Print this page

لیبیا میں جاری اقتدار کی جنگ (2)

02 جنوری 2020

شیعت نیوز: لیبیا نشانہ پر کیوں؟ اور کیسے؟
1- لیبیا گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ملک ہے. اس لئے اس ملک پر عالمی اور علاقائی طاقتیں اپنا اپنا تسلط اور نفوذ چاہتی ہیں.
  2- جیو پولیٹیکل طور پر یہ ملک مصر ، تیونس اور الجزائر جیسے ممالک کے سنگم میں واقع ہے. خطے کی لبرل اور اسلامی طاقتیں اپنی اپنی مرضی کی حکومت لانا چاھتی ہیں.
  3- اس خطے میں اخوان المسلمین کا بھی کافی اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ سے امارت اسلامیہ یا خلافت عثمانیہ کے احیاء کے منصوبے کو بھی تقویت مل سکتی ہے.
4- اسلحہ سازی اور اسلحہ کی فروخت کی انٹرنیشنل کمپنیوں کا کاروبار بھی اس ملک میں جنگ کو گرم رکھنے اور طول دینے سے چمک سکتا ہے.
  5- لیبیا کے سابق آمر معمر قذافی خود کو افریقہ کا شہنشاہ تصور کرتا تھا جب تک اس کا اقتدار رہا اسرائیل کو بھی افریقہ میں قدم رکھنے کا موقع نہیں ملا  اب اسرائیل بھی نہیں چاہے گا کہ کوئی دوسرا قذافی لیبیا حکمران بن جائے.

امریکی بلاک کے اھداف اور آلہ کار عناصر

جب عرب و اسلامی دنیا میں نوجوان نسل نے کرپٹ اور امریکہ و اسرائیل کے سامنے بے بس سیاسی نظاموں کے حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کی تو اس بیداری کی عوامی موج پر سوار ہونے کے لئے دشمن تیار تھا.  اور طالبان حکومت کے افغانستان  میں خاتمے کے بعد تکفیری کیمپوں کے تربیت یافتہ عرب افغان جنگجو مختلف ممالک میں منتقل ہو گئے.  جب 2011 میں جائز عوامی مطالبات کی تحریکوں کا آغاز ہوا.  تو اس موقع سے فائدہ اٹھانے، ان ممالک میں قائم حکومتوں کو گرانے ، خانہ جنگی ، تقسیم ، قتل و غارت کا بازار گرم کرنے اور ان ممالک کی فوجوں کو توڑنے اور کمزور کرنے کے لئے دشمن تیار تھا. افغانستان کے تربیت یافتہ تکفیری و اخوانی کمانڈرز  جیسے لیبیا کے عبدالحکیم بلحاج ودیگر  ، عراق میں ابو مصعب الزرقاوی و دیگر  ، سوریہ میں شیخ عدنان عرعور و دیگر وغیرہ سب خود کو عالمی سامراج کی جانب سے تفویض ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے تیار تھے. امریکہ و مغرب و اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے قطر ، سعودی عرب ، ترکی و امارات وغیرہ سب نے اسلحہ ، ٹریننگ ، لاجسٹک اور مالی مدد کی اور ڈپلومیٹک اور  میڈیا وار بھی اپنے چینلز کے ذریعے لڑی.

جیسا کہ گذشتہ کالم میں بھی بیان کیا . اور بقول قطری شہزادے حمد بن جاسم کہ اتفاق اس بات پر تھا کہ ہم یعنی قطر ڈرائیونگ سیٹ پر ہونگے اور لیڈنگ کردار ادا کریں گے. اور ہمارے اس خطے کے شرکاء و اتحادی ترکی ، سعودیہ ، امارات ، بحرین وغیرہ سب ہمارا ساتھ دیں گے.  جب لیبیا میں فروری 2011 میں تحریک چلی تو قذافی حکومت گرانے میں سب سے بڑا رول بھی قطر نے ہی ادا کیا.

لیبیا بحران میں قطر کا کردار

قطر ان ممالک میں سے ایک ہے کہ جس کا قذافی حکومت گرانے میں بنیادی کردار ہے. قطر نے الجزیرہ ودیگر چینلز کے ذریعے میڈیا وار میں بنیادی کردار ادا کیا. عرب لیگ اور اقوام متحدہ میں لیبیا پر حملوں کی راہ ہموار کی. اور شدت پسند اسلامی گروہوں کے ذریعے بغاوت کروانے اور خانہ جنگی کے لئے ہر طرح کی مالی مدد کی اور  دسیوں ٹن اسلحہ وہاں پہنچایا.

بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق قطر نے اخوان المسلمین کے مقامی لیڈروں سے متعدد تنظیمیں بنوائیں اور انکی ہر لحاظ سے مدد بھی کی.

 قطر نے لیبیا میں:

1-   ڈاکٹر علی الصلابی کی قیادت میں جماعت اخوان کی بنیاد رکھی.  
2- ڈاکٹر محمد صوان کی قیادت میں اخوانی فکر کی حامل حزب العدالہ والبناء کی بنیاد رکھی.  
3- عبدالحکیم بلحاج کی قیادت میں حزب و الوطن کی بنیاد رکھی جس نے قذافی کے قتل اور اقتدار کے خاتمے میں عسکری میدان میں بنیادی کردار ادا کیا.
4- جمعہ القماطی کی قیادت میں حزب التغیر کی مدد کی.
5- السویحلی کی قیادت میں حزب الاتحاد من اجل وطن اور دیر کئی ایک گروھوں کو قذافی حکومت کے خلاف کھل کر مدد کی .
اس کے علاوہ ان مذکورہ جماعتوں کے لئے میڈیا ہاؤسز اور ٹی وی چینلز بھی لانچ کر کے دیئے.  

بین الاقوامی فورسز کی عسکری کارروائیوں اور فضائی حملوں کا خرچ بھی قطر نے اس شرط پر ادا کیا کہ اپوزیشن اور بین الاقوامی طاقتیں طے کریں کہ دس سال تک لیبیا کے گیس اور تیل کی فروخت کے معاہدوں سے وہ اپنا خسارہ پورا کرے گا.

جس قسم کے لوگوں پر قطر نے اعتماد کیا اور انکی مدد کی ان میں سے فقط ایک شخص کا تھوڑا تعارف کرواتے ہیں.  اور باقی ساری پارٹیاں ، گروہ اور لیڈرز  بھی اسی قسم کی (شدت پسند اخوانی) فکر اور تاریخ کے حامل ہیں. جس کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا رپورٹس سے کی جا سکتی ہے.  

عبدالحکیم الخویلدی بلحاج

یکم مئی 1966 کو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں پیدا ہوا. طرابلس یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی. فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1988 میں جہاد کرنے افغانستان چلا گیا. اور چند سال وہیں پر مقیم رہا.  اور اس عرصے میں پاکستان ، ترکی اور سوڈان سفر کئے. اور انہیں ممالک میں مختصر مدت کے لئے قیام بھی کیا. 1994 میں اپنے ملک لیبیا گیا اور اپنی بنائی ہوئی تنظیم " الجماعۃ الاسلامیہ اللیبیۃ المقاتلۃ " کو منظم کیا. اور حکومت لیبیا کے خلاف مسلح جہاد کرنے کے لئے الجبل الاخضر کے علاقے میں عسکری ٹریننگ کیمپ قائم کیا.  1995 کو لیبیا حکومت نے یہ کیمپ تباہ کردیا اور کافی کمانڈر اور جنگجو مارے گئے اس دوران بلحاج فرار ہوکر واپس افغانستان چلا گیا. افغانستان میں عبدالحکیم بلحاج عبد اللہ الصدیق کے نام سے معروف ہوا. اور اس نے اپنی پارٹی کے اراکین کی تربیت کے لئے افغانستان میں ہی کیمپ بنایا اور ابوحازم کو اپنا نائب ، ابو منذر الساعدی کو شرعی امور کا انچارج اور خالد الشریف کو سیکورٹی امور کا انچارج بنایا.

فروری 2004 کو ایمیگریشن حکام کے توسط سے اسے امریکی سی آئی اے نے کوالمپور سے گرفتار کر لیا اور تحقیق کے بعد اسے لیبیا حکومت کے حوالے کر دیا. چند سال لیبیا کی ابو سلیم جیل میں گزارے. اخوان المسلمین لیبیا کی لیڈرشپ نے قذافی حکومت سے اسکی رہائی کے لئے رابطے کئے. اخوان المسلمین لیبیا کے امیر الشیخ ڈاکٹر علی الصلابی اور الشیخ یوسف القرضاوی کی کوششوں سے کرنل قذافی نے اپنی سابقہ روش کےخلاف بلحاج کو  دیگر 214 اخوانی قیدیوں کے ساتھ رہا کر دیا. شاید یہ  اس وقت کے بیرونی پروپیگنڈے اور پریشر کا نتیجہ تھا.

بلحاج نے 17 فروری کی تحریک میں عسکری میدان میں قذافی حکومت گرانے میں اھم کردار ادا کیا. یہ شخص قذافی حکومت کے سقوط کے وقت باب العزیزیہ پر میڈیا میں سامنے آیا.  اور الجزیرہ چینل پر بلحاج نے طرابلس کی آزادی کے لیے کیے جانے والے عسکری آپریشن کی کامیابی کا اعلان کیا. اور یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اب طرابلس شہر کی عسکری کونسل کا سربراہ ہے. 2011  سے لیکر آج تک یعنی 2020 کی ابتداء تک عبدالحکیم بلحاج ہی دارالحکومت طرابلس کی عسکری کونسل کا سربراہ ہے. اور اسکا مرکز جو معیتیقۃ کے فضائی اڈے پر قائم ہے یہ لیبیا کی وزارت دفاع کے اختیارات اور کنٹرول سے باہر ہے.

قطر نے بلحاج کو طیارے خریدنے کی صرف ایک مد میں 750 ملین ڈالرز دئے.  اس نے فضائیہ کمپنی."اجنحۃ للطیران" بنا رکھی ہے. اور انکے طیارے مسافر بردار بھی ہیں اور انسانی سمگلنگ اور جنگجوؤں کی نقل وحرکت کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں.  12 جون 2017 کو فرانسیسی حکومت کے ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ بلحاج کی ثروت 2 ارب ڈالرز ہے. یہ ان 100 افراد میں سے ایک ہے جو قذافی حکومت کے گرنے کے بعد مالدار ہوئے ہیں۔

لیبیا کے بحران میں ترکی کا کردار

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔


تحریر : علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree