وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نےبانی انقلاب اسلامی امام امت خمینی بت شکن رضوان اللہ تعالی علیہ کی ستائیسویں برسی کے موقع پر امت مسلمہ کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ خمینی بت شکن زمان ومکان سے بالاتر شخصیت کا نام ہے، دور حاضر میں مستضعفین عالم کیلئے محفوظ پناہ گاہ امام خمینی ؒ کے انقلاب اسلامی کے سوا کوئی نہیں، امام خمینی نے دنیاوی طاقتوں کے سامنے قیام کے لئے الہٰی قوت پر بھروسہ کیااورخدا نے ان کی مدد ونصرت فرمائی، امام خمینی نے پوری دنیا کے مظلومین کو ظالمین کے مقابل سینہ تان کر کھڑا ہونے کا حوصلہ فراہم کیا، انقلاب اسلامی ایران سیکولرازم، کمیونزم اور کیپٹل ازم جیسے نظاموں کے خلاف بغاوت کا نام ہے جس کی اصل اسلام کا آفاقی نظام ہے۔ان تمام نظاموں نے دین کو سیاست سے جدا کر کے پیش کیا ہے۔ جب کہ اگر دین سیاست سے جدا ہو جائے تو بربریت اور ظلم پروان چڑھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک خط امام کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے اپنی ہاں امریکی مداخلت کا نفوذ ختم کر سکتے ہیں۔ امام خمینی ایسی ہستیاں تاریخ ساز ہوتی ہیں جن کا دنیا صدیاں انتظار کرتی ہے اور جنھیں طلوع محشر تک یاد رکھا جائے گا۔ ایرانی قوم کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ مبارکباد کی مستحق ہے کہ جسے امام خمینی جیسی امت کا درد رکھنے والی ہستی ملی۔ جنھوں نے مسلک و مکتب سے بالا تر ہو کر شرق سے غرب تک ہر جگہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے موثر آواز بلند کی اور انہیں اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق کو رواج دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ رہبر کبیر کا پیغام وحدت ہے اور جس دن ہم نے وحدت کا اپنا شعار بنا لیا اس دن امریکہ اور اس کی حواری قوتوں کا ناپاک وجود پاک سرزمین سے ہمیشہ کے لئے نابود ہو جائے گا۔
ان کامزیدکہنا تھا کہ امام خمینی نے ظلم کی مسلک و مذہب سے ہٹ کر ہر جگہ اور ہر سطح پر مخالفت کی اور اسلامی اقدار کو عالمی سطح پر رواج دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے،امام خمینی کا پیغام وحدت کا پیغام ہے، لہذا ہمیں فرقہ واریت سے دور رہنا ہے اور وحدت کا پرچار کرنا ہے، اگر ہم نے ایسا کیا پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا،پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمران امام خمینی ؒ کی فکر وفلسفے کی روشنی میں اسلامی احکامات کا نفاذ عمل میں لائیں تو تمام معاشرتی ، سماجی ، سیاسی اور اجتماعی مشکلات سے نجات ممکن ہے، امام خمینی ؒ کے پیش کردہ نظام سیاست میں عدل کی حاکمیت بنیادی عنصر ہےجو کہ ہمارے معاشرے سے ناپید ہو چکا ہے، پاکستان میں ہماری جدوجہد خط امام کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ، ہم نے ظلم کے خلاف اور مظلوم کی حمایت میں قیام کی تعلیم مکتب امام خمینی ؒ سے حاصل کی ہے ، انہوں نے کہا کہ اس ملک میں شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے، لیکن کچھ استعماری ایجنٹ ہیں کہ جو امریکی اشاروں پر چلتے ہوئے اس ملک کو فرقہ واریت کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ملت اسلامیہ اپنے اتحاد سے ان کی اس سازش کو ناکام بنائے گی۔
وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک/بشکریہ نوائے اسلام) امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کو چھبیس سال ہو چکے ہیں اور آج دنیا بھر میں امام خمینی ؒ کی 26ویں برسی منائی جارہی ہے ۔امام خمینی ؒ نے دین و سیاست کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا ہے اور اس میں عملی حصہ لیکر پوری دنیا پر اسلامی سیاست کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔امام خمینی ؒ نے اُن لوگوں کا یہ نظریہ بھی غلط ثابت کیا ہے کہ دین وسیاست دو جدا مفہوم ہیں اور اُن لوگوں کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیا ہے کہ جن کے نزدیک سیاست ایک گندا کھیل ہے جس میں علماء کو داخل نہیں ہو ناچاہیے ۔امام خمینی ؒ کی برسی کی مناسبت سے ہم پاکستان جیسے معاشرے کے سامنے امام خمینی ؒ کے اخلاقی سیاست کے نظریے کی ایک جھلک پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جس معاشرے میں سیاسی اخلاق باختگی اپنے عروج پر ہے اور سیاست واخلاق کے باہمی تعلق کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔جس معاشرے میں علماء بھی گندی سیاست اور غیر اخلاقی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں عملی طور پر شریک ہیں ۔لیکن امام خمینی ؒ کا اخلاقی سیاست کا نظریہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی سیاست کایہ مظاہرہ سراسر غلط ہے اور ہمارے سیاستدانوں کے سیاسی طور پر نااہل ہو نے نے سیاست کو گندگی سے آلودہ کر دیا ہے ۔
در حقیقت ہمارے سیاست دان کوڈے (Coady) کے اس نظریے کہ پیروی کررہے ہیں کہ جس کے مطابق سیاست ایک آلودگی ہے ۔وہ ’’ سیاست اور آلودہ ہاتھ‘‘(Politics and the problem of dirty hands) کے عنوان سے ایک مقالے میں اس تلخ حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ سیاست، پرہیزگاری اور پاکیزگی اختیار کرنے کے ساتھ سازگار نہیں۔ لہذا جو بھی سیاست کے میدان میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے بد نامی، پستی، بدکرداری اور ہر قسم کی آلودگی کے خطرات کو قبول کرنا چاہئے، کیونکہ سیاست اور انسانی حالات کا یہی تقاضا ہے اور ’’ اگر یہ (سیاست) ہاتھ آلودہ کرنے کے معنی میں ہے تو یہ فقط انسانی حالات کی وجہ سے ہے۔‘‘ اور اس سے فرار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
لیکن امام خمینی ؒ اس مسئلہ کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ سیاست، اخلاقی بھی ہوسکتی ہے اور اسے اخلاقی ہونا بھی چاہئے، کیونکہ سیاست معاشرے کے وسیع شعبہ ہائے حیات میں اخلاقی وسعتوں کے پھیلاؤ اور دینی مقاصد وآرزؤں کی عملی شکل کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا امام خمینی ؒ کے نزدیک سیاست اور اخلاق ایک ہی چیز ہے امام خمینی ؒ ایک ایسے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے کہ جب اغیار کے وسیع پروپیگنڈے اور اپنوں کے غلط اعمال کے نتیجے میں اذہان میں اسلام اور اس کی کارکردگی کے بارے میں بہت سے اہم شکوک وشبہات پیدا ہوچکے تھے۔ انہی شبہات میں سے ایک، اسلام اور سیاست کے تعلّق اور سیاست کے سلسلے میں علماء کی ذمہ داری کا مسئلہ ہے۔ ان شکوک وشبہات کے نتیجے میں، دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ غالب ہورہا تھا کہ جس کے امام خمینی ؒ بہت شدید مخالف تھے اور اسے استعماری سازش قرار دیتے تھے۔ وہ ہر جگہ سیاست میں اسلام کے کردار اور اسلام وسیاست کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے کی بات کرتے تھے اور سیاست میں دخالت ہر مسلمان کا فریضہ جانتے تھے۔ انہوں نے شاہی حکومت کی انٹیلی جنس کے سربراہ ’’ پاکروان ‘‘ کا قصہ کئی دفعہ بیان کیا تھا کہ جس میں اس نے اپنے تئیں سیاست کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ علماء کو اس ’’ بدمعاشی‘‘ سے بچنا چاہیے، امام خمینی ؒ فرماتے تھے کہ یہ انہی استعماری منصوبوں کا نتیجہ ہے کہ افسوس کے ساتھ جس پر ہمارے بہت سے دینداروں کا بھی اعتقاد ہے ۔حتیٰ کہ ہماری دینی ثقافت میں ’’ سیاسی مُلا ‘‘ ایک طنز اور گالی کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ ’’جب کسی مولانا کا عیب بیان کرنا مقصود ہوتا تو کہا جاتا ’’فلاں سیاسی ملا ہے۔‘‘
حالانکہ اگر اسلام کے اجتماعی احکام کو نکال دیا جائے تو اس دین مبین میں سے سوائے بے روح جسد کے اور کچھ باقی نہیں رہتا۔ اسلام کا ایک بڑا حصہ، اجتماعیات پرمشتمل ہے اور اس کا اجراء کرنا بھی اقتدار اور حاکمیت کے ساتھ تعلّق رکھتا ہے۔ لہذا اسلام کو ہم ایک فردی دین اور لوگوں کی خصوصی زندگی سے مخصوص مذہب نہیں قرار دے سکتے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی بات یا تو اصل دین کے بارے میں کج فہمی کا نتیجہ ہے یا بدخواہوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔ اگر انسان ایک اجتماعی اور سیاسی مخلوق ہے اور اگر ہم دین اسلام کی جامعیت کے بھی قائل ہوں کہ جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پرمشتمل ہے تو ان سب باتوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دین ہرگز سیاست سے جدا نہیں ہوسکتا۔ پس سیاست سے دین کی جدائی کی بحث ایک مشکوک بحث ہے ’’ اس بات کو استعمار نے پھیلایا ہے کہ دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہئے اور علمائے اسلام کو اجتماعی وسیاسی امور میں دخالت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ سب بے دین افراد کا پروپیگنڈا ہے۔ کیا زمانۂ پیغمبر ؐ میں سیاست دین سے جدا تھی؟ کیا اس زمانے میں بھی ایک گروہ علما کا تھا اور دوسرا سیاستدانوں اور حکمرانوں کا؟ کیا خلفاء اور حضرت امیر ؑ کے زمانہ خلافت میں سیاست دین سے جدا تھی؟ آیا اس وقت دو نظام تھے؟ یہ سب باتیں استعمار اور ان کے کارندوں نے پھیلائی ہیں تاکہ دین کو دنیوی امور اور مسلمانوں کے معاشرتی مسائل سے دور رکھ سکیں‘‘۔ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’ اسلام ایک ایسا مکتب ہے کہ جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس تمام فردی واجتماعی، مادی ومعنوی، ثقافتی وسیاسی اور فوجی واقتصادی مسائل میں دخالت اور نظارت رکھتا ہے اور اس (دین) میں کسی ایسے چھوٹے سے چھوٹے نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا جو انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی ومعنوی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہو‘‘۔ پس جو شخص ان دونوں میں جدائی کی بات کرتا ہے وہ درحقیقت نہ دین کی حقیقت سے آگاہ ہے اور نہ ہی سیاست کے مفہوم کو جانتا ہے۔ ’’ ہمیں سیاست سے کیا مطلب‘‘ کا معنی یہ ہے کہ اسلام کو بالکل فراموش کردینا چاہئے، اسلام کو چھوڑ دینا چاہئے اور اسلام کو (مدارس) کے حجروں میں دفن کردینا چاہئے۔ یہ ہماری کتابیں دفن ہوجانی چاہییں‘‘۔ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’ اسلام کی اساس ہی سیاست ہے‘‘۔ اور ’’رسول اﷲؐ نے سیاست کی بنیاد دین پر رکھی ہے۔ ’’ صدر اسلام اور زمانہ پیغمبر ؐ سے لے کر جب تک انحراف پیدا نہیں ہوا تھا، سیاست اور دین ایک ساتھ تھے‘‘۔ امام خمینی ؒ کی یہ باتیں بارہا تکرار ہوئی ہیں، خصوصاً اس مفہوم اور تعریف کے ساتھ کہ جس کے وہ سیاست کے بارے میں قائل تھے اور اس کے مطابق، یہ باتیں قابل فہم بھی ہیں اور قابل قبول بھی۔ جیسا کہ پہلے بھی گزرچکا ہے کہ امام خمینی ؒ کے نزدیک ’’سیاست، معاشرے کی ہدایت وراہنمائی کرنے اور معاشرے کی مصلحت کو اور انسانوں اور معاشرے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کا نام ہے۔ ان کی اس چیز کی طرف راہنمائی کرنے کا نام سیاست ہے کہ جس میں ان لوگوں اور قوم وملت کی مصلحت ہے اور یہی چیز انبیاء ؑ سے مخصوص ہے‘‘۔ اس نظریہ کے مطابق اسلام کے تمام احکام وقوانین سیاسی جلوہ لئے ہوئے ہیں ’’دین اسلام، ایک سیاسی دین ہے۔ ایک ایسا دین ہے کہ جس کا سب کچھ سیاسی ہے حتیٰ اس کی عبادت بھی سیاسی ہے‘‘۔حتیٰ اس نگاہ سے دیکھیں تو ’’ اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔‘‘
امام خمینی ؒ کی نظر میں اگر انسان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ شہوات کا قیدی اور مادی ضروریات کا اسیر بن جائے گا اور پھر اس کی معنوی تربیت اور پرورش کسی بھی تربیتی اور سیاسی مکتب میں نہیں ہوسکے گی۔ جبکہ ہر چیز کی بنیاد معنویت اور روحانیت ہے اور انسان کے اس پہلو کی اصلاح اور پرورش سے اس کی تمام دوسری مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ امام خمینی ؒ کی نظر میں، موجودہ دنیا کی سب سے بڑی مشکل اخلاقی مشکل ہے۔ اگر یہ مشکل حل نہ ہوسکی تو دنیا پستیوں کی طرف گرنا شروع ہوجائے گی ’’ دنیا کو جس چیز سے خطرہ ہے وہ اسلحہ، سنگینیں اور میزائیل وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ وہ چیز ہے کہ جو ان ممالک اور انسانوں کو زوال وہلاکت کی طرف لے جا رہی ہے اور یہ زوال وانحطاط ہے جو ان ممالک کے سربراہوں اور ان حکومتوں کے کارندوں کے اخلاقی انحطاط کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے‘‘۔
امام خمینی ؒ کی نظر میں ’’ اسلام، مادی مکتب نہیں، بلکہ ایک مادی اور معنوی مکتب ہے… اسلام انسان کی تہذیب وتربیت کیلئے آیا ہے اور اسلام اور تمام انبیاء ؑ کا مقصد انسانوں کی تربیت کرنا ہے‘‘۔ پس اس بنا پر ہر سیاسی عمل کا سرچشمہ اخلاق ہونا چاہئے لہذا معنویت وروحانیت کی طرف توجہ ضروری ہے، چونکہ ’’ یہی معنویات ہر چیز کی بنیاد ہیں‘‘۔درحقیقت سیاست بغیر اخلاق کے لوگوں کی ہدایت وراہنمائی کرنے اور ان کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنے سے عاجز ہے ’’ بالفرض ایک ایسا شخص پیدا ہو بھی جائے کہ جو صحیح سیاست کو اجرا کرے… (لیکن)وہ سیاست، سیاست انبیاء ؑ کا ایک پہلو ہے۔ اولیاء کی سیاست بھی تھی اور اب علمائے اسلام کی بھی سیاست ہے۔ انسان کا فقط ایک پہلو نہیں ہے اسی طرح معاشروں کے بھی فقط ایک پہلو نہیں ہیں۔ انسان فقط ایک حیوان نہیں ہے کہ کھانا پینا اور پہننا اس کا تمام ہم وغم ہو۔ شیطانی سیاست ہو یا صحیح سیاست، وہ امت کے فقط ایک پہلو کی ہدایت کرتی ہے اور وہ اس کا حیوانی اور مادی پہلوہے اور اس قسم کی سیاست، اسلام میں انبیاء واولیاء کیلئے ثابت ہونے والی سیاست کا ایک ناقص سا جز ہے۔ وہ اقوام وملل اور فرد ومعاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ معاشرے اور انسان کیلئے جتنی بھی مصلحتوں کا تصور کیا جاسکتا ہے وہ ان کی طرف راہنمائی کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
یہ امام خمینی ؒ کے اخلاقی وسیاسی نظریے کا مرکزی نکتہ ہے لہذا ہمارا سروکار دو علوم اور دو مستقل نظریوں سے نہیں ہے۔ سیاست اخلاق کا تسلسل ہے اور اخلاق، سیاست کی بنیاد۔ گزشتہ ابحاث میں غور وفکر سے یہ نکتہ بخوبی روشن ہوجاتا ہے۔ اسلام کا مقصد انسان کے مادی اور معنوی پہلوؤں کی پرورش وتربیت کرنا ہے لہذا ان دونوں پہلوؤں کو ایک ہی سمت اور ایک ساتھ حرکت کرنی چاہئے۔ جس کیلئے اسلام نے انسان کیلئے کچھ احکام اور قوانین وضع کئے ہیں۔ ان احکام میں سے کچھ تو فردی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ اجتماعی مقاصد لئے ہوئے ہیں، بعض تربیتی پہلو کے حامل ہیں اور بعض سیاسی حیثیت کے۔ لیکن سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ لہذا ان احکام میں چند خصوصیات ہونی چاہئیں: اول یہ کہ ان کو انسان کے تمام وجودی پہلوؤں پرمشتمل ہونا چاہئے۔ دوم یہ کہ یہ اپنے اپنے میدان میں جامعیت کے حامل ہونے چاہئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تضاد بھی نہ رکھتے ہوں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہوں۔ درحقیقت تمام اسلامی احکام ایسی ہی خصوصیات کے حامل ہیں۔
امام خمینی ؒ کی نظر میں ’’ اسلام میں انسان کی پوری زندگی کیلئے یعنی جس دن وہ متولدہوتا ہے اس سے لے کر قبر میں داخل ہونے تک کے احکام اور دستورات موجود ہیں‘‘۔اسی طرح ان احکام میں جامعیت اور انسجام بھی موجود ہے۔ بقول امام خمینی ؒ ’’اس انسان کیلئے کہ جو ہر چیز کا مجموعہ ہے یعنی جو عالم طبیعت سے لے کر ماورائے طبیعت اور عالم الٰہیات تک کے مراتب کا حامل ہے، اسلام کے پاس نظریہ اور لائحہ عمل موجود ہے۔‘‘ لہذا تمام اسلامی احکام پیکر واحد کی حیثیت رکھتے ہیں ’’اسلام کی دیانت فقط عبادی دیانت ہی نہیں… اسی طرح وہ صرف ایک سیاسی مذہب ہی نہیں، بلکہ عبادی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ اس کی سیاست، عبادات میں مدغم ہے اور اس کی عبادت، سیاسیات کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یعنی وہی عبادی پہلو سیاسی پہلو بھی ہے‘‘۔
امام خمینی ؒ صراحت کے ساتھ اخلاق اور دینی سیاست کو ایک ہی چیز شمار کرتے ہیں اور ان دونوں کی وحدت کے نظریہ پر تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔ یہی حکم کہ جو قرآن میں ہے جس کے مطابق مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک اخلاقی حکم ہے (لیکن ساتھ ہی) ایک اجتماعی وسیاسی حکم بھی ہے۔ مومنین اور اسلام کے دوسرے مختلف گروہ کہ جو خدا اور پیغمبر اسلام ؐ پر ایمان رکھتے ہیں اگر باہم برادر بن جائیں تو جس طرح ایک بھائی، بھائی پر محبت کی نگاہ ڈالتا ہے، سب گروہ ایک دوسرے پر محبت کی نگاہ ڈالیں، تو یہ بات ایک عظیم اسلامی اخلاق کے علاوہ اور عظیم اخلاقی ثمرات رکھنے کے علاوہ، ایک عظیم اجتماعی حکم بھی ہے جس کے عظیم اجتماعی اثرات ہیں۔
بہرحال، امام خمینی ؒ کے نظریہ کا خلاصہ اور ان کے افکار کا لب لباب اخلاق اور سیاست کی یگانگی اور وحدت ہے اور یہ بات اس قدر واضح ہے کہ جس کیلئے کسی استدلال کی ضرورت نہیں۔ اب جبکہ اخلاق اور سیاست ایک دوسرے میں مدغم ہوچکے ہیں تو پھر جھوٹ، ظلم وستم بے عدالتی، حق تلفی وغیرہ فردی سطح پربھی بری ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اسلامی حکمران کو ہمیشہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان کی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن محال نہیں۔ اسلامی نظام کے حقیقی مقاصد ومصالح کی حفاظت اور طولانی مدت تک سیاسی اقتدار کا تحفظ فقط اخلاقی اصولوں کی پابندی اور ہر قسم کے دھوکہ وفریب سے دوری اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ اس اصول اور قاعدے کو کوئی بھی مسلمان حکمران نظرانداز نہیں کرسکتا۔ سیاسی اقتدار کی حفاظت اور اخلاق کے بارے میں تاکید پر مبنی امام خمینی ؒ کا یہ قول ہمیشہ ہمارا نصب العین ہونا چاہئے کہ جس میں انہوں نے فرمایا: ’’آپ اپنے اسلامی کردار اور رفتار کے ساتھ اس تحریک کی حفاظت کریں اور اسے آگے بڑھائیں اور اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ خداوند متعال ہی ہماری تائید فرماتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنے اسلامی اخلاق ورفتار کے ذریعے اس اقتدار کی حفاظت کریں کہ جس نے ہمیں فتح ونصرت تک پہنچایا ہے‘‘۔
پس نتیجہ یہ کہ نہ صرف ہمیں سیاست کو اخلاقی بنانا چاہئے ، بلکہ اخلاقی معیار کے مطابق سیاست کرنی چاہیے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد اور حقیقت یہی ہے اور تاریخ بھی اس نظریے کے فروغ اور سربلندی کی گواہ ہے۔ اگر کہیں اس نظریہ نے شکست کھائی بھی ہے تواس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نظریہ ہمیشہ شکست کھاتا رہے گا اور ناقابل عمل ہے۔ آج اکثر سیاسی مفکرین کو اس حقیقت کا ادراک حاصل ہوگیا ہے کہ فقط اخلاقی سیاست کے ذریعے ہی باقی رہنا ممکن ہے۔اور امام خمینی ؒ نے یہ نظریہ عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے اورعملی سیاست میں اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاست کی یاد تازہ کرد ی ہے ۔
تحریر۔۔۔۔۔۔سید رمیزالحسن موسوی
ایٹمی معاہدہ ہو یا نہ ہو، اسرائیل روز بروز ناامن ہوتا جائے گا،امام خامنہ ای کابسیج کے اجتماع سے خطاب
وحدت نیوز (تہران) ایرانی دارلحکومت تہران میں جمعرات کے روز ایرانی رضاکار فورس "بسیج" کے مسئولین کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکہ یا امریکی قوم کے ساتھ کوئی مسئلہ نہيں ہے، انکا کہنا تھا کہ ملت ایران کو امریکی حکومت کی منہ زوری اور زیادہ طلبی پر اعتراض ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے الہی و انسانی احساس ذمہ داری اور بصیرت کو "بسیج" کے منطقی تفکر کی دو اصلی بنیادیں قرار دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے جمعرات کے روز تہران میں ایرانی رضاکار فورس "بسیج" کی سپریم کونسل اور اس کے مختلف شعبوں کے نمائندوں سے ملاقات میں "بسیج" کی فعالیت کے میدان کو وسیع اور لامتناہی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی دفاع، تعمیر و ترقی، سیاست، اقتصاد، فن، علم، سائنس و ٹیکنالوجی اور مذہبی آرگنائیزیشن وغیرہ بسیج کی موجودگی اور فعالیت کا میدان ہیں۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ آج عراق، شام، لبنان اور غزہ میں "بسیجی" یعنی رضاکارانہ فکر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، کہا کہ یہ فکر مستقبل قریب میں، بیت المقدس میں مسجدالاقصٰی کو بچانے میں بھی نمایاں کردار ادا کرے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی اکثریت کے "بسیجی" ہونے کو اسلامی جمہوری نظام کے ناقابل شکست ہونے کا ثبوت قرار دیا۔ انہوں نے تاکید کی کہ اسلامی نظام کی اصلی جہت و سو سامراج کا مقابلہ ہے اور اس جہت میں سستی یا غلطی پیدا نہيں ہونے دینا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکہ یا امریکی قوم کے ساتھ کوئی مسئلہ نہيں ہے، انکا کہنا تھا کہ ملت ایران کو امریکی حکومت کی منہ زوری اور زیادہ طلبی پر اعتراض ہے۔
انقلاب اسلامی کے سربراہ نے ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم کی منطقی و مدلل، سنجیدہ اور بھرپور کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ حق اور انصاف تو یہ ہے کہ ایرانی وفد، گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایٹمی مذاکرات میں زور و زبردستی کی منطق کے سامنے ڈٹا ہوا ہے اور فریق مقابل بالخصوص امریکہ کے برعکس ہر روز اپنی بات اور موقف تبدیل نہیں کرتا۔ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمٰی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا نتیجہ خيز نہ ہونا سب سے زيادہ امریکیوں کے نقصان ميں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل اور اس ملک کی عوام اور حکومت کے درمیان گہرے اختلاف کے پیش نظر امریکی حکومت کو ایران کیساتھ ایٹمی مذاکرات کی صورت میں ایک بڑی کامیابی کی اشد ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کی سکیورٹی کے تحفظ کی ضرورت کے بارے میں بعض امریکی حکام کی تاکید کے حوالے سے کہا کہ ایٹمی معاہدہ ہو یا نہ ہو، اسرائیل روز بروز ناامن ہوتا جائے گا۔ انکا کہنا تھا کہ امریکی حکام درحقیقت اپنے مفاد کی فکر میں ہیں نہ کہ اسرائیل کی سکیورٹی کے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکی حکام کا اصلی مقصد صیہونی سرمایہ داروں کے عالمی نیٹ ورک کو خوش رکھنا ہے کیونکہ یہ نیٹ ورک انھیں رشوت، پیسہ اور عہدہ دیتا ہے اور اگر وہ اس نیٹ ورک کے مطالبات کی مخالفت کریں گے تو ڈرائے، دھمکائے، رسوا حتٰی قتل کر دیئے جائيں گے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ تمام مکاتب عالم میں ملت تشیع کے امتیاز کے بنیادی وجہ ولایت کا تصور ہے،ولایت کے اتباء اور پیروی نے ہمیشہ مکتب تشیع کو متحرک و بیدارمسلک کے طور پر پیش کیا ہے، شیعیان برصغیر نے ولایت تکوینی پر کامل یقین اختیار کیا لیکن ولایت تشریعی کو نظر انداز کیا، انقلاب اسلامی کی کامیابی اسی ولایت تشریعی کی عملی اتباء کا نتیجہ تھا،اسلامی بیداری کی تحریکوں کی کامیابی اور مظبوطی کی اصل وجہ ولایت کی پیروی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے ناصران ولایت کنونشن کے دوران منعقدہ اسلامی بیداری کی تحریکوں میں ولایت کا کردار کے عنوان پر سیمینار سے خطاب کر تے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ظلم و جبر استبداد ، سنگین سازشوں کے باوجود ولائی آئیڈیالوجی کے سہارے مکتب اہل بیت ع نے تمام مسائل کا مقابلہ کیا ، نشونماء پائی ، آگے بڑھا، قوت میں اضافہ ہوا، یہاں تک کے آج کے دور میں اس ولایت کے انمول آثار ہمیں انسانی معاشرے خصوصاً اسلامی بیداری کی تحریکوں میں صاف نظر آتے ہیں ، انسانی معاشرے کی نجات دہندہ تحریکوں میں ولایت ممتاز اہمیت رکھتی ہے، کسی دوسرے سسٹم میں اس حد تک توازن موجود نہیں کہ جو معاشرے کے تمام طبقات کو یکساں معاشرتی حقوق فراہم کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ولایت کے مفاہیم اوراوصاف توجہ طلب ہیں ،ولایت تکوینی یعنی امیر المومنین ع ولی امرہیں ، زمین و زمان مپر مکمل تصروف رکھتے ہیں ، چاند اور سورج کو دوٹکڑے کر نے جیسے عظیم معجزات کا اختیار رکھتے ہیں ، ولایت تشریعی یعنی حکومت اور اقتدار علی ع کے ہاتھ میں اور اس کا آئین اسلامی تعلیمات کا عکاس ، افسوس کے مختلف ممالک سمیت ہمارے برصغیر کے معاشرے میں ولایت تکوینی پر عقیدہ تو راسخ رکھا گیا لیکن یعنی امیر مومنین ع کی ولایت تشریعی کو یکسر نظر انداز کیا گیا، اسلامی نظام حکومت کی تشکیل کو ہم نے ہمیشہ ناممکن اور شجرہ ممنوعہ قرار دیا ، لیکن انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اور وہاں فقیہ کی حکومت کی تشکیل نے اس ولائی آئیڈیالوجی کو عملی جامع پہنا دیا، امام خمینی پر بھی طرح طرح کے الزامات لگائے گئے کہ ان کی تقلید حرام ہو گی ہے انہوں نے سیاست میں حصہ لے لیا، انہوں نے اسلام میں سیاست کے دخول کی کوشش کی ہے، انہوں نے بدعت رائج کر دی وغیرہ وغیرہ لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی امام خمینی نے کسی بدعت کی ترویج نہیں کی بلکہ حکومت کو اس کے اصل اسلامی لباس میں معاشرے کے سامنے پیش کیا جو تعلیمات محمد و آل محمد ص سے ماخوز تھی، امام خمینی نے ثابت کیا کہ غیبت امام زمان عج میں فقہااور علماء ہی حکومت اسلامی کی تشکیل اور احیاء کو سنگین کام انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام عالم میں جاری اسلامی بیداری کی تحریکوں کی پشتی بانی اسی ولایت کے علمبردار امام خامنہ ای کر رہے ہیں۔
وحدت نیوز (تہران) امام خامنہ ای ۱۷ جولائی ۱۹۳۹ ع کو پیدا ہوئے۔ نواب صفوی جیسے عظیم انقلابی رہنما سے متاثر ہوتے ہوئے انہوں نے بھی انقلابی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اورجب امام خمینی نے شاہ ایران کی طاغوتی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو ان کی قیادت میں فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔ قید و بند کی صعوبتوں اورشاہی تشدد بھی انہیں امام خمینی نے پیغام کو پھیلانے سے روکنے میں ناکام رہا۔ منافق دہشت گردوں نے انہیں نماز میں بم دھماکے میں اڑانے کی سازش کی لیکن اللہ تعالی کو ان سے کچھ اور ہی کام لینا تھا۔ اس حملے میں ان کا بازو شل ہوگیا۔ وہ دو مرتبہ ایران کے صدر منتخب ہوئے اور اس کے علاوہ کئی اہم امور اور اداروں میں امام خمینی کے نمائندہ بھی رہے۔ امام خمینی کی رحلت کے بعد دنیائے اسلام کی مرجعیت کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آن پڑی اور تب سے بفضل خداوند متعال وہ ولی امر مسلمین کے منصب پر فائز احسن طریقے سے اپنی ذمے داریوں کو ادا کررہے ہیں۔ان کی ۷۴ ویں سالگرہ پر ہم امام زمان اور ان کے تمام پیروکاروں اور محبین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
مرجع جہانی، خامنہ ای امامی