Print this page

19 کروڑ لوگوں کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، علامہ حسن ظفر نقوی

29 جنوری 2014

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ پاکستان تاریخ کی بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی کے سائے پاراچنار سے کراچی تک منڈلا رہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن بے گناہوں کا خون نہ بہایا جاتا ہو۔ بظاہر تو سب دہشت گردی کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب آپریشن کی بات آتی ہے تو مختلف طریقوں سے اُنہیں محفوظ کارنر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی اس طرح کے بیانات اور گفتگو کی جاتی ہے کہ جن سے دہشت گردوں کی پشت پناہی اور حمایت نظر آتی ہے اور بعض اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ ان دہشتگردوں کا سیاسی چہرہ یہ لوگ ہیں اور ان دہشتگردوں کے بارے میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو 70 ہزار لوگ شہید کر دیئے گئے وہ کس کے لوگ ہیں؟ اگر یہ دہشت گرد اور انتہاپسند اپنے لوگ ہیں تو کراچی میں جن کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے وہ کس کے لوگ ہیں۔؟ جو سندھ میں علیحدگی کا نعرہ لگاتے ہیں وہ کس کے لوگ ہیں؟ اگر دہشت گردوں کو اپنے ہی لوگ کہا جائے تو سارے ہی اپنے لوگ ہیں۔؟ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے مجلس وحدت مسلمین وحدت یوتھ کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر مرکزی سیکرٹری وحدت یوتھ سید فضل عباس نقوی، ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی اور میڈیا کوارڈینیٹر ثقلین نقوی موجود تھے۔

 

علامہ حسن ظفر نقوی نے مزید کہا کہ کراچی میں آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو ہم نے سب سے پہلے آپریشن کی حمایت کی کہ فوجی آپریشن کیا جائے اور تمام پارٹیوں نے کہا کہ وہاں بدامنی ہے آپریشن کیا جائے کیونکہ وہاں بدامنی ہے، لیکن دوسری جگہوں پر جہاں بدامنی ہے وہاں آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو اُن کی سیاست کیوں بدل جاتی ہے؟ اُن کا رویہ کیوں بدل جاتا ہے؟ جنہیں دہشت گرد شہید نظر آتا ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ اُنہوں نے ہنگو میں شہید ہونے والے اعتزاز حسن کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جو سینکڑوں بے گناہوں کو مارے اور مرجائے وہ شہید اور جو سینکڑوں کی جان اپنی جان دے کر بچالے اُس کے لیے کچھ نہیں کہا؟ کیونکہ اُن کی نظر میں دہشت گرد تو شہید ہوسکتا ہے، لیکن وہ بچہ جس نے سینکڑوں بچوں کی جان بچائی وہ اُن کی نظر میں شہید نہیں ہے۔ جب تک یہ منافقت اور دوغلاپن ہمارے معاشرے میں موجود ہے، دہشت گردوں کو کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہماری حمایت اور پشت پناہی کرنے والے موجود ہیں۔ دہشت گردوں کی حمایت میں کتنے رہنمائوں نے آکر مختلف چینلز پر گفتگو کی اور ہم مسلسل اس لعنت میں دھنستے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہزاروں فوجی، پولیس اور رینجرز جوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ان کو کون ہے مارنے والا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی وہ لوگ کلیئر نہیں ہیں، ہم نے کب کہا کہ نہ کریں؟ مذاکرات کب ہوں گے؟ مذاکرات کس سے ہوں گے مذاکرات؟ کوئی کہتا ہے کہ 56 گروپس ہیں، کوئی کہتا ہے کہ 36 گروپس ہیں۔

 

علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ ابھی خود حکومت کو معلوم نہیں کہ کب اور کس سے مذاکرات کرنے ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ ہماری حکومت دہشت گردی ختم کر دے گی، لیکن ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ آپ نے بھی کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ کبھی کوئی وسیلہ تلاش کیا جا رہا ہے کبھی کوئی؟ 19 کروڑ لوگوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دہشت گرد جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں کارروائی اور ظلم کرتے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی میں آپریشن کے نام پر ڈرامہ ہو رہا ہے۔ اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ روزانہ ہو رہی ہے۔ اب یہ سلسلہ کراچی سے نکل کر تمام بڑے شہروں میں پہنچ چکا ہے، دہشت گرد پورے پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں کیونکہ اُنہیں پتہ ہے کہ ہمیں سپورٹ کرنے والے ہر شہر میں بیٹھے ہیں۔ بجائے اس کہ دہشتگردوں کے خلاف ایک جگہ جمع ہونا چاہیے تھا لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہماری حکومت نے دہشت گردوں کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔ بار بار مذاکرات کا موقع دیا جاتا ہے اور ہر بار وہ پہلے سے زیادہ سفاک کارروائیاں کرتے ہیں اور وہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی علمائے کرام ایک جگہ جمع ہوئے تو خفیہ ہاتھوں نے ان کے درمیان اختلافات ڈال دیئے۔ لوگوں میں فرقہ واریت کا بیج بویا جاتا ہے۔

 

اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس پاکستان کو بنانے میں شیعہ سنی علماء اور رہنمائوں نے مل کر کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ اسی طرح آج جب ہم یہاں اتحاد کی بات کرتے ہیں تو دشمن ہماری خلاف کارروائیاں کرتا ہے اور ہمارے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ ربیع الاول میں شیعہ سنیوں نے مل کر جلوس نکالے اور میلاد منائے اور اسی طرح محرم الحرام میں شیعہ سنی علمائے کرام نے مل کر بڑی بڑی سازشوں کو ناکام بنا دیا، اگر یہ سازشیں کامیاب ہو جاتیں تو ملک کا کافی نقصان ہوتا۔ جب بھی اتحاد کی ایسی فضا بنتی ہے تو خفیہ ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور اپنی کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ گذشتہ دو دنوں سے کراچی میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے، ہم یہ سمجھے تھے کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد حکومت دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے گی، لیکن کراچی میں ہمارے دوماہ قبل اُٹھائے گئے نوجوانوں کو میڈیا کے سامنے قاتل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلسل دو دن سے میڈیا پر سازش کی جا رہی ہے، ہمارے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی بجائے ہمارے بے گناہ نوجوانوں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت ہمارے دھرنوں سے خوفزدہ ہوگئی ہے، ہمارے دھرنوں کی کامیابی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی میں ہمارے بے گناہوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور ملک بھر میں شہید ہونے والے علمائے کرام کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ علامہ ناصر عباس آف ملتان اور علامہ دیدار حسین جلبانی کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ بعد ازاں اُنہوں نے علامہ ناصر عباس کے بھائی پروفیسر شاہد عباس سے اُن کی بھائی کی شہادت پر تعزیت کی اور فاتحہ خوانی کی۔

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree