وحدت نیوز(تفتان) مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا رضوی (آغارضا) زائرین امام حسین ؑ کے آخری قافلے کے ہمراہ کوئٹہ سے تفتان بارڈر پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ بذریعہ سڑک اربعین حسینی ؑمیں شرکت کیلئے کربلا روانہ ہوں گے، آغا رضا نے وحدت نیوزسے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تفتان بارڈر پر اب تک پینتیس ہزار زائرین پہنچ چکے ہیں ،جن میں سے بیس ہزار سے زائد نے بارڈر کراس کرلیا ہے، جبکہ آئندہ دو روز میں باقی ماندہ زائرین بھی ایرانی حدودمیں داخل ہوجائیں گے،آغا رضا کے مطابق بلوچستان حکومت نے اربعین حسینی ؑ میں شرکت کیلئے پاکستان بھر سے فقط 140بسوں کی ایران میں داخلے کی اجازت دی تھی مگر اب تک 450کے قریب بسیں ایران میں داخل ہو چکی ہیں۔

 آغا رضا نے کہاکہ   میں نے خود ایک رات زائرین کے ہمراہ سڑک پر گزاری ان کے مسائل سنے اور ان مسائل کے حل کیلئے ایف آئی اے اور امیگریشن حکام سے ملاقات کی ، میں نے خود اپنی شناخت ظاہر کیئے بغیر لائن میں لگ کر امیگریشن کا عمل مکمل کروایاتاکہ زائرین کو درپیش مشکلات کا بخود ملاحظہ کرسکوں ، انہوں نے کہا کہ اس برس ریکارڈ زائرین زمینی راستے سے براستہ ایران کربلائے معلیٰ جا رہے ہیں، مختصرعملے اور سہولیات کی کمی کے باوجود ایف آئی اے کا عملہ شب وروز زائرین کو ایران روانہ کرنے میں مصروف ہے، جو کہ شفٹوں میں یہ ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں ، ایک روز میں پینتیس ہزار افراد کو بارڈر کراس کروانا ناممکنات میں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے لیئے کوئٹہ سے نجف براہِ راست فلائٹ لیکر جانا کوئی مشکل کام نہیں تھالیکن اپنی قوم کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے گذشتہ برس کی طرح اس برس بھی میں نے زمینی سفر کو اہمیت دی تاکہ جس حد تک ممکن ہو زائرین کو درپیش مسائل کا حل نکال سکوں، اسی لیئے  میں کوئٹہ سے بلکل آخری قافلے کے ہمراہ تفتان بارڈر پہنچا ہوں، اس وقت کوئٹہ میں جو قافلے موجود ہیں یا تو ان کے ویزے کے مسائل ہیں یا بعض قافلہ سالار آگے جانا ہی نہیں چاہتے، انہوں نے کہا کہ قافلہ سالار اور زائرین گرامی قدر اگر نظم ضبط میں بہتری لائیں تو امیگریشن کے عمل میں تیزی آسکتی ہے جس طرح ایرانی امیگریشن میں زائرین نظم وضبط کا خیال رکھتے ہیں اس بات بھی خیال رہے کہ پاکستان سے زیادہ ایرانی امیگریشن حکام ایک زائرین پر وقت صرف کرتے ہیں ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) عراق میں صدر پارٹی کے رہنما سید مقتدی صدر نے پچھلے اتوار (30 جولائی) کو اپنے سعودی عرب کے دورے میں سعودی امیر اورنئے ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں طرفین نے دونوں ملکوں کے درمیان موجود مسائل پر بات چیت کی ۔ اخباری ذرائع کے مطابق مقتدی صدر کا یہ دورہ سعودی عرب کی طرف سے رسمی دعوت کے نتیجے میں عمل میں آیا۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ملکوں عراق-سعودی عرب کے تعلقات تعاون اور اعتماد کی فضا پر قائم نہیں تھے۔ 2003 سے اب تک عراق اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی رہی ہے۔ عراق میں  نظام کی تبدیلی پر سعودی عرب کچھ خوش نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ اس بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہےکہ سابق صدر صدام کے دور  میں بھی سعودی عرب اور عراق کے تعلقات کچھ اچھے نہیں رہےتھے۔

سعودی عرب کی عراق کے حوالے سے پالیسی پچھلے آٹھ سالوں میں (نوری مالکی کے دوسرے عہد حکومت اور حیدر عبادی کے دور میں) حیرت اور کشمکش پر مبنی رہی ہے۔ اور اب وہ چاہتا ہے عراق کے سیاسی میدان میں اس کا اہم کردار ہو۔ لیکن اب تک سعودی عرب نے عراق میں جتنی مداخلت کی ہے وہ  "منفی پہلو" سے ہی کی ہے جن کا مقصد علاقے میں عراقی حکومت کے مفادات کو نقصان پہنچانا تھا۔

اسی حوالے سے سابق وزیر اعظم نوری مالکی نے اپنے مختلف بیانات میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب نے دہشت گردوں اور عراقی اپوزیشن لیڈرز کو بہت زیادہ سپورٹ کیا ہے۔ اسی طرح عراق میں خودکش حملوں اوربم دھماکوں میں سعودی عرب کا ہاتھ رہا ہے۔

دوسری طرف نئے عراقی وزیر اعظم حیدر عبادی، جنہوں نے نور مالکی کے بعد 2014 میں اس عہدے کا حلف لیا تھا، نے ہمیشہ عراق سعودی عرب تعلقات کو بہتر بنانےاور اس میں موجود  سرد مہری کو توڑنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اسی تناظر میں سعودی عرب نے دسمبر 2015 میں ، 25 سال کے بعد بغداد میں اپنی سفارت کھولی، اور ثامر سبہان کو نیا سفیر مقرر کیا۔ اس کے  دو مہینے بعد سعودی عرب نے صوبہ کردستان کے دار الحکومت اربیل میں قونصل خانہ بھی کھول لیا تھا۔

لیکن نئے سعودی سفیر کے بغداد پہنچتے  ہی عراق میں احتجاجات نے شدت پکڑ لی تھی۔ ان احتجاجات میں صدر پارٹی (مقتدی صدر)کے لوگ پیش پیش تھے۔ اسی طرح اربیل میں قونصل خانہ کھولنے کے بعد کردستان کی حکومت اور عراق کی مرکزی حکومت کے تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے تھے۔

حیدر عبادی کی حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاجات میں سعودی سفیر سہبان کا کردار اہم تھا۔ اسی طرح حشد شعبی کے خلاف سعودی سفیر کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا اورعراق کے سعودی عرب سے  سیاسی تعلقات بہت بگڑ گئے تھے۔عراقی عوام نے سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ عرصے بعد عراقی حکومت نے سعودی عرب سے اپنا  سفیر تبدیل کرنے اور سہبان کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔

اسی دوران اربیل میں موجود سعودی قونصل خانے نے کردستان اور مرکزی حکومت کے تعلقات بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی حوالے سے عراق میں قطر کے سفیر "زاید سعید راشد کمیت الخیارین" نےڈیلی صباح کے ساتھ  اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا  کہ سعودی بادشاہ کے مشیر "عبد اللہ بن عبد العزیز بن محمد ربیعہ" نے کرد علاقے کا دورہ کیا تھا اور کردستان صوبے کے صدر مسعود بارزانی سے ملاقات کی تھی اور اربیل کے لیے بہت زیادہ مالی امداد کا بھی اعلان کیا تھا۔ اور پھر ربیعہ نے بارزانی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے تعلقات مقتدی صدر سے بہتر کریں تاکہ  اس طرح عراقی شیعوں میں پھوٹ ڈالا جا سکے۔

اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ ثامر سہبان، سابق عراقی سفیر، جو اس وقت سعودی وزارت خارجہ میں خلیجی ممالک کے امور کے وزیر ہیں، اس وفد میں پیش پیش تھا جس نے صدری تحریک کے رہنما  سید مقتدی صدر کا جدہ ائیرپورٹ پر پرتپاک استقبال کیا تھا۔

اس بات سے قطع نظر کہ مقتدی صدر کے  اس دورے کا مقصد کیا ہے، سعودی عرب کا عراق سے جارحانہ رویہ، عراق کے اندرونی معاملات میں سعودیہ کی منفی مداخلت اور دوسری طرف مقتدی صدرکا آل سعود خصوصا نئے ولی عہد پر حد سے زیادہ اعتماد عراق کے اندر نئی سیاسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہوں گے۔ اسی طرح سےان تمام چیزوں کا تعلق صدری تحریک  اور اس کے صدر مقتدی کے سیاسی مستقبل سے بھی ہے۔

دوسری طرف عبد المہدی نے اپنے ایک آرٹیکل میں کہا ہے کہ مقتدی کا سعودی عرب کا دورہ اگر کچھ حد تک دو طرفہ مسائل کے حل میں مددگار ہو، اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نئی فضا قائم کرے، اسی طرح خلیجی ممالک کے قطر کے ساتھ بحران کے حل، یمن جنگ کی روک تھام، بحرین کے بحران کا خاتمہ، ایران سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے مقتدی صدر اپنا کردار ادا کریں تو یہ دورہ مناسب وقت پر مفید  دورہ ہوگا۔

ترجمہ۔۔ عباس حسینی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے، دنیا میں ہر جگہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں دشمن کا دوست ہمارا بھی دوست ہوتا ہے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے،  بھارت ہمارے پہلو سے اٹھا اوراس نے  عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب پر کمندیں ڈال لیں،  نہرو کے زمانے سے لے کر آج تک، بھارت سعودی عرب کو مسلسل  اپنے جال میں پھنساتا گیا اور ہم سعودی عرب کی دوستی  کے جال میں جکڑتے گئے۔ ہمارے  حکمرانوں نے  کبھی ٹھہرکر یہ دیکھا ہی نہیں کہ ہم کن راہوں پر چل رہے ہیں!

جماعت الدعوۃ نامی تنظیم کے سربراہ حافظ محمد سعید اور ان کے چار قریبی ساتھیوں کی نظر بندی  کو  ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے،  یہ پابندی بھارت کی ضرورت تھی جو وہ براہ راست نہیں لگوا سکتا تھا ، یہ پابندی سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے   ان معائدوں کا نتیجہ ہے جن کی رو سے ۲۰۱۲ میں سعودی عرب نے  سید ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو ملک بدر کر کے بھارت کے حوالے کردیا تھا۔  یاد رہے کہ بھارت  نے ابوجندل کو  ۲۰۰۸ کے بمبئی حملوں اور  بعد ازاں پونا میں ہونے والے دھماکوں  کا ماسٹر مائنڈ  اور دیگر متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

بعد ازاں  چند سالوں کے اندر سعودی اور بھارتی ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے  سے  سعودی حکومت نے محمد اسداللہ خان عرف ابو سفیان،  اور  محمد عبدالعزیز کو بھی  گرفتار کیا تھا۔  قابل ذکر ہے کہ مذکورہ افراد کئی سالوں سے بھارت کو مطلوب تھے۔ بھارت کو مطلوب افراد میں سے ایک بڑا نام حافظ سعید صاحب کا ہے جن  کو ہماری سعودی نواز حکومت نے  پاکستان میں ہی نظر بند کر دیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے بھارت کا دیرینہ مطالبہ تو پورا کردیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ اس سے  تحریک آزادی کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور دہشت گردوں کو کیا پیغام پہنچے گا!؟

دہشت گرد اچھی طرح جان چکے ہیں حکومت کی طرف سے ان پر کوئی دباو نہیں، کسی کو فیس بک پیجز  سے اٹھا کر سزا دی جاتی ہے اور کسی کو کشمیر کاز پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے،  لیکن خود دہشت گرد چونکہ  بھارت کے بجائے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس لئے ان کے لئے کسی قسم کی نظر بندی نہیں ہے۔

اس وقت   تقریباً پچیس لاکھ بھارتی  باشندےسعودی عرب میں  اور ستر لاکھ دیگر خلیجی ممالک میں  مشغول کار ہیں۔ سعودی عرب کے لئے ایشا کی منڈی میں بھارت سے بڑی مارکیٹ کوئی اور نہیں چنانچہ   سعودی آرامکو جو کہ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی ہے، اس نے  بھارتی آئل ریفائنریوں میں  بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

اس وقت بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات فقط اقتصاد اور مشیشت تک محدود نہیں ہیں بلکہ    ان کے تعلقات کا دائرہ پالیسی افئیرز تک پھیل چکا ہے۔ بھارت سعودی پالیسیسز  کے اشتراک کی وجہ سے اب بھارت براہ راست بھی ہمارے حکمرانوں کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے ، جیسا کہ  نریندر مودی کے قریبی دوست سجن جندال نے  وزیراعظم سے  مری میں خفیہ ملاقات کی۔

دوسری طرف  ہماری موجودہ حکومت نے سینٹ کو اعتماد  میں لئے بغیر جنر ل راحیل شریف کو سعودی اتحاد کی کمان سنبھالنے کے لئے بھیج دیا۔ بھیجنا تو آسان تھا لیکن  اس وقت سعودی اتحاد کا یہ حال ہے کہ    خود وزیراعظم نواز شریف سعودی قیادت سے ملاقات کر کے ان کے باہمی اختلافات کو حل کرنے کے چکر میں ہیں۔ اس موقع پر  سیانے کہتے ہیں کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔

ہماری سعودی عرب کے نزدیک کیا اہمیت ہے،  اس کا اندازہ ،ریاض کانفرنس میں ہی سب کو ہوچکا ہے۔ البتہ یہ دورہ خلیجی ممالک کے اختلافات سے ہٹ کر بھی ،   اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ریاض  کانفرنس میں   ہونے والی بے عزتی کو دھویا جاسکے اور عوام کو یہ کہا جا سکے  کہ دیکھو! دیکھو!  اب کی بار تو ہمیں  اچھی طرح لفٹ کرائی گئی ہے۔

اسلامی اتحاد کی آڑ میں  جنرل راحیل کو  سعودی عرب کی بارگاہ میں پیش کرنے والے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس اتحاد کے نزدیک اب تو قطر بھی دہشت گرد ہے۔ یعنی جو بھی اسرائیل اور امریکہ کی غلامی سے انکار کرے وہ اس سعودی  اتحاد کی نگاہ میں دہشت گرد ہے اوراس کا سارا منفی  کریڈٹ پاکستان کو جا رہا ہے  چونکہ اس شرمناک اتحاد کی کمان ایک  پاکستانی ریٹائڑڈ جنرل کے پاس ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے  ایٹمی قوت ہونے اور پاکستان کی  بہادرآرمی کی وجہ سے پاکستان کا پوری دنیا میں ایک وقار تھا جو نا اہل حکمرانوں نے اس سعودی اتحاد پر قربان کردیا ۔

 اس وقت سعودی عرب کی حالت یہ ہے کہ  آج  سعودی عرب کی حکومت نے قطری حمایت یافتہ عالم دین یوسف القرضاوی کی تمام کتب پر سعودی عرب میں مکمل طورپر پابندی عاید کردی ہے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرضاوی کا کیا قصور ہے ؟ کیا قرضاوی  اب نعوذ باللہ کافر ہو گئے ہیں؟ کیا  کسی ملک کی مخالفت یا حمایت سے علما کا علم اور دین  بھی تبدیل ہوجاتاہے ؟

 یہ پابندی سراسر ،  ایک بزرگ  عالم دین اور علم دین کی توہین ہے۔  آخر ملکی و قومی  تعصب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ،  عرب ٹی وی کے مطابق سعودی عرب کے وزیر تعلیم احمد بن محمد العیسیٰ نے تصدیق کی ہے کہ  معروف مصری  عالم دین  یوسف القرضاوی کی تمام کتب پر پابندی  لگا دی گئی ہے  اور اسکولوں اور جامعات کے نصاب سے ان کی تمام کتابیں  نکال دی گئی ہیں۔  نیز اس کے بعد ان کی کتب کی سعودی عرب میں طباعت و اشاعت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

یہ کونسا اسلام ہے؟ کل تک  ایک عالم دین کی  کتابیں سعودی عرب کے سکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل تھیں ۔ آج سعودی وزارت تعلیم  کی طرف سے  ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو ایک سرکلر جاری کیا گیا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یوسف القرضاوی کی کتب کو نصاب سے نکالیں اور لائبریریوں میں موجود ان کی کتب کو وہاں سے ہٹایا جائے۔

ممالک کے درمیان اختلافات ہوتے رہتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی سعودی عرب کی مخالفت کرے تو وہ اسلامی اتحاد سے بھی نکلے گا اور اسلام سے بھی نکل جائے گا۔

پاکستان کی موجودہ نااہل اور کرپٹ حکومت ، ایک طرف سے قطری خطوط کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب کی کھودی ہوئی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔

ایسے میں پوری پاکستانی عوام اور پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ لاتعلق ہو کر نہ بیٹھیں اور  اس ملک کو حکمرانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے سے روکیں،  موجودہ  صورتحال   میں بین الاقوامی سطح پر عالمی لیڈروں کے  چہرے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ان چہروں کو بحیثیت قوم اچھی طرح پہچان کر اپنی  ملکی و قومی پالیسیاں بنائیں اور حقائق کے مطابق فیصلے کریں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(سکردو)  مجلس وحدت مسلمین ضلع سکردو کے سکریٹری جنرل شیخ فدا علی ذیشان نے دولت اسلامیہ (داعش)کی طرف اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمان اور روضہ امام خمینی پر فائرنگ کے نتیجے میں درجن بھر افراد کی شہادتوں کی بھرپور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای جیسی بابصیرت اور شجاع قیادت کی موجودگی میں داعشی پٹاخہ بازی ایرانی عوام کو خوف زدہ نہیں کرسکتی، اسوقت دنیابھر کے مستضعفین چاہے وہ یمن میں ہو، فلسطین میں، شام، عراق یا لبنان میں ، کیلئے آواز اٹھانے والے اور انکے حق میں مستکبرین سے ٹکر لینے والا ایک اسلامی جمہوریہ ایران ہی ہے، جوایک طرف سامراجی طاقتوں سے دبایا نہیں جا رہا، تو دوسری طرف منافقین جہان کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دو طاقتیں کسی نہ کسی طرح سے اسلامی جمہوریہ کو سرنگوں کرنے کیلئے کوئی کسر رہنے نہیں دے رہا۔ اسی سلسلے کی کڑی حالیہ دنوں دولت اسلامیہ نامی درندوں کی جماعت کے ذریعے ایرانی پارلیمان اور روضہ امام خمینی کے باہر فائرنگ کے ذریعے خوف ہراس پھیلانا اور اسلامی جمہوریہ کو دنیا میں بدنام کرنا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ انقلاب اسلامی کی زمام اس وقت بابصیرت ترین قیادت کے ہاتھوں میں ہیں جو کہ عراقی آمر کے ذریعے آٹھ سال تک جنگ کے باوجود بھی ثابت قدم رہے حالانکہ تب انقلاب ابتدائی دور میں اور بے شمار مسائل کا شکار تھا۔ اب چونکہ عالمی سامراج کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا ہوا ہے، ایسے میں اسطرح کے حرکات انقلاب اسلامی کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ ضرور ثابت کریگی ، کہ مسلمانوں کی ہمدردی سمیٹ کر پس پردہ ان درندہ صفت گروہو ں کو پالنے والے، ان کو چلانے والے اور انکو سپورٹ کرنیوالے کون ہیں، وہ کیا چاہتے ہیں اور کس حد تک گر سکتے ہیں۔

وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کے سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر گلزار احمد جعفری  کی ایرانی پارلیمنٹ اور امام خمینی (رہ) کے مزار پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید الفاظ  میں  مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی مذکورہ کاروائی عرب ممالک کے امریکہ کے ساتھ اتحاد کا نتیجہ ہے،انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا جانا ایک  بہت بڑا جرم ہے جس کی کوئی بھی ملک ،مذہب،  یا مسلک   تائید نہیں کرتا،ہشگرد پہلے ہی آخری سانسیں لے رہے ہیں ۔انشاءاللہ وہ وقت قریب ہے کہ دہشتگردوں کو کرہ ارض پر سر چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور خداوند کی نصرت سے یہ دہشتگرد عناصر اپنے انجام تک پہنچیں گے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے بانی انقلاب اسلامی رہبر کبیر ، بت شکن زمان حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید روح اللہ خمینی  رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی اٹھائیسویں برسی کے موقع پر مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ آج عالم بشریت کے تمام مظلوموں اور محروموں کی یتیمی کا دن ہے، آج خدا نے ہم سے وہ نعمت عظمیٰ واپس لی جوکہ عالم اسلام میں  چودہ سو سالوں میں آئمہ معصومین ؑ کے بعد سب سے زیادہ بااثر اور محترم شخصیت تھی، جس نے عصر کے فرعون کو نا فقط رسوا کیا بلکہ اس کے تخت شاہی کو پیروں تلے روند ڈالا،ظلم واستبداد کے خلاف ایسا قیام کیا جو تاقیامت مستضعفین کیلئے مشعل راہ قرار پایا،  امام خمینی کو ایران تک محدود رکھنا دشمن کی بلخصوص امریکہ کی سازش ہے ، امام خمینی رہبر مسلمین جہاں تھے جس نے دنیا میں ہر مظلوم اور محروم تحریکوں کو طاقت بخشی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ  امام خمینی کا قیام دراصل اسلام کی بالادستی کے لیے تھا اور آج اگر ایران عالم اسلام کی رہبری کر تے ہوئے امریکہ و اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہے تو امام خمینی کی انقلابی تحریک کا ثمرہ ہے، امام خمینی کا پیروکار چاہے جس ملک میں ہو وہ وفادار ہوگا اور امریکہ و اسرائیل جو کہ اسلام کے دشمن ہے ان کا دشمن ہوگا۔ امریکہ و اسرائیل سے مربوط طاقتیں دراصل اسلام کے چہرے پر بد نماداغ کی مانند ہیں ، امام خمینی کے افکار و نظریات پر عمل کر کے پاکستان کو  امریکہ کے ناپاک وجود سے بچایا جاسکتا ہے اور ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا سکتے ہیں، امام خمینی تمام مظلوموں اور پسے ہوئے طبقوں کے رہنماء تھے اور انہوں نے ظلم کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا درس دیا ۔

Page 8 of 26

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree