وحدت نیوز(کراچی) پیام کربلا وبیداری امت مہم کے سلسلے میں سالانہ مجلس عزا بسلسلہ شہادت حضرت سکینہ بنت الحسین ؑ  مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر اور خانوادہ عارف رضا زیدی کے زیر اہتمام مسجد وامام بارگاہ امامیہ ایف سائوتھ جعفرطیارسوسائٹی میں منعقد ہوئی جس میں حرم مطہرامام حسین ؑ،امام رضا ؑ اور بی بی معصومہ قمؑ کے گنبد کے پرچموں کی زیارت کروائی گئی،مجلس عزا میں نظامت کے فرائض سید احسن عباس رضوی نے انجام دیئے جبکہ تلاوت حدیث کساءقاری ساجدنے کی ، سوزخوانی نسیم زیدی وبرادران نے کی ، سلام احسن مہدی، محمد عارف نے پیش کیاجبکہ مجلس عزا سے خطاب ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ترجمان علامہ مختاراحمد امامی نے کیااور سکیورٹی کے فرائض وحدت اسکائوٹس نے انجام دیئے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) دانش مند کہلانا کسے پسند نہیں!؟البتہ دانش مندوں کی بھی اقسام ہیں، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن  کا کہنا ہے کہ  اگر لکھنے لکھانے  اور میڈیا سے کوئی اثر اور فائدہ ہوتا تو سارے انبیائے کرام ؑ  آکر پہلے لوگوں کوانٹر نیٹ سکھاتے،فیس بک سمجھاتے اورکمپیوٹر کی تجارت کو رواج دیتے۔

ان کے نزدیک لکھنے لکھانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں ،نفرتیں پیدا ہوتی ہیں،دوریاں جنم لیتی ہیں اور غیبت وحسد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔لہذا وہ ہمیں اکثر مسائل کا حل خاموشی اختیار کرنے ،منّت سماجت سے کام نکالنے اور حسبِ استطاعت کچھ لے دے کرمعاملہ نمٹانے میں بتاتے ہیں۔

ہمارے خیال میں ایسے دانشمندوں کے افکار و نظریات انسانوں کو بے حس کرنے والی دوائیوں کے بہترین متبادل ثابت ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے ہاں کے دانشمندوں کی ایک اور قسم بھی ہے ،یہ ایسے دانشمند ہیں جو اصلاً دو جملے بھی نہیں لکھ سکتے،یا پھر خیر سے ایک جملہ بھی ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے،البتہ اپنی  باتوں سے یہ عالمِ امکان کو زیروزبر کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔یہ اپنے آپ کو ہرفن مولا ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔آپ دنیا کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش کریں یہ اس میں اپناسنہری  تجربہ آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔

اپنے اندر کے احساسِ کمتری کو چھپانے کے لئے ان کے پاس چند رٹے رٹائے جملے بھی  ہوتے ہیں،مثلاً ہم تو تنظیمی ہیں،ہم تو انقلابی ہیں،ہم تو اتنا تجربہ رکھتے ہیں،ہم تو۔۔۔وغیرہ وغیرہ

سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسے دانشمند فیڈبیک کے بنیادی اصولوں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے اورانہیں کہیں پر کمنٹس دینے کا بھی پتہ نہیں ہوتا ،یہ اگر کہیں اپنے کمنٹس کے ذریعے تیر مارنا  بھی چاہیں تو  سیدھا وہاں مارتے ہیں جہاں نہیں مارنا ہوتا۔

مثلاً اگر کوئی آدمی فوری طور پر کہیں سے رپورٹنگ کرے  یا کوئی خبر نقل کرےکہ فلاں جگہ فلاں حادثے میں اتنے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں تو ایسے دانشمند فوراً کمنٹس میں لکھیں گے کہ” ہلاک نہیں شہید ہوئے “اس کے بعد یہ بحث کو کھینچ کر ہلاک اور شہید میں الجھا دیں گے اور اصل مسئلہ  ان کی قیل و قال میں ہی دفن ہوجائے گا۔ایسے دانشمند ہماری ملّی توانائیوں کو خواہ مخواہ ضائع کروانے میں یہ یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں ہمارے ہاں اس طرح کے دانشمند بھی  بکثرت پائے جاتے ہیں جو سارے مسائل کو لغت اور اصطلاح کی روشنی میں  کُلی طور پرحل کرنا چاہتے ہیں۔مثلاًاگر کہیں پر شراب کی خرید و فروخت کا دھندہ ہورہاہو اور آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں یا کوئی میدانی تحقیق کریں  تو فوراً یہ دانشمند ناراض ہوجاتے ہیں۔ان کے نزدیک شراب فروشی اور شراب خوری کا علاج یہ ہے کہ آپ زمینی تحقیق کرنے کے بجائے  شراب پر ایک علمی مقالہ  اس طرح سے لکھیں :۔

شراب در لغت۔۔۔۔ شراب در اصطلاح۔۔۔۔شراب کا تاریخچہ۔۔۔۔ شراب کے طبّی فوائد و نقصانات ۔۔۔دینِ اسلام میں شراب کی حرمت۔۔۔۔شرابی کے لئے دنیا و آخرت کی سزائیں۔۔۔اور آخر میں حوالہ جات

آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ قبلہ میڈیا میں میڈیم کے بغیر لکھا ہوا ایسے ہی ہے جیسے آپ نےکچھ لکھا ہی نہیں لیکن وہ اپنی ہی بات پر ڈٹے رہیں گے۔

معاشرے کے زمینی حقائق سے اربابِ علم و دانش کو دور رکھنا ایسے دانشمندوں کا اصلی فن ہے۔

اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک  بہت ہی نایاب قسم  بھی پائی جاتی ہے۔یہ تعداد میں جتنے کم ہیں معاملات کو بگاڑنے میں اتنے ہی ماہر ہیں۔یہ ایک چھوٹے سے مسئلے کو پہلے بڑھا چڑھا کر بہت بڑا بناتے ہیں اور پھر آخر میں اس کا حل ایک چھوٹی سی مذمت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔

مثلاً اگر اسلام آباد میں کہیں  پر خود کش دھماکہ ہوجائے اور آپ علاقے کو فوکس کرکے وہاں کے سیاستدانوں،بیوروکریسی,مقامی مشکوک افراد اور دیگر متعلقہ لوگوں اور اداروں کے بارے میں زبان کھولیں  اور عوام کو شعور دینے کی بات کریں تو ہمارے ہاں کے یہ  نایاب دانشمند فوراً ناراض ہوکر میدان میں کود پڑتے ہیں۔

اس وقت ان کا بیان کچھ اس طرح سے ہوتا ہے:

خود کش دھماکے کہاں نہیں ہورہے،پاکستان ،عراق،شام ،افغانستان وغیرہ وغیرہ  ۔یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ان دھماکوں میں مارے جانے والے لوگوں  کی اپنی غفلت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔لوگ خود بھی اپنے ارد گرد کھڑی گاڑیوں ،موٹر سائیکلوں اور مشکوک افراد پر نگاہ نہیں رکھتے،ہم عوام کی غفلت کی مذمّت کرتے ہیں۔

یہ پہلے چھوٹی سی بات کو گھمبیربناتے ہیں،ایک سادہ سے مسئلے کو پیچیدہ کرتے ہیں،کسی بھی مقامی ایشو کے ڈانڈے  بین الاقوامی  مسائل سے جوڑتے ہیں اور آخر میں ایک سطر کا مذمتی بیان دے کر یا لکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔

ایسے دانشمندوں کا ہنر یہ ہے کہ یہ خود بھی  کسی مسئلے کو اٹھانے کے فنّی تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی بولنے کا موقع نہیں  دیتے۔

میں ان کی ایک مثال اور دینا چاہوں گا کہ مثلاً آپ انہیں کہیں کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں ایک مافیا رشوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔یعنی فلاں جگہ پر   مافیا انسانوں کا خون پی رہاہے۔

اس کے بعد ہمارے ہاں کے ” نایاب دانشمند “کچھ اس طرح سے قلمطراز ہونگے کہ دنیا میں جب تک پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا اس وقت تک لوگ ایک دوسرے کا خون پینے پر مجبور ہیں۔یہی صورتحال پاکستان سمیت  متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہے ۔ دنیا میں جہاں جہاں پینے کا صاف پانی میسّر نہیں ہم وہاں کے محکمہ واٹر سپلائی کی مذمت کرتے ہیں۔

قارئینِ کرام ! اپنے ہاں پائے جانے والے دانشمندوں کے بیانات،تقاریر،کمنٹس  ،نگارشات اور تحقیقات  کا جائزہ لیں اور فیصلہ آپ خود کریں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ  ہماری سوئیاں بھی اپنی اپنی جگہ  اٹکی رہیں اور ہمارے  ملّی و قومی مسائل بھی حل ہوجائیں۔

 

 

تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

انصاف کا تقاضاء

وحدت نیوز(آرٹیکل) کچھ دنوں پہلے بیروت اور پیرس میں بم دھماکے ہوئے جس میں سینکڑوں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئی اور سینکڑوں زخمی ہوئے، یقیناًیہ دنوں واقعات انتہائی دلخراش اور افسوسناک تھا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،کیونکہ ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے،۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات اپنے بھی غیر وں جیسا سلوک کرتے ہیں بلکہ اپنوں کی خاموشی دشمن کی تیر سے ذیادہ سخت ہوتا ہے، پیرس کے واقع پر ساری دنیا نے افسوس اور دکھ کا احساس کیا اور سب نے اپنے اپنے حساب سے اہلیان پیرس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیے،کسی نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تو کسی نے بڑی بڑی بلڈنگوں پر فرانس کا پرچم لہرایا ،تو فیس بک پر سب نے پروفائل پیکس پر فرانس کا جھنڈا لگایا۔میں ان اظہار ہمدردیوں کا مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی میں کسی ظالم اور ظلم کے حق میں ہوں میں یاں پر بس صرف ان عوام کو اور ساری دنیا کے انسانوں کو فلسطین کی طرف لیجانا چاہتا ہوں، جہاں روزانہ بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے، خواتین کو سر عام گولیاں مار دیا جاتا ہے، پر امن مسلمانوں کو مسجد اقصٰی میں نماز ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے، غریب مسلمانوں کا جو اپنے آباو اجداد سے فلسطن میں رہ رہے ہیں اور جن کی کئی نسلیں فلسطین کی سر زمین میں مدفون ہیں ان کے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے اور ان کو بے گھر و آسرا کھلے آسمان تلے ہجرت یاخیموں تک محدود کر دیا جاتا ہے، اور جو کوئی اپنی مظلومیت پر آواز بلند کرتا ہے تواُس پر دھشت گرد ، انتہاپسند کا ٹھپہ لگا کر یا تو مار دیا جاتا ہے یا سلاخوں کے پیچھے بیج دیا جاتا ہے، حتاکہ ان کے معصوم بچوں تک کو گرفتا کیا جاتا ہے۔


جی ہاں فلسطین میںیہ کوئی نئی بات نہیں جب سے اسرائیل کے ناجائز وجود کا قیام عمل میں آیا ہے تب سے آج تک فلسطن پر ظلم بڑھتا جا رہا ہے، کچھ مہینہ پہلے اقوام متحدہ کے عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرایا گیا جس سے مسلمان ممالک کافی خوش ہوئے، کہ شاید اب مسلۂ فلسطن کی کوئی راہ حل سامنے آجائے،لیکن میرے نزدیک اقوام متحدہ کی عمارت پر فلسطن کا جھنڈا لہرانے سے مراد فلسطن کے مظلومین کا ساتھ دینا نہیں تھا بلکہ اسرائیل کو گرین سگنل دے رہا تھا کہ اب فلسطین پر جتنا ہو سکے تیزی سے ظلم و ستم کو بڑھا دو ، اقوام متحدہ نے فلسطین کے جھنڈے کو تو تسلیم کیا ہے مگر فلسطین کے حقوق اور اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے نظریں چرالی۔اور اگر ہم دیکھیں تو فلسطین کا جھنڈا لہرانے کے بعد اسرائیلی ظلم و بر بریت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ساری دنیا خاموش ہے جیسے کہ وہاں کچھ ہو ہی نہیں رہا ، بین الا اقوامی ادارہ(Red Crescent) ریڈ کریسنٹ کی رپورٹ کے مطابق صرف اکتوبر کے مہینہ میں اسرائیلی فوجیوں کے حملوں میں چھبیس سو افراد زخمی ہوئے ہیں جن کو ربڑ اور اصلی گولیوں سے نشانہ بنایا گیا، ایک اور رپورٹ کے مطابق دو مہینوں میں ایک ہزار بچے گرفتار ہوئے اس کے علاوہ روزانہ فلسطینی شہید ہو رہے ہیں اسرائیلی بر بریت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شیلنگ سے ایک آٹھ ماہ کی بچی بھی شہد ہوئی۔ابھی یہ ظلم کم نہیں ہوئے تھے کہ اسرائیل نے اب ایک اور قانون تیار کیا ہے جس کی رو سے چودہ سال سے کم عمر کے بچوں کو گرفتار کرنا اور ان کو قید کرنا قانونی قرار دیا ہے جوکھولے عام انسانی حقوق کی پالی ہے۔حال ہی میں فلسطینی ادارے، فلسطینی پریزینرز سوسائٹی(Palestinian Prisoners Society) کی جانب سے ایک رپورٹ شایع ہوا ہے جس میں ان کاکہنا ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں ۴۰۰ فلسطینی بچے موجود ہے جن کی عمریں ۱۳ سے ۱۷ سے تک کے ہے اور ان بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے فلسطین کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا ہے۔


اب ذراامریکہ کی طرف دیکھیں جو اپنے آپ کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عالمی چیمپین ،اور انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتا ہے، فلسطین میں اسرائیلی مظالم کا برابر کے شریک ہے، بش کے زمانہ میں امریکہ اسرائیل کے درمیان دس سال کا معاہدہ ہوا تھا جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین ڈالر فوجی امداد کی مد میں اسرائیل کو دے گا، جو ۲۰۰۷ تا ۲۰۱۷ تک تھا، ابھی ہال ہی میں یہ معاہدہ ختم ہونے سے پہلے اسرائیلی وزیر عظم کے دورہ امریکہ کے دوران مزید دس سالہ معاہدہ طے پایا ہے جس میں امریکہ ہر سال ۳ بلین سے بڑھ کر ۵ بلین ڈالر اسرائیل کو فوجی امداد کی مد میں ادا کرے گا جو ۲۰۱۸ سے ۲۰۲۸ تک ہوگا،میرا امریکہ سے گزارش ہے کہ امریکہ اسرائیل جیسے دہشت گرد کومشرق وسطی میں رکھ کر ہر سال امریکی عوام کے ٹیکس سے ڈالر بیچنے کے بجائے اسرائیلیوں کو امریکہ میں ہی بسا لے، امریکہ میں ایک اورا سٹیٹ کا اضافہ ہوگا ااور اسرائیل وہاں خوش بھی ہونگے اور کسی دشمن کا خوف بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی فلسطنی حماس اور لبنانی حزب اللہ کے حملے ہونگے، اسرئیلی وہاں خوشی سے رہنگے امریکہ کی پریشانی بھی کم ہوگی،ادھر فلسطینی اپنے وطن میں خوشی سے رہنگے بلکہ مشر ق اسطٰی کی امن و سلامتی بھی بحال ہونگے کیونکہ مشرق وسطی کے تمام دہشت گردوں کو اسرائیل کی سر پرستی حاصل ہے تاکہ وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے، اور مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا کریں لیکن امریکہ ایسا کبھی نہیں کرے گا کیونکہ یہ ان کی مفاد میں نہیں ہے۔
افسوس ہے اُن انسانی حقوق کے علمبرداروں پر اور اُن مسلم ممالک خصوصا عرب ممالک پر جنہوں نے پیرس کے سانحہ پر تو آسمان سر پر اٹھا لیا مگر کبھی فلسطین کے شہیدا کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی فیس بک اور بلڈنگوں پر فلسطین کا پر چم لہرایا سوائے کچھ ممالک کے ،بلکہ حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر اسرائیل فلسطین کا جنگ ہو تو میں اسرائیل کا ساتھ دونگاجب مسلمان حکمرانوں کا یہ عالم ہو اور وہ اپنی تمام تر تاقتوں کے باوجود مٹھی بھر دشمن کے سامنے غلام بن کر رہنگے تو دشمن ہمارے ہی وسائل سے ہمیں قتل کرینگے ۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کو یہ جرات بھی مسلم حکمرانوں کی وجہ سے حاصل ہوئی جو اپنے اقتدار ااور مفاد کی خاطر اسلام کے دشمنوں کو گلے سے لگا یا اور ان کو بسا نے میں اور طاقتور ہونے میں مدد فراہم کی، افسوس ہے مسلمانوں پر جو ایک چھوٹے سے علاقہ اور قبلہ اول کو دشمنوں کی شر سے نہیں بچا سکا اور اپنوں کے مارے جانے پر خوشی اور کافروں کے مرنے پر غم زدہ ہوتے ہیں، افسوس ہے عرب ملکوں اور حکمرانوں پر ، عرب والے اگر صرف عرب ہونے کے ناطے بھی جمع ہو جائے تو فلسطین سے اسرائیل کا ناجائز وجود ختم ہو جائے مگر عربوں نے اپنے ضمیر کے ساتھ انسانیت اور دین و ایمان کو بھی فروع کیا سوائے کچھ لو گوں کے جو دشمن کے سامنے میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں۔


ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے سوچ نا چاہیے کہ آج ہم مظلومین کی حمایت نہیں کرینگے تو کل ہماری باری پر کون ہماری مدد کرے گا،نہج البلاغہ میں اما علی ؑ کے بارے میں ایک واقع ملتا ہے کہ ایک دفعہ امام کو یہ خبر ملی کی شہر امبار میں دشمنوں نے حملہ کر کے ایک کافر زمی عورت کے گھر میں داخل ہو کر اس کے گلے سے گلہ بند یا ہار چھین لیا ہے حضرت علی ؑ یہ سن کر غصے میں لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر یہ واقعہ سنے کے بعد کوئی شخص مر جائے تو علی کہ کہو نگایہ اس کی غیر ت کا تقاضہ تھا کہ اس کے حکومت کے حدود میں دشمن حملہ کریں اور وہ اس کی مدد نہ کر سکیں،اور وہ بھی کافرزمی عورت لیکن یاں تو معاملہ ہی الگ ہے اسرائیل جیسا غاصب فلسطین میں داخل ہو کر مسلمان فلسطینی نوجوان لڑکی کو بناء کسی جرم کے سر عام گولی مار تے ہیں، اور معصوم بچوں کوگرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے گھروں کو مسمار کیا جاتا ہے مگر ساری انسانیت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں؟؟


تحریر : ناصر رینگچن

وحدت نیوز (سکردو) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے زیراہتمام حسینی چوک اسکردو پر روز عاشورا کی مناسبت منعقدہ مجلس عزا سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے کہا ہے کہ عزاداری امام حسینؑ کسی رسم کا نام نہیں بلکہ آئین الہٰی اور دین مقدس اسلام کی حفاظت کے لئے تجدید عہد کرنے اور اسلام کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کے اعلان کا نام ہے۔ عزاداری مظلوموں کی ظالموں کے خلاف پکار اور للکار کا نام ہے، عزاداری دنیا بھر کے مظلوموں کی توانائی اور آواز کا نام ہے، عزاداری ظالموں کی سرنگونی اور شکست کا اعلان ہے، عزاداری اس عہد کی تجدید کا نام ہے، جو امام حسین ؑ نے کربلا کے میدان میں کیا تھا۔ عزاداری امام حسین ؑ ظالموں کے خلاف اعلان بغاوت کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے، ہم جان تو دے سکتے ہیں لیکن عزاداری پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اپنے خطاب میں آغا علی رضوی نے کہا کہ اس سال ملت اسلامیہ کے لئے دو محرم آئے، ایک محرم سے قبل ذوالحج کے مہینے میں اور دوسرا محرم ابھی، پہلا غم یعنی حجاج کا افسوسناک سانحہ اور دوسرا عاشورا۔ امام حسین ؑ نے اپنے حج کے آخری موقع پر حج کو عمرہ میں بدل کر کربلا تشریف لے گئے، تاکہ حرم خدا میں خون نہ بہے، لیکن تف ہو نام نہاد اسلامی حکومت سعودیہ پر جن کی مجرمانہ غفلت کے سبب ہزاروں حجاج شہید ہوئے اور اس سے بڑھ کر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کی لاشوں کی بے حرمتی بھی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ حج انتظامات کو عالمی اسلامی کمیٹی کے حوالے کیا جائے اور جس سعودی شہزادے کے پروٹوکول کے سبب سانحہ پیش آیا، اس شہزادے اور موجودہ سعودی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ منٰی کے افسوسناک سانحے پر نواز حکومت کی خاموشی اور میڈیا پر اس اہم مسئلے کو نہ اٹھانے دینے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ سعودی نواز حکومت نے اپنے آقا کی خوشنودی کی خاطر ملت اسلامیہ کیساتھ غداری کی ہے۔ آغا علی رضوی نے کہاکہ کربلا ایک زمان و مکان سے مختص نہیں بلکہ ہر روز روز عاشور اور ہر زمین زمین کربلا ہے، آج یمن میں آل سعود اور فلسطین میں یہود واقعہ کربلا کی یاد تازہ کر رہی ہے، ان افسوسناک سانحات پر عالم اسلام کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ نواز حکومت کی بھول ہے کہ وہ عزاداری کو محدود کرسکے گی، ہم دہشتگردوں کے خلاف اٹھنے والے ہر اقدام کی تائید کرتے ہیں، لیکن قومی ایکشن پلان کی آڑ میں عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جو کسی صورت قبول نہیں۔ ہم پاکستان آرمی کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن کو سراہتے ہیں اور اظہار اطمیان کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بہت جلد دہشتگردی کے سہولت کاروں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی اور مذاکرات کے نام پر دہشتگردی کو پھلنے پھولنے کا موقع دینے اور کالعدم جماعتوں کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کرے گی۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) سید شہداء امام حسینؑ کی قربانی اسلام کی بقا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے درس حریت و آزادی کا ناقابل فراموش نمونہ ہے،فلسطین،کشمیر، یمن،شام ،بحرین،لبنان اور عالم اسلام کے دیگر ممالک میں وقت کے یزید نے کربلائیں برپاکی ہوئی ہیں،جن کا مقابلہ کرنے والے دور حاضر کے حسینیؑ ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے عاشورا کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کیا،انہوں نے کہا کہ 61 ہجری کی کربلا کی معرفت نہ ہو تو دور حاضر کے کربلا کی شناخت و پہچان ممکن نہیں،اسی لئے یزید اور اس کے ہمنوا اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر فرزند رسول و آل رسولﷺ کو قتل کرنے پر تیار ہوگئے تھے،آج بھی یزیدی فکر کے پیروکار مسلمانوں کی تکفیر،اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے اسلام کی حقیقی و اصلی تصویر کو مندمل کر دیا ہے،اور ان کی کوشش ہے کہ یزیدی فکر کے حامل نام نہاد اور جعلی اسلام کا پرچم دنیائے اسلام پر لہرائے۔اس سال عزاداران عزاداری سید الشہداء پر مجالس و جلوس عزاء کاگزشتہ سالوں سے زیادہ منظم انعقادکرائیں گے۔

علامہ اجہ ناصر عباس جعفری کا مزید کہنا تھا کہ دور حاضر کا یزید بے نقاب ہو چکا ہے،اس کے چہرے پر پڑا نقاب کھینچا جا چکا ہے،داعش ،طالبان اور النصرہ کے مکروہ چہرے بھی اب پہچانے جا چکے ہیں،اب ان کی طرف داروں اور سرپرستوں کی باری ہے،انہوں نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ امام عالہ مقام ؑ اور ان کے اصحاب باوفا کی عزاداری یماری شہ رگ حیات اور عقیدت کا معاملہ ہے،یہ عشق و معرفت کی انتہا ہے،جس پر کسی قسم کا قدغن اور پابندی ہم قبول نہیں کریں گے،پاکستان کا آئین و قانون عزاداری کا محافظ ہے،ہم اس آئینی و قانونی حق سے دستبردار نہیں ہونگے۔

انہوں نے بلوچستان کے علاقے نصیر آباد بولان میں نہتے عزاداروں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دشمن ہمیں موت سے ڈرا کر عزاداری کو محدود کرنے کی سازش میں ہیں،خدا کی قسم شہادت ہماری میراث ہے،جسے ہماری ماوُں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے،ہم عزاداری کے لئے اپنی جان،مال،اولاد سب قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں ،لیکن عزاداری سید شہداء سے ایک ایچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں،ہماری جانیں،آل و اولاد نواسہ رسول کی امانت ہے،ہم اسے اسی راہ میں قربان کرنے میں ذراسی بھی دیر نہ کریں گے،ہمیں ملک بھر میں عزاداردوں کی سکیورٹی پر شدید تحفظات ہیں،ووفاقی و صوبائی حکومتیں بلخصوص پنجاب میں دہشت گردوں سے زیادہ عزاداروں کو ہراساں کرنے میں حکمران مصروف ہیں،پنجاب پولیس ملت جعفریہ کے گھروں کے چادر اور چادیواری کے تقدس پامال کرکے بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہی ہے،اس عمل میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف براہ راست ملوث ہے۔انہوں نے کہا کہ عزاداری وحدت و اخوت اور ظالم و جابر کے سامنے ڈٹ جانے کا پیغام دیتی ہے،سید شہداء کی ذات بابرکات کسی ایک فرقہ یا مذہب کی جاگیر نہیں،بلکہ نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین ابن علیؑ ہر دور کے مظلوموں کے پیشوااور ہادی و رہنما ہیں،امام حسین ؑ کی قربانی و قیام کا مقصد رہتی دنیا تک کے مظلوموں اور محروموں کو آزادی و حریت کیلئے آمادہ و تیار کرنا ہے،ہم سید شہداء کے راستے پر چل کر ہی ظالموں،جابروں اور آمروں سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے جیکب آباد میں نہتے عزاداران نواسہ رسول ۖپر درندہ صف دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے کے خلاف جی نائن امام بارگاہ میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یزیدی پیروکاروں نے ایک بار پھر سندھ کی سرزمین کو خاک و خون میں نہلا کر اپنی سفاکیت اور بربریت کا ثبوت دیا ہے،ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم ان دہشت گردوں کو شکست دینگے،اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاکر دم لیں گے،ہم ان کے اس بزدلانہ کاروائیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں عزاداران امام مظلوم عاشور کے دن گھروں سے نکلیں دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں کو خاک مین ملا دیں،ہمیں نہایت افسوس کہنا پڑتا ہے کہ وفاق،چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان کے حکمران دہشت گردوں پر قابو پانے کے بجائے ان کی توجہ عزاداران اور عزاداری سید شہداء کو محدو کرنے پر مرکوز ہیں،حکومت اور انتظامیہ دہشت گردوں کو پکڑنے کے بجائے بے جان لاوڈسپیکرز کو پکڑ کر بند کرنے میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی بد انتظامی نے آج دہشت گردوں کو اس خونی کھیل کو کھیلنے کا موقع ملا،ملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گرد مخالف قوتوں کیخلاف حکمران استعمال کر رہے ہیں،جیکب آباد میں شہداء کے وارثین اور عزاداروں پر پولیس گردی ریاستی دہشت گردی اور ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے،سندھ کے ضعیف العمر اور نااہل وزیر اعلیٰ اور انتظامیہ اس واقعے کے ذمہ دار ہیں،ہسپتالوں میں زخمیوں کو بروقت علاج معالجہ کے سہولیات نہ ملنے کے سبب شہادتوں میں اضافہ ہوا،موجودہ حکمران ملک سے دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص نہیں،انشااللہ ہمارے ان پاکیزہ شہیدوں کے لہو کو ہم رائیگاں نہیں جانے دینگے،سانحہ شکار پور کے دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا،سندھ حکومت نے سانحہ شکارپور کے شہدا کے لواحقین کو بھی دھوکا دیا،پیپلز پارٹی پر تکفیری قابض ہو چکے ہیں،ان کے مفادات اب دہشت گردوں سے وابسطہ ہیں،اس حکومت کے ہوتے ہوئے ہمارے شہداء کے قاتلوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ناممکن ہے،سندھ میں ہمارے ہزاروں شہداء کے قاتل اب بھی آزاد  دندھاناتے پھر رہے ہیں،نام نہاد سیاسی مافیا آپریشن ضرب عضب کو متنازعہ بنانے کی کو شش کر رہا ہے،لیکن ہم ان سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔

Page 3 of 4

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree