وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ صحابی ہیں جنھوں نے دوسری بیعت عقبہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ کثیر الحدیث صحابی اور حدیث لوح کے راوی ہیں۔ حدیث لوح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک کو ذکر فرمایا ہے۔ جابر کے والد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور دوسری بیعت عقبہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کیا اور ان بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے جنہيں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبیلوں کے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عبد اللہ نےمدینہ منورہ میں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشش کی۔ ابن کثیر دمشقی جابر کے والد عبداللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا: خدا  وند آپ کو اے انصار جزائے خیر دے خصوصا  العمرو بن حرام (جابر کا کنبہ) اور سعد بن عبادہ کو۔1۔ عبداللہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔2۔

جابر رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی جنگوں اور اہم واقعات میں موجود تھے ، جیسے: غزوہ بنی مصطلق،غزوہ احزاب، غزوہ  بنی قریظہ ، صلح حدیبیہ ، غزوہ خیبرہ ،سریہ خبط ، فتح مکہ ، محاصرہ طائف  اور غزوہ تبوک  ۔ 3۔ مورخین اورمحدثین نے جابر بن عبد اللہ انصاری کا نام ان لوگوں کی فہرست میں ذکر کیاہے جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہاتھوں ایمان لانے والوں میں سے سب  سے پہلے قرار دیتے  ہیں۔4۔ شیخ مفید نے جابر کو ان اصحاب کی فہرست میں شامل کیا جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم   کا جانشین بلافصل سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق ،ابو  زبیر مکی( جو جابر کے شاگردوں میں سے تھے ) نقل کرتا ہے: میں نے جابر کو مدینہ میں انصار کے محلوں اور ان کے محافل میں  عصا ہاتھوں میں لئے گھومتے ہوئے دیکھا  جبکہ وہ یہ کہ رہے تھے : اے گروہ انصار: اپنے فرزندوں کی تربیت حب  علی علیہ السلام کےساتھ کیا کرو اور جو اس  سے انکار کرے تو اس کی ماں  کے کردار کاجائزہ لو۔ 6۔

ایک دن امام باقر علیہ السلام نے جابر سے حضرت عائشہ اور جنگ جمل کے بارے میں پوچھا۔ جابر نے جواب دیا: ایک دن میں عائشہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ علی بن ابی طالب کے بارے میں کیا  کہتے ہو؟ انہوں نے اپنا سر جھکایا اور ایک لمحے کے بعد سر اٹھا کر یہ اشعار پڑھنا شروع کیا: "جب سونے کو جلایا جاتاہے ، تو اس سے ساری ملاوٹیں اورناخالصی نکل جاتی ہے۔ ہم  انسان بھی خالص اورناخالص ہیں۔ علی ہمارے درمیان ایک معیار ہے جو کھرے اور کھوٹے کوسرے سے الگ کرتا ہے۔7۔

جابر کہتے ہیں: ہم  بصرہ میں امیر المومنین  علیہ السلام کے ساتھ تھے ، جنگ ختم ہوگئی اور میں  رات کو اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا  تم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہو؟  میں نے کہا:ہم دنیا کی برائی کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جابر! دنیا کی برائی کیوں کر رہے ہو ؟ اس کےبعد آپ نے خدا کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد دنیا  کے فوائد پر گفتگو کی اور پھر میرا ہاتھ  پکڑ کر قبرستان لے گیا اور مرنے والوں کے بارے میں بات کی۔8۔ اسی طرح جنگ صفین اور نہروان میں بھی جابر  امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں رہا ۔نہروان سےواپس آتے وقت جو واقعہ پیش آیا تھا جابر نے  اسے بھی نقل کیا ہے۔ 9۔

کتاب  وقعہ الصفین جو قدیم کتابوں میں سے  ایک کتاب ہے، جابر بن عبد اللہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:معاویہ اس حالت میں مرے گا کہ وہ میری امت میں شامل نہیں ہوگا۔10۔ معاویہ کے بارے میں جابر کا  موقف  اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جابر نے اس حدیث کو مستقیما اور کسی واسطہ کے بغیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔اسی طرح یہ واقعہ بھی جابر کے موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کے آخری سال میں معاویہ نے تین ہزارافراد کو بسر بن ارطاۃ  کی سربراہی میں مدینہ بھیجا اور بسربن ارطاۃ سے کہا: مدینہ جاو  اوروہاں افراد کو منتشر کرو۔ تم جہاں بھی جاو  لوگوں کو ڈراؤ ۔ جوہماری اطاعت سے انکار کرے ان کے اموال کو لوٹ لو ، اور اہل مدینہ کو ڈرا کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کرو کہ  ان کے پاس اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

لشکرمعاویہ جب مدینہ پہنچا تو انہوں نےمعاویہ  کے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا۔ مدینہ کے لوگوں کوجنگی سہولیات اورافراد کی کمی کا سامنا ہوا  جس کی وجہ سے بیعت کرنے کے  علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ملا۔  قبیلہ بنی سلمہ  جو جابر کا رشتہ دار تھا ، بھی بیعت کے لئے بسر بن ارطاۃکےپاس پہنچا ۔ اس نے  پوچھا کہ جابر بھی ان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا جب تک جابر ان کے ساتھ نہیں آتا تب تک  ان سے بیعت نہیں لوں گا۔جابر کہتے ہیں:میں ڈر گیا  اس لئے  وہاں سےبھاگ  گیا۔ لیکن بسر نے بنی سلمہ جابر کے قبیلہ والوں سے کہا : جب تک کہ جابر خود نہ آئے کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے۔ میرے رشتہ دار میرے پاس آئے اور کہا :خدا کی قسم  ہمارے ساتھ چلو اور اپنی جان اور اپنے رشتے داروں کے جانوں کی حفاظت کرو ، کیونکہ اگر آپ  نےایسا نہیں کیا تو ہمارے لوگ مارے جائیں گے اور ہمارے اہل خانہ کو اسیر کیاجائے گا۔

جابر نے ایک رات  سوچنے  کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  زوجہ ام سلمہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لئے چلا گیا تو انہوں  نے  جابر سے کہا: اس کی بیعت کرو اوراپنی اور رشتہ داروں کی جان بچاو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ بیعت، بیعت ضلالت ہے ۔یہ تقیہ ہی تھا جس نے اصحاب کہف کو مجبور کیا کہ وہ دوسرے لوگوں کی مانند گردن میں صلیب لٹکائیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کریں ۔۱۰۔
بعض روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جابر کا رابطہ ہمیشہ دوستانہ اور محبت آمیز تھا۔ ایک دفعہ جابر بیمار پڑ گئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے اس وقت تشریف لے گئے جب وہ اپنی تندرستی سے مایوس ہوچکے تھے۔ جابر نے بہنوں کے درمیان  ترکے کی تقسیم کے بارے میں مختلف سوالات پوچھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں طویل عمر کی خوشخبری دی اور ان کے سوال کے جواب میں  یہ آیت{يَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہ ُ يُفْتِيکُمْ فِي الْکَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَيْسَ لہ ُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ يَرِثُہَآ إِن لَّمْ يکُن لَّہَا وَلَدفاِنکَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِن کَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذکَرِ مِثْلُ حَظِّ الا نثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّہ ُ لَکُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}(لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے)12۔نازل ہوئی جو آیت کلالہ کے نام سے مشہور ہے۔13۔جابر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کرنے کے علاوہ صحابہ اور حتی بعض تابعین سے بھی روایات نقل کی ہیں۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، طلحہ بن عبیداللہ، عمار بن یاسر، معاذ بن جبل، اور ابو سعید خدری ان اصحاب میں سے ہیں جن سے جابر نے روایات نقل کی ہے۔14۔جابر اس قدر دینی معارف و تعلیمات حاصل کرنے کے طالب و مشتاق تھے کہ انھوں نے ایک صحابی رسول سے براہ راست حدیث رسول سننے کے لئے شام کا سفر اختیار کیا۔15۔اس شوق نے آخرِ عمر میں جابر کو خانۂ خدا کی مجاورت پر آمادہ کیا تاکہ وہاں رہ کر بعض حدیثیں سن لیں۔16۔وہ حدیث کے سلسلے میں نہایت بابصیرت اور نقاد تھے ۔مشہور شیعہ احادیث کی اسناد میں جابر کا نام ذکر ہوا ہے۔ ان مشہور احادیث میں حدیث غدیر17 حدیث ثقلین18۔ حدیث انا مدینۃ العلم19۔حدیث منزلت، 20۔ حدیث رد الشمس،21۔اور حدیث سد الابواب 22۔ شامل ہیں۔

اسی طرح جابر ان احادیث کے بھی راوی ہیں جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد بارہ ائمہ کے اسمائے گرامی بیان فرمائے ہیں23۔اور حضرت مہدی(عج) کی خصوصیات متعارف کرائی ہیں۔24۔حدیث لوح ان مشہور احادیث میں سے ہے جو جابر نے نقل کی ہے اور ان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ائمۂ اثناعشر کے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔25۔

شیخ طوسی نے جابر کوامام حسین علیہ السلام کے  اصحاب کے طور پر ذکر کیا ہے۔26۔ واقعۂ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جابر بن عبداللہ انصاری مدینے کے معمر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے لئے فکرمند تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز میدان کربلا میں عبید اللہ بن زیاد کی جانب سے بھیجے گئے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے جابر بن عبداللہ کا نام اپنے مدعا کے گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔27۔ عاشورہ کے دن جب امام نے دشمن سے مخاطب ہو کر خطبہ دیا تو آپ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میں رسول اللہ کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا  ر سول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمیرے اور میرے بھائی کے بارے میں نہیں فرمایا:  یہ دو  نوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب باتیں صحیح نہیں تو کچھ اصحاب ہیں ان سے پوچھو جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو سعید خدری  وغیرہ  ۔28۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سننے کے کچھ دن بعد ہی جابر بن عبد اللہ انصاری نے کربلا کا سفرشروع کیا۔ یزید اور ابن زیاد جیسےظالم اورسفاک افراد نے بھی اسے اس سفر سے نہیں روکا۔ جابر کے ساتھ اس سفر میں اس کا شاگرد عطیہ عوفی بھی  تھا۔ شیخ طوسی نے جابر کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر  قرار دیا ہے جو 20صفر 61 ہجری کو کربلا میں وارد ہوئے۔29۔

طبری  اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی  علیہ السلام  کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادرپہنا ، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اوراپنے آپ کو  اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم  اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ حسین ابن علی کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابرنے کہا : میرا ہاتھ قبر حسین پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھا  ۔ اس نے  قبر حسین ابنی علی کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا ۔ جب  میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں  آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ)کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھرجابر خود جواب دیتا ہے "آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس  کو جسم سے جدا کیا گیا ہے ؟میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا  کے فرزند ہیں   اورآپ اس طرح کیوں نہ ہو ، کیونکہ خدا کے رسول  نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے  اگرچہ مومنین آپ  کی شہادت سے محزون ہیں سے نالاں ہیں ۔خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو  ایسی  شہادت نصیب ہوئی  جیسےیحیی بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔

اس کے بعدجابر نے سید الشہداء  علیہ السلام کے اطراف میں موجود  قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ  لوگوں پر اے پاکیزہ   ہستیاں کہ آپ  لوگوں نے حسین  ابن علی علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ  یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے   حضرت محمد مصطفی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہم  بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں ۔

عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے ۔نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے  نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہےلیکن  ان لوگوں کےسروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اوران کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں ؟جابر نے مجھے جواب دیا  اےعطیہ! میں نے اپنے محبوب رسول خدا سے  یہ کہتے ہوئے سنا ہےکہ اگرکوئی  کسی گروہ کو چاہتا  ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور  ہوں گے ، اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نےمحمد مصطفی کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ  بھی  وہی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کا تھا ۔پھر اس  کے بعد جابرنے کہا:میرا ہاتھ پکڑ و اور مجھے  کوفہ کی طرف لے چلو۔

جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے:  اے عطیہ! کیا  تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں ۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو  جب تک کہ وہ آل محمد سے محبت  اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمد کے دشمنوں سے عداوت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے دشمنی کرتےہیں گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہواور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمد کےچاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی  بوجھ کو برداشت نہ کر سکے تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمد کی محبت کی وجہ سےمضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک  آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔ 30۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز پر آپ کے اصحاب کی تعداد بہت کم تھی اور جابر ان ہی انگشت شمار اصحاب میں شامل تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے حجاج بن یوسف ثقفی کے تعاقب سے محفوظ تھے۔31۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے جابر بن عبداللہ انصاری سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا: اے جابر: تم اس قدر عمر پاؤگے کہ میری ذریت میں سے ایک فرزند کا دیدار کرو گے جو میرے ہم نام ہوں گے۔ وہ علم کا چیرنے پھاڑنے والا ہے یبْقَرُالعلم بَقْراً؛ علم کی تشریح کرتا ہے جیسا کہ تشریح و تجزیہ کا حق ہے۔ پس میرا سلام انہیں پہنچا دو۔32۔جابر کو اس فرزند کی تلاش تھی حتی کہ مسجد مدینہ میں پکار پکار کر کہتے تھے "‌یا باقَرالعلم" اور آخر کار ایک دن امام محمد بن علی علیہ السلام کو تلاش کیا ان کا بوسہ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام انہیں پہنچایا۔

جابر عمر کے آخری سالوں میں ایک سال تک مکہ میں بیت اللہ کی مجاورت میں مقیم رہے۔ اس دوران عطاءبن ابی رَباح اور عمرو بن دینار سمیت تابعین کے بعض بزرگوں نے ان سے دیدار کیا۔ جابر عمر کے آخری برسوں میں نابینا ہوئے اور مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔33 ۔مِزّی نے جابر کے سال وفات کے بارے میں بعض روایات نقل کی ہیں جن میں جابر کے سال وفات کے حوالے سے اختلاف سنہ 68 تا سنہ 79 ہجری تک ہے۔34۔ بعض مؤرخین اور محدثین سے منقولہ روایت کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری نے سنہ 78 ہجری میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور والی مدینہ ابان بن عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔35 ۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوالہ جات:
1۔ابن کثیر دمشقی، جامع المسانید، ج 24، ص 359.
2۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص286؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208، 211۔
3۔ حسین واثقی، جابر بن عبدالله انصاری، ص 63 ـ 50۔
4۔ شرح نہج البلاغۃ ابن ابی‌‌الحدید، ج 13، ص 229؛ ابن‌شہرآشوب، المناقب، ج 2، ص 7؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص 198۔
5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص 47 و علل الشرایع، ص 142؛ بحارالأنوار، ج 38، ص 6 ـ 7۔
6۔ علی احمدی میانجی، مواقف الشیعۃ، ج 3، ص 281۔
7۔ ابن‌شعبہ حرانی، تحف العقول، ص 186 ـ 188؛ بحارالأنوار، ج 70، ص 100 ـ 101۔
8۔ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج 1، ص 220؛ ابن‌اثیر جزری، أسدالغابہ، ج 1، ص 308.شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 2323؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ج 3، ص 264؛ بحارالانوار، ج 33، ص 439۔
9۔نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، ص 217۔
10۔ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 197 ـ 198؛ شرح نہج البلاغۃه ابن ابی الحدید، ج 2، ص 10؛ ثقفی، الغارات، ج 2، ص 606۔
11۔ سورہ نساء (4) 176۔
12۔طبری، جامع طبری؛ و محمد بن طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن۔
13۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208ـ209؛ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444۔
14۔خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، 1395، 1395، ص109ـ 118۔
15۔ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191۔
16۔عبدالحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، ج1، ص57ـ60۔
17۔ صفار قمی، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد «‌ص »، ص414۔
18۔ابن ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص34۔
19۔ابن بابویہ، معانی الاخبار، 1361 ش، ص74۔
20۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج1، ص345ـ346۔
21۔ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص189ـ190۔
22۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص258ـ259؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص282۔
24۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1363ش، ج1، ص253، 286، 288۔
25۔ رجال طوسی، ص 72۔
26۔محمد بن یعقوب کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص527 ـ 528؛ ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص308ـ313۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص97۔
27۔ ارشاد مفید، ص 234 و بحارالانوار، ج 45، ص 6۔
28۔ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 730 و بحارالأنوار، ج 95، ص 195۔
29۔ عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارۃ المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،‌ح 62.
30۔ محمدبن ابوالقاسم عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص74ـ 75۔
31۔ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص123ـ124۔کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص304، 450ـ469۔
32۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191ـ192۔
33۔ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص453ـ545۔
34۔قتیبہ، المعارف، ص307۔
35۔ ابن عساکر، علی بن حسن، مدینۃ الدمشق، ج 11، ص 237۔

وحدت نیوز(نواب شاہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے بچھیری ضلع نواب شاہ زمیں وھیب زرداری کی رہائشگاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اور اربعین حسینیؑ کی مناسبت سے اصغریہ آرگنائزیشن کے زیراہتمام شہر کے مین چوک پر منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کربلا معلی میں کروڑوں انسانوں کا عالمی اجتماع اس بات کا ثبوت ہے کہ کربلا کا پیغام آج عالم گیر حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آج کی پریشان انسانیت کے تمام مسائل کا حل پیغام کربلا میں پوشیدہ ہے۔

انہوں نےکہا کہ اربعین حسینی کے موقع پر حکومت فول پروف سیکیورٹی انتظامات کو یقینی بنائے۔ انہوں نےکہا کہ 80 ھزار شہداء کے وارث آج بھی ریاستی اداروں سے انصاف طلب کرتے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ پاکستان کے عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں پینے کا صاف پانی صحت صفائی اور معیاری تعلیم جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس سے بھی محروم ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے سیاستدانوں کی جانب سے  عوامی مسائل کی بجائے اقتدار کی رسہ کشی کا آغاز افسوس ناک ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) حکومت عزاداری سید الشہداءؑ کے پروگرامات، مجالس و جلوس ہائے عزاء کو سہولیات فراہم کرے۔ گزشتہ حکومت کی ایس او پی ابھی تک جاری ہیں جو کہ افسوس ناک ہے۔ہم کسی کو اپنے بنیادی انسانی اور آئینی حق پر قد غن لگانے کی اجازت نہیں دینگے، ان خیالات کا اظہار سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔

انہوں نےکہا ہےکہ اس وقت ہنگو اور کوہاٹ کے اندر ہمارے لئے مشکلات پیدا کی جار ہی ہیں ۔ بعض علاقوں میں متعصب انتظامیہ اور ڈی پی او رسول پاکؐ کے نواسےؑ کی عزادری میں رکاوٹیں ڈال رہےہیں ۔خیبر پختونخواہ حکومت شرپسندوں کو لگام دے، نیشنل ایکشن پلان کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی بجائے ملکی سلامتی کا جوتقاضہ ہے اس کے روح کیمطابق عمل کیا جائے۔

علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ محرم امام حسین ؑکا مہینہ ہے اور صفر ثانی زہرہ حضرت زینب سلام علیہ اور اسیروں سے منسوب ہے ۔ چہلم امام حسین کے دن دنیا کے کاموں کو ترک کرکے بھر پورانداز میں اربعین کے جلوس عزا میں شرکت کی جائے یہ ہمارا فریضہ ہے یہ ہم پر ان ہستوں کا حق ہے جنہوں نے پوری بشریت کی نجات کے لئے عظیم قربانیاں دیں ہجرت کی اپنے بچے قربان کئے ۔جنہوں نے ہمیں ظالموں کے مقابلے میں حوصلہ اور ہمت دینے کے لئے عظیم قربانیاں دیں صبر کیا ان کا حق ہے ہماری گردن پر کہ ہم ہر زمانے کے یزیدوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان سے سکھیں اور ان کا شکر یہ ادا کریں اور ان کی عزاداری میں شریک ہوں ۔

انہوںنے مزیدکہاکہ  اہلسنت اور اہل تشیع سب حسینی چہلم امام حسین ؑ کو شایان شان طریقے سے منعقد کریں ہمیں یقین ہے کہ اس عمل پر رسول خدا ؐراضی ہونگے کہ ان کے نواسےؑ کے غم کو منائیں وہ حسینؑ جو کہ راکب دوش مصطفیؐ تھا جسے کربلا کی زمین پر شہید کرنے بعد جس کی لاش پر گھوڑے دوڑائے گئے۔ عزاداری سید الشہداءؑ کے پروگرامات درحقیقت ظلم کے خلاف احتجاج ہے جو رہتی دنیا جاری و ساری رہےگا۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے کوئٹہ میں زائرین کربلا کی پر خلوص خدمت میں مصروف مومنین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ زائرین کی خدمت عظیم عبادت ہے اور جو مومنین زائرین کربلا کی خدمت میں مصروف ہیں ان کی عبادت قابل رشک اور قابل صد تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اربعین کا عالمی اجتماع تاریخ بشریت کا بے مثال اجتماع ہے جو عالم انسانیت کے تابناک مستقبل کی نوید ہے۔ کوئٹہ کے مومنین کو زائرین کی خدمت کا جو موقعہ ملا ہے اس پر انہیں بارگاہ رب العزت ج میں شاکر رہنا چاہیے۔ انہوں نےکہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اس عظیم اجتماع کو بھرپور کوریج دینی چاہیے مقام افسوس ہے کہ میڈیا اس تاریخی اجتماع کی کوریج سے متعلق مجرمانہ کوتاہی کی مرتکب ہورہی ہے۔

 انہوں نےکہا کہ عاشقان امام حسین علیہ السلام کا طویل لانگ مارچ منجی عالم بشریت کے ظہور کا زمینہ ساز ہے کربلا میں ہر رنگ نسل اور مذہب کے کروڑوں انسانوں کا اجتماع اس بات کی نوید ہے کہ ظلم کی اندھیری رات اب ختم ہونے کو ہے۔ کربلا اور امام حسین علیہ السلام  آج بھی وقت کے فرعون و یزید صفت حکمرانوں کے لئے خوف کی علامت ہے اور عالم انسانیت کے حریت پسند اہل حق کے لئے منارہ نور اور مشعل ھدایت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ زائرین کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل کو اپنی ترجیحات میں قرار دے۔

وحدت نیوز (مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین مظفرآباد کے سیکرٹری جنرل سید غفران علی کاظمی نے وحدت سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں محرم الحرام کو پرامن گزارنے پر سیکورٹی اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مظفرآباد میں محرم الحرام کو بہتر انداز میں گزارنے میں انتظامیہ کا اہم کردار ہے ہم خصوصی طور پر چوہدری امتیاز کمشنر مظفرآباد ڈویژن، سردار الیاس ڈی آئی جی، بدر منیر سلہریا ڈپٹی کمشنر،عاصم اعوان اے ڈی سی، یاسین بیگ ایس ایس پی، اعظم رسول ایڈمنسٹریٹر بلدیہ، ریاض مغل ڈی ایس پی،عفت اعظم اے سی، شہزاد عباسی آفیسر مال،قیصر اسلم تحصیلدار، ضمیر شاہ نائب تحصیلدار، ایس ایچ او صاحبان و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر جہاں ایک طرف یزید کا پیروکار مودی آزاد کشمیر کی فضاء کو خراب کرنا چاہتا ہے لیکن ہمیں فخر ہے اپنے حساس اداروں و انتظامیہ پر جنہوں اس ماحول کو خراب ہونے سے بچائے رکھا۔ مظفرآباد میں تمام جلوس اپنے مقررہ اوقات میں نکلے اور بروقت اختتام پذیر ہوئے سیکورٹی کہ بہتر انتظامات ہونے پر ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی و ان کی پوری ٹیم کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے بھرپور تعاون کیا اور بلخصوص کمشنر صاحب مظفرآباد ڈویژن کہ ممنون ہیں جن کی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اس چمن کی فضاء خوشگوار ہے۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین لاہور کے زیراہتمام یومِ شہزادہ علی اصغر علیہ السلام و بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا منایا گیا۔ امام بارگاہ گلشن زہراء بھیکے وال میں یوم شہزادہ علی اصغر علیہ السلام و بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے خصوصی تقریب منعقد ہوئی، جس میں خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ حاضرین سیاہ لباس اور سروں پر سبز پٹیاں باندھے لبیک یاحسینؑ، لبیک یا اصغرؑ، لبیک یا مہدیؑ کے نعرے لگا رہی تھیں۔

سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین لاہور حنا تقوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہزادہ علی اصغر علیہ السلام و بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا سفینہء کربلا میں سب سے کمسن مگر کردار و عمل میں اکمل ترین ہستیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امام وقت پر اپنی جانوں کو قربان کرکے ان ہستیوں نے رہتی دنیا تک حق کیلئے آواز بلند کرنے اور باطل کیخلاف نبرد آزما ہونے کا درس دیا۔ لبنیٰ زیدی نے کہا کہ شش ماہے علی اصغرؑ نے سوکھے گلے پر تیر کھا کر اپنی قربانی سے وہ انقلاب برپا کیا، جس نے دنیا میں شیر خواروں کی عظمت کو بلند کر دیا۔ چھ ماہ کے معصوم علی اصغرؑ اور چار سالہ سکینہ سلام اللہ علیہا نے نبی کے گھرانے کی سیرت پر چلتے ہوئے ابن زیاد کے لشکر کی ذہنی پستی کو اپنے کردار سے ہلا ڈالا۔

 تقریب میں لاہور کے ایم ڈبلیو ایم شعبہ خواتین کے مختلف یونٹس سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں نے سلام، منقبت اور ٹیبلوز کے ذریعے نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

Page 1 of 4

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree