Print this page

مجلس وحدت مسلمین کو کونسی سیاست نہیں آتی؟؟؟

07 دسمبر 2019

وحدت نیوز(آرٹیکل) حسب معمول رات کے ایک پہر گزرنے کے بعدجب گھر پہنچا تو دیکھا بجلی نہیں ہے۔ بجلی نہ ہونے پر کوئی تعجب بھی نہیں ہوا کیونکہ میں سکردو میں رہتا ہوں جہاں بجلی صرف یا ارباب اقتدار اور عہدہ دار کے گھر میں یا امیر کے گھرمیں ہوتی ہے۔ بے چارے عوام کے گھروں میں ، گرمیوں کے موسم میں جب پانی کی فراوانی ہوتی ہے تب بھی بجلی نہیں ہوتی ہے تو اب سردیوں میں کہاں بجلی ہوگی۔ جبکہ سنا ہے کہ سدپارہ ڈیم میں پانی لیکیج کا سوراخ اتنا بڑا ہوا ہے جس میں وزیر بجلی کو بھی ڈالا جائے تو سوراخ بند نہ ہونے پائے۔ اور گزشتہ دوماہ سے مسلسل ڈیم سے پانی کو ضائع کیا جارہا ہے جس کی وجہ سمجھنے سے میں آج بھی قاصر ہوں۔

بہر کیف بجلی کا انتظار کرتا رہا اچانک بجلی آگئی تو فورا وائی فائی آن کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب کی تحریر نظر سے گزری جس میں موصوف نا معلوم نے ایم ڈبلیو ایم کے حوالے سے کچھ باتیں تحریر کی ہیں۔ موصوف مذکور کی کچھ باتوں نے مجھے بھی قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ میں تو حق اور حقیقت کا متلاشی ہوں جہاں حق اور حقیقت نظر آ جائے فورا کود جاتا ہوں۔ مجھے کچھ حق نظر آیا ایم ڈبلیو ایم میں جس کی وجہ سے اس سیاسی مذہبی پارٹی کا ایک ادنا سا نظریاتی کارکن ہوں۔ موصوف نا معلوم لکھتا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم ایک پریشر گروپ ہے مگر سیاسی جماعت نہیں ہے، کیونکہ ان کو سیاست نہیں آتی۔ میں موصوف سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ سیاست سے کیا مراد لیتے ہیں؟ اگر آپ کی سیاست سے مراد وہ ہے جو آج ان نام نہاد سیاسی پارٹیوں میں ہورہا ہے، مثلا کرپشن' لوٹ کھسوٹ ' اقربا پروری اور اپنوں کوٹھیکوں اور نوکریوں سے نوازنا۔ تو جناب عالی! یہ سیاست نہیں ہے یہ تو لوٹ مار ہے۔ اگر آپ اسی کو سیاست سمجھتے ہیں تو ہمیں ایسی سیاست نہیں آتی۔ یہ والی سیاست ہم کرتے بھی نہیں۔ ایم ڈبلیو ایم اقدار اور میرٹ کی بات کرتی ہے جو کہ مقدس امر اور عبادت ہے۔ آپ کو یاد ہوگا اسی بلتستان میں نوکریاں بکتی تھیں، سرعام رشوت لیتے تھے، اور محکمہ ایجوکیشن کو اصطبل بنایا گیا تھا۔ سب سے زیادہ قانون شکنی ہوتی رہی۔ مگر آج الحمد للہ سر عام کسی کو نوکری فروخت کرنے کی جرآت نہیں ہوتی ہے تو یہ ایم ڈبلیو ایم ہی کی وجہ سے ہے۔

یوں تو بلتستان کا کونسا ایسا سیاست دان ہے جس نے مذہب کا سہارا نہ لیا ہو۔ آج جو بھی سیاست دان ہے تو مذہبی کارڈ اور علماء کی وجہ سے سیاست دان ہے اور انہی سیاست مداروں نے سب سے ذیادہ مذہبی کارڈ استعمال کرکے سیاست دان بنے اور سب سے ذیادہ مذہبی پارٹی کودھوکہ بھی دیا اور مذہبی پارٹی کے ساتھ خیانت بھی کی۔ گزشتہ الیکشن میں بھی ایک بے ضمیر نے مذہبی جماعت کا سہارا لیا اور مذہب کو گندا کرنے کے لئے ہاتھ پیر بہت مارا۔ مگر مرد حر آغا علی رضوی نے اس بے ضمیر کی مٹی پلید کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے نام کو داخل دشنام کیا۔ واضح رہے ضمیر کا سودا صرف اس نے نہیں کیا تھا بلکہ مبینہ طور پر شگر حلقے سے نمایندے عمران ندیم نے بھی ضمیرکا سودا کرکے بہت کچھ کمایا تھا۔ مگر ان کی ضمیر فروشی پہ سب خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کے حلقے اور جماعت میں کوئی سید علی رضوی نہیں !!! مگر بلتستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حلقہ 2 میں ایک ضمیر فروش کو ضمیر فروشی کی سزا ملی اسکا سارا کریڈیٹ ایم ڈبلیو ایم کو ہی جاتا ہے۔ جس نے جیتی ہوئی سیٹ کو قربان کیا مگر بے ضمیری کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کیا۔ آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ ایم ڈبلیو ایم کو سیاست نہیں آتی ۔۔۔۔؟ سابقہ الیکشن گواہ ہے کہ پہلی مرتبہ سیاست میں آتی ہے ایک پارٹی اور دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پہ سامنے آتی ہے۔ مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی اور سیاست کے میدان میں ماھر ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

ایم ڈبلیو ایم ہر جائز عوامی مطالبے میں صف اول میں رہی ہے۔ جتنی تحریکیں اور مطالبات اس ایک دہائی میں ہوئی ہے ان میں فرنٹ لائن پر کونسی جماعت نظر آتی ہے؟ انکی قیادت کس نے کی؟ یہ سیاست کا نہ آ نا کہلاتا ہے تو پھر ایسے ہی سہی۔ ایم ڈبلیو ایم یہی سیاست کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ ہر نا انصافی پر عوام کی آواز بنتی رہی ہے، آگے بھی بنتی رہیگی۔ عوام کے حق میں ہر جائز مطالبہ کرتی رہی ہے ، آگے بھی کرتی رہیگی۔ ہر کرپٹ چور اور اقربا پرور کیخلاف اٹھتی رہی ہے آئندہ بھی اٹھتی رہے گی۔ ایم ڈبلیو ایم ہر ناجائز کام کیخلاف بولتی رہی ہے، آئندہ بھی بولتی رہیگی۔ ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے اور قائدین کی طرفسے اپنی تاسیس سے ابتک علاقے میں امن و امان کیلئے کوششیں بچہ بچہ تک کو معلوم ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم ہمیشہ علاقے میں اتحاد و اتفاق کے فروغ کیلئے صف اول میں رہی ہے۔

تعصب، پا بازی، لسانی و علاقائی اور مسلکی منافرت کے سد باب کیلئے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ دہشت گردی اور حکومتی جبر کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کی مانند رہی ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔ ہماری سیاست یہی ہے، ہم اسی کو سیاست سمجھتے ہیں، یہی سیاست ہم جانتے ہیں، اور ہم یہی سیاست کرتے رہیں گے۔ جن کاموں کو آپ سیاست سمجھتے ہیں وہ ہمیں آتی ہے تو بھی نہیں کرتے۔ اور ہمیں کوئی سکھانے کی کوشش کرے تو بھی ہم نہیں کریں گے۔ یہی آپ کا اعتراف ہے کہ ہم موجودہ دور میں رائج لوٹ کھسوٹ، ٹھیکیدار نوازی، کمیشن خوری، نوکری، پروموشن اور تبادلوں کو سیاست کے نام پر نہیں کرتے۔ ہم عوامی فنڈز کو منظور نظر لوگوں کی آشیربادی کیلئے اور عوام پر اپنا احسان سمجھ کر استعمال کرنے اور پیش کرنے کو بھی سیاست نہیں بلکہ منافقت سمجھتے ہیں۔ ہم ووٹ بنانے کیلئے تختیاں لگانے اور فیتے کاٹنے کو بھی سیاست نہیں سمجھتے، یہ بھی عوامی پیسے عوامی امور میں خرچنا ہے کسی سیاسی مداری کے گھر کے پیسے نہیں، نہ اسکا احسان ہوتا ہے عوام پر۔ ہم اقدار کی سیاست کرنا جانتے، قانون اور انصاف کی سیاست کرنا جانتے ہیں، عوامی آواز بننے اور عوام کا ساتھ دینے کی سیاست جانتے ہیں۔ اگر آپکے خیال میں ایسا کرنا سیاست ہے تو ہم یہی جانتے ہیں۔

ازقلم: شیخ فداعلی ذیشان

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree