وحدت نیوز(جیکب آباد) جیکب آباد شہر کی سیاسی سماجی اور مذہبی تنظیموں کے زیراہتمام شہر کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں ریلی نکالی گئی۔ عوامی حقوق ریلی سے انجینئر عید محمد ڈومکی، عابد سندھی ،سید غلام شبیر شاہ نقوی، عبدالسمیع سومرو، نذیر حسین دایو ،علامہ حاجی سیف علی ڈومکی، ایڈووکیٹ وحید علی بروہی ،مقدم فدا حسین لاشاری ،منصب علی شیخ ،سید لعل شاہ بخاری ،بابو نجیب زھری ، عمران سولنگی ،حبیب اللہ لاشاری، حبدار علی شیخ اور احسان سہاگ کا خطاب۔

 اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ جیکب آباد کے عوام آج بھی پینے کے صاف پانی اور صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ قبائلی جگھڑوں کے باعث بے گناہ انسان قتل ہو رہے ہیں۔

 مجلس وحدت مسلمین ضلع جیکب آباد کے رہنما نذیر حسین دایو نے کہا کہ منتخب نمائندے عوامی مسائل حل کریں۔ لوگ غربت اور بے روزگاری سے پریشان ہیں۔وحید علی بروہی نے کہا کہ جیکب آباد  شہر کی سیاسی سماجی اور مذہبی تنظیموں کا الائنس جیکب آباد کے مسائل حل کرنے کے لئے میدان عمل میں موجود ہے۔انجینئر عید محمد ڈومکی نے کہا کہ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث عوام پریشان ہیں۔

وحدت نیوز(کندھ کوٹ)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی کا دورہ کندھ کوٹ۔ضلعی سیکرٹری جنرل میر فائق علی جکھرانی کی رہائشگاہ پر سردار حیدر علی جکھرانی سے ملاقات مختلف امور پر تبادلہ خیال ۔

انہوں نے کندھ کوٹ میں سردار احمد علی خان بنگوار سے بھی ملاقات کی۔ اس موقعہ پر ضلعی سیکرٹری جنرل میر فائق علی جکھرانی و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین عوام کی خدمت پر یقین رکھتی ہے ہم اقدار کی سیاست کے امین ہیں انبیائے کرام اور آئمہ اھل البیت ع کی سیاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ اعلی انسانی اقدار کا تحفظ تھا۔

انہوں نےکہا کہ اھل انسانوں کو نظرانداز کرکے پئسے دھونس اور دھاندلی سے نا اھلوں کا بر سر اقتدار آجانا ہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ آئندہ بلدیاتی انتخابات سمیت ہر انتخابی مرحلے میں آئین کی دفعہ 61 اور 62 پر عمل در آمد ضروری ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک میں متناسب نمائندگی کے نظام کو  رائج کیا جائے جس میں ووٹ ضائع نہیں ہوتے اور اھل انسان اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کے حالات متناسب نمائندگی کا تقاضا کرتے ہیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کو اولین ترجیح بنا کر عوام کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اداروں سے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے حکومت کو جنگی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے اصلاحات کے عمل کو تیز کرنا ہوگا۔ کسی بھی ریاست کی ناکامی میں کرپٹ اداروں کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا ہے۔

انہوںنے کہاکہ ماضی کی حکومتوں میں بدعنوان عناصر کو کھلی چھٹی دی جاتی رہی جس نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ جن حکمرانوں کو عوام نجات دہندہ سمجھ کر اقتدار میں لائی وہ رہزن کا کردار ادا کرتے ہوئے مادر وطن کو لوٹنے میں مصروف رہے۔ قومی خزانے کو اگر اس طرح بے رحمی سے نہ لوٹا جاتا تو آج وطن عزیز کے حالات مجموعی حالات مختلف ہوتے۔

علامہ راجہ ناصرعباس نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم پیسہ لوٹنے والوں کے بے رحمانہ احتساب کا مطالبہ کر رہی ہے۔عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جن لوگوں کو ووٹ کی طاقت سے ایوان میں بھیجتی ہے انہیں عوامی حقوق کو مقدم رکھنا چاہیے۔ان خیانت کاروں پر عملی سیاست میں ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کی جائے جنہوں نے اقتدار کو لوٹ مار کا زینہ سمجھتے ہوئے ملک کو تباہ حال کیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو عوام کے بنیادی مسائل کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی،غربت، بے روزگاری اور لاقانونیت سے ہر کوئی متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے متعلقہ اداروں کو اس سلسلے میں تنبیہ کرنا ہو گی کہ وہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔عوام کے جان و مال کا تحفظ اور بنیادی حقوق کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے جس سے چشم پوشی مجرمانہ غفلت میں شمار ہوتی ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) دنیا بھر کا میڈیا جب سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ملنے کی خوشیاں منانے میں مصروف تھا عین اُسی وقت سعودی خاندان اور ریاست کے اندر انتہائی خفیہ اور پُراسرار طور پر اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ بحیرہ احمر کے کنارے شرعی قوانین اور صنفی اختلاط کی پابندی سے مبرا ’ریزورٹ منصوبے‘ کا اعلان بھی دنیا کے لیے حیران کن خبر تھی۔

ایک اور سرپرائز سعودی خواتین کو نئے سال کے آغاز پر اسٹیڈیم میں بیٹھ کر کھیلوں سے لطف اندوز ہونے کا اعلان تھا۔ اِن سب اقدامات کو سعودی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک آئی واش قرار دے رہے ہیں۔

4 نومبر کی رات، سعودی عرب میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے قائم ہونے والی اینٹی کرپشن کمیٹی نے شاہی خاندان کے 11 اہم ترین افراد سمیت درجنوں وزراء اور کاروباری شخصیات کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان بظاہر دنیا کے لیے ایک ’بریکنگ نیوز‘ تھی، لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ کئی شہزادے ایک سال سے زائد عرصہ سے نظربند تھے۔

سعودی شاہی خاندان کی اندرونی کشمکش سے بے خبر لوگ اِسے کرپشن کے خلاف بڑی کارروائی قرار دے رہے ہیں، تاہم یہ کارروائی صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ خطے میں اہم اسٹرٹیجک تبدیلیوں کی طرف اشارہ بھی ہے۔

اِس کارروائی کو ایران اور اسامہ بن لادن کے مبینہ تعلق کے حوالے سے سی آئی اے کی جاری کردہ تازہ دستاویزات، قطر بحران، لبنان کے تازہ سیاسی دھماکے، امریکا کے سعودی عرب سے گرم جوش ہوتے تعلقات، متحدہ عرب امارات کی خطے میں مرکزی کردار کی خواہش، سعودی عرب میں مصنوعی لبرل ازم، کمزور پڑتی سعودی معیشت جیسے اہم عناصر سے الگ رکھ کر دیکھنا ایک نظری مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی کشمکش اگرچہ شاہ سعود اور شاہ فیصل کے دور سے ہی جاری ہے لیکن میڈیا پر پابندیوں اور سوشل میڈیا نہ ہونے کی وجہ سے کئی امور پر پردہ ڈالنا بہت آسان تھا جو اب ممکن نہیں رہا۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی حالیہ کشمکش شاہ سلمان کے تخت نشین ہوتے ہی شروع ہوگئی تھی، کیونکہ جب شاہ سلمان نے جنوری 2015 میں تخت سنبھالا تو ریاست سے باہر شہزادہ محمد کو شاید ہی کوئی جانتا تھا۔

شاہ سلمان نے پہلے شاہی فرمان میں اپنے جانشینوں کا اعلان کیا۔ شہزادہ مقرن کو ہٹا کر شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد جبکہ اپنے صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کے لیے نیا عہدہ تخلیق کیا اور اُنہیں ’نائب ولی عہد‘ بنادیا گیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد کے علاوہ نائب وزیراعظم، وزیردفاع، دربارِ شاہی کا انچارج اور سعودی تیل کمپنی آرامکو کے بورڈ کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آرامکو کے چیئرمین کا عہدہ اِس سے پہلے شاہی خاندان سے ہٹ کر صرف ٹیکنوکریٹس کو ہی دیا جاتا تھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے شراکت اقتدار پاتے ہی پاؤں پھیلائے، یمن جنگ چھیڑی، سعودی عرب کا تیل سے انحصار ختم کرکے ریاست کو صنعت و کاروبار کی طرف لانے کے اعلانات کئے اور ساتھ ہی سفارتی سطح پر رابطے بڑھائے۔

مارچ 2017 میں نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں لنچ پر ملاقات کی، یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی، جس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک معتمد نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ ملاقات امریکا سعودی عرب تعلقات میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھی۔‘

اِس ملاقات کے بعد سعودی شاہی خاندان کے اندر بھی بے چینی کی ایک لہر اُٹھی اور سب کو اندازہ ہوگیا کہ شہزادہ محمد بن سلمان اقتدار کی کشمکش میں امریکا کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اِسی ملاقات میں ٹرمپ کا پہلا دورہِ سعودی عرب بھی طے پایا۔ پھر مارچ میں ہونے والی ملاقات کا نتیجہ 21 جون کو سامنے آیا، جب امریکا اور سابق صدر اوباما کے منظورِ نظر سمجھے جانے والے شہزادہ محمد بن نائف کو نہ صرف ولی عہد سے ہٹایا گیا بلکہ ریاست کے تمام عہدوں سے ہٹا کر محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کردیا گیا، اور نائب ولی عہد کا فرمائشی عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔

اِس بڑے اور غیر معمولی فیصلے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب اندرونی کشمکش بڑھ جائے گی جسے روکنے کے لیے سرکاری ٹی وی کو ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں محمد بن سلمان کو برطرف ولی عہد محمد بن نائف کے ہاتھوں کو چومتے دکھایا گیا جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دونوں کے درمیان کوئی چپقلش نہیں ہے۔ لیکن اِس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی یہ اطلاعات مستقل آتی رہیں کہ محمد بن نائف نظر بند ہیں اور کوئی اُن سے ملاقات نہیں کرسکتا۔

ولی عہد بنتے ہی محمد بن سلمان نے شاہ سلمان تک اہم افراد کی رسائی بھی محدود کردی اور بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک بن کر قطر کے خلاف محاذ کھولا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی اقتدار کی کشمکش پر جرمن خفیہ ادارہ بی این ڈی نے 2016 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ محمد بن سلمان کی دیگر ریاستوں میں مداخلت مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر بگاڑ کے ساتھ سعودی ریاست کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔

سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتار تمام افراد اہم ہیں لیکن 2 شہزادوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ سب سے پہلے شہزادہ الولید بن طلال، جو شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ دونوں کے بڑے اور کھلے ناقد ہیں۔ شہزادہ الولید بن طلال، محمد بن سلمان کے وژن 2030 کی امریکی میڈیا میں کھل کر مخالفت کرتے رہے ہیں بالخصوص سعودی آرامکو کے حصص کی نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے فروخت کے عمل کی شہزادہ ولید نے کھل کر مخالفت کی۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کاروباری تعلقات رکھنے والے شہزادہ ولید نے صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کو امریکا کے لیے باعثِ شرمندگی قرار دیا تھا جس کا جواب ٹرمپ نے ٹویٹر پر دیتے ہوئے کہا کہ شہزادہ ولید باپ کی دولت کے بل پر امریکی سیاست میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مخاصمت کی تازہ مثال نیویارک کے سرمایہ کاروں کے وفد کی ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر سے ملاقات ہے، جس میں شہزادہ ولید بھی شامل تھے۔ شہزادہ ولید اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے درمیان اُس موقع پر تلخ کلامی بھی ہوئی۔ گرفتاریوں کے اعلان سے ایک ہفتہ ہی پہلے صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر سمیت وائٹ ہاؤس کے 3 اعلیٰ عہدیداروں نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔ نیویارک ٹائمز، بلومبرگ سمیت امریکی میڈیا نے اِن سب عوامل کو بھی شہزادہ ولید کی گرفتاری سے جوڑا ہے۔

اِسی طرح شہزادہ متعب کی گرفتاری بھی اقتدار کی کشمکش کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے کیونکہ شہزادہ متعب کو تخت کے جائز اُمیدواروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شہزادہ متعب سابق شاہ عبداللہ کے بیٹے ہیں، جنہیں شاہ عبداللہ نے خود نیشنل گارڈز کا سربراہ مقرر کیا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ شاہ عبداللہ اُنہیں مستقبل کی بڑی ذمہ داری کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ شہزادہ متعب سعود خاندان کی شمر شاخ کے بھی آخری فرد سمجھے جاتے ہیں اور آل سعود میں شمر قبیلہ حکمرانی کا سب سے پہلا حق دار ہوتا ہے۔

سعودی شہزادوں کی کرپشن کے نام پر گرفتاریوں کا جواز فراہم کرنے کے لیے سعودی سرکاری علماء سے فتویٰ بھی جاری کرایا گیا لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ شاہی خاندان کی دولت اور سرکاری خزانے کے استعمال میں آج تک کوئی فروق روا نہیں رکھا گیا۔ کرپشن کی تعریف ہی متعین نہیں کہ شہزادوں پر کون سا مال حلال ہے اور کون سا حرام؟

جرمن انٹیلی جنس ایجنسی کا انتباہ اپنی جگہ، مگر مئی 2017 میں محمد بن سلمان نے العربیہ ٹی وی اور سعودی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں خطرے کی گھنٹیاں بجائیں۔ اُس انٹرویو میں محمد بن سلمان نے ایران کے بارے میں فرقہ وارانہ انداز میں گفتگو کی اور کہا کہ ایران مکہ اور مدینہ پر قبضے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جس کے بعد وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر شیعہ نظریات نافذ کرکے حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے عزائم پر شہزادہ محمد بن سلمان کا دعویٰ ایک طرف لیکن سعودی عرب خود خطے میں کس طرح کے عزائم رکھتا ہے، اِس کا اندازہ امریکی صدر کے دورہ ریاض اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ہونے والے معاہدوں سے ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکا سے ایک عشرے کے لیے 350 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ کرکے سعودی عرب نے خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی حمایت کی قیمت ادا کی۔ ٹرمپ اِس معاہدے کو اپنے بڑی سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں اور کسی قدر وہ حق بجانب بھی ہیں، کیونکہ صدر اوباما کے دور میں سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار رہے اور تناؤ کی وجہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر سمجھوتہ تھا جسے اوباما اپنی بڑی سفارتی کامیابی گردانتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کو نہ صرف ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ایران کے خلاف عسکری کارروائی کے موڈ میں بھی ہیں۔ جس کا واضح اشارہ یکم نومبر کو سی آئی اے کی طرف سے جاری کی گئی دستاویزات ہیں، جن میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن اور ایران کے مبینہ تعلقات کا ذکر ہے۔ اِن دستاویزات کے اجراء پر امریکی کانگریس کے ارکان نے بھی ایران کے خلاف جنگی مہم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار بھی اِن دستاویزات کے اجراء کے پیچھے چھپے ارادوں پر تحفظات ظاہر کرچکے ہیں۔

ایرانی اثر و رسوخ کے توڑ کے لیے سعودی عرب کے سابق وزیر خارجہ عادل الجبیر سمیت اہم سعودی عہدیداروں نے عراق کے 3 دورے کئے اور اِن دوروں کے بعد عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کی جون میں ریاض جاکر سعودی شاہ سلمان سے ملاقات بھی خطے میں بنتے نئے اتحادوں کی طرف اہم اشارہ ہے۔ دو دن پہلے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کا سعودی ٹی وی کے ذریعے ویڈیو بیان میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ بھی خطے میں کشمکش کا نکتہ عروج ہے، کیونکہ کوئی بھی سیاست دان اتنے بڑے منصب سے استعفیٰ کی وجوہات ہمیشہ سیاسی یا ذاتی بتاتا ہے، لیکن سعد الحریری نے لبنان میں حزب اللہ اور ایران کی سرگرمیوں، اپنے قتل کی سازش کو استعفیٰ کی بنیاد بنایا۔ سعد الحریری کا بیان بھی ایران کے لیے ایک چارج شیٹ ہے۔

سعودی شاہی خاندان کی کشمکش کے دوران اگر کوئی شہزادہ یا شہزادوں کا گروہ بغاوت پر اتر آیا تو محمد بن سلمان کے معاشی پروگرام کے تحت ملک میں بڑھتی بیروزگاری، سادگی کے نام پر مراعات کی واپسی کے اقدامات عوام میں بغاوت کی پذیرائی کا باعث بن سکتے ہیں، جن پر قابو پانا ہرگز آسان کام نہیں ہوگا۔

تحریر۔۔۔۔آصف شاہد(بشکریہ ڈان نیوز)

وحدت نیوز (ملتان) حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہے،جنوبی پنجاب کے عوام بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات سے محروم ہے،میٹرو کے نام پر اربوں روپے کا ضیاع کیا گیا،نشتر ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال میں مریضوں کا پرسان حال نہیں،صحت اور تعلیم کا شعبہ ابتری کا شکارہے،جس شہر کے ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین تین مریضوں کا علاج ہو رہا ہو وہاں میٹرو کے نام پر 29 ارب روپوں کا ضیاع کرنا کہاں کی دانشمندی ہے،ہر دور کے حکمرانوں نے جنوبی پنجاب کے محروم عوام کا استحصال کیا، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس نے ملتان میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں کالعدم جماعتوں کیخلاف کاروائی نہ ہونے کے برابر ہے،نیشنل ایکشن پلان کے نام پر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جارہا ہے،جمہوری اقدار کو فراموش کر دیا گیاہے، فوجی عدالتیں سپیڈی ٹرائل کیلئے بنائی گئیں لیکن وہ نتائج نہیں دے سکیں۔

علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں بھی دہشتگردوں کے سہولت کار موجود ہیں جو کارروائی نہیں ہونے دیتے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایساملک بن چکا ہے جس کی دیواریں نہیں، جوچاہتا ہے گھس آتا ہے اور دوسرے ممالک کیلئے یہاں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر شعبہ میں کرپشن ہے، پاکستان کی کمزوری کی وجہ جمہوریت پر شب خون مارنا ہے، یہاں قدم قدم پر جمہوریت کا گلہ گھونٹا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا آئین یہ کہتا ہے کہ ملک میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اسے بطور امانت استعمال کریں گے، لیکن یہاں حکمران آئین کے آرٹیکل 62اور 63پر پورا نہیں اترتے، انہوں نے اپنی اولادیں تیار کی ہوئی ہیں کہ وہ ان کے بعد اقتدار سنبھالیں گی۔

 علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ حکمران عوام کو دھوکادے کر اقتدار میں آتے ہیں، پارلیمنٹ میں جھوٹاخطاب کرتے ہیں، یہ اخلاقی طور پر کمزور لوگ ملک کو بحرانوں سے نہیں نکال سکتے، انہوں نے کہا کہ ہمارے بہت سے کارکن ایک طویل عرصے سے لاپتہ ہیں، لیکن کوئی ان کے بارے میں نہیں بتا رہا، یہ کس قسم کا قانون ہے، ڈی آئی خان سے ایک نوجوان کو غائب کیا گیا، پانچ برس گزر گئے ہیں ناصر حسین کا کوئی علم نہیں کہ زندہ ہے یا مار دیا گیا ہے،پنجاب سے ہمارے علماء اور پڑھے لکھے پرامن نوجوانوں کو غائب کیا گیا ہے،جن کا تاحال کوئی پتہ نہیں،یاد رکھیں حکومتیں کفر سے تو باقی رہ سکتی ہیں مگر ظلم سے نہیں،ہمارے چوبیس ہزار شہداء کے ورثا کو تو انصاف نہیں دے سکے لیکن دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کی خوشنودی کے لئے ہم پر ریاستی جبر جاری ہیں،علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ انسان کی طرح وطن کی بھی ناموس ہوتی ہے، ملک کے دشمن ، عوام کے بھی دشمن ہوتے ہیں لیکن یہاں ملک کے دشمنوں کو گھربلایا جاتا ہے، مودی بنگلہ دیش میں کھڑے ہوکر تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان توڑنے میں اس کا کردار تھالیکن نوازشریف اسے گلے لگاتا ہے،۔ انہوں نے کہا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملک سے دہشت گردی ختم ہو گئی ہے، لیکن یہ پارا چنار میں پھر دھماکہ ہو گیا، معصوم بچے بھی نشانہ بنے قبائلی علاقوں میں واحد کرم ایجنسی ہے جس کے لوگ سب سے زیادہ محب وطن ہیں، انہوں نے پاکستان کے جھنڈے لگا رکھے ہیں، لیکن ان کا جیناحرام کر رکھا ہے، پولیٹکل انتظامیہ بھی انہیں ریاستی تشدد کا نشانہ بنارہی ہے اور دہشت گردبھی انہی پر حملے کررہے ہیں۔ راستے میں درجنوں چیک پوسٹیں ہیں پھر بھی دہشت گردوہاں پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ناکام ہو چکا ہے، ملک میں دہشتگردوں کیلئے کوئی روک ٹوک نہیں، وہ سرعام دندناتے پھر رہے ہیں۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں تعلیمی اداروں کی بندش اور طلباء کے خلاف ناروا اقدامات وزیراعلٰی کے متعصبانہ رویہ پر دلالت کرتے ہں۔ نااہل وزیر اعلٰی نان ایشو کو ایشو بنا کر حساسیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف ہماری اعلٰی سیاسی شخصیات دیوالی، کرسمس اور دیگر غیر اسلامی رسومات میں شرکت کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ پاکستان مذہبی آزادی پر یقین رکھتا ہے، جبکہ دوسری طرف نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم منانے کو قابل تعزیر ٹھہرایا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت اپنے نظریات پوری قوم پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔

 انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں گذشتہ کئی دنوں سے دھرنے اور احتجاج جاری ہیں، لیکن وہاں کی حکومت مسلسل عدم توجہی کا مظاہرہ کرکے بےحسی کا ثبوت دے رہی ہے۔ جی بی کے وزیراعلٰی کا یہ طرز عمل اس کے اقتدار کی بقاء کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں کسی بھی سنگین صورتحال کی تمام تر ذمہ داری وزیراعلٰی پر ہوگی۔ کراچی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ٹارگٹ کلنگز کے واقعات پر قابو پانے میں انتظامیہ ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے بلند و بانگ دعووں کے کچھ ہی دیر بعد کوئی نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے، جو بےیقینی اور عدم تحفظ کی فضا کو تقویت دے رہا ہے۔

ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بزرگ عالم دین مرزا یوسف حسین کے خلاف جھوٹی اور بےبنیاد ایف آئی آر کا اندراج انتقامی کاروائی ہے۔ ایک پُرامن اجتماع میں ان کی محض شرکت کو تقریر کا نام دے کر بےبنیاد مقدمے کا اندراج کیا گیا ہے، جو قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ وزیراعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ ایف آئی آر واپس لینے کے احکامات صادر کریں اور اختیارات سے تجاوز کرنے والے انتظامیہ کے افسران کے خلاف کاروائی کی جائے، تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جاسکے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے دہشت گردوں کو آزاد چھوڑ رکھا ہے اور نیشنل ایکشن پلان کا رُخ محب وطن علماء اور باکردار شخصیات کی طرف موڑ رکھا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کالعدم جماعتوں کو اجتماع کی اجازت دیا جانا حیران کن ہے، جس میں شرکاء فرقہ وارانہ تقریروں اور تکفیری نعروں سے نیشنل ایکشن پلان کی افادیت و اہمیت کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے تھے۔ علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ ایک طرف ان شرپسند مذہبی رہنماؤں کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے، جو خود کو سرعام طالبان کا باپ کہتے ہیں اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف علامہ امین شہیدی اور علامہ شیخ محسن نجفی جیسی قابل قدر اور بزرگ شخصیات کو شیڈول فور میں ڈال دیا گیا ہے، جن کی بےانتہا علمی کاوشیں ہیں۔ عدل و انصاف کا یہ معیار کسی باشعور کے لئے قابل قبول نہیں۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحیت و بربریت پر اقوام عالم کی خاموشی حیران کن ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی۔ موجودہ حکومت کو کشمیر پر دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قوت اقتدار بچانے کی بچائے ملک بچانے پر صرف کریں۔

Page 1 of 2

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree