وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ظالموں نے پینتالیس معصوم لوگوں کی جان لے کر سانحہ پشاورکے غم تازہ کردیے ہیں۔ کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ قوم کے قتل عام کی یاد تازہ کردی کہ جہاں کوئی گھر ایسا نہیں ہے کہ جہاں ایک یا ایک سے زیادہ افراد موت کا شکار نہ ہوچکا ہو۔ یہ حملے ایسے لوگوں پر کیے جاتے ہیں جو سب کے سب پرامن ، ہمدرداور منکسر مزاج ، اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ یہ کسی فرد یا گروہ کے رنج ، غصے یا انتقام کا مسئلہ نہیں یہ خالصتاً تخریبکاری اور دہشت گردی کا خوفناک وار ہے۔ان کاروائیوں کامقصد ملک میں انتشار پھیلانا اور قوم کو عدم تحفظ میں مبتلا کرنا ہے۔ حکومتوں کی طرف سے ہر ورادات کے بعد مذمت کا بیان ، نوٹس لے لیا کی تکرار ، ہلاک شدگان کے ورثاء کے لیے پانچ لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے ایک لاکھ روپے کا اعلان اور اب زیادہ سنگین واردات پر ایک روزہ سوگ اور جھنڈا سر نگوں کرنے کی ذمہ داری بھی ان کے نازک کاندھوں پر آن پڑی ہے۔ پاکستان میں عوام نہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی کی موت مر سکتے ہیں۔ کوئی دہشت گردوں کے ہاتھوں مرتا ہے اور کوئی گھٹ گھٹ کر مرتا ہے۔ دہشت گردوں نے اس ملک کے لوگوں کو جو دکھ دیے ہیں سو دیے ہیں لوگوں کو اس سے زیادہ دکھ قومی سیاسی قیادت کی بے حسی پر ہوتا ہے۔ 13مئی کی صبح صفورہ گوٹھ میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کا ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے پوری دنیا کو جھنجوڑ کر کے رکھ دیا۔لیکن ہماری قومی سیاسی قیادت اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کرتی رہی اس کانفرنس میں دہشت گردوں کے اس وحشیانہ اقدام کی اطلاع مل چکی تھی لیکن پوری قوم ٹی وی چینلز پر دیکھتی رہی کہ ہمارے قائدین اس کانفرنس میں بیٹھ کر قہقہے بھی لگاتے رہے اور پرتکلف کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے اور یہ بھی تاثر دیتے رہے کہ جیسے کوئی واقعہ رونما ہوا ہی نہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری قومی سیاسی قیادت اس کانفرنس سے اٹھ کر فوراً کراچی کے لیے روانہ ہو جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ سیاسی قیادت نے اب تک اپنے رویے سے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے کو نہ تو حل کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل ہے۔ سیاسی قائدین دہشت گردی کے ہر واقعے پر صرف بیانات دیتے ہیں جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔



وحدت نیوز(مظفرآباد)سانحہ صفوراہ چورنگی کراچی، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا ملک گیر ایک روزہ سوگ، کفریہ فتووں کی دکانیں اس واقعے کی اصل ذمہ دار، قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں فی الفور بند کروائیں، مسلمانوں کی جان و مال کا تحفظ حکومتوں کا اولین فرض ، سفاک درندوں کی مذموم ترین کاروائیاں وفاقی و صوبائی حکومتیں ہوش کے ناخن لیں ، مظلوم عوام کا کوئی پرسان حال نہیں اور حکمران وی وی آئی پی پروٹوکول انجوائے کر رہے ہیں ، ان خیالات کا اظہار ریاستی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی و سیکرٹری سیاسیات سید تصور عباس موسوی نے سانحہ صفورہ چورنگی کراچی کے حوالے سے کابینہ کے تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسماعیلی برادری سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کے شانہ بشانہ ہیں ، دشمن لاکھ کوشش کر لے وہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ، یہ پرامن اسماعیلی برادری کو تنہا نہیں چھوڑیں گے،یہ سانحہ پوری قوم کا سانحہ ہے،امن عامہ کی صورتحال کو خراب کرنے میں اور فرقہ واریت جیسے ناسور کو پھیلانے میں را کی سرپرستی میں کالعدم جماعتیں سر گرم ہیں ، ان کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے،نیشنل ایکشن پلان تو لایا گیا ، مگر اس کے ساتھ ساتھ کالعدم جماعتوں کو غیر ملکی استعمار کی سرپرستی میں دوبارہ منظم ہونے کا موقع دے دیا گیا ، اور ان کی ایسی منظم کاروایاں ، حکومت کو اس پر جوابدہ ہونا ہو گا ، مظلوموں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، حکمرانوں کو اس کا جواب دینا ہوگا، کراچی صفورا چوک واقعہ کھلی دہشت گردی، قائد کے شہر میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں اور شاہ صاحب خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔

رہنماؤں نے مزید کہاکہ کالعدم و تکفیری جماعتیں اس ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہیں جبکہ حکمرانوں نے انہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے، صوبائی حکومت امن عامہ کے حوالے سے ناکام ہو چکی ، وزیراعلیٰ سندھ کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے فوری مستعفی ہو جانا چاہیے، تکفیری دہشت گردوں نے ملک کے امن عامہ کو یر غمال بنا رکھا ہے، بیچ چوراہے سرعام نہتے شہریوں کا قتل ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی مستعدی دکھانی ہو گی ، عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینے والے عوام کی حفاظت نہیں کر سکتے تو انہیں گھر چلے جانا چاہیئے ،تنخواہ عوام سے اور سیکورٹی وی وی آئی پیز کو اس ملک میں کیسا نظام ہے؟ عوام کے جان و مال کی حفاظت ان کے اولین فرائض میں شامل ہے ۔اس سے رو گردانی کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سفاک درندوں کو عبرت ناک انجام سے دو چار کریں ،کمیٹیوں اور تحقیقات کے اعلانات پہلے بھی بہت سنے اس واقعے کے ذمہ داران کو مثال بنایا جائے ، تا کہ کوئی بھی درندہ اس قسم کی کاروائی کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی کانپ اٹھے۔

چند لوگ اور ان کے کرتوت

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) نویں تا تیرہویں صدی کے چار سو برس منطقی علوم میں مسلمانوں کی فتوحات کا سنہری دور کہلاتے ہیں۔ دسویں صدی کے آغاز سے بارہویں صدی کے خاتمے سے ذرا پہلے تک فاطمی سلطنت تیونس تا یمن اور یمن تا شام پھیلی ہوئی ہے۔ علم و حکمت کا مرکز بغداد دورِ زوال میں داخل ہے اور قاہرہ کے نئے شہر کی بنیاد رکھی جا چکی ہے اور اس میں مشرق کی پہلی جدید یونیورسٹی جامعۃ الازہر مسلمان دنیا کے کونے کونے سے اہلِ تخلیق کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ انھی میں ابن الہیثم جیسا ماہرِ فلکیات و طبیعات و ریاضی دان بھی ہے جس نے دوربین کا عدسہ بنا کے روشنی کی رفتار ماپ کر زمین کا دیگر سیاروں سے فاصلہ ماپ لیا ہے۔ اب فاطمی خلیفہ امام الحکیم کی خواہش ہے کہ ابن الہیثم دریائے نیل میں پانی کے سالانہ اخراج کو بھی ماپ دے تا کہ نئی زمینوں کی آبادکاری کی آبی منصوبہ بندی ہو سکے۔
اسی قاہرہ سے بہت دور نصیر الدین طوسی نے ایک ایرانی قصبے مرغہ میں ایسی رصدگاہ بنا لی ہے جہاں چین تک سے سائنسی طلبا نظامِ شمسی کی نپائی کا ہنر سیکھنے آ رہے ہیں۔ نصیر الدین طوسی کی نگرانی میں ان طلبا کے تیار کردہ فلکیاتی شماریاتی چارٹوں میں سے کچھ ہزاروں کلو میٹر پرے اندلس پہنچتے ہیں اور وہیں سے ایک یہودی عالم ابراہام زکوٹو ان کی نقول پرتگال کے شاہ جان دوم کے دربار میں لے جاتا ہے۔ ان شماریاتی چارٹوں کی مدد سے اصطرلاب (قطب نما) ایجاد ہوتا ہے اور اسی اصطرلابی مدد سے واسکوڈی گاما ہندوستان دریافت کر لیتا ہے۔ یوں مشرق کا دروازہ مغرب کے نوآبادیاتی عزائم کے لیے کھل جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر ساٹھ کلومیٹر قطر کے ایک گڑھے کا نام نصیر الدین یونہی نہیں رکھا۔
اور اسی دور میں بلخ میں ابو علی سینا پیدا ہوتا ہے جو جدید طب اور طبیعات کا باپ ہے کہ جس کے ساڑھے چار سو میں سے دو سو ساٹھ مقالات طب و فلسفے اور منطق پر ہیں۔ باقی کام ریاضی، فلکیات، کیمیا، جغرافیہ، ارضیات، نفسیات، فقہہ اور شاعری پر ہے۔ ابنِ سینا وہ دروازہ ہے کہ جس میں سے دورِ تاریک کا یورپ چھلانگ لگا کر دورِ جدیدیت کی جادوئی دنیا میں آن گرتا ہے۔
اور کہیں آس پاس ہی ابو عبداللہ جعفر ابنِ محمد بھی شعر لکھ رہا ہے۔ دنیا اسے رودکی کے نام سے جانتی ہے۔ اس پیدائشی نابینا نے جدید فارسی اور شاعری کی بنیاد رکھی۔ ایک لاکھ سے زائد شعر کہے اور غربت میں مر گیا۔
اور یہیں کہیں عظیم سیاح، فلسفی اور ادیب ناصر خسرو بھی انیس ہزار کلومیٹر کے سفر پر روانہ ہے۔ ہر کوس کا تجربہ اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہے۔ (ذرا تصور کیجیے گیارہ سو برس پہلے مشرقِ وسطی کا انیس ہزار کلومیٹر کا سفری دائرہ پا پیادہ…)۔
اور سائنسی و منطقی سوچ کے انقلابی چلن میں مگن مشرقِ وسطی سے دور ملتان نامی دور دراز علاقے میں کوئی شمس الدین سبزواری دعوت و تبلیغ کا کام کر رہا ہے۔ ابھی بت شکن محمود غزنوی کا ظہور نہیں ہوا۔ ابھی منگولوں کے پاس مسلمان عقلیت پسندی کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے کچلنے میں کچھ وقت ہے اور ابھی اسپین سے بھی مسلمانوں کو بیک بینی دوگوش نکالا جانا ہے اور ابھی جاہل صلیبی غول در غول بچا کھچا مسلمانی علم و حکمت تہہ و بالا کرنے کے بارے میں بس سوچ رہے ہیں۔۔۔
آئیے ماضی کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ابراہیم رحیم ٹلا بمبئی میونسپلٹی کے صدر، دوسرے عشرے میں بمبئی لیجسلیٹو کونسل کے صدر اور تیسرے عشرے میں برٹش انڈیا کی مرکزی لیجسلیٹو کونسل کے صدر بنتے ہیں اور چوتھے عشرے میں دوسری دنیا کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ گوکھلے، اینی بیسنٹ اور جناح صاحب کی طرح ابراہیم رحیم ٹلا بھی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر شمار ہوئے۔
اور پھر اسی بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں پاکستان بننے سے ایک ماہ پہلے ایک صنعت کار امیر علی فینسی مشرقی افریقہ میں اپنے سارے اثاثے فروخت کر کے پاکستان پہنچتا ہے اور پہلی سرمایہ کاری اسٹیل کے شعبے میں کرتا ہے اور اسی پاکستان کے بائیس امیر صنعتی خاندانوں میں شامل ہوتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے۔
اور اسی پاکستان کے بنتے ہی غلام علی الانہ نامی ایک صاحب مسلم لیگ کے فنانس سیکریٹری بنائے جاتے ہیں۔ پھر وہ کراچی کے مئیر کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر وہ پہلے اسلامک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بنیاد رکھتے ہیں۔ پھر اقوامِ متحدہ والے انھیں لے جاتے ہیں اور ان کے ذمے انسانی حقوق کی عالمی نگرانی لگا دیتے ہیں۔ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں کی مقامی حکومت انھیں شہر کی طلائی چابی پیش کر دیتی ہے۔ ان شہروں میں سان فرانسسکو، فلاڈیلفیا، بفلو، پیٹرسن، پیرس، روم، جنیوا اور پراگ بھی شامل ہیں۔ اتنی مصروف زندگی میں بھی غلام علی الانہ نے اچھی خاصی انگریزی شاعری کر لی اور درجن بھر کتابیں بھی لکھ ڈالیں اور سن پچاسی میں رخصت بھی ہو گئے۔
اسی دور میں ایک صدر الدین بھی گزرے جو انیس سو چھیاسٹھ سے اٹھتر تک ( بارہ برس ) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلاحِ مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ رہے اور کروڑوں مہاجرین کی دیکھ بھال کے فن کو ایک جدید شکل دی جس کے سبب انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کے اندرونی و بیرونی مہاجروں اور بے وطن بہاریوں کو بھی اچھا خاصا سہارا ملا اور پھر یہ تجربہ لاکھوں افغان مہاجرین کی دیکھ بھال کے بھی کام آیا۔ یہ وہی صدرالدین ہیں کہ جن کے بھائی علی خان سن اٹھاون تا ساٹھ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ اور اسی اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے یونیسکو کے پیرس ہیڈ کوارٹر میں اسماعیل گل جی کی بھی پینٹنگ لگی ہوئی ہے۔ گل جی پہلے پاکستانی پینٹر تھے جنھیں حکومتِ پاکستان نے ہلالِ امتیاز کے قابل جانا۔
اور اب تذکرہ کچھ شمالیوں کا۔
یکم نومبر انیس سو سینتالیس کو گلگت بلتستان کو مٹھی بھر سپاہیوں نے پھٹیچر اسلحے کے بل بوتے پر آزاد کروایا۔ ان بے خوفوں کی قیادت کرنل حسن خان اور کیپٹن راجہ بابر خان تو کر ہی رہے تھے مگر ان کے دیگر ساتھیوں میں کیپٹن شاہ خان اور صوبیدار صفی اللہ بیگ بھی شانہ بشانہ تھے۔ باون برس بعد انھی کے نقشِ قدم کو حوالدار لالک جان نے کرگل کے پہاڑوں میں اتنا گہرا کر دیا کہ اپنے ساتھیوں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہوگئے اور نشانِ حیدر کی صف میں جگہ پا گئے۔
پہاڑ ہوں اور کسی گلگتی و بلتستانی کا دل نہ مچلے کیسے ممکن ہے۔ اشرف امان کا دل مچلا تو وہ انیس سو ستتر میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ اس کارنامے کے تئیس برس بعد نذیر صابر نے پہلے کے ٹو سر کی اور پھر دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر پہلا پاکستانی جھنڈا گاڑ دیا۔ اس کارنامے کے تیرہ برس بعد ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی لڑکی بن گئی جو ماؤنٹ ایورسٹ پر جا پہنچی۔
(ثمینہ کے ساتھ دو بھارتی لڑکیاں تاشی اور ننگاشی ملک بھی تھیں۔ یوں بھارتی ترنگا اور پاکستانی سبزہ پہلی بار ایک ساتھ ماؤنٹ ایورسٹ پر ایک عام جنوبی ایشیائی انسان کی دو طرفہ خواہشِ امن کا مشترکہ استعارہ ہو گیا)۔
بھارت کا تذکرہ آیا تو لگے ہاتھوں بھارت کے سب سے امیر مسلمان، سب سے بڑے سافٹ وئیر ساز اور مخیر عظیم پریم جی کی بھی بات ہو جائے کہ جس نے اپنے پندرہ ارب ڈالر کے اثاثے کا بیشتر حصہ فلاحِ عام کے لیے وقف کر دیا۔
مگر ان سب شخصیات میں قدرِ مشترک کیا ہے۔ یہ بھان متی کا کنبہ میں کیوں جوڑ رہا ہوں۔ بات بس اتنی سی ہے کہ یہ سب اسماعیلی ہیں۔
(کچھ اور نابغہِ روزگار بھی اس مضمون کا حصہ ہونے چاہئیں۔ مگر اس وقت مجھے ان کے ناموں سے زیادہ ان کی جان عزیز ہے)۔
اور یاد آیا کہ ایک اسماعیلی آغا خان سوم بھی تو تھے جو مسلم لیگ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے وہ تمام سونا اور جواہرات تعلیم پر لٹا دیے کہ جس میں انھیں دنیا کے مختلف علاقوں میں بارہا تولا گیا تھا۔ اس کرامت کا زندہ پھل شمالی علاقہ جات ہیں جہاں عمومی خواندگی پچھتر فیصد اور اسی علاقے کی سابق ریاست ہنزہ میں پچانوے فیصد تک ہے۔ اور انھی آغا خان سوم کے پوتے نے پچھلے ستاون برس سے ایشیا تا افریقہ اور یورپ تا امریکا تعلیم، صحت اور مسلم فنِ تعمیر کے احیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
ہاں ایک اور اسماعیلی بھی تو تھے جو بعد میں اثنا عشری ہو گئے اور پھر کئی علما نے انھیں ایک علیحدہ مسلمان ریاست کے قیام کی جدو جہد کے عین عروج کے دوران کافرِ اعظم بنا ڈالا اور پھر یہی علما اور ان کے وارث اسی ’’غیر شرعی‘‘ ملک کے مامے بن گئے۔
(ان میں سے شائد کسی نے سن دو ہزار پانچ کے اعلانِ نامہِ عمان کا تذکرہ سنا ہو۔ یہ اعلان نامہ اردن کے شاہ عبداللہ بن حسین کی دعوت پر پچاس مسلمان ممالک کے لگ بھگ ڈھائی سو علما اور اسکالرز نے تین دن کے بحث مباحثے کے بعد تیار کیا۔ اس اعلان نامے میں جن فقہی اسکولوں کو تسلیم کیا گیا جن کے ماننے والے دائرہِ اسلام سے خارج نہیں ہو سکتے۔ ان فقہی اسکولوں میں جعفریہ اور زیدیہ فقہ بھی شامل ہیں۔ پرنس کریم آغا خان نے اس موقع پر وضاحت کی کہ ان کا فرقہ جعفریہ فقہہ کا حصہ ہے اور دیگر تمام فقہوں کی صوفیانہ تعلیمات و روایات کو بھی تسلیم کرتا ہے)۔


تحریر۔۔۔۔۔۔وسعت اللہ خان (بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اس قوم کو ہمیشہ لاشوں کے تحفے دیے۔ یہ دونوں پارٹیاں جب بھی اقتدار میں آئیں ملک میں دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ مل گئی۔ سانحہ صفورا جیسی بربریت دیکھنے کے بعد بھی اگر ہماری آنکھیں نہ کھلیں تو اس ملک میں صرف دہشت گردوں کا راج ہوگا۔ وہ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے علماء کے وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو پھر ملک بھر کے ان تمام مراکز کے خلاف بھی آپریشن کرے جہاں دہشت گردی کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ جب تک یہ دہشت گرد ساز فیکڑیاں بند نہیں ہوں گی، تب تک ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے اس بیان کو سراہا کہ سانحہ صفورہ میں ملوث تمام دہشت گردوں سمیت ان کے سہولت کاروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔  دہشت گردی کے خاتمے کے لئے افواج پاک کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو بھی چاہیے کہ قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر فیصلہ سازی کرے۔ کراچی میں رونما ہونے والے اتنے بڑے سانحہ کے بعد گلگت بلتستان کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اگر اقتدار میں آجاتے ہیں تو پھر ہماری یہ پُرامن وادی بھی کراچی و کوئٹہ کی طرح آگ و خون کے شہر میں تبدیل نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پورے ملک میں امن کے خواں ہیں۔ پورے پاکستان کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے والے موقع پرست سیاستدانوں کی اس علاقے میں کوئی جگہ نہیں۔ ہم گلگت بلتستان ان کے حوالے کرکے اس کو جہنم نہیں بنا سکتے۔

وحدت نیوز (گلگت) کراچی کا امن ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت خراب کیا جارہا ہے ،سند ھ میں حکومت کہیں نظر نہیں آرہی ہے شہر میں دہشت گردوں کا راج ہے کراچی کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی ترجمان و امیدوار حلقہ 1 گلگت محمد الیاس صدیقی نے اتحاد چوک گلگت میں گزشتہ دنوں دہشت گردی کا شکار ہونے والے اسماعیلی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے شمعیں روشن کرنے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو عوام کے جان و مال کے تحفظ سے کوئی سروکار نہیں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بعد صرف ایک مذمتی بیان پر اکتفا کیا جاتاہے عملی طورپر دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی اپنائی نہیں جاتی۔ حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر دہشت گرد انتہائی منظم انداز میں سرگرم عمل ہیں اور غیر ملکی ایجنسیوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دہشت گرد وں نے شہروں میں کالعدم تنظیموں اور جماعتوں کے چھتری میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ حکومت کالعدم جماعتوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے گریزاں نظر آرہی ہے۔انہوں نے وفاقی حکومت اور سندھ حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے اور ماضی میں انہی جماعتوں کی غلط پالیسیوں سے ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہونا پڑا۔انہوں نے پاک فوج کا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اسے پورے ملک میں پھیلانے کا مطالبہ کیا۔

وحدت نیوز (گلگت) دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی کے بغیر امن کا قیام محض ایک خواب ہے حکمران مذ متی بیانات سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔کراچی میں اسماعیلی برادری پر دہشت گردی کا واقعہ کالعدم جماعتوں کی کارستانی ہے سند ھ حکومت دہشت گردوں کے خلاف بھرپور ایکشن کرنے میں مخلص نہیں ،کراچی کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کیلئے فوجی آپریشن کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ نیئر عباس مصطفوی نے علمدار چوک دنیور میں احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے دہشت گرد منظم ہیں اور حکومت ایکشن لینے سے گھبرارہی ہے ایسی حکومتوں کی موجودگی میں امن کا قیام محض ایک خواب ہے۔سندھ حکومت نے کراچی کو دہشت گردوں کے حوالے کررکھا ہے اور دہشت گردکالعدم جماعتوں کی صفوں میں پناہ گزین اور یہ کالعدم جماعتیں پورے پاکستان میں ملت تشیع کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں۔وزیرستان سے فرار ہونے والے دہشت گردوں نے شہروں میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اورموقع ملتے ہی اسلام دشمنوں کے پروردہ یہ دہشت گرد بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکی ہے اورمل عزیز کے باسیوں کوتحفظ دینے کی بجائے دوسرے ممالک میں فوج بھیجنے کی انتہائی غیر سنجیدہ روش پر کاربند ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین واقعے میں شہید ہونے والے مرد و خواتین اور بچوں کے ورثاء کے غم میں برابر کی شریک ہے اور دنیابھر کے مظلوم ، بے کس اور بے سہارا لوگوں کی حما یت اور ظالموں سے اظہار نفرت کرنا ہم اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کراچی شہر پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور حکمرانوں کو صر ف اپنے ہی مفادات سے غرض ہے۔انہوں نے مطا لبہ کیا کہ کراچی کو فی الفور فوج کے حوالے کیا جائے تاکہ دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔

Page 1 of 4

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree