Print this page

بلتستان کا مسیحا!۔۔۔۔۔۔۔آغا علی رضوی

14 دسمبر 2019

شیعت نیوز: تو جو ایک بار گلے سے تو لگا لے مجھکو۔۔۔۔

جب انسان بستر بیمار پر ہو تو کھانے پینے کی لذت ختم ہوجاتی ہے، نیند کا بھی لطف جاتا ہے، لوگوں سے ہی نہیں زندگی سے بھی بیزار ہوجاتا ہے۔ مزاج چڑچڑا اور قریبی افراد بھی دور کے لگنے لگتے ہیں ، لیکن اس میں دوسری رائے نہیں کہ ایسی صورتحال میں چند افراد ایسے ہوتے ہی ہیں جن کے آنے سے زندگی میں رونق آجاتی ہے، زندگی کے اجڑے ہوئے چمن میں بہار آجاتی ہے، دل و دماغ کے گلاب کھل اٹھتے ہیں امن و محبت کی خوشبو پھیل جاتی ہے، حوصلہ عزم و ہمت بلند ہو جاتے ہیں، بیماروں کو شفا ملتی ہے گویا وہ مسیحا ہوتے ہیں، جیسا کہ غالب کے بقول

ان کے آنے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق
وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے

بلتستان میں ایک ایسی شخصیت ایسی ہے جن سے عوام انکے خلوص اور بے لوث خدمت کی وجہ سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے نام سے ہر شخص واقف ہے۔ غریب و مظلوم انہیں اپنا ڈھال اور ڈھارس سمجھتے ہیں جبکہ ظالم ان سے خوف کھاتے ہیں انکو کمزور کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ لیکن انہیں کسی کی مخالفت یا محبت کا کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ستائش کی تمناء ہوتی ہے اور نہ صلے کی پروا، ہر حال میں اور ہر میدان میں حاضر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے عوام دل و جان سے احترام کرتے ہیں۔ جن کے مفادات کو نقصان بھی پہنچا ہو پھر بھی وہ معترف ہوتے ہیں۔ وہ شخصیت مرد میدان آغا علی رضوی ہے۔
جب اس تصویر کو دیکھا تو یقین کریں مجھے رونا آیا۔ کس طرح ایک مریض اپنا مرض اور بیماری بھول کر اس عوام دوست شخصیت سے لپٹ کے گلے ملتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے آنے سے بیمار کی ساری بیماریاں ختم ہوگئی ہوں۔ یہ مریض آغا سے ایسے مل رہے ہیں جیسے صدیوں سے بچھڑا ہوا جوان بیٹا اور بات ملے ہوں۔ یہ والہانہ عقیدت کم از کم بلتستان میں کسی اور کے لیے نہیں دیکھی جاتی۔

شاعر نے شاید اسی موقع پر کہا ہے کہ

یہ میرا مرض ہے کیا؟ موت کو بھی پلٹا دوں
تو جو ایک بار گلے سے تو لگا لے مجھ کو

خدا آغا علی رضوی کو صحت و سلامتی عطا فرما اور حاسدین و دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھیں۔ آمین

از: علی عباس چندا

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree