وحدت نیوز (لاہور) امام بارگاہ درِ حسین لاہور میں لاہور کے مجالس عزاء و جلوس ہائے عزاء کے بانیان کا اجلاس سید حماد سندر شاہ کے زیرِ انتظام منعقد ہواجس میں عزاداری نواسہ رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کو پنجاب میں درپیش مسائل پر باہمی مشاورت کے بعد تمام بانیان مجالس نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ حکومت بانیان مجالس کے خلاف تمام جھوٹی ایف آئی آرز ختم کرے اور گزشتہ دورِحکومت کی انتقامی کارروائیوں کے سلسلے کو بند کرے بصورت دیگر جمعتہ المبارک کے بعد مجلس وحدت مسلمین کے زیرِ اہتمام تحفظ عزاداری تحریک کا بھرپور ساتھ دینگے اور پنجاب انتظامیہ کی اس متعصبانہ پالیسی کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک چلائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار لاہور کے مجالس عزاء و جلوس ہائے عزاء کے بانیان نے امام بارگاہ درِ حسین میں منعقد بانیان مجالس و جلوس ہائے عزاء کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمائدین شہر نے کیا،جلاس میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیوایم لاہور نجم خان، سیکرٹری شماریات ایم ڈبلیو ایم پنجاب علمدار زیدی ، کنوینئیر شیعہ شہریان پاکستان علامہ وقار الحسنین نقوی سمیت لاہور کےمختلف علاقوں کے مرکزی بانیان آغا شاہ حسین قزلباش، سید حماد سندر شاہ، خواجہ بشارت حسین کربلائی، سید وسیم حیدر گردیزی، سید تاثیر رضا نقوی، سید عمران حیدر نقوی ، سہد جالے شاہ، سید حسن، خواجہ میثم عباس و دیگر بانیان نے شرکت کی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ وقار الحسنین نقوی نے کہا کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں بانیان مجالس کے خلاف غیر قانونی ایف آئی آرز درج کر کے بے گناہ شہریوں کو حراساں کیا گیاجبکہ ان مجالس کے خلاف کسی شہری کی جانب سے کوئی شکایات سامنے نہیں آئی اور تمام ایف آئی آرز پولیس اور ریاست کی مدعیت میں درج کی گئیں. پولیس ورسز عزادارانِ نواسہ رسول (ص) کا ہونا انتہائی تشویش ناک ہے جس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں ایم ڈبلیو ایم قائدین نے وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پرامن ماحول میں منعقد ہونے والے روایتی اور لائسنس یافتہ مجالس اور جلوس ہاے عزا پر ناجائز ایف آئی آرز کو فی الفور خارج کیا جائے ہم مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کے اس مطالبے کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور اگر پولیس گردی کے اس سلسلے کو نہ روکا گیا اور سابق حکومت کی عزاداری مخالف پالیسیوں کو ترک نہ کیا گیا تو عزاداران امام حسین (ع) تحفظ عزاداری احتجاجی تحریک کا آغاز لاہور سے کریں گے. دوسری جانب اجلاس میں موجود تمام اراکین نے ناجائز ایف آئی آرز آئندہ جمعہ تک خارج نہ کرنے کی صورت میں مجلس وحدت مسلمین کی تحفظ عزاداری احتجاجی تحریک کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کی رابطہ مہم عروج پر، علامہ تصور جوادی پر حملہ کرنے والے مجرمان کی عدم گرفتاری کے خلاف 7مارچ احتجاج کے لیے گاؤں گاؤں دورہ جات، لوگوں سے ملاقات ، احتجاج میں شرکت کی دعوت، کئی شخصیات کی جانب سے حمایت کا اعلان۔ تفصیلات کے مطابق مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیرو انسداد دہشت گردی پبلک ایکشن کمیٹی کے رابطہ مہم جاری ، 7مارچ بھرپور شرکت متوقع، مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا سید طالب حسین ہمدانی ، سیکرٹری جنرل مظفرآباد سید غفران علی کاظمی کے کوہالہ ویلی و اندرون شہر دورہ جات جاری ۔جبکہ انسداد دہشت گردی پبلک ایکشن کمیٹی جہلم ویلی میں متحرک، سید شجاعت علی کاظمی ، سید تصور عباس موسوی ، سید راشد علی نقوی و دیگر کی لوگوں سے ملاقات، احتجاج میں شرکت کی دعوت ۔د

دوسری جانب تنظیم السادات یوتھ ونگ مظفرآباد کی جانب سے حمایت و بھرپور شرکت کا اعلان، تحریک انصاف آزاد کشمیر کے رہنماء سید تبریز علی کاظمی ، مجہوئی سے معروف شخصیت مخدوم سید تنویر حسین کاظمی ، گوڑی سے سید کرامت کاظمی ، بندوے سے سید واجد کاظمی ، کھن بانڈی سے سید فخر کاظمی ، نگرہ سیداں سے سید حسین نقوی ، گڑھی دوپٹہ سے سید امجد حیدری ، کمہار بانڈی سے سید مجاہد کاظمی ، کوہالہ ویلی سے سید شاہد کاظمی ، سید زاہد کاظمی ، سید شیراز کاظمی و دیگر کی جانب سے بھرپور شرکت کا اعلان ۔ مولانا سید طالب حسین ہمدانی و سید غفران علی کاظمی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ 7مارچ تاریخی احتجاج ہو گا، اب کسی صورت بھی مہلت نہیں دی جا سکتی ، حکومت کو ہمارے مطالبات پر غور کرنا ہو گا، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دینا ہو گی بصورت دیگر آنے والے سخت و شدید ردعمل کو روکنا حکومت و انتظامیہ کے لیے مشکل کام ہو گا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ سڑکوں پر نکلیں لیکن اب خاموشی ناممکن امر ہے ۔ ایک سال سے اوپر ہو گیا ، حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) 7مارچ تاریخی مارچ ہو گا، علامہ تصور جوادی پر حملہ کرنے والے مجرمان کی تا حال عدم گرفتاری انتظامیہ و حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، ہم کسی طور پر بھی اب چپ نہیں رہ سکتے ، ان خیالات کا اظہا رمجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ترجمان سید حمید حسین نقوی نے ریاستی دفتر سے جاری پریس ریلیز میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ 7مارچ تاریخی احتجاج ہو گا، اس حوالے سے رابطہ مہم کا باقاعدہ آغاز مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ احمد اقبال رضوی نے کیا ۔

 علامہ احمد اقبال رضوی نے مرکزی رہنماؤں ملک اقرار حسین ، ارشاد حسین بنگش ، ریاستی رہنماؤں مولانا طالب ہمدانی، سید حسین سبزواری ، سید غفران علی کاظمی اور سید ممتاز حسین نقوی کے ہمراہ کردلہ سیداں و جہلم ویلی کا دورہ کرتے ہوئے کیا۔ ان دورہ جات کے دوران انہوں نے کردلہ امامبارگاہ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں لوگوں کو شرکت کی دعوت دی ، جبکہ دورہ جہلم ویلی کے دوران انہوں نے مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہوئے احتجاج میں شرکت کی اپیل کی۔ جبکہ اس کے علاوہ مولانا سید طالب حسین ہمدانی، علامہ سید فرید عباس نقوی ، سید غفران علی کاظمی ، سید حسین سبزواری ، سید عمران حیدر ، معروف سیاسی شخصیت سید تصور عباس موسوی، سربراہ انسداد دہشت گردی پبلک ایکشن کمیٹی سید شجاعت علی کاظمی مختلف علاقوں کے دورہ جات پر ہیں ، جہاں و عوام و شخصیات سے ملاقاتیںکر کے احتجاجی مارچ میں شرکت کی دعوت دے رہے ہیں ۔

 انہوں نے مذید بتایا کہ مجلس وحدت مسلمین اب کسی صورت اس مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالنے دے گی ۔ 7مارچ نئے عزم سے تحریک کا آغاز کر رہے ہیں ۔ اگر جلد از جلد اس مسئلے کو منطقی انجام کی جانب نہ لے جایا گیا تو 7مارچ کے بعد یہ سلسلہ سخت و طویل ہو سکتاہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے انتظامیہ و حکومت ہوش کے ناخن لے اور ہمارے مطالبات پر غور کرے۔ورنہ فیصلہ سڑکوں پر ہوگا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داران کے خلاف پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج میں بھرپور طور پر شرکت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت ہماری جماعت کے منشور کا حصہ ہے۔ماڈل ٹاؤن میں احتجاج کا آئینی حق استعمال کرنے والوں کو جس بربریت کا نشانہ بنایا گیا پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ہم پہلے دن سے اس بھیانک اقدام کی مذمت اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہچانے کے مطالبے میں شریک رہے ہیں۔حکمران جماعت نے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ہمیشہ قومی اداروں کو استعمال کیا ہے۔اختیارات کے اس ناجائز استعمال پر پنجاب حکومت کی جوابدہی کا وقت آ پہنچا ہے۔ملک کی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کا استعفی چاہتی ہیں۔ کالعدم مذہبی جماعتوں سے رابطوں کے انکشافات کے بعد پنجاب کابینہ کے بیشتر وزرا کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔نواز شریف بھارت کے لیے درد دل رکھتے ہیں جب کہ شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے وزرا ملک کے امن و سلامتی کے خلاف مصروف کالعدم جماعتوں سے فکری و جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں جو ملک دشمنی کی دلیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم ایسے ظالم حکمرانوں کا احتساب چاہتی ہے ۔جو قوم کو پرتعیش سفری سہولیات کے جھانسے میں رکھ کر پورے ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔موجودہ حکومت نے سوائے لوٹ مار اور مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے اور کوئی کام نہیں کیا۔ ملک میں صحت، تعلیم اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل حکومت کی عدم توجہی کے باعث سنگین صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں لیکن حکمران عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں لگی ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب حکمرانوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔نااہل حکمرانوں کے خلاف جس احتجاج کا آغاز ہونے جا رہا ہے وہ انہیں ایوان اقتدار سے نکالے بغیر ختم نہیں ہو گا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اینٹی ٹیکس موومنٹ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اسے تسلیم کیا جائے اورخطے کے عوام کے دیرینہ مطالبات پورے کیے جائیں۔گلگت بلتستان کے لوگوں کا سی پیک میں جو حق بنتا ہے اس میں کسی بھی قسم کی بد دیانتی ناقابل قبول ہے۔جو سازشی عناصر اس خطے میں بسنے والوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

 انہوں نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان اور فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق سے دور رکھنا نا انصافی ہے۔ کسی بھی ملک میں بسنے والے افرادکو سیاسی و معاشرتی اعتبار سے یکساں حقوق کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔قبائلی علاقہ جات اور گلگت بلتستان کی عوام کا حصول پاکستان کے لئے جدوجہد میں اہم اور نمایاں کردار رہا ہے۔انہیں سیاسی دھارے سے دور رکھنے کی کوشش کرنے والے ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ فاٹا میں ایف سی آر کے کالے قانون سے چھٹکارا دلانے اور آئینی حقوق دینے کے لیے اصلاحات پر عمل درآمد میں تاخیر افسوس ناک ہے۔ملک کے محب وطن افراد میں مایوسی پیدا کی جا رہی ہے جو قومی وحدت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اس اہم مسئلے کو پارلیمنٹ میں عوامی امنگوں کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے مسئلے پر سیاست چمکانے کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت فیصلہ سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ملک دشمن طاقتیں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ارض پاک میں چھوٹے چھوٹے ایشوز کو پہاڑ بنا کر پیش کر رہی ہیں تاکہ پاکستان کو ایک غیر مستحکم ریاست ثابت کیا جا سکے۔ایسی صورتحال میں مقتدر اداروں کو دانشمندی اور بصیرت کا ثبوت دینا ہو گا۔عوام کے مسائل اور مطالبات کودانستہ نظر انداز کرنے کا مطلب ان قوتوں کو خوش کرنا ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کو اضطراب میں دیکھنا چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گلگت کے عوام کا آئینی حق دیے بغیر ٹیکسز کے نفاذ پر احتجاج اصولی ہے۔معدنی ذخائر و دیگر اعتبار سے گلگت بلتستان میں بے پناہ وسائل موجود ہیں۔جن سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے گلگت بلتستان کی بھی حصہ داری ہونی چاہیے۔ دنیا بھر کی مختلف ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ۔گلگت بلتستان دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جو گزشتہ ستر سالوں سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کر رہا ہے۔لیکن سیاسی حکومتیں اس الحاق کے لئے راہ ہموار کرنے کی بجائے مسلسل رکاوٹیں پیدا کرتی آئی ہیں۔جو سراسر زیادتی ہے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے مطالبات کی منظوری ان کے حب الوطنی میں اضافے کا باعث ہو گی اور یہ پاکستان کے لیے دفاعی ،معاشرتی اور معاشی طور پر بھی نفع بخش ثابت ہو گا۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) گزشتہ پانچ دنوں سے میرا خطہ گلگت بلتستان ایک بار پھر احتجاجات اور ہڑتالوں کی زد میں ہیں اس سے قبل گزشتہ ماہ منتخب نمائندوں کے وعدے پر احتجاجات کے سلسلے کو روک دیا گیا تھالیکن پورے ایک مہینے کے قریب صبر کرنے اور بھرپور موقع فراہم کرنے کے باوجود وزیر اعظم پاکستان اور ان کے مقامی معتمدین اپنے وعدے وفا نہیں کر سکے۔

علاقہ ستر سالوں سے بنیادی شہری حقوق اور آئینی تحفظ کی ڈیمانڈ کرتی رہی ہےاور ہر بار عوام اسی لئے نمائندوں کو ووٹ دیکر منتخب کرتے ہیں کہ وہ ان کو انکے جائز حقوق دلانے کیلئے کوشش کریں. اہم مسئلہ کشمیر کا ہے جس کیساتھ نتھی کرکے اس خطے کو تا حال نہ تین میں نہ تیرہ میں رکھاگیا. کشمیر کے پاکستانی حصے کو تو نیم خودمختار حیثیت دے چکا, اور وہاں کے عوام اس کو بھی غنیمت سمجھتی ہے, لیکن ہم گلگت بلتستان والے نہ تو کسی صوبے کا حصہ ہے, نہ خودمختار. اور لاکھوں عوام کے کے پاس شناختی کارڈ ہونے, بلا روک ٹوک کے آنے جانے اور دیگر شہریوں کی طرح شناخت ہونے کے باوجود اس موجودہ سیٹ اپ کو کسی طرح سے آئینی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے،اس طرح یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جو کسی قانون کے تحت کسی ملک کا باقاعدہ حصہ نہیں. پاکستان اور چائنہ کے درمیان اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبے کو یوں تو حکومت پاکستان اپنے لئے معجزہ سمجھتی ہےاور یہ راہداری منصوبہ آغاز ہی گلگت بلتستان سے ہوتا ہے جس کو اب تک پاکستانی آئین اپنا حصہ نہیں سمجھتی،ظاہرا گلگت بلتستان کے عوام نے بھی اسوقت تک اس اہم ترین ایشو پر کوئی تحریک چلائی نہ اس میں اپنا حصہ مانگا، بلکہ جو وفاقی حکومت چاہتی ہے وہی کچھ ہوتا رہا ہے اور شاید ایسا ہی ہوتا رہے. ان کو بخوبی معلوم ہیں اس خطے کے عوام شریف ہیں، ان کے اوپر یس سر کے عادی لوگوں کو حکمران بنوائے ہوئے ہیں جو کہ وفاقی سکریٹری تک سے کیوں کہنے کی جرات نہیں رکھتےایسے میں حکمران اشرافیہ کی بیوقوفی کہیں یا کچھ اوراس اہم ترین خطے کے عوام کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیکر خوشحال بنانے کی بجائے گزشتہ حکومت کی جانب سے لایا ہوا ٹیکس ایڈاپٹیشن ایکٹ 2012 کو بھی لاگو کرکے یہاں کے عوام کو تحریک چلانے پر مجبور کر دی۔

ہماری عوام کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے اور اگر نہیں تو ہونی چاہئے کہ اب تک کسی بھی سرکاری کاغذات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ سی پیک میں گلگت بلتستان کیلئے بھی کوئی منصوبہ رکھا ہو. بلکہ خبر ہے کہ پہلے سے موجود سوست پورٹ کو بھی یہاں سے اٹھا کر حویلیاں منتقل کی جارہی ہے. دوسری طرف اس خطے کی متنازعہ حیثیت کو بھی دو لخت کرکے عوام کو لڑانے کی تیاریاں بھی اندرونی طور پر ہورہی ہیں. ان باتوں سے یہی سمجھ آتی ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان کو معاشی مفادات ملنے سے جن قوتوں کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھ رہی ہیں وہی قوتیں پاکستان کے اداروں میں بیٹھے اپنے ہمدوروں کو بہتر استعمال کر رہے ہیں. گلگت بلتستان میں افراتفری کے ممکنہ فائدے انہی قوتوں کو ہی ہوسکتے ہیں جو جنوبی ایشیا میں اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنا چاہتی ہے۔

معاملہ اتنا گھمبیر نہ ہوتا اگر مقامی اسمبلی میں بیٹھے ایک سکریٹری کے اشاروں پر ناچنے والوں میں سے ایک دو ہی جرات کا مظاہرہ کرتے. انکے آقاوؤں سے کہتے کہ جی اس خطے کو امن و امان میں رکھنا نہ صرف ہماری سیٹوں اور حکومت کی بقا کیلئے ضروری ہے, بلکہ سی پیک سمیت پاکستان کو معاشی طور پر فایدہ ملنے والے منصوبوں کے دوام کیلئے بھی بے حد ضروری ہے۔۔۔۔۔۔لیکن جسطرح بیرونی اشاروں پر ناچنے والے وفاق کے کرتا دھرتا مفادات کیلئے یس سر کہنے سے نہیں چوکتے, انہی کو مچھلیاں اور خشک میوہ جات بھیجنے والے مقامی بھی ان کی خوشنودی کیلئے اپنی سیاسی موت کا سامان ثابت ہونیوالی بیوقوفیوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اگر مقامی منتخب نمائندوں کے پاس عقل و شعور ہوتے تو ٹھٹھرتی سردی میں ہزاروں عوام کی مسلسل احتجاج, اور چار دنوں سے پہیہ جام شٹر ڈاون ہڑتال کے بعد کم از کم بلتستان کے نمائندے اپنی وزارتوں کی کرسی کو لات مار کر عوام کے ساتھ احتجاج میں شریک ہوجاتے یقین کریں کم سے کم اگلے الیکشن میں سیٹ انکی پکی ہوجاتی, اور انکی نسلیں ان کے اوپر فخر کرتے۔۔۔۔لیکن اپنے ہی ووٹرز کو اپنی نا اہلیوں پر چیختے چلاتے اور مردہ باد کے نعرے لگاتے دیکھ کر بھی یہ طفل تسلیوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایک نا اہل سے وفاداری اور اسکی نمک حلالی پر تلے ہوئے ہیں. ان کو گزشتہ حکومت کا حشر بھی یاد ہے, اپنے قائدین کی نا اہلی تو تازہ تازہ واقعہ ہے, جس سے پتہ کسی اندھے کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کئی بار وزارت عظمیٰ پر رہنے کے باوجود بھی سڑکوں پر آکر اپنی نا اہلی کے خلاف رونا پیٹنا پڑجاتا ہے۔

 اس لئے ان لوگوں کو یاد دہانی کیلئے بقول شاعر۔۔۔۔
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

میں ان سطور کی توسط سے مقامی رہنماؤں کو بھی یہ بات باور کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارا مسئلہ نہ پچھلی حکومت کیدور والا گندم کا ایشو تھا, نہ اب صرف ٹیکس ہے. گندم سبسڈی بھی ہمارا حق تھا اور ٹیکس کی مخالفت بھی ہمارا حق ہے, لیکن ان ایشوز کیساتھ حکومتیں آتی رہیں گی, ہم یوں ہی اپنے عوام کو لیکر نکلتے رہیں گے... لیکن اصل مسئلہ جو ہماری بنیادی شہری حقوق کا ہے, آئینی حیثیت یا خود مختار علاقے کے قیام کا, جب تک یہ طے نہ ہوجائے ہمیں بھینس کے آگے بینڈ بجاتے رہنا پڑیگا. ہماری آواز بہت زیادہ اٹھی تو وزیر اعلیٰ کی طرفسے سکریٹری اور سکریٹری کی طرف سے وعدے تک ٹلتا رہے گا اور بہت زیادہ بڑھ جائے تو شاید وزیر اعظم تک پہنچ جائے جو خود ایک نا اہل شدہ بندے کے اشاروں پر چلتا ہیاور اپنی کوئی حیثیت و شخصیت نہیں رکھتا،کم سے کم اس حالیہ تحریک سے جو نتیجہ نکلنا چاہئے وہ ٹیکس کے خاتمے کے ساتھ مقامی اسمبلی کے انتخابات کو وفاقی الیکشن کے ساتھ منعقد کرنے کو یقینی بنانے کی صورت میں نکلنا چاہئےتاکہ آئندہ کیلئے وفاقی حکومت کے زیر تسلط ہونیوالے الیکشن کے خمیازے سے بچ سکیں کیونکہ وفاق میں موجود حکومت کی وجہ سے ہی مقامی لوگ مفادات کیلئے ضمیر فروشی کرنے سے لیکر عوام کو سبز باغ دکھا کر ناجائز فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔


تحریر : شریف ولی کھرمنگی

Page 1 of 3

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree