Print this page

بھوک ہڑتال ۔۔۔اس خاموشی سے بھی سو باتیں نکلتی ہیں

03 جون 2016

وحدت نیوز(آرٹیکل) شخصیات نظریات میں تلتی ہیں۔نظریات کا پتہ میدان عمل میں چلتا ہے۔میدانِ عمل میں انسان اپنی نظریاتی طاقت کا اظہار کرتا ہے۔عمل میں کمزوری دراصل نظریاتی کمزوری کا اظہار ہے۔نظریاتی پختگی افراد کو رشتہ وحدت میں پروتی ہے۔یہ نظریاتی  پختگی جتنی زیادہ ہوتی ہے افراد کے مابین وحدت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔بلا شبہ نظریاتی پختگی افراد کو متحد کر کے طوفانوں کے مقابلے میں چٹانوں کی مانند کھڑا کر دیتی ہے۔

نظریاتی طور پر مضبوط لوگ قطب نما کی حیثیت رکھتے ہیں،ملتیں انہیں دیکھ کر اپنی سمتوں کا تعین کرتی ہیں جبکہ نظریاتی طور پر ناپختہ لوگ بادبان کی مانند ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی  سمتیں بدلتے رہتے ہیں۔

یاد رکھئے!نظریات جتنے بھی عمدہ ہوں  وہ اپنے تعارف کے لئے دلکش شخصیات کے محتاج ہوتے ہیں۔چنانچہ دینِ اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کے لئے فقط اچھے نظریات کو کافی نہیں سمجھا بلکہ انہیں یہ پیغام دیا کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو باعث ننگ  و عارنہ بنو۔

کسی شخص کے نظریات خواہ  کتنے ہی  اچھے کیوں نہ ہوں لیکن  اگر دوسروں کے ساتھ اس کا برتاو منفی ہو  تو ایسا شخص کسی مکتب کو بدنام تو کرسکتا ہے لیکن اس کی ترویج و اشاعت کا باعث نہیں بن سکتا۔

پاکستان میں بہنے والے خونِ ناحق کے خلاف اسلام آباد میں  احتجاج اور بھوک ہڑتال آج کتنے ہی  دنوں سے جاری ہے۔بعض لوگوں کے نزدیک یہ بھوک ہڑتال اور احتجاج کسی ایک تنظیم یا شخص کی آواز نہیں بلکہ ظلم و جبر کے خلاف  مظلوم انسانیت کی آواز ہے۔یہ آواز جس زبان سے بھی نکلے وہ زبان محترم ہے اورجس پلیٹ فارم سے بھی  اٹھے وہ قابل رشک ہے۔

ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ظلم سے نفرت انسانی فطرت ہے اور اس احتجاج کے ذریعے انسانی فطری جذبات کا اظہار کیا گیاہے۔ یاد رکھئے جہاں پر اس احتجاج کو فخرومباہات کی نگاہ سے دیکھنے والے موجود ہیں وہیں ایسے لوگ بھی پائے جاتے  ہیں جو جانے یا انجانے طور پر اس احتجاج کو مسلسل منفی انداز میں پیش کررہے ہیں۔

منفی انداز میں پیش کرنے والوں کا بھی ایک مشن ہے جس کی تکمیل کی خاطر وہ سر گرم ہیں۔انہیں بھی پورا حق ہے کہ وہ اپنے مشن کے لئے جدو جہد کریں۔ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال کرنے والوں  کی ایجنسیوں نے تنخواہیں بند کردی ہیں اس لئے بھوک ہڑتال کئے بیٹھے ہیں،بعض کہتے ہیں کہ یہ پانامہ لیکس کے دباو کو حکومت سے ہٹانے کی سازش ہے۔

گزشتہ روز مجھے بھی کچھ دانشمندوں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھنا نصیب ہوا۔وہاں پر بھی یہی بحث چل رہی تھی۔ارباب دانش کا اصرار تھا کہ غیر جانبدار ہوکر تجزیہ کیا جائے۔

جب جامِ سخن بندہ ناچیز تک پہنچا تو میں نے دست بستہ عرض کیا کہ اگر جان کی امان پاوں تو عرض کردوں کہ نظریاتی جنگ میں غیر جانبداری کو ئی معنیٰ نہیں رکھتی۔

اس وقت اسلام آباد میں جو کچھ ہورہاہے ،چشم فلک اسے رقم کررہی ہے اور مورخ  کی آنکھ یہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں ایک شخص نے لاشیں اٹھانے کی سیاست پر بھوک سے مرجانے کو ترجیح دی ہے۔اس نے مصلحتوں کی چھاوں میں بیٹھ کر مرغ مسلم اُڑانے  پرمئی اور جون کی گرمی میں  بھوک اور پیاس  براداشت کرنے کو ترجیح دی ہے۔اس نے  ہرروز لاشیں  اٹھانے  اورجنازےپڑھانے  کی سیاست کرنے کے بجائے  شمشیرِ مظلومیت کو نیامِ سیاست سے باہر نکالا ہے۔

میری گفتگو یہانتک پہنچی تھی کہ شور مچ گیاکہ یہ مکمل جانبدارانہ گفتگو ہے۔میں نے عرض کیا اے میرے بلند فکر دوستو!اے میرے غیرجانبدار  دانشمندو!مجھ پست فکر کو  بھی اظہار خیالات  کا موقع دو!

 میں ظالموں کے خلاف ہونے والی جنگ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔میں یتیموں کے بین سن کر خاموش نہیں بیٹھ سکتا،میں قاتلون کو دندناتے دیکھ کر اپنے لبوں کو نہیں سی سکتا۔

اے  اس نازک وقت میں قلم کی شمشیر کو غیرجانبداری کی نیام میں ڈالنے والو!

جو تلوار دشمن  سے مقابلے کے وقت  غیر جانبدار ہوجائے وہ صرف دوستوں کے گلے کاٹا کرتی ہے۔

 جو قلم دشمن کے ماتھے پرخراش نہ ڈال سکے وہ صرف دوست کے دل میں سوراخ کرتاہے۔

میں یہ کہہ کر  اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔میری گفتگو بظاہر ختم ہوگئی لیکن پیغام ابھی جاری ہے۔

قارئین محترم !ہاں میں غیر جانبدار نہیں ہوں لیکن  مجھ جیسے ہر جانبدار کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی بھی منفی پروپیگنڈے کاعلاج خصومت آمیز جملے نہیں ہوا کرتے،حسد کی آگ کو نفرتوں کی ہوا سے نہیں بجھایا جاسکتا،بداخلاقی کا درمان طعنوں اور طنز سے نہیں ہوا کرتا۔

جس ملت کے نظریاتی اداروں پر ،عیب جو،افترا پرداز ،بداخلاق اور جھگڑالو مزاج  لوگوں کا قبضہ ہوجائے  اس  ملت  کا سفینہ کبھی بھی ساحل مراد تک نہیں پہنچ سکتا۔

 قارئین کرام !اس وقت ایک دوسرے کو الزام دینے کی ضرورت نہیں،ہمیں اپنی نیتوں پر نظر رکھنی چاہیے، صبر و تحمل کا پرچم کسی بھی صورت نہیں گرنا چاہیے ، لوگوں کو حقائق سے آگاہ کیجئے،عوام کو تجزیہ و تحلیل کرنے دیجئے،ذرا صبح تو ہوجائے،ابھی سورج تو نکلنے دیجئے ۔۔۔

آنے والا کل خود گواہی دے گا کہ آج   ظلم کے خلاف احتجاج اور بھوک ہڑتال  کرنے والے  کسی کے تنخواہ دار ہیں یا اس احتجاج  پر خاموش  رہنے والے،غیرجانبدار کہلانے والے اور اس کی مخالفت کرنے والے حکومتی ایوانوں سے وظیفہ لے رہے  ہیں۔

یاد رکھیئے!شخصیات نظریات میں تلتی ہیں اورنظریات کا پتا میدان عمل میں چلتا ہے۔

 
تحریر۔۔۔۔۔۔۔نذرحافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree