وحدت نیوز (کوٹلی) پارہ چنار میں ہونے والے بم دھماکے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، نہتے شہریوں کا قتل عام ، پولیٹیکل انتظامیہ نوٹس لے، دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں ، کوئی پوچھنے والا نہیں، ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عابد علی قریشی سیکرٹری تنظیم سازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر نے کوٹلی میں مختلف وفود سے ملاقات کے دوران کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کی بھرپور حمایت کرتے ہیں ، پہلے بھی کہا اب بھی کہتے ہیں ، ضرب عضب کا دائر کار پورے ملک تک پھیلایا جائے، ہم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہیں ، ضرب عضب کے مخالف دراصل پاکستان کے مخالف ہیں ، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی لگام دی جائے، بول چال میں حمایت کرنے والوں سے بھی پرسش کی جائے، طالبان کے حمایتی دراصل ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ، بھرپور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ واقعے کے ذمہ داروں کو منظر عام پر لانے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔

وحدت نیوز(کراچی) شہداء کمیٹی جیکب آباد اور شکارپورکے ایک وفد نے چئیرمین علامہ مقصود علی ڈومکی کی سربراہی میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال، صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی، وزیر خوراک سید ناصر حسین شاہ، وزیر ٹرانسپورٹ اور جیکب آباد سے رکن صوبائی اسمبلی میر ممتاز حسین جکھرانی، ایم این اے میر اعجاز حسین جکھرانی، آئی جی پولیس غلام حیدر جمالی، ایڈیشنل چیف سیکریٹری، ڈی آئی جی، کمشنرو دیگر شریک ہوئے۔ جبکہ وارثان شہداء کمیٹی جیکب آباد اور شکارپور کے ہمراہ مجلس وحدت مسلمین سندہ کے رہنما عبداللہ مطہری بھی شریک ہوئے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سندہ حکومت کی جانب سے وارثان شہداء کے ساتھ گیارہ ماہ قبل جو معاہدہ طے پایا تھا اگر اس پر عمل در آمد کیا جاتا تو صورتحال بہتر ہوتی آج بھی ضلع جیکب آباد،شکارپور اور قمبر شہداد کوٹ و دیگر اضلاع میں دھشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس اور مراکز موجود ہیں، جن کے خلاف کاروائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وارثان شہداء کو سرکاری ملازمت دی جائے اور زخمیوں کا مکمل علاج کیا جائے۔ اور معاہدے پر عمل در آمد کیا جائے۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندہ نے معاہدے اور شہداء کمیٹی کے مطالبات پر عمل در آمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ شخصیات کو سیکورٹی کیلئے لائسنس دیئے جائیں گے، جبکہ الیکشن پراسس کی تکمیل پر ملازمتوں پربین ختم ہوگاتو خانوادہ شہداء کے ایک ایک فرد کو ملازمتیں دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ دوھفتوں میں جیکب آباد اور شکارپور میں یادگار شہداء ٹاور کی تعمیر کا کام شروع ہوگا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سانحہ پشاور کے ایک سال مکمل ہونے پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے 16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کردہشت گردوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا چہرہ مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی۔عالمی میڈیا نے پاکستان کو ایک ایسی غیر محفوظ ریاست جہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا،آرمی پبلک اسکول کے معصوم شہداءنے مردہ ضمیرعوام اور سیاسی وعسکری قیادت کو جھنجھوڑاکر رکھ دیا، ضرب عضب کے نام پر شروع کیے جانے والے آپریشن کے دائرہ کار کو اگر وسعت دی جاتی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج زیادہ موثر ثابت ہوتے۔ ملکی مفاد سے متصادم مسلح جتھوں کو محض واصل جہنم کرنے سے کبھی بھی مقاصد نہیں حاصل ہوں گے۔ اس طرح دہشت گردی کے واقعات میں کمی تو آ سکتی لیکن دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان اداروں کے خلاف بھی ایکشن لیے جانا از حد ضروری ہے جہاں ان عناصر کی فکری تربیت کی جارہی ہے۔وہ مدارس دہشت گردی کی بنیادی درس گاہیں ہیں جہاں فرقہ واریت کا نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ کالعدم تنظیموں کے فعال اراکین دہشت گردوں کے معاون ہیں ان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان سیاسی شخصیات کوعبرت کا نشانہ بنایا جائے جو کالعدم جماعتوں کے سہولت کار کے طور پر ان کی سرپرستی کرتی ہیں ۔حکومت ریاستی اداروں کو انتقامی کاروائیوں اور غنڈہ گردی کے لیے استعمال کرنا چھوڑ دے۔ محب وطن اور ملک دشمن عناصر میں امتیاز روا رکھا جائے شیڈول فور اور نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بے گناہ افراد کے خلاف مقدمات بنا کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) اقوام کو حادثات اور سانحات سے  بچانے کی تدابیر دانشمند اور مفکرین  کیا کرتے ہیں۔کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ،جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص پاگل ہوگیاہے۔

بالکل اسی طرح کسی بھی ملت میں دانشمندوں کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔ یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔

کوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پر آگے آگے نہ چلیں۔اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔

کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت،بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے،دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ،دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے،دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔

جیساکہ تحریک ِ پاکستان کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ برّصغیرکے مسلمانوں کی قیادت،علمائ،شعرائ،خطبائ،وکلائ،معلمین،مدرسّین،واعظین اور صحافی حضرات پرمشتمل تھی،انہوں نے نہتّے مسلمانوں کو طاغوت و استعمارکے خلاف کھڑاکردیااور ان کی قیادت میں برّصغرکی ملت اسلامیہ اپنے لئے ایک نیاملک بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعدحصولِ اقتدار کی دوڑشروع ہوئی توجاگیرداروں،صنعتکاروں،وڈیروں اور نوابوں نے دانشمندوں کودھتکارکرایک طرف بٹھادیا۔

صحافت کوملازمت بنایاگیا،علماء کو مسجدو مدرسے میں محدودکیاگیا،خطباء اور وکلاء کو فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات میں الجھایاگیا،معلمین ،مدرسین اور شعراء کافکرِ معاش کے ذریعے گلہ گھونٹاگیا۔ جس سے ملکی قیادت میں پڑھے لکھے اوردینی نظریات کے حامل باشعور افراد کاکردار ماندپڑتاگیا اور صاحبانِ علم و دانش کے بجائے رفتہ رفتہ بدمعاشوں،شرابیوں اور لفنگوں کاسکّہ چلنے لگا۔

ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی گئی جن کا علم و دانش اور ملت و دین سے دورکاواسطہ بھی نہیں تھا۔چنانچہ یہ نئی قیادت جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی ملتِ پاکستان ،قیام ِ پاکستان کے اہداف اور اغراض و مقاص سے دور ہوتی چلی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانے اور اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کومٹانے کے لئے،نظریہِ پاکستان کو مشکوک قراردیاجانے لگا،انسانیت کے نام پر تقسیم ِ برّصغیر کو غلط کہاجانے لگااوردین دوستی کو انسانیت دوستی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کیاجانے لگا۔جس سے نظریہ پاکستان کی جگہ کئی لسانی و علاقائی تعصبات نے جنم لیا اور ملت پاکستان لڑکھڑانے لگی ،یہ لڑکھڑاتی ہوئی ملت ١٩٧١ء میں دودھڑوں میں بٹ گئی اور پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

١٩٧١ء سے لے کر ١٩٧٧ء تک باقی ماندہ پاکستان ،فوج اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بازیچہء اطفال بنارہا،بالکل ایسے ہی جیسے آج سے پانچ سوسال پہلے اٹلی بازیچہء اطفال بناہواتھا،ایسے میں اٹلی کی طرح پاکستان کی قیادت میں ایک میکاویلی ابھرا۔۔۔

پاکستان کا یہ میکاویلی١٩٢٤ء میں جالندھرمیں پیداہوا،ابتدائی تعلیم اس نے جالندھر اوردہلی میں ہی حاصل کی،١٩٤٥ء میں اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیااور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما،ملایا اور انڈونیشیامیں اس نے فوجی خدمات انجام دیں،برّصغیرکی آزادی کے بعد اس نے پاکستان کی طرف ہجرت کی،١٩٦٤ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوا،١٩٦٠ء سے ١٩٦٨ء کے دوران اسے اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا،مئی ١٩٦٩ء میں اسے آرمڈڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھربریگیڈئیر بنادیاگیا،١٩٧٣ء میں یہ میجرجنرل اوراپریل ١٩٧٥ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائزہوا اور یکم مارچ ١٩٧٦ء کو یہ پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا۔بالاخر١٩٧٧ء میں یہ پاکستان کے اقتدار کابلاشرکت غیرے مالک بننے میں کامیاب ہوگیا۔

اس کے مکمل فوجی فوجی پسِ منظر کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھاگئے اوربڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔

علمی و سیاسی دنیا آج بھی اس مرموزوپراسرارشخص کے بارے میں اس مغالطے کی شکارہے کہ یہ صرف ایک فوجی آدمی تھا اور کچھ نہیں۔حالانکہ اگر یہ صرف فوجی ہوتاتویحیٰ خان کی طرح عیاشیاں کرتا اور مرجاتایاپھر ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرتا اور رخصت ہوجاتااور اس کاشر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتالیکن اس کے فکری بچے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مزید افزائشِ نسل ہورہی ہے،اس کے قائم کئے ہوئے تھنک ٹینکس اور دینی مدرسے،اس کے پالے ہوئے سیاستدان،اس کے نوازے ہوئے صحافی،اس کے بھٹکائے ہوئے ملّا،اس کے تربیت دیے ہوئے متعصب لسانی و علاقائی لیڈرپاکستان کی شہ رگ کو آج بھی مسلسل کاٹ رہے ہیں۔

١٩٧١ء کے سیاسی بحران کے بعدپاکستان میں جدیدلادین سیاست کابانی اور پاکستانی میکاویلی ضیاء الحق،فوجی وردی پہن کر پاکستانی سیاست کے افق پر چمکا۔

اس نے اپنے گیارہ سالوں میں اٹلی کے میکا ویلی کی طرح ایک نئے سیاسی فلسفے کی بنیادیں فراہم کیں۔اٹلی کے میکا ویلی کا کہنا تھا کہ

"سیاست کا دین اور اخلاق سے کوئی تعلق نہیں" ۔

چونکہ اٹلی کے میکاویلی کا پسِ منظر علمی اور سیاسی تھا لہذا اس کا سیاسی فلسفہ بہت جلد علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا اور اس پر لے دے شروع ہوگئی لیکن پاکستان کا میکاویلی بظاہرصرف اور صرف" فوجی "تھاجس کے باعث علمی و فکری حلقوں میں اس کی شخصیت کو سنجیدگی سے زیرِ بحث لانے کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور یہی ملتِ پاکستان کے دانشوروں سے بھول ہوئی۔

حتّیٰ کہ ذولفقار علی بھٹو سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ خود کو تو دنیائِ سیاست کا ناخدااور اسے فقط "فوجی" سمجھتے رہے۔تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،جنہیں بھٹو نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا،انھیں دن میں دومرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہردفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:

 سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔[2]

 اس نے اپنی عملی زندگی میں جس فلسفے کو عملی کیا وہ اٹلی کے میکاویلی سے بھی زیادہ خطرناک تھا،اگر اس کی تمام تقریروں کو سامنے رکھ کراوراس کے دور کی تاریخ کے ساتھ ملاکردیکھاجائے ،نیز اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ جرنیلوں کی یاداشتوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کی اسلامی شخصیات کے بیانات کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے تو اس کی فکروعمل کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتاہے:

 "سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیے"۔

موصوف کی دین ِ اسلا م اورشریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کودیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کوبھی یہ کہناپڑاکہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔ [3]

اس نے لادین سیاست کا نام دینی سیاست رکھ کرپاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکی کہ اس کی نام نہاد دینداری کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آکر بیٹھ گئیں۔اسے پیرومرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہاجانے لگا،اس نے اپنی مکروہات و خرافات کو نعوزباللہ "نظامِ مصطفیۖ "کہنا شروع کردیا اورجب اپنا یہ حربہ کامیاب دیکھاتوامریکی اشارے پراپنے خود ساختہ نظام ِ مصطفیٰ ۖ کے جال میں جہادِ افغانستان کا دانہ ڈالا، کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑاتواس نے شریعت آرڈیننس،زکوٰة آرڈیننس اور پتہ نہیں دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اورلوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔اس ساری کاروئی کے دوران جو بھی اس کی مخالفت میں سامنے آیا اس نے اسے اپنی مخصوص سیاست کے ذریعے راستے سے ہٹادیا،یعنی بغل میں چھری اور منہ میںرام رام کا عملی مظاہرہ کیا ،اس نے زوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کاروائی کو استعمال کیا،بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے ،بھٹو کے شدیدمخالف ججز کولاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں تعینات کیا،اس بات کا اعتراف جیوٹی وی پر افتخاراحمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ  نے بھی کیا تھا۔

 یادرہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کاتعلق ان چار ججوں سے ہے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھاتھا،انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہناتھاکہ بھٹوکے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائوکی بناء پر کیاگیاتھا۔پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد٢١مئی ١٩٧٩ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھاجس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کر کے ہلاک کردیاگیاتھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کاروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایاگیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیاگیاتھاکہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایاہے۔

 اگرآپ ضیاء الحق کی عملی سیاست اورشخصیت کاتجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف اپنی " عملی سیاست" میں اتاترک اور شہنشاہِ ایران کے جبکہ فکری سیاست میں میکاویلی کے ہم پلّہ تھے یاان سے بھی کچھ آگے ۔جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے کہاکہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں،اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایاہے اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیاہے۔

گزشتہ سال ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴کو  انہی دنوں میں ضیاالحق کے نظریاتی  پیروکاروں نے  پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے

9 اساتذہ ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کُل 144 بچوں کو شہید کردیا تھا۔ سانحہ بنگلہ دیش کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا  ایسا دردناک با ہے جو ہمیشہ ہمارے دانشمندوں کے ضمیر کو جھنجوڑتا رہے گا۔

اس سانحے کا جتنا ذمہ دار ایک فوجی جنرل ہے اتنے ہی وہ سول مفکرین اور سیاستدان بھی ہیں جو ضیاالحق کو اپنا پیرومرشد  کتے چلے آرہے ہیں اور یا جنہوں نے کبھی ضیائی فکر کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ہمارے ملک میں دہشت گردی کے دیگر واقعات کی طرح اس سانحے کے ذمہ دار بھی ضیائی کیمپ کے تربیت یافتہ ہیں۔

۱۶ دسمبر کا سانحہ ہماری آرمی کو بھی اس امر کی یاددہانی کرواتا ہے کہ جب تک اس ملک کی کلیدی پوسٹوں اور عسکری اداروں میں ضیاالحق کے مقلدین موجود رہیں گے،ایسے سانحات کو نہیں روکا جاسکتا۔

کسی حساس مزاج شاعر کے بقول

پھولوں کا اور کلیوں کا

چمن میں خوں کیا ہے جنہوں نے

درندہ کیسے کہہ دوں ان کو

کہ اتنے زیادہ ظالم تو

درندے بھی نہیں ہوتے

 

 

 

!

منابع

بادشا،نکولومیکاویلی،مقدمہ،مترجم محمود حسین ·

 جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہرسہیل

 ضیاکے آخری ١٠سال از پروفیسرغفوراحمد

 · جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد

 · اورالیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد

 ·بھٹو ضیاء اور میں ازلفٹیننٹ جنرل(ر)فیض علی چشتی

 ·اسلوب سیاست،خطبات علامہ عارف حسین الحسینی

 

 

 


نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ طالبان قاتلوں کی طرح طالبان مائنڈ سیٹ کبھی بھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا 'وقت کا تقا ضا ہے کہ پوری قوم ملک کے لئے قر بانیں دینے والی افواج پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑ ی ہو جائے ،پشاور میں شہداء کے والدین کا سیاست دانوں کیخلاف احتجاج سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لئے ایک سبق ہے،شہید طلباءکے والدین کا سیاستدانوں کے خلاف احتجاج بیداری شعور کا بہترین مظاہرہ ہے، ہمیں عوامی امنگوں کی ترجمانی اور دہشت گردقاتلوں کیخلاف ایک موقف اپنانا ہو گا،پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتیں عوامی احساسات کی ترجمانی کریں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچا نے کیلئے متحد ہو جائیں ۔ بدھ کے روز جاری اپنے بیان میں علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا کہ ملت جعفریہ کے شہداء کے قاتلوں کو عبرت ناک سزائیں دی جاتی تو آج افواج پاکستان اور معصوم بچوں کی جان لینے کی ان دہشت گردوں کو ہمت نہ ہوتی ریاستی اداروں کو چاہیئے کہ اپنی پالیسی تبدیل کریں طالبان قاتلوں کی طرح طالبان مائنڈ سیٹ کبھی بھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتے یہ مائند سیٹ پوری دنیا میں دہشت گردی کا سبب بن رہا ہے پاکستان کو اسی مائنڈسیٹ نے بین القوامی سطح پر شدت پسندی کے صف میں لا کھڑا کر دیا ہے طالبان اور اس کے حامیوں کو ریاست دشمن قرار دینا چاہیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصلحت پسندی زہر قاتل ثابت ہو گاسیاست بچانے کے لئے ریاست کو داوُ پر نہ لگایا جائے ۔

 

ان کا مزید کہنا تھا کہ مغرب صلیبی جنگ کی تیاریوں میں ہیں فرانس کے گستاخ جریدے نے پھر سے توہین آمیز مواد چھاپنے کا اعلان قابل مذمت ہے جو دنیا میں انتشار کو دعوت دینے کے مترادف ہے وزارت خارجہ کو اس پر کھل کر اپنا موقف دینا ہو گا ہم سرورکائنات ﷺکی ناموس اور ان کے آل ؑکی ذات اقدس پر کسی گستاخ کو انگلی اُٹھانے کی اجازت نہیں دینگے اسلام امن کا مذہب ہیں ہم تمام ادیان کے احترام کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں تمام مسلم ممالک میں جاری شدت پسندی اور دہشت گردی میں مغربی ممالک،خلیجی ملکوں اور اسرائیل کا ہاتھ ہے جو اسلام کے روشن چہرے کو ان خارجیوں کے ہاتھوں مسخ کرنے کے درپے ہیں ہمیں اپنے دوست اور دشمنوں کا ادراک کرنا ہوگا ۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن شعبہ خواتین کی جنرل سیکرٹری خانم ہما جعفری نے تمام شعبہ خواتین کراچی ڈویژن کی جانب سے انتہائی دردناک '' سانحہ  آرمی پبلک اسکول '' میں معصوم اور پھول جیسے بچوں کی شھادت پرگہرے رنج و دکھ کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ  اس دکھ کی گھڑی میں تمام ملت کی مائیں بہنیں ،بیٹیاں  ان معصوم شھداء کے خانوادے کےساتھ کھڑی ہیں،یہ ظلم ڈھانے والےظالم ، انسان نما وحشی درندے ہیں،زمانہ جہالیت کی یاد دلاتے یہ ملعون ، جنھوں نے معصوم جانوں کویوں بے دردی سے مارڈالا.نا ہاتھ کانپے ان ظالموں کےنہ دل لرزا نا روح کانپی،یہ معصوم ننھے مجاہد، یہ علم کے پروانے یہ امید کی کرنیں ،باخدا یہ صرف بچے ہی قتل نہں ہوئے بلکہ ہمارا مستقبل ذبح ہو گیا ہے،  امیدیں تاریک ہوگیئں ہی، علم قتل ہوگیایہ ایسا ظلم ہے کہ اس ظلم پہ پوری انسانیت شرمندہ ہے. آج بھی انُ  ملعون ابنِ ملعون کی نسلِ یزیدموجود ہیں جنھوں نے کربلا میں معصوم علی اصغر[ع] کو شھیدکیا تھا، آج بھی ان یزیدوں نے ان معصوم مجاہدوں کواپنا نشانِ ظلم بنایا ہے.بس پہلے بھی تیر و تلوار و خنجر تھے اب بھی تلوار و خنجر کے ساتھ کتنے ہی نازک گلے تھے جو تہہ تیغ کر دیئے گئے. پہلے تیروں کی برسات تھی اور اب آسماںِ ستم نے معصوم و نازک پھول جیسے بدنوں پر گولیوں کی برسات دیکھی۔

 

انہوں نے مذید کہاکہ یہ نقصان صرف خانواداہء شھداء کاہی نقصان نہیں بلکہ پوری پاکستانی ملت و قوم کے ایک  ایک فرد کا نقصان ہے.بحیثیت قوم یہ پورے ارضِ پاک کا نقصان ہے۔بحثیت پوری قوم و ملت یہ دن  انتہائی اذیت ناک دن ثابت ہوا جب مائیں بےحواس اپنے راج دلاروں کو اسکول کے باہر تلاش کرتے ہوئے ٹرپتی پھر رہیں  تھں اور کہیں بےچین ہوکر باپ ہر ایک سے اپنے معصوم پیاروں کا پوچھتا پھر رہا تھا، یہ مناظر بے انتہا کرب و ازیت کے مناظر ہیں ، الفاظ نہ کافی اس دکھ کی گھڑی کو بیان کرنے کے لیے یہ دکھ یہ ازیت  پاکستانی قوم کبھی بھلا نہ سکے گی.ہم دل کی انتہائی گہرایوں سے ان ننھے و معصوم مجاہدوں کے والدین کو تعزیت پیش کرتے اور ان کے راج دلاروں کے اس جہاد پر انھیں سلام پیش کرتے ہیں کہ  کس طرح ان کےبچوں نے علم کی راہ میں اپنے لہو سے  دیپ جلا کر علم ک شمع کو روشن کیا اور موت کو قبول کرتےہوئے جامِ شھادت نوش کیا.کہاں ہیں وہ اربابِ اختیار جو کہتے رہے مزاکرات مزاکرات، آیئں اور آکر دیکھیں کیا نتیجہ نکلا ان کی سرپرستی کا، کیوں نہیں حکومتی صفوں سے ان ناسوروں کا خاتمہ کیا جاتاجو درپردہ  کبھی دہشت گردوں کی جیلوں سے فرار پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں تو کبھی  سزاےِ موت پر عمل درآمد پر روکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں. اگر آج سزائے موت کے مجرموں کو سزا مل گئی ہوتی تو یوں آرضِ پاک معصوم بچوں کے پاکیزہ خون سے لہو لہان نہ ہوتا.کیا اب بھی کوئی ثبوت باقی ہےیہ بتانے کے لیے کہ کون کون ہے ان دہشتگردوں کی سرپرستی کے لیے،وہ تمام نام نہاد خود ساختہ علماء جو مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں،وہ تمام جماعتیں جو طالبان سے ہمدردی کا مسلسل اظہار کرتی رہیں.یہ استعماری طاقتیں ہیں جو ان دہشتگردوں اور حکومتی عناصر کو اپنا آلہ کار بنا رہی ہیں.ہم ملت تشیع مسلسل آوازِ حق بلند کر رہی ہے اور کرتی رہے گی،ہم  ہمیشہ سے  حق کی راہ میں مظلوموں کے حامی و مدد گار ہیں، اس جنگ میں ان گنت وہ قربانیاں بھی ہیں جو ہم بھی مسلسل دیتے آرہے ہیں، اوریہ جنگ اسوقت تک جاری رہے گی جب تک اچھے اور برے طالبان کی راگ ختم نہ ہوگی، ہم اپنے آرضِ وطن کی ''پاک فوج  '' سے باربار مطالبہ کر رہے ہیں کہ ''آپریشن ضربِ عضب'' کا دائرہ کار ملک  کے ہر کونے تک پہنچایا جائے.اور ان بزدلوں کا آن کے آخری دم تک پیچھا کیا جائے، اور صرف وصرف موت انکا عبرتباک مقدر بنائی جائے.

Page 3 of 4

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree