفاقی صداقت ہے جو پوری انسانیت کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ اس پیغام کی طاقت اور اس کی گہرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ اربعین کی زیارت اب محض ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک عالمی تحریک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو ہر انسان کے دل کی آواز بن چکی ہے۔
مختلف عقائد کے لوگوں کی شرکت: انسانی اتحاد کی علامت
اربعین کے موقع پر مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو اس بات کا غماز ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام کسی ایک مذہب یا قوم تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ یہ اتحاد اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ امام حسینؑ کے اصول، جو انصاف، بھائی چارے اور انسانی وقار پر مبنی ہیں، دراصل انسانیت کی مشترکہ میراث ہیں۔
مختلف عقائد کے لوگوں کی اربعین کی زیارت میں شرکت اس بات کی عکاس ہے کہ امام حسین کی قربانی اور ان کے اصول انسانیت کے دلوں میں گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ یہ اصول انسان کی فطری ضرورتوں اور اس کی آفاقی سچائیوں کی عکاسی کرتے ہیں، جو ہر دور اور ہر معاشرے میں قابلِ عمل ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں مختلف عقائد کے لوگ اربعین کی زیارت میں شامل ہوتے ہیں؟ اس کا جواب امام حسینؑ کے پیغام کی عالمگیریت میں مضمر ہے۔ ان کی قربانی اور ان کے اصول کسی ایک مذہب کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ یہ اصول ہر مذہب اور ثقافت کے لوگوں کے دلوں کو چھوتے ہیں۔ امام حسینؑ کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے والے افراد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ظلم کے خلاف مزاحمت، حق و صداقت کی پاسداری، اور انسانی وقار کی حفاظت وہ اصول ہیں جو ہر انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔
اربعین کی زیارت کا عالمی اثر: ایک روشن استعارہ
اربعین کی زیارت نے ثابت کیا ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام دنیا بھر میں لوگوں کے لیے ایک روشن استعارہ بن چکا ہے۔ دنیا کی مشہور شخصیات، جیسے زویلیویل منڈیلا اور توشار گاندھی، نے امام حسینؑ کے پیغام کی تعریف کی ہے اور اسے عالمی سطح پر انصاف اور انسانی وقار کے لیے جدوجہد کا ایک مؤثر ذریعہ قرار دیا ہے۔
ان شخصیات کے اربعین میں شامل ہونے اور کربلا کا دورہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام دنیا کے ہر گوشے میں سنا جا رہا ہے اور اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ امام حسینؑ کا پیغام، جو ظلم کے خلاف مزاحمت اور انصاف کے قیام کی علامت ہے، آج بھی دنیا بھر میں مظلوموں اور انصاف کے متلاشیوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔
اربعین کی زیارت اور اس کی عالمگیریت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ امام حسینؑ کا پیغام انسانیت کی فطری ضرورتوں کا عکاس ہے۔ یہ پیغام آج بھی اتنا ہی تازہ اور طاقتور ہے جتنا کہ 1300 سال پہلے تھا، اور اس کی روشنی میں دنیا بھر کے لوگ اپنے معاشروں میں انصاف اور انسانی وقار کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
امام حسینؑ کا پیغام اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت اور حق و صداقت کی پاسداری ہر انسان کا فرض ہے، اور اربعین کی زیارت اس بات کی عکاس ہے کہ یہ اصول انسانی فطرت کا حصہ ہیں جو ہر زمانے اور ہر معاشرے میں قابلِ عمل رہیں گے۔
امام حسینؑ کی وراثت : اسلام کا حقیقی چہرہ اور مسلمانوں کا فخر
امام حسین علیہ السلام مسلمانوں کے لیے فخر و مباہات کا ایک ایسا عظیم ذریعہ ہیں جس کی مثال تاریخ میں نایاب ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ وہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ ان کے رہبر و رہنما نے انسانیت کی عظمت اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے کس طرح بے مثال قربانی دی۔ امام حسینؑ کی شخصیت مسلمانوں کے لیے ایک روشن مینار کی مانند ہے جس کی روشنی میں وہ دوسرے مذاہب اور قوموں کے سامنے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا مظہر پیش کر سکتے ہیں۔
آج جب دنیا کے کئی حصوں میں اسلام کو دہشت گردی سے منسوب کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام حسینؑ کی قربانی کی حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور یہ ثابت کریں کہ 61 ہجری میں بھی انہوں نے ظلم اور جبر کے سامنے نہ جھکنے کا عزم کیا تھا۔ امام حسینؑ کی قربانی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ان افراد کی قربانی کی عظیم مثال ہے جنہوں نے اپنے نواسے، نواسیوں اور حتی کہ معصوم بچوں کے ہمراہ یزید کی ظالمانہ حکومت کے سامنے اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔
امام حسینؑ کی قربانی مسلمانوں کے لیے ایک ناقابل فراموش سبق ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے دور میں بلکہ آج بھی، دہشت گردی اور ظلم کے خلاف ایک مضبوط موقف اختیار کیا۔ یہ قربانی مسلمانوں کے لیے ایک طاقتور پیغام ہے کہ اسلام کی بنیاد امن، محبت اور انسانیت کی خدمت پر قائم ہے اور امام حسینؑ کی قربانی اس اصول کی حفاظت کے لیے ایک تاریخی مثال ہے۔ اس عظیم قربانی پر فخر کرتے ہوئے، مسلمان دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کر سکتے ہیں، جو عدل، انصاف اور انسانیت کی فلاح کے لیے ہمیشہ سے کھڑا رہا ہے۔
تحریر: حمیرا عنبرین
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(اسلام آباد) سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان سینیٹر علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ نے ایکس پر جاری اپنے ایک مذمتی بیان میں کہا ہے کہ رحیم یار خان کے علاقے ماچھکہ میں ڈاکوؤں کی فائرنگ کے نتیجے میں سولہ سے زائد پولیس اہلکاروں کی شہادت المناک سانحہ ہے۔ پنجاب اور سندھ حکومت سیاسی حریفوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی بجائے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی جانب توجہ دیتی تو آج اتنا بڑا سانحہ رونما نہ ہوتا۔ایک محدود سے علاقے میں مٹھی بھر جرائم پیشہ افراد آئے دن بے گناہ انسانی جانوں سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔ڈکیٹ گروہوں کا ایک ایٹمی ریاست کے عوام کو اس طرح یرغمال بنانا عالمی سطح پر بدنامی کا بھی باعث ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی ادارے ان عناصر کو نکیل ڈالنے کی بجائے ان نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کو فرض منصبی سمجھتے ہیں جو ارض پاک کو خودمختار دیکھنا چاہتے ہیں اور قانون و آئین کی بالادستی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں،اگر ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسی پاکستان کے مفادات کے تابع ہو تو ہمارے نوجوان محفوظ رہیں گے اور ایسے المناک سانحات کی روک تھام کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔پولیس نوجوانوں کے قتل میں ملوث ان ڈاکووں کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے اور علاقے سے جرائم پیشہ افراد کا صفایا کیا جائے۔ غمزدہ خاندانوں کی خدمت میں تعزیت کیساتھ ان کے صبر کے لیے دعاگو ہوں۔
کرم یکجہتی کونسل کے رہنماؤں کی نیشنل پریس کلب میں میڈیا بریفنگ ، 20نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کردیا
وحدت نیوز(اسلام آباد) کرم یکجہتی کونسل کا ایک اعلی سطح وفد صدر تحریک حسینی کی قیادت میں گزشتہ 9 دنوں سے اسلام آباد میں مقیم ہے تاکہ اعلی حکومتی عہدیداران، ذمہ داروں اور اداروں تک اپنی فریاد اور اپنی آواز پہنچا سکیں۔ صدر تحریک حسینی علامہ سید تجمل الحسینی نے اس دوران اپنے حقوق کے ثبوت کے ڈاکومنٹس ذمہ دار ادروں تک پہنچا دیئے۔ ترتیب وار کاروائیوں کے بعد 21 اگست کو شام چار بجے اسلام آباد پریس کلب میں انہوں نے پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران صدر تحریک حسینی علامہ سید تجمل حسینی، سابق آئی جی سید ارشاد حسین، شبیر ساجدی، بشیر بابو اور دیگر رہنماوں نے اپنے حقوق اور مطالبات کی مندرجہ ذیل 20 نکات پر مشتمل لسٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کی نظریں پاکستان کے قبائلی علاقوں، بالخصوص کرم میں رونما ہونے والے واقعات پر مرکوز ہیں۔ پاراچنار گزشتہ کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2007ء سے لیکر 2012ء تک پاراچنارکے راستے مکمل بند رہے، نتیجتا اہلیان کرم کو پشاور تک کا چار پانچ گھنٹے کا سفر، افغانستان کے پانچ چھ صوبوں سے ہوکر گردیز، کابل اور جلال آباد اور پھر طورخم سے ہوتے ہوئے چوبیس گھنٹؤں میں طے کرنا پڑتا تھا، پانچ سال کے طویل محاصرے کے بعد مری کے مقام پر شیعہ سنی عمائدین کے مابین ایک معاہدے پر اتفاق ہوا، جس کے بعد عارضی طور پر مختصر مدت کیلئے صلح و آشتی قائم ہوگئی تاہم اس پورے عرصے میں اہلیان علاقہ مکمل طور پر سکھ کا سانس نہ لے سکے۔ رہنماوں کے مطابق کبھی بیرون ملک دہشتگردوں اور طالبان کے ہاتھوں پٹتے رہے، کبھی مقامی شرپسند قبائل کے ہاتھوں بربریت کا شکار رہے، شرپسندوں اور دشمنوں سے کیا شکوہ و شکایت، اپنی حکومت بھی اس دوران زیادتی کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ انہوں نے اہلیان علاقہ کے ساتھ جو مظالم روا رکھے، انکی تفصیل کچھ یوں ہے۔
1۔ کاغذات مال کو لاگو کرانے میں حکومت کا تساہل اور غفلت
کرم میں جنگ وجدل اور بد امنی کا بنیادی باعث اور سبب زمینی تنازعات ہیں جبکہ یہ بھی واضح ہو کہ دیگر ایجنسیز سے ہٹ ضلع کرم میں زمینوں کا ریونیو ریکارڈ موجود ہے۔ جس میں مالکان اور کاشتکاران وغیرہ کا واضح تعین کیا گیا ہے، مگر بدقسمتی سے سرکار کے پاس موجود ریکارڈ کو بروئے کار نہیں لایا جاتا جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال بالش خیل، پیواڑ، کنج علی زئی اور بوشہرہ وغیرہ ہیں، جہاں آئے روز زمینوں کی ملکیت پر دعویداری کے نتیجے میں لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔ جو لاشوں اور زخمیوں پر منتج ہوتی ہیں۔
2۔ شرپسندوں سے حکومت کی چشم پوشی
منگل قبیلے کے عید نظر منگل، ترابی منگل اور کچھ دیگر شرپسندوں کی جانب سے میڈیا پر کھلم کھلا شرپسندانہ بیانات، اور اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے علاقے کا امن و امان تو پہلے ہی سبوتاژ ہوچکا ہے تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ کھلم کھلا اس شرپسندی سے حکومت ہمیشہ چشم پوشی برت رہی ہے۔
3۔ جنگ کا آغاز کرنے والوں سے انتظامیہ کی چشم پوشی
کرم میں جنگ کا آغاز عموما سرکاری روڈ (جرنیلی سڑک) پر طوری قبائل کی گاڑیوں پر ٹارگٹ حملوں نیز مقبل اور منگل قبائل کی جانب سے دہشتگردانہ کاروائیوں اور زمینوں پر بے جا قبضہ جات سے ہوتا ہے۔ سرکار کی جانب سے انکی ایسی کاروائیوں کا کوئی انسداد نہیں کیا جاتا، یہی نہیں بلکہ کرم میں طالبان کی آمداور فعالیت پر حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے اور انکی کاروائی بڑھ کر علاقے میں موجود اپنے سہولتکاروں کے ذریعے طوری قبائل پر حملوں کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں طالبان کی جارحیت کے نتیجے میں 50 سے زیادہ جانیں تلف ہوگئیں۔
4۔ مجرم کے بجائے طوری بنگش قبائل پر ایف آئی آر کٹوانے میں حکومت کی کھلی جانبداری
لڑائی جھگڑے بیشک ہوتے رہے ہیں جبکہ یہ لڑائیاں ہمیشہ طالبان نواز منگل اور مقبل قبائل کی جانب سے مسلط ہوتی رہی ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے جانبداری اور طالبان نوازی کا ایک ایسا غیر مساویانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ طوری اور بنگش قبائل پر فردا فردا ایف آئی آر درج کئے جاتے ہیں۔ طالبان نواز قبائل پر اولا تو کوئی ایف آئی آر درج نہیں کیا جاتا، اگر کبھی ہوتا بھی ہے تو نام درج کرنے کی بجائے صرف تعداد اور نامعلوم افراد کا تذکرہ ہوتا ہے۔
5۔ تری منگل اسکول کے حوالے سے حکومت کی جانبداری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ
پچھلے سال 4 مئی 2023ء کو گورنمنٹ ہائی اسکول تری منگل میں سرکاری اساتذہ کو شرپسندوں نے وہاں کے مشران، طلباء اور اسکول اسٹاف کی موجودگی میں بہیمانہ طریقے سے قتل کیا۔ ذبح کرنے کے بعد انہیں جلادیا اور پھر اس کی ویڈیو بھی بنائی، مگر حکومت نے اس دردناک سانحے پر کوئی ردعمل نہیں دکھایا، علاقائی اساتذہ اور طلباء کی طرف سے مسلسل احتجاج کے باوجود کسی مجرم کو آج تک نہیں پکڑا۔ ڈیوٹی پر موجود مجرم اساتذہ، کلاس فور نوکران اور طلباء میں سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا۔
6۔ ماورائے عدالت بے گناہ افراد کو اٹھاکر اغوا کرنا
کرم میں گزشتہ 12 سال سے بے گناہ افراد کو ماورائے عدالت اٹھایا جارہا ہے۔ بغیر کسی کیس اور ثبوت کے انہیں اغوا کرکے لاپتہ رکھا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے انکے خانوادے پریشان ہیں۔
7۔ فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم
کرم میں گزشتہ 5 سال سے کئی ارب روپے کا کام ہوچکا ہے۔ مگر اس پورے سرمائے میں سے صرف 7 فی صد فنڈز طوری بنگش علاقوں میں صرف ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان قبائل کی آبادی 50 فیصد ہے۔
8۔ پاراچنار میں اہل سنت مسجد کی حفاظت جبکہ صدہ میں شیعہ مساجد اور امام بارگاہ راکھ کا ڈھیر
نقل مکانی کے بعد پاراچنار میں اہل سنت کی صفر فیصد آبادی ہونے کے باوجود یہاں انکی مسجد عالی شان صورت میں محفوظ ہے جبکہ صدہ سے شیعوں کی نقل مکانی کے بعد وہاں پر موجود انکی مساجد اور امام بارگاہ نیز قبرستانوں کو مسمار کیا گیا، یہی نہیں بلکہ وہاں پورے شہر کی غلاظت ڈالی جاتی ہے۔
9۔ راستوں میں سرکاری روڈ پر گاڑیوں میں طوریوں کا قتل عام
پاراچنار کا یہ منی غزہ 2007ء سے لیکر 2012ء تک محصور رہا۔ اس پانچ سال کے عرصے میں یہاں کے باسیوں کو افغانستان کابل سے ہوکر پشاور جانا پڑتا اور پھر وقتا فوقتا اس راستے کو طوریوں پر بند کیا جاتا رہا اور ہفتوں بلکہ مہینوں یہ راستہ ان پر بند ہوتا رہا۔ یہاں اشیائے خورد ونوش کی قلت رہی، مریضوں، زخمیوں اور بیرون ملک جانے والوں کو الگ سے زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔
10۔ محب وطن طوری قبائل کو انٹی سٹیٹ قرار دینے کی غیرمنصفانہ پالیسی
طول تاریخ میں کبھی ایک گھنٹے کیلئے یہاں پاکستانی جھنڈا سرنگون نہیں رہا، یہاں ہمیشہ سے پاکستانی پرچم بلند رہا ہے۔ سرکاری عمارت کو کبھی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ کبھی کسی سرکاری اہلکار کو یہاں کوئی گزند نہیں پہنچی ہے۔ پھر بھی انہی سرکاری اہلکاروں نے اپنے مراسلوں میں طوری قبائل کو اینٹی اسٹیٹ جبکہ اینٹی سٹیٹ طالبان نواز افغان نژاد قبائل کو محب وطن ظاہر کیا ہے جو کہ انکی کھلم کھلم فرقہ واریت اور طوری دشمنی ہے۔
11۔ پاراچنار میں افغان قبائل کی حفاظت کی ضمانت کیلئے محفوظ پناہ گاہ
پاراچنار میں افغان قبائل کی حفاظت کیلئے ایف سی بیکری کے نام پر ایک محفوظ پناہ گاہ بنائی گئی ہے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں متاثرہ قبائل کو یہاں پناہ دی جاتی ہے۔ تاہم اہلیان پاراچنار یعنی طوری قبائل کی حفاظت کیلئے صدہ میں کوئی پناہ گاہ موجود نہیں، چنانچہ صدہ میں شیعہ مسافرین، سرکاری اور ایف سی اہلکاران کو یہاں بے دردی سے قتل کیا جاچکا ہے۔
12۔ متنازعہ اور حساس مقامات پر سرکاری اہلکاران کی تقرری میں عدم مساوات
حساس مقامات پر قاعدے کے مطابق مکس نفری کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دونوں فریق مطمئن ہوں جبکہ یہاں حساس مقامات پر ہمارے تحفظات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ مکس سرکاری نفری کا تعین نہیں کیا جاتا، بلکہ پاکستان مخالف قبائل کا لحاظ رکھتے ہوئے انہی کے حمایت یافتہ افرادنفری کو تعینات کیا جاتا ہے۔
13۔ افغانستان سے طالبان کی در اندازی
کرم میں لڑائیاں تو ہمیشہ اراضی پر ہوتی رہی ہیں۔ تاہم ان قبائلی لڑائیوں کے دوران افغانستان سے ٹی ٹی پی کی شکل میں دراندازی ہوتی ہے۔ جو بھاری ہتھیاروں سمیت پاکستانی سرحد پر لگائے گئے باڑ کو عبور کرکے اپنے ہم خیال قبائل کی حمایت کو پہنچ جاتے ہیں۔
14۔ تجارتی اور اقتصادی ناکہ بندی
افغان ٹرانزٹ روٹس میں سے پاراچنار سب سے محفوظ، مختصر، آسان اور شارٹ روٹ ہے۔ اس راستے سے افغانستان سے صرف کوئلہ آتا ہے جبکہ پاکستان سے ہر طرح کی اجناس جاتی ہیں۔ یعنی اس روٹ پر یک طرفہ تجارت ہوتی ہے، یوں علاقائی عوام کو کسی قسم کے فائدے کی بجائے صرف کوئلے کا غبار کھانا پڑتا ہے۔ چنانچہ افغانستان سے یک طرفہ تجارت کی بجائے دو طرفہ تجارت شروع کی جائے اور اس کے لئے خرلاچی اور پاراچنار میں مراعات یافتہ مارکیٹ کی تعمیر عمل میں لائی جائیں۔
15۔ خودکش حملہ آوروں کی سہولتکاری
پاراچنار میں ہونے والےخودکش دھماکوں میں سے اکثر کی سہولت کاری یہاں کے انہی شرپسند قبائل نے کی ہے۔ کرمی بازار دھماکے کی ذمہ دار میجر مست گل منگل، خار بازار دھماکے کی ذمہ دار فضل سعید حقانی آف بگن، کباڑ دھماکے کی سہولت کاری بوشہرہ کے حاجی حجت منگل کے بیٹے، فلائنگ کوچ اڈہ دھماکہ خود غیور چمکنی نے، سبزی منڈی دھماکہ کی سہولت کاری عابد خان بوشہرہ نے جبکہ یوم القدس کے جڑوان دھماکوں کے خودکش حملہ آور 25 دن بوشہرہ میں ٹھہرے تھے۔ اس کے علاوہ تری منگل اور غوزگڑھی کے متعدد افراد نے خودکش دھماکوں کی سہولت کاری کی ہے، جس میں طوری بنگش قبائل کے ہزاروں افراد شہید ہوچکے ہیں۔
16۔ ملک بھر کے عوام میں کرم کے بارے نفرت پھیلانے کی مذموم کوشش
کالعدم تنظیم کا صوبائی نائب صدر عیدنظر منگل پاکستان بھر میں شہر شہر جاکر خصوصا کے پی اور بلوچستان کے لوگوں میں اہلیان کرم کے حوالے سے مسلسل نفرت پھیلا رہا ہے اور انہیں راستوں میں اہلیان کرم کو نشانہ بنانے پر اکساتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ژوپ میں پاراچنار کے زائرین کے بس پر حملہ اسکی واضح مثال ہے۔
17۔ پولیس اور دیگر بھرتیاں میرٹ کے بجائے فرقہ کی بنیاد پر
کرم میں کسی بھی شعبہ میں ہونے والی بھرتیاں میرٹ کے بجائے عموما فرقہ کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔ جس کی واضح مثال گزشتہ سال اور اس سال ہونے والی پولیس بھرتیاں نیز کرم سیشن کورٹ بھرتیاں ہیں۔ گزشتہ سال پولیس بھرتی کے دوران 48 میں سے صرف 14 افراد طوری بنگش سے لئے گئے ہیں، اقلیتی برادری کی 2 خواتین، جبکہ دیگر 32 افراد افغان نژاد قبائل کے ایسے افراد سے لئے گئے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ پولیس کے وضع کردہ قواعد جسمانی اور دیگر شرائط کے لحاظ سے نااہل ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اس بات کا اقرار موجودہ ڈی پی او نے صدہ میں جی او سی اور صدہ کے قبائل مشران کے سامنے کیا کہ میں نے بھرتی کے لئے الگ قاعدہ بنایا ہے، وہ یہ کہ کرم میں بھرتیاں تحصیل کی بنیاد پر کی جائیں گی۔
18۔ لوئر مڈل کرم کی ہر طرح مراعات سے محرومی
لوئر کرم میں شامل ایک بہت بڑا علاقہ تمام بنیادی مراعات سے محروم ہے، وہ شامل تو لوئر کرم میں ہےتاہم لوئر کرم صدہ میں موجود ذمہ دار افسران انہیں لوئر کرم کے مراعات اور فنڈز دینے کو تیار نہیں۔ سرکاری نوکریوں سمیت ہر طرح کے فنڈز میں انکا حصہ صفر ہے۔