وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام کھلا ختم لکھ دیا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں جی بی کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے آرمی چیف سے توقع ظاہر کی ہے کہ وہ خطے کو محرومی سے نکالنے، مسائل کو حل کرنے اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ آغا علی رضوی کی جانب سے لکھے گئے خط کا متن کچھ یوں ہے:

محترم جناب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب
السلام علیکم!
آج ہم اس ریاستی ادارے کے سربراہ سے مخاطب ہو رہے ہیں، جو وطنِ عزیز پاکستان کے استحکام و سلامتی کے ضامن اور اسکی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہیں۔ ہم سیاسی جماعتوں، وفاقی حکومتوں اور سول بیوروکریسی کی ستر سالہ عدم توجہی اور ناانصافیوں کے بعد مایوس ہو کر جذبۂ حب الوطنی سے سرشار گلگت بلتستان کے محروم و مجبور عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کی توجہ پاکستان کے اس عظیم خطے کے مسائل کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں، جو دفاعی، ثقافتی، اقتصادی، جغرافیائی، نظریاتی اور سیاحتی نکتۂ نگاہ سے وطنِ عزیز کا حسین و جمیل چہرہ ہے۔ قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ اس خطے کے انسانی وسائل بھی پاکستان کے لئے عظیم سرمایہ ثابت ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے بعد اس خطے کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت بے سر و سامانی کے عالم میں نظریاتی بنیادوں پر ڈوگرہ راج کے خلاف مسلسل جدوجہد کرکے آزادی حاصل کی اور سبز ہلالی پرچم تلے زندگی گزارنے کو اعزاز سمجھا اور آج تک یہی اعزاز اس خطے کے لئے طرۂ امتیاز ہے اور رہے گا۔ ملک پر آنے والے سخت حالات چاہے معرکۂ سیاچن ہو، معرکۂ کرگل ہو یا دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشز، یہاں کے سپوتوں نے ملک و قوم کے لئے بے پناہ قربانیاں دیں اور آج بھی اس خطے کا بچہ بچہ پاکستان کا محافظ اور جانثار ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی مذہبی رواداری، امن پسندی اور تہذیب و ثقافت پاکستان کا روشن چہرہ ہے۔ گلگت بلتستان میں موجود بین المسالک ہم آہنگی، اخوت و بھائی چارہ پوری دنیا کے لئے روشن مثال ہے۔

محترم آرمی چیف صاحب! گلگت بلتستان کے عوام گذشتہ ستر سالوں سے پاکستان سے الحاق کی تحریک چلا رہے ہیں اور یہ دنیا کی پہلی تحریک ہے، جو کسی ملک سے الحاق کے لئے چل رہی ہے، مگر تاہنوز اس خطے کو پاکستان کا مکمل آئینی حصہ نہیں بنایا گیا۔ دوسری طرف وفاقی سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور بیوروکریسی کی طرف سے یہاں کے عوام کو تعلیمی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور شعوری طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں خطے کو درپیش تعلیمی اور صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے پاکستان آرمی کے چند ادارے متحرک ہیں، جو کہ قابل ِ تحسین مگر آبادی کے تناسب کے حساب سے ناکافی ہیں۔ اعلٰی تعلیمی ادارے، پروفیشنل تعلیمی ادارے، میڈیکل و انجینئرنگ کالجز کا فقدان اور سکولوں میں معیارِ تعلیم کا اطمینان بخش نہ ہونا افسوسناک ہے۔ اسی طرح صحت کا شعبہ بھی مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے اور پورے خطے میں کوئی معیاری ہسپتال موجود نہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات اور معیار بھی غیر تسلی بخش ہیں۔ پورے خطے میں کسی میگا پروجیکٹ پر بھی کام نہیں ہو رہا، جو یہاں کے ہزاروں اعلٰی تعلیم یافتہ بیروزگار جوانوں کے روزگار کا ذریعہ بن سکے۔ اس خطے کے عوام کی ایک بڑی تعداد پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، جبکہ خطے میں دنیا کے سب سے بڑے صاف پانی کے ذخائر گلیشیرز کی شکل میں موجود ہیں اور یہاں سے نکلنے والا دریا آدھے پاکستان کو سیراب کرتا ہے، لیکن اِسی خطے کی اراضی بنجر و غیر آباد ہے۔

وطنِ عزیز پاکستان میں جاری توانائی کے مسائل کا نہ صرف حل اس خطے سے ہوسکتا ہے بلکہ اس خطے میں موجود ہزاروں میگاواٹ توانائی کے امکانات ملکی معیشت کو بھی سنبھالا دے سکتے ہیں، مگر تعجب یہ ہے کہ ابھی تک خود یہاں بجلی و پانی کے بحران کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس وقت گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر کا کام پاکستان آرمی کی نگرانی میں جاری ہے اور توقع یہ ہے کہ اس کی معیاری اور بروقت تکمیل خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پائے گی۔ ایک طویل عرصے سے کرگل لداخ روڈ بند ہے جبکہ مظفر آباد اور لاہور سے سرحد کے آر پار منقسم خاندان آپس میں مل سکتے ہیں اور تجارت کرسکتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے ساتھ یہ امتیازی سلوک جاری ہے۔ ہم آپ کی توجہ اس بات کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اس خطے کو ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک رکھا گیا اور اسی آڑ میں یہاں ناانصافیاں عروج پر رہیں۔ یہاں کے عوام اخلاقی، دینی اور سیاسی طور پر مسئلہ کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور کشمیر کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، لیکن یہاں کی مسلمہ متنازعہ حیثیت کے باوجود نہ صرف کشمیر میں رائج قوانین لاگو نہیں بلکہ متنازعہ علاقوں کے وہ قانون جو خطے کی مضبوطی اور ترقی کا ضامن ہے، بھی لاگو نہیں ہے۔ یہاں غیر قانونی طور پر سٹیٹ سبجیکٹ رُول کو ختم کرکے نوتوڑ رُول ایکٹ نافذ کیا گیا ہے اور اب جب چاہے، اس کی آڑ میں عوامی اراضی کو ہتھیا لیا جاتا ہے اور اس میں شرمناک پہلو یہ ہے کہ یہاں کی عوامی اراضی پر قبضہ کرنے کے لئے ادارے خالصۂ سرکار کے قانون کا سہارا لیتے ہیں، جو کہ جنگِ آزادی کی توہین اور اس خطے کے پاکستان سے الحاق کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔ کسی بھی ادارے کو اراضی کی ضرورت ہو تو لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے ذریعے زمین حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن یہاں جبر کے ذریعے عوام میں بے چینی پھیلانے کی کوشش ہوتی ہے اور اس سلسلے میں آئینِ پاکستان کی بالادستی اور عوامی حقوق کے لئے قانونی و عوامی جدوجہد کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا جاتا ہے۔

ہمیں انتہائی مسرت ہے کہ پاکستان کے روشن مستقبل کے ضامن منصوبے سی پیک کا ایک تہائی کے قریب حصہ شاہراہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے اور یہ نہ صرف پاکستان کے لئے گیم چینجر منصوبہ ہے بلکہ اس سے خطے پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اس اہم منصوبے پر دشمن طاقتوں کی بھرپور نگاہیں ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ یہ اہم معاشی منصوبہ خدا نخواستہ ناکام ہو جائے، اس کے سدباب کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس اہم پروجیکٹ کے تحفظ کے لئے جی بی کے عوام کھڑے ہیں اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا جانبدار اور افسوسناک رویہ بھی قابلِ غور ہے کہ اس عظیم منصوبے میں محروم و مجبور اس خطے کے عوام کے لئے متناسب حصہ نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف جب سے سی پیک کا منصوبہ یہاں سے گزرا ہے، کبھی گندم سبسڈی کو ختم کرکے، کبھی پرُامن علماء اور عوام کو شیڈول فورتھ میں ڈال کر، کبھی ناجائز ٹیکس نافذ کرکے اور کبھی خالصۂ سرکار کے نام پر عوامی حساس ایشوز کو چھیڑ کر خطے میں بے چینی پھیلانے کی حکومتی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جو کہ کسی طور ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔ دوسری طرف اس حساس خطے میں گراس رُوٹ لیول تک مغربی اداروں کی رسائی ہے، جو کہ خطے کی تہذیب و ثقافت اور پاکستان کی نظریاتی و دفاعی پوزیشن کے لئے بھی کسی خطرہ سے کم نہیں۔

ہم تمام حکومتوں سے مایوس ہوکر پاکستان آرمی جو کہ ہر مشکل وقت میں وطنِ عزیز کا سہارا رہی ہے، سے توقع رکھتے ہیں کہ خطے کی حساسیت، دفاعی و تزویراتی اہمیت کے پیشِ نظر یہاں کی مکمل آئینی حیثیت کا تعین یا سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی سمیت متنازعہ علاقہ کے تمام حقوق کی فراہمی، سی پیک میں متناسب حصہ، کرگل لداخ روڈ کی واگزاری، دیامر بھاشا ڈیم کی مکمل رائیلٹی، اعلٰی تعلیم و صحت کے اداروں کا قیام، خالصۂ سرکار کے نام پر عوامی اراضی کی بندر بانٹ کا خاتمہ، ترقیاتی منصوبوں کے اجراء اور اداروں میں جاری بدعنوانی کا خاتمہ کرانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
وطن عزیز پاکستان کی سلامتی اور پاک فوج کی سربلندی کی نیک تمناوں کے ساتھ۔


والسلام
آغا علی رضوی
سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان

وحدت نیوز(کراچی) پیٹرول کی قیمت موجودہ نرخ سے آدھی سطح پر لائی جائے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کراچی ڈویژن کے سیکرری جنرل مولانا صادق جعفری نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت کم ترین سطح پرآگئی ہے جس کا فائدہ عوام کو ملنا چاہیئے اس لئے حکومت پٹرول کی فی لیٹر قیمت 40 روپے مقررکرکے عوام کوریلیف دے جب عالمی منڈی میں تیل کے نرخ میں اضافہ ہوتاہے تو پاکستان میں فوری طور پر نرخ بڑھادیئے جاتے ہیں جب عالمی سطح پر نرخ کم ہوتے ہیں تو حکومت پاکستان نرخ کم نہیں کرتی۔

انہوں نے مزید کہاکہ  ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اضافی ٹیکسوں کے نفاذکی صورت میں عوام سے بھتہ وصول کیا اب مسلم لیگ نواز سستا پٹرول خرید کرعوام کو مہنگا بیچ کر بھتہ وصولی میں مصروف ہے،اوگرا لٹیروں کا گڑھ بن چکا ہے،پاکستان میں پرائس کنٹرول اینڈ مینجمنٹ کا کوئی نظام عملاًدکھائی نہیں دیتا، عوام چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ حکمران جماعت کی اس بھتہ وصولی کا سختی سے نوٹس لیں اور عالمی منڈی میں کم ہونی والی پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں کے ثمرات پاکستان کے غریب عوام کو بھی میسرلائیں جائیں ۔

وحدت نیوز (انٹرویو) جی بی کے معروف عالم دین اور نامور عوامی لیڈر آغا علی رضوی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر نئی صف بندی ہوچکی ہے۔ اس نئی عالمی معاشی اور سیاسی صف بندی میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر کردار ادا کرنیکی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان بلوغت کیطرف جا رہا ہے اور اس نے عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تاہم سیاسی طور پر بھی ان نام نہاد اتحادی ممالک سے الگ ہونیکی ضرورت ہے جنہوں نے ستر سالوں میں پاکستان میں ناامنی اور قرضے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پاکستان کی معیشت کو سود کی دلدل میں دھکیل دیا، پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلسا دیا، پاکستان کو بدنام کرکے رکھ دیا۔ اب ان آقاوں سے نجات حاصل کرنیکی کوشش ہے اور مقدسات کے نام پر بھی پاکستان نے بڑے نقصان اٹھائے ہیں۔ افغان وار اور طالبان مقدسات کے ہاتھوں یرغمال ہونیکا نتیجہ ہے۔ ریاستی اداروں کو اب پاکستان کے مفادات کیمطابق سابقہ تجربات کی روشنی میں واضح خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنیکی ضرورت ہے۔
 
حجت الاسلام آغا سید علی رضوی کا تعلق اسکردو نیورنگاہ سے ہے۔ وہ حوزہ علمیہ قم اور مشہد کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ گلگت بلتستان میں انقلابی تحریکوں کے سرخیل رہے ہیں۔ انجمن امامیہ بلتستان میں تبلیغات کے مسئول کے طور بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انقلابی فکر کے حامل جوانوں اور عوام میں ان کی مقبولیت غیر معمولی ہے۔ انہیں پورے خطے میں مقاومت و شجاعت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تمام ملی اور قومی بحرانوں میں عوام کی نطریں ان پر ہوتی ہیں۔ سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ گرفتار بھی ہوئے، تاہم حکومت عوامی ردعمل کے سبب فوری طور پر رہا کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ جی بی میں گندم سبسڈی کے خاتمے کیخلاف عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک میں بنیادی اور مرکزی شخصیت انکی ذات تھی اور انہوں نے حکومت کو عوامی تائید سے بارہ روزہ تاریخی دھرنے کے بعد سبسڈی بحال کرنے پر مجبور کیا۔ حالیہ دنوں میں انجمن تاجران کیجانب سے غیر قانونی ٹیکس کے خلاف سولہ روزہ دھرنے میں بھی وہ صف اول کا کردار ادا کرتے رہے اور اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ عوامی حقوق کیلئے ہمہ وقت اور ہر حال میں میدان میں رہنے کے سبب خطے کے عوام انکے معترف ہیں۔ اسوقت عوامی ایکشن کمیٹی بلتستان سمیت مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کی مسئولیت بھی انکے کندھوں پر ہے۔ مقبول عوامی لیڈر آغا علی رضوی سے غیر ملکی خبررساں ادارےنے ملکی اور علاقائی صورتحال پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

سوال: سب سے پہلے دسمبر اور جنوری کی سخت ترین سردی میں ٹیکس کیخلاف 16 روزہ تحریک کی کامیابی پر آپکو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور جاننا چاہتا ہوں کہ اس کامیابی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
آغا علی رضوی: آپ کا شکریہ، میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کی کامیابی پر مبارکباد کے مستحق انجمن تاجران کے سربراہ غلام حسین اطہر اور عوامی ایکشن کمیٹی جی بی کے سربراہ مولانا سلطان رئیس ہیں۔ انکی شجاعت، بہادری، حکمت عملی اور جہد مسلسل کے نتیجے میں یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ان کے بعد گلگت بلتستان کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں، جنہوں نے علاقائیت، لسانیت، فرقہ واریت اور دیگر حکومتی سازشوں کا مقابلہ کرکے اسے کامیاب کیا۔ جہاں تک اس تحریک کی کامیابی کا سوال ہے تو ٹیکس کی معطلی کو میں جزوی کامیابی قرار دیتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور منسوخی کو معطلی بنا دیا۔ ساتھ ہی حکومت کے ساتھ تین نکاتی ایجنڈے پہ معاہدہ ہونے کے بعد لانگ مارچ کو ختم کیا تھا۔ اس میں سے ایک نکتہ آئندہ جی بی کے عوام پر کسی قسم کا ٹیکس نہ لگانے کی حامی بھرنے کے ساتھ ساتھ نیشنل اور انٹرنیشنل کمپنیوں پر ٹیکس عائد کرنے کے اختیارات کو جی بی اسمبلی کو دینا طے پایا تھا، لیکن حکومت اس میں سنجیدہ نہیں لگتی۔

سوال: ذرائع کیمطابق حکومت نئے ٹیکس ایکٹ کے تحت گلگت بلتستان کے عوام پر ٹیکس لگانیکی کوششوں میں ہے، آپکا کیا لائحہ عمل ہوگا۔؟
آغا علی رضوی: وفاقی حکومت کی کوشش ہوگی کہ جی بی کے حقوق سے محروم غریب عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالے، لیکن ہم عوامی طاقت سے ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں اربوں روپے جی بی کے عوام پہلے ہی وفاق کو دے رہے ہیں، ستر سالہ محرومی کے بعد ٹیکس کا نفاذ بہت بڑا ظلم ہے۔ یہاں پر موجود عوام کا معیار زندگی انتہائی پست ہے اور وہ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق بھی میسر نہیں۔ ایسے میں عوام ٹیکس کیسے برداشت کرے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پورے گلگت بلتستان میں ایک معیاری ہسپتال نہیں، ایک بین الاقوامی معیار کے مطابق یونیورسٹی نہیں، ایک میڈیکل کالج نہیں، ایک انجینئرنگ کالج نہیں، انفرا اسٹریکچر تباہ حال ہے، سڑکیں خستہ حال ہیں، جس خطے میں ایک لاکھ میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کے مواقع ہوں، وہاں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ اس جنت نظیر وسائل سے بھرپور خطے کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کے ایماء پر بھرتیوں میں من مانیاں اور ٹھیکوں میں بندر بانٹ یہاں تک کہ منصوبوں کی تقسیم میں نا انصافیاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں آپ عوام سے کس طرح ٹیکس لینے کی بات کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے کونسے بڑے عوامی منصوبے تیار کئے ہیں، جو عوام کا معیار زندگی بلند ہونے میں ممد و معاون ثابت ہوئے ہوں۔ وفاقی جماعتوں کا کام دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ریاستی طاقت استعمال کرکے الیکشن کو ہائی جیک کرنا اور بعد میں ریاستی طاقت و فورتھ شیڈول کے ذریعے مخالف جماعتوں کو دیوار سے لگانے کے علاوہ کیا رہ گیا ہے۔ ستر سالوں میں اس خطے کے عوام کو اپنے پاوں پہ کھڑا کرنے کے لئے کونسا کام کیا گیا ہے۔

سوال: آپ مسلم لیگ نون کی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بلتستان یونیورسٹی دی اور گلگت اسکردو روڈ دیا، کیا یہ بڑے کام نہیں۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! مسلم لیگ نون کی ہم مخالفت برائے مخالفت نہیں کرتے۔ یہ چیز واضح کر دوں کہ کسی بھی جماعت سے مخالفت کرنا ہمارا جمہوری حق ہے اور دشمنی کسی سے نہیں، اگر وہ ریاست کے دشمن نہ ہوں۔ یہ الگ بات کہ مسلم لیگ نون کی حکومت ہمارے ساتھ دشمنوں سے بدتر سلوک کرتی ہے۔ اس جماعت سے اختلافات نظریاتی اور عملی دونوں بنیادوں پر ہے۔ نظریاتی طور پر آپ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کی تربیت ایسے آمر نے کی، جس نے ملک میں فرقہ واریت کا آغاز کیا، جس نے طالبان جیسے ناسور کی بنیاد رکھی، جس نے پاکستان آرمی کے اسٹریٹیجی کو تبدیل کرکے امریکہ کی نیاتی جنگ افغانستان میں لڑی، جس کے نتائج آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ یہی نواز شریف اس وقت غالباً پنجاب کا وزیر قانون اور بعد میں ضیاءالحق کے دست راست کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ اسی دور میں فرقہ واریت کو ہوا ملی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ اس فرقہ واریت کی لعنت میں وطن عزیز کے کتنے سرمایہ کار، کتنے ڈاکٹرز، کتنے پروفیسرز، کتنے جج جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، آپ جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جانتے ہیں کہ اس جماعت کے رہنماوں کے ساتھ انڈیا کے براہ راست رابطے ہیں۔ یہ الزام دوسروں پہ لگاتے ہیں جبکہ یہ خود انڈیا کے تجارتی شراکت دار ہیں۔ ان کی ملوں میں انڈیا کے ملازمین ہیں، مودی کو گھروں میں بلانے والے ہیں۔ گویا پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے یہ امین نہیں رہے۔ پانامہ کی کہانیاں الگ سے ہیں، ملک پہ قرضوں کا بوجھ الگ کہانی ہے۔

جی بی کے حوالے سے خصوصی طور پر مجھے جو دکھ ہے، وہ یہ ہے کہ معرکہ کرگل میں ہمارے شیر دل جوان ان سرحدوں کو واپس لائے، جو 71ء کی جنگ میں ہم نے گنوا دیئے تھے، اس کے علاوہ کرگل کے ٹائیگر ہل اور کافر پہاڑ تک سبز ہلالی پرچم لہرایا۔ دوسرے الفاظ میں کرگل پر بھی قبضہ جمایا تھا اور دشمن فوج کو دھول چٹا دی تھی۔ اچانک اسی نواز شریف کے ساتھ انڈیا کے سربراہ کے مذاکرات ہوتے ہیں اور یہ ہماری فورسز کو واپس بلانے پر راضی ہو جاتا ہے۔ میں آج بھی جاننے سے قاصر ہوں کہ معرکہ کرگل کے جوانوں کا خون کس قیمت پہ بیچ دیا گیا۔ ہمیں بتایا جائے کہ ان مذاکرات میں کیا معاملات طے پائے تھے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے، جب اس عظیم فتح کے نتائج کچھ نظر نہیں آتے۔ یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے اس جماعت سے اختلافات ہیں اور یہ بھی عرض کردوں کی انکے سیاسی آقا کے دور میں ہی جی بی میں باقاعدہ لشکر کشی ہوئی، ادارے تماشائی بن کر بیٹھے رہے، جسے سانحہ 88 کہا جاتا ہے، اس لشکر کشی پر آج تک ایف آئی آر نہیں ہوسکی۔ ذمہ داران کا تعین نہیں ہوسکا۔ قوم کو بتایا جانا ضروری ہے کہ اس دن سے حالیہ دنوں تک شاہراہ قراقرم بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوتی رہی۔ یہاں پر فرقہ واریت کو ترویج ملی، جبکہ جی بی میں تمام مسالک ایک دوسرے سے محبت کرتے اور صدیوں سے محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے تو آپ مجھے بتا دیجئے کیا سابقہ الیکشن میں گلگت اسکردو روڈ اور بلتستان یونیورسٹی انکے الیکشن کے منشور میں تھی کہ نہیں۔ دوسرے الفاظ میں عوامی مینڈیٹ ہی انہی منصوبوں کے ذریعے حاصل کیا تھا۔ عوام نے انہیں جتوایا ہی اسی منشور کے سبب تھا تو ان کا کون سا احسان ہے۔ اقتدار پہ پہنچایا ہی اسی کام کے لئے تھا تو کرنا انکی مجبوری تھی۔ رہی بات گلگت اسکردو روڈ پر بھی تحفظات اپنی جگہ قائم ہے۔ اس کے لئے تخمینہ شدہ بجٹ میں کئی ارب روپے کم کئے گئے، میری اطلاعات کے مطابق اس پرانے نقشے کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ اس بات کی تصدیق کسی حکمران جماعت کے رکن اسمبلی نے برملا کی ہے۔ اس وقت صوبائی حکومت خود گلگت اسکردو روڈ کی جزوی تفصیلات بتانے سے قاصر ہے، اسکا معیار کیا ہوگا اور تکمیل کب ہوگی، یہ الگ سوال ہے۔ دوسری بات آپ یونیورسٹی کے حوالے سے پوچھ رہے تھے تو میں عرض کروں کہ کہاں کی یونیورسٹی کی بات کر رہے ہیں آپ۔ قراقرم یونیورسٹی کے کیمپس کا نام تبدیل کرنا کونسا بڑا کارنامہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کے آئی یو کا کیمپس قائم رہتے اور نئے سرے سے ایک معیاری یونیورسٹی قائم کرتے، مگر اس میں بھی خطے کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
 
سوال: ایک معاملہ اٹھا تھا کہ حکمران جماعت اور اراکین اسمبلی کی طرف سے آپ کو مختلف نمبرز سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں، کیا وہ نمبرز ٹریس ہوئے کہ نہیں۔؟
آغا علی رضوی: (مسکراتے ہوئے) یہ چیزیں عوامی تحریک کا حصہ ہے اور ان چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ہم اپنی توانائیاں ان چیزوں پر صرف نہیں کرسکتے۔ ہمیں کرنے کے بہت کام نہیں۔ جی بی کے عوام کے ساتھ بڑے مسائل ہیں۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں، اسے میں آسانی سے نمٹ سکتا ہوں۔ اور یقیناً حکومت کی طرف سے کوششیں ضرور ہوتی ہیں۔ وہ بھی نون لیگ جیسی حکومت ہو جسکے پاس کوئی اقدار نہیں ہوتا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ جب عوامی حقوق کے لیے نکلے ہیں تو ظالموں سے مقابلہ کسی بھی صورت ہونا ہے۔ ظالم قوتیں اپنی پوری کوشش کریں گی کہ انکی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ آئے لیکن جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے ہیں جب تک زندگی رہے گی ہر چھوٹے سے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ظلم کے سامنے ڈٹتا رہوں گا۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں عوامی جدوجہد اور انصاف کی بالادستی کے لیے کوشش کرنے سے نہیں روک سکتی۔ البتہ جن نمبروں سے مسیجز موصول ہوئے ہیں ان کی نقاب کشائی کی جائے گی، خطے کے امن اور میرے دوست احباب کے جذبات کے پیش نظر ظاہر ہے معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنا ہوگا۔ میں اداروں تک بھی تفصیلات پہنچا دوں گا اور اس سلسلے میں واضح ہو رہا ہے کہ کون کون مزموم عزائم رکھتے ہیں۔
 
سوال:کیا یہ بات درست ہے کہ آپ کی جماعت کو سی پیک پر تحفظات ہے۔؟
آغا علی رضوی: سی پیک پاکستان کے معاشی استحکام کا ضامن ہے۔ اس کی تعمیر کسی بھی قیمت پر ہونا ضروری ہے، البتہ پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے۔ ہمیں سی پیک پر کسی قسم کے تحفظات نہیں۔ اسے پاکستان کے لیے ناگزیر سجھتے ہیں تاہم اس کی تقسیم میں حکومتوں نے بڑی خیانتیں کی ہیں۔ ہمیں تحفظات ہیں تو اس بڑے منصوبے کو خراب کرنے اور اس کے ثمرات کو عوام تک نہ پہنچانے کے سلسلے میں موجود رکاوٹوں پر تحفظات ہیں۔ دیکھیں! سی پیک جیسا بڑا منصوبہ یہاں سے گزرتا ہے لیکن اس میں جی بی کی تعمیر و ترقی کا کوئی منصوبہ نہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ سی پیک میں جی بی کو بڑا حصہ ہے، لیکن منصوبے کے نقشوں اور تفصیلات جو میرے پاس ہیں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ کاغذات سے ہٹ کر بھی اگر کام ہوتا ہو تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس سلسلے میں حکمرانون سے بھی پوچھا گیا تو ان کے پاس بھی کوئی تفصیلات نہیں ہیں۔ صرف یہی کہتے ہیں کہ جی بی کو حصہ ہے۔ اس معاملے پر جب آواز بلند کی جاتی ہے تو فوری طور پر اس آواز کو سی پیک کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کرنے کی خیانت کی جاتی ہے۔

وہ تمام منصوبے جو پاکستان کے معاشی استحکام کا باعث ہو ہم ان میں مددگار ہیں۔ لیکن یہ کوئی منطق نہیں کہ پنجاب میں اربوں کے منصوبے اسی پیک کے ذریعے ہو جیسے اورینج ٹرین منصوبے پر عمل ہو اور جی بی میں کچھ بھی نہ ہو۔ میرا مطالبہ ہے کہ سی پیک میں تمام صوبوں کو برابر حصہ دیا جائے اور جو صوبے زیادہ مستضعف ہو ان کو دوسروں سے فوقیت دی جائے۔ یہ کسی صورت انصاف نہیں کہ سارے منصوبے تخت لاہور میں انڈیل دیں۔ اصل میں پاکستان کا استحکام ہی اسی میں ہے تمام خطے مستحکم ہوں اور کسی بھی خطے میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ مشرقی پاکستان کی علحیدگی ہی نااہل حکمرانوں کی غلط پالیسی اور احساس محرومی کا نتیجہ تھا۔ اس سلسلے میں عوامی مہم بھی چلائیں گے اور مقتدر حلقوں سے بھی گزارش کریں گے۔ ساتھ ہم ساری جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سی پیک اور دیگر علاقائی حوالے سے آرمی چیف کے نام ایک کھلا خط بھی بھیج دیں گے۔ اس میں واضح طور پر لکھ دیں گے کہ وطن کے حقیقی محبین کو معتصب قوتین کس طرح غدار بناکر پیش کر رہی ہیں اور ہمارے ساتھ کس طرح کے ناروا سلوک جاری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سی پیک کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو ان قوتوں سے پہنچ سکتا ہے جو اپنے اقتدار کی خاطر اس خطے میں بے چینی پھیلا رہی ہیں اور عوام جو کہ خطے کا محافظ ہے، کو غیروں کا ایجنٹ بنا کر پیش کر رہی ہیں۔
 
 
سوال:گندم سبسڈی تحریک کے بعد حالیہ ٹیکس مخالف تحریک میں آپ نے کیا کھویا اور کیا پایا۔؟
آغا علی رضوی: حالیہ ٹیکس مخالف تحریک سخت ترین موسم میں شروع کی گئی تھی۔ موسمی حالات کے پیش نظر میں ذاتی طور پر فکر مند بھی تھا کہ منفی پندرہ سینٹی گریڈ کی سردی میں عوام کو کیسے گھروں سے نکالیں۔ اس کا آغاز انجمن تاجران نے کیا تھا اور انکے ساتھ میدان میں عوامی ایکشن کمیٹی سمیت دیگر سیاسی و مذہبی جماعتیں موجود تھیں۔ جب عوام پر جاری ظلم کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا تو عوام نے جس طرح کی استقامت کا مظاہرہ کیا اس کی مثال ستر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس ٹہٹھرتی سردی میں جس طرح عوام کا سمندر امڈ آیا ناقابل یقین تھا۔ میں اپنے عوام کو داد دیتا ہوں اور سلام پیش کرتا ہوں۔ لانگ مارچ کا فیصلہ ہوا تو اس دوران ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ڈیزل اور پیٹرول پمپس بھی بند کر دئیے تھے، اس کے باجود عوام کا سمندر آیا، ساری ساری رات جاگ کے گزارے، اس سخت سردی میں کھلی گاڑیوں کی چھت پر بیٹھ کر سفر کیے۔ میں جب جوانوں کے جذبات اور جذبہ فداکاری دیکھتا ہوں تو شرمندہ ہوتا ہوں۔ اس تحریک میں کھویا کچھ بھی نہیں البتہ بہت کچھ پایا۔ لوگوں میں قربانی کا جذبہ پیدا ہوا، شعور پیدا ہوا، لوگوں نے فرقہ واریت کی بت کو توڑ دیا، عوام نے علاقائیت کے طوق کو گردن سے اتارا، لوگوں نے محبت عام کی۔ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ عوام نے یہ بات تسلیم کرلی کہ اگر عوام متحد ہو کر میدان میں آجائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔
 
سوال:گلگت بلتستان کے وہ کونسے مسائل ہیں جو سب سے اہم ہیں اور آپ کسی بھی قیمت پر خاموش نہیں رہ سکتے۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! میں نے پہلے عرض کیا کہ ہم کسی بھی ظلم پہ خاموش نہیں رہ سکتے۔ یہ ہمارے جماعت کے لیے طرہ امتیاز ہے کہ ہم ہر ظلم کے خلاف میدان میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چاہے وہ ظلم چھوٹا ہو یا بڑا۔ ہم ہر مظلوم کے حامی اور ظالم کے مخالف ہیں۔ اگر جی بی کی بات کی جائے تو گندم سبسڈی، ٹیکس کے علاوہ خالصہ سرکار کے نام پر عوامی اراضی پر قبضہ بڑا ظلم ہے۔ یہاں کے وسائل کو لوٹنا ظلم ہے۔ یہاں پر میرٹ کی دھجیاں اڑانا ظلم ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور دہشتگردی تو تعلیمی اداروں کو خراب کرنا، معیار تعلیم کو گرانا ہے۔ ان تمام مظالم پر ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں اور جائیں گے۔
 
سوال: دفاعی اہمیت کے حامل خطہ ہونے کے ناطے آرمی کی جی بی میں فعالیت کو آپ جمہوری اقدار کی راہ میں رکاوٹ نہیں تسلیم کرتے اور یہ کہ آپ اپنے خطاب کے دوران اکثر آرمی سے مطالبہ کرتے ہیں اس طرح آپ اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرتے ۔؟
آغا علی رضوی: میری خواہش ہے کہ ریاست کے تمام ادارے مضبوط ہوں۔ عدلیہ انصاف کی بالادستی کسی قیمت پر قائم رکھے، مقننہ اپنی سرگرمیاں مثبت انداز میں سرانجام دیں، اسی طرح مجریہ بھی اپنے دائرے میں کام کرے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مقننہ میں قومی مفاد کو فرد کے مفادات پر قربان کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی حکومتوں نے اثر نفوذ قائم کر کے ریاستی اداروں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ انتظامیہ ریاست سے زیادہ حکومت کی وفاداریاں نبھاتی ہیں۔ پولیس حکومت کی فورس بن جاتی ہے۔ اس میں واحد آرمی ہے جو حکومتی فورس نہیں بلکہ ریاست کی فورس ہے اور ہونی چاہے۔ اگرچہ آرمی سے بھی مختلف موضوعات پہ شکایت ہوسکتی ہے اور ہے۔ ماضی کے کچھ فیصلوں پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اسوقت آپ دیکھتے ہیں کہ وہ فورس جس نے آپ کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنی تھی آج آپ کی سڑکوں کی حفاظت کے لیے بھی پہنچی ہوئی ہے۔ سیلاب آئے تو فوج، زلزلہ آئے تو فوج، دھرنا کنٹرول کرنا ہو تو فوج یعنی آپ ہر جگہ اپنی نالائقی چھپانے کے لیے فو ج کو استعمال کرتی ہے اور بعد میں جمہوریت کا رونا بھی روتے ہیں باوجودیکہ نامساعد حالات میں آپ کا آئین ان چیزوں کی اجازت دے دیتا ہے۔

جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے تو آپ جانتے ہیں کہ یہاں پر اگر کوئی معیاری تعلیمی ادارہ ہے تو فوج کا، ہسپتال ہے تو فوج کا، کوئی اہم کالج ہے تو فوج کا گویا، اکلوتی یونیورسٹی فوجی حکمران کے دور میں بنی، سدپارہ ڈیم فوجی حکمران کا منصوبہ، ابھی گلگت اسکردو روڈ کی تعمیر فوج کے پاس، گویا انکی فعالیت ہر میدان میں سب سے زیادہ ہے۔ میں جمہوری اقدار اور حکومت پر یقین رکھتا ہوں لیکن بتائیں اس خطے کو آپ کے جمہوری حکمرانوں نے کیا دیا۔ جب تک فوج کردار ادا نہ کرے آپ کے جمہوری حکمران عوام سے مذاکرات کے لیے ٹیبل پر آنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہے آپکی جمہوریت کا رویہ اور انداز۔ لہٰذا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جی بی کی تعمیر و ترقی میں پاک فو ج کا بنیادی کردار رہا ہے۔ اور امید ہے آئندہ بھی اس سے بڑھ کر کرار ادا کرے گی۔ ان سے مطالبات کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے تو ظاہر ہے سب سے زیادہ بااختیار اور موثر ادارہ فوج ہی ہے۔ ان سے مطالبات کرنا کوئی جرم نہیں۔ حکومتوں سے مطالبات کرنا موجودہ حالات میں حماقت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ جی بی کی حکومت کے اپنے ہاتھ میں کچھ نہ ہو اور وفاقی آقاوں سے سامنے ہاتھ ملتے رہنے اور انکی تعریف کرنے کے علاوہ کوئی اختیار نہ ہو تو آپ ان سے کیا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ رہی فوج سے مطالبات کرنے کے نتیجے میں مشکلات کا ذکر تو کبھی ہم نے ذاتی مفادات کے حوالے سے مطالبہ نہیں کیا۔ ہم نے خطے کی تعمیر و ترقی، خطے کے استحکام، خطے میں امن و امان کی بالادستی، خطے میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے آواز بلند کی ہے اور کرتا رہوں گا۔ یہ خطہ، یہ عوام اور اسکی ترقی و خوشحالی ہی تو پاکستان کی خوشحالی ہے۔
 
سوال:اس وقت عالمی حالات میں کیا تبدیلیاں آرہی ہے اور اس کا پاکستان بلخصوص گلگت بلتستان پر اثرات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس میں آپ کیا کردار ادا کریں گے۔؟
آغا علی رضوی: دیکھیں! بہت اہم سوال آپ نے کیا۔ عالمی طور پر سماجی، اقتصادی اور سیاسی سطح پر بہت بڑی مثبت تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں۔ اگر سماجی طور پر دیکھیں تو اقوام عالم کے افکار کو غلط رخ دینے کی جو کوششیں کی گئی ہیں وہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ بلخصوص اسلام جو کہ دین فطرت ہے اسکے آفاقی اور کامل ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، تاہم جن ادیان کو اسلام سے خطرہ تھا انہوں نے کئی عشروں پر محیط کوششوں کے بعد اسلام کی غلط تعبیر کی کوشش کی۔ اس کے لیے اسلامی مکاتب فکر کے اختلافات کو ہوا دینا، دہشتگرد جماعتوں کو بنانا، اسلامی ممالک میں اثر نفوذ پیدا کرکے اس کے اقدار کو ختم کرنا اور فساد پھیلانا شامل ہے۔ لیکن اقوام عالم جان چکی ہیں کہ اسلام کی اصل تعلیمات کیا ہیں، اسلام کیسا معاشرہ چاہتا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کے سرمایے اب ضائع ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور سخت کوشش ہوگی، بلخصوص پاکستان کے معاشرہ میں موجود اقدار و تہذیب کو خراب کرنے کی کوشش ہوگی۔ اس کے علاوہ اقتصادی اور سیاسی طور پر دیکھیں تو دنیا نئے سیاسی عمل میں داخل ہوچکی ہے۔ یک قطبی یا دو قطبی طاقت زمانہ گزر چکا ہے۔ دنیا کے جو سپر طاقتیں تھیں معاشی و سیاسی طاقتیں تھیں اور دنیا میں ایک پتہ بھی انکی مرضی سے نہیں ہلتا تھا اب چھوٹے سے چھوٹا ملک جیسے کیوبا ہے کوریا ہے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگا ہے۔

عالمی سطح پر نئی صف بندی ہو چکی ہے۔ اس عالمی نئی معاشی اور سیاسی صف بندی میں پاکستان کو سوچ سمجھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان بلوغت کی طرف جا رہا ہے اور عالمی استکباری طاقتوں کے چنگل سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تاہم سیاسی طور پر بھی ان نام نہاد اتحادی ممالک سے الگ ہونے کی ضرورت ہے جنہوں نے ستر سالوں میں پاکستان میں ناامنی اور قرضے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ پاکستان کی معیشت کو سود کی دلدل میں دھکیل دیا، پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلسا دیا، پاکستان کو بدنام کر کے رکھ دیا۔ اب ان آقاوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش ہے اور مقدسات کے نام پر بھی پاکستان نے بڑے نقصان اٹھائے ہیں۔ افغان وار اور طالبان مقدسات کے ہاتھوں یرغمال ہونے کا نتیجہ ہے۔ ریاستی اداروں کو اب پاکستان کے مفادات کے مطابق سابقہ تجربات کی روشنی میں واضح خارجہ پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

مختصر طور پر گلگت بلتستان کے حوالے سے عرض کروں تو میں سمجھتا ہوں کہ جی بی اس وقت دنیا کا حساس ترین علاقہ بن چکا ہے۔ سماجی طور پر بھی یہاں پر تبدیلی لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں یہاں اثر نفوذ بڑھا چکی ہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حساس ادارے خواب خرگوش سو رہے ہیں اور امریکہ ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ پیسوں کی وسیع تر سرمایہ گزاری ہو چکی ہے اور میں ثبوت بھی پیش کر سکتا ہوں کہ آپ کے قانون ساز اداروں تک انہوں نے غیر معمولی جگہ بنالی ہے اور عوام میں بھی اثر نفوذ پیدا کر لیے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نجات دہندہ بشیرت ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر واقعی وہ پاکستان کا دوست ہے تو ستر سالہ دوستی کے نتیجے میں پاکستان پہلے سے کمزور کیوں ہوا انکی مدد سے طاقتور ہونا چاہیے تھا۔ ان کے علاوہ یورپی طاقتوں کی سرگرمیاں بھی یہاں تیز ہو گئی ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق یہاں دہشتگرد جماعتوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیونکہ جی بی اس وقت اکنامکل ہب بننے جا رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی مستقبل اس خطے کے امن و امان پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں گلگت بلتستان میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لیے، بھائی چارگی اور اخوت کی فضاء قائم کرنے کے لیے ہم پہلے سے میدان میں ہے اور اب بھی رہیں گے۔

سی پیک کے حوالے سے جیسا کہ عرض کیا گیا جی بی کو برابر حقوق نہیں ملے ہیں، میں نے جب اس سلسلے میں مشاہد حسین سید سے بات کی تو انہوں نے بھی کہا کہ آپ کے وزیراعلٰی کو بولنا چاہیے۔ چنانچہ ہم مقتدر حلقوں سے مطالبہ کرتے ہیں اس منصوبے کے گزرنے کے بعد جہاں پاکستان کو معاشی استحکام ملے ایسے منصوبے شامل کریں جس سے اس حساس اور پاکستان کے لیے قابل فخر خطے کے غریب و محروم عوام کی خوشحالی کا باعث ہو۔ اگر سی پیک میں بلتستان کی اہم شاہراہ، تمام اضلاع کے ہسپتال، ہائیڈرل پاور پراجیکٹس اور چند تعلیمی ادارے شامل کیا جائے تو اس خطے کے عوام پر بڑا احسان ہوگا۔ ایک اہم بات آپ کو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ سی پیک منصوبے کے بعد امریکہ، انڈیا سمیت یورپی ممالک کی نگاہیں جی بی پر جم گئی ہیں۔ اس سلسلے میں عوام کو بھی ہشیار رہنے کی ضرورت ہے اور اداروں کو چاہیے کہ منفی طاقتوں کو پنپنے کا موقع نہ دیں۔ اس خطے میں ناامنی پھیلنے کا موقع نہ دیں۔ منفی طاقتیں ہی مسائل کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ اگر سیاسی جدوجہد کو غداری کا نام دے، ایکشن پلان کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرے، مخالفت جماعت کو دیوار سے لگانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کرے یا خطے میں عوام دشمن پالیساں بنائیں، سکیورٹی کے نام پر بنیادی انسانی حقوق بلخصوص آزادی رائے سلب کرے تو یہ سب دشمن کے عزائم کو تقویت پہنچانے کا باعث ہوگا۔ عوام کو انکے حقوق دیں، شفاف سیاسی عمل جاری رکھیں، جمہوری اقدام کی پاسداری کریں، مخالف جماعتوں کو برداشت کریں، عوامی حقوق سلب نہ کریں، قومی سرمایے کا غلط استعمال نہ کرے، میرٹ کو بحال کرے تو سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جس معاشرے میں انصاف ختم ہو جائے وہاں کا معاشرہ متزلزل ہونا فطری امر ہے اور اس معاشرے کو ٹھیک طاقت اور جیلوں کے ذریعے نہیں بلکہ انصاف کی بالادستی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے ریاستی ادارے ان باتوں کو گہرائی میں لیں گے اور حقوق سے محروم اس عوام کی خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
 
سوال: آپ گلگت بلتستان کے عوام کو مختصر طور کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
آغا علی رضوی: میں عوام سے گزارش کروں گا کہ اتحاد کو قائم و دائم رکھیں، باشعور رہیں، قربانی کا جذبہ پیدا کریں، ظلم کے خلاف اٹھنے کی ہمت پیدا کریں، وفاقی حکومتوں کے دلاسوں پر یقین کیے بغیر خود انحصاری کے طرف بڑھیں، تعلیم پر خصوصی توجہ دیں، لسانیت اور فرقہ واریت کے بت کو پاش پاش کریں، وطن عزیز پاکستان کے استحکام و سلامتی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں، کسی بھی شر پسند کو اس خطے کے امن کو خراب کرنے نہ دیں۔ متحد رہ کر جدوجہد جاری رکھیں تو وہ دن دور نہیں ہوگا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا مضبوط ترین اور مستحکم ترین خطہ بنے گا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف سے مطالبہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی اینٹی ٹیکس موومنٹ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اسے تسلیم کیا جائے اورخطے کے عوام کے دیرینہ مطالبات پورے کیے جائیں۔گلگت بلتستان کے لوگوں کا سی پیک میں جو حق بنتا ہے اس میں کسی بھی قسم کی بد دیانتی ناقابل قبول ہے۔جو سازشی عناصر اس خطے میں بسنے والوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔

 انہوں نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان اور فاٹا کے عوام کو آئینی حقوق سے دور رکھنا نا انصافی ہے۔ کسی بھی ملک میں بسنے والے افرادکو سیاسی و معاشرتی اعتبار سے یکساں حقوق کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔قبائلی علاقہ جات اور گلگت بلتستان کی عوام کا حصول پاکستان کے لئے جدوجہد میں اہم اور نمایاں کردار رہا ہے۔انہیں سیاسی دھارے سے دور رکھنے کی کوشش کرنے والے ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ فاٹا میں ایف سی آر کے کالے قانون سے چھٹکارا دلانے اور آئینی حقوق دینے کے لیے اصلاحات پر عمل درآمد میں تاخیر افسوس ناک ہے۔ملک کے محب وطن افراد میں مایوسی پیدا کی جا رہی ہے جو قومی وحدت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اس اہم مسئلے کو پارلیمنٹ میں عوامی امنگوں کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے مسئلے پر سیاست چمکانے کی بجائے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت فیصلہ سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ملک دشمن طاقتیں عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ارض پاک میں چھوٹے چھوٹے ایشوز کو پہاڑ بنا کر پیش کر رہی ہیں تاکہ پاکستان کو ایک غیر مستحکم ریاست ثابت کیا جا سکے۔ایسی صورتحال میں مقتدر اداروں کو دانشمندی اور بصیرت کا ثبوت دینا ہو گا۔عوام کے مسائل اور مطالبات کودانستہ نظر انداز کرنے کا مطلب ان قوتوں کو خوش کرنا ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کو اضطراب میں دیکھنا چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گلگت کے عوام کا آئینی حق دیے بغیر ٹیکسز کے نفاذ پر احتجاج اصولی ہے۔معدنی ذخائر و دیگر اعتبار سے گلگت بلتستان میں بے پناہ وسائل موجود ہیں۔جن سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے گلگت بلتستان کی بھی حصہ داری ہونی چاہیے۔ دنیا بھر کی مختلف ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں ۔گلگت بلتستان دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جو گزشتہ ستر سالوں سے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کر رہا ہے۔لیکن سیاسی حکومتیں اس الحاق کے لئے راہ ہموار کرنے کی بجائے مسلسل رکاوٹیں پیدا کرتی آئی ہیں۔جو سراسر زیادتی ہے۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے مطالبات کی منظوری ان کے حب الوطنی میں اضافے کا باعث ہو گی اور یہ پاکستان کے لیے دفاعی ،معاشرتی اور معاشی طور پر بھی نفع بخش ثابت ہو گا۔

وحدت نیوز(کراچی) ضیا ءالحق کی ملک دشمن پالیسیوں نے ہم سے قائد اعظم کا پاکستان چھین لیا ہے۔ہمیں وہ پاکستان واپس چاہیے جس کے لیے قائد اعظم نے جدوجہد کی۔اس ملک کو انتہا پسندوں کی جاگیر نہیں بننے دیا جائے گا۔دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کسی مسلک کے شہید نہیں بلکہ پاکستانی شہدا ء ہیں۔یہ وطن کے بیٹے ہیں۔ملک دشمن عناصر وطن کے بیٹوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ہمارے ریاستی ادارے بالخصوص سیاسی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں۔پورے ملک میں احتجاج گزشتہ نو دنوں تک جاری رہا لیکن سیاسی حکومت نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور پارا چنار نہ گئی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر خود پارا چنار کا دورہ کیا اور الحمد اللہ حفاظتی حوالے سے تمام امور طے ہو گئے۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکر ٹری جنرل علامہ حسن ظفر نقوی نے کراچی پریس کلب میں دیگر رہنماوں کے ہمراہ کراچی پریس نیوزکانفرنس سے خطاب میں کیا ۔

انہوں نے کہا پاراچنار کے لوگ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ان کو دیکھتے ہوئے ہم نے بھی ملک بھر میں دھرنے ختم کر دیے ہیں۔وطن عزیز میں شیعہ سنی اتحاد مثالی ہے۔شیعہ سنی مکاتب فکر کے علما ء و مشائخ قومی سلامتی کے امور میں ہم خیال اور یکجا ہیں۔وحدت و اخوت کے اس عملی مظاہرے سے دشمن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان میں شیعہ سنی مسالک میں مذہبی منافرت پیدا کرنے کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ہم کوئٹہ و کراچی میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور سانحہ احمد پور شرقیہ کے لواحقین سے بھی اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پر پیدا ہونے والا ہر فرد بلاتخصیص مذہب و مسلک ہمارا پاکستانی بھائی ہے۔پاکستان کی سرزمین پر امریکہ اور اسرائیل اپنے آلہ کاروں پر بھرپور سرمایہ کاری کر کے بھی نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔پاکستان کو مسلکی ریاست بنانے کی مذموم کوششیں شیعہ سنی اتحاد کی بدولت اپنی موت آپ مر رہی ہیں۔اب امریکہ اور ملک دشمن قوتیں پاکستان میں داعش کو منتقل کر کے ملک کو انتشار کا شکار بنانا چاہتی ہیں۔ہم ملک دشمن عناصر کو کسی بھی ناپاک مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔41ممالک کے اتحاد کو سنی الائنس کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ متعدد سنی ممالک اس میں شامل نہیں۔دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں بننے والا یہ اتحاد اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔حکومت کو اس الائنس کا حصہ نہیں بننے دیا جائے۔جنرل راحیل کے جانے سے پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ  مجلس وحدت مسلمین نے اتنے ظلم و ستم کے باوجود ہمیشہ پرتشدد اور انتشار کی سیاست کی حوصلہ شکنی کی ہے۔اس جماعت نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے آئینی راہ اختیار کی۔پاکستان کی دوسری بڑی اکثریت اہل تشیع ہیں۔ جب کسی ملک کی اکثریت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تو معاملات بگڑتے ہیں۔ہم آپ کے شکر گذر ہیں کہ پیمرا کی طرف سے دباوہونے کے باوجود میڈیا نے پارا چنار کے حوالے سے شاندار صحافتی کردار ادا کیا ہے اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں پارا چنار کے حق میں مظاہرے کرنے والوں،این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماو?ں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں تحسین کا مستحق قرار دیتے ہیں۔اس موقع سید علی حسین نقوی میثم عابدی،،مولانا صادق جعفری،مولانا غلام عباس،مولانا فدا حسین ،شیعہ ایکشن کمیٹی کے رہنما صغیر عابدرضوی ،حسن رضا سہیل،پیام ولایت فاؤنڈیشن کے رہنما،اسلم علی، و دیگر موجود تھے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے متاثرین پاراچنار کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد ملک بھر میں جاری دھرنے اور احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ ضیا الحق کی پالیسیوں نے ہم سے قائد اعظم کا پاکستان چھین لیا ہے۔ہمیں وہ پاکستان واپس چاہیے جس کے لیے قائد اعظم نے جدوجہد کی ۔اس ملک کو انتہا پسندوں کی جاگیر نہیں بننے دیا جائے گا۔دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کسی مسلک کے شہید نہیں بلکہ پاکستانی شہدا ء ہیں۔یہ وطن کے بیٹے ہیں۔ملک دشمن عناصر وطن کے بیٹوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ہمارے ریاستی ادارے بالخصوص سیاسی حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں۔پورے ملک میں احتجاج گزشتہ نو دنوں سے جاری ہے لیکن سیاسی حکومت نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور پارا چنار نہ گئی ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر خود پارا چنار کا دورہ کیا اور الحمد اللہ حفاظتی حوالے سے تمام امور طے ہو گئے ۔پاراچنار کے لوگ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ان کو دیکھتے ہوئے ہم نے بھی ملک بھر میں دھرنے ختم کر دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وطن عزیز میں شیعہ سنی اتحاد مثالی ہے۔شیعہ سنی مکاتب فکر کے علما ء و مشائخ قومی سلامتی کے امور میں ہم خیال اور یکجا ہیں ۔وحدت و اخوت کے اس عملی مظاہرے سے دشمن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان میں شیعہ سنی مسالک میں مذہبی منافرت پیدا کرنے کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔پاکستان کی سرزمین پر پیدا ہونے والا ہر فرد بلاتخصیص مذہب و مسلک ہمارا پاکستانی بھائی ہے۔پاکستان کی سرزمین پر امریکہ اور اسرائیل اپنے آلہ کاروں پر بھرپور سرمایہ کاری کر کے بھی نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔پاکستان کو مسلکی ریاست بنانے کی مذموم کوششیں شیعہ سنی اتحاد کی بدولت اپنی موت آپ مر رہی ہیں۔اب امریکہ اور ملک دشمن قوتیں پاکستان میں داعش کو منتقل کر کے ملک کو انتشار کا شکار بنانا چاہتی ہیں ۔ہم ملک دشمن عناصر کو کسی بھی ناپاک مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 41ممالک کے اتحاد کو سنی الائنس کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ متعدد سنی ممالک اس میں شامل نہیں ۔دراصل ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں بننے والا یہ اتحاد اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔حکومت کو اس الائنس کا حصہ نہیں بننے دیا جائے۔جنرل راحیل کے جانے سے پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے مجلس وحدت مسلمین کے پُرعزم اور ذمہ دارانہ کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین نے اتنے ظلم و ستم کے باوجود ہمیشہ پرتشدد اور انتشار کی سیاست کی حوصلہ شکنی کی ہے۔اس جماعت نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے آئینی راہ اختیار کی۔پاکستان کی دوسری بڑی اکثریت اہل تشیع ہیں ۔ جب کسی ملک کی اکثریت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تو معاملات بگڑتے ہیں۔

علامہ ناصر عباس نے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا کی طرف سے دباؤ ہونے کے باوجود میڈیا نے پارا چنار کے حوالے سے شاندار صحافتی کردار ادا کیا ہے اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں پارا چنار کے حق میں مظاہرے کرنے والوں ،این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں تحسین کا مستحق قرار دیا۔

Page 2 of 3

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree