Print this page

آل از ویل

10 جنوری 2020

وحدت نیوز(آرٹیکل) ایک دفعہ کسی شخص کو سفر پر جانے کے لئے گھوڑے کی ضرورت پڑی وہ اپنے دوست کے پاس جاتا ہے تاکہ اُس کا گھوڑا مانگ سکے۔ وہ شخص اپنے دوست کے پاس پہچتا ہے اور اپنی مجبوری بیان کرتا ہے، دوست نہایت ہی افسوس کے ساتھ اُس سے معزرت کرتا ہے کہ گھوڑے کو تو کوئی اور شخص لے کر گیا ہے اتنی دیر میں گھر کے کونے سے گھوڑے کی آواز آتی ہے۔ یہ شخص تعجب سے اپنے دوست سے پوچھتا ہے یار تم تو کہہ رہے تھے گھوڑا نہیں ہے اب یہ آواز کس چیز کی ہے؟ دوست بولتا ہے تمھے گھوڑے کی آواز پر بروسہ ہے یا اپنے دوست کی بات پر۔

ایران کا عراق میں موجود قدیم ترین امریکی ملٹری بیس پر میزائلوں سے حملہ اور امریکی صدر ٹرمپ کا بیان بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ایران کے بلاسٹک میزائلوں نے امریکی بیس کو ہدف بنایا ہے لیکن ٹرمپ ٹوئٹ کرتا ہے "آل از ویل" پھر طویل خاموشی کے بعد کہتا ہے کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیلی نیوز رپورٹر نے جب عراق سے دوسو پینتالیس امریکی زخمی فوجیوں کو اسرائیلی ہسپتال میں منتقل کرنے کا خبر نشر کیا تو اس کی ٹویٹر اکائونٹ ہی بند کرادی گئی۔

اب حالات یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جو ایرانی حملے سے کچھ دیر پہلے تک ایران کو دھمکیاں دے رہا تھا اور حملے کی صورت میں منہ توڑ جواب دینے کا کہہ رہا تھا ایران کی طرف سے ایک ہی تھپڑ میں سدھر گیا ہے اور ایران کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کر رہا ہے۔ لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ "عراق میں موجود عین الاسد فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملہ امریکیوں کے منہ پر زودار طمانچہ مارا ہے، لیکن یہ انتقام نہیں۔"

کیوں انتقام نہیں ہے؟ کیونکہ جنرل سلیمانی کی شخصیت کے برابری کا امریکہ میں کوئی ہے ہی نہیں۔ جنرل سلیمانی کی شخصیت اور ان کے قصاص کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لبنان کے مقاومتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کا کہنا تھا کہ "ٹرمپ کا سر بھی قاسم سلیمانی کے جوتے کے برابر نہیں ہو سکتا"۔ اور یہ کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے جس جنرل نے چالیس سال امریکہ اور اسرائیل کو ناکو چنے چبوا دیے ہوں، لبنان، فلسطین سے لیکر افغانستان غرض ہر محاز پر دشمنوں کو شکست دی ہو۔ شام اور عراق میں امریکی پیداوار داعش جیسے لعنت کو ملیا میٹ کیا ہو اس عظیم شخصیت کے کون برابر ہوسکتا ہے۔ جنرل سلیمانی کی یہ تعریفیں صرف ہم نہیں کر رہے ہیں بلکہ خود مغربی میڈیا اور مغربی شخصیت بھی ان تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ہیں۔

ان کی مقبولیت اور شخصیت کا اندازہ تو دنیا کو ان کی شہادت کے بعد ہوئی ہے، اس شخص کی جذبہ ایمانی اگر نہیں ہوتے تو آج عراق اور شام میں امن نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور آج اگر دنیا میں سامراجی طاقتوں اور عالمی غنڈوں سے کوئی برسر پیکار ہے تو یہ اسی شخص کی تربیت یافتہ افراد ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کی مجاہدانہ زندگی اور ان کے کارناموں کو اگر دیکھیں تو کئی جلد کتاب کی شکل بن جائے لذا ایسے شخصیت کی برابری کون ہوسکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے ایران امریکہ کی کشیدگی میں کمی آئے گی؟ میرے نظر میں اب کشیدگی میں کمی کا امکان نہیں ہے کیونکہ ایران کی طرف سے کم از کم شہید قاسم سلیمانی کی قصاص امریکہ کا مشرق وسطیٰ سے مکمل انخلاء ہے جو امریکہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ لیکن امریکہ اس وقت سخت پریشر اور بکھلاہٹ کا شکار ہے۔ امریکہ اب وہ سُپر پاور نہیں رہا جس کی جنگی جہاز جب کسی ملک کی طرف رخ کرتا تھا تو وہاں کی حکومت گر جاتی تھی اور امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ابھی امریکہ کی حالت یہ ہے کی ایک دفعہ فوجی انخلاء کا لیٹر جاری کر دیتا ہے پھر مس ٹائپنگ کہہ کر بیان کو واپس لیا جاتا ہے۔ اس وقت سینکڑوں سوالات امریکہ پر اٹھ رہے ہیں اور ٹرمپ ان سب سوالوں کے جواب میں کہہ رہے ہیں تم لوگوں کو میری باتوں پر یقین نہیں ہے؟

یہاں ایک اور اہم بات کا ذکر کرتا چلوں کی ایک اہم سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کے سب سے بڑے فوجی بیس پر حملہ ہوا ہے اور امریکیوں نے جوابی کاروائی تک نہیں کی؟ ان کے پاس تو دنیا کا بہترین ڈیفنس سسٹم موجود تھا پھر کیا ہوا کہ ایرانی میزائلوں کو نہیں روک سکا؟ ان کا جواب تو امریکہ نہیں دے سکے مگر ایران کے جنرل حاجی زادہ نے دے دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ "ہم نے امریکی دہشت گرد فوج کے اڈے عین الاسد پر حملے کے وقت ایک سائبر اٹیک کے ذریعے امریکہ کے جنگی بحری بیڑے اور ان  کے ڈرون طیاروں کے نظام کو بھی مفلوج کر دیا تھا جو اطلاع رسانی کا کام کرتے تھے، ہم اس حملے میں کسی کو قتل نہیں کرنا چاہتے تھے  بلکہ ہم اس مرحلے پر دشمن کی عسکری طاقت کو ضرب لگانا چاہتے تھے۔"

یہ کوئی پہلے بار نہیں ہے کی ایران نے امریکہ کو بے بس کر دیا ہے، اس سے پہلے بھی ایران نے امریکی ڈرون کو باحفاظت زمین پر اتار کر بھی دنیا کو حیران کر دیا تھا یعنی بے شک امریکہ اپنے آپ کو سپر پاور کہلائے اور ساری دنیا احمقوں کی طرح اُس کو سُپر پاور تسلیم کریں مگر دنیا میں ہمیشہ ایسا رہا ہے کہ جب بھی کسی ظالم و جابر نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے اُس وقت ایک قلیل تعداد نے خدا کی وحدانیت اور حاکمیت پر یقین رکھتے ہوئے وقت کے سپر پاور کو للکارا ہے اور ہمیشہ فتح اُس قلیل مظلوموں کی ہوئی ہے۔

ساری دنیا امریکہ سے ڈرتی ہے حتیٰ روس اور چین بھی دو بہ دو ہونے سے اجتناب کرتے ہیں اور واحد ایران اور مقامتی تحریکیں ہیں جو شیطان بزرگ اور اس کے ناجائز اولاد اسرائیل سے نبرد آزما ہیں اور خداوند عالم نے ہمیشہ انھیں فتح و کامرانی عطا کی ہیں۔

لیکن ہمارے کمزور عقیدہ رکھنے والے مسلمان اور اسلامی کرپٹ حکمران اب بھی امریکہ اور عالمی طاقتوں سے مرعوب ہیں حالانکہ اس وقت اسلامی حکومتوں کو چاہئے تھا کہ وہ ایران کی سپورٹ کرتے یا کم از کم حوصلہ افزائی ہی کرتے مگر ہمارے حکمرانوں کو ایسا نصیب نہیں ہوا۔ بحرحال زندہ دل لوگ جہاں کہیں بھی ہیں وہ اس وقت ایران کی جرات کو سلام پیش کر رہے ہیں اور ایران کے جواب کو عالم اسلام کی طرف سے جواب قرار دے رہے ہیں۔

لیکن ابھی یہ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ ابھی تو شروع ہوئی ہے اور یہ امریکہ اسرائیل کی نابودی تک جاری رہے گئی۔ ابھی تو حزب اللہ لبنان اور حزب اللہ عراق کی طرف سے بدلہ لینا بھی باقی ہے اور انشااللہ ہم دیکھیں گے ایک دن امریکہ مشرق وسطی سے اُسی طرح رسوا ہو کر جائینگے جس طرح اسرائیل جنوبی لبنان سے گئے تھے۔

تحریر: ناصر رینگچن

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree