وحدت نیوز (آرٹیکل) عوامی طاقت کا کوئی متبادل نہیں، خصوصا عوام اگر خدا پر توکل کریں تو وہ اپنی تقدیر کے خود مالک ہیں، عوامی طاقت کو اُس وقت نقصان پہنچتا ہے جب  حکومتی فرعون مذہبی دجالوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرتے ہیں، سادہ لوح عوام مذہبی دجالوں کی  جوشیلی تقریروں اورباتوں میں بہہ جاتے ہیں ۔

یہ ہمارے ہی دور کی بات ہے ، جب ایران میں عوام نے بادشاہ کے خلاف قیام کیا تھا، ایران کا بادشاہ  ایک شیعہ ڈکٹیٹر تھا، ایران صدیوں سےشیعت کا قدیمی مرکز  چلا آرہاتھا، ایران میں اس وقت بھی اہلِ تشیع کے مجتہد اورمراجع کرام تھے۔

ایران کا بادشاہ لوگوں کو یہ بھی یقین دلاتا تھا کہ وہ ان کا مذہبی پیشوا بھی ہے اور اس کے ہمراہ کشف و کرامات کا سلسلہ بھی ہے۔  ایرانی بادشاہ کو مغرب ، امریکہ   اور اسرائیل کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔

ایران کی داخلی حالت یہ تھی کہ ایک طرف تو بادشاہ پچیس ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن مناتا تھا ، اور دنیا میں سب سے طاقتور بادشاہ یہی شہنشاہِ ایران تھااور دوسری طرف عوام نالیوں اور کچرے سے روٹی کے ٹکٹرے چن کر چبانے پر مجبور تھے۔

بہر حال ۱۹۷۹ میں ہر طرف سے مایوس ہوکر ایرانی  عوام نے خدا پر توکل کر کے بادشاہ کے خلاف قیام کیا، یہ آمریت کے خلاف جمہوریت کا قیام تھا، یہ بادشاہت کے خلاف انسانیت کا انقلاب تھا، یہ حیوانیت کے خلاف عقل و شعور کی آواز تھی ۔

جس وقت ایران کے مضبوط ترین بادشاہ کے خلاف یہ عوامی و جمہوری انقلاب رونما ہوا تو منطقے میں ہر طرف آمریت کا دور دورہ تھا، پاکستان میں ضیاالحق کی آمریت، عراق میں صدام کی استبدادیت اور عرب ریاستوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ڈکٹیٹر براجمان تھا۔ ایران کا عوامی انقلاب  خطے کی تمام ریاستوں  کے عوام کے کے لئے  یہ پیغام تھا کہ عوامی  اور الٰہی طاقت کو کوئی بادشاہت نہیں دبا سکتی۔ ایرانی بادشاہ کا تخت الٹنے سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ جب عوام کے سامنے شہنشاہِ ایران نہیں ٹھہر سکتا تو پھر کسی اور بادشاہ میں اتنی طاقت کہاں ہے کہ وہ عوامی انقلاب کا مقابلہ کر سکے۔

ایرانی عوام کے اس  انقلابی پیغام کو دبانے اور ایران تک محدود کرنے کے لئے  دنیا  کے  ڈکٹیٹروں نے مذہبی دجالوں کو اکٹھا کیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ایران کا انقلاب شیعہ انقلاب ہے۔ لہذا کافر کافر شیعہ کافر۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا انقلاب سے پہلے ایران کوئی حنفی، حنبلی ، شافعی یا سُنّی ملک تھا، انقلاب سے پہلے بھی تو ایران ایک شیعہ ریاست تھی، ایرانی عوام کی اکثریت، مجتہدین، مراکز ، تہذیب و ثقافت حتیٰ کہ بادشاہ بھی شیعہ تھا۔ اس سے پہلے تو کسی نے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔

 ارباب دانش سوچیں اور فکر کریں کہ ۱۹۷۹ میں  ایرانی عوام سے ایسا کیا گناہ  سرزد ہو گیا تھا کہ اس کے بعد ہر طرف شیعہ کے کفر پر تقریریں ہونے لگیں، لٹریچر چھپنے لگا، چودہ سو سالہ پرانے مسائل کو اچھالا جانے لگا،پروپیگنڈے ، جھوٹ اور افترا پردازی کی انتہا کی گئی  حتی کہ ۲۰۱۷ میں بھی راولپنڈی میں ایک فرقے نے خود اپنے ہی مدرسے کو آگ لگا کر اور اپنے ہی افراد کو قتل کر کے اس کا الزام اہل تشیع پر لگایا۔

 کیوں آخر کیوں!؟ اس درجے تک ضد ، بغض اور حسد کرنے کی وجہ کیا ہے؟

اس قدر جھوٹ، اس قدر افترا پردازی ، اس قدر پروپیگنڈہ آخر کیوں!؟

وجہ صرف اور صرف اتنی سی ہے کہ اگر ایران کے انقلاب کو شیعہ کہہ کر اہل سنت کو اہل تشیع سے دور نہ کیا جاتا تو ایرانی عوام کی دیکھا دیکھی  دنیا کی ساری ریاستوں کے مسلمان،اپنے اوپر مسلط  آمروں کے خلاف قیام کرنے لگتے اور یوں مسلمانوں پر مسلط بادشاہتیں دم توڑنے لگتیں۔

آمریت کے خلاف  ایرانی عوام کی جدوجہد  کو چھپانے لئے عراق کے ڈکٹیٹر صدام نے دیگر آمروں کی ایما پر ایران پر حملہ کیا اور عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر دنیا کو یہ تاثر دیا کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ ہے ۔

آج وقت نے  ثابت کر دیا ہے کہ یہ شیعہ اور سنی کی جنگ نہیں تھی بلکہ آمریت اور جمہوریت کا ٹکراو تھا، شعور اور تعصب کی لڑائی تھی،  اور بادشاہت و بیداری کا معرکہ تھا۔

وقت کا پہیہ گردش میں رہا، مورخ کا قلم چلتا رہا، تاریخ کے اوراق پلٹتے رہے، چہروں سے نقاب الٹتے رہے، مذہبی دجا ل اپنے ڈکٹیٹروں سمیت جہنم کا ایندھن بن گئے، جھوٹ بولنے والے اور پروپیگنڈہ کرنے والے دنیا کے سامنے بے نقاب ہوتےگئے، ان چند سالوں میں  اگر کچھ باقی رہا تو صرف اور صرف حق اور سچ باقی رہا۔۔۔!

وہ  عوامی شعور اور جمہوری انقلاب جسے شیعہ کہہ کر  ایران میں محدود کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس نے تونس سے بھی سر نکالا ، اس نے مصر میں بھی دستک دی، اس نے عراق کو بھی ہلایا ، اس نے قطر کو بھی جھنجوڑا اورآج  وہ  سعودی عرب پر بھی خوف طاری کئے ہوئے ہے۔

آج ہر منطقے ، ہر ریاست اور ہر علاقے کے مسلمان اپنے اوپر مسلط بادشاہت سے بیزار ہیں، آج مسلم دنیا کے ڈکٹیٹر تو شہنشاہِ ایران کی طرح امریکہ و اسرائیل کے تلوئے چاٹ رہے ہیں لیکن آج عرب ریاستوں کے عوام  اپنے اوپر مسلط  بادشاہوں سے نالاں ہے۔

عوام کی بادشاہوں سے ناراضگی، لوگوں کی آمریت سے نفرت، جمہور کا شعور کی آواز پر لبیک کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ حکومتی  آمروں اورمذہبی دجالوں سے آزادی اور انقلاب چاہتے ہیں، اب ان بیدار اور باشعور لوگوں کے خلاف چاہے کافر کافر کے نعرے لگائے جائیں اور مذہبی دجال ان کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کریں ، یہ انقلاب، شعور اور بیداری کی لہر اب کافر کافر کے نعروں سے رکنے اور تھمنے والی نہیں، اب لوگ یہ سمجھ گئے ہیں کہ آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی لازم و ملزوم ہے ، جب تک دنیائے اسلام سے آمریت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک قدس کی آزادی ممکن نہیں، لہذا  اب عوامی  شعور کی یہ لہر آمریت کی بربادی اور قدس کی آزادی پر ہی منتہج ہوگی۔

بقول شاعر اب وہ وقت آگیا ہے کہ

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

ان شااللہ

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree