وحدت نیوز(آرٹیکل) ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح فلسطین کے علاقہ غزہ میں الشجاعیہ نامی علاقہ میں یکم جنوری 1958ء کو ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم، اسی علاقہ میں ہی حاصل کی اور پرائمری اسکول سے پاس ہونے کے بعد میٹرک بھی اسی علاقہ کے ایک اسکول سے کیا۔ آپ نے اعلیٰ تعلیم مصر میں حاصل کی اور معاشیات میں گریجویٹ ہونے کے بعد غزہ میں واپس مقیم ہوگئے اور یہاں پر آپ نے غزہ کی ایک اسلامی جامعہ میں معاشیات کے مضمون کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینا شروع کیں۔ یہ سنہ1981ء کی بات ہے، اس وقت فلسطین کے متعدد علاقوں پر غاصب صہیونیوں کا قبضہ تھا اور فلسطین روزانہ صہیونیوں کے مظالم سے گزر رہا تھا۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ زمانہ طالب علمی سے ہی فلسطین میں سرگرم عمل ’’جہاد اسلامی فلسطین‘‘ نامی تنظیم سے متاثر تھے، آپ خود بھی فلسطین پر صہیونیوں کے غاصبانہ تسلط اور فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے خلاف تھے۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ اسلامی یونیورسٹی آف غزہ میں تدریس کے دوران طلباء کو حریت پسندی کا درس دیتے تھے اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور مزاحمت کی تدریس کرتے تھے۔ یہی وجہ بنی کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ کی اس یونیورسٹی میں آپ کو تدریس کا عمل جاری رکھنے سے روک دیا اور رمضان عبد اللہ کو ان کے گھر میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔ اس زمانہ میں آپ کو شدید تکالیف برداشت کرنا پڑیں، لیکن آپ نے نوجوانوں کے لئے اسلامی مزاحمت کا درس جاری رہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ سنہ 1986ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے، جہاں سے انہوں نے لندن کی مشہور جامعہ ڈرم سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ لندن میں مقیم رہتے ہوئے بھی آپ نے ہمیشہ فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کرتے رہنے کی کوشش کی اور اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ یہاں بہت سے دوستوں کے ساتھ آپ نے قریبی تعلقات قائم کئے اور ان کو فلسطین کے حالات پر نظر رکھنے اور فلسطین کے لئے سرگرم عمل جہاد اسلامی فلسطین کی خدمات پر ان کی مدد کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ نے لندن سے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کویت میں شادی کی اور اس کے بعد واپس لند چلے گئے اور وہاں سے امریکہ کا سفر اختیار کیا۔ آپ نے سنہ 1993ء اور سنہ1995ء میں جنوبی فلوریڈا میں تدریسی فرائض انجام دیئے۔ آپ مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے، جن میں سے ایک زبان عبری زبان بھی ہے۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ جس زمانہ میں مصر میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، اسی زمانہ میں ان کی ملاقات فلسطین کی جدوجہد آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک عظیم مجاہد اور جہاد اسلامی فلسطین کے بانی ڈاکٹر فتحی شقاقی سے ہوئی۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شہید فتحی شقاقی کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے، حالانکہ رمضان عبد اللہ معاشیات کے شعبہ میں تھے جبکہ فتحی شقاقی طب کے شعبہ میں تھے۔ ڈاکٹر فتحی شقاقی نے رمضان عبد اللہ کو اس زمانے کے اسلامی قائدین جن میں امام حسن البناء، سید قطب کی کتابوں سے آشنا کروایا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب تازہ تازہ رونما ہوا تھا۔ اس دوران فتحی شقاقی ایران کے اسلامی انقلاب کو بھی دقیق نگاہ سے مشاہدہ کر رہے تھے اور انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی سے بے حد متاثر تھے۔ فتحی شقاقی نے رمضان عبد اللہ کو امام حسن البنا، سید قطب اور امام خمینی کی کتب اور افکار و نظریات سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں دونوں کی دوستی مزید گہری ہوتی چلی گئی اور بات یہاں تک آن پہنچی کہ دونوں نے مشورہ کیا کہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے لئے جہاد اسلامی فلسطین نامی تنظیم کا قیام عمل میں لایا جائے۔

اس زمانہ میں فتحی شقاقی اخوان المسلمون سے منسلک تھے اور طلاءع الاسلامیہ نامی ایک چھوٹے سے گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ رمضان شلح بھی اس تنظیم میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد اس تنظیم کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس میں مزید فلسطینی طلباء کی بڑی تعداد شامل ہوگئی۔ وہیں سے اسلامی جہاد کی بنیاد پڑی، مگر رمضان شلح غزہ واپسی کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ڈاکٹر فتحی شقاقی اور ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کی دوستی گہری سے گہری تر ہوتی رہی اور دونوں کی فکر اور نظریات بھی فلسطین کو صہیونی شکنجہ سے نجات دلوانے کے لئے یکساں تھے۔ ڈاکٹر الشقاقی اور رمضان شلح برطانیہ اور اس کے بعد امریکا میں بھی ایک دوسرے سے جا ملے اور انہوں نے مل کر جہاد فلسطین کے لیے ایک تنظیم کے قیام پر کام شروع کیا۔ اس طرح باقاعدہ جہاد اسلامی فلسطین کا قیام عمل میں لایا گیا۔

غاصب صہیونی دشمن ہمیشہ سے ڈاکٹر فتحی شقاقی کی سرگرمیوں سے خوفزدہ تھا اور جہاد اسلامی فلسطین کے قیام کے بعد سے اسرائیل کو مختلف موقع پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مجاہدین کی کارروائیوں میں اسرائیل کو اکثر نقصان اٹھانا پڑتا تھا، اس ساری کامیابی کا سہرا شہید رہنماء ڈاکٹر فتحی شقاقی اور ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے سر تھا۔ سنہ 1990ء میں صہیونی غاصب اسرائیل کی بدنامہ زمانہ دہشت گرد ایجنسی موساد نے ایک بزدلانہ کارروائی میں جہاد اسلامی فلسطین کے بانی رہنما ڈاکٹر فتحی شقاقی کو مالٹا کے دورے کے دوران شہید کر دیا۔ ان کی شہادت کے بعد تنظیم کی قیادت کی ذمہ داری ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے کاندھوں پر آن پڑی، جس کو انہوں نے اپنی وفات تک نبھایا۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح نے جہاد اسلامی فلسطین کے بطور سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریوں کو احسن انداز سے نبھایا اور اپنے عزیز رفیق شہید فتحی شقاقی کے چھوڑے ہوئے نقش قدم پر چلتے ہوئے صہیونی دشمن کی نیندیں حرام کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اعتراف کیا کہ فلسطینیوں کی دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران جہادی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجی واصل جہنم ہوئے، جس کے لئے براہ راست اسرائیل نے ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح کو ذمہ دار قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان تمام کارروائیوں کے احکامات خود ڈاکٹر رمضان شلح نے دیئے تھے۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کے لئے فلسطین کی زمین تنگ کر دی گئی اور صہیونی دشمن نے ان کے قتل کی منصوبہ بندی میں تیزی لاتے ہوئے جلد از جلد ان کو راستے سے ہٹانے کا پلان بنا لیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کو اپنے وطن سے جلا وطن ہونا پڑا اور آپ دمشق تشریف لے گئے، جہاں پر آپ کو دمشق حکومت سے والہانہ انداز سے اپناتے ہوئے دمشق میں جہاد اسلامی فلسطین کا دفتر جو پہلے سے قائم تھا، اسے مزید تقویت دی گئی اور اس طرح آپ بیروت اور دمشق میں رہنے لگے اور صہیونی دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں سے خود کو محفوظ کرتے ہوئے مجاہدین کی قیادت انجام دیتے رہے۔ آپ کی فلسطین کے لئے کی جانے والی جہاد پسندانہ کوششوں کے جرم پر سنہ 2017ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے آپ کو بلیک لسٹ قرار دیا تھا۔ اس سے قبل سنہ 2003ء میں امریکا کی ایک عدالت نے 53 بین الاقوامی اشتہاریوں میں ڈاکٹر رمضان شلح کو شامل کر دیا تھا۔ سنہ 2007ء کو امریکی محکمہ انصاف نے ان کی گرفتاری میں مدد دینے پر پانچ ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح نے جہاں فلسطین کے لئے مزاحمت کی قیادت کی، وہاں آپ نے فلسطین میں بعد میں قائم ہونے والی تنظیم حماس کے ساتھ بھی بھرپور تعاون جاری رکھا۔ آپ شیخ احمد یاسین کے ساتھ دلی عقیدت رکھتے تھے۔ آپ نے جہاد اسلامی فلسطین کو لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے ساتھ بھی بہترین رشتہ میں جوڑ کر رکھا اور اسرائیل مخالف کارروائیوں میں ہمیشہ جہاد اسلامی اور حزب اللہ نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دشمن کو نقصان پہنچایا۔ یہ ڈاکٹر رمضان عبداللہ کی قائدانہ صلاحیت ہی کا نتیجہ تھا کہ خطہ کی دیگر اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ بہترین تعلقات اور تعاون قائم کیا گیا۔ نہ صرف مزاحمتی تنظیموں بلکہ ہر اس حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار کئے، جس نے فلسطین کے لئے بھرپور حمایت اور مدد کی، اس میں سب سے زیادہ ایران اور شام سرفہرست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رمضان عبداللہ اکثر و بیشتر ایران کا دورہ کرتے تھے، وہاں اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقات کرتے اور موجودہ حالات پر گفتگو کرتے تھے۔

ڈاکٹر رمضان عبد اللہ شلح سنہ 2018ء میں علیل ہوگئے اور آپ کی علالت کے بعد تنظیم نے زیاد النخالہ جو کہ آپ کے نائب تھے، ان کو تنظیم کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا۔ آپ تین سال بیروت کے ایک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد 6 اور 7 جون کی درمیانی شب ہفتہ کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔ طویل علالت کے بعد انتقال کرنے والے اسلامی جہاد کے عظیم مجاہد رمضان شلح نے پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ، اپنے وطن اور قضیہ فلسطین کی خدمت میں گذاری۔ ان کی زندگی جود و سخا، جہاد، مزاحمت اور خدمت خلق کا مجموعہ تھی۔ آپ نے سوگواروں میں دو بچے اور دو بچیاں چھوڑی ہیں۔ ڈاکٹر رمضان عبد اللہ کی وفات صرف فلسطین کا ہی نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کا نقصان ہے اور ہر آنکھ آپ کے لئے اشک بار ہے۔

 

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ملک میں کورونا کی سنگین صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہنگامی صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔ عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کسی بڑے انسانی المیے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔موجودہ حالات کے تناظر میں جنگی لائحہ عمل اپناتے ہوئے عملی اقدامات میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کے خلاف جنگ جیتنا اجتماعی کوششوں کے بغیر ممکن نہیں۔اس عالمی وبا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عوام اور حکومت کو یکساں اندازاپنانا ہوگا۔کورونا وائرس کے حوالے سے غیر سنجیدہ طرز عمل نہ صرف انفرادی نقصان کا باعث بن سکتا بلکہ پورے معاشرے کو سنگین خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔عوامی آگہی مہم میں تیزی لانے کے ساتھ ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے قانونی ضابطوں میں سختی لا کر بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی کا بنیادی سبب غیر ذمہ دارانہ میل جول اور ایس او پیز کی ڈھٹائی کے ساتھ خلاف ورزی ہے۔ ماسک و سینی ٹائزر کا استعمال اور مطلوبہ فاصلہ قائم رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اگر دانشمندی اور بصیرت کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پوری قوم کا مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے۔کورونا پر قابو پانے کے لئے قانون میں سختی لانا ہو گی۔جولوگ بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوانین کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہیں وہ بائیس کروڑ عوام کو جانوں سے کھیل رہے ہیں ان کی سرزنش یا انتباہ کافی نہیں بلکہ وہ قابل گرفت بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہنگامی صورتحال میں حکومتیں مصلحتی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سخت اقدامات بھی کرتی ہیں۔حکومت کی قابلیت کا اندازہ اس کی فیصلہ ساز صلاحیتوں سے لگایا جاتا ہے۔اگر کورونا کو روکنے کے لیے سخت فیصلے نہ کیے گئے تو پوری قوم کو نہ صرف بے یقینی صورتحال اور اضطراب کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ان کی صحت و سلامتی کو بھی شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملتان کے پولیٹیکل سیکریٹری حسنین رضا کربلائی نے چیئرمین وزیر اعلیٰ پنجاب شکایت سیل ملتان جناب طاہر حمید قریشی سے اُن کے دفتر میں ملاقات کی ۔

 اس موقع پرحسنین رضا کربلائی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے نادرا کے اختیارات میں رد و بدل کی بدولت لوگوں کو میرج سرٹیفکیٹ ، برتھ سرٹیفکیٹ ، طلاق ، و نکاح نامے کی اندراج کے بابت شدید مشکلات کا سامنا ہے جس کےباعث عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے ۔ چنانچہ حکومت فی الفور اس حوالے سے عوامی مشکلات کا تدارک کرے۔

ایم ڈبلیوایم رہنما حسنین رضا کربلائی کی جانب سے بیان کردہ عوامی مسائل اور اس اہم قومی مسئلے پر شکایات کو چیئرمین صاحب کی جانب سے بھرپور توجہ کے ساتھ سُنا گیا اوران شکایات کےفوری حل کی مکمل یقین دہانی کروائی ۔

وحدت نیوز(گلگت) گلگت بلتستان میں خطرناک حد تک کرونا کے پھیلاؤ میں صوبائی حکومت کا ہاتھ ہے ۔ شروع دن سے لاک ڈاؤن میں سختی اور باہر سے آنے والوں کو روک دیا جاتا تو آج گلگت بلتستان کرونا فری علاقہ قرار پاتا لیکن صوبائی حکومت نے کرونا پر سیاست کے علاوہ کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ۔ بسین اور محمد آباد میں کرونا ہسپتال تو قائم کئے لیکن ان ہسپتالوں میں مطلوبہ سہولتیں مہیا نہیں کی گئیں ۔ پی ایچ کیو ہسپتال پر مریضوں کا دباءو بڑھ رہا ہے اور یہاں بھی ڈاکٹرز اورپیرامیڈیکل سٹاف کو ضروری حفاظتی سامان کی عدم فراہمی سے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کا عملہ خود کرونا کی زد میں آگئے ہیں ۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمدالیاس صدیقی نے کہا کہ حکومت کرونا سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ جس طرح سے کرونا گلگت بلتستان کے عوام پر حملہ آور ہے اس کی تمام تر ذمہ حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے ۔ انتظامیہ عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے وبا پھیلتی چلی گئی اور آج اس خطرناک وبا سے کوئی شخص محفوظ نہیں رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جن ہسپتالوں کو کرونا ہسپتال ڈیکلیئر کیا وہاں نہ تو آکسیجن فراہم کیا ہے اور نہ ہی وینٹلیٹرز کی مطلوبہ تعداد فراہم کیا ۔ کرونا کے مشتبہ مریضوں کی ٹیسٹ رپورٹس آنے میں ہفتے لگادیئے جاتے ہیں ۔ ہسپتالوں کا عملہ احتجاج کرتے کرتے تھک چکا ہے لیکن حکومت کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی ۔ ماہرین صحت کے بروقت انتباہ کے باوجود اقدامات نہ کرنے سے لیگی حکومت کی عوام دشمنی کھل کر سامنے آچکی ہے ۔

 انہوں نے کہاکہ اب بھی وقت ہے حکومت اپنے اقتدار کے دن پورے کرنے کی بجائے عوام کو ریلیف دینے پر غور کرے ۔ جن ہسپتالوں کو کرونا کے مریضوں کیلئے مختص کیا ہے وہاں ٹیسٹ لیب اور دیگر سازوسامان سے آراستہ کیا جائے ۔ ٹیسٹ رپورٹس میں تیزی لاکر متعلقہ علاقوں کو سیل کرکے وبا کے پھیلاءو کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ روزگار کی بجائے اپنی جان کی فکر کریں ا ور ماہرین صحت کے بتائے ہوئے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرکے اپنی اور دوسروں کی قیمتی جانوں کے تحفظ کویقینی بنائیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتی ہے ۔

وحدت نیوز (کراچی) کراچی میں گندگی کے ڈھیراور سیوریج کے گندےپانی نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے، عوام پہلے ہی کورونا وائرس کے سبب ذہنی اذیت میں مبتلا اور صحت کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے اوپر سے یہ گندگی مزید بیماریوں اور جراثم کی افزائش کا سبب بن رہی ہے ۔ سندھ حکومت اور شہری حکومت عوام کی حالت پر رحم کرے ۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ غلام محمد فاضلی نے وحدت ہاؤس ملیرمیں مختلف وفودسے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ ملیر جعفرطیار سوسائٹی اور ملحقہ آبادیوں میں جگہ جگہ گڑابل رہے ہیں، کچرا کنڈیاں بھری پڑی ہیں،علاقہ مکینوں کو آمد رفت سمیت نمازیوں کو بھی مساجد تک پہنچنےمیں شدید مشکلات کا سامناہے، بلدیاتی اداروں نے علاقے میں موجود گندگی سے منہ موڑ لیا ہے، شہریوں کو کورونا کے بعد کچرے اور سیوریج کی گندگی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیاہے ۔ مون سون کا موسم بھی قریب ہے ، اگر شدیدبارشیں ہوئیں تو کچرے کے یہ ڈھیر اور سیوریج کا گندا پانی مزید وبائی امراض کے پھیلاؤ کا سبب بننے گا۔

علامہ غلام محمد فاضلی نے وزیر اعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ، میئر کراچی وسیم اختر اور چیئرمین ڈی ایم سی ملیر جان محمد بلوچ سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ملیر ، جعفرطیار سوسائٹی ، سعودآباد اور دیگر علاقوں میں صفائی ستھرائی کے فوری موثر اقدامات کیئے جائیں تاکہ عوام کی جانوں کو مزید کسی وبائی مرض کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) آج جب پوری دنیا کورونا وائرس جیسی موذی وباء میں مبتلا ہے. اس نے ہر رنگ ونسل ، قوم و ملک اور ہر طبقے کے ملینز افراد کو متاثر کیا، اور اب تک لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں. دنیا بھر کے افراد ہوں یا فلاحی انجمنیں وتنظیمیں یا حکومتی وغیر حکومتی ادارے، وہ سب ملکر انسانیت کو بچانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں. اور اس وباء کے پھیلاو سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ کر رہے ہیں. حتی کہ انسانی ہمدردی ، خیر سگالی کے جذے کے تحت بین الاقوامی سطح پر بھی مختلف ممالک مثلا روس ، چین ، ایران ، کوبا ودوسرے ممالک کو اس مشکل وقت میں طبی الات وسہولیات وتجربات فراہم کرنے کی فقط پیش کش ہی نہیں کی بلکہ انسانی جانوں کو بچانے کے لئے عملی اقدامات بھی کئے ہیں.  

لیکن دوسری طرف انسانیت کا قاتل اور دشمن ملک امریکہ ہے کہ جو کورونا وائرس کے پھیلاو کے ساتھ ساتھ  داخلی طور پر نسل پرستی کی آگ میں جل رہا ہے. اسکی فورسسز کا وحشیانہ رویہ اور  انسانی حقوق کی برسرعام بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پامالی آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے. حقوق بشر ، حقوق نسواں اور جمہوریت  کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت آج پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے . یہ فرعونی سرمایہ دارانہ نظام  نہ اسکے نزدیک انسانی اقدار کی قدرو منزلت اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین وضوابط اور معاہدوں کی پاسداری کی کوئی اہمیت ہے. پوری دنیا کے امن وامان کو گذشتہ تقریبا دو صدیوں سے پامال کر رہا ہے.  اور دوسری اقوام وممالک کے وسائل کو لوٹنا، انکے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنا، انہیں غلامی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کرنا اور انکار کرنے یا مقاومت کرنے والوں کے خلاف بے دریغ طاقت کا استعمال کرنا، تباہی وبربادی پھیلانا اسکا وطیرہ بن چکا ہے.  

اس استبدادی، استکباری اور چنگیزی سیاست کے چند آثار ملاحظہ ہوں۔

1- اس وقت امریکہ داخلی طور پر مکافات عمل کا شکار ہو چکا ہے.

2- بین الاقوامی سطح پر اسکی آزاد وخود مختار ممالک واقوام کے خلاف جارحانہ پالیسیاں جاری وساری ہیں.  

3- چین کے ساتھ سرد جنگ میں اس قدر شدت آ چکی ہے جو کسی نئے بڑے عالمی بحران کو جنم دے سکتی ہے .

4- ایک لمبے عرصے سے مقاومت اور عزت کی راہ اختیار کرنے والے ممالک کے عوام کو سزا دینے اور ارادوں کو توڑنے کے لئے شدید ترین اقتصادی دباو اور انکا زمینی وفضائی محاصرہ کر رکھا ہے.

5- یمن پر لاکھوں ٹن بارود اسی کے ایماء اور پشت پناہی سے آل سعود وآل زید نے گرایا ہے، اور وہاں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے اور فقر وفاقہ اور وباء امراض کو پھیلایا ہے. مجبور وبیگناہ انسانیت اس ترقی یافتہ دور میں سسکیاں لے رہی ہے لیکن دنیا بھر کے آزاد میڈیا کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اور سب اندھے اور بہرے دکھائی دیتے ہیں.  

5- ملک شام گذشتہ دس سال سے اسرائیل وامریکا کی جلائی ہوئی آگ کی لپیٹ میں ہے. جنوب سے اسرائیلی جارحیت ، مشرق سے امریکی فوجی اڈے ،اور مسلسل فضائی حملے اور شمال اور شمال مغرب سے ترکی فورسسز کی جارحیت وزمینی وفضائی حملے تباہی وبربادی پھیلا رہے ہیں.  

7- 2011 کی ابتداء میں یہ جنگ ان شام دشمن ممالک نے اپنی تیار کردہ تکفیری پراکسیز سے شروع کی . یہ مسلط کردہ جنگ داعش ، جبھۃ النصرہ ، جیش الحر ، احرار الشام ، قسد وغیرہ سیکڑوں دہشتگرد مسلح گروہوں کے ذریعے  امریکی واسرائیلی منصوبہ بندی اور سعودیہ وقطر وبحرین وامارات جیسے ممالک کی مالی امداد اور ترکی و اردن ولبنان کی لوجسٹک خدمات سے شروع کی گئی.  اور دنیا بھر کے 90 سے زیادہ ممالک سے تکفیری وھابی فکر کے حامل دھشتگرد لاکھوں کی تعداد میں ملک شام وارد کئے گئے. جنکو شامی حکومت نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے بری طرح شکست دی.

8- اقوام متحدہ اور بین الاقوامی فورمز پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا مقابلہ چائنا و روس کے متعدد بار ڈبل ویٹو سے کیا گیا.اور امریکیوں کو رسوائی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا. اور میدان جنگ میں امریکہ اور اسکے سب اتحادیوں  کا مقابلہ مقاومت کے بلاک یعنی شامی آرمی نے اپنی رضا کار فورسسز ،  ایران وروس وحزب اللہ ودیگر اتحادیوں کی عسکری مدد سے امریکی واسرائیلی پراکسیز کو شکست فاش دی اور تکفیری گروہوں کی کمر توڑ دی.

9- پراکسیز کی شکست کے بعد شام کے اصلی دشمنوں امریکہ اسرائیل اور ترکی نے ملکر چاروں طرف سے حملے شروع کئے جنکا شامی فورسز اور اسکے اتحادیوں نے منہ توڑ جواب دیا اور حلب شہر کو مکمل آزاد کروایا اور دمشق ودرعا ، وحلب وادلب ، دیرالزور ، الرقہ والحسکہ کے سینکڑوں علاقے آزاد ہوئے.  

عسکری میدان میں ناکامیوں کے بعد گذشتہ چند سالوں سے اس ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے کے لئے اسکا شدید ترین محاصرہ کیا گیا ہے.   اور اقوام متحدہ سے الگ یک طرفہ امریکی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں میں روز بروز اضافہ کیا جا رہا ہے. جسکی ایک مثال امریکی کانگرس کا ملک شام کے خلاف " قانون قیصر " یا " قانون سیزر " ہے جسے ابھی نافذ کیا جا رہا ہے.  

یہ قانون قیصر کیا ہے؟
اسے قانون قیصر کیوں کہتے؟
اسے نافذ کرنے کے بعد شام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
 اس کی تفصیلات جاننے کے لئے کے ہمارے  اگلے کالم کا انتظار کریں.

تحریر: ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی

Page 10 of 1478

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree