وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نےبانی انقلاب اسلامی امام امت خمینی بت شکن رضوان اللہ تعالی علیہ کی ستائیسویں برسی کے موقع پر امت مسلمہ کے نام اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ خمینی بت شکن زمان ومکان سے بالاتر شخصیت کا نام ہے، دور حاضر میں مستضعفین عالم کیلئے محفوظ پناہ گاہ امام خمینی ؒ کے انقلاب اسلامی کے سوا کوئی نہیں، امام خمینی نے دنیاوی طاقتوں کے سامنے قیام کے لئے الہٰی قوت پر بھروسہ کیااورخدا نے ان کی مدد ونصرت فرمائی، امام خمینی نے پوری دنیا کے مظلومین کو ظالمین کے مقابل سینہ تان کر کھڑا ہونے کا حوصلہ فراہم کیا، انقلاب اسلامی ایران سیکولرازم، کمیونزم اور کیپٹل ازم جیسے نظاموں کے خلاف بغاوت کا نام ہے جس کی اصل اسلام کا آفاقی نظام ہے۔ان تمام نظاموں نے دین کو سیاست سے جدا کر کے پیش کیا ہے۔ جب کہ اگر دین سیاست سے جدا ہو جائے تو بربریت اور ظلم پروان چڑھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک خط امام کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے اپنی ہاں امریکی مداخلت کا نفوذ ختم کر سکتے ہیں۔ امام خمینی ایسی ہستیاں تاریخ ساز ہوتی ہیں جن کا دنیا صدیاں انتظار کرتی ہے اور جنھیں طلوع محشر تک یاد رکھا جائے گا۔  ایرانی قوم کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ مبارکباد کی مستحق ہے کہ جسے امام خمینی جیسی امت کا درد رکھنے والی ہستی ملی۔ جنھوں نے مسلک و مکتب سے بالا تر ہو کر شرق سے غرب تک ہر جگہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے موثر آواز بلند کی اور انہیں اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق کو رواج دینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ رہبر کبیر کا پیغام وحدت ہے اور جس دن ہم نے وحدت کا اپنا شعار بنا لیا اس دن امریکہ اور اس کی حواری قوتوں کا ناپاک وجود پاک سرزمین سے ہمیشہ کے لئے نابود ہو جائے گا۔

ان کامزیدکہنا تھا کہ امام خمینی نے ظلم کی مسلک و مذہب سے ہٹ کر ہر جگہ اور ہر سطح پر مخالفت کی اور اسلامی اقدار کو عالمی سطح پر رواج دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے،امام خمینی کا پیغام وحدت کا پیغام ہے، لہذا ہمیں فرقہ واریت سے دور رہنا ہے اور وحدت کا پرچار کرنا ہے، اگر ہم نے ایسا کیا پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا،پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمران امام خمینی ؒ کی فکر وفلسفے کی روشنی میں اسلامی احکامات کا نفاذ عمل میں لائیں تو تمام معاشرتی ، سماجی ، سیاسی اور اجتماعی مشکلات سے نجات ممکن ہے، امام خمینی ؒ کے پیش کردہ نظام سیاست میں عدل کی حاکمیت بنیادی عنصر ہےجو کہ  ہمارے معاشرے سے ناپید ہو چکا ہے،  پاکستان میں ہماری جدوجہد خط امام کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ، ہم نے ظلم کے خلاف اور مظلوم کی حمایت میں قیام کی تعلیم مکتب امام خمینی ؒ سے حاصل کی ہے  ، انہوں نے کہا کہ اس ملک میں شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے، لیکن کچھ استعماری ایجنٹ ہیں کہ جو امریکی اشاروں پر چلتے ہوئے اس ملک کو فرقہ واریت کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ملت اسلامیہ اپنے اتحاد سے ان کی اس سازش کو ناکام بنائے گی۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) کمال تک پہنچنے میں مختلف امور موثر ہیں۔ انسان کو خداوند عالم نے کمال کے لئے خلق کیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اس وصف سے کس طرح متصف ہوسکتا ہے۔ان میں معرفت الٰہی میں اضافہ،تقویٰ و پرہیزگاری کو اپنا پیشہ کرنا، اپنی زندگی میں نظم و نسق قائم  رکھنا،علمی میدا ن میں ارتقاء کے مراحل کو طے کرنا، خصوصی طور پردینی علم کےحصول میں سرگرم رکھنا اور اس پر عمل کے ذریعے وارث انبیاء کا عنوان پانا "اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَتُ الاَنْبِیَاءُ،عرفان کے ذریعے کشف و شہود کے مرحلے تک رسائی پیدا کرنااورکائنات کی ہر چیز کو قدرت الٰہی کے مظاہر سمجھنا، اپنی شناخت کے ذریعے رب کی شناخت حاصل کرنا "مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ"۔اپنی زندگی میں ہر کام کوخداکی خوشنودی کے لئے بجا لانا "مَنْ کَاْنَ لِله کَانَ الله لَهُ"اپنی جان، مال اور اولاد  کو خدا کی راہ میں قربان  کرنے کے لیے تیار رہناشامل ہیں۔
    
یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا آج کے اس خطرناک دور میں بھی ایسے اوصاف کے حامل افراد کا پایا جانا  ممکن ہے؟

جواب اثبات میں ہے ۔ایسا ہونا ناصرف ممکن ہے بلکہ موجودہ صدی میں ہی ہم اس کے مصداق اتم کی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں۔میرا مقصود ہے؛ بت شکن زمان، عارف بے مثل،مجتہد کل عالَم جہان تشیع، وارث علم انبیاء،فیلسوف بے نظیر،سیاستدانِ یکتائے زمان،شجاعت کا پیکر، اخوت کا داعی، انقلاب شبیری کے پیغمبر اور صبر حسینی کے مصداقِ بارز،شجاعت حیدری کا عملی مظہر،حلم امام حسن مجتبیٰؑ کا زندہ مصداق، امام سجادؑ کی عبادت کا احیاءگر،باقرالعلومؑ کے منبع علمی کو دنیائے جہان تک منتقل کرنے والا اور صادق آل محمدؑ کی پیروی میں ہزاروں شاگردوں کے مربِّی اور دوسرے ائمہ معصومین علیھم السلام کے اوصاف حمیدہ کو زمانٖ حاضر میں عملی جامہ پہناکے دنیا کو دکھانے والی عظیم شخصیت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔
    
آپ نے ہر میدان میں دنیا کے سامنے ایسا کردار متعارف کرایا جس کا آج کے مادی دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ہم یہاں صرف مسلمانوں کے اتحادکے  حوالے سے آپ کے کردار کے چند گوشوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاء کریں گے۔آپ نے صرف ایران کےمسلمانوں کو استعمار کے پلیدہاتھوں سے نجات نہیں دلایا بلکہ پوری عالم انسانیت کو بالعموم اور ساری دنیا کے مسلمانوں  کو بالخصوص خواب غفلت سے جگایا ۔آپ نے ہر مرحلے پر مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور سامراجی عناصر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین فرمائی۔یوں آپ نے اپنی اس تحریک کو منجی عالم بشریت کے ظہور کے لئے ایک پیش خیمہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا:ہمارے اس انقلاب کے آنے سے؛ جو حقیقی انقلاب ہے اوراس میں احکام محمدی کابیان ہے۔اس کے ذریعے ہم دنیا پرستوں کے مظالم کا خاتمہ کریں گے اور خدا کی مدد سے منجی و مصلح کل، امام برحق ؛ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کےظہور کے لئے راہ ہموار کریں گے۔

1 وہ سپر طاقتیں جن کے سامنےساری دنیا سرتسلیم خم ہے امام خمینی ؒ نے دوٹوک الفاظ میں ان کے داغدار چہرے کے بدنما داغ کو پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا اور مسلمانوں کے دلوں میں امید کی ایک کرن روشن کردی۔آپ نے فرمایا :"ہمارا انقلاب ایران کی حد تک محدود نہیں بلکہ ایرانی قوم کا انقلاب عالم اسلام میں انقلاب کا نقطہ آغاز ہےجو امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔خدا وند منان ان کے ظہور کو اسی عصر میں قرار دے کر ساری دنیا والوں اور مسلمانوں کو اپنے لطف و کرم میں شامل حال کرئے۔

 2 یقیناً آپ نے اسلامی اصولوں کو ایران کی سرزمین پر آزما کر دنیا کو دکھا دیا کہ اسلام ایک ایسا جامع دین ہے جس میں ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اصول و ضوابط موجود ہیں۔آپ نے پورے عالم اسلام کو درس دیا کہ اسلام صرف چند اعمال و اذکار کے مجموعےکا نام نہیں بلکہ یہ ایک جامع نظام حیات ہے ۔جس پر عمل کرکے مسلمان دونوں جہاں میں سروخرو ہوسکتے ہیں۔ جسے آپ نے عملی طور پر ثابت بھی کردکھایا۔ساری دنیا کے آزادی طلب انسانوں کو خمینی بت شکن کی اس تحریک سے سبق سیکھنا چاہئےاورسارے مسلمانوں کو اس نظام سے درس لے کر اسلامی اصولوں کو اپنے  معاشرے میں عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئے۔
    
امام خمینی نے امریکہ اور اسرائیلی مشینری اور ان کے آلہ کاروں کو مخاطب کرکے فرمایا:"امریکہ برطانیہ سے بدتر اور برطانیہ  امریکہ سے بدتر ہے اور سوویت یونین  تو ان دونوں سے بھی بدتر ہے ۔ان میں سے ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں بدتر ہے اور ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں پلید تر بھی ہےلیکن اس کے باوجود ہمارا سارا سروکار ان خبیثوں اورامریکہ کےساتھ ہے ۔امریکہ کا صدر جان لے؛ اس مفہوم کو جان لےکہ وہ خود دنیا  کا منفورترین شخص ہےاور ہمارےنزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ہماری ساری مشکلات اسی امریکہ کی ایجاد کردہ ہیں ۔ہماری تمام تر مشکلات کا سبب یہی اسرائیل ہے اور اسرائیل خود امریکہ  کی دین ہے۔

3اسی خطاب میں آپ نے مسلمانوں کی  تمام مشکلات کا سبب امریکہ اور اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا:"دنیا جان لے کہ ایرانی قوم اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو جن جن مشکلات کا سامنا ہے وہ سب غیروں کی جانب سے ہے یعنی؛ یہ سب کچھ امریکہ،اسرائیل اور ان کے حواریوں کے  ہاتھوں ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے  کہ امت مسلمہ ان غیروں سے با لعموم اور امریکہ سے بالخصوص متنفر ہے۔امریکہ ہی اسرائیل اور ان کے ہمراہیوں کا  معاون  ہے ۔امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کو طاقت فراہم کرتا ہے تاکہ اس طاقت کے بل بوتے پر وہ عرب کے مسلمانوں کوبے گھر کرئے ۔

4آپ نے مسلمانوں کو اپنی تہذیب یاد دلاکر مغربی تہذیب پر خط بطلان کھینچا:"اسلام جدید ترین تہذیبوں کا حامل ہے اور اسلامی حکومت کسی حوالے سے بھی جدید تہذیب و تمدن کا مخالف نہیں۔اسلام خود پوری دنیا میں سب سے عظیم تمدن کا سنگ بنیاد رکھنے والا ہے۔پس جو بھی ملک اسلامی قوانین پر مکمل عمل پیرا ہوگا تب وہ  پوری دنیا کا پیشرفتہ ترین ملک ہوگا۔

5اسلام ہر قسم کے جدید ترین تہذیب و تمدن کی اجازت دیتاہے مگر یه کہ اس سے اخلاقی مفاسد پیدا هوتے ہوں اور عفت کے منافی ہو۔اسلام نےصرف ان چیزیوں کی مخالفت کی ہے جو ملت کے لئے نقصان دہ ہوں اور ان چیزوں کی حمایت کی ہے جو ملت کے مصالح پرمشتمل ہوں

6وہ چیزیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ تهذیب و تمدن ہے ۔درواقع وہ  تهذیب وتمدن نہیں بلکہ یہ صرف ایک وهم و گمان ہے ۔اگر اس پر غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تهذیب و تمدن نہیں بلکہ درندگی سےزیادہ نزدیک تر ہے کیونکہ وہ جتنے بھی جدیداسلحےبناتےہیں، وہ سب اپنے جیسے هی انسانوں انسانوں کے قتل عام کی خاطر ہیں۔حقیقی تہذیب و تمدن اورحقیقی آزادی دونوں اسلام کے ہاں ہیں۔

7ان کی (مغربیوں ) کی مادی ترقی کےہم مخالف نہیں اور نا هی ہمارا اس پرکوئی اعتراض ہے۔انھوں نے مادی دنیا میں تو بہت ترقی کی ہےلیکن ہمارا اعتراض صرف اس مورد میں ہے کہ ہم اپنے آداب وقوانین  اور روش زندگی کو بھی ان سے ہی لینا چاہتے ہیں۔جبکہ تهذیب  کے اعتبار سے وه هم سے بہت پیچھے ہیں۔ انسانوں کے خون بہانے والے آلات بنانے کے میدان میں وہ آگے ہیں۔ انھوں نے ایسے آلات بنائے ہیں جس سے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے اور پوری دنیا میں آگ لگائی جاتی ہے۔اگر اسی کا نام حقیقی تمدن ہے تو ساری دنیا والوں کو اس سے بیزار ہونا چاہئے۔وہ مکتب جو هرملک کی اصلاح اور اس کے تمدن اور حقیقی آزادی و استقلال کا ضامن ہے؛ وہ مکتب انسانیت ہے۔

 8آپ نے تمام مسلمانوں کو اسلام کے پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: میں امید رکھتا ہوں کہ موجودہ صدی کےسارے مسلمان،اپنی مشکلات اور ان کے اسباب کا خوب ادراک کریں گے اور ہر حوالے سے اپنے درمیان اتفاق و اتحاد قائم کریں گے اور اسلام پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے عظیم پرچم کے سائے تلے جمع ہوکر استعمار کے ہر قید و بند سے نجات حاصل کریں گے ۔اس صدی کے مسلمانوں نے اپنی جان فرسا مشکلات کا ادراک کیا ہے اور شیطان بزرگ (بڑے شیطان یعنی امریکہ)سے مختلف قسم کی مشکلات اور چاپلوسی اور قتل و غارت گری کے علاوہ کچھ نہیں پایا۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس میں قلبی لگاؤ، خدائے باعظمت اور اسلام پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے لئے کوئی راہ حل تلاش کیا جائے ۔

اس کے لیے لائحہ عمل یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کے دردمند حکمران اور عوام مل کر اپنی ثقافت اور حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے مغربی ممالک پر انحصار ختم کریں اور وحی الٰہی سے منسلک اسلامی تہذیب کو فروغ دیں۔ حقیقی اسلامی ثقافت کا خود ادراک کرنے کے بعد دوسروں تک بھی منتقل کریں۔

 9 آپ نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی مناسبت سے فرمایا:ہم پوری دنیا کےغیروں کے  تحت تسلط تمام مسلمانوں کی آزادی اور استقلال کی خاطر مکمل  ان کے ساتھ تعاون کا اعلان کرتے ہیں اور  صراحت کے ساتھ انھیں یہ بھی تلقین کرتے ہیں کہ یہ حق لینا تمہارا فریضہ ہے۔انھیں چاہیے کہ ان طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالیں۔میں نے کئی باریقین دہانی کرائی  ہے اور اب پھر آگاہ کرتا ہوں کہ اگر مشرق کے مظلومین اور افریقی اپنے قدموں پر کھڑے نہ  ہوئے تو وه  ہمیشہ مشکلات میں پھنسے رہیں گے۔

 10آج اگر مختلف طبقوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے؛ دینی علماء، اہل قلم،روشن فکر اور سرکردہ  افراد ہرجگہ سے اٹھ نہ کھڑے ہوں اورمسلمانوں کو بیدار کرکے ستم زده قوموں کی فریاد کو نہ پہنچیں تو ان کا ملک ہر لحاظ سے تباہی کے داہنے کی طرف بڑھتا چلا جائے گا اور مشرق سے تعلق رکھنے والےغارت گر ملحدین اور ان سے بھی بدتر مغربی ملحدین ان کی شہ رگ حیات کو هی کاٹ کر ان کی عزت نفس اور کرامت انسانی کو بھی پامال کر دیں گے۔

11 خدا ہم سب کو امام خمینی  کی سیرت کو اپناتے ہوئے مہدی برحق ،عزیز زہرااور ظلم و جو ر کو عدل و انصاف میں بدلے والی عظیم ہستی؛ امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کی توفیق عطا فرما آمین ثم آمین۔

فهرست منابع:
1.    عصر امام خمینی۔میر احمد رضا حاجتی،ص:242۔ناقل۔دو ماہہ آفتاب۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردبہشت،خرداد
2.    ایضاً۔ص:243۔ناقل ایضاً۔(ترجمہ:خود محقق )
3.    زندگی نامہ امام خمینی{از تولد تا رحلت۔دکتر حمید انصاری} ص:54۔
4.    ناشر:معاونت فرہنگی ستاد بزرگداشت حضرت امام خمینی ۔تاریخ نشر:1389۔(ترجمہ: ایضا)
5.    ایضاً۔
6.    صحیفہ نور۔جلد چہارم۔ص:221۔ناقل:دو ماہہ آفاق:ص:98۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردوبہشت،خرداد، (ترجمہ:ایضا )
7.    صحیفہ نور ۔جلد پنجم۔ص:263۔ناقل :ایضاً  ۔(ترجمہ: ایضا )
8.    صحیفہ نور۔جلدہشتم۔ص:309۔ناقل:ایضاً۔(ترجمہ: ایضا )
9.    صحیفہ نور۔جلد:نہم۔ص:82۔ناقل ایضاً ۔(ترجمہ: ایضا )
10.    دوماہہ آفاق۔ص:3۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردوبہشت،خرداد۔(ترجمہ:ایضا )11.    صحیفہ امام۔جلد 19۔ص:344ناقل:مجلہ آفاق۔ص:44۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردوبہشت،خرداد۔(ترجمہ:ایضا)

 

تحریر۔۔۔۔سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) ۱۱ فروری کو ملّت ایران "یوم اللہ "کے نام سے بناتی ہے اور اس روز ایران بھر میں اسلامی انقلاب کی ترقّی اور ارتقاء کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں،نیز اس روز اسلامی انقلاب کے دشمنوں سے اور بے دین طاقتوں سےاظہارِ بیزاری اوراپنی دینی قیادت سے اظہارِ محبّت کیاجاتاہے۔

۱۱ فروری کو پورےایران میں بڑے پیمانے پر جلسے جلوس اور ریلیاں نکلتی ہیں ،جن میں شاید ہی کوئی ایرانی حصّہ نہ لیتاہو۔چنانچہ ہرسال فرزندانِ توحید کی یہ عظیم الشّان ریلیاں ایک طرف تو استعماری طاقتوں کی کمر توڑ دیتی ہیں اور دوسری طرف اسلامی حکومت کے حق میں ریفرنڈم ثابت ہوتی یں۔

یوں تو اسلامی انقلاب کے بعد ملتِ ایران کا ہر اجتماع باطل قوتوں پر خوف و ہراس طاری کردیتاہے لیکن طاغوتی طاقوتوں پر جو ہیبت "یوم اللہ" کی طاری ہوتی ہے وہ واقعتاً قابلِ دید اور قابلِ مشاہدہ ہے۔

اس یوم کی ہیبت سے خوفزدہ میڈیا اس روز کواس لئے اصلاً کوریج نہیں دیتاکہ کہیں ایران میں طلوع کر نےوالا اسلامی انقلاب دیگر ممالک میں "صادر "نہ ہوجائے۔
چنانچہ "صدورِ انقلاب" کے حوالے سےغیراسلامی طاقتوں اور ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ گروپوں کی اطلاع کے لئے اسلامی انقلاب کے رہنما سید علی خامنہ ای حفظہ تعالی اپنے ایک خطاب میں نےفرما چکے ہیں کہ ہمیں دشمن کہتے ہیں کہ انقلاب کو صادر مت کرو۔ہم پوچھتے ہیں کہ کیا انقلاب کوئی صادر کرنے والی شئے ہے؟انقلاب تو پھولوں کی خوشبو کی مانند ہےجو خود بخود پھیل جاتی ہے۔انقلاب تو موسم بہار میں چلنے والی بادِنسیم کی مانند ہےکہ جو خود بخود بدبودار اور گھٹن ماحول کو خوشبودار اور معطر کر دیتی ہے۔انقلاب کو صادر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی لہر خودبخود پھیل جاتی ہے۔[1]

جی ہاں! انقلاب کو صادر کرنے کی ضرورت نہیں، انقلاب تو موسم بہار میں چلنے والی بادِنسیم کی مانند ہےکہ جو خود بخود بدبودار اور گھٹن ماحول کو خوشبودار اور معطر کر دیتی ہے۔

کیا آج ہم نہیں دیکھ رہے کہ استعماری طاقتوں کے پروپیگنڈے کے باوجود،امریکی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے مفتیوں اور مولویوں کے فتووں کے باوجود گزشتہ ۳۳ برس سے یہ انقلاب مسلسل ترقی،استقلال،سربلندی اور عظمت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔آج علم و جتہاد سے لے کر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان تک ہر طرف دور دور تک اس انقلاب کا کوئی حریف نہیں،کوئی ثانی نہیں اور کو ئی مدّمقابل نہیں۔

آج عراق، تونس،مصر ،لیبیا،فلسطین،کشمیر،افغانستان،یمن،بحرین اور سعودی عرب میں اسلامی انقلاب کی موجیں عالمِ بشریّت کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اب تو اپنی آنکھوں سے تعصّب کے پردے ہٹادو اور اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ حقیقی فتح صرف اور صرف حق کی ہوتی ہے۔

ان ۳۳سالوں میں حضرت امام خمینی ؒ کے خلاف دئے گئے فتوے "آسمان پر تھوکا "کے مصداق ثابت ہوئے،اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب کہنے کی مذموم سازشیں بے نقاب ہوگئیں۔ نیزصدام اور قذافی سمیت ظالموں،بادشاہوں،ڈکٹیٹروں اور آمروں کی پشت پناہی کرنے والے "ناصبی و امریکی"صہیونی و خارجی"دنیا بھر میں زلیل و رسوا ہوئے۔

یہ اسلامی انقلاب کی بادِ نسیم کاہی ثمر ہے کہ یمن کی محکوم عوام نے اپنے وجود سے بادشاہت کے خوف کا چوغہ اتار پھینکا،تونس کی مظلوم ملت نے ظالم آمریت کی آنکھیں نکال دیں،بحرین کے تہی دست لوگ اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے گلی کوچوں میں نکل آئے،مصر کے مظلوموں نے یزیدِ وقت کاجنازہ نکادیا،لیبیاکے بہادروں نے آمریت کابھرکس بنادیا،حماس نے ناصبیت کے منہ پر طمانچے مارے،حزب اللہ نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے،عراقیوں نے امریکیوں کے نجس وجود کو اپنی مقدس سر زمین سے باہر دھکیلا اور ایرانیوں نے امریکی جاسوسی ٹیکنالوجی کا توڑ پیش کرکے کر وائٹ ہاوس کی چولیں ہلادیں۔

یہ سب کچھ ایسے ہی ہوا جیسے آج سے چودہ سو سال پہلے دنیاکے بڑے بڑے دانش مندوں،کاہنوں اور نجومیوں کو اس بات کی خبر نہ تھی کہ مکّے کی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان انگڑائیاں لینے والا دین اسلام اپنے سینے میں ایسی آتش انقلاب کو دبائے ہوئے ہے کہ جس کے بھڑکتے ہی ذات پات جیسی زنجیریں،قیصر و کسری جیسی بادشاہتیں،روم و ایران جیسی سلطنتیں، عربی اور عجمی جیسی دیواریں خاکستر ہوجائیں گی۔

وہ اسی انتظار میں تھے کہ جیسے ہی پیغمر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا نتقال ہوگا اسی وقت اسلام بھی ختم ہوجائیگا لیکن ان کےدیکھتے ہی دیکھتے دین اسلام مکّے کے افق سے ابھرا اور مدینے کی وادی پر چمکتا ہوا آفاق عالم میں بادِ نسیم کی طرح گھل مِل گیا۔مکّے میں بعثت پیغمبرِ اسلام کے بعد آج تلک ہر چشم بینا اورہر مرد دانا کے لئے ہرصبح ،انقلاب کی بادِ نسیم لے کر طلوع ہوتی ہے۔ایک ایسے انقلاب کی خوشبو جووقت کے سینے میں گلاب کی طرح مہک رہا ہے۔

جونادان بھی اس انقلاب کے سامنے سینہ سپر ہونے کی کوشش کرتے ہیں نہیں یہ انقلاب خوشبو کے جھونکوں طرح خاطر میں نہ لاتے ہوئےنسل در نسل اور صدی بہ صدی آگے ہی بڑھتا چلاجارہاہے۔

دین اسلام نام ہے ایک ایسی خوشبوکا کہ جس نے اقوام عالم کے درمیان حائل ذات پات اور ملک و نسب کی خلیج کو پاٹ دیا،جس نے عربی اور عجمی کے درمیان مشرق و مغرب کی طرح پھیلے ہوئے فاصلے کو مٹادیا،جس نے عزّت کی میزان،برتری کے معیار اور فضیلت کے ترازو کو تبدیل کردیا۔

بعثت رسول اکرم [ص]سے لے کر آج تک اس دین کی آفاقی و انقلابی تعلیمات نے اطراف عالم میں اقوام عالم کے مفکرین،ادیان،تحریکوں اور معاشروں پر اثر انداز ہوکر کئی مرتبہ مظلوم و محکوم انسانوں کو جبر و استبداد اور ظلم و بربریّت کی زنجیروں سے نجات دلائی ہے۔

ہاں۔۔۔ مگر چشم فلک نے برسوں تک وہ مناظر بھی دیکھے ہیں جب اسلام کی انقلابی تعلیمات کو درہم و دینار اور طاقت و تلوار کے ذریعے دبا دیا گیاتھا۔وہی ظالم اور جابر حکمران جن کے ظلم و جبر سے اسلام نے اقوام عالم کو نجات دلائی تھی اب دنیا ئےاسلام پر حکومت کر رہے تھے۔اموی شہنشاہ،عباسی حکمران اور مغل و لودھی بادشاہ بیت المال سے شراب بھی پیتے تھے،رنگ رلیاں بھی بناتے تھے اور امیرالمومنین بھی کہلاتے تھے۔

یہ بادشاہ خود تو محلّات میں رہتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ جھونپڑیوں میں زندگی گزارو کہ یہ اسلام کی تعلیم ہے،یہ خود توعیاشیاں کرتے تھے اور لوگوں سے کہتے تھے کہ تم بکریاں چراتے رہو کہ یہ انبیاء کا پیشہ ہے ۔

عرصہ دراز تک دنیا ئےاسلام بادشاہت و ملوکیّت کےبوجھ تلے دبی رہی،تقریباً تیرہ سو برس تک دین اسلام بادشاہت و ملوکیّت کے پنجوں میں سسکتارہا،تیرہ سو سال کے بعدسرزمین ایران سے بادشاہت و ملوکیّت کے خلاف ایک ایسے شخص نے قیام کیاجس کی رگوں میں پیغمبر اسلام [ص]کا خون تھا اور جس کے ہاتھوں میں پیغمبر اسلام [ص]کی کتاب قرآن تھی۔

اس مرد مجاہد نے ایک ایسے دور میں قیام کیا جب پوری دنیا میں ملت اسلامیہ غلامی کی عادی ہو چکی تھی اور ایران کا یہ حال تھا کہ ایران مسلسل تیل بیچ رہاتھااورزرہ پوش گاڑیاں،ٹرک،اینٹی کرافٹ توپیں اور بھاری اسلحہ خرید رہاتھا،یہاں تک کہ ۱۹۷۶سے ۱۹۷۷ کے دوران امریکہ سے اسلحے کی خریداری کا بل چار ارب ڈالر سےبڑھ کربارہ ارب سے بھی زیادہ ہوگیاتھا۔

دوسری طرف ملک میں ہر روز نت نئے جشن اور میلے منعقد کئے جاتے تھے۔مثلاً۲۶ اکتوبر کو شاہ کی سالگرہ ،۲۶جنوری کو سفید انقلاب کی سالگرہ ،۶دسمبر کو آزادی خواتین کی سالگرہ اس کے علاوہ جشن تاجپوشی،شہنشاہیت کا ۲۵ سوسالہ جشن وغیرہ وغیرہ۔۔۔صرف شہنشاہیت کے ۲۵ سوسالہ جشن کے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسے دنیاکی عظیم ترین نمائش کہاگیاتھا۔

یہ سب کچھ کرنے کے باوجود"شاہ" کے لئے مریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری تھا کہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ کرتا چلاجائے،ایجنسیوں اور فوج کے کارندے اپنے وسیع اختیارات کے باعث کسی کو سراٹھانے کی مہلت نہیں دیتے تھے ،جوکوئی بھی شاہ پر یا شاہ کی پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا اسے ملک دشمن ،غدار اور خائن قرار دےدیاجاتا تھا۔

جیلیں قیدیوں سے چھلک رہی تھیں،ٹارچر سیل خون اور ہڈیوں سے لتھڑ گئے تھے،لوگوں کی ایک بڑی تعداد خفیہ ایجنسیوں نے اغواء کر رکھی تھی ،۱۹۷۸ تک ملکی معیشت کا یہ حال ہوگیاتھاکہ شاہ اور اس کی بیوروکریسی پرائیویٹ بنکوں کے ۵۰ فی صد حصص کی مالک تھی،ایران کی غیرملکی تجارت صرف ۶۰ افراد کے ہاتھ میں آگئی تھی،کمپنیوں کے زیادہ تر شئیرز صرف ۵۰ خاندانوں کے پاس تھے،ہرروز شاہی خاندان کے افراد،شاہی محل کے ملازمین اور کارندوں کے لئےجنیوا میں سویس بینک کے اکاونٹ نمبر۲۱۴۸۹۵-۲۰ میں پہلوی فاونڈیشن کے اکاونٹ میں کئی ملین ڈالرڈالے جاتے تھے۔

ایرانی یونیورسٹیاں دن بدن بے روزگار وں کو جنم دے رہی تھیں،ملک کے طول و عرض میں غیرملکی سرمایہ کاری خصوصاً امریکی سرمایہ کاری کا جال بچھاہواتھاجبکہ ایرانی نوجوان اپنے ہی ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ٹھوکریں کھاتے پھررہے تھے،ایران کی یہ نام نہاد ترقی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ایران جو کبھی گہیوں برآمد کرتا تھا اس نے گہیوں بھی در آمد کرنی شروع کر دی تھی۔

۱۹۶۰ء میں جب ایران کی حکومت نے اسرائیل کو سرکاری طور پرتسلیم کرلیا تواسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے ٹریننگ اور تربیّت حاصل کرنے کے لئے ایرانی فوج اور ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک کےکئی اہم عہدیداران اسرائیل گئے اور اسی طرح موساد کے سینکڑوں اسرائیلی عہدیدار ایران آکر بھی ایرانی فوج اور خفیہ اداروں کو ٹریننگ دینے میں مصروف رہے۔

اس ٹریننگ کے نتیجے میں ساواک نے اپنے ہم وطنوں پر ایسا شکنجہ کسا کہ یونیورسٹیوں سے میمنے،بکریاں اور طوطیاں نکلنے لگیں،کسی میں دم نہ تھا کہ وہ ساواک،فوج اورشاہ یا اس کی پالیسیوں کے خلاف زبان کھولے،پورے ملک میں اسرائیلی اور امریکی مفادات کے تحفظ اور فروغ کا عمل زوروشور سے جاری تھا۔

ملک میں حکومتی وحشت و برریت کااندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اسی دور میں حکومت نے مچھلیوں کاشکاربھی غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کردیااورغیرملکی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے جاسوسی انتظامات کے ساتھ ساحل پر ایک ساحلی گارڈ بنائی جس کا نام "گارد ساحلی شیلات" تھا۔اس ساحلی گارڈ کو یہ اجازت تھی کہ وہ غیر ملکی کمپنیوں کے علاوہ شکار کے لئے آنے والوں کو گولی کا نشانہ بنادے۔چنانچہ ایران کے ساحلوں پہ سینکڑوں غریب ایرانی اپنے ہی ملک میں اپنی ہی گارڈ کے ہاتھوں ،مچھلی شکار کرنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے تھے۔

یادرہے کہ یہ اس دور کی بات ہے جب ایک طرف تو ایرانیوں کی غربت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی جان لڑا کر مچھلی شکار کرنے کی کوشش کرتے تھے جبکہ دوسری طرف ایران اور اسرائیل کے درمیان تجارتی لین دین چالیس کروڑ ڈالر سے بھی تجاوز کرچکا تھا۔

کچھ عرصے بعد ہی طاقت کے نشے میں دھت ایرانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنے اختیارات کی وسعت کے باعث تعلیمی اداروں خصوصاً دینی مدارس کا رخ کر لیا۔انہوں نےمارچ ۱۹۶۳ ء میں قم کے مدرسہ فیضیہ اور تبریز کے مدرسہ طالبیہ پر چڑھائی کی اورسینکڑوں نہتّے طالبعلوں پر گولی چلاکر انہیں خاک و خون میں غلطاں کردیا۔

فوج کا تخمینہ اور خفیہ ایجنسیوں کا گمان یہ تھاکہ انہوں نے عوام کو میمنے اور طوطیاں بنا رکھا ہے لہذادوسرے بہت سارے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی چھپ جائے گالیکن ان کا یہ گمان اس وقت غلط ثابت ہو گیا جب ایرانی قوم اس خون کوعلم بنا کر کوچہ و بازار میں نکل آئی،مظاہروں نے زور پکڑا اورساواک کے مظالم کی داستانیں ایرانی بارڈرز کو پھلانگ گئیں اور پھر ۱۰ جولائی ۱۹۶۳ء کو "مصر"کی الازہر یونیورسٹی کے وائس چانسلرمحمود شلتوت نے اس ظلم کے خلاف پمفلٹ چھاپا۔

جامعۃ الازہر کے بعدروزنامہ "الاہرام" نے ۶ اور ۷جون ۱۹۶۳ء کے شمارے میں اس پر تبصرہ چھاپا،ہفتہ وار جریدے "ابزرواتورعرب"نے ۱۷جون ۱۹۶۳ء کے شمارے میں"حیلہ عظیم " کے عنوان سے اس حادثے کے بارے میں مقالہ چھاپا اور پھر مسلسل"جامعہ اسلامی لبنان"نے ،کویتی جوانوں نے،جرمن میں مقیم ایرانی جوانوں اور کئی دوسری تنظیموں نے پمفلٹ،مقالے اور کالم چھاپنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی شخصیتوں کو ٹیلیگرام بھیجے اور یہ تحریک اس جوش اور


ولولے کے ساتھ آگے بڑھی کہ ایرانیوں کے خون کو چوسنے والی فوجی جونکیں اور ان کی لاشوں پر رقص کرنے والےخفیہ اداروں کے بھیڑیے ایک ساتھ تاریخ کے قبرستان میں دفن ہوگئے۔

۔۔۔ اور ۔۔۔پھر وہ دن بھی آپہنچا کہ جب ایک جرمن روزنامے "اشپی گل" کے خبرنگار نے تہران ائیر ہورٹ پر ملک چھوڑکر بھاگتی ہوئی ملکہ فرح سے یہ سوال کیا کہ کیاآپ کو یہ امید تھی کہ آپ سے عوام اس قدر متنفر ہوجائے گی ؟۔۔۔
۱۱فروری ۱۹۷۹ کو شہنشاہیت کاگہن زدہ سورج ایران کے افق سے ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا اور شہیدوں کے مقدس لہو میں تر بتر"اسلامی انقلاب" درخشندہ مہتاب کی طرح دمکنے لگا۔

ایران میں آنے والے اس اسلامی انقلاب سے بین الاقوامی برادری بڑے پیمانے پرمتاثرہوئی اور مجموعی طور پر دنیا میں اس انقلاب کےتین طرح کےثمرات دیکھنے میں آئے۔

۱۔فوری طور پر حاصل ہونے والےثمرات
۲۔ایسےثمرات جو ابھی تک مرتب ہو رہے ہیں اور ان کا سلسلہ چلتا رہے گا
۳۔ایسےثمرات جو جلد یا بدیر ضرور سامنے آئیں گے۔


۱۔فوری طور پر مرتب ہونے والے ثمرات

۱لف۔اسلام کے کھوئے ہوئے تشخص کی بحالی۔

ایک طویل مدّت تک بادشاہت و ملوکیّت کے زیر تسلط رہنے کے باعث اسلامی ممالک میں دیگر غیراسلامی ممالک کی طرح فسق و فجور اور بے راہروی کا دوردورہ ہوچکاتھا،مسلمان سلاطین غیر مسلم بادشاہوں کی طرح عیاشیاں کرتے تھے اور دین کو اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے چلے آرہے تھے۔اسلامی انقلاب کی کامیابی نے بادشاہت و ملوکیّت کو اسلام سے جدا کیا اور اسلامی حکومت کو سیرت النّبی{ص}کے احیاء اور اجراء کا ذریعہ بنا دیاجس سے لوگوں کے سامنے اسلام کی حقیقی شکل ایک مرتبہ پھر نمودار ہوئی۔

ب۔اسلامی وحدت اور استعمار شناسی کا شعور

اسلامی انقلاب سے پہلے اسلامی دنیا مختلف گروہوں اور بلاکوںمیں بٹی ہوئی تھی،علاقائی تعصبات کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت اور فرقہ واریّت عروج پر تھی۔ بادشاہ صاحبان اپنی مکروہات کو چھپانے کے لئے درباروں میں علمی مناظروں کے نام پر شیعہ ،سنّی علماء کو اکٹھا کر کےفرقہ وارانہ مباحث کو از سر نو زندہ کرتے تھے اور پرانے اختلافات کو پھر سے بھڑکاتے تھے چنانچہ لوگ اپنے دینی جذبے کے باعث فرقہ وارانہ جھگڑوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور یوں یہ بغض و حسد نسل در نسل آگے چلتا رہتا ،لوگ ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑے رکھتے تھے اور حکمران رنگ رلیاںمناتے تھے۔

اسی طرح استعماری طاقتیں بھی اپنے مفادات کے حصول کے لئےہمفرے اور لارنس آف عریبیہ کی طرح کےاپنے جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی تھیں ۔اس طرح کے جاسوس مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر فسادات اور فرقہ واریّت کو ہوا دیتے تھے۔

ایران کے اسلامی انقلاب نے شیعہ اور سنّی مسلمانوں کو صدر اسلام کی طرح بھائی بھائی بننے کا شعور عطاکیا۔ایران کے شیعہ و سنّی علماء نے کے اتحاد اور اتفاق سے تمام دنیاکے مسلمانوں نے متفق اور متحد ہونے کا شعور لیا ،ملت ایران نے عملی طور پر متحد ہو کرپورے عالم اسلام کو یہ باور کرایاہے کہ مسلمانوں کی اصل طاقت اتحاد میں مضمرہے ۔ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو شخص بھی فرقہ وارانہ مسائل کو اچھالنے کی کوشش کرتا ہے اسے شیعہ یا سنّی سمجھنے کے بجائے استعمار کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ استعماری آلہ کار اور امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یوم القدس سے لے کرمسئلہ فلسطین،مسئلہ کشمیر اور عراق و افغانستان سمیت تام تر اسلامی مسائل کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف تمام تر تعصبات سے بالاتر ہے۔

اسی طرح اسلامی انقلاب نے دنیائے اسلام کے معدنی وسائل اور آبی ذخائرکو لوٹتی ہوئی استعماری طاقتوں کے خلاف بھی آوازبلند کی ہے اور بین الاقوامی اسلامی برادری کو مل کر استعماری سازشوں کا مقابلہ کرنے کا شعور بھی دیاہے۔ جس کے بعد اسلامی منڈی ،اسلامی بینک اور مشترکہ اسلامی آرمی جیسے کئی عظیم منصوبے آج بھی اسلامی دنیا میں زیر بحث ہیں۔

ج۔دینی و ملّی استقلال و خود مختاری

اسلامی انقلاب نے ایرانی عوام کو یہ شعور دیا کہ کہ انہوں نے اپنی گردنوں سے استعمار کی غلامی کا طوق اتار پھینکا اور اپنے گلی کوچوں سے غیر ملکی ایجنٹوں کو مار بھگایا۔جس کے بعدایرانی سائنسدان،انجینئر،پروفیسر ،ڈاکٹر اور علماء ۔۔۔سب نے ایرانیوں سے احساس کمتری کو ختم کرنے اور ملت ایران کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔۔

آج کے ایران میں اور ماضی کے ایران میں یہی فرق ہے کہ آج کا ایرانی احساس کمتری سے نکلا ہوا ہے ،آج ایران کے اعلی حکام کے نزدیک ان کی اپنی زبان "فارسی" میں گفتگو کرنا ان کے لئے فخر کا باعث ہے،انہیں اپناتعارف کرانے کے لئے انگریزی اصطلاحات کی بیساکھیوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا،آج ان کی یونیورسٹیوں میں انگریزی کو ترقّی کامعیار نہیں سمجھاجاتا اوران کے پالیسی ساز اداروں میں غیرملکی قرضوں اور بیرونی امداد پر تکیہ نہیں کیا جاتا۔

جب تک اسلامی انقلاب کا خورشید ایرانی افق نہیں چمکا تھا ایرانی احساس کمتری کے باعث سر جھکا کر جی رہے تھے اور جب اسلامی انقلاب نے ایرانی معاشرے کو اپنی آغوش میں لے لیا تو پھر انہوں نے وہ سربلندی حاصل کی کہ قیامت تک پورا عالم بشریّت ان پرفخر کرتا رہے گا۔

اسلامی انقلاب نے سب سے پہلے ایرانی قوم کو استقلال اور خود مختاری کا شعور دیا اور پھر ملت ایران سے اقوام عالم نے یہ درس لیا جس کے باعث پوری دنیا میں استعماری طاقتوں کے مفادات کو خطرہ پڑ گیا اور انہوں نے اسلامی انقلاب کےثمراتکو محدود کرنے کے لئے دنیا پھر میں اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو پروپیگنڈے کے لئے فعال کیا جنہوں نے کبھی اس انقلاب کو" مُلّا انقلاب " کبھی "شیعہ انقلاب "اور کبھی ایرانی انقلاب کہہ کر اس کے خلاف مزاحمت شروع کی لیکن استعمار اور استعماری ایجنٹوں کو جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ علم وشعور اور معرفت و بیداری کو جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا ۔

چنانچہ ایک طرف تو صدام کو اسلامی انقلاب کے خلاف استعما ل کیاگیا جس کے باعث۸سال تک صدامی فوجی ،اسلامی انقلابیوں کے خون میں ہاتھ رنگتے رہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں اسلامی انقلاب کے پیغام اور ثمرات کو منتقل کرنے والے مفکرین اور دانشمندوں کو شہید اور اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

ان شہید کئے جانے والوں میں عراق سے باقرالصدر،لبنان سےموسی صدراور پاکستان سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور علامہ عارف حسین الحسینی کے نام سرِ فہرست ہیں اوراسی طرح حج کے موقعہ پر سینکڑوں حاجیوں کو گولی ماری گئی۔

تاہم آج یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فوری طور پر ایران میں اسلامی انقلاب کےثمرات کو محدودکرنے کئے استعمار نے جو خون ناحق بہایا تھا وہی خون ،اسلامی انقلاب کی ترویج و اشاعت کا بہتریں وسیلہ بنااور دینی و ملّی استقلال و خود مختاری کی جس لہر کو استعمار ایران کے اندر ہی دبا دینا چاہتا تھا آج تیونس،ترکی اور اردن سمیت پوری دنیا میں اس کے جھٹکے محسوس کئے جارہے ہیں۔

 

 

تحریر۔۔۔۔۔۔نذرحافی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نے انقلاب اسلامی ایران کی 37ویں سالگرہ کے موقع پرمرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے تہنیتی پیغام میں کہا کہ صدی کے عظیم الشان انقلاب کی کامیابی کے سینتیس برس مکمل ہونے پرملت اسلامیہ کو ہدیہ تبریک پیش کرتاہوں،امام خمینی ؒکی قیادت میں رونماہونے والااسلامی انقلاب آج سرحدوں کی رکاوٹوں کو توڑتا ہوانیل تا کاشغرتک پھیل چکا ہے،اس انقلاب نے راستے میں حائل تمام تر مصائب ومشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے، استعماری قوتوں کی سنگین سازشیں ، صدام ملعون کی مسلط کردہ جنگ،داخلی منافقین کے حملوں کے باوجود یہ انقلاب روز بروز توانا صورت میں پروان چڑھ رہا ہے،امام خمینی ؒکے بوئے ہوئے بیج کی آبیاری لاکھوں شہداءنے اپنے پاکیزہ لہو سے کی،اس انقلاب کو ولی امرمسلمین جہاں امام خامنہ ای نے اسی طرح محفوظ رکھا جیسا امام خمینی ؒ چھوڑ کر گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور پاکستان نہ صرف سرحدی حد تک ملحق ہے بلکہ نظریاتی طور پر مربوط اور ملحق ہے۔ پاکستان ایران کا نظریاتی اور اسٹریٹیجک پارٹنر ہے جو امریکہ اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کے لیے قابل برداشت نہیں،پاکستان کو ایران کے ساتھ توانائی کے شعبے میں مشترکہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، ایران پاکستان کو بجلی اور گیس کے بحران سے باہر نکلنے میں باآسانی اورسستی مدد فراہم کرسکتا ہے، پاکستان کی سابقہ خارجہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ امریکہ کا ہے۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی میں تبدیلی کر کے واضح پالیسی بنانی چاہیئے اور سات سمندر پار ممالک کو گلے سے لگانے کی بجائے ان اسلامی ممالک کے ساتھ روابط بڑھانا چاہیئے جو پاکستان کے حقیقی دوست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے دنیا کے سامنے واضح کر دیا کہ امریکہ سے مدمقابل رہ کر ہی ملت اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی اپنے پاوں پر کھڑا ہو کر جامع پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے اور پاکستان کے حقیقی دوست جیسے ایران، چین، افغانستان اور دیگر اسلامی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہیئے۔

وحدت نیوز (لاڑکانہ) نظام ولایت اور انقلاب اسلامی نور کی تجلی تھی ، جس نے طاغوتی نظام کی تاریکی میں غرق دنیا میں نور ولایت کی شمع روشن کی۔ نظام ولایت سے وابستہ معاشرے نور ہدایت کے باعث فلاح اور کامیابی کا سفر طے کرتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما علامہ مقصودعلی ڈومکی نے اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے زیراہتمام لاڑکانہ میں ولایت فقیہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، سیمینار سے اصغریہ آرگنائزیشن کے استاد اخلاق احمد اخلاق، دانشور سید ساجد شاہ کاظمی اور اے او پی کے مرکزی صدر سید مشتاق شاہ نے بھی خطاب کیا۔

علامہ ڈومکی نے اپنے خطاب میں کہاکہ امام خمینی ؒ اور حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای نے کبھی بھی الٰہی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا، سامراج دشمنی، مظلوموں کی حمایت اور ظالم کی مخالفت ، انقلاب اسلامی کے بنیادی اصول ہیں۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے ثابت ہوا کہ عصر حاضر میں بھی اہل ایمان کی صبر و استقامت بالآخر فتح و نصرت کی نوید ہے۔ انقلاب اسلامی نے عالمی سامراج اور شیطانی قوتوں آمریکہ اور اسرائیل کے خلاف جس انقلابی مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا ہے، وہ اب عالمی انقلابی تحریک میں بدل رہی ہے ۔ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے پر ایرانی عوام اورقائد انقلاب اسلامی کومبارکباد دیتے ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی پابندیاں انقلاب اسلامی اور اس کے رہبر کو جھکانے میں ناکام رہیں۔انقلابی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے تاریخی کامیابی پر انقلاب اسلامی کے رہنماء مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

وحدت نیوز (نیلم) فکر حسینی ، راہ امام خمینی پر عمل پیرا مجلس وحدت کے کارکنان ہر ظالم سے ٹکرائیں گے، انقلاب امام مہدی ؑ کے انتظار کرنے والے کسی بھی طوفان سے نہیں گھبراتے ، گلگت بلتستان میں مجلس وحدت عوام کی امیدوں پر پورا اترے گی، خیمے کا نشان کامیابی و کامرانی کا نشان ہوگا، 8جون کو عوام مجلس وحدت پر اعتماد کر کے چوروں ،لٹیروں اور ظالموں کو گھر بھجوائیں گے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی نے نیلم میں عہدیداران سے خصوصی خطاب کے دوران کیا ، انہوں نے کہا کہ امام خمینی علیہ الرحمہ کی شخصیت عہدساز شخصیت ، دنیا کا نقشہ تبدیل کردینے والی شخصیت ، عالم اسلام کو نہی جہت دینے والی شخصیت تھی،4جون برسی امام خمینی کا دن ، وہ ہستی کے جس نے عالم اسلام کو درس حریت دیا ، ظالموں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا حوصلہ دیا ، اور بتا دیا دنیا کی سپر پاورز اور ہوتی ہیں ، وہ لوگوں کی بنائی ہوئی ہوتی ہیں ہمارے لیئے سوپر پاور خدا کی ذات ہے، ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ،وہ چاہے کر سکتا ہے ، اور اس پر توکل کر کے امام خمینی جب نکلے جو شاہ جیسوں کو ہمت نہیں ہوئی کہ اس جگہ رک سکیں جہاں خمینی بت شکن آ رہا ہے، شاہ کے ساتھ شاہ کے وفادار زیادہ تھے ، امریکہ و اسرائیل مضبوطی سے حمایت میں تھے ، لیکن خمینی بزرگوار نے امریکہ و اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔

علامہ تصور جوادی نے کہا کہ آج جب برما کے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، تو عالم اسلام کی خاموشی دیکھ کر دل دہل جاتا ہے، کہ کیا ان کے سینے میں دل نہیں ، کیا یہ انہیں مسلمان نہیں سمجھتے ؟ برما میں نہتے بچوں کو ذبح کیا جارہا ہے، اسلام کے ٹھیکیدار ملک اب بھی خاموش ہیں ، آل سعود کے اقتدار کے محافظ بننے والے اب کیوں کوئی اتحاد تشکیل نہیں دیتے ، اب کیوں کسی اتحاد کا وجود نہیں بنتا ، جہاں اپنے مسلمان بھائیوں کا خون خرابا کیا جا سکتا ہے، دیگر ملکوں سے مدد لی جا سکتی ہے ، مگر جب نہتے بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہو، جب کسی اور ملک میں ظلم کی المناک داستانیں رقم کی جارہی ہوں ، بات جب فلسطین کی ، بات جب کشمیر کی ہو ، حتیٰ آنکھوں کے سامنے برما کی حکومت انسانیت کی دھجیاں بکھیر رہی ہو تو اس وقت کیوں کسی ملک آپس میں ملکر مسلمانوں کا قتل عام بند نہیں کرواتے ، استعمار و طاغوت کے ایجنٹ بننے کے لیئے تو ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں ، مگر خوف خدا دل میں نہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ، انہوں نے مذید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ہمہ وقت مظلوموں کے لیئے آواز بلند کرتی رہے گی، گلگت بلتستان کے انتخابی عمل میں اترنے مقصد بھی مظلوموں کی آواز بننا ہے، اقتدار ہر گز مقصد نہیں مقصد عوام کو ان کے بنیادی حقوق دلانا ہے،کسی بھی ظالم یا اس حمایتی و سہولت کار کے لیئے میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے، عوام انشاء اللہ 8جون کو ظالموں کوان کا انجام دیں گے اور مظلوموں کے حامیوں کو فتح نصیب ہو گی۔

Page 2 of 6

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree