وحدت نیوز(آرٹیکل)وہ حسینؑ جو تنہا کھڑا تھا مقتل میں
 اب اس کے ساتھ زمانہ دکھائی دیتا ہے

سفر ِعشق سے نقوشِ عشق ایک ایسی تحریر جو اپنے اندر مختلف جہتیں لئے ہوئے ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ سفرِ اربعین کیا ہے۔؟ اس میں شامل ہو کر کیسا لگتا ہے۔؟ اس کے مقاصد و اہداف کیا کیا ہو سکتے ہیں۔؟ اربعین واک سے دُنیا کو کیا کیا پیغام دیا جا سکتا ہے۔؟ اور اس واک کی افادیت اور اہمیت کیا ہے۔؟کیا امامِ زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کے لئے اس واک سے مدد لی جاسکتی ہے ۔؟عالمی سامراجی قوتوں پر اس اربعین واک کی ہیبت کیسے ہو سکتی ہے ۔؟دُنیا کی اخلاقی اقدار میں اس کا کیا کردار ہے۔؟ دنیا کے کلچر میں تبدیلی کیا اربعین واک سے ممکن ہے ۔؟ایک طاقتور قوم کا وجود کیسے ممکن ہے ۔؟ عالمی انسانی حقوق کا تحفظ کیوں کر ہو سکتا ہے ۔؟ دینی تربیت گاہ کیسے۔؟ ہمت و حوصلہ کیسے پیدا ہوجاتا ہے ۔؟    

یہ عشق امام حسین علیہ السلام ہے جس کو مولا حسین علیہ السلام نے جنم دیا ہے اور بہت سے موضوعات کو اربعین واک جو نجف سے کربلا تقریبا 90سے 95کیلو میٹر ہوتی ہے جنم دیا ہے اور آئندہ آنے والے سالوں میں میں مزید نئے موضوعات جنم لیں گے۔ اور اسرائیل کی نابودی بھی اس واک کا حصہ بن سکتی ہے ،جبکہ عالمی دہشت گرد امریکہ کی موت ان چلتے ہوئے قدموں کے نیچے ہوسکتی ہے اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کو آگے بڑھاو¿ں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس تحریر میں جو بھی کچھ لکھا جائے گا وہ میرے اپنے محسوسات ہیں اور جن سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے وہ سوال اس واک میں شرکت کرنے کی وجہ سے میرے ذہن میں آئے ہیں اس میں لکھے گئے مختلف نام اور واقعات میں نام تبدیل کر دوں گا پھر بھی کسی سے مماثلت ہو تو یہ اتفاقیہ ہوگی اور تمام اہل اسلام سے گزارش ہے کہ میری اس تحریر کو بغور پڑھیں اور اپنے تاثرات کا اظہار بھی کریں ضروری نہیں کہ آپ میری کسی بات یا باتوں سے اتفاق کریں ہو سکتا ہے آپ میری ساری باتوں کو رد کر دیں لیکن میں تب بھی یہی کہوں گا ۔میری اس تحریر کو کو ضائع مت کرنا اور انتظار کرنا کچھ عرصہ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اس سال لندن جانا تھا ویزہ بھی لگ چکا تھا اور پروگرام بھی کم و بیش فائنل ہو چکا تھا کہ ایک دن مجھے ایک عزیز دوست کی کال آئی کہ اس سال اربعین واک میں شرکت کرنا ہے میں نے سرسری سی ہاں کرکے فون بند کر دیا اور سمجھا کہ بات ختم ہوگئی ہے لیکن دو یا تین دن بعد اس محترم دوست کی دوبارہ کال آئی کہ میں نے آپ کا نام گروپ میں لکھوا دیا ہے اس لیے آپ کچھ رقم بھجوادیں اور تیاری کریں ان کا اخلاص دیکھ کر میں نے خاموشی اختیار کی اور دل میں سوچا کہ یہ بلا وہ امامؑ کی طرف سے ہی ہے اور اب مجھے کربلا جانا ہی جانا ہے لہذا میں نے کچھ رقم بھجوادی اور سفر کی سمت بدل دی ،اب میں اربعین کی طرف متوجہ ہوا تو اس پر لکھا کیا گیا سب نظروں کے سامنے آنے لگا میری عمر اس وقت پچاس سے اوپر ہے اور میں ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ اربعین جس میں کروڑوں لوگ شرکت کرتے ہیں میرے جیسا شخص کیسے شرکت کر سکتا ہے اتنا پیدل چلنا میرے بس میں نہیںاور ویسے بھی جب تک ضریح مقدس کے ساتھ نہ لگ جائیں اس دل کو سکون نہیں ملتا سوچتا تھا کہ میرے جیسے کمزور انسان کے لئے تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن اب فیصلہ ہو گیا کہ دنیا کی اس سب سے بڑی اور عظیم واک میں شرکت کی جائے ۔    

میرا نام ڈاکٹر افتخار حسین نقوی ہے اور جو واقعات اس میں تحریر کر رہا ہوں وہ میرے ساتھ یا میرے سامنے ہوئے ہیں اس تحریر کو مختصر اور جامع بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ تھوڑے وقت میںہی آپ تک میرا پیغام پہنچ جائے ۔سفرِ عشق سے نقوشِ عشق ایک ایسی تحریر ہے جوامام حسین علیہ السلام کی برتری اور یزید لعین کی ذلت اور رسوائی کا پرچار کر رہی ہے اور اقوام عالم کو درِ حسینؑ ابن علی علیہ السلام پر آنے کی دعوت دیتی ہے میں تمام دنیا کے افراد کو دعوت دیتا ہوں کم از کم ایک بار ضرور اس واک میں شرکت کریں چاہے دیکھنے کے لئے ہی کیوں نہ ہو اور آکے دیکھو کہ امام حسین علیہ السلام کے عشق کی طاقت کیا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر انسان روتے کیوں ہیں، کس طرح عاشق ِحسین علیہ السلام آپ کی مظلومیت پر نوحہ کناں ہوتے ہیں ،اور کیسے آپ کے ساتھ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ،اور آپ پر ہونے والے ظلم کی کس طرح مذمت کرتے ہیں، اربعین واک اتنا وسیع موضوع ہے کہ میں اس پر بہت کچھ لکھ کر بھی یہی محسوس کر رہا ہونگا کہ اربعین واک کا احاطہ نہیں کر سکا۔     

اربعین واک جو نجف سے شروع ہوتی ہے اور کربلا پہنچ کر اختتام پذیر ہوتی ہے یہ واک ہر سال 19 صفر چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر کی جاتی ہے ۔اس کا فاصلہ تقریبا 80 یا85 کلومیٹر بتایا جاتا ہے جبکہ فاصلہ اس سے بھی زیادہ ہے کیوں کہ نجف اشرف کے اطراف سے جب آپ ہائی وے پر پہنچتے ہیں تو یہ فاصلہ کم و بیش 6یا7 کلومیٹر بنتا ہے۔ جبکہ جو فاصلہ بتایا جاتا ہے وہ صرف ہائی وے پرپول نمبر1 ایک سے پول نمبر 1554تک بتایا جاتا ہے لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ واک تقریبا 90سے95 کلومیٹر کے قریب بنتی ہے اس واک کے دوران محبت امام حسین علیہ السلام کا ذکر کیا جاتا ہے اور دشمنانِ حسین ابن علی علیہ السلام سے بےزاری کا اظہار کیا جاتا ہے ۔

موسمی اعتبار سے دیکھا جائے تو چالیس بتالیس سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت تھا یعنی شدید گرمی تھی لیکن سورج کے سامنے لوگ سینہ تانے ہوئے تھے اور آخر اپنا ہدف پورا کیا جب لوگ نجف اشرف سے کربلا پیدل چل کر پہنچ جاتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو دنیا کا عظیم ترین انسان محسوس کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو امام حسین علیہ السلام سے محبت اور عشق کی باتیں کرتے ہیں اس میں عقیدت کابھی بھرپور اظہار کردیا ہے یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا ہے کہ امام علیہ السلام کی تائید انہیں حاصل تھی۔ بس میں اتنا ہی کہوں گا یہ ایک شاندار واک ہے جو آپ کو مولا علی علیہ السلام سے لے کر کر مولا ابوالفضل عباس علیہ السلام اور مولا امام حسین علیہ السلام کے انتہائی قریب لے جاتی ہے اس میں جو سرور ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن محسوس کیا جا سکتا ہے عاشقان امام حسین علیہ السلام کے نظارے قابل دید ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اربعین واک میں ہر سال عاشقانِ امام حسین علیہ السلام کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے یہ چہلم امام حسین علیہ السلام پر پیادہ روی ہے اس کو مشی کا نام بھی دیا جاتا ہے اور امن واک بھی کہا جاتا ہے اس عظیم الشان واک کے مستقبل میں کیا نتائج برآمد ہوں گے آئندہ آنے والے موضوعات سے اندازہ ہو جائے گا۔

اب اگلے مرحلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس واک کا سب سے بڑا ہدف یا مقصد ایک ایسے کلچر کو جنم دینا ہے جس میں برداشت، عزت و احترام، راواداری، ایثار اور قربانی کے جذبات موجود ہوں یہ ایک ایسا مقصد یا ہدف ہے جس کو میں نے محسوس کیا اس دور میں جب دنیا کو گلوبل ویلج کہا جاتا ہے ملکوں کے درمیان مادی فاصلے کم ہو رہے ہیں مثال کے طور پر بہت سے ممالک مل کر یورو کرنسی استعمال کرتے ہیں یعنی اس کرنسی میں لین دین کرتے ہیں اور کئی ملکوں کی سرحدیں ختم ہوجاتی ہیں اور یہ ایک ہی قسم کی تجارت کی جارہی ہے دوسری طرف ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کے لئے لیے جدید ذرائع مواصلات استعمال کیے جارہے ہیں جس میں ہوائی جہاز، بحری جہاز اور ان کے ساتھ ساتھ پاک چائنا پروجیکٹ جس کو کو سی پیک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملکوں کے درمیان فاصلے کم ہورہے ہیں لیکن یہ عمل بھی مادی حوالے سے ہو رہا ہے جب کے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا بھی اس کام میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں اور قوموں کی ثقافت اور کلچر کو تبدیل کیا جا رہا ہے مثال کے طور پر اگر میں پاکستان کی بات کروں تو کچھ سالوں پہلے ہمارے کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے سوچنے سمجھنے حتیٰ کہ لباس پہننے کے معیار کچھ اور تھے جبکہ غیر محسوس طریقہ سے اس میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں آچکی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے اندر معاشرتی بگاڑ بھی جنم لے رہا ہے عدم برداشت اور خود غرضی کو فروغ مل رہا ہے اور ہماری اخلاقی اور مذہبی روایات بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔مشی پیادہ روی یا امن واک میں میں نے محسوس کیا کہ قوموں کے درمیان ایک مشترکہ کلچر فروغ پارہا ہے جس میںعجزو انکساری ،باہمی عزت و احترام، برداشت درگزر اور رواداری تیزی سے بڑھ رہی ہے ہے اور ایک مشترکہ کلچر کو فروغ مل رہا ہے اور امام حسین علیہ السلام سب کے عنوان سے دنیا میں بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔

یعنی میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ اس امن واک کے ذریعے اسلامی کلچر کا تحفظ کیا جاسکتا ہے اور مادی معاشرے کو روحانی معاشرے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، لہذا اسلامی کلچر کو فروغ دینا اور امام حسین علیہ السلام کے نام پر تمام افراد کا اکٹھے ہونا اس بات کو جنم دیتا ہے کہ اسلامی کلچر کے فروغ کی سمت حسین علیہ السلام اور حسینیت کی طرف ہوگی لہذا ایک اسلامی حسینی معاشرہ عالمی سطح پر وجود میں آجائے گا جیسا کہ ایران اور عراق کی سرحد دونوں ممالک کے درمیان سرحد کو ختم کر دیتی ہے اور ایک برادرانہ عمل سے آگے بڑھ رہے ہیں لہذا اگر میں یہ کہوں کہ ایک غیرمحسوس طریقہ سے اسلامی حسینیؑ کلچر عالمی سطح پر لے جایا جاسکتا ہے لہذا حقیقی روحانی اور اسلامی معاشرت جنم لے گی لہذا میں کہہ سکتا ہوں کہ اقوام عالم کے درمیان ایک مشترکہ معاشرہ جنم لے رہا ہے جس کی بنیاد نہ صرف عجز و انکساری پیار محبت رواداری اور عزت و احترام ہو گا بلکہ ایک مضبوط اسلامی ثقافتی نظام جنم لے گا اور حقیقی اسلام دنیا پر حکومت کرے گا اس سال پانچ کروڑ 96 لاکھ تین ہزار لوگوں نے اس واک میں شرکت کر کے یہ اعلان کر دیا ہے ہے اگرچہ عالمی سامراجی طاقتوں کے لئے یہ قابل قبول نہ ہوگا اور وہ اپنے طور پر اس کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے لیکن چونکہ یہ ایک پاکیزہ پیادہ روی ہے اس لیے دشمن کی کامیابیاں اس میں نظر نہیں آتیں۔ مجھے امید ہے میرے محترم قارئین اس آمن واک کی اہمیت سے آگاہ ہوں گے آگے۔    

آئیے اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں اس میں شامل ہو کر کیسالگتا ہے، اس کے مقاصد اور اہداف کیا ہو سکتے ہیں اس واک میں شامل ہونا تائید امام ؑکے بغیر ممکن نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس واک میں جو بھی شخص شر یک ہوتا ہے ہے اس کے اوپر روحانی اثرات ضرور آتے ہیں۔ لوگوں کے اندر زہدوتقوی میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ مشنِ امام حسین ؑ کو آگے بڑھانے کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں اور اس بات پر لوگ حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ ان شرکاءمیں سے جس سے بھی پوچھا وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ میں نے نے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام کیا اور امام علیہ السلام کی ضریح مقدس تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا یہ بات کسی معجزہ سے کم نہیں گھر میں بیٹھ کر اس بات کو تسلیم کرنا مشکل ہے لیکن ایسا ہوتا ہے اور یہ زندہ حقیقت ہے ۔یہ کیسے ہوتا ہے؟ مجھے نہیں معلوم میں نے اپنے ایک بزرگ عباس صاحب سے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے یہ نظام کیسے چل رہا ہے تو انہوں نے جواب میں کہا تھا مجھے تو ایسا لگتا ہے یہ انتظامات مولا ابوالفضل عباس علیہ السلام کے ہاتھ میں ہیںاور وہ بہترین انداز میں مینج کر رہے ہیں ان کے علاوہ اورکسی میں اتنی استعداد نہیں کہ انتظامات سنبھال سکے ۔

مجھے ان کی بات دل کو لگی اور اب مجھے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ اس امن واک کے منتظم حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام ہی ہیں یہی وجہ ہے کہ کربلا کے پیاسوں کے صدقے میں یہاں پر ایسا انتظام ہے کہ اگر کسی کو پیاس لگی ہے تو اسے انتظار نہیں کرنا پڑتا فورا پانی مل جاتا ہے۔ اگر کوئی بھوک محسوس کرتا ہے تو اس کو فورا کھانا مل جاتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی قیمت کے۔ اب اگر ہم اس کے اہداف کا تعین کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ظہورِ امامِ زمانہ علیہ السلام اس کا پہلا ہدف ہونا چاہیے۔ اسلامی حسینی معاشرہ کو وجود دینا بھی اس کا ہدف ہونا چاہیے۔ اقوام عالم کے درمیان مشترکہ عالمی کلچر کو فروغ دینا۔ اخلاقی و روحانی تربیت گاہ۔ مذہبی لگاو¿ او اور عبادات میں اضافہ ۔مظلو مین جہان کی مدد کرنااور ظالم کے خلاف آواز اٹھانا۔ استعماری طاقتوں کو شکست دینا۔امت مسلمہ کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنا۔ مشترکہ اسلامی اقتصادی نظام کو جنم دینا۔ اسرائیل کی نابودی اور بیت المقدس کی آزادی ۔نظام خمس اور زکواة کو منظم کرکے غریب مسلم ممالک کی امداد کرنا ان اہداف کے لیے کام کرنا۔ اور رہبر معظم کی اس پیشگوئی جس میں آپ نے فرمایا اسرائیل آئندہ 25برس نہیں دیکھ پائے گا سچ کرنا ۔

 اس کے علاوہ امن واک سے دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ حسینی معاشرہ ایسا معاشرہ ہے جس میں بہترین معاشرتی خصوصیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یوسف اورندیم واک میں شریک تھے انہوں نے کسی بوڑھے شخص کو دیکھا جو تھکا ہوا محسوس ہو رہا تھا انہوں نے اس کا سامان اٹھایا اور ایک طرف بٹھا کے پانی وغیرہ پلایا اور اس کو دبانے لگے جبکہ اس بابا جس کا نام حسینؑ ہے ان کا عزیز نہیں ہے اسی طرح کے بے شمار واقعات دیکھے جن کو اگر لکھوں تو ایک اچھی خاصی موٹی کتاب پرنٹ کی جاسکتی ہے یہاں ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں جو ہر وقت متوجہ رہتے ہیں کہ اس کے ساتھ چلنے والے کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہر کوئی ایک دوسرے کے لئے چاہتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے کی خدمت کر سکیں میں اس پوری واک اور پھر روضہ حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام پر کسی ایک شخص کو بھی نہیں دیکھا کہ وہ دوسرے سے لڑ رہا ہو، غصہ کر رہا ہو، بلکہ اگر غلطی سے کسی ایک شخص کو دوسرے شخص کا ہاتھ پاو¿ں وغیرہ لگ جائے تو فورا معافی کا خواستگار ہوتا ہے اور دوسرا شخص بھی فورا اس کو معاف کر دیتا ہے لوگوں کا سامان سڑکوں کے کنارے پڑا رہتا ہے سینکڑوں لوگ اکٹھے رہ رہے ہوتے ہیں لیکن کسی کی کوئی چیز چوری نہیں ہوتی اور کوئی کسی دوسرے کی چیز کو ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ ہر ایک خوبصورت نظارہ ہے آپ کو جانا چاہیے میں تو کچھ بھی لکھ نہیں پا رہا یہ تو صرف آؤٹ لائین ہوں گی ۔میں آپ کو دعوت دیتا ہوں اس مشی،پیا دہ روی یا اربعین واک میں زندگی میں ایک دفعہ ضرور شرکت فرمائیں۔    

 آئیے اب اس بات کا جائزہ لیں عالمی سامراجی قوتوں کے لیے یہ واک کیسے ہیبت قائم کر رہی ہے، عالمی سامراج نے ہمیشہ مسلمانوں کو لوٹا ہے اور ان کے درمیان فرقہ واریت کو جنم دے کراپنے مذموم مقاصدحاصل کئے ہیں اور مسلمانوں کو اقتصادیات میں کمزور رکھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی پیچھے رکھا اور مسلمانوں میں مادی کلچر کو فروغ دے کر بے حیائی کو جنم دے کر اسلامی حدود کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔مختلف فرقوں کے درمیان مختلف قسم کی رسوم ایجاد کرکے کے نہ صرف مسلم نوجوانوں کوحقیقی روحانی منزل اور قربِ خدا سے دور کر رہا ہے بلکہ اپنے زرخرید شیطان نما انسانوں کو شریعت محمدی میں تبدیلی کے اہداف بھی تجویز کیے ہوئے ہیں ۔مسلم حکمرانوں کو مختلف حربوں سے اپنا غلام بنایا ہوا ہے اور اگر کوئی مسلم حکمران عالمی سامراج کا چہرہ بے نقاب کرتا ہے تو یا تو اس سے اقتدار چھین لیا جاتا ہے اور یا اس کو قتل کر دیا جاتا ہے۔    ساری دنیا کے غیر مسلم ممالک اور کچھ مسلم ممالک بھی اسرائیل کے وجود کو دوام بخشنا چاہتے ہیں اس کے لیے کبھی نیو ورلڈ آرڈر اور کبھی داعش کبھی فلسطینیوں پر ظلم کبھی افغانستان، بحرین ،کشمیر اور یمن میں بربریت جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مسلم اُمہّ شدید نفسیاتی دباو¿ میں ہے اسلامی ثقافت اور کلچر کو بوسیدہ قرار دے کر جدید اسلامی ثقافت کا تعارف کرایا جارہا ہے جس کا شریعت محمدی سے کوئی تعلق نہ ہے اور اس میں تیزی سے کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔ہماری خواتین،بچیاں،بچے اسلامی احکامات سے نہ صرف آگاہ نہیں ہیں بلکہ بہت ساری جگہوں پر سوال جواب جنم لیتے ہیں یہ ایک عالمی سازش ہے جس کے ذریعے ہمارے اسلامی اور معاشرتی کلچر کو تباہ کیا جارہا ہے اور شرعی حدود کو پامال کیا جارہا ہے۔باہمی احترام، عزت ایک دوسرے کی قدردانی اور جائز ناجائز تعلقات کو فروغ دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں مادی مسائل نے تو جنم لیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی روحانی اور جنسی مسائل بھی ایک اژدہا کی صورت میں موجود ہیں اور ان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔    

اربعین واک اس سازش کا بھرپور جواب ہے آئندہ چند سالوں میں دنیا محسوس کرے گی کہ بے حیائی، بدخلقی، ناانصافی، جبر و تشدد اور دیگر ایسی تمام چیزوں کی معاشرہ میں قدر نہیں ہے بلکہ اخلاق، روحانی قوت، دینداری، خداپرستی ،حسن خلق، عجز و انکساری، پیار محبت، خدمت اورہمدردی کے جذبات معاشرے میں جنم لے رہے ہوں گے اور اسلامی ثقافت اسلامی معاشرے کا حصہ بنے گی۔خداسے قربت اوردین داری کی طرف لوگ متوجہ ہوں گے اور اس طرح یہ ایک ایسی قوت ہوگی جس میں پاکیزگی کا عنصر واضح ہو گا۔ اور یہ عالمی شیطانی طاقتوں اور سامراجی حکومتوں کے لیے ہیبت ہوگی جس کے بعد شیطان مردود اور اس کے چیلے خود اپنی موت آپ مر جائیں گے۔    

اب بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں یہ مشی پیادہ روی اربعین واک یا امن واک ایک عالمی طاقتور قوم کو کیسے وجود دے سکتی ہے لیکن اس عمل سے ایسا ممکن ہے تو اس سلسلہ میں میں اپنے محترم قارئین سے گزارش کروں گا کہ آج کل کے حالات میں انسان تساہل پسند اور آسائشوں کا عادی ہو چکا ہے جسمانی مشقت ایک خواب بنتا جارہا ہے جس کی دلیل کے طور پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے کوئی معمولی سا بھی کام کرنا ہو تو اس میں مشینری استعمال کی جاتی ہے پرانے زمانے کے لوگ مشقت کے عادی تھے اور اپنے امور احسن طریقہ سے انجام دیتے تھے اب اگر غور کریں تو سب سے مضبوط طبقہ جو کھیتی باڑی کرتا تھا اس کے لیے پیدل چلنا اور مشقت والے کام کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن آج کا زمیندار ان کاموں کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہل چلانایا دیگر ایسے امور انجام دینا جو جسمانی طاقت کا مظہر تھے۔    

 اسی طرح عام زندگی میں گاڑی اور موٹر سائیکل کا استعمال بہت زیادہ ہے جس کی وجہ تساہل کے ساتھ ساتھ وقت کی کمی بھی بتائی جاتی ہے بات مختصر کر رہا ہوں کیونکہ مضمون کی طوالت میرے مدنظر ہے اور میں اس کو مختصرا سمیٹنا چاہتا ہوں مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم تساہل اور سستی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے مختلف عوارض کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور کبھی ذہنی طور پر بھی ہمت اور حوصلہ ساتھ چھوڑ دیتا ہے اس ماحول میں عشقِ امام حسین علیہ السلام ان کے اندر ایک ایسی حرارت پیدا کر دیتا ہے جس سے ان کی سستی اور ضعف ختم ہوجاتا ہے اور ایک بیمار لاغر کبھی پیدل نہ چلنے والا جب یہ واقعہ انجام دیتا ہے تو اپنے اندر بھرپور جسمانی اور روحانی توانائی محسوس کرتا ہے اور واپس اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر پہلے سے زیادہ مستعدی سے کام کرتا ہے اور مشقتوں سے گھبرانا چھوڑ دیتا ہے لہذا اس کی روشنی میں یہ قیاس بالکل درست ہوگا کہ عالمی طاقتور قوم جنم لے رہی ہے جو بالآخر ظہور امام زمانہ علیہ السلام کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔    

 اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اگر دنیا میں کسی جگہ پر انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے تو اس عظیم موقع پر ان کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جا سکتی ہے اور اس طرح انسانی حقوق کا بھرپور دفاع ہو سکتا ہے۔ اس کو بچوں کی جسمانی ذہنی روحانی اور علمی تربیت گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے کہ یہ اعجازِ امام حسین علیہ السلام ہے اور دنیا حیران ہے کہ اتنے لوگ کیسے ایک جگہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ان کی رہائش کھانا پینا اور دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہونگی اگر اس بات کو سوچتے رہو گے تو ورطہ حیرت میں ڈوبے رہو گے ہاں اگر ایک دفعہ اس واک میں شرکت کرو گے تو کبھی یہ وہم دماغ میں نہیں آئے گا یہ حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام کی قیادت میں ایک عظیم روحانی انقلاب ہے جو اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔    

اگرچہ اس پر اور بہت کچھ لکھا جا سکتا تھا لیکن مختصر اس لیے لکھا کہ آپ قارئین محترم کا زیادہ وقت نہ لگے اور آپ خداوند متعال کی تائید سے اس واک کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ متصل ہو جائےں۔اب بات یہ ہے کہ اس عظیم واقعے کے بارے میں اگر اتنے خیالات میرے ذہن میں آئے ہیں تو دشمن بھی اس سے غافل نہیں ہوگا اور یقینا اس اربعین واک اور اس کے نتائج پر گہری نظر رکھے ہوئے ہو گا اور اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے سازشیں بن رہا ہوگا اس کا ایک اشارہ اس دفعہ اربعین سے کچھ دن پہلے بغداد میں جوحالات پیش آئے کو سمجھا جاسکتا ہے۔    

لہذااب ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داری پوری کریں اس و اک کا حصہ بن جائیں اور یہ کروڑوںلوگ امام زمانہ علیہ السلام کے منتظر ہیں جب آئیں گے تو آپ کے لیے لبیک یا امامؑ کی صدائیں دنیا کے ہر کونے میں سنی جائیںگی ۔اور آخر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں اگر واک کی منت مانی جائے اور واک میں شرکت کرکے التجا اور دعائیں کی جائیں تو باطفیلِ حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام ثاراللہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو وسیلہ بنایا جائے اور دل سے توسل کیا جائے تو کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔اور آخر میں دعا ہے جو جو اس اربعین واک میں شرکت کریں امام مہدی علیہ السلام امام زمانہؑ اس کے حامی و ناصر ہوں دشمنان حق ذلیل اور رسوا ہوں حق والوں کو خداوند متعال فتح عظیم عطا کرے آمین۔

تحریر: ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی (فیصل آباد)

وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ صحابی ہیں جنھوں نے دوسری بیعت عقبہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ کثیر الحدیث صحابی اور حدیث لوح کے راوی ہیں۔ حدیث لوح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک کو ذکر فرمایا ہے۔ جابر کے والد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور دوسری بیعت عقبہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کیا اور ان بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے جنہيں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبیلوں کے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عبد اللہ نےمدینہ منورہ میں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشش کی۔ ابن کثیر دمشقی جابر کے والد عبداللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا: خدا  وند آپ کو اے انصار جزائے خیر دے خصوصا  العمرو بن حرام (جابر کا کنبہ) اور سعد بن عبادہ کو۔1۔ عبداللہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔2۔

جابر رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی جنگوں اور اہم واقعات میں موجود تھے ، جیسے: غزوہ بنی مصطلق،غزوہ احزاب، غزوہ  بنی قریظہ ، صلح حدیبیہ ، غزوہ خیبرہ ،سریہ خبط ، فتح مکہ ، محاصرہ طائف  اور غزوہ تبوک  ۔ 3۔ مورخین اورمحدثین نے جابر بن عبد اللہ انصاری کا نام ان لوگوں کی فہرست میں ذکر کیاہے جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہاتھوں ایمان لانے والوں میں سے سب  سے پہلے قرار دیتے  ہیں۔4۔ شیخ مفید نے جابر کو ان اصحاب کی فہرست میں شامل کیا جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم   کا جانشین بلافصل سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق ،ابو  زبیر مکی( جو جابر کے شاگردوں میں سے تھے ) نقل کرتا ہے: میں نے جابر کو مدینہ میں انصار کے محلوں اور ان کے محافل میں  عصا ہاتھوں میں لئے گھومتے ہوئے دیکھا  جبکہ وہ یہ کہ رہے تھے : اے گروہ انصار: اپنے فرزندوں کی تربیت حب  علی علیہ السلام کےساتھ کیا کرو اور جو اس  سے انکار کرے تو اس کی ماں  کے کردار کاجائزہ لو۔ 6۔

ایک دن امام باقر علیہ السلام نے جابر سے حضرت عائشہ اور جنگ جمل کے بارے میں پوچھا۔ جابر نے جواب دیا: ایک دن میں عائشہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ علی بن ابی طالب کے بارے میں کیا  کہتے ہو؟ انہوں نے اپنا سر جھکایا اور ایک لمحے کے بعد سر اٹھا کر یہ اشعار پڑھنا شروع کیا: "جب سونے کو جلایا جاتاہے ، تو اس سے ساری ملاوٹیں اورناخالصی نکل جاتی ہے۔ ہم  انسان بھی خالص اورناخالص ہیں۔ علی ہمارے درمیان ایک معیار ہے جو کھرے اور کھوٹے کوسرے سے الگ کرتا ہے۔7۔

جابر کہتے ہیں: ہم  بصرہ میں امیر المومنین  علیہ السلام کے ساتھ تھے ، جنگ ختم ہوگئی اور میں  رات کو اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا  تم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہو؟  میں نے کہا:ہم دنیا کی برائی کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جابر! دنیا کی برائی کیوں کر رہے ہو ؟ اس کےبعد آپ نے خدا کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد دنیا  کے فوائد پر گفتگو کی اور پھر میرا ہاتھ  پکڑ کر قبرستان لے گیا اور مرنے والوں کے بارے میں بات کی۔8۔ اسی طرح جنگ صفین اور نہروان میں بھی جابر  امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں رہا ۔نہروان سےواپس آتے وقت جو واقعہ پیش آیا تھا جابر نے  اسے بھی نقل کیا ہے۔ 9۔

کتاب  وقعہ الصفین جو قدیم کتابوں میں سے  ایک کتاب ہے، جابر بن عبد اللہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:معاویہ اس حالت میں مرے گا کہ وہ میری امت میں شامل نہیں ہوگا۔10۔ معاویہ کے بارے میں جابر کا  موقف  اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جابر نے اس حدیث کو مستقیما اور کسی واسطہ کے بغیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔اسی طرح یہ واقعہ بھی جابر کے موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کے آخری سال میں معاویہ نے تین ہزارافراد کو بسر بن ارطاۃ  کی سربراہی میں مدینہ بھیجا اور بسربن ارطاۃ سے کہا: مدینہ جاو  اوروہاں افراد کو منتشر کرو۔ تم جہاں بھی جاو  لوگوں کو ڈراؤ ۔ جوہماری اطاعت سے انکار کرے ان کے اموال کو لوٹ لو ، اور اہل مدینہ کو ڈرا کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کرو کہ  ان کے پاس اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

لشکرمعاویہ جب مدینہ پہنچا تو انہوں نےمعاویہ  کے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا۔ مدینہ کے لوگوں کوجنگی سہولیات اورافراد کی کمی کا سامنا ہوا  جس کی وجہ سے بیعت کرنے کے  علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ملا۔  قبیلہ بنی سلمہ  جو جابر کا رشتہ دار تھا ، بھی بیعت کے لئے بسر بن ارطاۃکےپاس پہنچا ۔ اس نے  پوچھا کہ جابر بھی ان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا جب تک جابر ان کے ساتھ نہیں آتا تب تک  ان سے بیعت نہیں لوں گا۔جابر کہتے ہیں:میں ڈر گیا  اس لئے  وہاں سےبھاگ  گیا۔ لیکن بسر نے بنی سلمہ جابر کے قبیلہ والوں سے کہا : جب تک کہ جابر خود نہ آئے کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے۔ میرے رشتہ دار میرے پاس آئے اور کہا :خدا کی قسم  ہمارے ساتھ چلو اور اپنی جان اور اپنے رشتے داروں کے جانوں کی حفاظت کرو ، کیونکہ اگر آپ  نےایسا نہیں کیا تو ہمارے لوگ مارے جائیں گے اور ہمارے اہل خانہ کو اسیر کیاجائے گا۔

جابر نے ایک رات  سوچنے  کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  زوجہ ام سلمہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لئے چلا گیا تو انہوں  نے  جابر سے کہا: اس کی بیعت کرو اوراپنی اور رشتہ داروں کی جان بچاو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ بیعت، بیعت ضلالت ہے ۔یہ تقیہ ہی تھا جس نے اصحاب کہف کو مجبور کیا کہ وہ دوسرے لوگوں کی مانند گردن میں صلیب لٹکائیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کریں ۔۱۰۔
بعض روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جابر کا رابطہ ہمیشہ دوستانہ اور محبت آمیز تھا۔ ایک دفعہ جابر بیمار پڑ گئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے اس وقت تشریف لے گئے جب وہ اپنی تندرستی سے مایوس ہوچکے تھے۔ جابر نے بہنوں کے درمیان  ترکے کی تقسیم کے بارے میں مختلف سوالات پوچھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں طویل عمر کی خوشخبری دی اور ان کے سوال کے جواب میں  یہ آیت{يَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہ ُ يُفْتِيکُمْ فِي الْکَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَيْسَ لہ ُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ يَرِثُہَآ إِن لَّمْ يکُن لَّہَا وَلَدفاِنکَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِن کَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذکَرِ مِثْلُ حَظِّ الا نثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّہ ُ لَکُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}(لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے)12۔نازل ہوئی جو آیت کلالہ کے نام سے مشہور ہے۔13۔جابر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کرنے کے علاوہ صحابہ اور حتی بعض تابعین سے بھی روایات نقل کی ہیں۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، طلحہ بن عبیداللہ، عمار بن یاسر، معاذ بن جبل، اور ابو سعید خدری ان اصحاب میں سے ہیں جن سے جابر نے روایات نقل کی ہے۔14۔جابر اس قدر دینی معارف و تعلیمات حاصل کرنے کے طالب و مشتاق تھے کہ انھوں نے ایک صحابی رسول سے براہ راست حدیث رسول سننے کے لئے شام کا سفر اختیار کیا۔15۔اس شوق نے آخرِ عمر میں جابر کو خانۂ خدا کی مجاورت پر آمادہ کیا تاکہ وہاں رہ کر بعض حدیثیں سن لیں۔16۔وہ حدیث کے سلسلے میں نہایت بابصیرت اور نقاد تھے ۔مشہور شیعہ احادیث کی اسناد میں جابر کا نام ذکر ہوا ہے۔ ان مشہور احادیث میں حدیث غدیر17 حدیث ثقلین18۔ حدیث انا مدینۃ العلم19۔حدیث منزلت، 20۔ حدیث رد الشمس،21۔اور حدیث سد الابواب 22۔ شامل ہیں۔

اسی طرح جابر ان احادیث کے بھی راوی ہیں جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد بارہ ائمہ کے اسمائے گرامی بیان فرمائے ہیں23۔اور حضرت مہدی(عج) کی خصوصیات متعارف کرائی ہیں۔24۔حدیث لوح ان مشہور احادیث میں سے ہے جو جابر نے نقل کی ہے اور ان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ائمۂ اثناعشر کے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔25۔

شیخ طوسی نے جابر کوامام حسین علیہ السلام کے  اصحاب کے طور پر ذکر کیا ہے۔26۔ واقعۂ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جابر بن عبداللہ انصاری مدینے کے معمر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے لئے فکرمند تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز میدان کربلا میں عبید اللہ بن زیاد کی جانب سے بھیجے گئے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے جابر بن عبداللہ کا نام اپنے مدعا کے گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔27۔ عاشورہ کے دن جب امام نے دشمن سے مخاطب ہو کر خطبہ دیا تو آپ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میں رسول اللہ کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا  ر سول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمیرے اور میرے بھائی کے بارے میں نہیں فرمایا:  یہ دو  نوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب باتیں صحیح نہیں تو کچھ اصحاب ہیں ان سے پوچھو جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو سعید خدری  وغیرہ  ۔28۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سننے کے کچھ دن بعد ہی جابر بن عبد اللہ انصاری نے کربلا کا سفرشروع کیا۔ یزید اور ابن زیاد جیسےظالم اورسفاک افراد نے بھی اسے اس سفر سے نہیں روکا۔ جابر کے ساتھ اس سفر میں اس کا شاگرد عطیہ عوفی بھی  تھا۔ شیخ طوسی نے جابر کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر  قرار دیا ہے جو 20صفر 61 ہجری کو کربلا میں وارد ہوئے۔29۔

طبری  اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی  علیہ السلام  کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادرپہنا ، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اوراپنے آپ کو  اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم  اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ حسین ابن علی کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابرنے کہا : میرا ہاتھ قبر حسین پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھا  ۔ اس نے  قبر حسین ابنی علی کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا ۔ جب  میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں  آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ)کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھرجابر خود جواب دیتا ہے "آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس  کو جسم سے جدا کیا گیا ہے ؟میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا  کے فرزند ہیں   اورآپ اس طرح کیوں نہ ہو ، کیونکہ خدا کے رسول  نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے  اگرچہ مومنین آپ  کی شہادت سے محزون ہیں سے نالاں ہیں ۔خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو  ایسی  شہادت نصیب ہوئی  جیسےیحیی بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔

اس کے بعدجابر نے سید الشہداء  علیہ السلام کے اطراف میں موجود  قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ  لوگوں پر اے پاکیزہ   ہستیاں کہ آپ  لوگوں نے حسین  ابن علی علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ  یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے   حضرت محمد مصطفی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہم  بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں ۔

عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے ۔نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے  نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہےلیکن  ان لوگوں کےسروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اوران کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں ؟جابر نے مجھے جواب دیا  اےعطیہ! میں نے اپنے محبوب رسول خدا سے  یہ کہتے ہوئے سنا ہےکہ اگرکوئی  کسی گروہ کو چاہتا  ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور  ہوں گے ، اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نےمحمد مصطفی کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ  بھی  وہی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کا تھا ۔پھر اس  کے بعد جابرنے کہا:میرا ہاتھ پکڑ و اور مجھے  کوفہ کی طرف لے چلو۔

جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے:  اے عطیہ! کیا  تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں ۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو  جب تک کہ وہ آل محمد سے محبت  اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمد کے دشمنوں سے عداوت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے دشمنی کرتےہیں گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہواور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمد کےچاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی  بوجھ کو برداشت نہ کر سکے تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمد کی محبت کی وجہ سےمضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک  آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔ 30۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز پر آپ کے اصحاب کی تعداد بہت کم تھی اور جابر ان ہی انگشت شمار اصحاب میں شامل تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے حجاج بن یوسف ثقفی کے تعاقب سے محفوظ تھے۔31۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے جابر بن عبداللہ انصاری سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا: اے جابر: تم اس قدر عمر پاؤگے کہ میری ذریت میں سے ایک فرزند کا دیدار کرو گے جو میرے ہم نام ہوں گے۔ وہ علم کا چیرنے پھاڑنے والا ہے یبْقَرُالعلم بَقْراً؛ علم کی تشریح کرتا ہے جیسا کہ تشریح و تجزیہ کا حق ہے۔ پس میرا سلام انہیں پہنچا دو۔32۔جابر کو اس فرزند کی تلاش تھی حتی کہ مسجد مدینہ میں پکار پکار کر کہتے تھے "‌یا باقَرالعلم" اور آخر کار ایک دن امام محمد بن علی علیہ السلام کو تلاش کیا ان کا بوسہ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام انہیں پہنچایا۔

جابر عمر کے آخری سالوں میں ایک سال تک مکہ میں بیت اللہ کی مجاورت میں مقیم رہے۔ اس دوران عطاءبن ابی رَباح اور عمرو بن دینار سمیت تابعین کے بعض بزرگوں نے ان سے دیدار کیا۔ جابر عمر کے آخری برسوں میں نابینا ہوئے اور مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔33 ۔مِزّی نے جابر کے سال وفات کے بارے میں بعض روایات نقل کی ہیں جن میں جابر کے سال وفات کے حوالے سے اختلاف سنہ 68 تا سنہ 79 ہجری تک ہے۔34۔ بعض مؤرخین اور محدثین سے منقولہ روایت کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری نے سنہ 78 ہجری میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور والی مدینہ ابان بن عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔35 ۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوالہ جات:
1۔ابن کثیر دمشقی، جامع المسانید، ج 24، ص 359.
2۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص286؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208، 211۔
3۔ حسین واثقی، جابر بن عبدالله انصاری، ص 63 ـ 50۔
4۔ شرح نہج البلاغۃ ابن ابی‌‌الحدید، ج 13، ص 229؛ ابن‌شہرآشوب، المناقب، ج 2، ص 7؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص 198۔
5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص 47 و علل الشرایع، ص 142؛ بحارالأنوار، ج 38، ص 6 ـ 7۔
6۔ علی احمدی میانجی، مواقف الشیعۃ، ج 3، ص 281۔
7۔ ابن‌شعبہ حرانی، تحف العقول، ص 186 ـ 188؛ بحارالأنوار، ج 70، ص 100 ـ 101۔
8۔ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج 1، ص 220؛ ابن‌اثیر جزری، أسدالغابہ، ج 1، ص 308.شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 2323؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ج 3، ص 264؛ بحارالانوار، ج 33، ص 439۔
9۔نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، ص 217۔
10۔ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 197 ـ 198؛ شرح نہج البلاغۃه ابن ابی الحدید، ج 2، ص 10؛ ثقفی، الغارات، ج 2، ص 606۔
11۔ سورہ نساء (4) 176۔
12۔طبری، جامع طبری؛ و محمد بن طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن۔
13۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208ـ209؛ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444۔
14۔خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، 1395، 1395، ص109ـ 118۔
15۔ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191۔
16۔عبدالحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، ج1، ص57ـ60۔
17۔ صفار قمی، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد «‌ص »، ص414۔
18۔ابن ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص34۔
19۔ابن بابویہ، معانی الاخبار، 1361 ش، ص74۔
20۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج1، ص345ـ346۔
21۔ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص189ـ190۔
22۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص258ـ259؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص282۔
24۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1363ش، ج1، ص253، 286، 288۔
25۔ رجال طوسی، ص 72۔
26۔محمد بن یعقوب کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص527 ـ 528؛ ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص308ـ313۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص97۔
27۔ ارشاد مفید، ص 234 و بحارالانوار، ج 45، ص 6۔
28۔ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 730 و بحارالأنوار، ج 95، ص 195۔
29۔ عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارۃ المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،‌ح 62.
30۔ محمدبن ابوالقاسم عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص74ـ 75۔
31۔ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص123ـ124۔کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص304، 450ـ469۔
32۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191ـ192۔
33۔ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص453ـ545۔
34۔قتیبہ، المعارف، ص307۔
35۔ ابن عساکر، علی بن حسن، مدینۃ الدمشق، ج 11، ص 237۔

وحدت نیوز(نواب شاہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے بچھیری ضلع نواب شاہ زمیں وھیب زرداری کی رہائشگاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اور اربعین حسینیؑ کی مناسبت سے اصغریہ آرگنائزیشن کے زیراہتمام شہر کے مین چوک پر منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کربلا معلی میں کروڑوں انسانوں کا عالمی اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ کربلا کا پیغام آج عالم گیر حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آج کی پریشان انسانیت کے تمام مسائل کا حل پیغام کربلا میں پوشیدہ ہے۔

انہوں نےکہا کہ اربعین حسینی کے موقع پر حکومت فول پروف سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنائے۔ انہوں نےکہا کہ 80 ھزار شہداء کے وارث آج بھی ریاستی اداروں سے انصاف طلب کرتے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ پاکستان کے عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں پینے کا صاف پانی صحت صفائی اور معیاری تعلیم جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس سے بھی محروم ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے سیاستدانوں کی جانب سے  عوامی مسائل کی بجائے اقتدار کی رسہ کشی کا آغاز افسوس ناک ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) حکومت عزاداری سید الشہداءؑ کے پروگرامات، مجالس و جلوس ہائے عزاء کو سہولیات فراہم کرے۔ گزشتہ حکومت کی ایس او پی ابھی تک جاری ہیں جو کہ افسوس ناک ہے۔ہم کسی کو اپنے بنیادی انسانی اور آئینی حق پر قد غن لگانے کی اجازت نہیں دینگے، ان خیالات کا اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔

انہوں نےکہا ہےکہ اس وقت ہنگو اور کوہاٹ کے اندر ہمارے لئے مشکلات پیدا کی جار ہی ہیں ۔ بعض علاقوں میں متعصب انتظامیہ اور ڈی پی او رسول پاکؐ کے نواسےؑ کی عزادری میں رکاوٹیں ڈال رہےہیں ۔خیبر پختونخواہ حکومت شرپسندوں کو لگام دے، نیشنل ایکشن پلان کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی بجائے ملکی سلامتی کا جوتقاضہ ہے اس کے روح کیمطابق عمل کیا جائے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ محرم امام حسین ؑکا مہینہ ہے اور صفر ثانی زہرہ حضرت زینب سلام علیہ اور اسیروں سے منسوب ہے ۔ چہلم امام حسین کے دن دنیا کے کاموں کو ترک کرکے بھر پورانداز میں اربعین کے جلوس عزا میں شرکت کی جائے یہ ہمارا فریضہ ہے یہ ہم پر ان ہستوں کا حق ہے جنہوں نے پوری بشریت کی نجات کے لئے عظیم قربانیاں دیں ہجرت کی اپنے بچے قربان کئے ۔جنہوں نے ہمیں ظالموں کے مقابلے میں حوصلہ اور ہمت دینے کے لئے عظیم قربانیاں دیں صبر کیا ان کا حق ہے ہماری گردن پر کہ ہم ہر زمانے کے یزیدوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان سے سکھیں اور ان کا شکر یہ ادا کریں اور ان کی عزاداری میں شریک ہوں ۔

انہوںنے مزیدکہاکہ  اہلسنت اور اہل تشیع سب حسینی چہلم امام حسین ؑ کو شایان شان طریقے سے منعقد کریں ہمیں یقین ہے کہ اس عمل پر رسول خدا ؐراضی ہونگے کہ ان کے نواسےؑ کے غم کو منائیں وہ حسینؑ جو کہ راکب دوش مصطفیؐ تھا جسے کربلا کی زمین پر شہید کرنے بعد جس کی لاش پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ عزاداری سید الشہداءؑ کے پروگرامات درحقیقت ظلم کے خلاف احتجاج ہے جو رہتی دنیا جاری و ساری رہےگا۔

وحدت نیوز(نجف اشرف)سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اربعین حسینی ؑمیں شرکت کیلئے نجف اشرف پہنچ چکے ہیں ۔ ان کے ہمراہ ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امورمالیات علامہ شیخ اقبال بہشتی، مرکزی سیکریٹری امور تعلیم نثارعلی فیضی،مسئول دفتر شعبہ امور خارجہ علامہ ضیغم عباس بھی نجف اشرف پہنچے ہیں ۔

علامہ راجہ ناصرعباس جعفری ایم ڈبلیوایم کے رہنماؤں اور پاکستان سمیت دیگر ممالک سے آنے والے عہدیداران وکارکنان کے ہمراہ آج قبل از مغربین مشی از نجف تا کربلا کا آغاز کریں گے۔ جبکہ ایم ڈبلیوایم شعبہ امور خارجہ کے زیر اہتمام20 صفر المظفر، 19اکتوبر بروز ہفتہ،بوقت9 بجے شب،برمکان حرم حضرت ابا عبداللہ الحسین ع، باب الرجاء، خاتم الانبياء ہال، کربلائے معلیٰ میں دوسری سالانہ بین الاقوامی سید الشہداء ؑکانفرنس سے خصوصی خطاب کریں گے ۔

وحدت نیوز(نجف اشرف) مجلس وحدت مسلمین پا کستان کے شعبہ امور خارجہ کا تنظیمی اجلاس نجف اشرف میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں شعبہ امور خارجہ کے قم المقدس، مشہد، نجف اور کویت میں قائم دفاتر کے مسئولین نے شرکت کی۔ اس تنظیمی اجلاس کی صدارت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کی جبکہ مرکزی سیکرٹری امور مالیات علامہ اقبال حسین بہشتی اور مرکزی سیکرٹری تعلیم برادر نثار علی فیضی نےخصوصی شرکت کی۔

شعبہ امور خارجہ کی جانب سے اجلاس میں مرکزی سیکرٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی، ڈپٹی سیکرٹری امور خارجہ برادر سید ابن حسن بخاری، معاون خصوصی شعبہ امور خارجہ انجینئر برادر سید شہباز حسین شیرازی، مسوول دفتر امور خارجہ حجت الاسلام ضیغم عباس، شعبہ قم کے ڈپٹی سیکرٹری حجت الاسلام عیسی امینی، شعبہ مشہد کے سیکرٹری حجت الاسلام عقیل عباس خان، شعبہ نجف کے سیکرٹری حجت الاسلام خاور عباس نقوی کے علاوہ مشہد سے مولانا آزاد حسین، نجف سے مولانا سید باقر نقوی، مولانا امتیاز علی جعفری اور قم سے مولانا بشارت امامی نے بھی شرکت کی۔

اجلاس کے آغاز میں مرکزی سیکرٹری شعبہ امور خارجہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اجلاس کے اغراض و مقاصد اور شعبہ کی تنظیمی ہیت کا تعارف کروانے کے ساتھ شعبہ امور خارجہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اجلاس میں مشہد، قم، نجف اور کویت کے نمایندہ دفاتر نے اپنی اپنی کارکردگی پیش کی۔ اجلاس میں شریک مرکزی کابینہ کے اراکین علامہ اقبال بہشتی اور برادر نثار فیضی نے اظہار خیال کے دوران شعبہ امور خارجہ کی کارکردگی کو سراہا اور اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر شعبہ امور خارجہ کو مرکز سے بھرپور حمایت اور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

اپنی نوعیت کے اس پہلے تنظیمی اجلاس کے آخر پر مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا عصر حاضر تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ ہمیں خود کو اس موقع پر اسلام اور مقاومت کی کامیابی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا شعبہ امور خارجہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علمی مراکز میں موجود اپنے نمایندہ دفاتر کے ذریعے مستقبل کا کیڈر تیار کریں۔

انہوں نے کہا یہ عصر عصر ظہور ہے اس عصر میں ظہور کے مقدمات فراہم ہورہے ہیں لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ظہور کی زمینہ سازی کرنے والوں سے مکمل ہم آہنگ اور رابطے میں رہیں۔ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں اور اس نہضت میں اپنا کردار ادا کریں اور اس کام کی ذمہ داری شعبہ امور خارجہ کی ہے۔اجلاس کے آخر میں تمام شرکاء کے لیے شعبہ امور خارجہ کے نمایندہ دفتر نجف کی جانب سے ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔

Page 1 of 2

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree