وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ اصغر عسکری کا بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بھکر سے ہے، ان کا شمار ملک کے متحرک اور فعال علمائے کرام میں ہوتا ہے، انہی خدمات کے نتیجے میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، اس وقت وہ انچارج مرکزی سیکرٹریٹ ایم ڈبلیو ایم اور مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی ملی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جبکہ جامع الرضا(ع)اسلام آباد میں مدرس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے داعش کی پاکستان میں موجودگی، لال مسجد، دہشت گردی اور دیگر اہم موضوعات سے متعلق علامہ اصغر عسکری کا انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید باقر النمر نفس ذکیہ کے قتل پر پاکستان میں احتجاج کم ہوا، شہید کا چہلم بھی خاموشی سے گزر گیا، کیا وجوہات ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: شہید باقر النمر ایک آفاقی شخصیت تھے اور ان کی سعودی عوام کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد انکے بلند ویژن کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں ان کا بھرپور تعارف تھا، اسی لئے ان کی شہادت پر امریکن صدر بھی بیان دینے پر مجبور ہوتا ہے اور برطانیہ کا وزیراعظم بھی مذمتی بیان جاری کرتا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں اس سانحے پر احتجاج کی بات ہے، تو میرے خیال میں تقریبا ملک کے تمام بڑے شہروں میں بھرپور احتجاج ہوئے اور اسلام آباد میں ایک ہفتہ کے اندر تین بڑی ریلیاں ہوئیں۔ اگرچہ آپ کی بات درست ہے کہ جس سطح پر احتجاج ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہو پایا۔ تمام شیعہ جماعتیں اگر اپنی ذمہ داری ادا کرتیں تو شاید اس سے بڑھ کر احتجاج ہوسکتا تھا۔ جہاں تک چہلم کی بات ہے تو تعزیتی ریفرنس بہت سے شہروں میں ہوئے کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور اسلام آباد وغیرہ میں ایک لمبی لسٹ ہے ہمارے پاس، چونکہ ہم نے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ سے تمام اضلاع میں رابطے کئے، ہمارے علم میں ہے کہ کہاں کہاں شہید باقر النمر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی میں اس حوالے سے بہت بڑے بڑے اجتماعات ہوئے۔ جس میں شہید کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی فوج سعودی اتحاد میں شامل ہے، اور آئندہ دنوں میں چونتیس ملکوں کے اتحاد میں اہم کارروائیاں بھی کرسکتی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کا کیا ردعمل ہے۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! 34 ممالک کے اتحاد کا ڈرامہ اب دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ سعودی حکومت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ورنہ دنیا کو معلوم ہے کہ جس اتحاد میں دہشت گردی اور داعش کے خلاف فرنٹ لائن پر جو ممالک ہیں، اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے اور وہ اتحاد کس حد تک چل سکتا ہے۔ ابھی کل کی خبر ہے کہ متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے، چونکہ ان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ سعودیہ پہلے یمن کی جنگ سے تو نکلے، پھر شام جانے کی بات کرے۔ یمن کے انصار اللہ ہی سعودی حکومت کے خاتمے کا باعث بنیں گے اور جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو پاکستانی حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اس اتحاد کا حصہ بننے کی کھل کر بات نہیں کی۔ چونکہ پاکستان جانتا ہے کہ افغان وار میں جا کر اسے کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہاں ملکوں کے آپس میں دفاعی معاہدے ہوتے ہیں۔ سعودیہ کے ساتھ پاکستان کے کچھ دفاعی معاہدے ہیں۔ فوجی تربیت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر حکومت پاکستان اس اتحاد کا باقاعدہ حصہ بن کر شام کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتی ہے تو اس کے خلاف نہ صرف مجلس وحدت مسلمین بلکہ پاکستان کی عوام بھرپور احتجاج کرے گی۔ کیونکہ ملکی مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے اور اس پر کبھی سودے بازی نہیں کرنے دیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاک فوج دہشتگردوں کیخلاف پرعزم ہے لیکن دہشتگردی کا عفریت ختم ہونیکا نام نہیں لے رہا، گذشتہ دنوں جامع القائم ٹیکسلا پر بھی دہشتگردانہ حملے کی کوشش کی گئی، کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔؟
علامہ اصغر عسکری: اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور دہشت گردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی، مگر صرف فوج کافی نہیں ہے بلکہ حکومت اور عوام کو بھی ساتھ دینا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان کے 22 نکات پر کتنی سنجیدگی سے عمل ہوا ہے؟ ایک اہم سوال ہے؟ ہمارے وزیر داخلہ صاحب اعتراف تو کرتے ہیں کہ بعض مدارس میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، مگر ان مدارس میں سے کسی ایک مدرسہ کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا یہ فوج کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ آج بھی انہیں مدارس میں دوسرے مسالک کے لوگوں کا کفر پڑھایا جا رہا ہے اور پھر اس میں علما و مفتیاں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کالعدم جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، بلکہ ملک کی بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں انہیں اپنے ساتھ بٹھاتی ہیں۔ ان سے تعاون کرتی ہیں۔ تو جب تک یہ تمام طبقات اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے، پاکستان میں امن ایک خواب رہے گا۔

اسلام ٹائمز: جنوبی پنجاب میں ٹارگٹڈ آپریشن کی بات کی گئی، تاہم عمل درآمد نظر نہیں آرہا، کیا کہیں گے۔؟
علامہ اصغر عسکری: جنوبی پنجاب دہشت گردوں کا گڑھ ہے، کے پی کے، کراچی، اندورن سندھ بلکہ بلوچستان میں جہاں جہاں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ اس کے دہشت گردوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہوتا ہے، لیکن حکومت چونکہ سنجیدہ نہیں ہے، خاص طور پر پنجاب حکومت کو اپنے اقتدار سے سروکار ہے۔ عوام مرتی ہے تو مرتی رہے۔ یہ ان کا مسئلہ نہیں، ہاں جس دن یہ دہشت گرد ان حکمرانوں کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور انکے لئے خطرہ بنتے ہیں تو پھر وہ انکو مار بھی دیتے ہیں، جیسے ملک اسحاق کو مارا گیا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت کی ترجیج کبھی عوام رہی ہی نہیں ہے بلکہ اپنے مفادات کے لئے اس ملک میں سیاست ہوتی ہے۔ ہمارا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ جب تک ان علاقوں میں آپریشن نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے اور یہاں آپریشن نہیں ہوگا کیونکہ حکومت کے بعض وزرا کے ان دہشت گردوں سے رابطے ہیں اور وہ ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لال مسجد مافیا اس قدر طاقتور کیوں ہے کہ وزیر داخلہ بھی کوئی اقدام اٹھا نہیں پا رہا۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! لال مسجد کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جاتی، آج حکمرانوں سے پاکستان کی پوری عوام کا یہی سوال ہے کہ کیا وجہ ہے وزیر داخلہ صاحب ایک طرف تو کہتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی FIR نہیں ہے، ہوگی تو کاروائی کریں گے اور جب FIR کا ریکارڈ دیا جاتا ہے تو پھر نہ صرف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ اسلام آباد کی انتظامیہ کے لوگ رات کی تاریکی میں مولانا کو تھانے لاتے ہیں، تاکہ FIR ختم کرائی جا سکے، جبکہ کسے نہیں پتہ کہ لال مسجد نے دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو بنانے اور باقی رکھنے میں لال مسجد کا کردار ہے۔ ملک کے آئین کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے خلاف تو غدارِ وطن کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لال مسجد اتنی طاقتور نہیں بلکہ ہمارے حکمران بزدل ہیں، ورنہ حکومتوں کے پاس بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنا مفاد اور اپنا اقتدار عزیز ہے، وہ کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے، جس سے انکے اقتدار اور مفاد کو ذرہ برابر خطرہ ہو۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کئی پریس کانفرنسز میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں، آپ اس حوالہ سے کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! اب میڈیا اتنا آزاد ہے کہ لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ داعش کا پاکستان میں وجود نہیں ہے، حقیقت میں اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ سب سے بڑا سپورٹر خود مولوی عبدالعزیز ہے اور پھر پاکستان بھر میں جو لوگ ابو بکر بغدادی کو ویلکم کہہ رہے ہیں اور داعش کی وال چاکنگ کر رہے ہیں، یہ کون ہیں؟ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ یہ کالعدم جماعتیں ہیں، باقاعدہ کوئی داعش کا سٹریکچر نہیں ہے۔ یہ دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ داعش ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے۔ جو لوگ بھی اس آئیڈیالوجی کے حامی ہیں، وہ داعش ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو داعش سے منسلک نہ کرتے ہوں۔ اصل وجہ وہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا کہ اگر وزیر داخلہ صاحب یہ مان بھی لیں کہ پاکستان میں داعش کا وجود ہے، تو پھر خود ان کی کارکردگی زیر سوال آتی ہے اور کبھی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہونگے۔ بہرحال جس دن ہمارے حکمران ان دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ ہوگئے، تو پھر ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ جن لوگوں کو پھانسی دی گئی ہے، آپ لسٹ اٹھا کر دیکھیں 360 افراد میں سے صرف 25 فیصد دہشت گرد تھے، ورنہ تو عام ذاتی جھگڑوں میں جو لوگ ملوث تھے، ان کو پھانسی ہوئی ہے۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو اپنے خصوصی انٹرویو میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری امور سیاسیات سید ناصرعباس شیرازی کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین کا نون لیگ سمیت بیک وقت کئی جماعتوں سے مقابلہ تھا، ایم ڈبلیو ایم اس الیکشن میں ووٹوں کے حساب سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، ہم نے لوگوں کے دل جیتے ہیں، پاکستان میں سیاسی کردار ادا کئے بغیر ریاستی امور سے متعلق کئے جانے والے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوا جاسکتا، گلگت بلتستان میں اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے دلوں پر حکمرانی کریں گے۔ اگر علامہ ساجد نقوی صاحب کی جماعت ان جگہوں پر جہاں ان کے امیدوار کھڑے نہیں تھے یا دوسروں کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کیا اگر وہاں پر ہمیں سپورٹ کیا جاتا تو ان کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوتا اور داخلی وحدت بھی پروان چڑھتی۔ اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا حق تھا، جو انہوں نے استعمال کیا۔
 

سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کو خاطر خواہ نشستیں نہ ملنے، آغا راحت کے الیکشن فارمولے کی ناکامی، مسلکی سیاست اور ملی حقوق کی بازیابی سے متعلق اہم اور تلخ سوالات پر مشتمل ایک تفصیلی انٹرویو کیا گیا ہے، اسلام ٹائمز کی جانب سے کوشش کی گئی ہے کہ عام افراد کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کو انٹرویو کا حصہ بنایا جائے، اس حوالے سے مخصوص فورم پر اٹھائے گئے سوالات کو بھی انٹرویو میں شامل کیا گیا ہے، جو پیش خدمت ہیں۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان انتخابات سے پہلے اور الیکشن کمپیئن کے دوران میں آپکو حاصل شدہ نتائج کی توقع تھی۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ یہ جانتے ہوئے کہ گلگت بلتستان ایک حساس علاقے ہے، جہاں عوام کو آئینی حقوق نہیں ملے اور پاکستان میں بھی انہیں مین اسٹریم میں شامل نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے وہاں پر عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ کشمیر کی طرح جو بھی وفاق میں حاکم ہوتا ہے، وہی گلگت بلتستان میں بھی حکومت کرتا ہے اور وہی کشمیر میں بھی حاکم ہوتا ہے، طول تاریخ میں کسی حد تک یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی ہے، یہ نظریہ کسی حد تک ابھی موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم نے اس نظریہ کے مقابلے میں بھی اسٹینڈ لینا تھا، ظاہر ہے ہم یہاں کبھی حکومت میں نہیں رہے، حکومت میں نہ رہنے کی وجہ سے جو حکومت میں رہتے ہوئے لنکس بنتے ہیں، وسائل دستیاب ہوتے ہیں تو یہ ساری چیزیں ہمارے پاس نہیں تھیں، کوئی ایسا بندہ نہیں تھا جو کہتا کہ مجلس وحدت مسلمین نے انہیں نوکریاں دی ہیں جبکہ جو حکومتیں کرچکی ہیں وہ جماعتیں یہ کہتی ہوئی نظر آئیں، یہ جماعتیں نوکریوں سے لیکر احسانات کی لمبی لسٹ گنواتی تھیں، یہ علاقہ مذہبی علاقہ ہے، لیکن ہم بنام مذہب اور مسلک چیزوں کو آگے نہیں بڑھانا چاہ رہے تھے، ہم ایسی کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہ رہے تھے کہ فلاں کو ووٹ دینا حرام ہے فلاں کو مستحب ہے، مذہب نے جو اقدار متعارف کرائی ہیں، جن میں ڈیلور کرنا، لیاقت، قابلیت اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہ رہے تھے اور ہماری پوری الیکشن کمپیئن اس بات کی غماز ہے۔

ہم اپنے امیدواروں کی تعلیمی قابلیت، ان کا سابقہ کردار اور علاقے میں ان کی نیک نامی، اپنے منشور اور اپنے پروگرام کے مطابق آگے بڑھنا چاہ رہے تھے اور آگے بڑھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک چیلنج تھا، کیونکہ اس سے پہلے مذہبی اور سیکولر دونوں جماعتوں کے تجربات ہوچکے ہیں اور دونوں نے عوام کو ڈیلور نہیں کیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک جماعت نے پہلے آٹھ نشستیں حاصل کی تھیں، بعد میں چار پر آگئی اور اس بار ان کی سیاسی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی اور آج اس الیکشن میں عوام نے انہیں ٹھکرا دیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ گذشتہ دو الیکشنز کے دوران کوئی مذہبی جماعت براہ راست گلگت بلتستان کے الیکشن میں وارد نہیں تھی، جو تقریباً پندرہ سال کا وقفہ بنتا ہے تو اس بار ہم پہلی دفعہ مذہبی جماعت کے ٹائٹل سے داخل ہوئے، تاہم ہماری تمام تر کوشش اپنی لیاقت، استعداد، پڑھے لکھے بے عیب امیدواروں اور اپنے منشور کی بنیاد پر جانا تھا۔ ہمیں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا، اس لئے جب ہم کامیابی اور ناکامی کی بات کریں گے تو ان چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے کریں گے۔ ہمیں پہلے دن سے اندازہ تھا کہ ہم جس جماعت کیخلاف الیکشن لڑنے جا رہے ہیں وہ مسلم لیگ نون ہے، یعنی وفاق میں موجود جماعت کے پنجاب میں پنتیس پنکچر کے تجربات موجود ہیں، وہ ٹیکنکل دھاندلی کرنے کی ماہر ہے، یہ جماعت ٹھپوں سے زیادہ ٹیکنکل اندازہ میں دھاندلی کراتی ہے اور اس میں مہارت رکھتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ نون لیگ نے بارہ نگران وزراء تعینات کئے جو ایک تاریخ رقم کی گئی، آج تک اتنے وزراء مقرر نہیں کئے گئے، لیکن نون لیگ نے الیکشن جیتنے کیلئے تمام تر ریکارڈ توڑ ڈالے، آئینی لحاظ سے جہاں دس سیٹیں ہوں وہاں ایک وزیر تعینات کیا جاسکتا ہے، اس لئے گلگت بلتستان میں چوبیس سیٹیں تھیں تو یہاں تین وزراء کی گنجائش بنتی ہے، لیکن انہوں نے تمام جماعتوں کے تحفظات کے باوجود ان کی تعداد ہر حال میں بارہ رکھی۔ ایک وزیر کو دو حلقے دیئے گئے، تاکہ وہ وزیر نون لیگ کیلئے سیاسی اہداف حاصل کرسکے۔ اسی طرح نگران وزیراعلٰی نون لیگ کا تھا، جس پر تمام جماعتیں اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کرچکی تھیں۔ اسی طرح نون لیگ نے ایک غیر مقامی شخص کو گورنر تعینات کیا، جو اس کیلئے کام کرسکے اور ہر حال میں حکومت سازی کیلئے الیکشن پر اثر انداز ہوسکے۔ چیف سیکرٹری جس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، اسے تبدیل کر دیا گیا۔ لہٰذا ہمیں اندازہ تھا کہ ہمارا حکومتی وسائل اور نون لیگ کی دھاندلی کیخلاف الیکشن ہے، سب جانتے ہیں کہ الیکشن سے چند دن پہلے وزیراعظم نے وہاں کا دورہ کیا اور اربوں روپے کے پروجیکٹس کا اعلان کیا، یہ بنیادی طور پر ایک رشوت تھی جس کا اعلان کیا گیا، یہ فقط الیکشن کی تاریخ سے دو دن پہلے اعلان کیا گیا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ اس سارے منظر نامے میں مجلس وحدت مسلمین ایک نئی سیاسی مذہبی جماعت تھی، جس نے ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسی حساب سے ہم نے توقعات رکھی ہوئی تھیں، ہم نے نون لیگ کے مقابلے میں اپنے پیغام، خدمات اور اپنے منشور کے حساب سے توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں، ہمیں معلوم تھا کہ جتنی اچھی ٹیم متعارف کرائیں گے، اتنا ہی اچھا رزلٹ ملے گا۔ ہماری توقعات تھیں کہ ہمیں چار سے چھ سیٹیں مل جائیں گی۔

جب ہماری الیکشن کمپیئن اپنے عروج پر پہنچی تو اس کا غیروں نے بھی اعتراف کیا کہ اگر کسی کی الیکشن کمپئین منظم انداز میں چلی ہے تو وہ مجلس وحدت کی ہے۔ جس انداز میں ہم نے اپنی ٹیم اتاری، جس انداز میں اپنے منشور کو بیان کیا، جس انداز میں اپنے پیغام کو لوگوں تک منتقل کیا، انٹرویوز ہوئے اس سے ہماری اور قوم کی توقعات بڑھیں، یہ یاد رکھیں کہ جب میڈیا میں جنگ چل رہی ہوتی ہے تو کہیں بھی یہ بیان نہیں کیا جاتا ہمیں چار یا چھے سیٹیں ملیں گے، کیونکہ ہم خطے کی جنگ لڑ رہے تھے، اس لئے ہم نے کہیں بھی یہ نہیں کہا ہم اتنی سیٹیں لے لیں گے۔ نہ ہی اس طرح کی چیزوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ہماری توقعات مشروط تھیں، بعض جماعتوں نے جس انداز میں اپنی الیکشن کمپین چلائی ہے، وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ ہیلی کاپٹرز استعمال میں لائے گئے، میڈیا کی لائیو کوریج والی ڈی ایس جیز منگوائی گئیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت لوگوں میں پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا، یہ چیزیں ہمارے لئے ممکن نہیں تھا۔ اپنی گلگت بلتستان الیکشن میں پہلی انٹری کی بنیاد پر ہم دوسری بڑی جماعت ٹھہرے ہیں، ہم نے لوگوں کے دل جیتے ہیں، ہم گلگت بلتستان کے طول عرض میں چلے گئے ہیں، ہر جگہ پر ہمارا نیٹ ورک بن گیا ہے، اسٹرکچر کھڑا ہوگیا ہے، پیغام چلا گیا ہے، جن پانچ سیٹوں کی امید تھی ان میں سے ایک سیٹ پر ہمیں فقط نو ووٹوں سے ہرایا گیا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ روندو کی سیٹ پر دوبارہ گنتی نہیں ہونے دی گئی جبکہ کئی حلقوں میں ایک نہیں چار چار بار گنتی کرائی گئی۔ خود تحریک انصاف کے امیدوار کو دوبارہ گنتی کرکے ایک ووٹ سے ہرایا گیا اور اکبر تابان کو جتوایا گیا۔ ہمارا اس طرح کی ریاستی مشینری سے مقابلہ تھا، حتٰی حلقہ 3 میں بھی ہمارے ساتھ یہی صورتحال کی گئی۔ میری توقعات کے مطابق ہمیں دو سیٹیں مزید ملنی چاہیے تھیں، جو ریاستی مشینری استعمال کرکے نہیں جیتنے دی گئیں۔ ایک سیٹ پر ہمیں نو ووٹوں سے اور ایک پر ہمیں دو یا اڑھائی سو ووٹوں سے ہرایا گیا ہے، لیکن ہمارے دوبارے گنتی کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا، ہم نے اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کمپین پر کتنی رقم خرچ کی گئی، کیا اس خرچ کی گئی رقم کے مطابق اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس حوالے سے بہت زیادہ پروپیگنڈے کئے گئے ہیں، لیکن میں آپ کو بتاوں کہ اگر کسی جماعت نے سب سے کم انویسٹمنٹ کی ہے تو وہ مجلس وحدت مسلمین ہے۔ چند مثالیں دوں گا، نون لیگ نے پوری ریاستی مشینری کا استعمال کیا ہے، جس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ پیپلزپارٹی نے دو ہیلی کاپٹر استعمال کئے، مرکز کی سطح پر پیپلزپارٹی کی بڑی ٹیم اس الیکشن میں اتاری گئی اور مرکز کی طرف سے تمام الیکشن کمپین کو آرگنائز کیا گیا، مرکزی ٹیم میں پیپلزپارٹی کے سابق چیئرمین سینیٹ نئیر حسین بخاری، قمر زمان کائرہ، سید خورشید شاہ، سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا، ندیم افضل چن سمیت کئی دیگر افراد کو مرکز کی طرف سے بھجوایا گیا، جنہوں نے بھرپور انداز میں الیکشن کمپین چلائی۔ آپ دیکھیں کہ ایک ہیلی کاپٹر فی گھنٹہ چار سے پانچ لاکھ روپے چارج کرتا ہے اور دو ہیلی کاپٹر چوبیس گھنٹے کئی دنوں تک پی پی پی کی الیکشن کمپین ٹیم کے پاس رہے۔ ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی سابقہ حکومت میں رہی ہے اور ان کے سابقہ تجربات بھی رہے ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان تحریک انصاف کی بات کریں تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے پاس بھی ہیلی کاپٹر رہا، جتنے اجتماعات ہوئے ان میں ہیلیز کے ذریعے شرکت کی گئی، حتٰی تحریک انصاف میڈیا کی ٹیمیں لیکر آئی، ان کی لائیو نشریات نشر کرنے والی ڈی ایس این جی تک الیکشن میں اتاری گئیں اور تحریک انصاف کی طرف سے میڈیا کو رہائش سے لیکر ہر طرح کی سہولت دی گئی۔ اس طرح ایک مذہبی جماعت نے گلگت بلتستان میں جی بی کے نام سے ٹی وی چینل نکالا۔ آپ کو پتہ ہے ٹی وی چینل ایک بہترین ٹول ہے جس کے ذریعے سے آپ پروپیگنڈہ کرسکتے ہیں اور اپنی بات لوگوں تک باآسانی منتقل کرسکتے ہیں، ہماری طرف سے چند سیکنڈز پر مشتمل فقط اشتہارات دیئے گئے، یا اخبارات میں اشتہارات چھپوائے گئے جبکہ دوسری طرف مذکورہ باتوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ ٹی وی چینل فقط اسی سیاسی اہداف کے لئے لگایا گیا، اس کے مقابل میں مجلس وحدت کا فنانشنل تقابل بنتا ہی نہیں ہے، ہمارے کیخلاف پروپیگنڈہ اس لئے زیادہ کیا گیا ہے کیونکہ ہمارا ہیومن ریسورس زیادہ استعمال ہوا ہے، اس لئے نون لیگ یا سابقہ حکومت کرنے والی جماعت پیپلزپارٹی کیلئے مسئلہ مجلس وحدت تھی، سب کو چیلنج دیا ہوا تھا اور سب کی توپوں کا رخ بھی مجلس وحدت مسلمین ہی کی طرف تھا، اور ظاہر ہے کہ ہم نے ان سب کو چیلنج کیا ہوا تھا، اس لئے یہ پروپیگنڈا فطری تھا۔ آپ دیکھیں کہ مجلس وحدت مسلمین واحد جماعت تھی جس کی تمام لیڈرشپ بائی روڈ گئی ہے اور آئی ہے۔ علامہ ناصر عباس اور علامہ امین شہیدی تک لوگ بائی روڈ واپس آئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اتحادی صاحبزادہ حامد رضا بھی بائی روڈ آئے ہیں اور گئے ہیں، انہیں بائی ائیر سفر نہیں کرایا گیا۔ اسی طرح ہم نے جو ٹیم پولیٹکل ایجنٹس کی تربیت کیلئے منگوائی تھی، وہ بھی بائی روڈ آئی اور گئی ہے۔ مرکزی کابینہ سے لیکر مہمانان گرامی تک تقریباً 99 فی صد لوگ بائی روڈ آئے اور گئے ہیں، اِکا دُکا افراد کو چھوڑ کر۔ ہماری پوری ٹیم سوائے مہمانان گرامی کے سب کسی نہ کسی تنظیمی دوست کے گھر ٹھہرے ہیں یا انہیں ایک مکان مینیج کرکے رہائش کا بندہ بست کیا گیا ہے، ہماری ٹیم کے لوگ فرشوں پر سوتے رہے ہیں، سوائے چند مہمانان کہ جیسے حامد رضا اور تربیتی ٹیم کے سب دوستوں کے، ہمارے دفاتر اور دوستوں کے گھر رہائش کے طور پر استعمال ہوئے ہیں، جس کی گواہی وہاں کے لوگ بھی دیں گے، اس حوالے سے کوئی لگژری اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔

ہمارے جتنے بھی دوست باہر سے آئے تھے، انہیں ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اپنی گاڑیاں ہمراہ لائیں گے۔ ہم نے اس طرح سے چیزوں کو مینج کیا ہے، کیونکہ ہماری موومنٹ بڑی تھی، اس کا سکیل بڑا تھا، موومنٹ کا انداز اچھا تھا، اس کے والیم کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بڑی عوامی موومنٹ تھی۔ لیکن یہاں واضح کر دوں کہ یہ ساری موومنٹ رضاکارانہ تھی، لوگ اپنی گاڑیاں لیکر شریک ہوئے۔ ایک مثال دوں گا کہ اسکردو میں علامہ ناصر عباس جعفری کے استقبال میں آنے والی ریلی میں کسی ایک بندے کو ایک لیٹر تک پیٹرول نہیں دیا گیا، نہ ہی کسی کو گاڑی فراہم کی گئی، یہ عوام کی محبت تھی، ان کا جذبہ تھا اور مجلس کی قیادت کیساتھ والہانہ عشق تھا۔ لہٰذا اس سائز کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ پیسوں کی بنیاد پر ایسا تھا تو ایسا نہیں تھا۔ ہم نے تمام صوبوں کے دفاتر کے فنڈز کو منجمد کرکے اور تمام سرگرمیوں کو ترک کرکے الیکشن کمپین چلائی، ہم نے واجبی چیزیں کی تھی جس میں عوام کی شرکت بہت زیادہ تھی، عوام کا جوش بہت زیادہ تھا، اس لئے لوگوں کو یہ تاثر ملا جیسے یہ سب پیسے کی بنیاد پر ہو رہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے پانچ پانچ ہزار روپے کے عوض ووٹ کی بولی لگائی، جس کے ہمارے پاس شواہد موجود ہیں۔ ظاہر ہے ہمارے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے، اگر ہوتے بھی تو ہم ایسا کام کبھی نہ کرتے، کیونکہ ہماری جنگ ہی اس چیز کیخلاف تھی۔ مجلس کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے پیسے اور وسائل کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا، اس کے باوجود مجلس وحدت کو جو مینڈیٹ ملا ہے وہ معجزہ ہے، اس لئے یہ تقابل نہیں بنتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے عوامی خدمات جاری رکھیں تو عوام پر اپنا اعتماد بحال رکھیں گے اور آئندہ ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھریں گے۔ اس وقت ووٹوں کی تعداد کو سامنے کر رکھا جائے تو مجلس وحدت گلگت بلتستان میں دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ پچھلے سوال کے جواب میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخراجات کے تناظر میں کامیابی کا سائز بہت بڑا ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات سے کیا نتائج اخذ ہوئے، یعنی عوام کی فکری سطح، مذہبی جماعتوں کا عوام میں رسوخ، آئندہ کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار وغیرہ۔ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں یہ سمجھتا ہوں کہ جسے ہم مفروضہ سمجھتے تھے وہ حقیقت ثابت ہوا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت کا گلگت بلتستان کے الیکشن میں عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، یہ عمل دخل کم ہوجائیگا اگر کبھی گلگت بلتستان الیکشن بھی پاکستان میں ہونے والے عام الیکشن کے دنوں میں ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے مذہب کو رد کیا ہے، گذشتہ دس پندرہ سال سے شیعہ جماعتیں گلگت بلتسان میں ایکٹو نہیں رہیں، اس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا تو ان سیاسی جماعتوں نے اس خلا کو پُر کیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے آکر دوبارہ لوگوں کو مذہب اور مذہبی جماعت کے طرف رجوع کرایا ہے اور یہ ایک تبدیلی لائی ہے۔ اگر گذشتہ الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے پاس ایک بھی سیٹ نہیں تھی اور اس الیکشن میں ان کے پاس چار سیٹیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیزیں واپس اپنے مقام کی طرف آرہی ہیں اور لوگوں نے مذہب کی طرف اپنے لگاو کا اظہار کیا ہے۔ اگر منتخب افراد نے خدمت کی تو یہ عامل مزید پختہ ہوگا اور لوگ مذہبی جماعتوں سے انس رکھیں گے اور ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے یہ دیکھا ہے کہ خدمت کی یا نہیں، اگر خدمات نہیں کی تو لوگوں نے پیپلزپارٹی کو بھی رد کر دیا ہے۔ اسی طرح آپ دیکھیں کہ مذہب کا عنصر اتنا گہرا ہے کہ مسلم لیگ نون کے امیدوار بھی اپنے انتخابی پوسٹرز پر رہبر معظم کی تصاویر لگانے پر مجبور ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں نے مذہب کو رد نہیں کیا۔ مذہبی عنصر اپنی جگہ قائم ہے، اگر مذہبی جماعتیں وہاں اچھا اور بہتر رول ادا کریں گی تو اس سے نہ صرف ان کا اپنا چہرہ اچھا ہوگا بلکہ مذہب کی خوبصورت تصویر سامنے آئیگی۔ لوگوں کو پتہ چلے گا کہ مذہبی لوگ ڈیلور کرسکتے ہیں، جس طرح بلوچستان اسمبلی میں ہمارے آغا رضا نے ایک ممبر ہونے کے باوجود کئی ایسے کام کئے ہیں جس پر وہ لائق تحسین ہیں۔ ایوان میں بہت ساری تبدیلی لیکر آئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں 2013ء اور اب گلگت بلتستان میں انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کو کیا بنیادی اقدامات کرنے چاہیں کہ وہ مین اسٹریم جماعتوں میں وارد ہوسکے اور عوام کا اعتماد حاصل کرسکے۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں پہلے تو یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی جماعت جب ایک پراسس میں جاتی ہے تو اس سے کچھ نہ کچھ غلطیاں، کوتاہیاں اور کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اچھی مینجمنٹ کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ کوتاہیوں کو کم کرکے جو اچھے اقدامات ہوئے ہوتے ہیں انہیں آگے بڑھایا جائے۔ دو ہزارہ تیرہ کے الیکشن میں ہم سے پہلے عمومی تاثر یہ پیدا کر دیا گیا تھا کہ پاکستان میں فقہ جعفریہ کا سروائیول یا تو نون لیگ میں ہے یا پھر پیپلزپارٹی کے اندر، یا دیگر سیاسی جماعتوں کے اندر، اس کے نتیجے میں لوگ اپنی شناخت اور حمیت کھو بیٹھے تھے۔ ایسے میں ہم نے لوگوں کو شناخت بھی دی اور حمیت کا حساس بھی دلایا۔ ایک ایسی فضا میں جب مذہبی شناخت والی جماعتیں لوگوں کو سیاسی جماعتوں کی طرف رجوع کرا رہی تھیں، ایسی صورت میں مجلس وحدت نے پرچم بلند کرکے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں، ہم اپنے سیاسی سفر کے نتیجے میں سیاسی اہداف حاصل کریں گے۔ اگر تقابل کریں کہ عمران خان جس کی ایک کرکٹر کے شناخت تھی وہ سیاست میں آتا ہے، اچھے خاصے وسائل صرف کرتا ہے لیکن اسے پہلے الیکشن میں کوئی سیٹ نہیں ملتی، پانچ سال بعد دوسرا الیکشن لڑے تو وہ بھی فقط ذاتی سیٹ لینے میں کامیاب ہوئے، اب 20سال بعد وہ اس سفر پر پہنچے ہیں۔

مجلس وحدت کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ پہلی بار کھڑی ہوئی تو ایک سیٹ حاصل کی، بعض سیٹوں پر رنر اپ رہی رہی اور بعض پر اچھا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب رہی۔ اسی طرح گلگت بلتستان الیکشن میں ہمارا ان کے ساتھ مقابلہ تھا جن کے پاس سرکاری وسائل تھے، جن کی صوبوں اور مرکز میں حکومتیں تھیں، اوپر مذکورہ تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے دو سیٹیں نکالنا بھی ایک کامیابی ہے اور ایک سیاسی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں اور یہ سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں جن کوتاہیوں کا احساس ہوا ہے، اگر ہم نے انہیں دور کرلیا تو انشاءاللہ پاکستان میں فیصلہ کرنے والی جگہوں پر ہمارا رول نظر آئیگا اور ہمارا وہاں نقش موجود ہوگا۔ جب ہم نے شروع میں الیکشن میں وارد ہوئے تھے تو ہم اچھے الکٹیبلز نہیں دے پائے تھے، اب اچھی تعداد سامنے لیکر آئے ہیں، ان علاقوں میں اب ہمیں یونین کونسل کی سطح تک تنظیم کو لیکر جانا پڑیگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یونین کونسل سطح سے لیکر اوپر تک تنظیمی ڈھانچہ ہوگا تو ہم ملکی سطح پر کوئی سیاسی کردار ادا کرسکیں گے۔ اب ہمیں سیاسی انداز بھی اختیار کرنا ہوگا، میرا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات مذہبی جماعتیں فقط مذہبی امور پر اسٹینڈ لیتی ہیں، لہٰذا اب ہم معاشرے میں ہونے والے ہر ظلم پر  آواز اٹھائیں گے، ہر معاشرتی معاملے پر آواز اٹھائیں گے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ہم نے یمن کے معاملے پر میڈیا سے لیکر ہر محاذ پر سیاسی کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں فوج کو یمن جنگ کا حصہ بننے سے روک دیا گیا، یہ ایک فیصلہ کن کردار ہے، جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں مذہبی یا مسلکی عنوان سے سیاست کرنے میں کیا دشواریاں حائل ہیں، ان کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے، مذہبی یا مسلکی گروہ ملکی سیاست میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس کو عمومی کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے، پاکستان جس کی اساس مذہب ہے اور مذہب کی بنیاد پر ایک الگ ملک حاصل کیا گیا، شروع سے لیکر اب تک پاکستان میں مذہبی جماعتیں اسٹیک ہولڈر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان میں عوام تک کچھ ڈیلور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں، جیسے جے یو آئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کا ایک بڑا رول رہا ہے، جب وہ اپنا رول ادا کرنے میں کامیاب نہیں رہیں تو اس خلا کو دیگر جماعتوں نے پر کیا ہے، لیکن پھر بھی ان کا رول اور نقش نظر آتا ہے۔ یہ اہم سوال ہے کہ ہمیں کیوں مسلکی سیاسی رول ادا کرنا چاہیے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم نے گذشتہ پندرہ بیس سال میں کوئی مذہبی و مکتبی سیاست نہیں کی اور یہ میدان خالی چھوڑا ہے۔ اس عرصے کے دوران ہمارا سیاسی کردار نہیں رہا، ہم کسی نہ کسی سیاسی جماعت کیساتھ ملکر سیاسی کردار ادا کر رہے تھے، حتٰی تشیع سے مربوط امور تھے یا ملک سے متعلق امور وہ تشنہ تھے، ہمارا استحصال بڑھتا جا رہا تھا۔ میں مثالیں پیش کرنا چاہوں گا کہ حکومتی سرپرستی میں طالبان کو پالا گیا، فارن پالیسی میں واضح تبدیلیاں کی گئیں، دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے کا عنصر غالب آنا شروع ہوگیا، پھر یہی عنصر پاکستان کو لگنا شروع ہوگیا، ریاست پر حملے ہونا شروع ہوگئے، اس دوران دو چیزوں کو خطرہ لاحق ہوگیا، پاکستان بطور وطن اور دوسرا مکتب اہل بیت ؑ کے لوگوں کو خطرہ درپیش ہوگیا، ان لوگوں کو ایک خاص سوچ کے تحت پالا گیا تھا اور وہ سوچ تکفیر پر مرتکز ہوئی، اس چیز کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاست میں حصہ لیا جائے اور ان چیزوں کو وہاں سے روکا جائے، جہاں تکفیری بنانے اور طالبان بنانے کے فیصلے کئے جاتے ہیں، وہاں پر ہونے والے فیصلوں پر اثرانداز ہوا جائے، اب ظاہر ہے یہ سارا عمل سیاسی عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ جب آپ سیاست میں جاتے ہیں تو پھر براہ راست چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے مجلس وحدت مسلمین کو کرنا پڑ رہا ہے، ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم جہاں اپنے مکتب کا استحصال نہ ہونے دیں وہی دیگر مکاتب فکر کا استحصال بھی نہ ہونے دیں، یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہوگی، لیکن جب آپ کی کوئی سیاسی شناخت ہی نہیں ہوگی تو آپ کیسے کسی دوسرے مظلوم کے سر پر دست شفقت رکھ سکیں گے۔

سیاسی طاقت بنے بغیر کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں، خاص طور پر وہاں، جہاں ریاست سے متعلق فیصلے ہوتے ہوں۔ لہٰذا یہ کام کرنا ہوگا، سیاسی طاقت بننا ہوگا، یہ قائد شہید کی دلی آرزو تھی کہ ہم اتنے طاقتور ہوں کہ ریاستی فیصلے ہماری مرضی و منشا کے بغیر نہ ہوسکیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب آپ سیاسی جدوجہد کرتے ہیں تو آپ کے راستے میں مخالف جماعت کھڑی کر دی جاتی ہے جو تکفیر کی قائل ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ہم امت کی وحدت کے قائل ہیں، تمام سنی جماعتوں کو جمع کیا ہے، اکٹھے اجتماعات کئے ہیں۔ صاحبزادہ حامد رضا کا خود ہماری الیکشن کمپین میں آنا ثابت کرتا ہے کہ کس حد تک کام ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم ایک مسلک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن فرقہ پرست نہیں ہیں، اسی لئے سیاسی سطح پر شیعہ سنی وحدت کیلئے کام کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہم نے سیاسی فوائد حاصل کئے ہیں، جیسے طالبان کیخلاف ایک محاذ بنانا، یمن کا معاملہ اور دیگر امور۔ آپ دیکھیں کہ جماعت اسلامی پنجاب میں ایک سیٹ سے زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر پاتی، مولانا فضل الرحمان کی جماعت پنجاب میں ایک سیٹ تک حاصل نہیں کرسکتی، لیکن وہ اہم فیصلہ جات میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا اپنا ایریا ڈیلوپ ہے، خاص جگہوں پر کام کیا ہے، آج وہ سیاسی قوت ہیں۔ انہوں نے اپنا سیاسی حَب بنا لیا ہے، لیکن افسوس کہ ابھی تک ہم نے کوئی اپنا سیاسی حَب نہیں بنایا۔ جب ہم ایسا کرلیں گے تو ہم بھی اس طرح مین اسٹریم پولیٹکس میں آجائیں گے۔ آپ دیکھیں کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی پورے پاکستان میں الیکشن میں حصہ لیتے ہیں، خواہ کم ووٹ ہی کیوں نہ پڑیں، ان کا سیاسی کردار پورے ملک میں ہوتا ہے۔ ہم نے دو صوبوں میں اپنی سیاسی شناخت بنا لی ہے، انشاءاللہ آئندہ دیگر صوبوں میں بھی آپ کو سیاسی رول ہوتا نظر آئیگا۔ اگر ہم ہر صوبے میں اپنا سیاسی حَب بنا لیں تو ہم بھی اہم فیصلوں میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہر راستے میں دشواریاں ضرور ہیں، لیکن ہر مشکل کا حل بھی موجود ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک پاکستان کے دوستوں کا خیال ہے کہ گلگت کی تین سیٹیں نون لیگ کو مجلس وحدت مسلمین کی وجہ سے ملی ہیں، آغا راحت کے فیصلے یا فارمولے کو مان لیا جاتا تو نون لیگ گلگت سے ایک سیٹ بھی نہیں لے سکتی تھی۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پہلی بات یہ ہے کہ یہ مفروضہ درست نہیں ہے، جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہماری وجہ سے یہ سیٹیں نون لیگ کو ملی ہیں، وہ لوگ تو مائنس نون لیگ کے فارمولے کو تسلیم ہی نہیں کرتے، اس کے تمام شواہد موجود ہیں۔ وہ ملاقات جس میں آغا راحت موجود تھے، علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ ناصر عباس جعفری، پیپلزپارٹی کی جانب سے ندیم افضل چن، فیصل رضا عابدی، صاحبزادہ حامد رضا بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ اس ملاقات میں مائنس نون لیگ کو تسلیم نہ کرنا ہی ہے نون لیگ کی گلگت بلتستان میں بقاء کا ضامن بنا ہے۔ اس ملاقات میں بندہ حقیر بھی موجود تھا، وہاں حلقہ نمبر 2 کے لئے باقاعدہ طور پر طے پایا اور مجلس وحدت مسلمین آغا راحت کے کہنے پر دستبردار ہوگئی۔ ہم نے واضح کہا ہے کہ ہم کسی جماعت کے حق میں نہیں بلکہ آغا راحت کے کہنے پر دستبردار ہوئے ہیں۔ آغا راحت کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے بعد جب آپ باہر نکلیں گے تو یہ بات کہیں گے کہ ابھی معاملات چل رہے ہیں اور گفت شنید کا سلسلہ جاری ہے، تاکہ دشمن کو پیغام جائے کہ یہ حلقہ دو کے حوالے سے متحد نہیں ہوئے، ورنہ خود دشمن متحد ہو جائیگا۔ لہذا اس حکمت عملی کے تحت یہ اختیار آغا راحت کو دے دیا گیا تھا کہ وہ جب چاہئیں اس کا اعلان کر دیں۔ آغا راحت بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کے اختیار میں تھا کہ وہ جب چاہیں گئے مناسب وقت پر اس کا اعلان کردیں گے، لیکن یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ حلقہ 2 میں سب کے دستبردار ہونے کے باوجود سیٹ نون لیگ لے گئی ہے۔

حلقہ نمبر 1 میں ہم نے پہلے دن سے نشاندہی کی تھی کہ نومل سے کھڑا ہونے والا امیدوار بنیادی طور پر مسلم لیگ نون نے کھڑا کیا ہے، وہ آزاد حیثیت سے کھڑا تھا اس لئے ہمیں مل کر اس کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے تھا اور اس پر اگر اچھا رول پلے کیا جاتا تو نومل کے ان صاحب کو ووٹ نہیں ملتے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی الیکشن ختم ہوا تو اس کے فوراً بعد حفیظ الرحمن پہلے وہاں گئے اور اس کے بعد جعفراللہ نومل آئے اور باقاعدہ طور پر سید نظام الدین نے نون لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ یہ آزاد میدوار تھے جسے نون لیگ نے کھڑا کیا ہوا تھا، اگر نظام الدین کھڑا نہ ہوتا تو یہ سیٹ ہر حال میں مکتب اہل بیت کے پاس جانی تھی۔ اس نشست پر شکست کا سبب نظام الدین بنے۔ نظام الدین کو آغا راحت نے کہا تھا لیکن وہ ان کے کہنے پر دستبردار نہیں ہوئے۔ آغا راحت نے حلقہ نمبر 2 میں مجلس وحدت مسلمین کے مضبوط امیدوار کے دستبردار ہونے کے بعد حلقہ نمبر 1 سے امجد ایڈووکیٹ جو کہ پی پی پی کے امیدوار تھے ان کے گھر گئے، یہ بات خود آغا راحت سے کنفرم کی جاسکتی ہے، لیکن امجد ایڈووکیٹ نے آغا راحت کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ حتٰی آغا راحت نے امجد ایڈووکیٹ کو ٹیکنو کریٹ کی سیٹ تک دینے کی آفر کی لیکن وہ نہیں مانے۔ دوسرا ایک بنیادی اصول بھی ہے کہ اگر ایک سیٹ پر آپ کو فیور مل گئی ہے تو دوسری سیٹ پر آپ نے فیور دینی ہے، اگر مجلس کو فیور مل جاتی تو یہ سیٹ نکل آتی۔ حلقہ دو میں نظام الدین اور حلقہ ون میں امجد ایڈووکیٹ رکاوٹ کا باعث بنے۔

اسلام ٹائمز: آغا راحت الحسینی نے کیا فارمولا دیا تھا؟
ناصر عباس شیرازی: آغا راحت الحسینی نے جو فارمولا دیا تھا، وہ یہ ہے کہ حلقہ نمبر 1 سے صرف پیپلز پارٹی دستبردار ہو، حلقہ نمبر 2 سے MWM دستبردار ہو اور حلقہ نمبر 3 سے اسلامی تحریک کے امیدوار کو سپورٹ کیا جائے۔ عملی طور پر پیپلزپارٹی نے ہاتھ کھڑے کر دیئے اور کہا کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنے کسی امیدوار کو بیٹھا دے۔ یوں اس فارمولے کی ناکامی میں پیپلزپارٹی کا بھی ہاتھ تھا۔ اس طرح حلقہ نمبر 3 کی بھی میں بات کرنا چاہوں گا کہ اس حلقہ کی شخصیت کپٹن ریٹائرڈ شفیع اسلامی تحریک کے امیدوار تھے، وہ آخری لمحے تک مجلس وحدت کے امیدوار بننا چاہ رہے تھے، آخری لمحہ میں خود ان کی ٹیم میرے پاس موجود تھی اور کہا کہ اگر آپ ہمیں ٹکٹ دے دیں تو ہم ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت کرلیں گے، لیکن چونکہ مشکل یہ تھی کہ انہوں نے قبائلی عصبیت کی بنیاد پر اپنی موومنٹ کا آغاز کیا تھا، جو دین کے اوپر ایک کاری ضرب تھی اور وہ اس روش کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مجلس وحدت مسلمین نے ان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقت پسندانہ طور پر ان چیزوں کا جائزہ لینا چاہیئے، بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کی ہٹ دھرمی اور نون لیگ کی اس پلاننگ کہ جس کے نتیجے میں انہوں نے شیعہ قلب کے اندر اپنے امیدوار کھڑے کر دیئے، ہماری حکمت عملی کی ناکامی کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب ملکر بھی نظام الدین جیسے بندے کو نہ بٹھا سکے، مجلس وحدت مسلمین کو اس کا سبب قرار دینا سراسر زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: جی بی پر شیعہ جماعتوں کا اگر آڈٹ کرایا جائے تو کیا آپ تعاون کریں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پہلے تو میں عرض کروں گا کہ مجلس وحدت مسلمین کے تمام شعبوں کا آڈٹ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی شعبے کا ماہانہ آڈٹ ہوتا ہے، سہہ ماہی اور سالانہ آڈٹ بھی ہوتا ہے، پروجیکٹ بیس آڈٹ بھی ہوتا ہے اور وہ ماہر آڈیٹر کی نگرانی میں ہوتا ہے، جس کی باقاعدہ رپورٹ مرتب ہوتی ہے۔ ایک چیز واضح کر دوں کہ ایم ڈبلیو ایم کا فنانس ڈیپارٹمنٹ اس وقت تک حرکت میں نہیں آتا جب تک اسے گذشہ ماہ کی رپورٹ جمع نہ کرائی جائے۔ الحمدللہ احتساب کا نظام موجود ہے اور شفافیت کے بنیاد پر آڈٹ کیا جاتا ہے۔ تمام ادارے اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں اگر مجلس وحدت مسلمیں کے ادارے مناسب سمجھیں تو آڈٹ رپورٹ بھی پبلک کی جاسکتی ہیں، اگر کسی نے آڈٹ کرنا ہے یا چیک کرنا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی کے ضمنی الیکشن میں آپکی جماعت نے تحریک انصاف کو سپورٹ کیا، بدلے میں آپکو گلگت بلتستان میں بھی کوئی حمایت ملی۔؟
ناصر عباس شیرازی: کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ وہاں کے رہنماوں نے کیا تھا، یہ فیصلہ کراچی کے پانچوں اضلاع کا متفقہ فیصلہ تھا، اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں، اس میں سیاسی شعبے نے اضلاع اور صوبوں کو اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی صورتحال دیکھ کر فیصلہ کریں، اگر کہیں کوئی مشکل ہو تو اضلاع یا صوبے کو اس فیصلے سے متعلق تحفظات سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے لوکل فیصلے کی ہم نے توثیق کی تھی، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک درست فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ اس سیاسی جماعت کیخلاف تھا، جس کے ہاتھ مکتب اہل بیت کے بیٹوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہ فیصلہ دراصل ان کیخلاف اظہار برات تھا۔ کراچی کے فیصلے کا گلگت بلتستان کے الیکشن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تحریک انصاف کیساتھ ہماری کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں تھی، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے دو سے تین امیدوار ہمارے حق میں دستبردار ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے جی بی الیکشن کیلئے اپنے کام کا آغاز کب کیا، دوسرا وہ کیا فلاحی و سیاسی اقدامات تھے جنکی بنیاد پر اس الیکشن میں آپ کامیابی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں، اس موضوع پر کلیئر ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین کبھی خطے میں حاکم جماعت نہیں رہی اور یہ بھی کلیئر ہے کہ پورے پاکستان کے کسی علاقے میں حکومت ہمارے پاس نہیں رہی۔ لٰہذا مجلس وحدت مسلمین کے پاس وہ وسائل اور ساری چیزیں اس خطے کے اندر موجود نہیں تھیں، جس کی بنیاد پر کوئی سیاسی جماعت اپنی انٹری ڈالتی ہے، لیکن ہماری جماعت کے پاس اپنی خدمات کی ایک لسٹ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سیاسی سفر کو مکمل طور پر دو سال اور کچھ ماہ ہوئے ہیں، جبکہ عملی طور پر الیکشن 2013ء کے الیکشن میں ہم پہلی بار آئے تھے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں گلگت بلتستان کے ہر اہم مسئلہ پر ہم وہاں کے عوام کی آواز بنے ہیں، لالوسر کا مسئلہ ہو یا چلاس کا سانحہ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوں یا گندم سبسڈی کا مسئلہ، آپ کو ایم ڈبلیو ایم کی موجودگی نظر آئیگی، ہم نے عوامی مسائل پر اسٹینڈ لیا اور مظلوموں کی آواز کو میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ حتٰی پورے ملک سمیت پارلیمنٹ کے سامنے ایک ہفتہ تک دھرنے دیئے بیٹھے رہے اور احتجاجی کیمپ لگائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو پیغام دیا کہ آپ کی آواز کو دبنے نہیں دیں گے، اس آواز کو ہم نے دنیا بھر تک پہنچایا۔ انہیں ہم نے احساس تنہائی سے نکالا، ہمارے یہ وہ کام تھے جس کی بنیاد پر ہم گلگت بلتستان میں وارد ہوئے اور وہاں کے عوام نے ہم پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ ووٹوں کے لحاظ سے ہم دوسری بڑی جماعت ہیں۔ یہ ہماری ہی جماعت ہے جس نے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کیلئے آواز اٹھائی، جس کے بعد باقی جماعتیں بھی اس ایشو پر بولی ہیں۔ ہم نے گلگت بلتستان کی آئینی شناخت کیلئے مشترکہ منشور پر دستخط کرائے ہیں، جس میں پاکستان مسلم لیگ قاف، پاکستان عوامی تحریک، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک اور بعض دیگر جماعتیں شامل ہیں۔

جمیعت علماء پاکستان کیساتھ اتحاد ہو یا ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں شرکت یا عمران خان کیساتھ بیٹھے ہیں، ہر جگہ گلگت بلتستان کے عوام کو یاد کیا ہے اور ان جماعتوں سے ان کے لئے آواز بلند کرائی ہے۔ ہم ان کیلئے پارلیمنٹ میں نمائندگی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، آپ ہمارے ماضی کے مشترکہ جلسوں کی تقاریر اٹھا کر دیکھیں کہ ہم نے کہاں کہاں اور کیسے آواز بلند کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ طالبانائزیشن اور طالبان سے مذاکرات کے خلاف گلگت میں سب سے پہلا جو بڑا عوامی پروگرام کرایا، جس کے مقابلے میں آج تک کوئی مذہبی و سیاسی جماعت نہیں کرسکی، عوام میں شعور بیدار کیا، اسی طرح بلتستان میں تاریخی پروگرام کرایا، ہم سمجھتے ہیں گلگت بلتستان کے عوام کی صحیح خدمت ہماری جماعت کرسکتی ہے، ہم ان کے مسائل سے خوب آشناء ہیں، ہماری جماعت کی ہی قیادت ایک ماہ سے زائد گلگت بلتستان میں موجود رہی، ہم سے بڑھ کو ان کے مسائل کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے پورے پاکستان میں ملت کے مسائل کے حق کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور انشاءاللہ کرتے رہیں گے۔ شکارپور سے لیکر کوئٹہ اور کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک ہر مشکل کی گھڑی میں اگر کوئی جماعت اپنی ملت کسیاتھ کھڑی رہی ہے تو وہ مجلس وحدت ہے۔ اس وقت بھی ہمارے کئی برادران جیل میں قید ہیں، جنہیں گلت میں فقط مظلوموں کے حق میں ریلی نکالنے پر سیاسی کیسز بنا دیئے گئے، برادر عارف قمبری ابھی بھی جیل میں ہیں۔ ان کیسز کا مقصد فقط ہماری فعالیت کو روکنا تھا۔ ہمارے فلاحی شعبے نے فلاحی میدان میں اپنی توان سے بڑھ کر کام کیا ہے، تقریباً ان دو برسوں میں ہم گلگت بلتستان میں پانچ کروڑ روپے سے زائد کے منصوبے مکمل کرچکے ہیں، جن میں ایتام، پانی کے مسائل، ڈسپنسری اور اسپتال کے قیام اور مساجد کا قیام شامل ہے۔ حتٰی عطا آباد جھیل کے متاثرین کیلئے رہائشی کالونی تک بنائی ہے۔ اس کے علاوہ کئی پروجیکٹ ہیں جو چل رہے ہیں، اسکردو میں بچوں کا اسپتال بنوا رہے ہیں۔ یہ تمام کام بغیر حکومت میں رہتے ہوئے کئے ہیں، ہم خدمت کو اپنا شعار سمجھتے ہیں اور یہ کام کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: سیاسی محاذ آرائی میں آپ لوگوں کی توجہ ان معاملات سے کیوں ہٹ گئی، جس کی وجہ سے آپ نے شہرت پائی تھی۔ جیسے دہشتگردی کیخلاف آواز بلند کرنا۔؟
ناصر عباس شیرازی: وہ مسائل جن پر مجلس وحدت مسلمین نے شہرت حاصل کی اور عوام میں مقبول ہوئی، اس پر ہماری جماعت نے شہرت کی خاطر نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی رضا اور عوام کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے اپنا شرعی وظفیہ انجام دیا۔ ہماری طرف سے ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ انہی مسائل کو اجاگر کیا جائے اور عوام کے ایشوز سے غافل نہ رہیں، ممکن ہے کہ کہیں سہواً کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو۔ ایک چیز پر غور کریں جب گلگت بلتستان الیکشن کا بھی اعلان کر دیا گیا ہو، بلدیاتی الیکشن بھی سر پر ہوں، اس کے باوجود گذشتہ چند ماہ میں جتنے بھی اہم واقعات ہوئے ہیں، اس میں ایم ڈبلیو ایم صف اول میں رہی ہے۔ اب اگر آپ نے تقابل کرنا ہے تو پھر چارٹ بنائیں اور ان واقعات کی روشنی میں مجلس وحدت کا کردار دیکھیں اور دوسروں سے تقابل کریں۔ سانحہ شکار پر مجلس وحدت کا کردار، اسی طرح دیگر واقعات ہیں۔ شکارپور واقعہ پر پہلی بار تمام جماعتوں نے مجلس وحدت مسلمین کی شٹرڈوان ہڑتال کی کال کی حمایت کی اور پورا سندھ بند ہوگیا، ہم نے تاریخی لانگ مارچ کیا، جس میں تمام جماعتوں نے حمایت کی اور مظلوموں کی آواز کو بلند کیا۔ شہداء کمیٹی بنائی، جس نے شہداء کے خاندانوں کے دکھوں کا مدوا کیا۔ شکار سانحہ کیخلاف احتجاج میں ایم ڈبلیو ایم کی پوری قیادت شامل ہوئی ہے، اس کو عوامی سطح پر لیکر آئی ہے۔ اسی طرح کوئٹہ کے واقعات ہوئے، اس میں مجلس وحدت کا کردار واضح ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیئے کہ جس بھی ایشو پر آپ سیٹنڈ لیتے ہیں، اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح اس وقت ہمیں اسراء کا چیلنج درپیش ہے، اکثر اضلاع میں ہمارے دوست جیلوں میں ہیں، کئیوں کے نام شیڈول فور میں ڈال دیئے گئے، اسی طرح بھکر میں اس وقت اسیروں کی رہائی کیلئے معاملات چل رہے ہیں، ہمارے دوست اس ایشو کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ چیزیں بذات خود قیمت ہیں جسے ہم ادا کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: قومی فلاحی امور میں آپکی کارکردگی اسلامی تحریک سے مختلف نظر نہیں آتی۔ کیا یہ آپکی ترجیحات میں نہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں اسلامی تحریک پاکستان کیساتھ تقابل نہیں کرنا چاہوں گا، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی فلاحی امور میں کیا خدمات چل رہی ہیں، اس کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں۔ قوم کی جانب سے ہم سے توقع کی جا رہی ہے کہ کالجز بن رہے ہوں گے، اسکولز کا قیام ہو رہا ہوگا، ادارے بن رہے ہوں گے، فلاحی امور چل رہے ہونگے اور یہ توقعات بےجا نہیں ہیں۔ ہر معاملہ کا تعلق دستیاب وسائل ہیں، ان وسائل میں ہیومن ریسورس، مالی وسائل اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ میں ایک مثال دوں گا کہ اگر اس وقت گھر کے فرنٹ پر آگ لگی ہوئی ہے تو پہلے کام آگ بجھانا ہے، اگر ملت کا مورال ڈاون ہے، دہشتگردی جیسے واقعات ہو رہے ہیں اور انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، تو ہمارا فرض ہے کہ پہلے ان امور سے نمٹیں۔ فلاحی شعبہ کی خدمات گنوا چکا ہوں، جن میں اسپتال، ڈسپنسریاں، مساجد کا قیام، ایتام سے متعلق امور سمیت دیگر امور شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکی ہر ناکامی کے ذمہ دار علامہ ساجد علی نقوِی ہیں؟ کیا خود احتسابی کا بھی کوئی کلچر فروغ دینگے۔؟
ناصر عباس شیرازی: ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ ہم ناکام ہوئے ہیں، کامیابی کے ہمارے معیارات کچھ اور ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ کہ ہم نے چیلنجز کی درست تشخیص کی یا نہیں۔ جواب ہے کی۔ آیا اس تشخیص کے بعد اپنا وظیفہ انجام دیا یا نہیں۔ کیا ہم نے درپیش چیلنجز کو مواقعوں میں بدلنے کی کوشش کی یا نہیں۔ جواب ہے کی۔ ہم نے اپنا وظیفہ ادا کیا ہے، اس لئے ہماری نگاہ میں اپنے وظیفے کی انجام دہی ہے، ہمیں ہماری کوششوں کے نتائج کتنے ملے یا نہیں ملے یہ الگ بحث ہے۔ جہاں تک آپ نے علامہ ساجد نقوی صاحب کی بات کی ہے تو اس پر اتنا کہوں گا کہ وہ ایک جماعت کے سربراہ ہیں، ان کی جماعت کی ایک حکمت عملی ہے اور ان کا مسائل کے حل کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے، جس کا انہیں پورا پورا حق ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی حکمت عملی کا بلواسطہ یا بلا واسطہ ہمیں نقصان ہوتا ہو، لیکن انہیں مکمل طور پر حق ہے کہ وہ اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق چلیں اور کام کریں۔ اسی طرح ہمیں بھی حق حاصل ہے۔ آپ کی بات اگر گلگت بلتستان الیکشن کے تناظر میں ہے تو میں اتنا کہوں گا کہ اگر ان کی جماعت ان جگہوں پر جہاں ان کے امیدوار کھڑے نہیں تھے یا دوسروں کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کیا، اگر وہاں پر ہمیں سپورٹ کیا جاتا تو ان کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوتا اور داخلی وحدت بھی پروان چڑھتی۔ اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا حق تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔ وہ اپنے فیصلوں کا خود کا دفاع کریں گے، اس پر مزید کچھ نہیں کہوں گا۔ گلگت بلتستان الیکشن کے حوالے سے ابھی ہم نے کور کمیٹی کا اجلاس بلایا تھا اور الیکشن سے متعلق تمام امور پر غور کیا ہے اور اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیا ہے، جس پر آپ کو اگلے چند ماہ میں وہاں تبدیلیاں نظر آئیں گی۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) اپنے خصوصی انٹرویو میں ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری سیاسیات کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں ہمارا دیگر جماعتوں سے منشور، پروگرام اور اہلیت کی بنیاد پر مقابلہ ہے، ہم بہت پرامید ہے، یہ یاد رکھیں کہ ہم بے وسائل ہیں، ہمارے مقابلے میں صوبائی و وفاقی حکومت ہے، بیرونی سرمایہ لگ رہا ہے، ہمارے مقابلے میں کالعدم جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں ریاستی جبر ہے اور ہتھکنڈے ہیں، اس کے علاوہ پری پول رگینگ کی پلانگ ہوچکی ہے۔ ہم اچھے جذبے اور اُمید کیساتھ ان کے اہداف کو روکیں گے اور بہترین جماعت کے طور پر سامنے آئیں گے۔
 
سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ آجکل گلگت بلتستان الیکشن میں مصروف عمل ہیں، اسلام ٹائمز نے ناصر عباس شیرازی سے گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن کے حوالے سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمات ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور آپکی جماعت پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہے۔ آخر گلگت بلتستان کے لوگ آپکو کیوں ووٹ دیں اور کیا آپ ڈیلو کرسکتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی بہت اہم سوال ہے کہ مجلس کیا ڈیلور کرسکتی ہے اور لوگ ہمیں ہی کیوں ووٹ دیں۔ اس سوال کے جواب سے پہلے آپ یہ ضرور سوچیں کہ سابق مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے حکومت میں ہونے کے باوجود کیا رول پلے کیا؟ مجلس وحدت مسلمین کا منشور کیا ہے، مستقبل کا پلان کیا ہے؟، مجلس اس وقت دوسری جماعتوں سے کیسے ممتاز ہے، ان تمام سوالوں کا جواب دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ہم نے سب سے پہلے اخبارات میں اشتہار دیا اور امیدواروں سے رنگ نسل، فرقہ اور ہر چیز سے بالاتر ہوکر ان سے درخواستیں مانگیں، مجلس وحدت مسلمین ہی وہ واحد جماعت ہے جس نے امیدواروں کی سکروٹنی کی اور سب سے پہلے انٹرویوز کئے، ہم نے تمام ان امیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں جو انٹرویو کے پراسس سے گزرے ہیں، کسی ایک کو بھی بغیر انٹرویو کے ٹکٹ نہیں دیا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم نے انہی کو ٹکٹ دیئے ہیں جنہوں نے باقاعدہ ٹکٹ کیلئے درخواست دی تھی، جن افراد کو ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں وہ سب سے اہل ترین لوگ ہیں، ان میں سے کسی ایک پر بھی کرپشن کا الزام نہیں ہے، یہ پروفیشنل اور اہل لوگ ہیں اور ڈیلور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بعض اوقات بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں لیکن وہ ڈیلور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہم نے اپنے دروازے سب کیلئے کھول دیئے کہ وہ درج ذیل اہلیت کی بنیاد پر ٹکٹ کیلئے درخواست کرسکتے ہیں، ہم نے مذہب، ذات اور فرقے سے بالاتر ہوکر انہیں درخواست جمع کرانے کا کہا اور سب کی طرف سے ہمیں درخواستیں موصول ہوئیں۔ ایم ڈبلیو ایم نے جو نعرے دیئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی فرقہ وارنہ شعائر نہیں ہے، گلگت بلتستان کی ترقی، گڈگورننس، ایسے امور کو لیکر آئے ہیں جو گلگت بلتستان کے عوام کی دلوں کی آواز ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس نے اپنے منشور میں عوام کو کیا پروگرام دیا ہے، کیا لوگ فقط مذہبی نعروں کی بنیاد پر ووٹ دیں یا پھر آپ نے انہیں کوئی شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پروگرام بھی دیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی، ایم ڈبلیو ایم واحد جماعت ہے جو اپنا 5 سالہ پروگرام بھی لیکر آئی ہے اور 20 سالا پروگرام بھی لیکر آئی ہے۔ بیس سالانہ پروگرام کلیات پر مبنی ہے، جس کے تحت گلگت بلتستان آئندہ دو دہائیوں میں مرکز کا محتاج نہیں رہے گا اور اپنے وسائل میں خود کفیل ہوچکا ہوگا کہ یہ خود وفاق کو کچھ دے سکے گا۔ ہمارے 5 سالہ پروگرام میں ہم نے گلگت بلتستان میں گڈگورننس دینی ہے، کیونکہ سابق جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، انہوں نے ایک بھی چیز گڈ گورننس کی متعارف نہیں کرائی، انہوں نے کرپشن کے بازار گرم کئے رکھے اور عوام تک ایک بھی چیز نہیں پہنچائی، ہم چیزیں نچلی سطح پر پہنچائیں گے اور چیک اینڈ بیلنس کا بہترین نظام متعارف کرائیں گے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں توانائی کا بحران ہے، جسے پانچ برسوں میں ہم نصف سطح پر لائیں گے، یعنی اگلے پانچ برسوں میں پچاس فیصد انرجی کرائسز ختم کریں گے۔ سمال اور بڑی انڈسٹری کا پلان دیا ہے، ہم نے اقتصادی کوریڈور کے اندر اقتصادی زون کا پلان دیا ہے، یہ (وفاق) اگر نہیں دیں گے تو یہی سے مسئلہ پیدا ہوگا۔ ہم نے گندم سبسڈی کو جاری رکھنے اور فراہم کرنے کا پلان دیا ہے، معدنی ترقی کا پلان دیا ہے اور اس حوالے ایک ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں ریسرچ بھی ہوگی اور پروڈکش بھی شامل ہوگی، جس میں ہم ایسا میٹریل پیدا کرسکیں گے جس سے اسٹون کو یہی پالش کرکے دنیا بھر میں برآمد کیا جاسکے گا۔ یہاں کے وسائل یہی صرف ہوں گے اور انہیں بااختیار کریں گے۔ اس طریقے سے جابز کا پروگرام لیکر آئیں گے۔ انہیں جو جابز پنجاب اور دیگر صوبوں میں مہیا ہوں گی، وہی گلگت بلتستان میں فراہم کی جائیں گی۔ لوکل سیٹ اپ مقامی لوگوں پر مبنی ہوگا، یعنی مانگے تانگے لوگوں پر مبنی سیٹ اپ نہیں بنائیں گے، اس کے علاوہ ہم نے ویلفیئر پروگرام میں ایک یونیورسٹی کا قیام اور انتطامی اصلاحات پروگرام شامل کیا ہے، ایسی یونیورسٹی جہاں معنوی اور تعلیمی دونوں اقدار کو محفوظ بنائیں گے، روڈ انفراسٹرکچر اور ایئرپورٹ کو بہتر بنانے کا پروگرام ہے، کیونکہ بیرون ملک سے سرمایہ کاری تبھی آسکتی ہے جب آپ کا انفراسٹرکچر بہتر ہو۔ ہمارا یہ پروگرام ہے کہ گلگت یا بلتستان میں سے کسی ایک جگہ سے انٹرنیشنل فلائٹ شروع ہوں، تاکہ یہاں کا ائیرپورٹ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا درجہ حاصل کرسکے، سیاحت کو فروغ ملے اور یہ ٹورازم کا حب کہلائے۔

ہم نے مندرجہ بالا پلان کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے پاس کوئی پلان نہیں ہے، انہوں نے ان لوگوں کو ٹکٹ دیئے جو سب سے زیادہ کرپٹ ہیں، حتٰی کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے بھی ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں جنہیں عوام پسند نہیں کرتے۔ مجلس وحدت نے یہ نہیں دیکھا کہ کس کو ٹکٹ دینے سے الیکشن جیت سکتے ہیں بلکہ میرٹ کو ترجیح دی ہے اور حقیقی تبدیلی کو متعارف کرایا ہے، ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو چیلنج دیا ہوا ہے کہ ان کی قیادت 10 دن گلگت بلتستان کے عوام کیساتھ آکر گزاریں، لیکن علامہ ناصر عباس تمام سیاسی جماعتوں میں واحد شخصیت بنے ہیں جو ایک ماہ کیلئے گلگت بلتستان کے دورے پر نکلے ہیں اور کامیاب دورے کر رہے ہیں۔ یہ ایم ڈبلیو ایم ہی ہے جو آپ کے ساتھ چل سکتی اور اچھے برے وقت میں ساتھ دیتی ہے، اس طرح دیگر کوئی جماعت نہیں۔ ہم نے ڈیلور کرکے دکھایا ہے، ہم نے ویلفیئر کے کاموں میں ڈیلور کرکے دکھایا ہے، فلاحی شعبے خیر العمل فاونڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ابتک مجلس وحدت مسلمین پانچ کروڑ روپے سے زائد مختلف پروجیکٹس مکمل کرچکی ہے جبکہ دیگر جماعتیں فقط نعرے اور دعوے کر رہی ہیں، لیکن ہم نے کرکے دکھایا ہے۔

ہم نے دہشتگردی کے واقعات کے دوران جب ہر طرف سے خاموشی چھائی ہوئی تھی، اس وقت ان مظلوم لوگوں کی آواز بن کے دکھایا ہے، انہیں حوصلہ دیا ہے، انہیں سمت دی ہے، انہیں راستہ دکھایا ہے، پورے پاکستان میں ان کی حمایت میں ریلیاں نکالی ہیں، انہیں تنہائی سے نکالا ہے اور اپنا شرعی وظیفہ انجام دے کر دکھایا ہے، کہیں پر ان کی آواز کو بیٹھنے نہیں دیا۔ واحد مذہبی سیاسی جماعت ایم ڈبلیو ایم ہے جس نے گندم سبسڈی بحال کر دکھائی ہے، یہ معروف ہے کہ بھٹو کی گندم سبسڈی ختم ہوگئی ہے اور ایم ڈبلیو ایم کی شروع ہوگئی ہے۔ ہماری طرف سے سکردو میں پہلا چالڈ ائند مدرکئیر کا اسپتال شروع ہوجائیگا۔ یہ واضح رہے کہ ابھی ہم حکومت میں نہیں ہیں لیکن ہم نے بہت کچھ ڈیلور کر دکھایا ہے، ہم اپنی بہترین ٹیم کے بل بوتے پر ڈیلور کرکے دکھائیں گے، یہ جو مذہبی جماعتوں کا چہرہ داغ دار ہوا ہے، ہم اس داغ کو دھو کر دکھائیں گے، ہم مذہبی جماعت پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرکے دکھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی بحالی کی بات کرتی ہے جبکہ دیگر جماعتیں بھی یہی کہتی ہیں، دونوں میں فرق کیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: یہ یاد رہنا چاہئے کہ جس جماعت نے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق بحال کرنے کے دعوے کئے تھے، انہوں نے اپنی پانچ سالہ حکومت میں ایک بھی قرارداد منظور نہیں کرائی، جبکہ مجلس وحدت مسلمین نے جتنے بھی قومی اتحاد کئے ہیں، ان میں گلگت بلتستان پہلا یا دوسرا نکتہ ہوتا تھا، جس میں ہمارا واضح مطالبہ ہوتا تھا کہ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق دیئے جائیں، چاہیے وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کسیاتھ اتحاد ہو یا مسلم لیگ قاف سے یا پھر سنی اتحاد کونسل سے۔ ابھی بھی ہم ہر اس جماعت کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے تیار ہیں جو جماعت اپنے منشور میں یہ لکھے کہ ہم گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دلانے کیلئے تیار ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے ایک پریشر پیدا کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم بے وسائل ہیں، جن کے پاس نہ تو صوبے کی حکومت ہے اور نہ ہی وفاق میں، ہم خدائی تائید و حمایت کیساتھ گلگت بلتستان کے مظلوم کی عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انشاءاللہ یہ جنگ جیت کر دکھائیں گے۔ یہ بتاتا چلوں کہ اکثر حلقوں میں یہ بات چل رہی ہے کہ اصل مقابلہ نون لیگ اور مجلس وحدت مسلمین کے درمیان ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان تحریک انصاف اور ایم ڈبلیو ایم کے درمیان اتحاد کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: ہم نے تحریک انصاف سے درخواست کی ہے کہ جن حلقوں میں مجلس کی اکثریت ہے اور جیتنے کے چانسز زیادہ ہیں وہاں یہ ہمیں سپورٹ کریں، تاکہ ہم یہ سیٹیں جیت جائیں۔ ہم نے تحریک انصاف کی قیادت سے گزارش کی ہے کہ آپ گلگت بلتستان میں ہمیں سپورٹ کریں، تاکہ ہم نون لیگ کو شکست دے سکیں۔ اس پر انہوں نے مشاورت کیلئے وقت مانگا ہے، ہم نے واضح کر دیا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کا کوئی بھی نمائندہ کسی کے حق میں دستبردار نہیں ہوگا۔ مگر یہ کہ استور، گھنچے، ہنزہ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان موجود ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں پر کیسز بنا دیئے گئے ہیں، اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں، نون لیگ کے صوبائی سربراہ نے ایک جگہ کہا ہے کہ جو لوگ اسٹیٹ کیخلاف نعرہ لگائیں گے، ان کو نتائج بھگتنے پڑیں گے، ہم سمجھتے ہیں یہ تمام کیسز سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں، ابھی تک عارف قنبری صاحب کا چالان تک پیش نہیں کیا گیا، جان بوجھ کبھی وکیل پیش نہیں ہوتا تو کبھی کوئی اور مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں، یہ جان بوجھ کر اس مسئلہ کو طویل کر رہے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ہم نے فوج کی حمایت اور پارلیمنٹ کی قرارداد کی حمایت میں ریلی نکالی ہے اور کہا ہے کہ ہماری فوج کو پرائی جنگ میں نہیں جانا چاہیے، جبکہ نون لیگ نے فوج کی حمایت میں ہمارے کیخلاف مقدمات بنائے ہیں۔ انہوں نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ایف آئی آر درج کرائی ہے، جبکہ نون لیگ کی مرکزی قیادت کیخلاف سانحہ ماڈل ٹاون جس میں پندرہ افراد شہید اور 90 کے قریب زخمی ہوئے، اس کیخلاف براہ راست ایف آئی آر ہوئی، لیکن تاحال اس پر کچھ نہیں ہوا۔ یہ خود ان مقدامات میں ملوث ہیں لیکن ہمارے خلاف مقدمات بنا رہے ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف کی پارلیمنٹ میں فوج کیخلاف توہین آمیز تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے، اس کے علاوہ کئی دیگر رہنماوں کی تقریریں موجود ہیں، جبکہ یمن کے معاملے پر ہونے والی ریلی میں کوئی ایسی تقریر نہیں کی گئی، یہ سیاسی کارروائی ہے، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں، نون لیگ ایم ڈبلیو ایم کی مقبولیت سے خائف ہے اور وہ ہمیں اس کی قیمیت ادا کرانا چاہتی ہے اور ہم یہ قیمت ادا کریں گے۔ انہیں اپنے اندر بیٹھے گھس بیٹھئے کو سزا دینی چاہیے، انہیں سزا دینی چاہیے جو ریاست مخالف طالبان کی حمایت کرتے تھے اور مذاکرات کا راگ الاپتے تھے جبکہ مجلس وحدت وہ واحد جماعت تھی جو طالبان کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کرتی تھی۔ ہمارے خلاف مقدمات کے اندراج پر کہہ سکتا ہوں کہ نواز حکومت نے سعودی اور ہندی مفاد پر ہمارے کیخلاف مقدمات بنائے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نون لیگ کی صوبائی قیادت ایم ڈبلیو ایم پر بیرون ملک سے مالی امداد کا الزام عائد کر رہی ہے۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی ہمارے اوپر فقط الزامات عائد کئے جا رہے ہیں لیکن یہ تو خود تسلیم کرچکے ہیں کہ ہم نے سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر لئے ہیں، لیکن یہ بھی نہیں بتایا کہ کس مد میں لئے ہیں، یہاں تک کہ پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پہلے انہیں اس رقم کے بارے میں قوم کو بتانا ہوگا کہ اس کے بدلے انہوں نے قوم کی کونسی چیز فروخت کی ہے۔ یہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہے، یہ بتائیں کہ جب یہ سعودی عرب گئے تھے تو خالی ہاتھ تھے، یہ واپس آئے تو ان کی وہاں پر اربوں روپے کی ملیں کیسے لگ گئیں۔ سعودی عرب کے سفیر اور امام کعبہ پاکستان میں کیا کر رہے ہیں، یہ کالعدم جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقاتیں اور 50 ہزار جنگجو بھیجنے کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں، یہ سعودیہ کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ پاکستان میں اس طرح کی سرگرمیاں کریں۔ انہوں پاکستان کو سعودیہ اور عربوں کی چراگاہ بنا دیا ہے۔ یہ پاکستان کی سالمیت کیساتھ کھیل رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا الیکشن میں کوئی بڑا اتحاد نظر آرہا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے الیکشن کے بعد کوئی بڑا اتحاد نظر آرہا ہے، اس سے پہلے نہیں۔ الیکشن سے پہلے فقط کسی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ نظر آرہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکو اپنی جماعت کی کامیابی کے حوالے سے کیا لگ رہا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی! مجلس وحدت مسلمین بہت پرامید ہے، آج کی صورت حال اور کیفیت میں لطف الہی اور عوامی تائید شامل ہے، یہ یاد رکھیں کہ ہم بے وسائل ہیں، ہمارے مقابلے میں صوبائی و وفاقی حکومت ہے، بیرونی سرمایہ لگ رہا ہے، ہمارے مقابلہ میں آل سعود لیگ ہے، ہمارے مقابلے میں کالعدم جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں ریاستی جبر ہے اور ہتھکنڈے ہیں، اس کے علاوہ پری پول رگینگ کی پلانگ ہوچکی ہے۔ ہم اچھے جذبے اور اُمید کیساتھ ان کے اہداف کو روکیں گے اور بہترین جماعت کے طور پر سامنے آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکی ہم خیال جماعتیں ایم ڈبلیو ایم کے حق میں بیٹھ سکتی ہیں، جیسے پاکستان عوامی تحریک ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی ہماری صاحبزادہ حامد رضا سے بھی بات چیت چل رہی ہے اور ڈاکٹر رحیق عباسی سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اکثر حلقوں میں یہ دوست ہمارے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے اور ہماری حمایت کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کوئی پیغام دینا چاہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: گلگت بلتستان کے عوام سے آخر میں اپیل کروں گا کہ یہ تاریخ ساز مرحلہ ہے، جس میں آپ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں، اگر آپ اس موقع پر ایک قومی جماعت کے طور پر کوئی دوسری جماعت سے مقابلے میں پاتے ہیں، ہر شخص تنہائی کے اندر اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر تفکر کرے اور پھر فیصلہ کرے، اس نے کس جماعت کیساتھ کھڑا ہونا ہے۔ کیا مجلس وحدت سے بہتر کوئی جماعت ہے جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، کیا کوئی ایسی جماعت ہے جس نے گذشتہ پانچ برسوں میں ہر دکھ کی گھڑی میں آپ کا ساتھ دیا ہو؟، کیا جنہوں نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے اور اپنی جائیدادیں بڑھائیں، ان کو دوبارہ اپنے کندھوں پر بٹھانا چاہیے؟، کیا انہیں دوبارہ پانچ سال کیلئے موقع دینا چاہیے، جبکہ ہم اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار ان سیاستدانوں کو سمجھتے ہیں، کیا وقت آنہیں گیا کہ آزمائے ہوئے لوگوں کو نکال باہر کریں۔ کیا اس سے بڑھ کر ان سے انتقام لینے کا کوئی اور وقت ہوسکتا ہے۔ ان ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام فیصلہ کریں، جس سے خطے میں عوام ترقی کرسکیں۔ 8 جون کو گلگت بلتستان کے عوام اچھا فیصلہ کریں۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) ایم ڈبلیوایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا ایجنڈا بالکل واضح ہے کہ اس ملک کے اندر جن لوگوں نے اس خطے کے عوام سے غداری نہ کی ہو، عوام کا مال نہ لوٹا ہو، کرپشن میں ملوث نہ رہے ہوں، عوامی امنگوں کی ترجمانی کی ہو، عوامی مفادات کی حفاظت دل و جان سے کی ہو، اس خطے کے وسائل کو اس خطے کے غریب عوام پر خرچ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، چاہیے ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، ہم چاہیں گے کہ ایسے لوگوں سے مل کر اجتماعی جدوجہد کریں گے۔


 
علامہ محمد امین شہیدی گلگت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی۔ کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا اور 1984ء میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف کی ترویج کے لئے تشکیل دیا تھا۔ ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے اب تک علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین نے قومی انتخابات میں حصہ لینے کے بعد گلگت بلتستان کی سیاست میں باقاعدہ حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، گذشتہ دنوں اسی سلسلے میں انہوں نے بلتستان ریجن کا دوہ کیا، اس موقع پر اسلام ٹائمز نے علامہ امین شہیدی سے گلگت بلتستان کی سیاست، ملکی صورتحال اور انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

 

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں انتخابات کی گہما گہمی ہے، تمام سیاسی پارٹیاں میدان میں اتر چکی ہیں، آپکا دورہ بلتستان اسی سلسلے کی کڑی ہے یا اسے صرف تنظیمی دورہ ہی تصور کیا جائے گا۔؟


علامہ امین شہیدی: یقینی طور پر آپ کی یہ بات درست ہے کہ اعلان شدہ شیڈول کے حوالے سے انتخابات میں کوئی زیادہ ٹائم باقی نہیں رہا، دیگر جماعتیں انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور میرا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حالات کا جائزہ لینا، دوستوں اور عوام سے رابطے کو استوار کرنا، ان کے مسائل کو دیکھنا اور انتخابات کے حوالے سے اس وقت جو صورتحال ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کو یقینی بنانا۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن کی بناء پر یہاں آنا ضروری تھا اور انہی موضوعات کو لیکر میں یہاں حاضر ہوا ہوں، مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

 

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے سیاست میں نئے چہرے لانے کا اعلان کیا ہے، گلگت بلتستان میں مناسب امیدوار نہ ملنے کی صورت میں کیا پرانے چہروں کو قبول کیا جاسکتا ہے۔؟


علامہ امین شہدی: دیکھئے مسئلہ چہرے کا نہیں بلکہ کردار کا ہے، اگر کسی بھی حلقے میں آپکو باکردار امیدورا مل جاتا ہے اور یقیناً گلگت بلتستان میں باکردار افراد کی کمی نہیں ہے، آپ ایسے باکردار لوگوں کو میدان میں اتارتے ہیں، جنہوں نے کبھی کرپشن نہ کی ہو، جن کا ماضی بے داغ ہو، جن کی امنگیں قوم کی امنگوں کی ترجمان ہوں، جن کا ویژن اس خطے کے عوام کا مستقبل روشن کرنے کا عکاس ہو اور جن کے اندر جرات و حمیت، ظلم کے مقابلے میں آواز اٹھانے کی طاقت موجود ہو تو یقینی طور پر ایسے لوگ اس خطے کے عوام کے مفادات کی حفاطت بھی کرسکتے ہیں اور قوم کو باقی اقوام، باقی سرزمینوں کے مقابلے میں برابری کے شہری حقوق دلاوا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہماری پوری کوشش ہے کہ اس طرح کے بے داغ چہروں کو میدان میں اتارا جائے، اس حوالے سے تقریباً ورکینگ مکمل ہوچکی ہیں، اور انشاءاللہ و تعالٰی بہت جلد اعلانات بھی متوقع ہیں۔ جہاں تک سوال کا تعلق ہے کہ کوئی نیا چہرہ نہ ملے ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں پڑھے لکھے، باشعور، باکردار اور علاقے کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ایسا ممکن نہیں کہ ایسا امیدوار نہ ملے، لہٰذا یہ سوچنا بھی درست نہیں ہے۔

 

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی سے اتحاد ممکن ہے۔؟


علامہ امین شہیدی: جہاں تک آپ نے کچھ جماعتوں سے اتحاد کی بات کی ہے، یہ ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ ہمارا ایجنڈا بالکل واضح ہے کہ اس ملک کے اندر جن لوگوں نے اس خطے کے عوام سے غداری نہ کی ہو، عوام کا مال نہ لوٹا ہو، کرپشن میں ملوث نہ رہے ہوں، عوامی امنگوں کی ترجمانی کی ہو، عوامی مفادات کی حفاظت دل و جان سے کی ہو، اس خطے کے وسائل کو اس خطے کے غریب عوام پر خرچ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، چاہیے ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، ہم چاہیں گے کہ ایسے لوگوں سے مل کر اجتماعی جدوجہد کریں، تاکہ اس جدوجہد کا فائدہ قوم کو پہنچ سکے۔ اگر ان دونوں جماعتوں میں یہ خوبی ہو تو اتحاد میں کوئی حرج نہیں۔

 

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے کن کن حلقوں سے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔؟


علامہ امین شہیدی: ہمارا مقصد جیتنا نہیں بلکہ ہمارا بنیادی مقصد عوام کے اندر شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہے، عوام کو بیدار کرنا، عوام کو باشعور بنا کر گلگت بلتستان سے روایتی سیاست کے بت کو گرانا ہے، عوام کے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک لولا لنگڑا نظام دیا تھا، نواز لیگ اسے بھی چھینے کی تیاری کر رہی ہے اور نواز شریف صاحب نے سرتاج عزیز صاحب کی قیادت میں ایک کمیٹی کا اعلان کیا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کمیٹی کیا گل کھلاتی ہے، لیکن 67 سال سے وہ قوم جس نے 36 ہزار مربع میل کو اپنے زور بازو کے بل بوتے پر آزاد کرایا تھا، انہوں نے قربانیاں دی تھیں اور پاکستان سے عشق کی بنیاد پر اس سرزمین کو قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے کیا تھا، اگر انہی مجاہد صفت محب وطن لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، انکو پاکستان کے قومی دھارے میں شامل نہ کیا جائے، ان کو حتٰی اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا جائے، نہ سینیٹ میں ان کی نمائندگی ہو نہ قومی اسمبلی میں ان کا کوئی نمائندہ ہو، تو پھر اس کو ایک تاریک اور بے آئین سرزمین کے علاوہ آپ کیا کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے جو بنیادی ترین حقوق ہیں، ان کی بازیابی کے لئے جدوجہد کریں، لوگوں کو شعور دیں۔ مجلس وحدت مسلمین کی اس خطے میں پذیرائی بہت اچھی ہے، عوام کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں، اگر دھاندلی نہ ہوئی تو نواز لیگ اس وقت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، کوشش کی جا رہی ہے جس کے لئے پنجاب سے پولیس اور بیورکرسی کے لوگ بھیجے جا رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری سے لیکر پولنگ آفیسر تک بھیجے جا رہے ہیں اور روز اول سے ہی انتخابات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ من پسند نتائج دیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن شفاف ہو اور ان الیکشن میں عوام جن کو منتخب کریں، انہی کو اس خطے کی خدمت کا حق حاصل ہونا چاہیے، اگر عوام نے ہمیں موقع دیا تو جن حلقوں میں وہ چاہیں گے، ان حلقوں میں ہمارے نمائندے آئیں گے اور عوام کی خدمت کریں گے۔

 

اسلام ٹائمز: انتخابات میں دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد ممکن ہے، خاص طور پر اسلامی تحریک کے ساتھ۔؟


علامہ مین شہیدی: آپ صرف دینی جماعتوں سے اتحاد کی بات کیوں پوچھ رہے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ تمام جماعتوں کے ساتھ اتحاد ممکن ہے، شرائط میں نے پہلے بیان کر دی ہیں، تو تمام جماعتیں جو اس خطے کے عوام کی خدمت کرتی ہو یا کرنے کا ادارہ رکھتی ہیں، ان کا ماضی اس حوالے سے بے داغ ہو، کرپشن نہ کی ہو، اس ملک کے خزانے کو نہ لوٹا ہو، ملازمیتیں نہ بیچی ہوں، اس خطے کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم میں ان کا ہاتھ رنگا ہوا نہ ہو، چاہے وہ کوئی بھی جماعت ہو، ہمارے دروازے اس کیلئے کھلے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی جماعت ہو یا سیاسی جماعت، اگر اس ارادے کے ساتھ وہ میدان میں ہیں تو ہم چاہیں گے کہ ان سے اتحاد کریں اور سب کو ساتھ لیکر چلیں۔

 

اسلام ٹائمز: 2013ء کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم نے حصہ لیا اور کراچی میں ایم کیو ایم کو بڑا ٹف ٹائم دیا تھا، الطاف کا گھیرا تنگ ہونے اور متحدہ کے خلاف آپریشن کے بعد مجلس وحدت مسلمین کیلئے سیاسی امکانات بہتر ہوئے ہیں۔؟


علامہ امین شہیدی: دیکھیں! ابھی آپریشن جاری ہے، مجرم پکڑے جا رہے ہیں، ان میں اکثر کا تعلق ایم کیو ایم سے بتایا جاتا ہے، اب یہ معاملہ حکومت کا ہے، حکومت کے جو ادارے موجود ہیں، ان اداروں خصوصاً عدلیہ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا تعلق کس جماعت سے ہے، کون کتنا مجرم ہے اور اس کی سزا کیا ہے۔ جب سے کراچی میں آپریشن شروع ہوا ہے، اس کے بعد سے واضح تبدیلی آئی ہے۔ دھونس، دھمکی، زبردستی اور ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، ہمارا موقف ہے کہ جماعتیں چاہیں کوئی بھی ہوں، سیاسی ذہن رکھنے والوں کو مکمل آزادی ہونی چاہیے، اگر کسی جماعت میں دہشتگرد، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور، بلیک میلرز، اسلحے کے زور پر دوسروں کا استحصال کرنے والے غنڈے موجود ہیں تو ان کا صفایا ہونا چاہیے، کیونکہ یہ جسم کو لگے ایک ناسور ہیں، اسے کاٹے بغیر جسم کو صحت مند نہیں بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کا تعلق کسی بھِ جماعت سے ہو، آئین اور قانون کی عمل داری کا نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ایسے عناصر کو ختم کیا جائے اور اگر ایسا ممکن ہوا تو اس کا خوشگوار اثر کراچی پر بالخصوص اور بالعموم پورے سندھ پر پڑے گا۔

 

وحدت نیوز: ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے ’’وحدت نیوز‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم نے اپنی تشکیل کے بعد 80 کی دہائی میں سواد اعظم کی جانب سے پھیلائی جانے والی مذہبی منافرت کو شیعہ سنی اتحاد سے ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، لیکن آج صورتحال مختلف نظر آرہی ہے، خود ایم کیو ایم میں ایسے عناصر شامل ہوچکے ہیں، جو ایم کیو ایم کے شیعہ سنی اتحاد کے نظریہ کی نہ صرف نفی کر رہے ہیں، بلکہ شیعہ و سنی کو قتل کرکے نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔


 آغا سید رضا نقوی کا تعلق کراچی سے ہے، ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں مصروف کار ہیں۔ بچپن سے کراچی کے ایک مدرسے سے وابستہ رہے اور کالج سے اپنی تنظیمی سرگرمیوں کا آغاز امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت سے کیا اور 1988ء میں آئی ایس او گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی کے صدر رہے۔ بیرون ملک تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملت کے اجتماعی امور میں مشغول رہے اور مجلس وحدت مسلمین کراچی کے اساسی رکن ہونے کے ساتھ اس وقت ڈپٹی سیکرٹری جنرل کراچی ڈویژن کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔وحدت نیوزنے آغا سید رضا نقوی کیساتھ این اے 246 کے ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت اور غیر جانبدار نہ رہنے کی وجوہات، کراچی آپریشن، یمن پر سعودی جارحیت میں نواز حکومت کے اقدامات سمیت دیگر موضوعات پر انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

 

وحدت نیوز: کراچی کے حلقے این اے 246 میں ہونیوالے ضمنی الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی، ایم کیو ایم اس حلقے سے کامیاب ہوچکی ہے، کیا آپ ضمنی الیکشن کے شفاف ہونے کے حوالے سے مطمئن ہیں۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے 2013ء کے عام انتخابات میں جب اپنی شناخت کے ساتھ حصہ لینے کا اعلان کیا تھا، اس وقت بھی ایم ڈبلیو ایم کا مؤقف یہی تھا کہ پاکستانی عوام کو کسی بھی قسم کی دھونس، زور اور زبردستی کی سیاست سے بالا ہوکر اپنے آئینی حق کا استعمال کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیئے، حق رائے دہی کی آزادی اور انتخابی عمل کی شفافیت کے بعد جو بھی نتیجہ آئے، اس کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہئے۔ مجلس وحدت مسلمین NA246 کے ضمنی انتخابات میں بھی اپنے اس مؤقف پر قائم تھی کہ عوام کو انکی مرضی سے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی آزادی ہونی چاہئے اور اس کے بعد نتیجہ جو بھی ہو، اس کو تمام فریقوں کو قبول کرنا چاہئے۔ جہاں تک ضمنی انتخابات میں حکومتی اور الیکشن کمیشن کے اقدامات کا سوال ہے، تو اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے انتخابی عمل کو شفاف سے شفاف تر بنایا جاسکتا ہے۔

 

وحدت نیوز: ایم ڈبلیو ایم کیجانب سے این اے 246 میں بجائے ایم کیو ایم کے، پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی، کیا وجوہات تھیں، جبکہ ایم کیو ایم کی اس حلقے سے فتح یقینی تھی اور خود ایم ڈبلیو ایم گذشتہ عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف اور اسکے چیئرمین عمران خان کو کالعدم تحریک طالبان اور اسکے ساتھ حکومتی مذاکرات کے حوالے سے انتہائی سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: تحریک انصاف کی حمایت کے فیصلے میں کوئی راکٹ سائنس کار فرما نہیں ہے، عرصہ دراز سے مجلس وحدت مسلمین اپنے بیانات اور ملاقاتوں میں ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت کو یہ باور کرا چکی ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں اور تکفیری دہشتگردانہ سوچ کے حامل عناصر سے پاک کرنا چاہئے اور ایم ڈبلیو ایم کے اس مؤقف سے ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت بھی متفق رہی ہے، جس کا برملا اظہار ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت اپنے خطابات میں بارہا کرچکی ہے۔ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے گرفتار کردہ دہشت گردوں کا اس بات کا برملا اعتراف کے وہ شیعہ عمائدین اور ملت تشیع کے افراد کی کلنگ میں ملوث رہے ہیں، کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ملت تشیع پاکستان جہاں شہادت کے جذبے سے سرشار ہے، وہیں اپنے شہیدوں کے لہو کی پاسداری پر بھی کمر بستہ ہے، تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ ملت تشیع ایسے لوگوں کی حمایت کرے، جنکی صفوں میں ہمارے قاتل چھپے ہوں؟ جہاں تک بات ہے تحریک انصاف اور عمران خان کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تو سب سے پہلی بات کہ طالبان سے مذاکرات کی حمایت تو تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے کی تھی، ماسوائے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے، آپ کو یاد ہوگا کہ طالبان سے مذاکرات کے موضوع پر نواز حکومت کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی، جس میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم و پیپلز پارٹی نے حکومت کو طالبان سے مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا۔

 

جیسا میں نے کہا کہ ماسوائے ایم ڈبلیو ایم کے تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں اور ایم ڈبلیو ایم نے ان تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات کا بارہا اعتراف کرچکی ہے کہ طالبان سے مذاکرات پر انکی پارٹی کا مؤقف غلط تھا، جس کا خود انہیں بھی اندازہ ہوگیا تھا، ابھی حال ہی میں ہونے والی ملاقات میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور کراچی سے رکن قومی اسمبلی عارف علوی نے ایک بار پھر اپنے اس مؤقف کو دہرایا تھا۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی جانب سے یمن پر ہونے والی سعودی جارحیت کے حوالے سے دوٹوک اور فیصلہ کن مؤقف بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جس کا برملا اظہار پارلیمنٹ میں بھی ہوچکا ہے اور ہمارے لئے ایسے وقت میں کہ جب سعودی عرب اور اسکی نمک خوار نواز حکومت پاکستانی فوج کو کرائے پر یمنی مسلمانوں کے قتل کے لئے یمن بھیجنے پر تلی بیٹھی تھی، ایسے وقت میں تحریک انصاف کا ایم ڈبلیو ایم کی مشاورت سے سامنے آنے والا دو ٹوک مؤقف اندھیرے میں امید کی کرن کے مترادف تھا، لہذا مجلس وحدت مسلمین کی اولین کوشش ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سعودی نواز تکفیریوں کے خلاف ایک جگہ پر اکٹھا کریں اور اس میں ہمیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔

 

وحدت نیوز: کچھ شیعہ حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کو پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی بجائے این اے 246 کے ضمنی الیکشن میں شیعہ علماء کونسل کی طرح غیر جانبدار رہنا چاہیئے تھا، کیا کہیں گے اس رائے کے حوالے سے۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: غیر جانبداری کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، غیر جانبداری کا مطلب ہوتا کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کون جیتے گا اور کون ہارے گا، کسی کی جیت اور ہار سے زیادہ اہم یہ بات تھی کہ ملت تشیع کہاں کھڑی ہوگی؟ ایم ڈبلیو ایم ملت تشیع کی واحد نمائندہ سیاسی و مذہبی ملک گیر تنظیم ہے، ہمارا مؤقف بھی اسی طرح واضح ہونا چاہئے تھا اور ہمارے لئے اہم تھا کہ ہم ان قوتوں کو پیغام دیں کہ جو کراچی میں ہونے والی شیعہ کلنگ میں ملوث رہے ہیں، صرف ضلع وسطی میں پچھلے دو سالوں میں 140 سے زائد شیعہ عمائدین اور مومنین کو شہید کیا جاچکا ہے، جس میں استاد پروفیسر سید سبط جعفر زیدی، سید سعید حیدر زیدی، پروفیسر تقی ہادی، علامہ علی اکبر کمیلی، پروفیسر انیس، عدیل عباس وغیرہ شامل ہیں، کیا ایم ڈبلیو ایم کی غیر جانبداری ان شہیدوں کے لہو پر خاموشی کے زمرے میں نہیں آتی؟ تشیع میں غیر جانبداری کی گنجائش نہیں ہے۔ ملت تشیع کا مؤقف دو ٹوک اور واضح ہونا چاہئے، شہیدوں کے لہو کا قرض ہے ہم پر، ہم کیسے اپنے شہیدوں کے لہو سے پہلو تہی کرسکتے ہیں۔؟

 

وحدت نیوز: کراچی میں رینجرز کیمطابق انکے ہاتھوں متحدہ قومی موومنٹ کے گرفتار کارکنان اور عہدیداران نے شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ کا بھی اعتراف کیا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کراچی میں شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور سیاسی عناصر کا گٹھ جوڑ ہے، سیاسی عناصر بھی ملوث ہیں؟ اگر یہ حقیقت ہے تو حقائق عوام کے سامنے نہ لانے کی آپ کیا وجوہات سمجھتے ہیں۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: ملت تشیع کے کسی بچے سے بھی پوچھیں گے تو وہ بھی آپ کو بتا دے گا کہ ملت تشیع کا کراچی میں کون قاتل ہے، تو یہ تاثر تو غلط ہے کہ حقائق عوام سے پوشیدہ ہیں۔ جہاں تک بات ہے کالعدم و دہشت گرد تنظیموں کی سیاسی عناصر سے گٹھ جوڑ کی تو یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایم ڈبلیو ایم بارہا اس بات کی نشاندہی کرچکی ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنی صفوں میں شامل تکفیری دہشتگردانہ سوچ کے حامل عناصر کو باہر نکالنا ہوگا، کیونکہ یہ تکفیری عناصر خود سیاسی جماعت کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنی تشکیل کے بعد 80ء کی دہائی میں سواد اعظم کی جانب سے پھیلائی جانے والی مذہبی منافرت کو شیعہ سنی اتحاد سے ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، لیکن آج صورتحال مختلف نظر آرہی ہے، خود ایم کیو ایم میں ایسے عناصر شامل ہوچکے ہیں، جو ایم کیو ایم کے شیعہ سنی اتحاد کے نظریہ کی نہ صرف نفی کر رہے ہیں بلکہ شیعہ و سنی کو قتل کرکے نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں، ایم کیو ایم میں گاہے بگاہے اعلٰی سطح پر تبدیلیاں اس بات کی علامت ہے کہ کلیدی عہدوں تک رسائی میں اگر کسی قسم کا کوئی فلٹر تھا تو اب وہ کمزور ہوچکا ہے۔ ہم آج بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا وجود باقی رہے، لیکن سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو اپنے اندر سے جرائم پیشہ افراد کو باہر نکالنا ہوگا اور بالخصوص وہ عناصر کہ جو شیعہ نسل کشی میں ملوث ہیں۔

 

وحدت نیوز: کراچی میں دہشتگرد اور جرائم پیشہ عناصر کیخلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن سے مطمئن ہیں۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک مطمئن ہیں، کراچی کے لئے امن ناگزیر ہے، یہ بات صحیح ہے کہ کراچی کا امن پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے، لیکن پاکستانی عوام پر ہونے والی نظریاتی دہشت گردی کا سدباب بھی انتہائی ضروری ہے۔ نظریاتی دہشت گردی میں معاشرے میں ایسے افراد پروان چڑھتے ہیں جو معاشرے کی تعمیر کے بجائے، معاشرے کو فرقہ پرستی و لسانیت کی دلدل میں دھکیلتے رہتے ہیں۔ طالبان اور طالبان جیسی فکر رکھنے والے چھوٹے یا بڑے تکفیری گروہوں کا خاتمہ پاکستان کی بقاء اور ترقی کا بھی اتنا ہی ضامن ہے جتنا کراچی کا امن۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کو دہشت گردی و جرائم سے پاک ہونا چاہئے، جس کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے کوشاں ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انتہائی ضروری ہے کہ نظریاتی دہشت گردی کا سدباب کیا جائے۔ کراچی میں درجنوں ایسے قلعہ نما مدارس ہیں جن کے بارے میں ہر خاص و عام جانتا ہے کہ یہ مدارس دین کی آڑ میں دہشت گردی کے اڈے ہیں، جہاں نہ صرف دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ وہاں اس بات کی بھی تعلیم دی جاتی ہے کہ دوسروں کو دہشت گرد کیسے بنایا جائے، یعنی نظریاتی دہشت گردی کی تربیت۔ ہمارے خیال میں دہشت گردی کے ایسے مراکز کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری کارروائی کرنی چاہئے اور دہشت گردی کے ان مراکز کو فی الفور بند کر دینا چاہئے، تاکہ بچوں اور نوجوان نسل کو اس نظریاتی دہشت گردی سے بچایا جاسکے۔

 

وحدت نیوز: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی متفقہ قرارداد کے ذریعے پاکستان اعلان کرچکا ہے کہ وہ یمن کے مسئلے میں غیر جابندار رہتے ہوئے یمن اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریگا، لیکن پھر بھی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں، اور تاثر عام ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت عوامی رائے عامہ اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردار کے برعکس افواج پاکستان پر سعودی حمایت میں یمن جنگ میں کودنے کیلئے دباؤ ڈال رہی ہے، کیا کہیں ان سب کے حوالے سے۔؟

 

آغا سید رضا نقوی: اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کے حوالے سے جو قرارداد منظور کی گئی وہ قابل ستائش ہے اور یہ قرارداد نواز حکومت کیلئے ایک دھچکے سے کم نہیں تھی، شاید نواز شریف صاحب سمجھ رہے تھے کہ جس طرح گذشتہ سال تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے انکی حکومت بچانے کیلئے آنکھیں بند کرکے انکا ساتھ دیا تھا، شاید یمن کے مسئلہ پر بھی انکا ساتھ دیں گی۔ جہاں تک بات ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دباؤ کی تو یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی صرف فضاء سے ہی نہتے اور بے گناہوں پر بم برسا سکتے ہیں، زمینی جنگ لڑنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انکے پاس وہ حوصلہ و بہادری و جذبہ بھی نہیں، جس کی زمینی جنگ میں ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی عرب سمجھ رہا تھا کہ مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات پر حملے کا ڈرامہ کرکے وہ باآسانی پاکستانی فوج کرائے پر حاصل کرلے گا، لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو پایا تو سعودی وزیر کے دورے، اچانک امام کعبہ کا پاکستان آجانا اور پاکستان میں سعودی ریالوں پر پلنے اور چلنے والے مدارس کے ساتھ ساتھ تکفیری تنظیوں سے ملاقاتیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ سعودی عرب جنہیں دہایوں سے پال رہا تھا، اب ان سے نمک حلال کرنے کا تقاضا کر رہا ہے، جس کا اندازہ آپ نے گذشتہ دنوں مدارس کے طلبہ کی جانب سے نکالی جانیوالی ریلی سے لگا لیا ہوگا۔

 

دوسری طرف پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ہوشمندی و عقل مندی بھی نواز شریف کی راہ میں ایک بڑی روکاوٹ ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن سعودی عرب جا کر نواز شریف کا سعودی بادشاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا اور تکفیری دہشتگرد تنظیموں سے سعودی عرب کے حق میں بیانات دلوانا میرے خیال میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ ادھر یمن پر سعودی جارحیت کو 30 دن سے زائد ہوچکے ہیں، سعودی عرب نے سوائے معصوم اور بے گناہوں کو خون میں غلطاں کرنے کے علاوہ کیا کیا؟ کیا یمن سے کسی نے سعودی عرب پر کوئی ایک پتھر بھی مارا؟ میرے خیال میں سعودی عرب کے جارحانہ عزائم اب سب کے سامنے کھل کر آچکے ہیں، یعنی اب تو کسی قسم کا ابہام بھی باقی نہیں رہ گیا کہ سعودی عرب نے یمن پر یک طرفہ جارحیت کی ہے اور ایسی صورت میں سعودی عرب فوج بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف شریف خاندان نے جو اتنے سال سعودی بادشاہ کے مہمان بن کر شاہی محل میں گزاریں ہیں، تو اس کی نمک حلالی کا سعودی تقاضا تو ہوگا اور شخصی احسانات و مفادات کی خاطر پاکستانی فوج کو جنگ کی آگ میں دھکیلنا، کسی طور بھی دانشمندانہ اقدام نہیں ہوگا۔

وحدت نیوز (مشہد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور خارجہ امور کے سیکریٹری علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے کہا ہے کہ امت اسلامیہ اس وقت جس مصیبت میں مبتلا ہے، اس کی اصل وجہ تکفیریت ہے، اس شجرہ خبیثہ کی وجہ سے عالم اسلام کا چہرہ مسخ ہو رہا ہے اور دنیا میں اسلام دشمن قوتیں اسلام کے خلاف گھناونی سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مشہد مقدس کے حالیہ دورے کے دوران تسنیم انٹرنیشنل نیوز ایجنسی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ و اسرائیل کی مدد سے بنائی گئی داعش جیسی تنظیم کو اب شام و عراق میں شکست فاش ہو رہی ہے اور بہت جلد اس کا وجود مٹ جائے گا، اس وقت عالم اسلام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے اندرونی اختلافات کو پس پشت ڈال کر تکفیریت کے اس کینسر سے نجات حاصل کریں۔ پاکستان میں مجلس وحدت مسلمین کی فعالیت اور درپیش چیلینچز پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شیعہ سنی مسالک کو یکجا کرنے میں ایم ڈبلیو ایم کا بنیادی کردار ہے۔ اب پاکستان میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ملک میں مسلکی بنیادوں پر جنگ ہو رہی ہے کیونکہ اصل تکفیری آشکار ہوگئے ہیں، وہ لوگ جو پاکستان کا نئچرل ڈیفنس ہیں، وہ آج ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہیں اور تکفیریت کا منہ توڑ جواب دینے کو تیار ہیں۔

Page 5 of 7

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree