وحدت نیوز (اسلام آباد) کالعدم جماعتوں کو کس قانون کے تحت نیکٹا نے کلین چٹ دی ہے ۔حالیہ دہشتگری کی لہر نے پور ی قوم کے دل زخمی کر دیئے ہیں ۔ایک طرف دہشتگرد اور دوسری طرف شریف خاندان ملک میں بے چینی پھیلا رہے ہیں ایم ایم اے اور ن لیگ کے ہوتے ہوئے کسی آئی جے آئی کی ضرورت نہیں ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ملک حساس دور سے گزر رہا ہے دشمن پر امن الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکارہا ہے ۔حالیہ دہشتگردی کے واقعات میں بے گناہ پاکستانیوں کی شہادتیں المناک ہیں ہارون بلورکی شہادت سے پاکستان کا نقصان ہوا ہے ۔نہایت افسوس ہے کہ جن لوگوں ملک میں شدت پسند ی تکفیریت کے زریعے قتل و غارت گری کے بازار گرم کئے ان کو کلین چٹ دے کر شہدا کے وارثوں کے زخمو ں پر نمک پاشی کی گئی رمضان مینگل جو کہ تکفیری گروہ کا سربراہ ہے وہ سراج ریئسانی کے خلاف الیکشن لڑ رہا تھا ،ایسے دہشت گردوں کو شامل تفتش ہونا چاہئے مستونگ ہی کے مقام پر گزشتہ دہائیوں سے ملت جعفریہ کے بے گنا ہ افراد کا قتل عام ہوتا رہا لاشیں زمین پر پڑی رہیں لیکن اٹھانے والاکوئی نہیں تھا ہم چیخ چیخ کر کہتے رہے خدار ا اس دہشت گرد گروہ کے خلاف کاروائی کی جائے لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ،اس ملک کی کی ناعاقبت اندیش حکمران اور مقتدر طاقتیں ناک تک دیکھتی ہیں شدت پسندوں اور تکفیری گروہ کو دی جانے والی چھٹی کا خمیازہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی ، ہمار ے حکمران اور مقتدر حلقے جنرل ضیاء کی پالیسی سے اب تک سبق نہیں سیکھ سکے۔ الیکشن فری اینڈ فیئر ہونے چاہیں شرپسندوں کو الیکشن میں کھلی چھوٹ دینے کی مذمت کرتے ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف ایک مجرم ہے اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہونا چاہئے ۔شریف خاندان کو ان کے گناہوں کی سزامل رہی ہے سانحہ ماڈل ٹاون کو چھوٹا واقع نہیں تھا ۔ساری دنیا کے سامنے عورتوں کے منہ پرگولیاں ماری گیں ۔ایک طرف دہشت گردد ملکی سلامتی پر وار کررہے ہیں دوسری طرف شریف خاندان ملک میں بے چینی پیدا کرنے کے درپے ہیں یہ سراسر ملک دشمن قوتوں کے ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ کچھ جماعتوں کے الیکشن مہم میں مشکلات پیش آرہی ہیں ۔شفاف اور آزادانہ الیکشن کے لئے نگران حکومت اس طرف توجہ ضرور کرئے ہماری جماعت کے بھی قائدین کو باوجود سیکورٹی تھرٹ ہونے کے ان سے سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے ۔علامہ راجہ ناصر عباس نے ایک صحافی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایم ایم اے اور ن لیگ کے ہوتے ہوئے کسی ائی جے آئی کی ضرورت نہیں ملک میں الیکشن کو ثبوتاژ کرنے والوں 25جولائی کو منہ کی کھانا پڑے گی انشااللہ قوم بھر پور انداز میں گھروں سے نکلے گی اور ملک کی سلامتی و ترقی کے لئے ووٹ دے گی ۔

وحدت نیوز(میہڑ) مجلس وحدت مسلمین سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی ضلع دادو کے ایک روزہ تنظیمی دورے پر میہڑ پہنچے، ضلعی سیکریٹری جنرل برادر اصغر علی حسینی ، سیکریٹری سیاسیات برادر عبداللطیف و اراکین کابینہ سے میٹنگ کی تنظیمی فعالیت اور الیکشن 2018 سے متعلق مشاورت کی گئی۔ اس موقعہ پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا کہ تکفیری جماعتیں وطن عزیز پاکستان میں دھشت گردی اور قتل و غارت گری کی ذمہ دار ہیں ان کا راستہ روکنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ ایک سازش کے تحت قاتلوں اور دھشت گردوں کو پارلیمنٹ میں لانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے، جس کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ ملت جعفریہ کی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے مجلس وحدت مسلمین ملکی ایوانوں میں ملت کے باکردار افراد کو دیکھنا چاہتی ہے جو وطن عزیز کی سربلندی اور ملت کے حقوق کے لئے موثر آواز بلند کریں۔

انہوں نے کہا کہ آل شریف اپنے مکروہ کردار کے سبب رسوا ہوئے اور ان کا عبرتناک انجام سامنے آرہا ہے۔ جنہوں نے ملکی دولت کو لوٹا ملک میں مسلکی تفریق اور شیعہ دشمنی کو رواج دیا اور تکفیریوں کو سپورٹ کیا۔  اس موقعہ پر حسینی پینل کی دعوت پر علامہ مقصودعلی ڈومکی نے ضلعی وفد کے ہمراہ مدرسہ سفینہ اہل بیت ؑ میہڑ میں علامہ عابد علی عرفانی اور سید اسد شاہ حسینی سے تفصیلی ملاقات کی اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ علامہ مقصودعلی ڈومکی سے پاشا خان بٹ نے بھی ملاقات کی اور صوبائی نشست پر حمایت کی اپیل کی، علامہ صاحب نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ اس حلقے سے فیاض بٹ صاحب کامیاب ہوں مگر صوبائی سیاسی کمیٹی سے مشاورت کے بعد حتمی جواب سے آگاہ کیا جائے گا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کے زیر اہتمام مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ایک الیکشن 2018 ء کے حوالے ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں تنظیمی خواتین نے بھرپور شرکت کی،محترمہ راضیہ جعفری ایڈووکیٹ صوبائی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین صوبہ خیبر پختونخواہ نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ25 جولائی کے دن قائدو اقبال کی فکر کے مطابق پاکستان بنانے کے لئے خواتین کو میدان عمل میں آکر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا ۔اس دن خواتین کو چاہئے کہ گھروں سے نکلیں اور وطن عزیز کی تقدیر بدل دیں ۔ اپنے خاندان اور عزیز واقارب کی خواتین کو بھی ہمراہ لائیں اور اپناحق راہ دہی قائداعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے افکار کی تقویت میں استعمال کریں ۔ آپ خواتین کا میدان عمل آنا اس دن تکفیری قوتوں اور ملک دشمن عناصر کے لئے شکست کا دن ثابت ہو گا ۔

انہوں نے مزیدکہاکہ مجلس وحدت مسلمین کی خواتین کی بھاری ذمہ داری ہے کہ اس دن انتخابات سے لاتعلقی دشمن قوتوں کے لئے تقویت کا باعث بننے سے روکیں ۔ اگر ہم یہ ذمہ داری نہ نبھائی تو یقین کرلیں کہ ہم نے اپنے وطن عزیز میں ملک و ملت اور شہداء کے ساتھ کیے گئے عہد وفا میں کوتاہی کی ہے ۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی خواہران کےپر عزم جذبے کو سلام پیش کرتی ہوں جنہوں ہر مشکل وقت میں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ میدان عمل میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا اور ادا کرتی رہیں گی ۔قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ویژن کو تمام سیاسی راہنما قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیںاورمختلف محافل میں اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ہم قائد وحدت کو یقین دلاتی ہیں کہ ہم ان کے فرمان پر الیکشن ۲۰۱۸ ءمیںاپنا بھر پور کردار ادا کریں گی ۔ان شاءاللہ۔ ضلعی سیکرٹری جنرل ضلع ہری پور اور ضلعی سیکرٹری تربیت ضلع ہری پور ، خواہر عقیلہ ضلعی سیکرٹری جنرل ضلع جہلم، خواہر زینب ضلعی سیکرٹری جنرل اٹک ، خواہر قندیل زہراٗ ضلعی سیکرٹری جنر ل ضلع راولپنڈی ، خواہر شاداب از تلہ گنگ ، ضلعی سیکرٹری جنرل ضلع اسلام آباد، خواہر نرگس سجاد جعفری ، خواہر فرحانہ گلزیب کے علاوہ خواہران نے چنیوٹ ،فیصل آباد اور ہڈالہ سیداں ضلع جہلم سے بھی خصوصی طورخواہران کے اس اہم تنظیمی اجلاس میں شرکت فرمائی۔

وحدت نیوز (بھوآنہ) مجلس وحدت مسلمین نے این اے99 اور پی پی 96 پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کردیا، المصطفیٰ کالج بھوآنہ میں مجلس وحدت مسلمین ڈسترکٹ چنیوٹ کے زیر اہتمام ایک کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد عباس نقوی نے کہا کہ ہمارا اور پاکستان تحریک انصاف کا منشور ایک ہی ہے ہم بھی قائد اعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں پی ٹی آئی بھی کرپشن سے پاک پاکستان کی خواہاں ہے ہم بھی تکفیریت کا خاتمہ چاہتے ہیں پاکستان تحریک انصاف بھی پاکستان سے شدت پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے سید اسد عباس نقوی نے کہا کہ قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی ہدایت پر پنجاب بھر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کی حمایت کررہی ہے۔ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے امیدوار این اے99 مہر غلام محمد لالی کا کہنا تھا کہ میں سید اسد عباس نقوی اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کا مشکور ہوں میں مجلس وحدت مسلمین ڈسٹرکٹ چنیوٹ کے ذمہ داران کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے میری حمایت کا اعلان کیا اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ اتحاد ہوا ہے۔

 کارنر میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے امیدوار پی پی 96 محترمہ سلیم بی بی بھروانہ نے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجلس وحدت اور عوام کی توقعات پر پورا اتریں گی پی ٹی آئی ضلع چنیوٹ کے صدر میاں شوکت علی تھہیم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد دھرنوں میں جب پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد کیا گیا تو مجلس وحدت مسلمین ڈسٹرکٹ چنیوٹ نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا ہمارا اتحاد فطری ہے میں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کہ مجلس وحدت مسلمین ڈسٹرکٹ چنیوٹ مٰں بہت مظبوط اور منظم ہے 25جولائی کو مجلس وحدت مسلمین کے جوان اور کارکن پولنگ اسٹیشنز پر ہمارا ہراول دستہ ہوگا مجلس وحدت مسلمین ضلع چنیوٹ کے سیکرٹری جنرل سید انیس عباس زیدی ،سینئر رہنما سید عاشق حسین بخاری نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ 25 جولائی کا دن آپ کو بتا دے گا کہ مجلس وحدت کے کارکن آپ کے ساتھ کیا تعاون کرتے ہیں کارنر میٹنگ میں مجلس وحدت مسلمین کے تمام یونٹس کے نمائندگان نے شرکت کی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) ہمیں آپ کی عزت و وقار کی بھوک ہے ، وطن میں محبتیں لانے کی پیاس ہے ،فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ یہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ڈالنی ہے یا نہیں ،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعبا س جعفری نے علمدارروڈ نزد ہزارہ عید گاہ پر ایم ڈبلیوایم کے نامزد امیدوار برائے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی آغاسید محمد رضا کے انتخابی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہاکہ سن 2013میں پانچ دن کی یکجہتی نے اس ظالم وزیراعلی کہ جو آپ کے شہیدوں کا تمسخر اڑاتا تھا ،جب اس سے کہا گیا کہ آپ کے علاقے میں لوگ رو رہے ہیں تو اس نے کہا میں ٹشو پیپرز کا ایک ٹرک بھیج دونگا ۔۔اس قسم کے ظالم اور نااہل وزیر اعلی کو ہم نے نکال کر باہر پھینک دیا اس وقت بہت سے لوگوں نے کوششیں کیں ۔۔وزراعظم آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ سے گوادر ہاوس میں ملنا چاہتا ہوں میں نے کہا نہیں ،تمہیں یہاں شہیدوں کے پسماندگان کے پاس خود چل کر آنا ہوگا وہ جانتے ہیں کہ ہم غیر ت مند اورباشعور ہیں ،ہم کٹ سکتے ہیں لیکن بک نہیں سکتے ،ہمارے سر کٹ سکتے ہیں جھک نہیں سکتے ،ہم ڈرنے والے نہیں ہیں ،بکنے والے نہیں ہیں ،ہم مرد میدان ہیں مردمیدان ۔۔لہذا آپ کی یکجہتی آپ کی استقامت ،آپ کی مقاومت نے پورے پاکستان کے لوگوں کو آپ کے ساتھ لاکر کھڑا کردیا ۔
آپ دیکھ لیں اس کے بعد آہستہ آہستہ پورے ملک میں حالات بدلنے لگے پاراچنار محاصرے میں تھا ۔۔۔کبھی آپ نے سنا تھا کہ وزیراعظم تو دور کی بات خود آرمی چیف پاراچنار آئے گا آپ کے پاس اور آپ کے ساتھ مذاکرات کرے گا اور پھر آپ کے مطالبات کو قبول کرے گا ۔

انہوں نے مزید کہاکہ اصل میں یہ وہ تحریک ہے جو یہاں سے چلی تھی اور پاراچنار تک جاپہنچی ۔۔یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے ۔۔آج ملکی حالات میں بہتری آئی ہے ۔۔۔جب کچھ عرصہ پہلے یہاں کوئٹہ کے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو سیکوریٹی ذمہ داروں سے ہم نے رابطہ کیا انہوں نے جواب دیا کہ اس خطے میں داعش کو لایا جارہا ہے حالات کو خراب کرنے کے لئے اور ہم اس مسئلے کی جانب متوجہ ہیں ۔اور جب آپ نے پھر دھرنا دیا تھا آغارضا وزیراعلی ہاوس کے باہر تھے اس وقت بھی پھر رابطے کئے گئے اور اقدام ہوا ۔۔۔اگر کوئی یہ کہے کہ یہ اس کی یا ناصر کی کوششیں ہیں تو واللہ بخدا درست نہیں یہ شہیدوں کے خون کی تاثیر ہے اور آپ کی استقامت کا نتیجہ ہے ، تاریخ اس طرح کے نشیب و فراز سے گذرتی آئی ہے بعض اوقات لمحوں کی غلطیوں کے سبب صدیوں کی مصیبتیں دیکھنا پڑتی ہیں ۔۔پچیس جولائی کو آپ کا فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آغار رضا نے جو منصوبے شروع کئے ہیں ،یہاں یونیورسٹی پائے تکمیل کو پہنچے ،کالج بنے سکول بنے ،شہدا کی بیواوں کے گھر بنیں اور مزید کام ہوں تو پھر آپ کو انہیں ووٹ دینا ہوگا ۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے ملک میں شیعہ سنی کو اکھٹا کیا ہے ،ہم نے اہلسنت بھائیوں کے ساتھ مل کر تکفیریت کے آگے بندباندھا ۔۔مجلس وحدت مسلمین پورے پاکستان میں شیعہ اور سنی کو تسبیح کے دانوں کی طرح لڑی میں پرو دیتی ہے اس وقت یہ جماعت ہے جو شیعہ سنی کو اکھٹا کرکے ظلم کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔قوم پرستی کی وجہ سے آج تک کبھی کوئی منزل تک نہیں پہنچا ،قوم تو پہلے بھی تھی لیکن جب تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان آپ کے شہیدوں کے لہو کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی ہماری آواز علمدار روڑ سے باہر نہیں جاتی تھی ۔آپ کے لئے لوگ یورپ اور امریکہ تک سڑکوں پر نکلے تو یہ قوم پرستی کی وجہ سے نہیں نکلے تھے ،ہم آپ کے ہمدرد ہیں ،آپ کے ساتھی ہیں غلطی کرسکتے ہیں لیکن خیانت نہیں کرسکتے ،ہم سے غلطیاں ہوسکتیں ہیں لیکن کبھی خیانت نہیں ہوگی ۔کبھی دھوکہ نہیں ہوگا ان شااللہ ۔ ہم مکلف ہیں ہمارے اوپر ذمہ داری ہے اگر آپ یہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر رکھے گے تو ہم نبھاینگے اگر نہیں رکھے گے تو پھر بھی دو رکعت نماز شکرانہ پڑھے گے کہ مصلحت یہی تھی کہ یہ ذمہ داری ہمیں نہیں ملی۔ ہم پاورکےرسیا نہیں ہیں ،تشنہ نہیں ہیں ،اقتدار کے بھوکے نہیں ہیں واللہ نہیں ہیں ، ہم خدمت کے بھوکے ہیں ،ہمیں آپ کی نوکری کی پیاس ہے ،ہمیں وطن میں محبت لانے کی پیاس اور بھوک ہے ،نفرتیں مٹانے کی بھوک ہے آپ کی عزت و وقار کو بلند کرنے کی ہمیں بھوک ہے ،ہم شریف اور لقمہ حرام سے بچنے والے ہیں ،لقمہ حلال کھانے والے ہیں پچیس جولائی کو اگر آپ ووٹ دینگے تو ہم آپ کے امین بنے گے اور ان شااللہ سچے امین بنے گے باوفا امین بنے گے ،گھر گھر جانا ہے ،ہم نے اپنے آپ کو خد مت کے لئے پیش کیا ہے کسی سے ناراض نہیں ہونا ہے ہردروازے پر دستک دینی ہے ۔ان شااللہ ہزارہ ٹاون میں بھی لوگ ساتھ دینگے اور دنیا والوں کو پتہ چل جائے گا کہ غریب اور مسکین بھی پارلیمنٹ میں جاسکتا ہے اور اپنے جیسے غریبوں کی نمایندگی کرسکتا ہے ۔

وحدت نیوز  (مانٹرنگ ڈیسک)  مجلس وحدت مسلمین دس سال قبل وجود میں آئی۔ اس وقت تحریک جعفریہ پاکستان مشرف دور میں لگائی گئی پابندیوں کی زد میں تھی۔ ایم ڈبلیو ایم نے قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی (رح) کی برسی کے اجتماعات اور ملک بھر میں ہونیوالے قتل و غارت کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کیلئے منعقد کیے جانیوالے مظاہروں سے اپنی پہچان کروائی۔ کوئٹہ میں درجنوں ہزارہ شیعہ افراد کی شہادتوں کے موقع پر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی قیادت میں ملک بھر میں دھرنے دیئے گئے، اس کے بعد 2013ء کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم نے ملک بھر میں خیمے کے نشان پر اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ ان انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین ایک پریشر گروپ سے قومی دھارے کی سیاسی جماعت کی حیثیت سے متعارف ہوئی۔ کوئٹہ سے سید آغا رضا کامیاب ہوئے۔ اسی طرح جی بی کے الیکشن میں بھی ایم ڈبلیو ایم نے زور و شور سے حصہ لیا اور کئی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ شیعہ علماء کونسل یا اسلامی تحریک پاکستان کی طرح ایم ڈبلیو ایم اب پاکستانی سیاست میں ایک مثبت اور فعال جماعت کے طور پر نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ دونوں مذکورہ جماعتیں قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کی الہٰی سیاست کے نقوش کی پیروی کی دعویدار ہیں۔ 6 جولائی کو شہید حسینی نے پاکستان میں خط امام خمینی کی روشنی میں نظریاتی و انقلابی سیاسی منشور کا اعلان کیا تھا، شیعہ علماء کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کے نعرے اور پروگرام اسی منشور کا احساس اور تاثر پیدا کرتے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم کا منشور اس بات کا غماز ہے کہ اہل تشیع مملکت پاکستان کے استحکام اور ترقی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ انشا اللہ یہ سیاسی بصیرت و مخلصانہ جد و جہد پاکستانی عوام کیلئے خوشحالی اور عالمی برادری میں پاکستان کے وقار کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔

ایم ڈبلیو ایم کا منشور بسم اللہ الرحمن الرحیم، یعنی رحمان و رحیم اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔ تمہید میں منشور سے متعلق درج ہے کہ ہر جماعت جو معاشرے میں اصلاح اور تعمیرو ترقی کی خواہشمند ہو کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کلی مقاصد اور ان کے حصول کے لئے مروجہ طریقہ کا ر پر مبنی منشور کا اعلان کرے تاکہ عوام اس سے آگاہ ہو سکے اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرسکے ۔ لہذا مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا منشور پیش خدمت ہے۔ اس منشور کے ذریعے ہم اپنے رب سے کئے گئے عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ اللہ کا دیا ہوا قانون سب سے اعلیٰ ہے اور انسانیت کی سربلندی اور سرفرازی کیلئے اس پر عمل ہونا چاہئے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ، اللہ تعالی پاکستان کو دشمنوں اور مخالفین کی ریشہ دوانیوں اور داخلی وخارجی سازشوں سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین

ایم ڈبلیو ایم کے انتخابی منشور2018ٰء کا مقدمہ:
مجلس وحدت مسلمین پاکستان محض ایک سیاسی جماعت نہیں، بلکہ وسیع معنی میں ایک دینی اور نظریاتی تحریک ہے، جو پوری انسانی زندگی کے لئے اسلام کے جامع اور عالمگیر نظریہ حیات پر یقین رکھتی ہے اور ہماری نظر میں مملکت خداداد پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل محمدی ﷺ اسلام کے دامن میں پناہ لینے میں ہے، ہم حاکمیت اعلی کو صرف اور صرف اللہ تعالی کی ملکیت سمجھتے ہیں، جو کہ اس کے منتخب ،صالح اور نیک بندوں کے پاس اس کی امانت ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین بھی اسی نظریے کی ترجمانی کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل ایک (1)اللہ تعالی کی حاکمیت سے متعلق ہے، جبکہ آرٹیکل (62،63) میں منتخب نمائندوں کے صادق اور امین ہونے کی شرط اس بات پر زور دیتی نظر آتی ہے کہ منتخب عوامی نمائندوں کا صالح، نیک، قوم اور وطن کا وفادار ہونا از حد ضروری ہے اور یہی اصول معاشرے سے ظلم کے خاتمے، کرپشن، اقرباء پروی اور دہشت گردی جیسے ناسوروں کی بیخ کنی کے لئے لازمی ہے۔ ہم دین مبین اسلام اور پاکستان کے آئین میں دیئے گئے اصولوں کو معاشرے میں عملی شکل میں نافذ کر کے ایک ایسا پاکستان تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں:
۱۔ انسانوں کے حق حیات کو تسلیم کیا جائے۔
۲۔ قانوں و انصاف کے سامنے سب برابر ہوں۔
۳۔ محروم اور مستضعف طبقے کو بھی امراء کے برابر مواقع میسر ہوں۔
۴۔ جہاں مزدورں کی اجرت ان کی انسانی کرامت کے برابر ہو۔
۵۔ جہاں آزادی، رواداری، عدل اجتماعی اور جمہوریت کے اصولوں پر جس طرح آسمانی کتابوں بلخصوص آخری آسمانی کتاب قرآن و سنت نبوی نے، ان کی تشریح کی ہو پر عمل کیا جاتا ہو۔

آج سے چودہ سو سال پہلے سید الشہداء حضرت امام حسین ؑ نے کربلا میں جن اصولوں کے لئے اپنی اور اپنے خانوادے کی قربانی دی وہ یہی تھے امام حسین ؑ کا قیام محروموں، مظلوموں، مزدورں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو ان کا شرعی اور اخلاقی حق دلانے کے لئے تھا۔ نواسہ رسولﷺ نے قرآنی اصول جو کہ (ولا تبخسوا الناس اشیاہم ولا تعثوا فِی الارضِ مفسِدِین سورہ ہود آیت۔ ۸۵) لوگوں کے کاموں اور چیزوں کی قیمت نہ گھٹاؤ۔ کے لئے سر تو تن سے جدا کروا لیا، مگر معاشرے میں انسانی کرامت کا کم ہونا منظور نہ کیا، مجلس وحدت مسلمین نواسؑہ رسؐول کی اس الہی جدوجہد کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہوئے مملکت خداداد پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاپتی ہے، جس کی بنیاد ہمارے رسول کریم ﷺ نے مدینہ منورہ میں رکھی تھی۔ یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب بانیان پاکستان نے دیکھا تھا۔ لہذا مجلس وحدت مسلمین پاکستان در اصل قائد اعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ کا پاکستان شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کا پاکستان ایک ایسا پاکستان ہے، جہاں بالا دست طبقہ غریب عوام، بے آسراء لوگوں، اقلیتوں کا استحصال نہ کر سکیں، بلکہ پاکستان میں بسنے والے عوام کو بلاتفریق نسل، لسانی تعلق، مذہبی علاقائی اور صنفی امتیاز کے ترقی کے برابر مواقع میسر ہوں۔ جہاں حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوں اور جہاں انداز حکمرانی سادہ ہو۔

مجلس وحدت مسلمین کے انتخابی منشور 2018ء کے اہم نکات:
دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مجلس وحدت مسلمین کا منشور جماعت کے مغز ہائے متفکر کی شب و روز محنت اور عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق پاکستان کو حقیقی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کیلئے ایم ڈبلیو ایم نے اپنے منشور میں پاکستان کے تمام مسائل کے حل کیلئے سب سے پہلی ترجیح عمدہ مںصوبہ بندی کو قرار دیا ہے اور آخر میں ثقافتی پالیسی دی ہے۔ چونکہ اس سے پہلے ایم ڈبلیو ایم کو کسی صوبے میں حکومت کا موقع نہیں ملا اس لیے اپنی حکومتی کارکردگی بیان نہیں کی گئی بلکہ اسلام کے بیان کردہ سیاسی اصولوں اور قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے تصورات کو انتخابی جد و جہد میں بنیاد بنایا گیا۔  

1۔ قومی منصوبہ بندی:
مجلس وحدت مسلمین وفاقی سطح پر مختلف شعبوں، جن میں معیشت، خارجہ، داخلہ، زراعت، ماحولیات، پانی اور انرجی کے ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے گی۔ ہر شعبہ کے ماہرین مثلاً معاشی ماہرین قومی معیشت کے لئے مختصر، وسط مدتی اور طویل مدتی پالیسیاں بنائیں گے۔ یہ تمام پالیسیاں پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی اور ان پر مکمل اتفاق رائے کے بعد پاکستان کو آنے والے پچاس سالوں کیلئے ایک پروگرام دیا جائے گا۔ تاکہ ہم بحثیت قوم ایک منظم طریقے سے آنے والی نسلوں کو آج سے بہتر اور مضبوط پاکستان دے سکیں۔

2۔ انتخابات اور متناسب نمائندگی، حق رائے دہی:
پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے اور اس پر عوامی اعتماد کو بڑھانے کیلئے پاکستان الیکشن کمیشن کو مکمل مالی و انتظامی خودمختاری دی جائے گی۔ انتخابی عمل کو شفاف اور اس میں پیسے کے ناجائز استعمال کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے گی۔ معاشرے کی ترقی کیلئے اختیارات کا نچلی سطح پر منتقل ہونا از حد ضروری ہے۔ تاکہ علاقائی مسائل مقامی سطح پر حل ہو سکیں۔ اس کے حصول کیلئے وفاقی سطح پر قانون سازی کر کے پورے پاکستان میں ایک جیسا بلدیاتی نظام نافذ کیا جائے گا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان انتخابات میں کامیابی کی صورت میں متناسب نمائندگی کے نظام کو رائج کرنے کیلئے قانون سازی کرے گی۔ متناسب نمائندگی کا نظام اس وقت دنیا کے تقریباً پچاس ملکوں میں مختلف شکلوں میں رائج ہے۔ جس کے ذریعے معاشرے کا ہر طبقہ عوامی فیصلوں میں حصہ لے پاتا ہے۔ دنیا بھر میں موجود سمند ر پار پاکستانی جو کے کثیر زر مبادلہ پاکستان بھیج کر اس ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتے ہیں، انہیں بھی ووٹ حق دے کر پاکستان کی فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے گا۔ کرپٹ عناصر کے انتخابات کے ذریعے عوامی اداروں کا ممبر بننے اور انتخابات میں دھاندلی کے تدارک کیلئے آئین کے آرٹیکل 62،63 پر اسکی روح کے مطابق عمل کرانے کیلئے درکار قانون سازی و جدید سہولیات پاکستان الیکشن کمیشن کو مہیاکی جائیں گی۔

3۔ قومی دفاعی اور سلامتی پالیسی:
ہم پاکستان کی قومی خود مختاری اور سالمیت پر کسی صورت آنچ نہیں آنے دیں گے۔ پاک فوج کی عالمی اور علاقائی ضروریات کے پیش نظر ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بڑھایا جائے گا۔ ہماری دفاعی پالیسی کا بنیادی نقطہ اپنے وطن کا دفاع ہے، نہ کہ جارحیت، لہذا قومی دفاعی پالیسی پر ایک مشترکہ موقف کیلئے اور پاکستانی عوام کے تمام نمائندوں کو اس پر ہم آہنگ کرنے کیلئے قومی دفاعی پالیسی کو پارلیمنٹ کو ان کیمرہ سیشن میں پیش و منظور کروایا جائے گا۔

اٹیمی اثاثے مملکت پاکستان کے دفاع کا اہم ترین جز ہیں، جن کی حفاظت اور ارتقاء کیلئے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔ پاکستانی ہتھیاروں کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا اور اس سلسلے میں متعلقہ ماہرین پر مشتمل کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پاکستانی ہتھیار سازی کی صنعت کی ترقی اور اس کی عالمی سطح پر مارکیٹنگ ہماری پالیسی کا اہم ستون ہوں گی۔

4۔ خارجہ پالیسی:
دنیا میں تمام انسان ہمارے انسانی اور سب مسلمان ہمارے دینی بھائی ہیں اور ہم ان سے برادرانہ تعلقات رکھنے کے خواہاں ہیں۔ ہم دنیا کے ان تمام ممالک سے دوستانہ اور دوطرفہ تعلقات رکھیں گے، جو تجاوز پسندانہ عزائم نہ رکھتے ہوں اور عالمی استعمار کیلئے براہ راست کام نہ کرتے ہوں۔ ہم مسلمانان عالم کے درمیان سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور ددفاعی اتحاد قائم کریں گے۔

کشمیر پاکستان کی شہہ رگ حیات ہے۔ لہذا مسئلہ کشمیر کو ہم ہر سفارتی و سیاسی محاذ پر نہ صرف اٹھائیں گے، بلکہ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہو گا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اصولوں کی بنیاد پر مشتمل ہو گی۔ جس میں ہم دنیا بھر میں تمام مظلوموں کی آواز بنیں گے، خاص طور پر فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا مقدمہ ہم ہر جگہ پر لڑیں گے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان (Two State Solution) کی ہر گز حامی نہیں ہے، بلکہ ہم فلسطین کو 1948ء سے پہلے کی حالت میں قبول کرتے ہیں۔

پاکستان اپنے جغرافیائی محل و وقوع کی وجہ سے خطہ میں ایک نہایت اہم مقام رکھتا ہے، لہذا ہم خطے میں موجود ممالک میں باہمی تجارتی، سیاسی و دفاعی تعلقات کو فروغ دیں گے۔ پاکستان چین کے ساتھ مختلف سطح پر خاص کر معاشی و دفاعی شعبے میں اپنی روایتی اسٹراٹیجک شراکت داری کو وسعت دے گا۔ ہم ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے کو جلد از جلد عملی شکل دیں گے۔ ہم افغانستان میں بھارت کے کسی بھی کردار کو برداشت نہیں کریں گے اور افغانستا ن کو استعماری قوتوں کا بیس کیمپ بننے سے روکنے کیلئے برادر افغانی حکومت سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں گے۔

ہم پاکستان میں سفارتی عملے کے تقرری اور تعداد کا فارمولا متعارف کرائیں گے۔ ہر ملک کو اس کی قانونی ضروریات کے مطابق سفارتی عملہ رکھنے کی اجازت ہو گی۔ کسی بھی ملک کو ہزاروں کی تعداد میں سفارتی عملہ تعینات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

CPEC کا منصوبہ جو کہ پاکستان اور خطے کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس منصوبے میں پاکستانی مفادات کے تحفظ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے گا۔ پاکستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت اظہر من الشمس ہے اور ہم اس خطے کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گے۔ ہم ایشائی ممالک میں تعاون اور اچھے تعلقات کے نہ صرف بھرپور حامی ہیں بلکہ ان میں مزید بہتری اور باہمی اشتراک کو فروغ دینے کیلئے ہر ممکن سعی کریں گے، اس خطے کے مسائل کو اس خطے کے رہنے والے ہی آپسی تعلقات اور مذکرات کے ذریعے حل کریں اور اس میں کسی قسم کی بھی بیرونی مداخلت نہ ہو۔

5۔ اندرونی سلامتی داخلہ پالیسی:
دہشتگردی کے ناسور نے نہ صرف ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا ہے، بلکہ اس نے 80،000 سے زائد ہمارے ہم وطنوں کو ہم سے جدا کیاہے۔ اسی کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ نہ صرف متاثر ہوا بلکہ دہشت گردی کے اثرات نے ہماری ثقافت، معیشت غرض یہ کہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ باغات اور تفریح گاہیں جہاں انسان پرسکون ہونے کیلئے جاتا ہے۔ اسی دہشتگردی کی وجہ سے ہمیں ان باغات اور تفریح گاہوں کو خار دار تاروں میں محصور کرنا پڑا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان ہر قسم کی دہشت گر دی کے حوالے سے صفر فیصد برداشت کی پالیسی رکھتی ہے۔ ہم قرآنی اصول کے قصاص میں حیات ہے کے قائل ہیں اور اس بات پر یقین محکم رکھتے ہیں کہ ہر وہ دہشتگرد جس نے کسی بھی انسان کی جان لے ہے۔ چاہئے وہ کسی بھی مذہب، فرقے، یارنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ اسے قانون کے شکنجے میں کسا جائے گا اور قرار واقع سزا دی جائے گی۔

ہم نہ صرف دہشت گردوں بلکہ ان کے سہولت کاروں کے حوالے سے بھی کسی قسم کی نرمی کے قائل نہیں ہیں۔ ہماری اندورنی سلامتی پالیسی کا اہم ترین جزیہ ہے کہ ہم ہر اس شخص کو چاہئے اس کا تعلق کسی بھی جماعت فرقے، مذہب یا قومیت سے ہو اور وہ لوگوں کو کسی کے قتل یا انہیں ایذا پہنچانے کی ترویج کرتا ہو، اسے قانون کا سخت ترین سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم اس حوالے سے قوانین کو مزید سخت کریں گے۔

نفرت انگیز تقاریر اور کفر کے فتوؤں کو قابل تعزیر جرم قرار دے کر دس سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا مقرر کروائیں گے۔

نیکٹا کے ادارے کو تمام ضروری مالی وہ دیگر وسائل دے کر مکمل طور پر فعال کیا جائے گا، بلکہ اس سلسلے میں ضرورت پڑنے پر مناسب قانون سازی کی جائے گی۔

ہر وہ جماعت، ادارہ یا شخصیات جو ماضی میں کسی بھی قسم کی عسکری یا نفرت انگیز کاروائیوں میں شامل رہی ہیں۔ ان پر تاحیات عوامی و سیاسی سرگرمیوں میں شرکت پر پابندی لگائی جائے گی اور انہیں کسی بھی دوسرے نام یا دوسری جماعتوں کی چھتری تلے عوامی و سیاسی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان دہشت گردی کے شکار پاکستانیوں کیلئے ایک جامع پیکچ کا اعلان کرے گی۔ جس میں دس سال تک شہداء اور زخمیوں کے خانوادوں کی معاشی، تعلیمی اور طبی ضروریات کی مکمل ذمہ داری ریاست پاکستان اپنے ذمے لے گی۔ اس سلسلے میں درکار قانون سازی چاہئے وہ مرکز یا صوبوں کی سطح پر ضروری ہو، اسے حکومت بننے کے پہلے سو دنوں کے اندر مکمل کیا جائے گا۔

کسی بھی قسم کا مافیا چاہے وہ زمینوں پر قبضے کرنے میں ملوث ہو یا منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ کے خلاف قوانین کو مزید مؤثر اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا، اگر ان مافیا کی سرپرستی میں کوئی سیاسی جماعت یا شخصیت ملوث پائی گی، تو اس کے خلاف سخت قانونی کروائی عمل میں لائی جائے گی۔

پاکستان میں پولیس کے نظام کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کیا جائے گا اور پولیس کودرکار جدید ٹرینگ، اسلحہ، جدید سہولیات دی جائیں گی۔ محکمہ پولیس میں میرٹ پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا اور اسے دور حاضر کے جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔ فرینزک لیب کا قیام پہلے مرحلے میں ہر ڈویثرنل ہیڈ کواٹر اور دوسرے مرحلے میں ہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پر عمل میں لایا جائے گا اور جرائم کی جدید بنیادوں پر تفتیش کو لازمی بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں فوجداری قوانین میں فرنیزیک ثبوتوں اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کے لئے مناسب قانون سازی بھی کی جائے گی۔

بلوچستان کے عوام کی حقیقی سیاسی ناراضگیوں اور تکالیف کو دور کیا جائے گا۔ ناراض بلوچ سیاسی رہنماؤں سے رابطہ کر کے ان کی شکایات کو دور کرنے اور انھیں قومی سیاسی دھارے میں لانے کیلئے مذاکرات کئے جائیں گے۔ بلوچستان کی عوام کو NFC ایوارڈ میں ان کے حصے سے زیادہ وسائل فراہم کیئے جائیں گے، تاکہ کم ترقیاتی علاقوں کے عوام کو پاکستان کے دیگر علاقوں کے عوام کے برابر لایا جا سکے۔

6۔ احتساب اور شفافیت:
پاکستان کی داخلی سلامتی میں حائل رکاؤٹوں میں ایک بڑی رکاوٹ کرپش ہے۔ کرپش نہ صرف یہ کہ ہمارے اداروں کو تباہ و برباد کر رہی ہے، بلکہ دہشت گردی کا بھی اس سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا کی باوقار قومیں احتساب اور شفافیت کے عمل کو فروغ دیتی ہیں اور یہ ان کی ترقی کے عمل کو تیز کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ پاکستان میں احتساب کے عمل کو غیر جانب دار اور فروغ دینے کیلئے درکار قانون سازی ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہم پہلے سو دنوں میں احتساب کا شفاف نظام کے بارے میں قانون سازی کریں گے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے منصب اور ادارے کو مکمل آئینی تحفظ دے کر اُسے مالی اور انتظامی خود مختاری دی جائے گی اس ادارے میں ہر قسم کی سیاسی و شخصی مداخلت کو روکنے کیلئے قواعدو ضوابط کو مزید سخت کیا جائے گا۔ قومی احتساب بیورو کو بھی مکمل طور پر انتظامی اور مالی خود مختاری دی جائے گی اس ادارے میں بھی سیاسی اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے قواعد و ضوابط کو سخت کیا جائے گا۔

کرپشن کا راستہ روکنے کیلئے آمدنی سے زائد اثاثوں کے مسئلے میں سخت ترین قانوں سازی کی جائے گی جس میں (Onus of Proof) (بارثبوت )ملزمان پر ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن کا راستہ روکنے کیلئے جو قانون سازی کی گئی ہے، اس میں ملزمان کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ان کے اثاثے غیر قانونی ذرائع سے نہیں بنے یعنی (Innocent Until Proven Guilty) کے بجائے (Guilty Until Proven Innocent ) کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔اس سلسلے میں تفتیشی ٹیم، پراسیکیوٹر اور احتساب عدالت کے جج کو ہر قسم کے دباؤ سے محفوظ رکھنے کیلئے ضبط شدہ اموال کا (20% Each ) دیا جائے گا۔ ترقی یافتہ ممالک جنھوں نے کرپشن کے ناسور پر قابو پایا ہے۔ ان کی اس سلسلے میں کی گئی قانون سازی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ قانوں سازی کی جائے گی۔

7۔ معاشی پالیسی: (مضبوط معیشت ہی مضبوط پاکستان کی ضامن ہے)
پاکستان میں گزشتہ دس سال سے ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہماری برآمدات اور درآمدات کے تفاوت کی وجہ سے قیمتی زر مبادلہ کے ذخائر دن بدن تنزلی کا شکار ہیں۔ ٹیکسسز اور پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں مقابلے سے باہر ہو گی ہیں۔ غیرملکی و ملکی قرضوں کا حجم قومی ملکی پیداوار کے مقابلے میں خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ مندرجہ ذیل گراف حکومتی قرضوں اور قومی ملکی پیداوارکے درمیان تناسب کو ظاہر کر تا ہے۔ لہذا ہمیں فوری طور پر معاشی ایمرجنسی نافذ کر کے پاکستان کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کے لئے بھرپور کوششیں کرنی ہونگی۔

معاشی خودمختاری کا براہ راست تعلق پاکستان کی سلامتی کے ساتھ ہے۔ لہذا اس سلسلے میں تمام قومی جماعتوں اور اداروں کو ایک صفحے پر آنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت بننے کے پہلے سو دنوں میں معاشی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ جو مختصر، وسط مدتی اور طویل مدتی پالیسیاں بنائے گی۔ جنہیں پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے گا۔

معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی حکومتی غیر ترقیاتی اخراجات میں 50 فیصد کمی کی جائے گی۔ تمام حکومتی عہدیدار اور ادارے سادگی کی پالیسی پر عمل کریں گے۔

صدر، وزیر اعظم ،گورنراور دیگر تمام وفاقی و صوبائی حکومتی عہدیداروں کی موجودہ سرکاری رہائشگاہوں کو یونیورسٹیز و دیگر عوام مفاد کے اداروں میں تبدیل کیا جائے گا اور حکومتی عہدیداروں کی رہائش نہایت سادہ ہوگی۔برآمدات کے فروغ کیلئے ہرصنعت کے تجاراور محکمہ خزانہ کے عہدیداروں پر مشتمل ذیلی کمیٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ تاکہ ہر صنعت کے مسائل کے حوالے سے حل Tailored اور سبک ہو ۔غیر ملکی تعیشی سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کو کم از کم 50 فیصد بڑھایا جائے گا۔ جبکہ کوشش کی جائے گی کہ درآمدی اشیاء کی فہرست کو کم سے کم کیا جا سکے۔ سروس سیکٹر اور انڈیسٹریز کے فروغ کے لئے ٹیکنیکل ٹرینگ انسٹی ٹیوٹس کا قیام انڈیسٹریز کی مشاورت سے عمل میں لایا جائے گا۔ تاکہ تربیت یافتہ افراد ی قوت صنعتوں کومیسر ہو۔

پاکستان جعفرافیائی طور پر نہایت اہم خطے میں واقع ہے۔ ہم ایشیاء کی بڑی منڈیوں کے دھانے پر موجود ہیں۔ لہذا خطے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ راہداری صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔ پاکستان کے کم ترقیاتی علاقوں خاص طور پر معدنیاتی ذخائر سے مالا مال گلگت بلتستان اور بلوچستان کو خصوصی اقتصادی زون کا درجہ دے کر، وہاں موجود معدنیاتی ذخائر کو جدید طریقے سے نکالنے اور انکی مارکیٹنگ کیلئے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے گا۔

پاکستان کے معاشی مسائل اور غیر ملکی قرضوں کی ایک بڑی وجہ ٹیکس کی وصولی میں درپیش مسائل ہیں پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر کمپیوٹرائز اور عام فہم بنایا جائے گا۔ اس سلسلے میں سرخ فیتے کو کاٹنے کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے گی۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور غیر دستاویزی معیشت کو دستاویز ی حالت میں لانے کیلئے فیڈرل بورڈ آف ریویونیو کو درکار سہولیات میسر کی جائیں گی اور اس سلسلے میں مناسب قانون سازی بھی کی جائے گی۔

پاکستان بھر میں سیاحت کی انڈسٹری میں بڑہوتری کی بے بہا گنجائش موجود ہے۔ لیکن مناسب سہولیات نہ ہونے کے سبب بین الاقوامی سیاحت کا ملکی پیداوار میں حصہ صرف 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ اس صنعت کے فروغ کیلئے مناسب سہولیات اور ٹیکسوں کی چھوٹ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ عالمی سیاحتی اداروں اور سیاحتی نمائشوں میں ٹورازم بورڈ اور صنعت سے منسلک شخصیات پر مشتمل کمیٹیزکے ذریعے بین الاقوامی سیاحت کو پاکستان میں فروغ دیا جائے گا۔

قومی اورنجی بینکوں کے تعاون سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے فروغ کیلئے بلاسود قرضوں کو شراکت داری کی بنیادپر دیا جائے گا اور اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسی میں ضرورت کے مطابق تبدیلی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں بینکوں کے تعاون سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کوفروغ دینے کیلئے مشاورت ٹریننگ اور ٹیکنیکل ماہرین کی نگرانی کا پروگرام بھی ترتیب دیا جائے گا۔

Entrepreneurship کو فروغ دینے کیلئے آسان شرائط پر قرض اورتین سال کیلئے ٹیکسوں کی چھوٹ جیسی مراعات دی جائیں گی۔کم ترقی یافتہ علاقوں میں سرکاری زمینوں کی نشاندہی کر کے وہاں پر سپیشل انڈسٹریل زون کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ جہاں پر صنعتی پلاٹس آسان اقساط میں Entrepreneurs کو مہیا کئے جائیں گے۔ تاکہ کم ترقی یافتہ علاقہ میں ترقی کے عمل میں تیزی لائی جا سکے۔

8۔ توانائی پالیسی:
پاکستان میں مہنگی بجلی اور گیس کی کمیابی نے پاکستانی مصنوعات کی برآمدات پر نہایت منفی اثر ڈالا ہے۔ پچھلی حکومت نے نہ صرف یہ کہ مہنگی بجلی کے کارخانے لگائے (جو کہ فرنس آئل اور کوئلے پر چلتے ہیں)، جس کیوجہ سے ہمارا صرف درآمدی بل ہی نہیں بڑھا، بلکہ پاکستان کے ماحول پر بھی جس کے نہایت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اس پالیسی کو پاکستان کی معیشت کیلئے زہر قاتل سمجھتی ہے۔ لہذا ہم گلگت بلتستان میں اور خیبر پختونخوا میں فوری طورپر انرجی سروے کروائیں گے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر سے آنے والے دریاؤں پر ڈیم کی تعمیر سے تقریبا 80،000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ جو کہ نہ صرف سستی ہوگی۔ بلکہ اس ماحولیات پر برے نتائج بھی مرتب نہیں ہونگے۔ان ڈیمزکی تعمیر سے ہم سالانہ لاکھوں ایکڑ پانی کو بھی محفوظ کر کے پاکستان میں زراعت کو فروغ دے سکیں گے۔ جو فی الحال ہم سمندر میں پھینک کر ضائع کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں ہم تمام صوبوں پر مشتمل مشترکہ کونسل تشکیل دیں گے تاکہ تمام اکائیاں ملکر ایک فیصلے پر پہنچ سکیں۔

ہم کراچی سے ٹھٹھہ تک کے علاقے کو اسپیشل زون کا مقام دیں گے۔ اس( Wind Corridor )میں ہوا سے بجلی بنانے کے منصوبے لگائے جائیں گے۔ جس میں مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو مدعو کیا جائے گا۔ اسی طرح سولر انرجی کے ذریعے بجلی بنانے پر ٹیکس ریلیف اور دیگر سہولیات دی جائیں گی۔ سمندری لہروں کی طاقت سے بجلی بنانے کے حوالے سے بھی خصوصی مراعات دی جائیں گی۔

پنجاب اور سندھ میں نہریں نظام کے ذریعے سے علاقائی سطح پر بجلی بنانے کے چھوٹے یونٹس میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے گا اور پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے چھوٹے بجلی کے کارخانوں جو کہ (Renewable sources) سے بجلی بناتے ہونگے، کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ فیکٹریوں اور مکانوں کی چھتوں پر سولر پینلز کے ذریعے بجلی بنانے والوں سے اضافی بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے لئے ضروری اقدامات اور قانون سازی کی جائے گی۔

پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو فوری طور پر عملی شکل دی جائے گی۔ تاکہ پاکستان میں گیس کی ضروریات کو فوری طور پر پورا کیا جا سکے۔ پاکستان بھر میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کیلئے ملکی وبین الاقوامی کمپنیوں کو خصوصی مراعات دی جائیں۔

9۔ زراعت:
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ مگر ماضی کی حکومتوں خاص طور پر سابقہ حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کی وجہ سے آج ہماری زراعت تباہی کے دھانے پے کھڑی ہے۔ وہ کسان جو زمین کا سینہ چیر کر قوم کے لئے غلہ اُگاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت وقت اس کی مددگار ہوتی ظلم ہے کہ اس نے اس دہقان کے بچوں کے منہ سے بھی روٹی کا نوالہ چھیننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ زراعت کی ترقی ہماری اولین ترجیح ہے۔ زراعت کو ترقی دے کر ہم نہ صرف ملکی معیشت کو سنبھالا دیں گے بلکہ اس کے ذریعے بے روزگاری میں بھی خاطر خواہ کمی لائیں گئے۔

پاکستان میں زراعت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے ایک مارشل پلان تشکیل دیا جائے گا۔ جس میں کسانوں کو جدید زراعت کی تربیت، رہنمائی اورکھیتوں میں ٹیکنیکل مدد کیلئے صوبائی سطح پر موجود محکمہ زراعت کے عملے میں توسیع اور اسے جدید بنیادوں پر استوار کیا جائے گا۔ کسان کی پیداواری لاگت تین حصوں پر مشتمل ہے۔جس میں آبپاشی کے اخراجات، کھاد اورزرعی ادویات کے اخراجات اور زمین کی تیاری پر اُٹھنے والے اخراجات۔ ہم زرعی ترقیاتی بینک و دیگر کمرشل بینکوں کے ذریعے آسان ترین شرائط پر (Renewable بجلی سے چلنے والے ) ٹیوب ویل کی تنصیب اور واٹر منیجمنٹ کے آلات کیلئے قرضے فراہم کریں گئے۔ اس طرح کسان نہ صرف یہ کہ آبپاشی کے اخراجات سے مستشنیٰ ہوجائے گا۔ بلکہ بجلی کی خود پیداوار کی وجہ سے واپڈا پر سے زراعت میں استعمال ہونے والی بجلی کا بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ کھاد کے کارخانوں کو نہ صرف یہ کہ بلاتعطل گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ بلکہ قومی مسابقتی کمیشن کے ذریعے ان کی کھادوں کی قیمتوں کو بھی کنٹرول کیا جائے گا۔

25 ایکٹر اور اس سے کم رقبہ کاشت کرنے والے کسانوں کو کھادوں اور زرعی ادویات پر سبسڈی دی جائے گی۔ پاکستان اگرچہ دریاؤں اور گلیشئرز جیسی قدرتی نعمت سے مالا مال ہے مگر آنے والے دور میں پانی کی کمی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے ایسی فصلوں کی ترویج کی جائے گی جن کی پانی کی ضروریات کم سے کم ہو۔

ہم پاکستان میں باغبانی، سبزیوں کی کاشت، ڈیری فارمنگ، غلہ بانی اور جنگلات کی کاشت کو فروغ دے گے، اس سلسلے میں جدید مشینریز کی درآمد پر ٹیکسسز میں چھوٹ دی جائے گی۔ فصلوں کی برداشت اور انہیں محفوظ کرنے کے لئے درکار ٹرینگ اور آلات کیلئے بھی آسان قرضے مہیا کیئے جائیں گے۔ پاکستانی پھلوں اور سبزیوں کی برآمد کے کیلئے ایکسپورٹ پرموشن بیورو میں خصوصی ڈیسک بنایا جائے گا۔ پاکستانی زرعی مصنوعات کو Value added products میں تبدیل کرنے کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کارخانوں کو خصوصی مراعات دی جائیں گی۔

50 ایکٹر (نہری زمین )، 100 ایکٹر (بارانی زمین) سے بڑے زمینداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ زرعی ٹیکس سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی متعلقہ اضلاع میں زراعت کی ترقی اور دیہی سطح پر کسانوں کے فلاح وبہود کے پروجیکٹس میں صرف کی جائے گی۔ اس سلسلے میں مناسب قانون سازی بھی کی جائے گی۔

کسان کو عالمی کساد بازاری سے بچانے اور اس کی محنت کو ضیا ع سے روکنے کیلئے اجناس کی مناسب قیمت مقرر کی جائے گی۔ دیہات میں یونین کونسل کی سطح پر کسانوں کی کمیٹی بنائی جائے گی۔ جو کہ ضلعی کسان کمیٹی کیلئے اپنے نمائندے چنے گی۔ یہ ضلعی کمیٹی اوریونین کونسل کی سطح پر کسان کمیٹیاں ناقص زرعی ادویات، اجناس کی کم قیمت پر خرید کے عمل و دیگر مسائل پر حکومت کی مشاورت کریں گی۔

10۔ صحت: (بنیادی ستون احتیاط علاج سے بہتر)
پاکستان میں صحت کے مسائل روزبروز سنگین صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں، ہمیں فوری طور پر قومی سطح پر ہپاٹائٹس اور ذیابیطس کے کنٹرول کیلئے ایک قومی پالیسی بنانے کے ضرورت ہے۔ پاکستان میں یہ دونوں امراض خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں اور اس سلسلے میں ان دونوں بیماریوں سے بچاؤ اور انکے علاج کے لئے فوری طور پر ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ جس میں تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہونگے۔ ہم قومی بجٹ کا کم از کم 1% فیصد ان دو بیماریوں کے تدارک کے لئے رکھیں گے اور اگلے پانچ سال میں پاکستان کو ہپاٹائیٹس فری ملک بنانے کا ٹارگٹ مقرر کریں گے۔

ہم منشیات کے عادی افراد کا علاج معالجہ کریں گے اور منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد کیلئے فوجداری قانون میں تبدیلی کر کے کپیٹل پنشمنٹ منظور کروائیں گے۔ناقص اور جعلی ادویات بنانے والوں کے خلاف بھی قوانین کو سخت کیاجائے گا اور ان کی تمام جائیداد بحق سرکار ضبط کی جائیں گی۔

پورے پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ ضلعی حکومتیں اس بات کی ذمہ دار ہونگی، اگر کسی بھی ضلع میں عوام گندا پانی پینے پر مجبور ہوئے تو اس ضلع کے بلدیاتی نمائندوں کے خلاف قانونی کروائی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں قانون سازی پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر کی جائے گی۔

پہلے مالیاتی سال میں صحت کے لئے GDPکا کم از کم 5% فیصد مختص کیا جائے گا۔ جسے ہر سال 1% فیصد کے حساب سے بتدریج بڑھایا جائے گا۔ یونین کونسل کی سطح پر زچہ بچہ کی صحت کیلئے بنیادی ہیلتھ سنٹر کھولے جائیں گے۔

ای ٹیکنالوجی کے ذریعے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سے دیہی مریضوں کا چیک اپ لوکل دیہی سنٹر ز میں کروانے کا انتظام کیا جائے گا۔ تمام پاکستانیوں کے شناختی کارڈز نمبرز سے ان کا ہیلتھ ریکارڈ مرتب کیا جائے گا۔ دیہی اور کم ترقیاتی یافتہ علاقوں کو نئے ہیلتھ سنٹرز اور سہولیات کی تقسیم میں ترجیح دی جائے گی۔

صحت کے بارے میں ہماری پالیسی کا بنیادی ستون احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ لہذا پورے ملک میں حفظان صحت کے اصولوں کی ترویج کی جائے گی۔ پرائمری سکولوں کی سطح سے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی نہ صرف تربیت دی جائے گی۔ بلکہ دیہی علاقوں میں مساجد اور دیگر کمیونٹی سنٹرز کے ذریعے عام عوام کو بھی حفظان صحت کے اصولوں کی طرف متوجہ کیا جائے گا۔ اشیاء خورد و نوش بنانے اور بیچنے والے اداروں سے بھی ان اصولوں کی پاسداری سختی سے کروانے کیلئے مناسب اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔

11۔ تعلیم و تربیت:(MWM کا خواب تعلیم یافتہ پاکستان)
کسی بھی قوم کی ترقی میں تعلیم و تربیت بنیادی عنصر ہے۔ پاکستان میں شعبہ تعلیم کی دگر گوں حالت ہماری قومی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم نئی نسل میں 100% لیٹریسی ریٹ کو اپنا ہدف مقرر کریں گے ۔پاکستان اس وقت جنوبی ایشیا ء میں GDP کا سب سے کم حصہ تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ ہم اس رویے کو فوری طور پر بدلیں گے اور پہلے سو دنوں میں ہی تعلیم ایمرجنسی نافذ کریں گے۔ہم فوری طور پر GDP کا 5% فیصد شعبہ تعلیم کیلئے مختص کریں گے۔ جس میں ہر سال بتدریج 2% کا اضافہ کیا جائے گا۔ پورے پاکستان یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا۔ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت ہوگی۔ غریب اور نادار گھرانے کے بچے جو کہ معاشی مجبوری کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ان کو کم از کم سات ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ ابتدائی تعلیمی اداروں میں بچوں کی لازمی حاضری کو کم از کم 95% فیصد قرار دیا جائے گا۔

پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے میٹرک کے بعد انٹرنشپ کے پروگرام کا اجراء کیا جائے گا تاکہ مستقبل کی افرادی قوت کے پاس صنعتوں کی پریکٹیکل کی عملی معلومات اور ان میں کام کرنے کاتجربہ موجود ہو۔ وہ تمام صنعتیں جو انٹرنشپ پروگرام کا اجراء کریں گی انھیں ٹیکس ریلیف کی مد میں مراعات دی جائیں گی۔ انٹرنشپ پروگرامز جو کہ کم از کم دو سال پر مشتمل ہونگے کو ایف اے کے برابر ڈپلومہ کی ڈگری دی جائے گی۔

پاکستان بھر کے مختلف ٹیکسٹ بک بورڈ ز کو ختم کر کے وفاقی سطح پر ایک ٹیکسٹ بک بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔ جس میں قومی اور عالمی ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ ٹیکسٹ بک بورڈ کو ہر قسم کے سیاسی و انتظامی دباؤ سے پاک رکھنے کیلئے درکار قانون سازی کی جائے گی۔ آٹھویں جماعت تک ذریعہ تعلیم اُردو کو قرار دیا جائے گااورناظرہ قرآن کریم کوبھی لازم قرار دیا جائے گا۔ علاقائی زبانوں کو فروغ دینے کیلئے نویں اور دسویں جماعت میں اسے اختیاری مضمون کے طور پر رکھا جائے گا۔ اس طریقہ کے ذریعے ہم پورے ملک میں یکساں معیار تعلیم رائج کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ ایسا نصاب تشکیل دیا جائیگا جوہمیں مہذب دنیا کی صف میں کھڑا کر سکے نیز جو ہمارے اندر تجزیاتی سوچ اور اشتراک عمل کے جذبے کو فروغ دے سکے ۔

بالغ افراد میں شرح خواندگی کو بڑھانے کیلئے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شب کے تحت تعلیم بالغاں کے پروگرام کا اجراء کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں صنعت کاروں اور مخیر حضرات کی مدد لی جائے گی۔ ہر وہ صنعتی ادارہ جو اپنی افرادی قوت کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرے گا۔ اسے ٹیکس ریلیف کی مد میں مراعات دی جائیں گی۔

اعلیٰ تعلیم کی ترقی کیلئے ہر ضلع میں بتدریج بین الاقوامی سطح کی کم از کم ایک یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔ ہر ادارے میں اعلیٰ تعلیم کا 20 فیصد کوٹا مستحقین کیلئے ہو گا۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی ایک مکمل پلان ترتیب دیا جائے گا۔ ہم اپنی یونیورسٹیز کو نئے خیالات اور نئی ایجادات کا مرکز بنائیں گے۔

12۔ انتظامی ڈھانچہ:
گلگت بلتستان کے غیور اور محب وطن عوام جنہوں نے خود ڈوگرا راج سے جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی اور خود پاکستان میں ضم ہوئے انھیں 70 سال گزر جانے کے باوجود آئینی حقوق کا نہ دیا جانا ان محب وطن پاکستانیوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ ہم گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق دے کراسے پاکستان کا پانچوان صوبہ بنانے کے لئے قانون سازی کریں گے تاکہ اس خطے کے پاکستانیوں کو بھی باقی ملک کے ساتھ ترقی کے مواقع میسر آ سکیں۔

ہم لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کے مخالف ہیں۔ لیکن انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے ۔ ہم جنوبی پنجاب کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کیلئے اتفاق رائے قائم کریں گے اور اس سلسلے میں جلد ازجلد مناسب قانون سازی کر کے جنوبی پنجاب کو ایک علیحدہ صوبہ بنائیں گے۔

جمہوریت کے فوائد عام آدمی تک اسی صورت میں پہنچ سکتے ہیں ۔جب لوگوں کے مسائل ان کے علاقے میں ہی حل ہوں۔اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے وفاق کی سطح پر اتفاق رائے سے قانون سازی کر کے پورے ملک میں ایک جیسا بلدیاتی نظام قائم کیا جائے گا جس میں ضلعی حکومتوں کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح وسائل کو اکٹھا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو شروع کرنے کے اختیارات ہونگے۔ سامراج کی باقیات ڈپٹی کمشنری نظام کو پورے ملک میں ختم کر کے عوامی بلدیاتی نمائندوں کو بااختیار بنایا جائے گا۔

13۔ عدلیہ:
مجلس وحدت مسلمین ترجیحاً پورے عدالتی نظام کو ازسرنو تشکیل دے گی۔ ہم پاکستان کا عدالتی نظام قرآنی اصولوں پر استوار کریں گے۔ نئی قانون سازی کے مطابق قانونی دستاویز ازسر نو تیار کی جائیں گی۔نیز جو اسلامی ممالک اس سلسلے میں اچھا تجربہ رکھتے ہیں ۔ان کے تجربات سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔

ہم عدلیہ کے وقار، خودمختاری اور آزادی کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے اور اس میں انتظامیہ کی کسی بھی قسم کی مداخلت کا سد باب کیا جائے گا۔ عوام کیلئے فوری، آسان اور مفت انصاف کے حصول کو ممکن بنایا جائے گا۔ عدلیہ انتظامی اور مالی اعتبار سے بھی مکمل آزاد ہو گی۔ عدالتی پولیس فورس جو کہ مروجہ پولیس ڈیپارٹمنٹ سے مکمل علیحدہ ہو گی، تشکیل دی جائے گی۔

امیر، غریب، شہری، دیہاتی، عدالتی باریکیوں کو جاننے والے، کم علم یا جاہل قانون کی نظر میں سب برابر ہونگے اور کسی کو قانونی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔

ہم عدلیہ میں ایک ایسا محکمہ قائم کریں گے۔ جو جرم کے اسباب اور عوامل کو گہری نظر سے تلاش کر کے اپنی ماہرانہ تجاویز قانون ساز اداروں کو بھیجے گا تاکہ ان پر عملدر آمد کر کے جرائم سے پاک پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔ عدلیہ میں ایک ایسے محکمہ کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ جو ججز ،وکلاء اور دیگر عدالتی عملے کی قانونی خلاف ورزیوں پر گہری نگاہ رکھے گا اور اسے عوامی عدالت میں پیش کرے گا۔ تاکہ عدلیہ کا کردار غیر مشکوک قرار پائے۔

14۔ اقلیتیں:
پاکستان کے آئین کے مطابق تمام اقلیتوں کو اپنے مذہبی عقائدکے تحت زندگی گزارنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ مجلس وحدت مسلمین آئین میں دیئے ہوئے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔تمام ریاستی اداروں میں اقلیتی نمائندوں کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔ تمام اقلیتوں کے لئے ان کے مذہبی عقائد کیمطابق فیملی لاء کیلئے درکار قانون سازی کو پہلے سو دنوں کے اندر مکمل کیا جائے گا۔

اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کیلئے اسلامیات لازمی مضمون نہیں ہو گی۔ بلکہ اس کی جگہ پر اسے دنیا کے تمام مذاہب کے بارے میں معلومات پر مشتمل مضمون (Religious Studies ) پڑھانے کے انتظامات ہر سکول کی ذمہ داری ہو گی۔نصاب میں اقلیتی برادری کے حوالے سے ہر قسم کے امتیازی مواد کو ختم کیا جائے گا۔

اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے شادی اور طلاق ان کے مذہبی عقائد کیمطابق رجسٹرڈ کرنے کے لئے درکار قانو ن سازی بھی پہلے سو دنوں کے اندر مکمل کی جائیگی۔ انسانی حقوق کی وزارت میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک کے حوالے سے ایک خاص ڈیسک تشکیل دیا جائے گا۔ جہاں پر اقلیتی برادری اپنے ساتھ کسی بھی سطح پر برتے گئے امتیازی سلوک کے خلاف شکایات درج کروا سکے گی ۔اور اس پر تیس دنوں کے اندر اندر کاروائی کی جائے گی۔

15۔ ثقافت:
پاکستان میں اُردوزبان کو فوری طور پر دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔

ہم اسلامی ثقافت کے تحفظ کے لئے بنیادی اقدامات انجام دیں گے۔ اس خطے کی ثقافت جو کہ اسلامی اور خاندانی اقدار پر مشتمل ہے۔ ان کے تحفظ اور انکی ترویج کیلئے محکمہ تعلیم، ذرائع ابلاغ اور فنون لطیفہ کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے گی اور ان کی سفارشات کی روشنی میں ایک جامع ثقافتی پروگرام پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔

ہم پاکستان کے ثقافتی اثاثوں کی حفاظت کریں گے۔ محکمہ اثار قدیمہ کا احیاء کریں گے۔ فارسی اور عربی رسم الخط جو ہماری ثقافت کا اہم حصہ ہے کا احیاء کریں گے۔ اقبالیات کو نصاب میں مستقل مضمون کے طور پر متعارف کروائیں گے۔


ترتیب و تدوین: ٹی ایچ بلوچ

Page 2 of 5

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree