وحدت نیوز(آرٹیکل) دہشت گردی کا ناسور اس خطہ ء ارضی سے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا،بس تھوڑا وقفہ ہوتا ہے اور پھر کوئی بڑی واردات سب کو ہلا بلکہ جگا دیتی ہے،پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کو اضلاع میں بدل دیا گیاہے مگر ابھی تک اس پہ بہت کام ہونا باقی ہے ابھی تو ابتدائی مراحل ہیں،اسی لیئے ہم ان کو ایجنسی کے طور پہ ہی لے رہے ہیں،اورک زئی ایجنسی جو ضلع کوہاٹ اور ہنگو سے منسلک ہے اس میں میں اہل تشیع کے ایک مدرسہ و مرکز کے ساتھ جمعہ بازار میں ہونے والے بم دھماکے نے ایک بار پھر یہ بتلا دیا کہ دہشت گردی کا جن ابھی تک بوتل سے باہر ہے اور جو دعوے کیئے جاتے ہیں وہ بس اخباری و کاغذی کاروائی سمجھی جائے،اورک زئی ایجنسی واحد قبائیلی ایریا ہے جس کی سرحد افغانستان سے نہیںملتی،عمومی طور پہ ہم نے دیکھا ہے کہ کسی بھی قبائلی ایریامیںہونے والے بم دھماکوں سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد ہمسایہ ملک یعنی افغانستان سے حملہ آوار ہوئے ،یہاں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ،یہاں کسی بھی طرف سے سرحد افغانستان سے نہیں ملتی ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس ایجنسی میں بھی دوسری ایجنسیز کی طرح اس مائنڈ سیٹ کی حمایت اور سہولت کاری موجود ہے جو پاکستان بھر میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے،ہماری مراد طالبان ہیں جو کسی بھی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں کبھی طالبان تحریک کے نام سے تو کبھی کسی اور گروہ کے نام سے ،حقیقت میں ان کا کام ہی ان کی پہچان ہے اور وہ ہے بے گناہوں کا قتل عام اور اس ملک کے در و دیوار کو ہلا کے رکھ دینا،اس کے اداروںکو کمزور ثابت کرنا اور ریاست پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پہ سامنے لانا تاکہ دنیا اس ایٹمی ملک کو پریشرائز کر سکے کہ وہ ایک کمزور اور غیر ذمہ دار ریاست ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کاہونا دنیا کو خطرات سے دوچار کر سکتا ہے ۔

اورک زئی ایجنسی کے علاقے کلایہ کے جمعہ بازار میں ہونے والے بم دھماکے میں 35کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں دو ہندو بھی شامل ہیں،جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی پچاس کے لگ بھگ ہے جن میںکچھ کی حالت نازک بھی ہے ،یاد رہے کہ کلایہ کی اس جگہ جہاں بم دھماکہ ہوا ہے ایک مدرسہ انوار اہلبیت ؑ ہے جہاں جمعہ کا اجتماع ہوتا ہے اور جمعہ کے بعد بڑی تعداد میںلوگ خریداری کرتے ہیں،یہ بازار اور مدرسہ کافی قدیم ہیں،راقم الحروف کو پہلی بار یہاں 1988ء میں جانے کا اتفاق ہوا تھا اور ہم ایک ماہ تک ادھر ایک دینی تربیتی ورکشاپ کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے اس وقت صرف مدرسہ ہوتا تھا اور بعد ازاں تو مدرسہ سے منسلک اسکول بھی بنایا گیا،یہ شیعہ اکثریتی علاقہ ہے ،اور یہیں سے علامہ عارف الحسینی کے بزرگوں نے ہجرت کی اور کرم ایجنسی میں جا کے آباد ہوئے ،اب بھی یہاں ان کا خاندان نمایا ںمقام و احترام رکھتا ہے ،جبکہ اورک زئی کے اسی علاقے میں علامہ عارف الحسینی کے بڑے بزرگ معروف عرفانی و ادبی شخصیت میاں انورشاہ کا بھی مزار ہے جو اہلسنت کی آبادی والی طرف ہے ،شائد اس وقت اس کا کنٹرول حکومت کے پاس ہے۔اورک زئی ایجنسی میں اس سے قبل بھی شدت پسند عناصر کی طرف سے مختلف حملے کیئے جاتے رہے ہیں اور دیگر ایریاز کی طرح یہاں پر بھی طالبان نے اپنے قبضہ کی پوری کوشش کی ہے یہاں سے سکھ کمیونٹی کے لوگوں کو اغوا اور بے دخل کیا گیا جو یہاں کے قدیمی رہائشی تھے،اسی طرح اہل تشیع پر بھی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اہل تشیع کی گاڑیوں کو روڈ سائیڈ بم دھماکوں سے اڑایا گیا۔جبکہ انہی عناصر نے کوہاٹ اور ہنگو میں بھی دہشت گردی کے ذریعے اہل تشیع کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ،مگر یہاں کے غیرت مند قبائل نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں ان کے ارادوں میں ناکامی سے دوچار کیا۔

جس دن اورک زئی ایجنسی میں نمازیوں اور غریب قبائلیوں کو نشانہ بنایا گیا اسی دن کراچی میں چینی قونصلیٹ پر بھی ایک دہشت گردانہ حملہ کیا گیا،فائرنگ اور بم دھماکوں میں دو پولیس اہلکار،دو کوئٹہ سے آئے باپ بیٹا اور تین مسلح دہشت گرد مارے گئے،یہ حملہ اس حوالے سے ہولناک اور خطرناک رہا کہ پہلی بار بلوچ علیحدگی پسندوں نے فدائی سٹائل میں کاروائی کی ،اور دہشت گردوں کی باقاعدہ فلم بنا کر نشر کی بالکل داعش اور طالبان حملہ آوروں کی طرح انہیں تیار کیا گیا اور ان کی ٹریننگ کی ویڈیو بھی جاری کی گئی،کسی کو شک نہیں ۃونا چاہیئے کہ اس حملے کے مقاصد کیا تھے اور اس کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہو سکتی ہیں، بلوچ علیحدگی پسند بھارت اور مغربی ممالک میں کھلے عام پھرتے ہیں ،کچھ افغانستان میں بھی پناہ لیئے ہوئے ہیں ان کا مقصد پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنا اور سی پیک جس سے پاکستان کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں کو نقصان پہنچانا ہے،بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی این ڈی ایس اس وقت پاکستان کے خلاف مشترکہ منصوبوں پہ کام کر رہی ہیں ،یہ کاروائی بھی دراصل انہی کی کارستانی ہے جو کسی بھی صورت میں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔

کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں دہشت گردی اسلحہ و منشیات کی ریل پیل دراصل اٖفغان پناہ گزینوں کی دین ہیں جن کی بدولت پاکستان گذشتہ چالیس برس سے عذاب بھگت رہا ہے،پاکستان نے روسی حملے کے بعد اسی کی دہائی کے شروع میں افغانوں کو برادر ہمسایہ مسلم ملک کے مہاجرین کے طور پہ قبول کیا چالیس لاکھ افغان پاکستان میں پناہ گزین ہوئے اور آج تک ہمارے حکمران انہیں اپنے ملک اور وطن بھیجنے میں ناکام نظر آتے ہیں ان افغانوں نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر کاروبارا ور شادیاں کر رکھی ہیں اور اب ان کی اگلی نسلیں یہاں کی شہریت کی حامل ہو چکی ہیں،ان کو واپس بھیجنا تقریبا ناممکن ہو چکاہے ،کے پی کے اور بلوچستان کے پختون قبائل کو ان کے ووٹس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے لہذا وہ کسی بھی طور ان کو واپس بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں ان کا تعلق دینی جماعتوں سے ہو یا قوم پرستوں سے  اس مسئلہ میںسب کی ایک ہی بات ہے اس مسئلہ میں سب یک جان ہیں،لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے ان افغانوں سے جان چھڑوانے کا مطالبہ اب زور پکڑ چکا ہے،پاکستان کے گوش و کنار میں ہونے والی دہشت گردی کے پس پردہ بھی انہی عناصر کا ہاتھ ہے ہمارے خفیہ اداروں نے کتنے ہی کیسز میں ان کی نشاندہی کی ہے اور دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے ملا ہے،چاہے وہ آرمی پبلک سکول پشاور کی دلخراش داستان ہو یا پاکستان کے خلاف برسر پیکار نام نہاد کمانڈرز اور طالبان قیادت کے قیام و طعام کا بندوبست ہو،سب ہی افغانستان میں بیٹھ کے پاکستان پہ حملہ آوار رہے،اس وقت بھی عالمی طاقتیں پاکستان اور اس خطے کو سبوتاژ کرنے کیلئے داعش کی سرپرستی کر رہی ہیں،داعش کو افغانستان میں لا کے بٹھایا اور بنایا گیا ہے اور پاکستان کی سرحد کے ساتھ ان کے کیمپ قائم کیئے گئے ہیں ،اورک زئی ایجنسی میں ہونے والے حملے کو بھی داعش کے نام سے قبول کیا گیا ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کاروائی عالمی ایجنڈے کا حصہ تھی،وہ قوتیں جو داعش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں انہی کی طرف سے کلایہ بم دھماکہ( جسے خود کش کہا جا رہا ہے )کیا گیا ہے اور کراچی میں ہونے والی چینی قونصلیٹ کی دہشت گردی سے بھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلح بلوچ علیحدگی پسند اور نام نہاد مذہبی و فرقہ وارانہ دہشت گرد اپنے اصل آقا کی چھتری تلے جمع ہو چکے ہیں اور پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہیں،ہمارے سیکیورٹی اداروں اورحکمرانوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے پس پردہ در اصل ایک ہی دشمن ہے جو کہیں بلوچوں کو استعمال کر رہا ہے تو کہیں اسلام کے نام پر بد ترین دھبہ سفاک دہشت گردوں کو ،انکا نام بی ایل اے ہو یا داعش،لشکر جھنگوی ہو یا طالبان سب ایک ہی تھالی کے کچے چھٹے ہیں ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے اور ملک کو ان کے شر سے بچایا جائے،ہمارا پیارا ملک اور اس کے باسی ایک عرصہ سے امن،شانتی،سکون اور شادمانیوں کو دیکھنے کو ترس گئے ہیں،ان بجھے چہروں پر خوشی و مسرت کی علامات نظر آنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں،اب اس پاک دھرتی سے شر اور فساد کا خاتمہ ہو جانا چاہیئے اس کیلئے ردالفساد کے نام سے میدان سجایا جائے یا ضرب عضب کے نام سے،دہشت گردی کا خاتمہ ہمارے اداروں اور حکومتوں کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے ورنہ ہم اسیطرح مارے جاتے رہینگے۔

 تحریر: ارشادحسین ناصر
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(آرٹیکل)  وہ ہم سب کیلئے نمونہ عمل تھے،ان کا اوڑھنا بچھونا ،سونا جاگنا،چلنا پھرناسب کچھ اسلام ناب محمدی کی تبلیغ،ترویج اور عملی نفاذ کیلئے تھا،وہ بت شکن زمان حضرت امام خمینی کے سچے اور عملی فدائی تھے ۔وہ واحد پاکستانی تھے جنہوں نے اپنے عمل سے انقلاب اسلامی اور نظریہ ولایت فقیہ سے اپنے اخلاص کو دوسروں پر ثابت کیا،بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی ذات سے ان کے عشق اور محبت کیلئے صرف دو مثالوں سے استفادہ کرتا ہوں ، نوزائیدہ انقلاب اسلامی ایران پر جب امریکہ نے اپنے ایجنٹ صدام کے ذریعے حملہ کیا تو اسے امریکہ ،نیٹو سمیت تمام عرب ممالک کی مدد حاصل تھی ،ستاون ممالک صدام کے ساتھ ملکر ایران کو فتح کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے،اس موقعہ پر امام خمینی کی الہٰی شخصیت کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اسلام محمدی سے عشق کرنے والوں کیلئے صبح امید کی حیثیت رکھتے تھے،یہ سب ایران اور ایران سے باہر امام خمینی کے سچے اورکھرے عاشق اور فدائی تھے،جنگ تحمیلی کے دوران امام خمینی نے جہاد کی فرضیت بارے کوئی فتوٰی نہیں دیا ،ہاں بس اتنا کہا کہ جو بھی استطاعت یا طاقت رکھتا ہے وہ جبہ یعنی محاذ پر جائے،پاکستان جو ایران کا ہمسایہ ملک ہے اور انقلاب اسلامی ایران کو پسند کرنے والوں کی یہاں بھی بڑی تعداد موجود تھی ان پاکستانیوں میںسے جس شخصیت نے امام خمینی کی اس خواہش کو سنا اور اسے پورا کرنے کی کوشش کی وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید تھے ،جو اپنے چند رفقا ء کے ہمراہ جبہ پر پہنچ گئے تھے،انہوں نے محاذ جنگ پر بے انتہا خدمات سرانجام دیں وہ ڈاکٹر تھے جن کی محاذ جنگ پر اشد ضرورت ہوتی ہے ،ان کی خدمات کو اہل ایران ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
    
سانحہ مکہ ہوا تو آل سعود کی طرف سے اہل ایران پر حج کی پابندی لگا دی گئی،لبنان کے جوانوں پر بھی عمر کے حساب سے پابندیاں لگائی گئیں،امام خمینی کی خواہش تھی کہ حج پر حسب دستور دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج کرام کو اصل حج یعنی برا ء ت از مشرکین کا پیغام یاد کروایا جائے،وہ پیغام جس کو پہنچاتے ہوئے چار سو سے زیادہ حجاج نے اپنے خون کی قربانی دی تھی اور جائے امن پر جہاں ایک چیونٹی کو مارنا بھی منع کیا گیا ہے کو بلا جواز،بلا جرم و خطا خاک و خون میں غلطاں کیا گیا تھااس پیغام کو پہنچانے کا انتظام و انصرام اور ذمہ داری فدائے امام خمینی ڈاکٹر محمد علی نقوی کے حصہ میں آئی ،ڈاکٹر محمد علی نقوی نے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اس پیغام امام کو احسن طریقہ سے حجاج کرام تک پہنچایا،اوراس موقعہ پر اسیر ہوئے،انہیں سزائے موت کا حکم ہوا مگر انہیں خدا نے مزید کام کا موقعہ دیا اور وہ رہا ہو گئے،انہوں نے رہا ہونے کے بعد بھرپور کام کیا اور سات مارچ 1997ء کی دم صبح  لاہور کے یتیم خانہ چوک میں سامراجی ایجنٹوں کے ہاتھوں درجہ شہادت کو پایا،وہ ہم سب کے دلوں پر حکمرانی کرتے آ رہے ہیں ،بائیس سال ہوگئے ہم نے ان کی یادوںکا چراغ روشن رکھا ہے اور اسے تیز ہوائوں میں بھی بجھنے نہیں دیا، ایسا نہیں ہے کہ ہم ان کی یاد منا کر ،ان کی باتیں سنا کر ان کی تصویریں سجا کر یا ان کے اہل خانہ پر کوئی احسان کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ ملت کے محسن ہیں انہوں نے اپنی ظاہری زندگی میں بھی ملت کی فلاح،نظریہ کی بقا،اور اسلام حقیقی کے احیا ء کیلئے زندگی کو وقف کیئے رکھا اور ان کی بعد از شہادت زندگی بھی ہم یعنی ملت کیلئے باعث رشد و کمال ہے ،یہ شہداء ہی ہیں جن کی وجہ سے قوم و ملت کو سربلندی نصیب ہوتی ہے اور انہیں اوج و کمال حاصل ہوتا ہے ،ان کی یاد منا کر ،ان کے کارناموں اور کمالات کو سامنے لانے کا مقصد مستقبل کی ملت اور سرمائے کو جنہوں  نے قوم و ملت کی باگ ڈور سنبھالنا ہے،ان تاریخی کرداروں سے آشنائی کروانا ہے تاکہ ایسے کردار پھر بھی سامنے آتے رہیں،اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہے تا وقتیکہ وقت کے امام کا ظہور نہیں ہو جاتا اور مظلومین مستکبروں پر غلبہ نہیں پالیتے،کمزور بنا دیئے گئے حکومت و اختیار حاصل نہیں کر لیتے۔
    
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ہماری ملت کے سرخیل اورملت کے خلاف جاری استعماری جنگ میں ہمیشہ خط مقدم پر رہنے والے تھے،انہوں نے اپنی تمام زندگی ملت بالخصوص نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ،شعور کی بیداری،تحرک،رفاہ و فلاح،مسائل و مصائب کے حل،قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے دن رات ایک کیئے رکھا اور ایک پروفیشنل ڈاکٹر ہونے کے باوجود علماء سمیت ہر طبقہ ء فکر کیلئے نمونہ   قرار پائے انہیں بہت سے اعزا ز حاصل ہے،جن کو اس مختصر کالم میں زیر تحریر لانا ممکن نہیں ہاں ہم ان کارناموں اور اعزازات کی ایک فہرست یہاں پیش کر سکتے ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح ان کا حق ادا کر سکوں گا ،بہرحال ہم ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو سالار شہدا سمجھتے ہوئے ان کی یاد منا کر ان کے کارہائے نمایاں اور ایثار و قربانیوں کو یاد کر کے اپنے اندر تحرک و تحریک محسوس کرتے ہیں ،یہ کیا کم ہے کہ وہ لوگ جو شہید ہو گئے اپنی شہادت کے بعد بھی ہمارے تحرک و بیداری کا باعث بنتے ہیں حالانکہ ہمیں ایسی قیادتیں بھی ملتی ہیں جن کے وجود سے تحرک و بیداری تو نہیں مایوسی و بددلی کا احساس ضرور جنم لیتا ہے اور انسان ان کی رہنمائی پا کر کسی منزل کی جانب بڑھنے کے بجائے اپنا راستہ ہی بھلا بیٹھتا ہے جبکہ ڈاکٹر شہید ایسی شخصیت نے اتنے زیادہ کام کیئے ہیں کہ انہیں کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ان کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
            میرے قبیلہ سرکش کا  تاجور ہے  وہ شخص
            بڑھے جو دار کی جانب پیغمبروں کی طرح

آج ان کی بائیسویں برسی مناتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتا کہ بہت سے لوگ ان سے جلن محسوس کرتے تھے اور ان پر تہمتیں بھی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے  مگر یہ شہید ڈاکٹرہی تھے جو اپنے ہدف اور منزل کی طرف بڑھتے رہے اور شہادت کا بلند مقام پا کر اپنا میرٹ ثابت کیا،میں ایسے بہت سے لو گوں کو جانتا ہوں جو تنظیمی ہونے کے دعویدار ہیں،ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں ان کے ساتھ احسان اور بھلائی بھی کی ہو گی مگر ان کو ڈاکٹر شہید کی یاد منانا اچھا نہیں لگتا،ڈاکٹر شہید کی برسی ،قائد شہید کی برسی اور رفقا ء شہیدین کی یاد منانا ذرا بھی نہیں بھاتاجبکہ اس سے کسی کو انکار نہیں کہ یہ شخصیات ہی تھیں جن کے وجود کی برکات سے ہم ہمیشہ لطف اندوز ہوتے تھے،اس موقع پر میں اہل ایران کی مثال دونگا کہ جنہوں نے اتنی قربانیاں دی ہیں کہ ان کا شمار ہی ممکن نہیں اور انہیں شہدائے گمنام کا باب کھولنا پڑا ہے ،جا بجا شہدائے گمنام کے مقابر بنائے گئے ہیں ان کی یاد گاریں  قائم ہیں ،لوگ ان پر حاضر ہوتے ہیں،اسی طرح آپ ایران میں جہاں بھی جائیں ہر سو ،ہر شہر میں شہدا ء کے نام سے منسوب قبرستان یعنی گلزار شہداء بنائے گئے ہیں،آپ ان میںجمعرات کے دن جائیں کیسے عجیب مناظر دیکھنے کوملتے ہیں شہدا ء کے ورثا ء و رفقاء ان شہدا ء کو کبھی نہیں بھولتے اس لیئے کہ شہدا ء بھی انہیں فر اموش نہیں کرتے،جگہ جگہ شہدا ء کی یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں ،ان کی تصاویر دیواری سائز میں لگائی ہوتی ہیں،ان کے اقوال نمایاں اور انتہائی خوبصور ت انداز میں لکھے ہوتے ہیں،ان کے گھروں کا سارا خرچ بنیاد شہید اٹھاتی ہے،ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام خصوصی طور پر کیا جاتا ہے،آپ کو ان شہدا ء کے نام سے ریلوے اسٹیشنز،میٹرو اسٹاپ،ادارے،این جی اوز،کالجز،اسکول،یونیورسٹیز،او نا جانے کیا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے،ان پر کتابیں لکھی جاتی ہیں،ان پر ڈاکٹریٹ کروائی جاتیں ہیں،ان پر مقالے لکھے جاتے ہیں،مقابلے کروائے جاتے ہیں، مگر ہمار ے ہاں شہدا ء کی یاد منانا بھی عیب سمجھا جاتا ہے،شخصیات کو شہدا ء کی یاد منانے سے اپنا قد چھوٹا محسوس ہوتا ہے،شائد یہی وجہ ہے کہ قوم کی قیادت و سیادت پر فائز شخصیات نے شہید قائد علامہ عارف الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے نام سے کوئی موسسہ،کوئی ادارہ،کوئی اسکول،کوئی کالج،کوئی شہر ،کوئی گائوں،کوئی ہسپتال تعمیر نہیںکیا بھلا کس طرح ترقی کر سکتے ہیں ،کس طرح ہماری ملت اپنا وقار اور عظمت بحال کروا سکتی ہے جبکہ ہم شہدا ء وہ بھی شہید قائد اور شہید ڈاکٹر جیسی شخصیات کو فراموش کر بیٹھے ہیں ہم نے اس کا کوئی انتظام نہیں کیا،اس پر ذمہ داران سوچیں،غور کریں اگر ممکن ہو اور کچھ کر سکتے ہوں توضرور کریں ورنہ ان شہدا ء بالخصوص شہید ڈاکٹر کے روحانی فرز ند اور بھائی تو کچھ نا کچھ کرتے ہی رہتے ہیں اور کچھ نا سہی تو ایک سالانہ برسی ہی سہی،اپنی عقیدتوں کے سلام پیش کرنے اور نئی نسل کو ان کے کردار و عمل سے آگاہ رکھنے کیلئے یہ سیمینار،کانفرنسز،اور برسی کے پروگرام بھی بہت ضروری ہیں،ان کی یاد منانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سب لوگ مل کر کم از کم ان کے شروع کردہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں،ان کے شروع کردہ پروگراموں کی رونق کو ماند نا پڑنے دیں،خدا سلامت رکھے،شہدائے ملت کی یادوںکے چراغ روشن رکھنے والوں کو۔

میں تو انہیں یاد کر کے یہی کہوں گا۔۔۔
رونق تو وہی ہے پھر بھی جیسے
اک شخص کی شہر میں کمی ہے

تحریر۔۔۔ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب بھی دہشت گردی کی کوئی وارادت، بم دھماکہ یا خود کش حملہ ہوتا ہے تو ہمارے قومی میڈیا،سوشل میڈیا میں پرانی بحث نئے انداز سے شروع ہو جاتی ہے کہ اس کا تدارک کیا ہونا چاہیئے،کیا ہوا،یہ ہوا،وہ ہوا،یہ کیوں نہیں ہوا،،حکومت کی غفلت،دہشت گردوں کی اس قدر قوت،اور طاقت،دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا کردار،اور جوبے گناہ شہید کر دیئے گئے ان کی مالی امداد،زخمیوں کا علاج و سہولیات ،اور اس سے مربوط وہ ساری باتیں جو ہر دھماکے اور دہشت گردی کے واردات کے بعد سامنے لائی جاتی ہیں اور جن پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے،دہشت گردی کی حالیہ لہر جو خاصی سنگین واقع ہوئی ہے اس کے بعد بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ قومی میڈیا اور حکومتی ایوانوں سے لیکر اپوزیشن جماعتوں ،مذہبی سیاست مداروں او سول سوسائٹی میں اس سے پہلے گذرے کسی بھی بڑے واقعہ کے بعد سامنے آنے والی باتوں ،تجزیوں،تجاویز،احساسات،نقصانات،اور تدبیرات کا تکرار واضح ہے ،دہشت گردی کا یہ فیز در اصل پاراچنار میں ہونے والے بدترین دھماکے سے شروع ہوا،پاراچنار سبزی منڈی میں مورخہ 21جنوری کو صبح سویرے ایک خود کش حملہ کیا گیا ،جس میں تیس کے قریب لوگ شہید ہو گئے ،اب اس کے بعد دھماکوں کی سیریز چلی ہے جس کا تسلسل ابھی بھی جاری ہے اور لوگ پاراچنار کو بھول گئے ہیں، اس کے بعد لاہور مال روڑ پہ بد ترین سانحہ پیش آیا اس کے بعد سیہون میں شدید دھماکہ سے نوے کے قریب شہید اور تین سو تک زخمی ہوئے جس سے خوف و ہراس اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی،دو دن پہلے ہی چار سدہ میں کچہری میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا اس پہ سب شکر ادا کر رہے ہیںکہ بہت بڑا نقصان نہیں ہوا،حالانکہ سات لوگ شہید ہو گئے پچیس تک زخمی ہو ئے،اب روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی ہو رہی ہے کوئی دن ہی شائد خالی جاتا ہو،یہ تحریر لکھی جا رہی تھی کہ لاہور کے ڈیفنس میں ایک بم دھماکے کی خبر نے ہلا کے رکھ دیا ،ڈیفنس لاہور کا پوش ایریا ہے جہاں ایک زیر تعمیر بلڈنگ  کے سامنے دھماکہ ہوا جس میں ابتدائی طور پہ سات لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ پچیس تک کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی ہے ،ایک خوف ہراس کی فضا نے اہل لاہور پہ چھائی ہوئی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ جس کا نقصان ہوتا ہے اسے ہی پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہوا ہے،اس پہ جو گذرتی ہے اس کا اندازہ صرف اسے ہی ہوتا ہے جس کا نقصان ہوتا ہے،جس کا سہاگ اجڑتا ہے،جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ چھن جاتا ہے،جس کی امید دم توڑ جاتی ہے،جس کی جوانی لٹ جاتی ہے یا جس کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا جاتا ہے۔۔۔


یہ  میں  ہی  جانتا  ہوں  جو  مجھ  پہ  گذر  گئی
دنیا  تو  لطف  لے  گی  میرے  واقعات  سے

 
لاہور،پشاور،سیہون،مہمند،شب قدر،کراچی،کوئٹہ اور پاراچنار میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کو مختلف ناموں سے بھی تسلیم کیا گیا ہے اور کئی ایک واقعات کو صرف جماعت الاحرار کے نام سے تسلیم کیا گیا ہے،لشکر جھنگوی العالمی کے نام سے بھی دہشت گرد اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔دہشت گرد کتنے سنجیدہ ہیں اور حکمران کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ ان کے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے۔
 دہشت گردی ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے ،اس کا کوئی بھی نام ہو سکتا ہے،یہ نام تبدیل بھی ہو جاتا ہے مگر ہدف اور مقصد وہی رہتا ہے،جو لوگ پاکستان میں کل تک داعش کے وجود سے انکاری تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ ہم داعش کا سایہ بھی پاکستان پر نہیں پڑنے دینگے اب اس کے خلاف آپریشن ردالفساد کرنے جا رہے ہیں جبکہ ہم کئی برسوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ داعش،طالبان،جماعت الاحرار ،جند اللہ،لشکر جھنگوی،سب ایک ہی فکر و سوچ کی حامل ایک ہی چھتری تلے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں ہیں،مگر ہماری کون سنتا ہے ،اتنے لوگ مروا کے،اتنے بے گناہ لوگ اور خاندان اجاڑ کے اب یہ خیال آیا ہے کہ پنجاب میں بھی ان کے خلاف کاروائی کی ضرورت ہ ے ۔داعش جسے عراق و شام میں نام نہاد خلافت بنا کے قائم رکھنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہاں کی باغیرت حکومتوں اور عوام کے عزم کے سامنے یہ کرائے کے ٹٹو اب اپنے بلوں میں گھستے دکھائی دے رہے ہیں تو ان کا خطرہ ہر سو محسوس کیا جا رہا ہے اب تو کھل کے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں اگر داعش کو شکست دینی ہے اور اس کا راستہ پاکستان میں روکنا ہے تو افغان طالبان کا ساتھ دینا ہو گا،داعش ہی ہے جو افغانستان اور پاکستان سمیت علاقے کے دیگر ممالک اور ریاستوں کیلئے چیلنج بن کے سامنے آ رہی ہے،ہماری وفاقی حکومت ہو یا پنجاب و سندھ کی حکومتیں ہمیشہ سے اس سفاک تنظیم کے وجود سے انکار کرتی آئی ہیں جبکہ گزشتہ تین چاربرس سے مسلسل اس حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی آ رہی ہیں،داعش کے بارے ہم اس سے قبل بھی قارئین کو بتاچکے ہیں کہ اس کے وجود کا اظہار بنوں،میانوالی،اور کراچی و کوئٹہ میں وال چاکنگ کے بعد سامنے آیا تھا،بنوں جو وزیرستان سے منسلک اور جڑا ہوا ہے یہاں ابوبکر بغدادی کی بیعت کے اعلان پر مشتمل وال چاکنگ کی گئی اگرچہ داعش تمام تر سفاکیت،اسلام دشمنی،اور اسرائیلی مفادات کی نگران ہونے کی واضح حکمت عملیوں اور کاروائیوں کے باوجود سپاہ صحابہ اور طالبانی فکر سے منسلک سوشل میڈیا اکائونٹس سے مسلسل اس تنظیم کو خوش آمدید کہا جا رہاتھا،حد تو یہ کہ داعش کو اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کے پیارے ملائوں نے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا اور ابوبکر بغدادی سے مدد طلب کی گئی اس کی ویڈیو ریلیز کی گئی، مگر مجال ہے اس بات کا کسی نے نوٹس لیا ہو کوئی ایجنسی حرکت میں آئی ہو کسی پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہو جبکہ اس کے مقابل ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر کوئی ناپسندیدہ کام کرنے کی پاداش میں ملک بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص سینکڑوں پرچے شیعہ نوجوانوں پر کاٹے گئے سخت دفعات لگا کر انہیں جیلوں میں پھینکا گیا۔کل تک پنجابی طالبان کے وجود کا انکار کرنے والی نون لیگ کی پنجاب حکومت داعش کے وجود کی بھی انکاری رہی اور ادھر ملک بھر میں اس تنظیم کی چاکنگ سامنے آ تی رہی اور مقامی انتظامیہ اپنی جان چھڑوانے کیلئے لوکل میڈیا کو اس حوالے سے خبریں بلیک آئوٹ کرنے کی منت سماجت کرتی ،دیواروں پر چونا پھروا دیاجاتااور یہ تاثر دیا جاتا کہ داعش کا وجود نہیں ہے یہ بھی کہا جاتا کہ یہ کسی کے ذاتی جذبات ہو سکتے ہیں مگر دانا کہتے ہیں ریت میں سر چھپانے سے حقیقت کہاں چھپ سکتی ہے حکمران جتنا بھی بات کرنے سے گریزاں رہیں یہ سفاک تنظیم ہوا میں تحلیل نہیں ہو سکتی تھی،سیانے کہتے ہیں کہ قالین کے نیچے گرد چھپانے سے حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے جو بہرحال سامنے آجاتا ہے۔اب جماعت الاحرار جو طالبان سے جدا ہوئی اور پہلے پہل جماعت الاحرار ہند کے نام سے سامنے آئی بعد ازاں اس کے کمانڈرز نے داعش کا پرچم تھام لیا اورپاکستان میں کاروائیاں تسلیم کرنے لگے اب لاہور میں ہونے والے دھماکے کو تسلیم کر کے دنیا بھر کی توجہ حاصل کر لی ہے ۔


    یہ بات بہت ہی عجیب ہے کہ دہشت گردوں کی اندرونی خبریں عالمی میڈیا ہی نشر کرنے میں سبقت رکھتا ہے،ہمارے ملک کے وہ ایریاز جہاں ہمارے صحافی جانء میں دشواری محسوس کرتے ہیں وہاں کی خبریں بھی عالمی میڈیا کے ذریعے ہی سامنے آتی ہیں،اس حوالے سے ہمیں یاد ہے کہ عالمی میڈیا نے ہی سب سے پہلے یہ خبردی کہ داعش کرم ایجنسی اور ہنگو کے ایریاز میں بھرتی کر رہی ہے اور اس نے بڑی تعداد میں تربیت یافتہ لوگ بھرتی کر لیئے ہیں،اس دوران تحریک طالبان سے وابستہ اہم ترین کمانڈرز نے بھی ملاں عمر سے الگ ہونے اور ابوبکر بغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کیا ایک ویڈیو پیغام میں  ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد، خالد خراسانی اور حافظ سعید سابق کمانڈر و ترجمان نے طالبان سے الگ اپنا نیا دھڑا داعش کے نام سے بنانے کا اعلان کیاادھر گوانتا نامو بے میں امریکیوں کے پاس کئی سال تک قید رہنے والے ملا عبدالرئوف نے افغانستان میں داعش کا پرچم لہرایا اور ہلمند میں افغان طالبان سے اس کی جھڑپیں بھی ہوئیں،،کئی اہم علاقوں پر داعش نے افغانستان میں قبضہ بھی کیا جبکہ پاکستان میں حافظ سعید جس کا تعلق اورکزئی سے بتایا جاتا ہے کو پاکستان و افغانستان کیلئے امیرکے طور پر سامنے لایا گیا ویڈیو میں کئی اہم افغان کمانڈرز کو بھی دکھایا گیا کہ وہ بیعت کر رہے ہیں شائد اس طرح اپنی طاقت و قوت کا اظہار کرنا تھا ۔داعش نے افغانستان کے شمالی صوبے ننگرہار اور ہلمند میں اپنی قوت کو مضبوط کیا ۔[حافظ سعید کے بارے بعد ازاں خبر آئی کہ اسے افغانستان میں ننگر ہار کے یریا میں ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے] یہ خبر بھی میڈیا میں گردش کرتی رہی ہے کہ افغانستان و پاکستان کیلئے داعش نے ابو محمد العدنی کو کمانڈر مقرر کیا ہے،اس سے بھی قبل پاکستان میں داعش کے سربراہ کے حوالے سے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے خبر دی تھی کہ یوسف السلفی پاکستان میں اس کا سربراہ ہے جو یہاں بھرتیا ں کر رہا ہے،بعد ازاں لاہور کے نواحی ایریا سے یوسف السلفی کو دو دیگر ساتھیوںسمیت گرفتا ر بھی کر لیا گیا تھا معلوم نہیں اس کا کیا بنا سے کہاں رکھا گیا ہے،سانحہ صفورا میں پکڑے جانے والے دہشت گرد عبداللہ منصوری کا تفتیشی افسران کویہ کہنا تھا کہ عبداللہ یوسف عرف ثاقب داعش کا سربراہ ہے جو شام سے پاکستان نیٹ ورک چلانے کیلئے آیا وہ لوگ ان کے ساتھ رابطے میں تھے جبکہ یہ خبر بھی آئی کہ کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق زبیر الکویتی نامی بندہ اپنے سات دیگر ساتھیوں سمیت افغانستان کے راستے پاکستان آئے ہیں ان میں ایک انڈین سعید الاسلام بھی ہے جو داعش کے مالیات کو دیکھتا ہے،ان لوگوں نے کالعدم لشکر جھنگوی،اہل سنت والجماعت،طالبان ،جماعت الاحرار اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے روابط کر کے تنظیم کو مضبوط کرنے اور سفاکانہ کاروائیاں کرنے کا منصوبہ بنایاہے۔یہ خبر بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہندوستان کے کرناٹک ایریا سے بنگلور سے تعلق رکھنے والا ایک آدمی 2014میں گرفتار کیا گیا تھا ،یہ شخص داعش کا ٹویٹر اکائونٹ چلا تا تھا اور اہم خبریں انگریزی میں نشر کرتا تھا،اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اس خطے میں اس منحوس ،سفاک و دہشت پسند گروہ کا وجود بہت پہلے سے ہی تھا،یہ الگ بات کہ ہمارے حکمران اب بھی اس کا انکار ہی کرتے نظر آئے اب جس ویب سائٹ سے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے اس کا آئی پی ایڈریس بھی ہندوستان سے بتایا جا رہا ہے،جس کا واضح طور یہی مطلب لیا جا رہا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے پس پشت ہندوستان ہے جو افغانستان میں کافی موثر ہے اور دہشت گردی کے نیٹ ورکس چلانے کیلئے اس کی خفیہ ایجنسی وہاں ڈیرہ لگا چکی ہے۔

حکومت کی سنجیدگی؛
اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ انڈیا پاکستان کا ازلی دشمن ہے ،کسی بھی دشمن سے دشمنی کی ہی توقع رکھی جاتی ہے مگر جو لوگ پاکستان کے دوست ہونے کے دعویدار ہیں ان سے دشمن کے ساتھ کھڑے ہونے کی خبر ہلا کے رکھ دیتی ہے،عرب ممالک،سعودیہ،قطر،متحدہ عرب امارات  سے جسطرح ان پاکستان دشمن قوتوں کی مدد کی جا رہی ہے اور ان کے ویزوں سے لیکر فنڈز کا لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے اس پہ ہمارے حکمران اور ذمہ دار ادارے خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیںہمارے خیال میں اگر نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیاجاتا اور ان کی فنڈنگ روک لی جاتی،مدارس کے نام پر دہشت گردی کے ہزاروں مراکز کو کنٹرول کیا جاتا تو آج نوبت یہان تک نہ آتی مگر ہم کیا کریں ان عرب بدوئوں کے سامنے ہمارے حکمرانوں کی حالت ایسے ہی ہے جیسے ہم ان کے غلام اور خریدے گئے ہیں،اگر حکمرانوں نے اب یہ ٹھان لی ہے کہ اس شر اور فساد کا خاتمہ کرنا ہے تو ہر صورت میں مدارس کے نام پر ،تحفظ حرمین کے عنوان سے ریالوں اور پیٹرو ڈالرز کی جھنکار کو روکنا ہو گا،اس بات کو سیکیورٹی ادارے بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو پاکستان کے کن مدار س سے آپریٹ کیا جاتا ہے اور کون کون غیرملکی فنڈنگ کے تحت اس ملک کو غیر مستحکم کر رہا ہے،افسوس کہ یہاں بے گناہوں کو تو بہت ہی معمولی باتوں پر غائب کر لیا جاتا ہے جبکہ دہشت گرد کھلے عام گھوم رہے ہیں ان کے سہولت کار بھی سب کے سامنے پھر رہے ہیں ،اب جب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں رینجر کو محدود اختیارات کے تحت دہشت گردی کے خلاف میدان میں لایا جا چکا ہے تو ان کی کاروائیوں کے زاویوں سے حکمرانوں کا خلوص جانچا جا سکے گا جس  حکومت کے وزرا دہشت گرد و کالعدم گروہوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور شروع سے ان پہ انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں آیا ان گروہوں اور ان کے اصلی سہولت کاروں کے خلاف بھی کوئی اقدام سامنے آئے گا ،ایک ملک کا وزیر دفاع ایک عالمی کانفرنس مین جب یہ تسلیمکرتا ہے کہ حافظ سعید کو ایک ایسے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جو شر و فساد پھیلانے والوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تو ایسے شریروں کے خلاف مستقل بنیادوں پر کیوں قانون حرکت میں نہیں آتا،ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر نام بدل کے کام کرنے والے کالعدم گروہ جن سے پنجاب حکومت کے وزرا کے قریبی تعلقات ہیں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو یہ کہا جا سکے گا کہ حکمران دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیںاور اگر معروف کالعدم گروہ جو تمام دہشت گردوں کو پنیری فراہم کرنے کا کام کرر ہا ہے پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی تو پھر اس آپریشن رد الفساد پر بھی اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان کی طرح فاتحہ پڑھ لیں،آپریشن رد الفساد کا آغاز ایسے وقت میں ہوا ہے جب قومی سطح پر فوجی عدالتوں کے قیام میں تاخیر کی جا رہی ہے اور بہت سے دہشت گردوں کو سزا ینے کا عمل رکاہوا ہے ،اب یہ سزا شائد پولیس مقابلوں کی شکل میں دی جا رہی ہے، ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

جب حق آگیا ۔۔۔!

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا،تاریکی نے روشنیوں کو قید کر لیا تھا،امیدیں دم توڑ چلی تھیں،مایوسیاں راج کر رہی تھیں،ناکامیاں اپنی کامیابیوں پر جشن مناتی تھیں،ظلم اپنے عروج پر تھا،فحاشی کا دور دورہ تھا،عیاشی کا ہر رنگ میسر تھا،طاقت کا گھمنڈ انسانوں کو فرعون بنائے ہوئے تھا،ایک ایسی اسلامی مملکت جس کے پاس تیل کے وسیع ذخائر موجود تھے پر صیہونسٹ قابض ہو چکے تھا،دنیا بھر کی جاسوسی کا مرکز تہران بنا ہوا تھا جہاں امریکہ نے اپنا ایک بہت بڑا سفارت خانہ جسے جاسوسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا قائم کر رکھا تھا، ملک کی بیشتر یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں سمیت اہم ترین منابع غیر ملکیوں کی براہ راست دسترس اور اختیار میں تھے،اس مملکت پر اڑھائی ہزار سال سے شہنشاہی نظام حکومت چل رہا تھا ایسے میں ایک مرد قلندر نے نعرہ مستانہ لگایا او ر اس ملک و عوام کی تقدیر بدلنے کا عزم طاہر کیا ،ان کی آواز میں سچائی تھی،صداقت تھی،وہ پسے ہوئے مظلوم عوام کی امید تھے، ان کا شعار اللہ اکبر تھا،انہوں نے کہا کہ وہ اللہ اکبر کی طاقت سے مسلح ہیں،وہ خدا پر بھروسہ اور توکل کرنے والے تھے،وہ اپنے عزم اور ارادہ کی سچائی پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اس کے حصول کیلئے تمام رکاوٹوں سے ٹکرانے کی طاقت رکھتے تھے،ان میں قوت فیصلہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،وہ روحانی و معنوی مقامات سے منزہ و لیس تھے،انہیں اپنی منزل کے حصول کا مکمل یقین تھا اور وہ ہر قسم کی قربانی اور ایثار کیلئے ہمہ وقت تیار تھے،انہیں دنیا کی کسی طاقت کا ذرا سا بھی خوف نہ تھا۔۔۔۔۔لہذا جب انہوں نے ساٹھ کے عشرے کے آغاز میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو تمام خطرات اور مشکلات کو جھیلتے ہوئے ہر دن اپنی منزل کے قریب ہوتے گئے ،یہاں تک کہ 11فروری1979ء کا سورج وہ پیغام لیکر طلوع ہوا جس کیلئے ہزاروں افراد قربان ہو گئے تھے اور جس کے بارے اڑھائی ہزار سال سے قابض شاہی خاندان اور اس کے سرپرستوں نے سوچا بھی نہیں تھا،مگر اس دن سے پہلے ہی شاہ فرار ہو چکا تھا ،اور اسلامی انقلاب کانقارہ بج چکا تھا،امام خمینی جو اس انقلاب کے بانی تھے جب جلا وطنی ختم کر کے پیرس سے وطن لوٹے تو سب سے پہلے اس مقام پر گئے جہاں اس انقلاب کے ایثار گر اور قربانیاںپیش کرنے والے محو آرام تھے ،اس جگہ کو دنیا بہشت زہرا تہران کے نام سے پہچانتی ہے جہاں لاکھوں سپاہیان اسلام و فرزندان قرآن اسلامی انقلاب کے قیام،اس کی بقا اور مقدس دفاع کی جدوجہد میں سرخرو ہونے والے دفن ہیں ۔

11فروری1979ء کو آنے والے انقلاب کو امام خمینی نے انفجار نور کہا تھا،یہ واقعی نور کا دھماکہ تھا،اس سے ہزاروں سال سے قائم تاریکی اور اندھیروں کا راج ختم ہو گیا تھا،مایوسیاں امیدوں اور خوابوں کی عملی تعبیر میں بدلتی نظر آ رہی تھیں،غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر دور جا گریں تھیں،آزادی کے گیت اور نغمے پھر سے فضائوں کو معطر کیئے ہوئے تھے،خزاں کا موسم، بہار چلے آنے پر راہ فرار اختیار کر گیا تھا،انقلاب کی جدوجہد میں ہر عمر اور طبقہ فکر و حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا حصہ ڈالا،اپنا کردار ادا کیا،دنیا بھر میں اس انقلاب نے سوچوں کے زاویئے ہی بدل دیئے تھے،سیاست کے نئے رخ سامنے آ گئے تھے ،نہ صرف اسلامی ممالک اور تحریکیں ایک کامیاب مثال اور راستے کو پا چکے تھے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور ستم رسیدہ ،پسے ہوئے انسانوں کو بھی ایک امید ہو چلی تھی کہ طاقتوروں کو زیر کیا جا سکتا ہے،اسلامی انقلاب ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے موجود تھا،اس سے قبل انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے کامیابی کی نئی روشیں اور انسانوں کی فلاح و بہبود اور حکومت کا نظریہ ء اسلامی متعارف کروایا تھا، بانی انقلاب ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر اور سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر اسلام کا آفاقی اور الٰہی پیغام دنیا کو دے رہے تھے کہ اسی میں ان کی آزادی و استقلال کا راستہ موجود تھا، انہوں نے تمام مظلوم اقوام کو دعوت دی کہ وہ ستم گروں اورظالموں کے ہاتھ سے اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیںاور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ کوئی ان پر مسلط ہو جائے ۔
    
امام خمینی کے پیغام سے سب سے زیادہ خوف ایران کے پڑوس میں واقع ان عرب حکمرانوں کو ہوا جو عوام کو بادشاہت کے جبر تلے کئی برسوں سے روند رہے تھے اور ان کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالے بیٹھے تھے،ان عرب حکمرانوں کے سرپرستوں نے بھی محسوس کیا کہ اگر تبدیلی کی یہ لہر خطے کے دیگر عرب ممالک میں بھی پہنچ گئی تو ان کے مفادات جو پہلے ہی اس انقلاب کے بعد سخت خطرے سے دوچار ہو گئے تھے کا حصول ناممکن ہو جائے گا لہذا ہم نے دیکھا کہ اسلامی انقلاب کی راہ میں پہلے دن سے ہی مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے ،نوزائیدہ اسلامی انقلاب کو اندرونی سازشوں سے ختم کرنے کی کوششیں سامنے آئیں جن کو بڑی حکمت و دانائی سے ناکام بنایا گیا اور ان سازشوں کو اس کے کرداروں سمیت دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا پڑا،انہی سازشوں کے توڑ میں ہی امریکی سفارت خانہ پر قبضہ اور اس کے اندر واقع جاسوسی مرکز اور اس سے وابستہ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ایرانی طلباء کے ہاتھوں یرغمال بنایا جانا ایک ناقابل فراموش ،تاریخی کارنامہ ہے جس سے کئی اور واقعات جڑے ہوئے ہیں۔
    
ایران کے اسلامی انقلاب پر پہلے دن سے ہی اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں ،اس کے اثاثے منجمد کر لیئے گئے(یہ اثاثے اب اڑتیس سال گذر جانے کے بعد مزاکرات کے بعد قسط وار دینے کا وعدہ کیا گیا ہے) اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس انقلاب کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے اس کے بانیان،علما ء ،اسکالرز،اس کے اصل دماغوں اور اعلیٰ حکومتی انقلابی شخصیات کو ٹارگٹ کر کے شہید کر نے کا سلسلہ چلایا گیا،جب اس سے کام نہ چلا تو ایران کے ہمسائے میں اپنے ایک مہرے صدام کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کر دی گئی ،آٹھ سال تک اس مسلط کردہ جنگ میں ایک نوزائیدہ مملکت اسلامی کے مقابل ساٹھ کے قریب ممالک نے عراق کا ساتھ دیا ،اور بھرپور مالی و فوجی مدد کی تاکہ انقلاب کا خاتمہ ہو جائے،بیرونی حملہ آوروں کے سات ساتھ ایک گروہ ایسا بھی پیدا کیا گیا جس کے ذریعے داخلی انتشار و تخریب کا کام لیا گیا اور مشکلات کھڑی کی گئیں تاکہ لوگ بیزار ہو جائیں اور حکومت اسلامی کا تختہ الٹ دیں مگر دنیا نے دیکھا کہ تمام سازشیں ناکام ہوئیں ، مسلط کردہ جنگ سے بھی وہ مقاصد حاصل نہ کیئے جا سکے اور پابندیوں نے بھی اسلامی ایران کو نہ جھکایابلکہ ایران اپنے بنیادی نعرے آزادی،استقلال، جمہوری اسلامی پر 38 سال سے ڈٹا ہوا ہے ،جنگ اور آفات کے زمانے میں بھی اس مملکت نے انتخابات کو ایک دن کیلئے بھی ملتوی نہیں کیا جوعوام کے جمہوری حقوق دینے کے وعدے کا پاس اور روشن مثال ہے۔حالیہ دنوں میں جب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سمیت کچھ اسلامی ممالک کے شہریوں پر امریکہ آنے پہ پابندی لگائی ہے تو ایران کے سوا کسی ملک کو جرا ت نہیں ہوئی ہوئی کہ عالمی بدمعاش کو اسی کی زبان میں جواب دے،ایران نے بھی جواب پابندیاں لگا کے اپنی غیرت اور آزادی کاثبوت دیا ہے۔
    
امام خمینی کی رہبری و سیادت میں لایا ہوا اسلامی انقلاب آج جب اپنے 38 سالہ سفر کو طے کر چکا ہے اور اس مملکت اسلامی کی عوام نے اس کی اڑتیس بہاریں دیکھ لی ہیں تو ایران آج ایک ایسی طاقت کے طور پر نظر آتا ہے جس کو خطے کی سیاست سے نکالنا یا نظر انداز کرنا خطے کے مسائل میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے،اسی طرح ایران آج دنیا کی سیاست پر بھی اپنا بھرپور اثر رکھتا ہے ،ایران کی طرف سے کیئے گئے اعلان کئی اہم ممالک کی اکانومی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انقلاب کی جن لہروں کو دنیا نے بہار کے جھونکوں کی مانند محسوس کیا تھا اسی کی بدولت مشرق و مغرب سے آزادی کی تحریکوں کو کامیابیاں ملیں اور آمریتوں سے چھٹکارا ملا،یہ الگ بات ہے کہ بعض ممالک کی قیادتوں نے اپنے ہاتھوں ہی ان کامیابیوں کو ناکامیوں سے دوچار کر لیا ہے۔
    
اس انقلاب کی سب سے اہم بات اس کا نظریہ ہے جس کی وجہ سے اسے تمام تر مشکلات،مصائب،آفات،سازشوں،جنگوں،تخریبی کاروائیوں،اپنوں اور پرایوں کی بے رخیوں،الزامات اور مسائل کے انبوہ کے مقابل ہر لمحہ کامیابیاں ملیں،وہ نظریہ بے شک ولایت فقیہ کا الٰہی نظریہ ہے یہی نظریہ حزب اللہ کو اسرائیل جیسے بدمعاش ملک کے مقابل کامیابیاںسمیٹنے کا جذبہ فراہم کرتا ہے،یہی نظریہ 38 سال تک پابندیوں کے شکار ملک کو ایک ترقی یافتہ،اعلیٰ ٹیکنالوجی سے آراستہ مملکت بنا تاہے، یہی نظریہ ایک قوم کو دنیا کے سامنے سرخرو اور آزادی سے جینے کے گر سکھلاتا ہے اور اسی نظریہ پر قائم ہی اپنے ملک،وطن اور دین کے دفاع کیلئے لاکھوں لوگ خود کو پیش کر دیتے ہیںاور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔انقلاب کے چاہنے والوں اور بہی خواہوں کو اس نظریہ کی تقویت اور مضبوطی کیلئے کام کرنا چاہیئے تاکہ اسلامی انقلاب کی خوشبو ہر سو معاشرہ کو معطر کر ے۔
    
اسلامی انقلاب کی اڑتیسویں صبح بہار کی مبارکباد کے اصل مستحق وہ خانوادگان اور سرفروش ہیں جنہوں نے اس الٰہی پیغام جسے انہوں نے امام خمینی رح کی زبانی سنا اور لبیک کہتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں قربانی کے ان مٹ نمونے پیش کرنے والی مائیں جنہوں نے اپنے تین تین بچوں کو انتہائی خندہ پیشانی سے قربان گاہ میں بھیجا۔خدا وند کریم سے دعا ہے کہ اس انقلاب کو حضرت حجت ؑ کے انقلاب سے متصل فرمائے(آمین)    


تحریر۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر
                             

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان کے قیام کا مقصد اگرچہ ایک ایسے جداگانہ وطن کا حصول تھا، جس میں تمام تعصبات بالخصوص مذہبی تفریق و تقسیم سے بالاتر ہو کر تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے آزادی ہو اور وہ بے خوف و تردید نیز کسی تعصب کا شکار ہوئے بغیر اپنے عقیدے و مذہب کیمطابق اپنی عبادات کو انجام دے سکیں، اقبال و قائد رحمۃ اللہ کے خیال و فکر میں یقیناً ایسا ہی پاکستان اور ہندوستان سے جدا وطن کا حصول تھا، مگر بدقسمتی سے حضرت اقبال قیام پاکستان سے بہت پہلے اور قائد اعظم قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد نوزائیدہ مملکت کو بیچ منجدھار کے چھوڑ کے داغ مفارقت دے گئے، جس کے بعد ہمارے پیارے پاکستان کو ایسی نظر لگی کہ آج تک ہم تعصبات و تنگ نظریوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تعصب نے ہم سے ایسے ایسے گوہر نایاب چھین لئے کہ جن کا متبادل ہمیں دکھائی نہیں دیا۔ ان شہداء، چمکتے ستاروں اور پاک سرزمین کے فرزندان میں علماء بھی ہیں اور بزرگان بھی، ڈاکٹرز بھی ہیں اور وکلا بھی، اعلٰی آفیسرز بھی ہیں اور خطیب بھی، شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، پروفیسرز بھی ہیں اور انجینئرز بھی، طالبعلم بھی ہیں اور تاجر بھی۔ الغرض اس تعصب و تنگ نظری کا شکار ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انتہائی قیمتی اور ملک کے حقیقی خدمت گذار نظر آتے ہیں۔

یہ فہرست بہت طویل ہے، کس کس کا نام لیں، کس کو روئیں، کس کس کا ماتم کریں، یہ ایک دو دن کی بات نہیں، کم از کم پینتیس برس کی لہو رنگ داستان ہے، جسے سنانے کیلئے بہت وقت درکار ہے اور لکھنے کیلئے کتابوں کا بار، انہیں میں سے ایک سید محسن نقوی ہیں، جن کا اصل نام سید غلام عباس تھا، ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے تھا، محسن نقوی نے 6 مئی 1947ء کو جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خاں میں سید چراغ حسن نقوی کے گھر میں آنکھ کھولی، مگر محسن نقوی نے اپنا مسکن و رہائش لاہور کو پسند فرمایا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ایم اے اردو کیا تھا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعہ کلام چھپا، جس کے بعد ان کی شہرت و نام میں بلندی دیکھی گئی، اسی دوران وہ لاہور منتقل ہوگئے، جہاں 15 جنوری 1996ء کو انہوں نے لاہور کی معروف مون مارکیٹ دبئی چوک میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پائی۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے

سید محسن نقوی کو بطور ایک شاعر دیکھیں یا ایک بلند پایہ خطیب کے طور پر سٹڈی کریں، ان کی شخصیت کو ایک ادیب کے طور پر سامنے رکھیں یا ایک مداح اہلبیت ؑ کے طور پر، انہیں ایک قومی رہنما کے طور پہ دیکھا جائے یا ایک سیاستدان کے طور پہ، محسن نقوی کئی حوالوں سے منفرد شناخت رکھتے تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی شاعری انہیں ان سب حیثیتوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ شاعر تھے، غزل گو تھے، مگر ان کی نظمیں بھی لافانی ہیں، وہ شاعری میں منفرد حیثیت و مقام کے حامل تھے، انہیں آپ جب جب پڑھیں گے، ان کے کلام سے نئی ضوفشانیاں پائیں گے، وہ ادب کے ہر رنگ اور شاعری کی ہر صنف پر ناصرف خوبصورتی سے پورے اترتے نظر آتے ہیں، بلکہ ہر ایک صنف کو اپنا رنگ دیتے دکھائی دینگے۔ ان کی شاعری میں آپ کو مقتل، قتل، مکتب، خون، گواہی، کربلا، ریت، فرات، پیاس، وفا، اشک، صحرا، دشت، لہو، عہد، قبیلہ، نسل، چراغ، خیمہ جیسے الفاظ، جن کا تعلق کسی نا کسی طرح کربلا اور اس سرزمین پر لکھی گئی ان کے اجداد کی حریت و آزادی کی بے مثال داستان سے ہے، بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ کربلا کی تپتی زمین پر قربانی کی جتنی داستانیں لکھی گئی ہیں، محسن نقوی نے ان کو کسی نا کسی رنگ و آہنگ میں اپنا موضوع بنایا ہے اور انہیں اپنے تئیں زندہ کرنے اور نئے پہلو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔

ذرا اس کلام میں دیکھیں کہ کربلا سے درس حریت اور احساس زندگی لینے والا یہ مسافر کربلا، کس طرح حالات حاضرہ دیکھ کر، اس کا احساس کرکے اسے اپنے رنگ میں اجاگر کر رہا ہے۔۔۔۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
آج بھی ہمارے ملک میں صورتحال ویسی ہی ہے، جیسی آج سے کئی برس پہلے شہید محسن نقوی نے محسوس کی تھی۔ ہر سو بے گناہوں کا لہو بہایا جا رہا ہے اور درد و الم کی داستانیں گھر گھر اور شہر شہر رقم ہو رہی ہیں۔ اب کوئی معزز نہیں رہا، کوئی تہذیب نہیں رہی، کوئی توقیر نہیں رہی، احساس مر چکا ہے، عزتین پائمال کی جا رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی ہر شام خون آشامیوں کی تاریک راتوں کیساتھ سامنے آتی ہے، محسن جیسا حساس شاعر اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، لہذا وہ اس پر بہت ہی اداس ہوا، اگر اس کی شاعری میں قتل، مقتل، بھرے بازار جیسے الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں تو یہ اس کے اندر کا کربلائی ہونا ہے، جو کسی بے گناہ کے قتل پر اپنا دھیان الگ نہیں کرسکتا۔ انسان کو فکر معاش کے ذریعے جس طرح لاتعلق رکھنے کی سازش کی جاتی ہے، وہ ایک باشعور فرد ہونے کے ناطے اس سے آگاہ کر رہے تھے کہ
رزق، ملبوس، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ
اور پھر محسن کا دردمند دل یہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیرِ خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

ذیل میں جس کلام کو پیش کر رہے ہیں، اسی میں دیکھیں کہ کتنے استعارے اور الفاظ ایسے ہیں، جن کا تعلق صحرائے کربلا پر لکھی تاریخ کی عظیم ترین داستان عشق سے ہے۔
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی
قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
میرے لبوں پہ حرف دعا کی لکیر تھی
میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی
شہید محسن نقوی اگرچہ عام مشاعروں میں زیادہ نہیں دیکھے جاتے تھے اور ایسے مشاعرے و پروگرام جن کا خاص مقصد یا خاص ایجنڈا حکومتی یا کسی خاص ادبی گروہ یا سوچ و فکر کی ترویج ہوتا تھا، ان سے دور ہی دکھائی دیتے تھے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ عوامی سطح پہ روزانہ کئی کئی مجالس پڑھتے تھے، جن میں ہزاروں لوگ ان کے سامع ہوتے تھے اور ان کو داد و تحسین دیتے تھے۔ مجالس میں انہیں لوگ بے حد عقیدت سے ملتے تھے، محسن کو بھی اپنے انہی چاہنے والوں سے محبت تھی۔ وہ کو بہ کو، شہر بہ شہر جاتے اور مجالس میں شریک ہوتے، اپنے خوبصورت عقیدت بھرے افکار سے لوگوں میں محبت اہلبیت کے چراغ جلاتے۔ انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا، اگرچہ وہ ایوارڈز اور عہدوں سے بہت بلند مقام رکھتے تھے، مگر یہ ان کی فکر کی ترویج و تسلیم کا ایک ذریعہ تھا۔ وہ بہرحال اپنے دور کے سب سے موثر قادرالکلام شاعر تھے، جنہیں عوامی پذیرائی اور محبتیں حاصل تھیں۔

مزاحمتی شاعری، جس کا ہدف عوامی شعور کی بیداری، غیر عادل حکمرانوں کا احتساب اور انصاف و مساوات قائم کرنا ہوتا ہے، محسن نقوی کے ہر کلام میں اپنے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے انداز کے حامل نہیں تھے، مگر ان کا طرز تخاطب اور انداز تحریر زمانہ حال و مستقبل سے ہم آہنگ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ان کی شاعری کو آج پڑھیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ آج کے حالات پر لکھی گئی ہے۔۔۔۔
منصب بقدر قامت کردار چاہیئے
کٹتے ہوئے سروں کو بھی دستار چاہیئے
اک صبح بے کفن کو ضرورت ہے نوحہ گر
اک شام بے ردا کو عزادار چاہیئے
ہے مدعی کی فکر نہ مجرم سے واسطہ
منصف کو صرف اپنا طرفدار چاہیئے
اگرچہ مقتل اور قتل سے متعلق ان کے بے انتہا خوبصورت اشعار ملتے ہیں، مگر اس کلام میں جو پیغام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
اور اسی کلام میں یہ شعر ملاحظہ کریں، کس طرح یہ مرد مجاہد اپنے نہ ہونے کی خبر دیتے ہوئے اپنے افکار کی ترو تازگی کی بات کر رہا ہے۔۔۔
آئندہ نسل مجھے پڑھے گی غزل غزل
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤں گا

ان کی سیاسی ہمدردیاں پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ تھیں، محسن نقوی کی پارٹی سے بے لوث محبت اور انتھک محنت و لگن کو سراہتے ہوئے غریبوں کی نمائندہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود کے مقابلے میں محسن نقوی کو پارٹی ٹکٹ دیا، مگر بدقسمتی سے یہ انتخابات ملتوی ہوگئے۔ جن دنوں ڈیرہ غازی خان کے فاروق لغاری بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے، وہ ان کی حکومت میں مشیر بھی بنائے گئے، جبکہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسیری اور پہلی حکومت گرائے جانے پہ ایک لافانی نظم لکھی، جسے ایک عرصہ تک پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے جلسوں میں خاص طرز و ترنم میں پڑھا کرتے تھے۔ اس نظم کا عنوان "یااللہ یارسول بے نظیر بے قصور تھا" اسی طرح انہوں نے ایک اور لافانی کلام بھی لکھا، جسے وہ مجالس میں پڑھا کرتے تھے، اس نظم میں کالعدم تکفیری گروہ کی حقیقت بیان کی گئی تھی، اس کے بول کچھ یوں تھے۔۔۔۔
کل شب کو خواب میں میرے دور پرفتن
دیکھی یزیدیت کے قبیلے کی اک دلہن
آئی صدا اس کے مقابل کرو جہاد
دیکھیں یہ ہے سپاہ صحابہ کی انجمن
محسن نقوی نے چند ایک فلموں کیلئے بھی گیت لکھے، مگر وہ فلمی دنیا کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھے، البتہ ان کی غزلیں بالخصوص ؛آوارگی؛ کو معروف گلوکار غلام علی نے گایا، جو بہت پسند کی گئی۔ محسن نقوی نے قومیات میں بھی اپنا حصہ ڈالا، اسلام آباد کے معروف معرکہ جس میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں تاریخی جدوجہد کی گئ
وہ سٹیج پر موجود تھے اور اپنے کلام و افکار و انداز سے عوام کو گرما رہے تھے۔ محسن نقوی کی شہادت کے بعد ان کے فرزند سید عقیل محسن نے ان کی مسند مجالس سنبھال رکھی ہے، جو ملک بھر میں اپنے باپ کے نام کیساتھ پہچانے جاتے ہیں۔

تحریر۔۔۔ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز (آرٹیکل) بعض لوگ آج ان کی شہادت کو اکیس برس ہونے کے باوجود سمجھ نہیں پائے کہ ان کی شخصیت میں اس قدر جاذبیت اور مقناطیسیت کیوں تھی، بلاشبہ وہ شہادت سے پہلے کی زندگی میں تو بے حد جاذبیت رکھنے والے شہید قائد کے بعد سب سے بڑی شخصیت تھے، مگر ان کی شہادت کے بعد بھی ان کی جاذبیت اور مقناطیسیت کا یہ عالم بہت سے لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈالے ہوئے ہے اور وہ انگشت بدندان ہیں کہ اکیس برس ہونے کو آئے، نوجوان آج بھی ان کی شخصیت کو آئیڈیالائز کرتے ہیں، ان کے مزار پہ دیوانہ وار آتے ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ان کی یاد میں گریہ ہوتا ہے، ان کی باتوں، ان کی کہانیوں، ان کے کارناموں، ان کے شجاعانہ قصوں، ان کے فلاحی منصوبوں، ان کے یادگار اور پر اثر لیکچرز، ان کے دلنشین خطابوں، ان کے حیران کر دینے والے منصوبوں اور ان کی زندگی کے ان گنت و لامتناہی سلسلوں کا تذکرہ ہوتا ہے، انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، انہیں سلام عقیدت اور نذرانہ محبت پیش کیا جاتا ہے۔

یہ سب واقعی بہت حیران کر دینے والا ہے اور ہر اس شخص کیلئے اس میں حیرت کا مقام ہے، جس نے شہید ڈاکٹر کو زندگی میں نہیں دیکھا اور جس کو ان کی قربت نصیب نہیں ہوسکی اور جو ان سے فیض نہیں پا سکا یا جسے ان سے کسی بھی وجہ سے رغبت نہیں تھی، مگر ہر اس دوست کیلئے جس نے ان کی قربت حاصل کی، جس نے انہیں کام کرتے دیکھا، جس نے انہیں متحرک اور مسلسل فعال پایا، جس نے انہیں لوگوں کا درد محسوس کرتے دیکھا، جس نے انہیں قومیات میں اپنی زندگی کے قیمتی ایام، ماہ و سال خرچ کرتے دیکھا، جس نے انہیں ایثار و قربانی کی عملی تصویر بنے دیکھا، جس نے انہیں نوجوانوں کے مسائل حل کرتے دیکھا، جس نے انہیں افق پاکستان پر روشن اور چمکتے، دمکتے دیکھا، اس کے سامنے یہ محبتوں اور عقیدتوں کے نچھاور ہونے والے پھول اور جاذبیت کے یہ نمونے کسی بھی طور انجانے اور غیر فطری نہیں، ہاں۔۔یہ اس خلوص کا انعام ہی تو ہے جو وہ لوگوں پر نچھاور کرتے تھے، یہ اس قربانی اور ایثار کا بدل ہی تو ہے جو وہ کسی عام سے انسان کیلئے دیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے تھے، یہ اس درد کا حاصل ہی تو ہے جسے اپنے سینے میں سجائے وہ کراچی سے لیکر بلتستان تک اور کوئٹہ سے لیکر پاراچنار تک کے مومنین کیلئے محسوس کرتے تھے۔

بھلا کوئی اور ہے تو اسے سامنے لایا جائے کہ جو ان کا مقابلہ کرسکے، جس کی خدمات اور کارناموں کی فہرست اور خلوص و مہربانی کا معیار ان کے عشر عشیر بھی ہو، جس کے دن اور رات، ماہ و سال مسلسل قومی زندگی کا آئینہ ہوں، جس پر اعتماد کیا جاتا ہو، جو امید اور آسرا محسوس ہوتے ہوں، جو ظاہر و باطن میں ایک جیسے ہوں، جو گفتار و کردار میں یکساں ہوں، جو اندر و باہر ایک ہی طرح کے ہوں، جو دور اور نزدیک، سفر و حضر اور دکھ و خوشی میں ایک ہی جیسے ہوں، جن کی رفتار سب سے تیز ہو، جس کا کردار سب سے بلند ہو، جس کی نگاہ سب سے دور بین ہو، جس کا ہدف سب پہ بھاری ہو، جس کا جینا خوشنودی خدا کیلئے ہو اور جس کا مرنا راہ آئمہ و انبیاٗ ہو، ہمیں تو کوئی اور ان کے مقابل نظر نہیں آتا، اگر کوئی ہوتا تو اس کی خوشبو بھی آج سب کو مہکا رہی ہوتی، سب کو جلا رہی ہوتی، سب کو اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی، میرے خیال میں اس میدان میں ان کے مقابل دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔


تحریر۔۔۔۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر

Page 1 of 2

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree