وحدت نیوز (لاہور) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر نے کہا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین کے رہنماؤں کی گرفتاری، مظاہرین پر مظالم اور شام میں تکفیریوں کی جانب سے امن عامہ کو نقصان میں اور مزارات مقدسہ کی بے حرمتی جیسے گھناؤنے جُرم میں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔ آئی ایس او پاکستان کے مرکزی دفتر سے مصر اور شام کے حوالے سے جاری مرکزی صدر کے بیان کے مطابق اطہر عمران طاہرنے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث کے مطابق مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں جو مصر میں بے گناہ افراد کے خون میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ امریکہ واسرائیل کے ہر اوچھے ہتھکنڈے کا ساتھ دے رہے ہیں۔
 
اُنہوں نے کہا کہ آج سعودی عرب اور بعض دیگر عرب ممالک کا منافقانہ چہرہ پوری دنیا پر آشکار ہوگیا ہے کل تک جو لوگ سعودی بادشاہت کے گن گاتے تھے وہ بروز محشر نبی اکرم (ص) کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اطہر عمران نے مزید کہا کہ ہم رہبر مسلمین جہاں کی دوراندیش بصیرت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے کھل کر مصر میں اخوان المسلمین کی مکمل حمایت اور صیہونی طاقتوں کی واشگاف الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ شام کے حوالے سے اپنے بیان میں اطہر عمران نے مزید کہا کہ مسلمانوں پر ظلم وستم کرنے والا خارجی ٹولہ مصر کی طرح شام میں بھی بے نقاب ہوگا اور جلد اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اُنہوں نے کہاکہ شام میں بھی وہی قوتیں آل محمد (ص) اور اصحاب رسول (ص) کے مزارات کی بے حرمتی کررہی ہیں جو مصر میں مسلمانوں کے خلاف اور امریکہ وصیہونیت کا ساتھ دے رہی ہیں۔

وحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر میں صدر محمد مرسی کی معزولی کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، مختلف شہروں میں صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں میں چالیس سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مصر کے معزول صدر محمد مرسی کے لاکھوں حامیوں نے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے، صدر کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپوں سے ملک بھر میں درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ مظاہرین کی فوج کے ساتھ بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ خطرناک صورتحال سکندریہ میں رہی، جہاں گذشتہ روز بارہ افراد ہلاک اور دو سو زخمی ہوئے، ادھر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمون نے محمد مرسی کی بحالی تک مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

 

دیگر ذرائع کے مطابق مصر میں فوجی بغاوت کے بعد سابق صدر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین میں جھڑپیں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ قاہرہ سمیت مختلف شہروں میں ہلاکتوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے اور سینکڑوں افراد زخمی ہیں۔ مصری فوج کی جانب سے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد عوام میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور صورت حال تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔ دارالحکومت قاہرہ، اسکندریہ اور دوسرے شہروں میں محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ سینائی میں پولیس اور فوج کی پوسٹوں پر بھی راکٹ داغے گئے اور مشین گنوں سے فائرنگ کی گئی۔ حکام کے مطابق حملوں میں 6 سکیورٹی اہل کار مارے گئے۔ اخوان المسلمین نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

 

دوسری جانب فوجی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ فوج کسی فریق کی حمایت یا مخالفت نہیں کررہی۔ ترجمان کے مطابق فوج قاہرہ میں جھڑپوں پر قابو پانے کے لئے مداخلت کرے گی۔ فوجی ترجمان کے اس بیان کے بعد کئی فوجی گاڑیوں نے تحریر اسکوائر کے قریب پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔ سرکاری ٹی وی کی عمارت پر بھی ایک مرتبہ پھر فوجی دستے تعینات کر دیئے گئے ہیں، جہاں محمد مرسی کے حامی بھی موجود ہیں۔ جامعتہ الازہر کے مفتی اعظم احمد الطیب نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد سے گریز کریں اور مسائل پرامن طریقے سے حل کئے جائیں۔

وحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر میں فوج نے بغاوت کرتے ہوئے پہلے جمہوری صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے۔ معزول صدر مرسی اور دیگر اعلٰی قیادت کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے فوج کے سربراہ عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا کہ محمد مرسی عوامی توقعات پوارا کرنے میں ناکام رہے۔ فوجی سربراہ نے آئینی عدالت کے سربراہ عدلی منصور کو ملک کا عبوری حکمراں مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا کہ آئین کا جائزہ لینے کے لیے ٹیکنوکریٹ پر مشتمل حکومت قائم کی جائے گی اور پارلیمانی اور صدارتی انتخابات جلد کرائے جائیں گے۔ مصری فوج کے ترجمان کے مطابق معزول صدر مرسی اور اخوان المسلمون کی اعلٰی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ صدر مرسی کے اقتدار کو ایک سال مکمل ہونے پر مصر بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر لاکھوں افراد نے کئی دن سے پڑاو ڈال رکھا ہے۔ عوامی احتجاج میں شدت کے بعد مصر کی فوج نے صدر مرسی اور اپوزیشن جماعتوں کو اتفاق رائے سے مسئلے کا حل نکالنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا، تاہم صدر مرسی نے الٹی میٹم مسترد کرتے ہوئے اقتدار نہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ الٹی میٹم کی ڈیڈ لائن قریب آتے ہی مصری فوج نے مختلف شہروں میں کنٹرول سنبھالنا شروع کر دیا تھا۔ مختلف سرکاری عمارتوں کو قبضے میں لینے کے بعد بغاوت کا اعلان کیا گیا، جس کے بعد اخوان المسلمون کے ٹی وی چینل سمیت کئی مذہبی چینل بند کر دیئے گئے ہیں۔

 

دیگر ذرائع کے مطابق مصری افواج نے صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے، جس کے بعد صدر مرسی کے حامیوں اور مخالفین کی چھڑپوں میں 4 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ امریکہ نے اپنے غیر ضروری سفارتی عملے کو مصر چھوڑنے کی ہدایت کر دی۔ مصر میں فوج کی جانب سے بحران کے سیاسی حل میں ناکامی کے بعد بالآخر فوج نے صدر محمد مرسی کی ایک سالہ حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ فوج نے صدر محمد مرسی کو پیر کے روز اڑتالیس گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی تھی جسکے ختم ہونے پر انکی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ قاہرہ میں سرکاری ٹی وی سے خطاب میں مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے کہا کہ فوج ملک میں مفاہمت چاہتی ہے۔ صدر مرسی عوام کے مطالبات پورا کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور سیاسی رہنماؤں نے مل کر سیاسی روڈ میپ پر اتفاق کیا ہے۔ آئین کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے، آئینی عدالت کی چیف جسٹس عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے۔ ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت تشکیل دی جائے گی۔ عدلیہ ملک میں انتخابات کیلئے پارلیمانی قوانین کاجائزہ لے گی جبکہ ایک کمیٹی آئین کا جائزہ لے گی۔ جنرل السیسی نے کہا پولیس اور فوج تشدد کے واقعات سے سختی سے نمٹے گی۔ صدر مرسی کے اقتدار کے خاتمے کا سن کر مخالفین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، تحریر اسکوائر میں صدر مرسی کی اقتدارسے رخصتی پر آتش بازی کی گئی۔

وحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر خانہ جنگی کے دھانے پرصدر کا مستعفی ہونے سے انکار، رات گئے صدر مرسی نے قبہ نامی صدارتی محل سے ٹی وی کی سکرین کے توسط سے مصر عوام کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے سے انکار کرتے ہوئے ملک میں جاری کشیدگی کو بدھ تک ختم کرنے کے لیے فوج کی طرف سےملنے والی الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔واضح رہے کہ قبہ محل کے باہر اپوزیشن کے ہزاروں مظاہرین دھرنا دئے ہوئے ہیں۔ منگل کو رات گئے قوم سے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں صدر مرسی نے کہا کہ وہ مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کی حفاظت کریں گے کیونکہ وہ صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ مرسی نے ملک کے آئینی صدر ہونے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی سے ڈیکٹیشن نہیں لیں گے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ان سے غلطیاں ہوئیں تاہم انھوں نے قوم سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔

 

دوسری جانب مصر کے مختلف علاقوں میں صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں کم سے کم 16 افراد ہلاک ہو گئے۔ صدر مرسی نے ملک میں جاری کشیدگی کا الزام بدعنوانی اور سابق صدر حسنی مبارک کے دورِ حکومت کی باقیات پر لگاتے ہوئے مظاہرین کو قانون کی پاسداری کرنے کو کہا۔جبکہ اپویشن کا کہنا ہے کہ صدر مرسی گذشتہ ایک سال میں ملکی اھم مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں تحریر اسکوئر میں صدر مرسی پر اسرائیل اور عرب شیخ نوازی کا بھی الزام لگایا گیا ہے جس میں اھم ترین نکتہ کیمپ ڈیویڈ جیسے بدنام زمانہ معاہدے کی پاسداری ہے۔

 

مرسی نے اپنی تقریرمیں مفاہمت اور میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق بنانے کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ قومی سطح پر مذاکرات کے لیے تمام گروپوں اور شخصیات سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔ جبکہ اپوزیشن شام کچھ جماعتوں اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر مرسی نے آئین میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں جس کے بعد وہ ملک میں مطلعق العنان اختیارات حاصل کرچکے ہیں اور یوں وہ منتخب صدر سے دینی خلیفہ بننا چاہتے ہیں تحریر اسکوائرمیں لگنے والے نعروں میں صدر اور اخوان المسمین پر مذہبی ڈکٹیٹرشب اور شدت پسندی کا بھی الزام لگ رہا ہے۔

 

خیال رہے کہ مصری فوج نے اڑتالیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین ’عوام کے مطالبات‘ ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ اس سے پہلے مصر کی فوج نے ملک کے مستقبل کے لیے تیار کر دہ منصوبے کو لیک کیا تھا جس میں ملک کے موجودہ پارلیمان کو تحلیل کرنے اور ملک میں نئے صدارتی انتخابات کرانے کی بات کی گئی ہے۔ بی بی سی کو موصول ہونے والے معلومات کے مطابق فوجی منصوبے کے تحت ملک کے نئے آئین کو بھی معطل کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب مختلف زرائع بتا رہے ہیں کہ صدر مرسی کی پوزیشن ہر گزرتے منٹ کے ساتھ کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ عرب زرئع ابلاغ کے مطابق ایک ایک ٹیکنوکریٹس اور سویلین افراد پر مشتمل ایک ایسی کونسل بنانے کی تجویز زیر غور ہے جو ملکی نظم و نسق کو چلائے گی۔

 

خیال رہے کہ حزب اختلاف کی تحریک تمرد یعنی’باغی‘ نے پیر کو الٹی میٹم جاری کیا تھا کہ اگر صدر مرسی مقامی وقت کے مطابق منگل کی شام پانچ بجے تک اقتدار سے الگ نہیں ہوئے تو ان کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ اس کے بعد مصری فوج نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت اور اس کے مخالفین عوامی مطالبات ماننے میں ناکام رہے تو فوج مداخلت کرے گی۔ صدر محمد مرسی نے ملک کے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفاتح السیسی سے منگل کے روز مسلسل دوسری ملاقات کی ہے۔ منگل کو ہونے والی دوسری ملاقات میں وزیراعظم ہاشم قندیل بھی شامل تھے تاہم اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ ان تک حکومت کے دس وزرا کے مستعفی ہونے سے جن میں وزیرِ خارجہ محمد کامل امر بھی شامل ہیں صدر مرسی پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔جبکہ صدر کے دو اہم ترجمان بھی استعفی دے چکے ہیں۔

 

مصر کی عدالتِ عالیہ نے بھی صدر مرسی کی جانب سے مقرر کیے جانے والے پراسیکیوٹر جنرل کو برخاست کرنے کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا ہے۔ اپوزیشن نے یہ بھی  دعویٰ کیا  ہے کہ فوری انتخابات کے مطالبے کی ایک پٹیشن پر دو کروڑ بیس لاکھ افراد نے دستخط کیے ہیں۔جبکہ مصر کی سلفی تحریک کی ترجمان جماعت النور نے بھی فوری انتخابات کو بحران کا حل قراردیا ہے۔ مرسی 30 جون 2012 کو انتخاب میں کامیابی کے بعد مصر کے پہلے اسلامی صدر بنے تھے۔ان کی صدارت کا ایک سال سیاسی بے اطمینانی اور معیشت میں گراؤٹ کی زد میں رہا۔

وحدت نیوز (مصر) مصر میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوان مظاہرین نے مصری حکومتی جماعت سلفیت کے بانی اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر کو توڑ دیا ہے۔ وحدت نیوز کی مانیٹرنگ ڈیسک کی رپورٹ کے بعد اتوار اور پیر کی درمیانی شب میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر پولیس کی جانب سے ہونے والے تشدد کے بعد مظاہرین نے اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر پر چڑھائی کر دی اور اسے تباہ کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مصر ی پولیس نے ایک گھنٹے کے دوران مظاہرین پر تشدد اور فائرنگ کے ذریعے پانچ افراد کو قتل کر دیا ہے جبکہ میڈیکل ذرائع کاکہنا ہے کہ ایک سو سے زائد مظاہرین شدید زخمی حالت میں ہیں۔

 

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے ایک رپورٹر کاکہنا ہے کہ مظاہرین نے اخوان المسلمون کے دفتر پر پٹرل بم پھینکے اور دفتر کے گارڈز نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پانچ مظاہرین قتل کر دئیے گئے۔ واضح رہے کہ مصری سلفی ناصبی جماعت اخوان المسلمون کے خلاف کافی عرصے سے مظاہرے جاری ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے سلفی وہابی ناصبی محمد مرسی کو کہا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں مستعفی ہو جائیں ورنہ مصر میں سول نا فرمانی کی تحریک کا آغاز کر دیا جائے گا۔

وحدت نیوز (فارن ڈیسک) فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے ممتاز عالم دین اور تہران کے امام جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی نے کہا ہے کہ مصر میں پیروان مکتب اہلبیت علیھم السلام کے خلاف شدت کی تازہ لہر کا اصل سبب وہابی مفتیوں کے تکفیری فتوے اور اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم ہے۔ وہ شہر مقدس قم میں گذشتہ ہفتے مصر میں جام شہادت نوش کرنے والے شہید شیخ حسن شحاتہ اور انکے ھمراہ شہید ہونے والے تین دوسرے ساتھیوں کے ایصال ثواب کیلئے برگزار کی گئی مجلس ترحیم سے خطاب کر رہے تھے۔ یاد رہے گذشتہ ہفتے شب ولادت حضرت امام زمان عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کی مناسبت سے مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے قریب واقع گاوں الجیزہ میں ایک گھر میں شیعیان اہلبیت علیھم السلام ایک جشن کی تقریب میں شریک تھے جس پر ہزاروں وہابی اور سلفی دہشت گردوں نے دھاوا بول دیا اور معروف شیعہ عالم دین شیخ حسن شحاتہ کو انکے تین دوسرے ساتھیوں سمیت انتہائی بے دردی سے شہید کرنے کے بعد انکے جسد خاکی کو گاوں کی گلیوں میں گھماتے ہوئے اپنے یزیدی آباء و اجداد کی یاد تازہ کر دی۔

 

آیت اللہ سید احمد خاتمی نے کہا کہ مصر کے علاوہ عراق اور دوسرے اسلامی ممالک سے بھی سلفی تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں بیگناہ شیعہ مسلمانوں کی شہادت کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصر کے گاوں الجیزہ میں انجام پانے والا مجرمانہ فعل تاریخ میں ہمیشہ سے دیکھنے کو ملتا ہے اور آئندہ بھی ملتا رہے گا لیکن آج ہم ایسے مجرمانہ افعال سے روبرو ہیں جو اسلام کے نام پر انجام پاتے ہیں، وہابی تکفیری دہشت گرد گروہ اسلام سے خیانت کرتے ہوئے اسلام کے نام پر بیگناہ مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہیں۔  تہران کے خطیب نماز جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی نے یہ تاکید کرتے ہوئے کہ ان وہابی تکفیری دہشت گرد گروہوں کا مقصد حقیقی محمدی ص اسلام کے چہرے کو مخدوش کرنا ہے کہا: ہم اہلسنت کو وہابیت سے جدا سمجھتے ہیں، اہلسنت علماء کی جانب سے وہابیت کے خلاف تقریبا 30 کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔

 

آیت اللہ سید احمد خاتمی نے کہا کہ وہابیت کا آغاز پہلے دن سے ہی مجرمانہ افعال اور بیگناہ انسانوں کے قتل سے ہوا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہابیت عالمی استعماری قوتوں بالخصوص برطانیہ کا بویا ہوا بیج ہے۔ امام جمعہ تہران نے 1216 ہجری قمری میں انجام پانے والے دہشت گردانہ منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سال 12 ہزار افراد پر مشتمل وہابی تکفیری لشکر نے شہر مقدس کربلا پر حملہ کیا اور وہاں بسنے والے تمام بیگناہ افراد کا قتل عام کر دیا جس میں ہزاروں بچے، بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھے۔ اس المناک واقعے میں شہید ہونے والے افراد کی تعداد 3 ہزار سے لے کر 20 ہزار تک بیان کی گئی ہے۔  آیت اللہ سید احمد خاتمی نے کہا کہ وہابی شیعہ مسلمانوں کو مشرک اور کافر کہتے ہیں جس کی بنیاد پر وہابی دہشت گرد گروہ شام سمیت کئی مسلم ممالک میں شیعیان اہلبیت علیھم السلام کے خلاف ایسے جانسوز غیرانسانی افعال انجام دے رہے ہیں جن کے تصور سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مجرمانہ افعال کی چند مثالیں ہمیں شام میں نظر آئی ہیں جہاں ایک تکفیری دہشت گرد نے شامی فوجی کو قتل کرنے کے بعد اس کا دل نکال کر دانتوں سے کاٹ لیا یا ایک گاوں میں صرف شیعہ ہونے کے جرم میں ایک معصوم بیگناہ بچی کو زنجیروں سے باندھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے انتہائی بے دردی سے اس کے ماں باپ کو قتل کر دیا گیا۔

 

امام جمعہ تہران نے کہا کہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی اس لہر کے تین بڑے اسباب ہیں۔ ایک وہ دہشت گرد افراد جو یہ دہشت گردانہ افعال انجام دے رہے ہیں، یہ وہ افراد ہیں جن کی برین واشنگ کر دی گئی ہے اور وہ عبادت سمجھتے ہوئے بیگناہ انسانوں کا خون بہانے میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر وہ دہشت گرد جو کربلا میں خودکش حملہ انجام دینا چاہتا تھا لیکن پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ اس نے اپنے اعترافات میں کہا کہ مجھے ایک بیابان میں جا کر خود کو بم سے اڑانے کی اجازت دیں کیونکہ میں آج رات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مہمان ہوں۔ یہ خودکش بمبار اور سلفی دہشت گرد اس طرح برین واشنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔  آیت اللہ سید احمد خاتمی نے کہا کہ اس فرقہ وارانہ دہشت گردی کا دوسرا بڑا سبب تکفیری وہابی مفتی ہیں جو اپنے بے بنیاد اور غلط فتووں کے ذریعے شیعہ مسلمانوں کے قتل کو جایز قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مفتی دراصل انہیں مفتیوں کی نسل سے ہیں جو نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل کو جایز قرار دیتے تھے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی واضح آیات کی روشنی میں جو شخص بھی "لا الہ الا اللہ" پڑھتا ہے اور کلمہ گو کہلاتا ہے اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

 

استاد حوزہ علمیہ قم اور امام جمعہ تہران نے کہا کہ اسلامی تاریخ میں ابن تیمیہ اور اس کے بعد عبدالوہاب وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے شیعہ مسلمانوں کے کفر اور انکے قتل کو جایز قرار دینے پر مبنی فتوے جاری کئے۔ انہوں نے یہ تاکید کرتے ہوئے کہ وہابیوں کا راستہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بالکل مختلف ہے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں ہر وہ شخص جو دوسرے مسلمانوں پر کفر کا فتوا لگاتا ہے خود کفر سے زیادہ نزدیک ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آیا ہے کہ جو مسلمان دوسرے مسلمانوں کو کافر کہے وہ خود کافر ہے۔  آیت اللہ سید احمد خاتمی نے کہا کہ یہ تکفیری مفتی درحقیقت اسلام کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں اور مسلمان ہر گز ان کی خیانت کو نہیں بھولیں گے اور انہیں قیامت کے دن بھی خدا کے حضور جواب دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف اس دہشت گردانہ لہر کا تیسرا بڑا سبب اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم ہے، اسرائیل وہابی دہشت گرد گروہوں کی مدد اور ان کی ترویج کے ذریعے اسلام کے خوبصورت چہرے کو مخدوش کرنے کے درپے ہے اور اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر متعارف کروانا چاہتا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ ان فرقہ وارانہ دہشت گرد گروہوں کے ذریعے عالم اسلام میں مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اتنا کمزور کر دے کہ اس کیلئے کوئی خطرہ ثابت نہ ہو سکیں۔

Page 1 of 2

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree