یوم ارض فلسطین اور فلسطینیوں کی واپسی

12 مارچ 2020

وحدت نیوز(آرٹیکل) انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کی تاریخ میں پندرہ مئی یوم نکبہ یعنی فلسطینی سرزمین کے صہیونیوں کے ناپاک ہاتھوں میں غصب ہونے کا دن ہے اسی طرح تیس مارچ کو فلسطینی عرب سرزمین مقدس فلسطین کا دن مناتے ہیں یعنی ’’یوم ارض فلسطین‘‘ منایا جاتا ہے۔ جہان پندرہ مئی کو یون نکبہ یعنی تباہی و بربادی کا بد ترین دن کے عنوان سے دنیا بھر میں فلسطینی و غیر فلسطینی قو میں مناتی ہیں, وہاں فلسطینی مظلوم ملت سے یکجہتی کے لئے تیس مارچ کو یوم ارض فلسطین نہ صرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں منایا جاتا ہے, بلکہ فلسطین سے باہر پوری دنیا میں اس دن کو فلسطینی ارض مقدس کے دن کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔ یوں تو فلسطینی عوام پر برطانوی سامراج کی سرپرستی میں ڈھائے جانے والے صہیونیوں کے مظالم کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان مظالم کی تاریخ ایک سو سال سے زیادہ پر محیط ہے البتہ فلسطین کی سرزمین مقدس پر صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے قیام کو اب سنہ2020ء میں 72وال سال مکمل ہو جائے گا اور ان بہتر سالوں میں گزرنے والا ایک ایک دن فلسطین کی مظلوم ملت پر قیامت سے کم نہیں گزرا ہے۔

چاہے صہیونیوں کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کے ایام ہوں یا پھر قبضہ کے بعد کے ایام ہوں ۔ تاریخ کے اوراق صہیونی ظالموں کے ظلم سے بھرے پڑے ہیں۔ جہاں ایک طرف صہیونیوں نے فلسطین پر اپنے ناجائز قبضہ کو مکمل کرنے کے لئے کسی قسم کے ظلم اور زیادتی سے گریز نہیں کیا ہے وہاں فلسطینی ملت مظلوم کی شجاعت اور استقامت میں بھی ان مظالم کے سامنے کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔ فلسطینی عربوں کی جد وجہد کی تاریخ بھی صہیونیوں کے مقابلے میں اسی وقت سے جاری ہے کہ جب سے عالمی استعماری قوتوں کی ایماء پر فلسطین پر قبضہ کی ناپاک منصوبہ بندی کی گئی تھی اور فلسطینیوں کی یہ جد وجہد آ ج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔ پندرہ مئی سنہ 1948ء میں فلسطین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کے وقت سے صہیونیوں نے فلسطینی عربوں کو ان کے وطن یعنی فلسطین سے نکال باہر کرنا شروع کر دیا تھا اور یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا اور نتیجہ میں دسیوں ہزار فلسطینی اور ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال باہر کیا گیا جو پڑوسی ممالک میں زمینی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے مہاجرین کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوئی اور آج فلسطینیوں کی تیسری نسل شام، لبنان، اردن اور مصر میں مہاجرین یعنی فلسطینی پناہ گزین کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔

فلسطین کے اندر باقی رہ جانے والے فلسطینیوں نے امید کا دامن ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا ہے ۔ فلسطین کے عرب باشندوں نے ہمیشہ سے فلسطین پر صہیونی ریاست کے تصور کو جعلی قرار دیا ہے اور اس کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں۔ یعنی خلاصہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینیوں نے جد وجہد آزاد ی جاری رکھی ہے اور اس آزادی کا بنیادی ہدف جہاں فلسطین کی صہیونیوں کے شکنجہ سے آزادی ہے وہاں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی نابودی ہے ۔ جد وجہد آزادی فلسطین کے لئے فلسطین کے عرب باشندوں نے باقاعدہ صہیونیوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس کی مثال فلسطین میں موجود اسلامی مزاحمت کی تحریکیں حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور دیگر شامل ہیں جو مسلسل اسرائیل کے ناپاک وجود کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ دوسری طرف فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کئے جانے والے فلسطینی عربوں نے بھی اپنا جہاد فلسطین واپسی کے نعرے کے ساتھ شروع کر رکھا ہے اور یہ سب کے سب فلسطینی چاہتے ہیں کہ فلسطین اپنے وطن فلسطین واپس جائیں تا کہ فلسطین میں آباد ہو ں نہ کہ ان کو دیگر ممالک میں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔

فلسطینیوں کے حق واپسی کا نعرہ یا اعلان ایک ایسا مضبوط نعرہ ہے کہ جسے عالمی استعماری نظام بالخصوص امریکہ اور اس کے حواری کسی طرح بھی دبانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کا حق واپسی ایک ایسا بنیادی انسانی حق ہے کہ جسے نہ تو دنیا کے عالمی ادارے مسترد کر سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کی کوئی حکومت ا سکے خلاف جا سکتی ہے۔ امریکہ نے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو دبانے کی خاطر نام نہاد امن فارمولہ جسے صدی کی ڈیل کہا جا رہا ہے کو متعارف کرایا ہے لیکن یہ صدی کی ڈیل سامنے آنے سے پہلے ہی فلسطینیوں کے واپسی کے حق کے نعرے کے سامنے ماند پڑ چکی ہے اور عنقریب نابود ہونے والی ہے۔ یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کا نعرہ سنہ 2011ء کے بعد سے شد ومد کے ساتھ بلند ہو اہے جس کی ماہرین کی نگاہ میں ایک بنیادی وجہ سنہ2011ء میں ایران کے دارلحکومت تہران میں ہونے والی بین الاقوامی حمایت فلسطین و انتفاضہ کانفرنس بعنوان ’’فلسطین ، فلسطینیوں کا وطن‘‘ ہے۔

فلسطین کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سنہ2011ء میں اس کانفرنس میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کا ایک ایسا منصفانہ حل پیش کیا ہے کہ جس کے بعد نہ صرف فلسطینی تحریکوں میں بلکہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی ایک نئی تحریک نے جنم لیا ہے جو امریکہ سمیت صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے لئے مصیبت سے کم نہیں ہے۔ اس منصفانہ حل کے مطابق فلسطین فلسطینی عربوں کا وطن ہے کہ جو سنہ1948ء سے قبل اور اس وقت تک فلسطین کے باسی تھے اور ان فلسطینیوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائی فلسطینی اور ایسے یہودی فلسطینی شامل ہیں کہ جو فلسطین کی شناخت کے ساتھ اس سرزمین مقدس پر زندگی بسر کر رہے تھے تاہم صہیونیوں نے نہ صرفر فلسطین کے مسلمانوں کو جبری ہجرت پر بھیجا بلکہ مسیحی اور فلسطینی یہودیوں کو بھی فلسطین سے بے دخل کیا۔ تاہم فلسطینی عربوں کا حق ہے کہ وہ فلسطین واپس آئیں اور فلسطینی عوام ایک ریفرنڈم کے ذریعہ اپنے نظام حکومت کا فیصلہ کرے ۔ یعنی فلسطینی فلسطین واپس آئیں اور جو یہودی اور صہیونی دنیا کے دیگر ممالک سے لا لا کر فلسطین میں آباد کئے گئے تھے وہ اپنے اپنے وطن میں واپس جائیں یا یہ کہ اگر فلسطین کی حکومت یعنی فلسطینی کی شناخت کے ساتھ فلسطین میں زندگی بسر کرنا چاہیں تو یہ فیصلہ بھی فلسطینی عوام کو کرنا ہے اور ان کی اجازت سے ہونا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک نے سنہ2011ء سے تیزی کے ساتھ سفر طے کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں سنہ2012ء میں دنیا بھر کے تمام بر اعظموں سے تعلق رکھنے والی قوموں نے تیس مارچ یوم ارض فلسطین کے موقع پر فلسطین کی چاروں زمینی سرحدوں پر مارچ کیا اور سب کا نعرہ ایک ہی تھا کہ ’’واپسی فلسطین ‘‘یعنی ;82;eturn to ;80;alestien ۔ گذشتہ دو برس سے فلسطینیوں نے حق واپسی مارچ کا نئے انداز سے آغاز کیا ہے اور فلسطینیوں کا ایک ہی نعرہ اور مقصد ہے کہ فلسطینیوں کی فلسطین واپسی۔ اب یوم ارض فلسطین کے موقع پر اس تحریک کو مکمل دو سال ہو نے کو ہیں لیکن امریکہ اور اسرائیل سمیت استعماری قوتیں فلسطینیوں کے عزم اور ارادوں کو کمزور کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل امریکی صدر کے فلسطین سے متعلق یکطرفہ فیصلوں اور اعلانات کی ناکامی ہے۔ بہر حال اقوام عالم اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہیں کہ فلسطینیوں کی تقدیر کا منصفانہ حل یہی ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن قرار پائی اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قائم کرنے والے صہیونی اپنے اپنے وطن اور زمینوں پر لوٹ جائیں۔ فلسطینیوں کی واپسی حق ہے اور اس امر سے دنیا کی کوئی طاقت بھی نظر چرانے کی طاقت نہیں رکھتی۔


تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

 



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree