وحدت نیوز(آرٹیکل) برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارلحکومت تسلیم کرنے اور تل ابیب سے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان کو افسوسناک اور عاجلانہ قرار دیا ہے۔

مجھے دنیا کے ہر ملک کی جانب سے ٹرمپ کے اعلان کی مذمت پر جتنی خوشی ہے اتنا ہی صدمہ تھریسا مے کی جانب سے اظہارِ مذمت پر بھی ہے۔ آج سے ٹھیک سو برس پہلے دو نومبر 1917 ئکو برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈ بالفور نے برطانوی یہودیوں کے رہنما اور صیہونی نظریے کے مرکزی ستون لارڈ والٹر روتھ چائلڈ کو سڑسٹھ صفحے کا وہ تاریخی خط بھیجا جس میں تسلیم کیا گیا کہ یہودیوں کو فلسطین واپسی اور وہاں اپنی مملکت بنانے کا حق ہے۔ جس وقت یہ خط لکھا گیا فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ گویا کسی اور کے علاقے کو (عثمانی) کسی اور نے (برطانیہ) کسی اور کو (یہودی) الاٹ کردیا۔

اس اعلان کے ٹھیک چالیس روز بعد برطانوی جنرل سر ایڈمنڈ ایلن بی بیت المقدس میں فاتحانہ داخل ہوا اور وزیرِ اعظم ڈیوڈ لائڈ جارج نے کہا ’’دنیا کے مشہور ترین شہر پر قبضے کے بعد مسیحی دنیا نے مقدس مقامات کو دوبارہ حاصل کر لیا ہے‘‘۔ امریکی اخبار نیویارک ہیرلڈ کی سرخی تھی ’’برطانیہ نے چھ سو تہتر برس کے (مسلم) اقتدار کے بعد یروشلم کو آزاد کرا لیا۔ مسیحی دنیا میں خوشی کی زبردست لہر دوڑ گئی‘‘۔

اگلے تیس برس تک فلسطین برطانیہ کے قبضے میں رہا اور یہودی یورپ سے آ آ کر یہاں آباد ہوتے رہے۔ یہ وہ تحفہ تھا جو برطانیہ نے عربوں کو سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف برطانیہ کی حمایت میں کھڑے ہونے پر دیا۔ جب یہودیوں کی تعداد اتنی ہوگئی کہ وہ ایک چھوٹی سی مملکت قائم کرنے کے قابل ہو سکیں تو برطانوی انٹیلی جینس کی ناک کے نیچے یہودی انتہا پسند تنطیموں ہگانہ اور سٹیرن گینگ نے فلسطینیوں کو ان کی اجدادی املاک سے کھدیڑنے کا کام شروع کیا۔

عین اس وقت نیا نیا اقوامِ متحدہ بیچ میں صلح صفائی کے لیے کود گیا اور اس نے قابض اور مقبوض کی تمیز کیے بغیر مئی 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔ اس منصوبے کے تحت جو علاقے جس فریق کو ملنے تھے وہ تو ملنے ہی تھے مگر ایک سفارش یہ بھی تھی کہ چونکہ بیت المقدس تین الہامی مذاہب کا مقدس شہر ہے لہذا یہ شہر کسی ایک فریق کو دینے کے بجائے بین الاقوامی انتظام کے تحت رکھا جائے تا کہ ہر مذہب کے زائرین یہاں بلا رکاوٹ آ جا سکیں۔

اسرائیلی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے یہ تجویز جھٹ سے مان لی کیونکہ اس وقت تک اسرائیل کو پیر ٹکانے کی جگہ نہ صرف مل چکی تھی بلکہ اقوامِ متحدہ نے بھی ان کا قانونی حق تسلیم کر لیا تھا۔ تاہم فلسطینی قیادت (مفتی اعظم امین الحسینی وغیرہ) نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب ہم سارا قبضہ ہی غیر قانونی مانتے ہیں تو بیت المقدس کی حیثیت کا سوال کہاں سے آ گیا۔ مگر فلسطینی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ بین الاقوامی سامراجی ہوا ان کے خلاف چل رہی ہے لہذا جو بچا لو وہی غنیمت ہے۔

منظم یہودیوں نے پانچ عرب ممالک کی کاغذی فوج کو آسانی سے شکست دے دی اور بیت المقدس کا مغربی حصہ بھی ان کے قبضے میں آگیا اور انھوں نے فوری طور پر اسے اسرائیل میں ضم کر کے اپنا دارلحکومت قرار دے دیا۔ جنگ بندی ہوئی تو مغربی کنارہ اور بیت المقدس کا مشرقی حصہ اردن کے قبضے میں تھا۔

چار لاکھ اسی ہزار فلسطینی عورتوں بچوں، بوڑھوں جوانوں کو بندوق کی نوک پر کھڑے کھڑے نسل در نسل گھروں سے نکال کے اندھے مستقبل کی جانب ہنکال دیا گیا۔ ایک ایک گاؤں کا عرب نام مٹا کر عبرانی نام رکھ دیا گیا۔ فلسطینی اس المئے کو نقبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ نقبہ کا وہی مطلب ہے جو ہولوکاسٹ کا ہے (اب یہی بے خانماں بڑھ کے چالیس لاکھ سے زائد ہو چکے ہیں اور ملکوں ملکوں بکھرے پڑے ہیں)۔

کہا جا رہا ہے کہ امریکا پہلا ملک ہے جو بیت المقدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرے گا۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ حالانکہ بیت المقدس کے کسی بھی حصے کو اسرائیل میں یکطرفہ ضم کیا جانا ہمیشہ غیر قانونی رہا مگر سن 50ء کے عشرے میں سولہ ممالک کے سفارتخانے مغربی بیت المقدس میں قائم ہو چکے تھے۔ گیارہ لاطینی ممالک (بولیویا، چلی ، کولمبیا، کوسٹاریکا، ڈومینیکن ریپبلک، ایکویڈور، گوئٹے مالا، پاناما، یوروگوئے، وینزویلا، ہیٹی) تین افریقی ممالک (آئیوری کوسٹ، زائر، کینیا) اور ایک یورپی ملک ہالینڈ۔ تعجب ہے کہ اس وقت عرب دنیا نے اس بات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔

1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد غیرجانبدار ممالک کی تنظیم کے فیصلے کے تحت تینوں افریقی ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر لیے۔ باقی تیرہ سفارت خانے بدستور مغربی بیت المقدس میں کام کرتے رہے۔ جب 1980ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے ’’یروشلم کا بنیادی قانون‘‘ منظور کیا جس کے تحت متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا مستقل دارلحکومت قرار دے دیا گیا تب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس قانون کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے قرارداد 478 منظور کی اور رکن ممالک سے مغربی بیت المقدس سے اپنے سفارت خانے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد تمام سفارتخانے تل ابیب منتقل ہوگئے (اقوامِ متحدہ کی اس قرار داد کو امریکا سمیت کسی نے ویٹو نہیں کیا)۔

مشرقی بیت المقدس پر جون 1966ء میں اسرائیل نے فوجی قبضہ کر لیا۔ اقوامِ متحدہ نے یہ قبضہ غیر قانونی اور مشرقی بیت المقدس کو ایک مقبوضہ علاقہ قرار دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قابض طاقت حتمی تصفیہ ہونے تک مقبوضہ علاقے کی جغرافیائی، شماریاتی، سماجی و مذہبی حیثیت میں کوئی من مانی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ مگر پچھلے پچاس برس میں مشرقی بیت المقدس کے اندر اور اردگرد درجن بھر اسرائیلی آبادکار بستیاں نمودار ہو گئیں جہاں دو لاکھ یہودی بسائے گئے اور ان کی حفاظت کا ذمے پولیس اور فوج کو سونپا گیا۔ جب کہ بیت المقدس کی ساڑھے چار لاکھ فلسطینی آبادی کو شہریت سے محروم کر کے غیر ملکی تارکینِ وطن کا درجہ دے دیا گیا۔ اب ان کے پاس اردنی پاسپورٹ ہیں جن پر شہریت نمبر درج نہیں اور اسرائیل کے جاری کردہ رہائشی پرمٹ ہیں جنھیں کسی بھی وقت منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

اردن میں کام کرنے کے لیے انھیں اردنی ورک پرمٹ کی ضرورت ہے اور اسرائیلی رہائشی پرمٹ برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک خاص مدت سے زیادہ بیت المقدس کی حدود سے باہر نہیں رہ سکتے۔ بصورتِ دیگر انھیں اپنی املاکی ملکیت، کرائے نامے یا تنخواہ کی سلپ کے ذریعے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ واقعی بیت المقدس کے حقیقی رہائشی ہیں لہذا ان کا پرمٹ بحال کیا جائے۔ اس کے باوجود گزشتہ پچاس برس میں تقریباً چودہ ہزار فلسطینی ایسے ہیں جن کا رہائشی پرمٹ مستقل منسوخ کیا جا چکا ہے۔ اب وہ نہ اردن کے شہری ہیں نہ بیت المقدس کے رہائشی۔ عملاً وہ مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت میں بھی پناہ گزین ہیں۔

اب جہاں بے چارگی کا یہ عالم ہو وہاں یہ توقع کرنا کہ عالمِ اسلام ان کے حق کے لیے ہر ممکن اقدام سے گریز نہیں کرے گا ایک مضحکہ خیز توقع ہے۔ ظاہر ہے عرب لیگ کو ٹرمپ کے اقدام کی مذمت کرنی تھی سو اس نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ ظاہر ہے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو یہ مطالبہ کرنا تھا کہ بیت المقدس میں جو بھی ملک اپنا سفارت خانہ منتقل کرے اس سے تنظیم کے ستاون ممالک سفارتی تعلقات ختم کر لیں سو اس نے اپنی مردانگی کے ثبوت کے طور پر مطالبہ کر دیا۔

ظاہر ہے کہ تمام عرب اور دیگر مسلمان ممالک کو ایک مذمتی بیان اور ’’یہاں سے وہاں تک آگ لگ جائے گی‘‘ وغیرہ وغیرہ کہنا تھا سو کہہ دیا۔ دو یا تین جمعے تک مذہبی سیاسی جماعتیں کراچی، لاہور اور پشاور وغیرہ میں احتجاجی جلوس نکالیں گی۔ ہو سکتا ہے کچھ منچلے اپنی ہی املاک کو نقصان بھی پہنچا دیں۔ مگر فلسطینیوں نے اگر تیسرا انتفاضہ شروع کر دیا تو ٹانگیں صرف فلسطینوں کی ہی ٹوٹیں گی۔ ہم بس ایک کورس کی شکل میں ہائے وائے کرتے رہیں گے۔

( جب اگست 1979میں آسٹریلوی یہودی مائیکل روحان نے مسجد اقصی کے منبر کو آگ لگائی تو بہاول پور کے ایک مقامی اخبار میں سرخی لگی ’’سمہ سٹہ کے عوام اسرائیل کو نیست و نابود کر کے دم لیں گے۔مقامی علما کا عزم‘‘ ۔)

آج اصل مسئلہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ نہیں اصل مسئلہ اسرائیل سمیت پورے مشرقِ وسطی کی ’’اعتدال پسند حکومتوں‘‘ کو ’’انتہا پسند ایران‘‘ کی شکل میں درپیش ہے۔یہ خطرہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر سو فلسطین اور ہزار بیت المقدس قربان۔

 

 

تحریر: وسعت اللہ خان
بشکریہ :ایکسپریس نیوز

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کےسیکریٹری جنرل عباس علی موسوی نے ایک بیان میں کہاکہ امریکی صدر نے بیت المقدس کو اسرائیل دارالحکومت قرار دے کر منحوس اور غاصب حکومت کو موت کے دہانے پر لاکھڑا کر دیاہے۔ گرچہ کہ اسرائیلی ظلم وستم کا شکار بیت المقدس پہلے ہی سے اسرائیل کے مکمل نرغے میں تھا لیکن ٹرمپ کے اس بیان نے مسلمانان عالم کو للکارا جسکے نتیجے میں اسلامی جزبات ایک بار پھر تازہ ہو گئے اور مسلمان متحد ہو کر قدس شریف کی آزادی کیلئے بھر پور کوشش کرینگے اور انشاء اللہ مسلمانان عالم جلد اسرائیل کی نابودی کی خبر سن لیں گے۔ بیت المقدس اور اسلامی سرزمین فلسطینی مسلمانوں کی ہے۔ غاصب اسرائیلی حکومت نے دنیا کے یہودی بھلوتروں کو مختلف علاقوں سے جمع کر کے کشت و خون کے ذریعہ فلسطین پر قابضہ کیا ہواہے۔ لیکن عالم اسلام بیدار ہوگئی ہیں اور انشاء اللہ جلد اس طاغوتی اور شیطانی طاقت کے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوگا۔ اور انشاء اللہ آئندہ چند سالوں میں دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا نام نشان نہ ہوگا،قدس کے مسئلہ نے مسلمانوں کو متحد بھی کیا اور ساتھ ہی انہیں بصیرت بھی دلائی ہے تاکہ وہ ان اسرائیلی اور امریکی ایجنٹوں کو بھی پہچان سکے جن کے ناپاک اشاروں سے مذہب کے نام پر دہشت گردی ہو رہی ہے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیل رہا تھا۔

وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا سید طالب حسین ہمدانی نے وحدت سیکرٹریٹ مظفرآباد سے جاری ہونیوالے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے قبلہ اول کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے اور وہاں امریکی سفارت خانہ کھولنے کا اعلان شرپسندی ہے جس کے خلاف مسلمانان ریاست آزادجموں و کشمیر میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔اور پوری ریاست ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا پایہ تخت قرار دینا امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ امریکی صدر کا اسلام دشمن متعصبانہ رویہ عالمی امن کے لئے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔اس اقدام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔امریکی صدر نے امت مسلمہ کے وقار پر حملہ کیا ہے۔اس پر خاموش رہنا امت مسلمہ کی توہین ہے۔ عالمی قوانین کی اس پامالی پر تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں، طلبا تنظیموں اور ریاستی اداروں کو اپنی آواز بلند کرنا ہو گی۔مسلمان ہونے کے ناطے بیت المقدس سے ہم سب کا مذہبی تعلق جڑا ہوا ہے۔امریکہ اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کا ہمیشہ دفاع کرتا آیا ہے۔ اس حمایت کی بنیاد اسلام دشمنی کے علاوہ اور کوئی نہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ کی اسلام دشمن پالیسیوں میں اسے عرب مسلم ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے جو افسوسناک ہے۔عالم اسلام کی تنزلی عرب حکمرانوں کی خیانت کا نتیجہ ہے۔مظلوم فلسطینیوں اور بیت المقدس کے حوالے سے پاکستان کو واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔

وحدت نیوز (کراچی) پیت المقدس پر قبضے کی عالمی و صیہونی سازش کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ جان لے کہ پوری دنیا کے مسلمان بیت المقدس کی آزادی اور حرمت کے لئے ایک ہیں، حکومت پاکستان امریکی انتظامیہ سے باضابطہ طور پر سفارتی احتجا ج کرتے ہوئے امریکی سفارتی عملے کو فوراً پاکستان کی سرزمین سے بے دخل کرے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین ڈسٹرکٹ سینٹرل کراچی کے ترجمان و سیکریٹری اطلاعات عرفان حیدر نے ڈویژن آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیا ۔

 عرفان حیدر کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک ذہنی مریض شخص ہے جسے صدارت پر رہنے کا بھی کوئی حق نہیں، بیت القدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اسی جگہ پر خاتم النبیین نے انبیاء علیہ السلام کی امامت فرمائی اور معراج کے سفر پر گئے تھے، ایسی مقدس جگہ پر صیہونیت کے ناپاک وجود ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں فرما دیا کہ یہود و نصاریٰ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے، یہ صیہونی ایک عالمی سازش کے تحت ختم نبوت کے قانون اور کبھی کسی اور ایشوز پر مسلمانوں کے ایمان کو چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں، انہوں   نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ امریکی صدر کے اس فیصلے پر سفارتی سطح پر احتجاج کیا جائے اور امریکہ سے تجارتی و سفارتی تعلقات ختم کئے جائیں۔

وحدت نیوز(کراچی)) بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلے کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کراچی کے رہنماؤں اور کارکنان نے امریکی قونصلیٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لئےنمائش چورنگی سے ریلی نکالی۔ ریلی کے شرکا ء نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف شدید نعرہ بازی بھی کی۔مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔جن پر امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اور اسرائیل کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین کو روکنے کے لئے پولیس نے قونصلیٹ جانے والے تمام راستوں کوکنٹینرز لگا کر سیل کر دیا لیکن مظاہرین قونصلیٹ کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔انہوں نے سفارت خانے کے سامنے امریکی پرچم بھی نذر آتش کیا۔

مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفارت کاروں کی ملک سے بے دخلی کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کے متعلق امریکی صدر کا بیان امت مسلمہ کے خلاف جارحانہ للکار ہے۔جس کا جواب اسی انداز میں دیا جانا ہی اسلامی حمیت اور ملی غیرت کا تقاضہ ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی عزائم کوکامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔قبلہ اول کا دفاع ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔بیت القدس کے ایشو پر ہم فلسطینی قیادت کے موقف کی مکمل طور پر حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا یہود و نصاری نے مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے لیکن افسوس ہے کہ بہت سارے اسلامی ممالک کو اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔

علامہ باقر عباس زیدی نے کہا کہ امت مسلمہ کو ذاتی مفادات اور عناد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس مسئلہ پر مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہیے۔عرب ممالک امریکی اسلحہ کے سب سے بڑے خریداراور کاروباری شراکت دار ہیں۔ان ممالک کی امریکہ و اسرائیل سے مکمل قطع تعلق کی ایک دھمکی امریکہ صدر کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر سکتی ہے جس نے پوری امت مسلمہ میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔سعودی عرب کی طرف سے اس معاملے پر خاموشی بادشاہوں کے منافقانہ طرز عمل کو واضح کر نے کے لئے کافی ہے۔انہوں نے کہا کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا پایہ تخت بنانے کا فیصلہ اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ بن جائے گا۔ یہود و نصاری کی اس معاملے پر ہٹ دھرمی عالمی امن کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی۔اس اہم ایشو پر پارلیمنٹ پر امریکہ اور اسرائیل کے خلا ف قرار داد پیش کر کے تمام سیاسی قوتوں کے خلاف اپنے دو ٹوک موقف کا اظہار کیا جانا چاہیے۔احتجاجی مظاہرے میں علامہ مبشر حسن،مولانا حیدر عباس،مولانا صادق جعفری،مولانا نشان حیدر۔میثم عابدی،آصف صفوی اور میر تقی ظفر سمیت متعدد نامور مذہبی و سماجی شخصیات بھی شریک تھیں۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) صوبائی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین بلوچستان علامہ برکت علی مطہری  نے کہا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول اورپاراتن ہے، امریکی صدر کی حکمت عملی سےلگتاہےکہ  اسرائیل کےخاتمےکے دن قریب آچکے ہیں،اسرائیل  ایک غاصب حصہ ہے جو فلسطینوں سے غضب کیا ہوااور  قبضہ کیا ہوا ہے،امریکہ کا ہرصدر پاگل اور نفسیاتی ہوتا ہے کیونکہ امریکہ استعمار کا مرکز ہے مظلوم انسانیت کے خلاف پلاننگ اور خصوصاً مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے منصوبے بناے جاتے ہیں،آمریکی صدر ٹرمپ حیوان وحشی سے بھی بدتر ہے ، مسلمانوں کی توہین کی جاررہی ہے، بیت المقدس صرف مسلمانوں کا مرکز ہے ،بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے،یہودیت انسانیت کی دشمن اورہرمکتب کی دشمن ہے،عرب لیگ ممالک  یہودیوں کی غلامی  کی وجہ سے ذلیل اورخوار ہیں قرآن میں ارشاد ہے یہودیوں کو اپنا سربراہ مت بناو یہ آپ لوگوں کےدوست کبھی بھی نہیں بنے گے بلکہ آپ لوگوں کے دشمن ہیں۔

Page 4 of 7

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree