وحدت نیوز(آرٹیکل) قارئین محترم یہ پاکستان ہے اور بہت پیارا ملک ہے اس میں چار موسم ہیں ،لوٹ مار پر کوئی پابندی نہیں قتل و غارت گری بھی ہوسکتی ہے، جمہوری حکومت بھی ہوسکتی ہے اور مارشل لابھی، لیکن جو چیز ایک بار مہنگی ہو جائے وہ سستی نہیں ہوسکتی یہاں کوئی سیاسی جماعت ہو کوئی مذہبی جماعت ہو، کوئی سکالر ہو، کوئی عام آدمی ہو اپنی ہی بات کو صحیح سمجھتا ہے لہذا جہالت اپنے عروج پر ہے جس کو ہر مقام اور ہر جگہ حکومت کے اندر اور حکومت کے باہر بھی باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔    

عزیزان محترم آج مجھے فقط اور فقط اسلام آباد پر ہی بات کرنی ہے میڈیا پر بار بار حکومتی ذمہ داران ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ حکومت اور جے یو آئی ایف کا ایک معاہدہ ہوا لہذا حکومت سمجھتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس کی پاسداری کریں گے اور معاہدے کے مطابق اسلام آباد میںقیام کریں گے جبکہ بعدازاں واپس گھروں کو چلے جائیں گے۔ لیکن جب مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی کہ یہ عوام وزیراعظم کو ان کے گھر سے گرفتار کرنے کی بھی قدرت رکھتی ہے ۔

وزیراعظم کو دو دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ استعفیٰ دیں ورنہ اگلا لائحہ عمل بتائیں گے۔ آپ نے بھی یہ بات سنی ہوگی لیکن مجھے عجیب سا لگا یعنی کوئی بھی شخص جب چاہے ۔پچیس تیس ہزار لوگ اکٹھے کرکے اسلام آباد آجائے اور وزیراعظم سے استعفی کا مطالبہ کردے کیا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟میں اس کی حمایت نہیں کرتا جبکہ یہاں پر ایک اور بھی مسئلہ ہے کہ زیادہ تر مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ ہوتے ہیں جو گڑبڑھ کرنے اور افراتفری پھیلانے میں ماہر ہوتے ہیں چونکہ بات اسلام آباد کی ہو رہی ہے تو آپ نے سنا ہوگا انصارالاسلام نامی عسکری ونگ جے یو آئی ایف میں بھی متحرک دکھائی دیتا ہے اور ڈنڈوں سے مسلح ہیں جبکہ مجھے یقین ہےان کے پاس اسلحہ بھی ہوگا۔    

مجھے حکومت کی معصومیت پر ہنسی آرہی ہے کہ انہوں نے مولانا صاحب کی باتوں پر اعتبار کرکے کھلے عام اسلام آباد پر چڑھائی کا موقع دیا اگر دیکھا جائے تو ملک کے ایک مخصوص حصہ سےانکے چند ارکان پارلیمنٹ ہیں اور خود مولانا فضل الرحمن اپنی سیٹ جیت نہ سکے کے ۔اس بات سے انکار نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت معمولات مملکت چلانے میں متحد نظر نہیں آتی ۔مہنگائی اور بے روزگاری میں بے حد اضافہ ہوا ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے، کشمیر جو ہماری شہ رگ حیات تھی اس کو انڈیا باقاعدہ کاٹ چکا ہے ہے ملکی معیشت انتہائی دباؤ کا شکار ہے۔    

اس کی وضاحت میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کے ایک واقعے سے کرتا ہوں ایک دفعہ آپ کی عدالت میں ایک بچہ لایا گیا جس کے اوپر دو حواتین دعویدار تھیں یعنی ہر خاتون یہ کہہ رہی تھی کہ یہ اس کا بچہ ہے جب مولا علی علیہ السلام نے یہ معاملہ سنا تو آپ نے کہا کہ اس بچہ کو دو حصوں میں برابر کاٹ کر دونوں کو آدھا آدھا دے دیا جائے تو فورا ایک خاتون نے کہا نہیں اس کو کاٹو مت اس کو دوسری عورت کو دے دو میں اپنا مطالبہ واپس لیتی ہوں جس پر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بچہ اس عورت کو دے دو کیونکہ یہی اس بچے کی ماں ہے اس کے دل میں یہ خیال آیا ہے کہ میرا بچہ زندہ رہے چاہے دوسری عورت کے پاس ہی رہے۔

 اسی طرح اگر مولانا پاکستان کے ہمدرد ہوتے تو اس وقت یہ مسئلہ کھڑا نہ کرتے ،لیکن کیا کریں ان کے بڑے بھی پاکستان بننے کے مخالف تھے تو آج ان کا یہ عمل جائز ہے دراصل اگر کوئی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت کے عام کارکن ہوتے تو بات سمجھ میں آتی تھی لیکن ان بنیاد پرست شدت پسند افراد کو اسلام آباد کی زمین پر بٹھانا خطرے سے خالی نہیں ہے یہ کوئی سیاسی دھرنا نہیں ہے بلکہ یہ مسلح جتھے کا اسلام آباد پر حملہ ہے اور ملکی نظم ونسق کو تباہ کرنے کی سازش ہے اس کے عوامل کیا ہیں یہ تو اداروں کا کام ہے کہ وہ چھان بین کریں۔    

اس کے ساتھ ساتھ اس مارچ اور دھرنے میں شامل سیاسی جماعتیں اور ان کے چند کارکنان خود ایک سوالیہ نشان بن چکے ہیں اور خود مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا امتحان ہے جو انہوں نے خود سے اپنے سر پر ڈالا ہے اس سے پہلے کہ اسلام آباد کے حالات خراب ہوں اور پھر سارے ملک میں اس کے اثرات آئیں حکومت کو چاہیے کہ وہ حکومت میں رہ کر اتنے عرصہ میں جتنے پیسے کما لیتے تھے وہ دے دیئے جائیں اور ان کو فارغ کردیا جائے ورنہ یہ جو آزادی مارچ ہے اس کا مفہوم سمجھ سے بالاتر ہے اور ایسا نعرہ لگا کر ملک کو نازک صورتحال میں دھکیلنا اور سرعام ریاست اورریاستی اداروں کو دھمکیاں دینا ناقابل فہم اور ناقابل معافی جرم ہے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو مزید مولانا پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے اور ضروری اقدامات فور اٹھانے چاہیے بلکہ میں تو یہ کہوںگاچاہےکسی کو برا لگے اس علاقے کا سارا انتظام پاک آرمی کے جوانوں کو سنبھال لینا چاہیے کیونکہ پروٹیسٹر شدت پسند مذہبی انتہا پسندی کا شکار لوگ ہیں ۔جہاں خواتین صحافیوں کو کوریج کرنے سے روک دیا گیا ہے ان کے ذہنوں کی شدت پسندی کی واضح مثال ہے یہ کوئی دھرنا ورنہ نہیں ہے یہ ایک گروہ کا اسلام آباد پر حملہ ہے اور پاک فوج کو آگے بڑھ کر اس حملے کو روکنا چاہیے بصورت دیگر کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں حکومت وقت اور ادارے ذمہ دار ہوں گے اور یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی ۔بیس پچیس ہزار لوگ بائیس کروڑ عوام کے ملک میں اپنی من مانیاں کرتے پھریں اور ان کو روکنے والا کوئی نہ ہو۔

ویسے مولانا کی دو دن کی مہلت اقتدار سے ان کی اداسی کا بھی پتہ دیتی ہے اور اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا زیادہ لمبی عصابی جنگ نہیں لڑ سکیں گے کیونکہ اس بات کا ان کو بھی اندازہ ہوگا کہ دو دن کی مہلت سے وزیراعظم سے استعفی مانگنا مضحکہ خیز ہے لہذا اس فرسٹریشن اور جلد بازی میں مولانا کوئی غلط فیصلہ کرسکتے ہیں ان کا سارا سیاسی کیریئر ر داؤ پر لگ گیا ہے لہذا اس وقت سنجیدگی کی ضرورت ہے اور معاہدہ معاہدہ کاراگ الاپنے سے بہتر ہے عملی لائحہ عمل بنایا جائے اور پرامن طریقہ سے بغیر کسی نقصان کے ملک اور اسلام آباد میں بسنے والے شہریوں کو اس مصیبت سے نجات دلائی جائے۔


تحریر:آئی ایچ نقوی

وحدت نیوز(آرٹیکل) میں اپنے اس دوست کو نہیں بھول سکتا، جو آج سے تقریبا دس سال پہلے ہمارا کلاس فیلو تھا، ہم سب کو  پرنسپل صاحب کے کمرے میں لے گیا، مطالبہ یہ تھا کہ ہمیں محرم الحرام کے دس دن مکمل چھٹی ہونی چاہیے، مدیر صاحب نے ہماری بات سنی، ہمیں اپنے کمرے میں بٹھایا اور انتہائی دھیمے لہجے میں کہا کہ آپ کی دس دن کی چھٹی کا امام حسینؑ سے کیا تعلق؟

انہوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوتی کہ اگر آپ لوگ یہ مطالبہ کرتے کہ ان دس  دنوں میں اس بین الاقوامی یونیورسٹی میں امام حسینؑ کے حوالے سے خصوصی سیمینارز اور محافل و مجالس کا اہتمام کیا جائے، میں آپ لوگوں کو شاباش دیتا کہ اگر آپ لوگ میرے پاس کچھ ایسی کتابوں کے تعارف کیلئے آتے جن کے مطالعے سے آپ امام حسینؑ کے اہداف اور مقاصد کو بہتر طور پر سمجھ سکتے، بہترین مقالہ جات  لکھ سکتے، اور  لیکچرز میں ان علمی کتابوں سے استفاد کرتے،  انہوں نے کہا کہ میں کتنا خوش ہوتا کہ اگر آپ لوگ سیرت امام حسینؑ کو سمجھنے کیلئے مقالہ نویسی کے کسی مقابلے کے سلسلے میں مجھ سے رہنمائی لینے آتے۔۔۔

قارئین یقیناً سمجھ گئے ہونگے کہ پرنسپل صاحب نے  پورے دس دن کی چھٹی نہیں دی  اور طبق قاعدہ نو اور دس محرم کو ہی چھٹی کی گئی۔ ان بقیہ آٹھ دنوں میں ہمارا وہ دوست یا تو کلاس میں آتا نہیں تھا اور اگر آئے بھی تو  یہی گلہ کرتا تھاکہ میں ان لوگوں کی امام حسینؑ سے شکایت کروں گا، یہ پکے وہابی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔

پندرہ محرم الحرام سے ہمارے  ٹرم کے امتحان شروع ہوئے تو اُن صاحب کا اعلان تھا کہ امتحان جانے اور امامؑ جانے، بہر حال  حسبِ امید وہ صاحب ساری کتابوں میں فیل ہوگئے، اسی  ربیع الاول میں انہوں نے عمامہ اور عبا قبا پہن لی اور تقریباً چند ہی مہینوں بعد ملت کی ہدایت کیلئے واپس پاکستان تشریف لے گئے۔۔۔۔آج کل مشہور علامہ ہیں۔

میں اپنے اس کلوس فیلو کو بھی فراموش نہیں کر سکتا جو انہی دنوں ہر کلاس میں آتے تو  تاخیر سے لیکن  کلاس سے نکلنے کی انہیں بہت جلدی ہوتی۔ ایک دن علم کلام  کی کلاس میں ان سے استاد نے کچھ سوال پوچھے جن کے جوابات سُن کر ساری کلاس کشتِ زعفران بن گئی۔

کلاس کے بعد میں نے عرض کیا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں علمِ کلام میں مانے ہوئے استاد نصیب ہوئے ہیں، اس پر وہ زور زور سے ہنسے اور کہنے لگے کہ ہمارے عقائد کتابوں اور استادوں کے محتاج نہیں ہیں،  ہمارے عقائد ہماری ماوں نے دودھ میں ملا کر  ہمیں پلا دئیے ہیں۔ہم عقیدے اور معرفت کی اس منزل پر پیدا ہوتے ہیں کہ کتاب پڑھنے یا کلاس میں جانے سے ہمارے علم، عقیدے  یا معرفت میں  کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے بالکل صحیح فرمایا تھا وہ اس کے بعد سات آٹھ سال تک ہمارے ساتھ رہے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ اس دوران  واقعتاً ان کے علم، عقیدے اور معرفت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ آج کل وہ بھی پاکستان میں ہیں  اور خیر سے وہ بھی علامہ ہیں۔

اس وقت  اس ہستی کا ذکر  کیسے نہ کروں کہ  جس کے  دعوے کے مطابق  اس نے اجتھاد و عرفان کے خانوادے میں آنکھ کھولی تھی، وہ جب  اپنا شجرہ نسب  بیان کرتے تھے  تو اکثر نئے اور پرانے مراجعِ عظام  اور مجتھد  ین کرام سے ان کی خونی رشتے داریاں ثابت ہو جاتی تھیں اور جب عرفا کا ذکر کرتے تھے تو وہ خود ہی عرفا کے خانوادے کے چشم و چراغ تھے لہذا انہیں شعرا کے اشعار کی طرح عرفا کی سینکڑوں کرامات ازبر تھیں۔ ان کا یہ بھی ادعا تھا کہ ان کے دادا نے دیوار پر بیٹھ کر گھوڑی کی طرح سے سواری کی تھی اور  ایک درخت پر بیٹھ کر کشمیر کی سیر کی تھی۔

عرفان کی کلاس میں  وہ اکثر  استاد کو روک کر عرفانی قصہ سنانے کی اجازت مانگتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ علم سینہ بہ  سینہ منتقل ہوتا ہے،  وہ فرماتے تھے کہ یہ جو  یہاں پر عرفان  پڑھا ، سمجھا اور بتا رہے ہیں یہ سب ان کے اپنے ڈھکوسلے ہیں۔

البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ عرفان کے علاوہ  دیگر کلاسوں میں بھی ان کی حالت قبلِ رحم ہوتی تھی، کئی مرتبہ انہیں استادوں سے نمبروں کی بھیک مانگتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔۔۔ کچھ سال انہوں نے بھی رگڑا کھایا، آج کل وہ بھی پاکستان میں دین کی سربلندی  کیلئے کوشاں ہیں اور علامہ صاحب ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کی دینی مدارس سے  بھی نکلے ہوئے  ایسے بے شمار علامہ حضرات موجود ہیں جو تین چارسال فقط  ادبیات اورایک حد تک اصول اورفقہ پڑھنے کے بعد قوم کو دن رات دین سکھانے میں مشغول ہیں۔ اس کے علاوہ جو ایک دو سال میں ہی علامہ بن جاتے ہیں، ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔

ہر سال نجانے کتنے ہی اس طرح کے علامے پاکستان کے معاشرے میں منبر پرجلوہ افروز ہوتے ہیں اور محراب میں جگمگاتے ہیں۔ چنانچہ اب آپ پاکستان میں دیکھ لیں  کہ پہلے کسی زمانے میں ذاکرین  حضرات کے القابات پر  علمائے کرام اور عام  لوگ  بھی اعتراض  کرتے تھے لیکن اب علمائے کرام کہلوانے والوں کے القابات، ذاکرین سے بھی زیادہ لمبے چوڑے ہو گئے ہیں اور اب یہ  رونقِ منبر بننے والے سب  کے سب علامہ صاحب ہیں۔ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو ان القابات سے بچنا چاہتے ہیں لیکن فرشِ عزا بچھانے والے اگر علامہ سے کم کسی کو بلائیں تو  محلے، علاقے اور شہر میں ان کی مجلس کا معیار گر جاتا ہے لہذا جو منع کرے اسے بھی زبرستی علامہ بنا دیا دیا جاتا ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ ان علامہ  حضرات کی مجالس سنیں،  آپ دیکھیں گے کہ  ان کی علمی و تحقیقی سطح ایک ذاکر کے برابر ہی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چارہ ذاکر اتنے چھل بل نہیں جانتا جتنے یہ جانتے ہیں، ذاکر اگر غلو کرے تو بے چارہ سیدھا سادھا غلو اور شرک  کرتا ہے اور انہیں چونکہ تھوڑی بہت مدرسے کی ہوا لگی ہوتی ہے ، اس لئے یہ تھوڑا  بہت چھپا کر اور بات کو گھما پھرا کر غلو اور شرک کرتے ہیں، بس جو بات ایک ذاکر کرتا ہے، اس نے بھی کسی مدرسے کی تعلیمی نصاب سے حاصل نہیں کی ہوتی بلکہ وہ غریب کی اپنی محنت ہوتی ہے اور جو کچھ یہ  علامہ  حضرات بیان کرتے ہیں وہ انہوں نے بھی مدرسے سے بطورِ نصاب تعلیم نہیں سیکھا ہوتا، لہذا یہاں بھی غریب کی اپنی ہی محنت ہوتی ہے۔ لہذا دونوں طرف کے غریبوں کی گفتگو کی صرف لفاظی مختلف ہوتی ہے لیکن عملا اور نتیجے میں ان کی محنت کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔

مثلا!، ایک آدمی منبر سے عرفانی مسائل بیان کرتا ہے ، حالانکہ وہ حوزہ علمیہ میں عرفان کا طالب علم ہی نہیں رہا، معاشرے ، اقتصاد اور عمرانیات  جیسے حساس موضوعات پر لب کشائی کرتا ہے لیکن  بے چارے کی ساری اپنی محنت ہوتی ہے، وہ کسی موسسے یا مدرسے میں ان علوم کا طالب علم ہی  نہیں رہا ہوتا، ایک  علامہ صاحب  آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں لیکن وہ علمِ تفسیر کے  شعبے میں کسی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں  ہوتے، ایک علامہ دہر عقائد کی گتھیاں سلجھا رہے ہوتے ہیں لیکن انہوں نے علم کلام کے شعبے میں کسی مدرسے میں حصولِ علم کا شرف ہی حاصل نہیں کیا ہوتا تو پھر ہمیں خود سوچنا چاہیے کہ جب غریب نے اپنی  ہی محنت کرنی ہے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ عمامہ پہنے یا جناح کیپ، وہ داڑھی بڑی رکھے یا چھوٹی، وہ سر کو ڈھانپ کر منبر پر بیٹھے یا ننگے سر کھڑا ہو جائے۔۔۔اس نے قوم کی خدمت کیلئے سارا خرچہ تو اپنی جیب سے ہی کرنا ہے۔

اس وقت  رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای کے اس فرمان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں  کہ جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ   آج تحقیق کا مسئلہ صرف  دوسروں کو دکھانے (تجمل گرائی) کا مسئلہ نہیں ہے  بلکہ ہماری بقا اور زندگی کا مسئلہ ہے۔  مجھے نہیں پتہ کہ اربابِ اختیار  کلمہ تحقیق سے کتنی گہری واقفیت رکھتے ہیں،  لیکن میرا اس پر ٹھوس یقین ہے کہ آج ہمیں اپنی شناخت، اپنے وجود ، اپنے استقلال اور اپنے مستقبل کیلئے  جو دو تین اہم کام کرنے چاہیے ان میں سے ایک علمی تحقیق ہے۔[1]

اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جہاد کا مطلب  میدان میں  ہدف و ایمان کی خاطر مجاہدت کے ساتھ موجود رہنا ہے،  لہذا یہ جو جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کا حکم ہے،  اس میں جہاد بالنفس کیا ہے؟ کیا صرف یہ کہ  میدان جنگ میں جا کر اپنی جان قربان کر دیں یہی جہاد بالنفس ہے!؟  نہیں جہاد بالنفس  میں سے ایک یہ ہے کہ آپ رات سے صبح تک اپنے وقت کو   ایک تحقیقی کام پر  صرف کریں، آپ کو وقت گزرنے کا احساس نہ ہو،  جہاد بالنفس یہ ہے کہ تحقیق کیلئے  اپنی تفریح  کو چھوڑ دیں،  اپنے بدن کے آرام کو بھول جائیں، بہت سارے ایسے کاموں کو  کہ جن سے آپ بہت ساری دولت کما سکتے ہیں ، انہیں چھوڑ دیں اور اپنے آپ اور اپنے وقت کو تحقیق میں صرف کریں۔[2]

اس کے بعد ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اب یہ ہماری  دنیا  بہت بدل چکی ہے، یہ عہد دادی اماں اور نانی اماں کی کہانیوں کے بجائے تحقیق اور تخصص کا ہے،  آج ایک طرف تو  تعلیمی اداروں اور علمی محافل میں  تحقیق کے بغیر  کسی کا ایک لفظ قبول نہیں کیا جاتا اور لیکن  دوسری طرف ہم علم کے نام پر اپنی مجالس و محافل میں کیا تقسیم کر رہے ہیں۔

ہم آخر میں یہ بھی عرض کرنا چاہیں گے کہ ایک علمی تحقیق وہ نہیں ہوتی کہ کسی   ڈائجسٹ یا اخبار کے مطالعے کی طرح اِدھر اُدھر سے چند باتوں کو اکٹھا کر کے لوگوں کے سامنے بیان کر دیا جائے، بلکہ ایک علمی تحقیق وہ ہوتی ہے، جس کے منابع کے درجات کا تعین ہوتا ہے، جس کا محقق  علمی  و تحقیقی معیارات کے مطابق تربیت یافتہ ہو تا ہے اور جس کے مفروضا ت کو پہلے ماہرین کی محفل میں نقد و بررسی کیلئے پیش کیا جاتا ہے اور پھر اگر علمی ماہرین یعنی علما اس کی تصدیق کر دیں تو  تب جا کر اس بات کو انسانیت کی خدمت اور ہدایت کیلئے منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔یہ  ہے وہ تحقیق جو اقوام کی   شناخت ،  وجود ، استقلال اور  مستقبل کی بقا کے لئےمطلوب ہے۔ لیکن جہاں تخصص اور تحقیق کے بغیر ہی لوگ علامہ بن جاتے ہوں وہاں اقوام کا وہی حال ہوجاتا ہے جو آج ہمارا ہو چکا ہے۔


تحریر:نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

 

وحدت نیوز(آرٹیکل) خدا وند متعالی نے جس عالم میںہم رہ رہےہیں اسے " محل ابتلاء " اور آزمائش کی جگہ قرار دیا ہے،" أ حسب الناس أن يتركوا أن يقولوا أمنا و هم لا يفتنون " .لہذا ھر ایک کو یہاں پرکھا جائے گا، جہاں افراد نے پرکھا جانا ہے وہیں انسانی معاشروں اور قوموں کو بھی آزمائشوں سے گزرنا ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی جو کہ ھمارا خالق، مالک اور رب ہے، یہ سب کچھ اس کے نظام ربوبیت کے تحت ہے ۔لہذا جس کا ایمان کا درجہ جس قدر بلند ھو گا اس کا امتحان بھی اتنا ھی مشکل اور سخت ھو گا، ( بقول شھید مطہری رہ کے جتنی انسان کی روح بلند ہوتی ہے اتنا ہی اس کا بدن تکلیف اور سختیوں میں رھتا ہے ، اس کی ایک بڑی مثال امام حسین علیہ السلام ہیں) ۔

اسی طرح اس عالم کے رب نے اس کی تقدیر میں امام عصر عج کے ظہور کو رکھا ہے، اہل ایمان کو اس پر مکمل یقین ھونا چاھئے کہ کچھ بھی ھو جائے آخری فتح ھماری ہے، ابھی اہل تشیع اور دنیا میں بسنے والے لوگوں نے کئی ایک نشیب و فراز سے گزرنا ہے، ھمیں مایوس نہہں ھونا چاھئے ۔جس دشمن کا ھمیں سامنا ہے، وہ شیطان بزرگ ھے، اس کا مادی جاہ و جلال مادہ پرستوں کی آنکھوں کو چندھیا دیتا ہے۔

 جب کہ گزشتہ چالیس سال سے اہل ایمان اس کے مقابلے کے لئے میدان عمل میں موجود ھیں، اور خدا وند متعالی نے ان سالوں میں اپنی غیبی مدد اور عظیم کامیابیوں کی مدد سے نوازا ، جب کہ ظاھری لحاظ سے کامیابی کی کوئی صورت نہیں دیکھائی دیتی تھی ۔بالآخر اہل ایمان نے ان کھٹن مراحل سے گزر کر ھی عالمی سطح پر نفاذ عدل کے امام عصر عج کا ساتھ دینا ہے، کرپشن اور فساد سے پاک معاشرہ، جہاں عدل و انصاف ھو، ابھی تک مقاومت ظلم اور ظالموں کے ساتھ گرم جنگ میں اور کسی حد تک نرم جنگ میں کامیاب ھوئی ہے، لیکن نفاذ عدل کے لئے اور کرپشن سے پاک نظام چلانے والوں کی تربیت کے لحاظ سے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے ۔

دشمن سے گرم جنگ لڑنے سے زیادہ مشکل عدل کا نفاذ ھے، ابھی ہم (عالمی تشیع) نے اس وادی میں بھی آزمایا جانا ہے، امام عصر عج کو جہاں دشمن سے جنگ لڑنے والے افراد اور کمانڈ کرنے والے افراد کی ضرورت ہے وہیں پر عدل و انصاف کو نافذ کرنے والے ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ہم سب نے مسلسل ان سخت امتحانات سے گزرنا ہے ، مشکلات اور بحرانوں کو دیکھ کر ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے اور نہ ہی ہارے ہوئے لشکر کی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی پر اترنا چاہئے، البتہ حقائق کا بیان ضرور ھونا چاہیں ۔اس وقت مقاومت کے بلاک کے بعض ممالک ایک ایسے فیز (مرحلے) سے گزر رہےہیں، جس سے پہلے ایران گزر چکا ہے اور ان حالات کی پیشن گوئی بھی کی گئی تھی ۔امید ہے کہ ان شاء اللہ گزشتہ امتحانات کی طرح مقاومت اس امتحان سے بھی سرخرو ھو کر نکلے گیاور دشمن رسوا ہو گا اور مایوس بھی ۔ ظہور امام عصر عج تک ھم نے (آزمائشوں کے) کئی ایک نشیب و فراز سے گزرنا ہے ۔ھماری گزشتہ تاریخ بھی اس پر گواہ ہے ۔یہی آزمائشیں حقیقی اور راسخ قیادت کو بھی سامنے لاتی ہیں ۔ابھی نجف اشرف میں حوزہ علمیہ اور عراق میں موجود لوگوں کو مزید " غربال " ھونا ہے ۔مزید سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا ھو گا، تا کہ "صامت " کے بجائے ایک ناطق حوزہ بن جائے ۔

ایران میں عظیم انقلاب اور ولایت فقیہ کی عظیم نعمت کے باوجود انقلاب اور علماء مخالف ایک بڑا طقبہ موجود ہے، انہیں جب موقع ملتا ہے وہ اپنا غصہ نکالتے ہیں، جب کہ اس وقت لاکھوں عراقی، امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں اور ان کے اداروں سے وابستہ بھی، ایک بڑا سیکولر اور قوم پرست طبقہ عراق میں موجود ہے جو کسی طور مذہبی عنصر کو اقتدار میں قبول کرنے کو تیار نہیں، الیکشن وہ جیت نہیں سکتے، لہذا ان کے پاس اس تخریبی راستے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

لہذا وہ لوگوں کی حقیقی مشکلات کے مسئلے کو عثمان کا کرتہ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاھتے ھیں، عراق میں امریکہ ، یورپ اور عرب ممالک کے سرمائے سے ھزاروں این جی اوز بنائی گئی ہیں جنہوں نے ایک طرف سول سوسائٹی کے نام پر مظاھروں میں بنیادی انسانی حقوق کا پرچم اٹھائے شریک ھوتی ہیں اور دوسری طرف دھشت گردی کے لئے تربیت شدہ افراد سے قتل و غارت گری کے ذریعے انتقام لیا جاتا ہے ۔البتہ یہ بات واضح ھے کہ اس طرح کے انسانیت سوز اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ دشمن مایوس ہے اور اسے کامیابی کی کوئی امید نہیں ۔

اللھم عجل لولیک الفرج

وحدت نیوز(آرٹیکل)نئے عراق کا فاتح امریکہ ہے اور عراق میں امریکی نفوذ بہت زیادہ ہے.
1- وہ اسے ایران کے خلاف استعمال کرنا چاھتا ہے.
2-  وہ اسے تین حصوں میں تقسیم کرنا چاھتا ہے.
3- وہ اپنی 100% وفادار حکومت قائم کرنا چاھتا ہے.      
4- مقاومت کے بلاک کو توڑنا یا دراڑ ڈالنا چاھتا ہے.

عملی طور پر مقاومت کے بلاک کی حکمت عملی سے امریکہ چاروں اھداف کے حصول میں ناکام رھا ہے.

مقاومت کے بلاک کی بڑی طاقت شیعہ ہیں. اب اس نے تشیع کو کمزور کرنے کے لئے انکے درمیان داخلی جنگ کے ایجنڈے پر زور دیا ہے. اور وہ تمام تر شیعہ جو ایم آئی 6 یا سی آئی اے یا دیگر امریکی بلاک کی ایجنسیوں سے مربوط تھے انہیں ایران اور مقاومتی بلاک کے خلاف زمینہ سازی کے لئے میدان میں اتارا ہے. جن میں شیرازی ، سرخی ، کاطع اور دیگر مجھول نام نہاد علماء جو عراق ،امارت، بریطانیہ و امریکا اور دیگر ممالک میں مقیم ہیں انہیں سوشل میڈیا ودیگر ذرائع سے ملک کی فضاء آلودہ کرنے کے لئے فعال کیا جا چکا ہے.عراقی سابق وزیر داخلہ بیان جبر کہتا ہے کہ عراقیوں کو صربیا میں امریکی حکام نے بحرانی کیفیت ایجاد کرنے اور افراتفری پھیلانے کی ٹریننگ دی ہے.

عراق میں سعودی ایجنڈہ

سعودی انٹیلی جنس کا سعودی فرمانروا کو لکھا جانے والا خفیہ مراسلہ سوشل میڈیا میں کل سے گردش کر رہا ہے جس میں سعودی اھداف مندرجہ ذیل بیان ہوئے ہیں.

  ۱. پارلیمانی نظام کا خاتمہ اور اسکی جگہ صدارتی نظام کا قیام.
۲. آرمی ، امنیتی نظام اور حشد شعبی کی تحلیل.
۳. شیعہ مسلح گروہوں کا خاتمہ جو کہ سعودی عرب کی امنیت کے لئے خطرہ ہیں.
۴ . عراقی امنیتی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کی کوریج تاکہ رائے عامہ ہموار کرنے  میں مدد کرے.

لمحہ فکریہ ▪

▪لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ " امریکہ برا برا " کا نعرہ نہیں

 ▪ سعودیہ جس نے سیکڑوں خود کش حملے کروائے اور کھل کر داعش کی مدد کی "سعودیہ برا برا" کا نعرہ نہیں

. ▪اسرائیل نے کھلے عام عراق پر میزائل داغے اور عراقی اسلحے کے ڈپو تباہ کئے اور اسبسے پہلے انکا ایٹمی پراجیکٹ تباہ کیا  اور عوام کو قتل کیا لیکن "اسرائیل برا برا "کا نعرہ نہیں.

 ▪لیکن جنھوں نے عراق کو داعش کے شر سے بچایا.  ▪جنہوں نے عراق کو ٹوٹنے نہیں دیا انہیں کے خلاف ہی نعرے لگتے ہیں.  

یہ وہی پروپیگنڈہ ہے کہ جس کے تحت شامی کہتے تھے کہ کیا علی (علیہ السلام ) نماز بھی پڑھتے تھے!!!؟

الزامات اور پروپیگنڈہ ایران کے خلاف

عراق ایران کا ہمسایہ ملک ہے اسے کچھ نہیں کرنا چاہیے انتظار کریں کہ ایک اور صدام جنگ مسلط کرے. اور داعش وھابیت مقامات مقدسہ کو جنت البقیع کی طرح مسمار کر دے. لیکن چار سمندر پار سے آکر امریکہ کو سب کچھ کرنے کا حق ہے۔

 

تحریر: علامہ ڈاکٹرسید شفقت شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) جابر بن عبداللہ انصاری، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ صحابی ہیں جنھوں نے دوسری بیعت عقبہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ کثیر الحدیث صحابی اور حدیث لوح کے راوی ہیں۔ حدیث لوح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شیعہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک کو ذکر فرمایا ہے۔ جابر کے والد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجرت سے پہلے ایمان لائے اور دوسری بیعت عقبہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کیا اور ان بارہ نقیبوں میں سے ایک تھے جنہيں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قبیلوں کے نمائندوں کے طور پر مقرر کیا تھا۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد عبد اللہ نےمدینہ منورہ میں دین اسلام کی تبلیغ کے لئے کوشش کی۔ ابن کثیر دمشقی جابر کے والد عبداللہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا: خدا  وند آپ کو اے انصار جزائے خیر دے خصوصا  العمرو بن حرام (جابر کا کنبہ) اور سعد بن عبادہ کو۔1۔ عبداللہ غزوہ بدر میں شریک تھے اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔2۔

جابر رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی جنگوں اور اہم واقعات میں موجود تھے ، جیسے: غزوہ بنی مصطلق،غزوہ احزاب، غزوہ  بنی قریظہ ، صلح حدیبیہ ، غزوہ خیبرہ ،سریہ خبط ، فتح مکہ ، محاصرہ طائف  اور غزوہ تبوک  ۔ 3۔ مورخین اورمحدثین نے جابر بن عبد اللہ انصاری کا نام ان لوگوں کی فہرست میں ذکر کیاہے جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہاتھوں ایمان لانے والوں میں سے سب  سے پہلے قرار دیتے  ہیں۔4۔ شیخ مفید نے جابر کو ان اصحاب کی فہرست میں شامل کیا جو حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم   کا جانشین بلافصل سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق ،ابو  زبیر مکی( جو جابر کے شاگردوں میں سے تھے ) نقل کرتا ہے: میں نے جابر کو مدینہ میں انصار کے محلوں اور ان کے محافل میں  عصا ہاتھوں میں لئے گھومتے ہوئے دیکھا  جبکہ وہ یہ کہ رہے تھے : اے گروہ انصار: اپنے فرزندوں کی تربیت حب  علی علیہ السلام کےساتھ کیا کرو اور جو اس  سے انکار کرے تو اس کی ماں  کے کردار کاجائزہ لو۔ 6۔

ایک دن امام باقر علیہ السلام نے جابر سے حضرت عائشہ اور جنگ جمل کے بارے میں پوچھا۔ جابر نے جواب دیا: ایک دن میں عائشہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ علی بن ابی طالب کے بارے میں کیا  کہتے ہو؟ انہوں نے اپنا سر جھکایا اور ایک لمحے کے بعد سر اٹھا کر یہ اشعار پڑھنا شروع کیا: "جب سونے کو جلایا جاتاہے ، تو اس سے ساری ملاوٹیں اورناخالصی نکل جاتی ہے۔ ہم  انسان بھی خالص اورناخالص ہیں۔ علی ہمارے درمیان ایک معیار ہے جو کھرے اور کھوٹے کوسرے سے الگ کرتا ہے۔7۔

جابر کہتے ہیں: ہم  بصرہ میں امیر المومنین  علیہ السلام کے ساتھ تھے ، جنگ ختم ہوگئی اور میں  رات کو اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔ آپ ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا  تم لوگ کیا گفتگو کر رہے ہو؟  میں نے کہا:ہم دنیا کی برائی کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: جابر! دنیا کی برائی کیوں کر رہے ہو ؟ اس کےبعد آپ نے خدا کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد دنیا  کے فوائد پر گفتگو کی اور پھر میرا ہاتھ  پکڑ کر قبرستان لے گیا اور مرنے والوں کے بارے میں بات کی۔8۔ اسی طرح جنگ صفین اور نہروان میں بھی جابر  امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں رہا ۔نہروان سےواپس آتے وقت جو واقعہ پیش آیا تھا جابر نے  اسے بھی نقل کیا ہے۔ 9۔

کتاب  وقعہ الصفین جو قدیم کتابوں میں سے  ایک کتاب ہے، جابر بن عبد اللہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:معاویہ اس حالت میں مرے گا کہ وہ میری امت میں شامل نہیں ہوگا۔10۔ معاویہ کے بارے میں جابر کا  موقف  اس حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جابر نے اس حدیث کو مستقیما اور کسی واسطہ کے بغیر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔اسی طرح یہ واقعہ بھی جابر کے موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت امام علی علیہ السلام کی خلافت کے آخری سال میں معاویہ نے تین ہزارافراد کو بسر بن ارطاۃ  کی سربراہی میں مدینہ بھیجا اور بسربن ارطاۃ سے کہا: مدینہ جاو  اوروہاں افراد کو منتشر کرو۔ تم جہاں بھی جاو  لوگوں کو ڈراؤ ۔ جوہماری اطاعت سے انکار کرے ان کے اموال کو لوٹ لو ، اور اہل مدینہ کو ڈرا کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کرو کہ  ان کے پاس اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

لشکرمعاویہ جب مدینہ پہنچا تو انہوں نےمعاویہ  کے احکامات پر عمل کرنا شروع کیا۔ مدینہ کے لوگوں کوجنگی سہولیات اورافراد کی کمی کا سامنا ہوا  جس کی وجہ سے بیعت کرنے کے  علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ملا۔  قبیلہ بنی سلمہ  جو جابر کا رشتہ دار تھا ، بھی بیعت کے لئے بسر بن ارطاۃکےپاس پہنچا ۔ اس نے  پوچھا کہ جابر بھی ان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا جب تک جابر ان کے ساتھ نہیں آتا تب تک  ان سے بیعت نہیں لوں گا۔جابر کہتے ہیں:میں ڈر گیا  اس لئے  وہاں سےبھاگ  گیا۔ لیکن بسر نے بنی سلمہ جابر کے قبیلہ والوں سے کہا : جب تک کہ جابر خود نہ آئے کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے۔ میرے رشتہ دار میرے پاس آئے اور کہا :خدا کی قسم  ہمارے ساتھ چلو اور اپنی جان اور اپنے رشتے داروں کے جانوں کی حفاظت کرو ، کیونکہ اگر آپ  نےایسا نہیں کیا تو ہمارے لوگ مارے جائیں گے اور ہمارے اہل خانہ کو اسیر کیاجائے گا۔

جابر نے ایک رات  سوچنے  کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  زوجہ ام سلمہ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لئے چلا گیا تو انہوں  نے  جابر سے کہا: اس کی بیعت کرو اوراپنی اور رشتہ داروں کی جان بچاو اگرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ بیعت، بیعت ضلالت ہے ۔یہ تقیہ ہی تھا جس نے اصحاب کہف کو مجبور کیا کہ وہ دوسرے لوگوں کی مانند گردن میں صلیب لٹکائیں اور ان کی تقریبات میں شرکت کریں ۔۱۰۔
بعض روایات کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جابر کا رابطہ ہمیشہ دوستانہ اور محبت آمیز تھا۔ ایک دفعہ جابر بیمار پڑ گئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی عیادت کے لئے اس وقت تشریف لے گئے جب وہ اپنی تندرستی سے مایوس ہوچکے تھے۔ جابر نے بہنوں کے درمیان  ترکے کی تقسیم کے بارے میں مختلف سوالات پوچھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں طویل عمر کی خوشخبری دی اور ان کے سوال کے جواب میں  یہ آیت{يَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہ ُ يُفْتِيکُمْ فِي الْکَلاَلَۃِ إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَيْسَ لہ ُ وَلَدٌ وَلَہُ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ يَرِثُہَآ إِن لَّمْ يکُن لَّہَا وَلَدفاِنکَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ وَإِن کَانُواْ إِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَاء فَلِلذکَرِ مِثْلُ حَظِّ الا نثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللّہ ُ لَکُمْ أَن تَضِلُّواْ وَاللّہُ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}(لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجیے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گااور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے)12۔نازل ہوئی جو آیت کلالہ کے نام سے مشہور ہے۔13۔جابر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کرنے کے علاوہ صحابہ اور حتی بعض تابعین سے بھی روایات نقل کی ہیں۔حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام، طلحہ بن عبیداللہ، عمار بن یاسر، معاذ بن جبل، اور ابو سعید خدری ان اصحاب میں سے ہیں جن سے جابر نے روایات نقل کی ہے۔14۔جابر اس قدر دینی معارف و تعلیمات حاصل کرنے کے طالب و مشتاق تھے کہ انھوں نے ایک صحابی رسول سے براہ راست حدیث رسول سننے کے لئے شام کا سفر اختیار کیا۔15۔اس شوق نے آخرِ عمر میں جابر کو خانۂ خدا کی مجاورت پر آمادہ کیا تاکہ وہاں رہ کر بعض حدیثیں سن لیں۔16۔وہ حدیث کے سلسلے میں نہایت بابصیرت اور نقاد تھے ۔مشہور شیعہ احادیث کی اسناد میں جابر کا نام ذکر ہوا ہے۔ ان مشہور احادیث میں حدیث غدیر17 حدیث ثقلین18۔ حدیث انا مدینۃ العلم19۔حدیث منزلت، 20۔ حدیث رد الشمس،21۔اور حدیث سد الابواب 22۔ شامل ہیں۔

اسی طرح جابر ان احادیث کے بھی راوی ہیں جن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد بارہ ائمہ کے اسمائے گرامی بیان فرمائے ہیں23۔اور حضرت مہدی(عج) کی خصوصیات متعارف کرائی ہیں۔24۔حدیث لوح ان مشہور احادیث میں سے ہے جو جابر نے نقل کی ہے اور ان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ائمۂ اثناعشر کے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔25۔

شیخ طوسی نے جابر کوامام حسین علیہ السلام کے  اصحاب کے طور پر ذکر کیا ہے۔26۔ واقعۂ کربلا اور شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جابر بن عبداللہ انصاری مدینے کے معمر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کے لئے فکرمند تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشورا کے روز میدان کربلا میں عبید اللہ بن زیاد کی جانب سے بھیجے گئے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے جابر بن عبداللہ کا نام اپنے مدعا کے گواہ کے طور پر پیش کیا ہے۔27۔ عاشورہ کے دن جب امام نے دشمن سے مخاطب ہو کر خطبہ دیا تو آپ نے فرمایا : کیا میں تم لوگوں کے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا میں رسول اللہ کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا  ر سول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےمیرے اور میرے بھائی کے بارے میں نہیں فرمایا:  یہ دو  نوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب باتیں صحیح نہیں تو کچھ اصحاب ہیں ان سے پوچھو جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری اور ابو سعید خدری  وغیرہ  ۔28۔

امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سننے کے کچھ دن بعد ہی جابر بن عبد اللہ انصاری نے کربلا کا سفرشروع کیا۔ یزید اور ابن زیاد جیسےظالم اورسفاک افراد نے بھی اسے اس سفر سے نہیں روکا۔ جابر کے ساتھ اس سفر میں اس کا شاگرد عطیہ عوفی بھی  تھا۔ شیخ طوسی نے جابر کو امام حسین علیہ السلام کا پہلا زائر  قرار دیا ہے جو 20صفر 61 ہجری کو کربلا میں وارد ہوئے۔29۔

طبری  اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتا ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی  علیہ السلام  کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادرپہنا ، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اوراپنے آپ کو  اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم  اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ حسین ابن علی کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابرنے کہا : میرا ہاتھ قبر حسین پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسین پر رکھا  ۔ اس نے  قبر حسین ابنی علی کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا ۔ جب  میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں  آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبہ)کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھرجابر خود جواب دیتا ہے "آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس  کو جسم سے جدا کیا گیا ہے ؟میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا  کے فرزند ہیں   اورآپ اس طرح کیوں نہ ہو ، کیونکہ خدا کے رسول  نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے  اگرچہ مومنین آپ  کی شہادت سے محزون ہیں سے نالاں ہیں ۔خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسول خدا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو  ایسی  شہادت نصیب ہوئی  جیسےیحیی بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔

اس کے بعدجابر نے سید الشہداء  علیہ السلام کے اطراف میں موجود  قبروں کی طرف دیکھا اور کہا: سلام ہو آپ  لوگوں پر اے پاکیزہ   ہستیاں کہ آپ  لوگوں نے حسین  ابن علی علیہ السلام کی راہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوٰ ۃ ادا کیا اور ملحدوں کے ساتھ جہاد کیا اور خدا کی اتنی عبادت کی کہ  یقین کے مرحلہ تک پہنچ گئے ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے   حضرت محمد مصطفی کو نبوت اور رسالت پر مبعوث کیا ہم  بھی آپ لوگوں کے اس عمل میں شریک ہیں ۔

عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے پوچھا: ہم کس طرح ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ ہم نہ کوئی بھی کام انجام نہیں دیا ہے ۔نہ ہم نے تلوار ہاتھوں میں لیا ہے  نہ ہم نے کسی سے جنگ کی ہےلیکن  ان لوگوں کےسروں کو ان کے جسموں سے جدا کیا گیا ہے۔ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں اوران کی شریک حیات بیوہ ہو گئی ہیں ؟جابر نے مجھے جواب دیا  اےعطیہ! میں نے اپنے محبوب رسول خدا سے  یہ کہتے ہوئے سنا ہےکہ اگرکوئی  کسی گروہ کو چاہتا  ہے تو وہ اس گروہ کے ساتھ محشور  ہوں گے ، اور جو بھی کسی گروہ کے عمل سے راضی ہو تو وہ بھی اس گروہ کے اعمال میں شریک ہیں۔ اس ہستی کی قسم جس نےمحمد مصطفی کو مبعوث کیا ہے کہ میرا اور دوسرے چاہنے والوں کو ارادہ  بھی  وہی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کا تھا ۔پھر اس  کے بعد جابرنے کہا:میرا ہاتھ پکڑ و اور مجھے  کوفہ کی طرف لے چلو۔

جابر کوفہ کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے:  اے عطیہ! کیا  تم چاہتے ہو کہ میں تجھے وصیت کروں؟ کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس سفر کے بعد میں تم سے دوبارہ ملوں ۔ اے عطیہ! آل محمد کے چاہنے والوں سے محبت کرو  جب تک کہ وہ آل محمد سے محبت  اور دوستی کرتے ہیں۔ آل محمد کے دشمنوں سے عداوت کرو جب تک کہ وہ آل محمد سے دشمنی کرتےہیں گرچہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہواور رات کو شب بیداری میں ہی کیوں نہ گزارتا ہو۔ آل محمد کےچاہنے والوں کے ساتھ رواداری اور نرمی سے پیش آجاو کیونکہ اگر ان کے پاؤں گناہوں کی  بوجھ کو برداشت نہ کر سکے تو ان کا دوسرا پاؤں آل محمد کی محبت کی وجہ سےمضبوط اور ثابت قدم رہے گا۔ بے شک  آل محمد کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے جبکہ ان کے دشمن جہنم میں چلے جائیں گے۔ 30۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کے آغاز پر آپ کے اصحاب کی تعداد بہت کم تھی اور جابر ان ہی انگشت شمار اصحاب میں شامل تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے کی وجہ سے حجاج بن یوسف ثقفی کے تعاقب سے محفوظ تھے۔31۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے جابر بن عبداللہ انصاری سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا: اے جابر: تم اس قدر عمر پاؤگے کہ میری ذریت میں سے ایک فرزند کا دیدار کرو گے جو میرے ہم نام ہوں گے۔ وہ علم کا چیرنے پھاڑنے والا ہے یبْقَرُالعلم بَقْراً؛ علم کی تشریح کرتا ہے جیسا کہ تشریح و تجزیہ کا حق ہے۔ پس میرا سلام انہیں پہنچا دو۔32۔جابر کو اس فرزند کی تلاش تھی حتی کہ مسجد مدینہ میں پکار پکار کر کہتے تھے "‌یا باقَرالعلم" اور آخر کار ایک دن امام محمد بن علی علیہ السلام کو تلاش کیا ان کا بوسہ لیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام انہیں پہنچایا۔

جابر عمر کے آخری سالوں میں ایک سال تک مکہ میں بیت اللہ کی مجاورت میں مقیم رہے۔ اس دوران عطاءبن ابی رَباح اور عمرو بن دینار سمیت تابعین کے بعض بزرگوں نے ان سے دیدار کیا۔ جابر عمر کے آخری برسوں میں نابینا ہوئے اور مدینہ میں دنیا سے رخصت ہوئے۔33 ۔مِزّی نے جابر کے سال وفات کے بارے میں بعض روایات نقل کی ہیں جن میں جابر کے سال وفات کے حوالے سے اختلاف سنہ 68 تا سنہ 79 ہجری تک ہے۔34۔ بعض مؤرخین اور محدثین سے منقولہ روایت کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری نے سنہ 78 ہجری میں 94 سال کی عمر میں وفات پائی اور والی مدینہ ابان بن عثمان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔35 ۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوالہ جات:
1۔ابن کثیر دمشقی، جامع المسانید، ج 24، ص 359.
2۔ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص286؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208، 211۔
3۔ حسین واثقی، جابر بن عبدالله انصاری، ص 63 ـ 50۔
4۔ شرح نہج البلاغۃ ابن ابی‌‌الحدید، ج 13، ص 229؛ ابن‌شہرآشوب، المناقب، ج 2، ص 7؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص 198۔
5۔ شیخ صدوق، الامالی، ص 47 و علل الشرایع، ص 142؛ بحارالأنوار، ج 38، ص 6 ـ 7۔
6۔ علی احمدی میانجی، مواقف الشیعۃ، ج 3، ص 281۔
7۔ ابن‌شعبہ حرانی، تحف العقول، ص 186 ـ 188؛ بحارالأنوار، ج 70، ص 100 ـ 101۔
8۔ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، ج 1، ص 220؛ ابن‌اثیر جزری، أسدالغابہ، ج 1، ص 308.شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 2323؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، ج 3، ص 264؛ بحارالانوار، ج 33، ص 439۔
9۔نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، ص 217۔
10۔ تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 197 ـ 198؛ شرح نہج البلاغۃه ابن ابی الحدید، ج 2، ص 10؛ ثقفی، الغارات، ج 2، ص 606۔
11۔ سورہ نساء (4) 176۔
12۔طبری، جامع طبری؛ و محمد بن طوسی، التبیان فی التفسیر القرآن۔
13۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج11، ص208ـ209؛ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص444۔
14۔خطیب بغدادی، الرّحلۃ فی طلب الحدیث، 1395، 1395، ص109ـ 118۔
15۔ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191۔
16۔عبدالحسین امینی، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب، ج1، ص57ـ60۔
17۔ صفار قمی، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد «‌ص »، ص414۔
18۔ابن ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص34۔
19۔ابن بابویہ، معانی الاخبار، 1361 ش، ص74۔
20۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج1، ص345ـ346۔
21۔ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص189ـ190۔
22۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص258ـ259؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج1، ص282۔
24۔ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، 1363ش، ج1، ص253، 286، 288۔
25۔ رجال طوسی، ص 72۔
26۔محمد بن یعقوب کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص527 ـ 528؛ ابن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمہ، 1363 ش، ج1، ص308ـ313۔مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص97۔
27۔ ارشاد مفید، ص 234 و بحارالانوار، ج 45، ص 6۔
28۔ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 730 و بحارالأنوار، ج 95، ص 195۔
29۔ عمادالدین قاسم طبری آملي، بشارۃ المصطفی، ص 125، حدیث 72؛ بحارالانوار، ج 68، ص 130،‌ح 62.
30۔ محمدبن ابوالقاسم عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، ص74ـ 75۔
31۔ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ص123ـ124۔کلینی، الاصول من الکافی، ج1، ص304، 450ـ469۔
32۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص191ـ192۔
33۔ مزّی، تہذیب الکمال فی اسماءالرجال، ج4، ص453ـ545۔
34۔قتیبہ، المعارف، ص307۔
35۔ ابن عساکر، علی بن حسن، مدینۃ الدمشق، ج 11، ص 237۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ انسانی حقوق کونسل میں کشمیر کے عنوان پر قرار داد جمع کروانے کے لئے سولہ ممالک کی حمایت لینے میں ناکام رہے جس کے باعث یہ قرار داد فلور پر پیش ہونے سے قاصر رہی حالانکہ اسی انسانی حقوق کونسل میں سولہ سے زائد مسلمان اسلامی ممالک بھی موجود تھے جن کے لئے پاکستان ہر مقام پر گاہے بہ گاہے اپنی خارجہ پالیسی کی بھی پروا نہیں کرتا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان تمام ممالک میں سولہ ایسے ممالک بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں تھے کہ جو اس قرار داد کو جمع کروانے کے لئے اس پر دستخط ہی کر دیتے۔


یہ خبریں دیکھ کر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر شدید دکھ کا احساس ہوا کہ آخر ہماری پالیسی کو کیا ہو اہے؟ کیوں آخر پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک کے ساتھ کھڑے ہونے والے سولہ ممالک بھی نہیں ہیں؟آخر کیوں شاہ محمود قریشی کے ہاتھوں کشمیر کا مقدمہ روزانہ کی بنیادوں پر کمزور سے کمزور ہو رہا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لئے جستجو کرنے سے معلوم ہو اکہ ماضی قریب میں یہی وزیر خارجہ جب اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا بیان دے سکتے ہیں تو پھر کس منہ سے کشمیر میں ہونے والی بھارتی مظالم کو ظلم کہہ سکتے ہیں؟

اسی طرح کی ایک اور قرار داد بھی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی گئی، یہ قرار داد یمن کے عنوان سے پیش کی گئی تھی کہ جہاں سعودی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے باعث دسیوں ہزار بے گناہ انسان موت کی نیند سو چکے ہیں۔

اس قرار داد پر پاکستان نے دستخط نہیں کئے یقینا یہ قرار داد شاہ محمود قریشی صاحب کی میز پر پہنچی ہو گی جس کو انہوں نے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بعد اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا ہو گا کیونکہ اس قرار داد میں سعودی حکومت کے ظلم کی داستانیں موجود تھیں۔ اب ذرا خود بتائیے کہ ایک طرف کشمیر میں ہونے والا ظلم و بربریت ہے جس کی ذمہ دار بھارتی افواج و حکومت ہیں اور دوسری طرف یمن پر مسلسل چار برس سے سعودی افواج کی بمباری اور حملوں کے نتیجہ میں ہونے والی دسیوں ہزار اموات اور بمباری اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے سبب وبائی امراض کا شکار ہونے والے لاکھوں بے گناہ انسان ہی۔

کیا کشمیر اور یمن کے مظلوموں میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا بھارت کے اور سعودی عرب کے مظالم میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا اسرائیل کی غاصب افواج کی جانب سے فلسطینیوں کا قتل عام ظلم نہیں کہلائے گا؟

جب اسرائیل ظالم ہے، بھارت بھی ظالم ہے تو پھر سعودی عرب کی حمایت میں کیوں وزیر خارجہ نے قرار داد پر دستخط نہیں کئے؟ کیوں پاکستان کو ایسے موڑ پر کھڑا کر دیا کہ جہاں یمن کے مظلوموں اور کشیر کے مظلوموں میں تقسیم پیدا کر دی؟

اب میرا سوال پاکستان کے تمام ذی شعور انسانوں سے ہے کہ جب پاکستان ایک طرف انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کے عنوان سے پیش ہونے والی قرار داد پر دستخط نہیں کرے گا تو دوسری طرف خود کس منہ سے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کے لئے قرار داد پر دوسرے ممالک کی حمایت مانگے گا؟ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اس طرز عمل نے پاکستان کے آئین و دستور کے خلاف اقدامات نہیں کئے؟ کیا قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات یہی ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ کرو؟ کیا قائد اعظم نے یہی دستور بنایا تھا کہ یمن میں انسان قتل ہوں تو پاکستان قاتل کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور کشمیر میں انسان قتل ہو جائیں تو پاکستان مقتول کے ساتھ ہو؟ آخر ایک ہی مقام پر کس طرح پاکستان ایک کیس میں قاتل اور دوسرے میں مقتول کا ہمدرد بن کر کشمیر کا مقدمہ جیت سکتا ہے؟بہر حا ل پاکستان نے یمن کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرار داد پر دستخط تو نہیں کئے لیکن یہ قرار داد دیگر ممالک کی حمایت سے بحث کے لئے منتخب کر لی گئی البتہ پاکستان کی جانب سے کشمیر کے موضوع پر پیش کردہ قرار داد مطلوبہ حمایت نہ حاصل ہونے کے باعث ناکامی کا شکار ہو گئی۔

ہماری غلط پالیسیوں نے ہی ہمیشہ ہمیں رسوا کیا ہے۔ آج اگر ہم دنیا میں مظلوم اقوام میں تقسیم کرنا شروع کر دیں گے تو پھر کبھی بھی کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں
 پیش نہیں کیا جا سکتا ہے۔مظلوم چاہے فلسطین کا ہو، کشمیر کا ہو، یمن کا ہو،لبنان و شام کا ہو، عراق و ایران کا ہو، افغانستان کا ہو یا پھر برما کا ہو یا پھر کسی اور خطے کا ہو، مظلوم کی پہچان صرف یہی ہے کہ مظلوم مظلوم ہی ہے۔

اسی طرح ظالم چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ہو، ظالم چاہے کسی بھی شکل میں ہو، بھارت کی شکل میں، اسرائیل کی صورت میں، سعودی عرب یا امریکہ کی صورت میں، اسی طرح کسی اور صورت میں موجود ہو ظالم کی پہچان صرف اورصرف ظالم ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک طرف قاتل کی حمایت کرے اور دوسری طرف دوسرے قاتل کو ظالم و قاتل ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کس طرح مطلوبہ نتائج حاصل ہو پائیں گے۔

کہ جب ایک مقام پر ایک قاتل کی حمایت اور دوسرے مقام پر دوسرے قاتل کی مخالفت؟

خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب فی الفور وزارت خارجہ کے عنوان سے تفصیلی جائزہ لیں اور شاہ محمود قریشی صاحب کو کچھ عرصہ کے لئے ذہنی سکون کرنے کے لئے رخصت دے دیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بنائے گئے سنہرے اصولوں کی روشنی میں مرتب کی جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے اور آئین پاکستان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وطن عزیز اور ملت پاکستان کے وقار اور عزت و سربلند ی کے لئے ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو دنیا میں پاکستان کے لئے ہزیمت و پشیمانی کا باعث بنیں۔


از قلم : صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
 پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

Page 6 of 77

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree