وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے فلاحی شعبے المجلس ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل کی جانب سے لاک ڈاؤن سے متاثرہ جہانیاں کی مسیحی برادری میں راشن تقسیم کیا گیا۔ راشن کی تقسیم کی تقریب چرچ آف پاکستان جہانیاں میں منعقد ہوئی، تقریب میں مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی رہنما علامہ اقتدار حسین نقوی نے خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر پچاس سے زائد مستحق اور متاثرہ خاندانوں میں راشن تقسیم کیا گیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقتدار حسین نقوی کا کہنا تھا کہ عالمی وبا کی صورت میں پیش آنے والی مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں اقلیتوں کی بھی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ہم مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں وہاں پر ہمیں چاہیے کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں ان مسیحی بھائیوں کی بھی مدد کریں، ہمارے نبی اور ہمارا دین اسلام ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جتنے بھی مسالک اور مذاہب ہیں بلاتفریق سب کی خدمت کی جائے۔
اس موقع پر مسیحی کمیونٹی کے رہنماؤں شہزاد مسیح اور فاروق مسیح نے مجلس وحدت مسلمین کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر المجلس ڈیزاسٹر منیجمنٹ سیل ضلع خانیوال کے مسئول سید عدیل حیدر زیدی بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی زیرِصدارت ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی کابینہ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں ملک کی موجودہ صورتحال اور پارٹی امور پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 5اگست 2020 کو اسلام آباد سمیت ملک بھر میں شہید قائد عارف حسین الحسینی کی 32ویں برسی روایتی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جائے گی۔
اجلاس میں اس امر پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ کچھ"نادیدہ طاقتیں"ملک میں ایک بار پھر مذہب و مسلک کی آڑ میں فرقہ واریت پھیلانے کے درپے ہیں۔اگر تکفیری گروہوں کو پنپنے دیا گیا تو شدت پسندی کے خلاف جیتی ہوئی جنگ شکست میں بدل سکتی ہے۔ملک دشمن طاقتیں حقائق کے منافی پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ ان پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو ملک و قوم کی سلامتی کو ایک بار پھر سنگین خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ وطن عزیز میں ستر ہزار شہداء کے قاتل تکفیری مائنڈ سیٹ کو متحرک کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے ناکام بنانے کے لیے بابصیرت اور دانشمندانہ طرز فکر اختیار کرنا ہو گا۔
اجلاس میں کورونا متاثرین میں مسلسل اضافے پر اضطراب کا اظہار کرتے ہوئےعوامی آگہی مہم میں تیزی لانے کا بھی فیصلہ کیا گیاجبکہ مزید کہا گیا کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف حکومتی اقدامات کافی نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی اجتماعی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔عوام کی طرف سے جب تک ذمہ دارانہ طرز عمل اختیارنہیں کیا جاتا تب تک مثبت نتائج کی توقع کرنا بے سود ہے۔مختلف علاقوں میں ٹڈی دل کے حملے اور کسانوں کی مشکلات پر بھی اجلاس میں بات چیت ہوئی۔ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کسانوں کو فوری ریلیف دے اور اس وبا کے تدارک کے لئے ضروری اقدامات کرے۔
وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید روح اللہ خمینیؒ کی 31ویں برسی کے حوالے سے قوم سے براہ راست خطاب میں "تبدیلی کی طلب"، "تبدیلی کا محرک بننا" اور "تبدیلی لانا" کو امام خمینیؒ کی بنیادی خصوصیات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امام خمینیؒ انبیاء علیہم السلام کے مانند انسانوں کی روحانی سرشت اور ضمیروں کو بیدار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کی یہ خصوصیت انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے دسیوں سال قبل ان کی طرف سے حوزۂ علمیہ قم کے اندر دیئے گئے پرتاثیر دروس اخلاق میں نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینیؒ کو "تبدیلی کا رہبر" (امام تحول) قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے آغاز سے لے کر اپنی حیات مبارکہ کے آخر تک میدان عمل میں موجود رہ کر ایک بیمثال سپہ سالار کے مانند قوم کے اندر "تبدیلی کی امنگ" پیدا کی اور ایرانی قوم کے عظیم سمندر کو اپنے اہداف کی رسائی تک بھرپور رہنمائی کرتے رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے عوام کے محدود مطالبات کو "خود مختاری و آزادی" جیسے مطالبات میں بدل دینے اور "لوگوں کی نظر میں دین اسلام کے انفرادی ہونے کے مفہوم کو نظامِ حکومت چلانے والے اور نئی ثقافت و تمدن کو قائم کرنے والے دین" میں تبدیل کر دینے کو امام خمینیؒ کی "تحول ساز" نگاہ کا ایک اور کرشمہ قرار دیا اور کہا کہ انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے آغاز میں ایرانی قوم کے ذہن میں مستقبل کی کوئی واضح تصویر نہیں تھی تاہم امام خمینیؒ نے ایرانی قوم کی خالی نگاہوں کو آج کی ایرانی قوم کی ذہنی تصویر، یعنی امتِ اسلامی کی تشکیل اور نئے اسلامی تمدن کے قیام سے بدل دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے "اطلاقی شناخت کی فکری بنیادوں میں تبدیلی اور فقہ (اسلامی) کے نظام حکومت اور ملک چلانے کے میدان میں عملی طور پر داخل ہو جانے" اور "مسائل کو جدید نگاہ سے پرکھتے ہوئے تعبّد و معنویت پر خصوصی توجہ" کو امام خمینیؒ کی "تبدیلی پر مبنی نگاہ" کے دو بنیادی نتائج قرار دیا اور کہا کہ اُس وقت جب کوئی امریکہ کی مرضی کے خلاف کلام کرنے کا تصور بھی نہیں کر پاتا تھا، امام خمینیؒ نے سپرپاورز کے بارے میں عوام کی نگاہ میں تبدیلی لا کر سپرپاورز کو ذلیل و خوار بنا دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ بین الاقوامی بدمعاشوں پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کی یہ فکر سابقہ سوویت یونین کے حشر اور آج کے امریکی حالات پر سوفیصد منطبق ہوتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے جدیت، تبدیلی و ترقی کو انقلاب کی اصلی ماہیت اور دقیانوسیت کو انقلاب کا متضاد قرار دیا اور کہا کہ انقلاب میں ترقی یا تنزلی انسانوں کے ارادوں پر منحصر ہے کیونکہ اگر انسان صحیح رستے پر حرکت نہ کرے تو خداوند متعال بھی اپنی دی ہوئی نعمت واپس لے لیتا ہے۔ انہوں نے "صحیح تبدیلی" کو "فکری بنیادوں" کا محتاج قرار دیتے ہوئے "عدالت کے میدان میں تبدیلی کی ضرورت" پر زور دیا اور کہا کہ "تبدیلی" کی بنیاد ایک مستحکم (اور مدلل) فکر پر ہونا چاہئے جیسا کہ امام خمینیؒ کی طرف سے لائی جانے والی تبدیلی کی ہر ایک حرکت اسلام کی ٹھوس فکری بنیادوں پر استوار ہوا کرتی تھی کیونکہ اگر (تبدیلی کی بنیادوں میں) ایسی ٹھوس فکر موجود نہ ہو تو وجود میں آنے والا تغیّر غلط اور غیر مستحکم ہو گا۔
انہوں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ "تبدیلی" کو "سوچ میں تبدیلی" نہیں سمجھ لینا چاہئے، کہا کہ تبدیلی ترقی کی جانب ہونا چاہئے جبکہ وہ جدیت اور مغرب پرستی جو پہلوی دور میں متعارف کروائی گئی تھی، ایرانی قوم کی دینی، قومی اور تاریخی شناخت کا خاتمہ تھا جسے "ثقافتی موت" بھی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی کے لئے "رفتار" بھی ضروری ہے تاہم یہ "تیزی" عجلت اور جلد بازی پر مبنی سطحی کاموں سے مختلف ہے جبکہ تبدیلی کے دوران ایک اطمینان بخش رہبر کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "دشمن اور دشمنیوں سے نہ ڈرنے" کو تبدیلی کے لئے بنیادی شرط قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مثبت اور اہم کام کے مقابلے میں مخالفتیں ہمیشہ موجود رہتی ہیں جیسا کہ آج کے دور میں صیہونیوں کے ساتھ وابستہ اداروں کا وسیع پراپیگنڈہ ہے تاہم مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیئے جانے والے مثبت کام کے دوران ان مخالفتوں کی فکر نہیں کرنا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کی آشفتہ حالی کو ایرانی قوم کے خدا پر بھروسے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران دشمنوں کا ایک محاذ سوویت یونین تھا جو برے طریقے سے بکھر چکی ہے جبکہ اس محاذ کا دوسرا حصہ امریکہ ہے جس کا شیرازہ بکھرتے پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔
انہوں نے امریکہ میں آجکل وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو امریکی مصنوعی ثقافت کے اندر دبائی گئی حقیقت قرار دیا اور کہا کہ ایک سیاہ فام انسان کی گردن پر پولیس افسر کی جانب سے گھٹنا رکھ کر اس قدر دبایا جانا کہ اس کی جان ہی نکل جائے درحالیکہ دوسرے پولیس اہلکار بھی اس منظر کا تماشا کر رہے ہوں، (امریکی ثقافت میں) کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ امریکی حکومت کا وہی اخلاق و سرشت ہے جسے وہ قبل ازیں افغانستان، عراق، شام اور ویتنام سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے اندر بارہا ظاہر کر چکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکی عوام کے اس نعرے کہ "مجھے سانس نہیں آ رہا" (!I Can't Breathe) کو ظلم تلے پِستی تمام اقوام کے دل کی بات قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکی اپنے بُرے سلوک کی بناء پر پوری دنیا میں رسوا ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف کرونا (وائرس) سے مقابلے میں ان کی وہ بدانتظامی جس کی اصلی وجہ امریکہ کے حکومتی نظام میں موجود وسیع کرپشن ہے اور جس کے باعث امریکہ میں اس بیماری سے متاثر و جانبحق ہونے والوں کی تعداد دنیا کے تمام ممالک سے کئی گنا بڑھ چکی ہے جبکہ دوسری جانب عوام کے ساتھ ان کی یہ شرمناک بدسلوکی کہ جس کے دوران وہ سرعام جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور پھر عذرخواہی بھی نہیں کرتے بلکہ انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں! انہوں نے امریکہ میں رائج نسل پرستی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کیا قتل ہونے والا وہ سیاہ فام شخص انسان نہیں تھا اور کیا اس کے کوئی حقوق نہیں تھے؟
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی حکومت کے گھناؤنے اقدامات پر امریکی قوم کے جھکے سروں اور ان کے اندر پائے جانے والے شرمندگی کے احساس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تازہ ترین صورتحال کے باعث وہ افراد جن کا مشغلہ ملک کے اندر و باہر امریکی حکومت کی حمایت اور اس کے مذموم اقدامات کو چار چاند لگانا تھا، اب اپنا سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنا خطاب امتِ مسلمہ سمیت ایرانی قوم کی کامیابی اور امام خمینیؒ و شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ارواح مبارکہ کو اولیائے الہی کے ساتھ محشور کئے جانے کی دعا پر ختم کیا۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)امام خمینی ایک ایسی عظیم شخصیت تھیں کہ شاید وہ اس دنیا سے ناشناختہ ہی چلے گئے اور مجھے یاد ہے امام کی رحلت کے بعد ایک سیمینار میں ان کی بیٹی نے یہ فرمایا تھا کہ امام ناشناختہ زندگی بسر کر کے ناشناختہ اس دنیا سے رحلت فرما گئے اور حتی ان کے اہل و عیال بھی ان کو پہچان نہ سکے-
اگرچہ کسی کو پہچاننے کے لئے انسان کا اس شخصیت کے ہم پلہ ہونا یا پھر ان سے بالاتر ہونا ضروری ہے چونکہ جو خود اس شخصیت سے کم تر ہوگا وہ اس کی بلندی کو پا ہی نہیں سکے گا -
ہم نے اگرچہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی زندگی کو دیکھا لیکن وما ادریک ماالخمینی میں ہمیں بھی شامل ہونا ہو گا- ہم کیا جانے امام خمینی کیا تھے- کسی کے متعلق یہ جاننا بھی آسان ہے وہ کون ہے چونکہ اس کے جواب آ پ اس کی کچھ تاریخ اور ولدیت کو جان لیں تو اس سوال کا جواب ضرور مل جائے گا- لیکن کسی کے متعلق یہ جاننا کہ وہ کیا ہیں ایک بڑا مشکل مسئلہ ہے- کسی کی شخصیت شناسی کے لئے جس سوال کی ضرورت وہ ان کے کیا ہونے سے متعلق ہے- تو ہم واقعی امام خمینی کی حقیقت سے نا آشنا ہیں لیکن اس مقالہ میں میرا مقصد ان کی شخصیت سے متعلق گفتگو کرنا نہیں بلکہ اس زمانے کی اپنی یادوں کو قلمبند کرنا چاہتا ہوں تاکہ میری خود یاد بھی تازہ ہو۔سکے اور قارئین محترم کو بھی شاید اس سے کچھ فائدہ ہو-
(1979) وہ زمانہ تھا جب میں نے سکول کی زندگی سے دینی مدرسہ کی زندگی کا آغاز کیا تو یہ وہی زمانہ تھا جس امام خمینی رح کی تحریک ایک تاریخی معجزے میں داخل ہوئی کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے ساتھ نور کی ایک عظیم شعاع نے پوری دنیا کو نورانی کر دیا اور تمام ظالم و جابر قوتوں کے ایوانوں میں زلزلہ آیا اور بڑی طاقتوں کو خوف محسوس ہونے لگا اور امام خمینی ایک خورشید کی مانند تہران کے افق پہ نمودار ہوئے اور اقبال کی دور رس نگاہوں کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر آیا کہ جس میں انہوں نے فرمایا تھا-
ایران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
لیکن ابھی چونکہ ابتدائی طالبعلمی کا زمانہ تھا صرف اس بات کی خوشی تھی کہ ایک شیعہ حکومت وجود میں آئی اگرچہ ہمارے ملک میں لوگوں کی ایران کے ساتھ محبت و وابستگی بہت دیرینہ ہے اور لوگ اپنی سادگی کی وجہ شاہ کو بھی شیعہ ہی سمجھتے تھے-لیکن ایران میں انقلاب کی کامیابی کے بعد آ گاہی کا ایک دور شروع ہوا تو ایران سے لگاؤ اور کچھ شیعہ ہونے کے ناطے ہمارے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ہم ایران سے متعلق خبروں سے کچھ آگاہ رہنے لگے اور کبھی کبھار زاہدان سے چلنے والے اردو زبان کے ریڈیو کے ذریعے خبروں سے آگاہ رہنے کی کوشش کرتے- یہاں تک کہ ہمارے بزرگ دادا مرحوم کے پاس ایک چھوٹا سا ریڈیو تھا جو معمولا ان کے کانوں کے ساتھ ہوتا اور وہ امام خمینی کے بیانات و خطابات کو بغور سننے کی کوشش کرتے تھے-
دوسری طرف ایک طبقہ اپنی لا علمی یا میڈیا کی کارستانیوں کی بدولت امام خمینی سے متعلق ایک عجیب نظریہ رکھتا تھا کہ گویا ایک شخص جو صبح اٹھے اور کئی لوگوں کی جان لے کر ناشتہ کرے وغیرہ لیکن عمومی طبقے میں چاہے وہ سنی ہو۔یا شیعہ امام خمینی سے متعلق محبت بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ عام لوگ یہ کہنے لگے کہ کاش ہمارے ملک میں بھی کوئی خمینی پیدا ہو جائے- لیکن بعد میں تعصب کی عینکیں چڑھنے لگیں اور تنگ نظریاں جنم لینے لگیں تو کئی لوگوں کی نگاہیں بدل گئیں-
ایران عراق جنگ:
ایران عراق جنگ کے دوران ہمارے ہاں عام لوگوں کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں شاید اس کی وجہ عراقی جارحانہ اقدام اور ایران کی مظلومیت تھی چنانچہ ایران کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگی جاتیں- اور ہمارے ملک کے مظاہروں میں جنگ کے خلاف نعرے لگنا شروع ہوئے اور یہ نعرے بھی امام خمینی ہی کی تعلیمات کا نتیجہ تھے کہ انہوں نے فرمایا جنگ جنگ تا رفع فتنہ یا جنگ جنگ تا پیروزی -
نظریاتی قوتوں کی کامیابی:
ہمارے ملک میں ایک فکری نظریاتی تحریک کا آغاز ہوا اور انقلاب کے اثرات جہاں دنیا کے مختلف ممالک پر ہوئے وہاں ہمارا ملک ہمسایہ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوا- ہمارے ملک میں بھی اسلامی حکومت کی بات ہونا شروع ہوئی اور شیعہ سنی دونوں میں نظریاتی تنظیمیں فعال ہوگئیں-
امام خمینی کی مقبولیت کچھ اتنی زیادہ ہوئی کہ امام کی تصویر ہر گھر کی زینت بن گئی-ملک میں دینی قوتوں کو ایک جذبہ اور ہمت ملی اور جبر و استبداد اور نا انصافی کے خلاف لوگوں میں شعور بیدار ہوا-چنانچہ یہی وہ زمانہ تھا جہاں عراق میں عظیم انقلابی شخصیت اور علمی دینی شخصیت آیت اللہ باقر الصدر کو صدام کی بعثی حکومت کے ہاتھوں بے دردی سے شہید کر دیا گیا-جس کے خلاف جہاں پوری دنیا میں احتجاج ہوا ہمارے ملک میں بھی دارالخلافہ اسلام آباد میں علماء کی سرپرستی میں بہت بڑا احتجاج ہوا جو بعد میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور امام خمینی کے انقلاب اسلامی نے عام لوگوں میں کچھ ایسی جرآت پیدا کردی کہ لاکھوں کی تعداد میں شیعہ قوم نے ملک کی کیپیٹل میں ملک کے صدارتی دفاتر اور مرکزی عمارتوں پہ قبضہ کر لیا چنانچہ میں عینی گواہ تھا کہ جو جوش و جذبہ عوام میں دیکھا گیا وہ ناقابل بیان ہے ہزاروں کی تعداد میں اس عظیم اجتماع نے اس اجتماع سے استفادہ کتے ہوئے اپنے ملک میں موجود مطالبات کی منظوری کا تقاضا کیا چنانچہ ملک پہ حاکم جابر حکمران ضیاء الحق کو بھی اس عوامی احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے اور ان کے مطالبات قبول کر لئے گئے اور عراقی گورنمنٹ کو شہید باقر الصدر کی شہادت پہ عوامی غم و غصہ سے آگاہ کیا-
دینی شخصیات:
ہر ملک میں اور اسی طرح پاکستان میں دینی شخصیات کا اثر رسوخ بڑھ گیا-انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد جہاں پاکستان کی مذہبی اور دینی شخصیات امام خمینی کو مبارکباد کہنے ایران جا رہی تھیں وہاں ہماری دینی قیادت نے ایک وفد تشکیل دیا اور علامہ مفتی جعفر حسین رح کی قیادت میں امام خمینی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئے اور ان کے جاتے ہوئے بھی مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ شیعہ علما کا ایک بھاری بھرکم وفد ایران کی طرف روانہ ہوا اور اس زمانے میں میں مدرسہ دارالعلوم محمدیہ کا ایک طالبعلم تھا اور جب مفتی جعفر حسین ملاقات کے بعد واہس آئے تو مفتی صاحب کی تقریر کے جملات ابھی مجھے یاد ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے زندگی میں بہت سی سیاسی، مذہبی اور دینی شخصیات سے ملاقات کی وہ بڑے مراجع عظام کی خدمت میں گئے جیسے آیت اللہ العظمی محسن حکیم رح اور آیت اللہ ابو القاسم خوئی کی خدمت میں ملاقات کے لئے گیا اور ملک میں سیاسی سطح پہ بڑے بڑے ٹیبل ٹاک میں شرکت کی لیکن امام خمینی کے ساتھ ملاقات کرکے اندازہ ہوا کہ وہ بالکل ایک منفرد شخصیت ہیں-
انہوں نے فرمایا کہ وہ چونکہ وفد کی سربراہی کر رہے تھے تو امام کے سامنے جب بیٹھے تو امام کے ساتھ بات چیت کی باری آئی تو انہوں نے نظریں اٹھا کر بات کرنا چاہی لیکن ان کے چہرے کی ہیبت اتنی زیادہ تھی کہ وہ نظریں ملا کر بات نہ کر سکے پھر دوبارہ انہوں نے سر اٹھا کر بات کرنا چاہی تو ان سے یہ نہ ہوسکا تو ان کے بقول انہوں نے طے کر لیا کہ وہ نظریں جھکا کر ہی ان سے بات چیت کریں-یہ ایک ایسے عالم دین کا مشاہدہ تھا جو ہمارے ملک میں شیعہ قوم کی قیادت کے منصب پہ فائز رہے اور جن کا زہد و تقوی زبان زد عام و خاص تھا-
امام خمینی کی ھیبت :
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی ھیبت کا یہ حال تھا کہ زندگی میں جب عام لوگ ان سے ملاقات کے لئے جاتے تو امام اپنے حسینیہ یعنی اپنی امام بارگاہ میں ملاقات کے لئے تشریف لاتے تو ابتدا میں وہ ایک خاص انداز میں ہاتھ ہلاتے تھے اور پھر وہ ایک معمولی کرسی پہ تشریف فرما ہوتے تھے تو ان کی گفتگو سے پہلے ہی لوگوں کی چیخیں نکل جاتیں اور وہ دھاڑیں مار کر رونے لگتے تھے- وہ بہت ہی سادہ زبان میں عوام سے گفتگو کرتے تھے اور میں نے شاذ و نادر دیکھا کہ امام خمینی رح کبھی اپنی کسی تقریر کو کسی آیت یا حدیث سے شروع کریں بلکہ وہ بسم اللہ کے فورا بعد قوم و ملت سے مخاطب ہوتے تھے-
قوم و ملت کی قدر کرنا:
ایک بات جو بہت سے وہ لوگ جنہوں نے امام خمینی کو دیکھا اور سنا ضرور مشاہدہ کی وہ یہ کہ امام اپنی۔قوم و ملت کو بہت ہی قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے- جو ہمارے ہاں ہمارے بعض علما یا یا بلکل مفقود ہے یا پھر بہت کم بلکہ بر عکس ہمارے ہاں ہمیشہ قوم کو۔کوسا جاتا ہے برا بھلا کہا جاتا ہے اور ہر خرابی کا انہی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے-جبکہ امام خمینی کی گفتگو کا آغاز اس جملہ سے ہوتا تھا- ملت شریف ایران یعنی اے ہماری با شرف قوم اور اپنی تقاریر میں وہ معمولا فرماتے تھے ملت ایران ایک عظیم ملت ہے ایک فدا کار ملت ہے ایک با ایمان ملت ہے-
امام کی نگاہ میں قوموں کی حیثیت:
اور یہی نہیں کہ وہ صرف ملت ایران ہی کو با شرف اور باعزت ملت کہتے تھے بلکہ امام خمینی نے جو پیغام شہید علامہ عارف الحسینی کی رحلت پہ پاکستانی قوم کو لکھا جن لوگوں نے پڑھا ہے وہ بخوبی آگاہ ہیں اور جنہوں نے نہیں پڑھا وہ ضرور پڑھیں وہ خطابات جو امام خمینی نے پاکستانی قوم کے لئے لکھے اور جس طرح سے اس قوم کو سراہا وہ ہم نے کبھی اپنے قائدین سے نہیں سنے یا اگر آپ رہبر معظم انقلاب امام خامنہ ای حفظہ اللہ کی زبانی سنا کہ انہوں نے فرمایا تھا خطے کی سب سے با ایمان قوم پاکستانی قوم ہے اور یہ وہ قوم ہے جس سے برطانوی سامراج سے آزادی کے لئے عظیم قربانیاں دیں-
خلاصہ یہ کہ قومی قیادت کا وہ شخص حقدار ہوتا ہے جو خود باپ بن جائے اور قوم کو اپنے بچوں کی طرح دیکھے اور جیسے اللہ کی ذات اہل ایمان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے وہ بھی انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے- ورنہ جو شخص ساری عمر قوم کے پیچھے ڈنڈا لے کر ہڑا رہے اور قوم کے ہر طبقے کو بے ایمان کہتا رہے وہ کیسے قوم کی قیادت کر سکتا ہے-
امام خمینی کی ایک بہت بڑی خصوصیت قوم کے ساتھ قریبی رشتہ اور قوم کے ہر دکھ درد میں شریک رہنا اور ان کے درد دل کو سمجھنا اور انہیں درست راہنمائی کرنا تھی-
امام خمینی رح کی شجاعت:
امام کی شجاعت حقیقت میں خدا پہ مکمل بھروسہ کے باعث تھی کہ ان کی زندگی میں اگر کسی چیز کا خوف تھا تو وہ صرف خدا کا خوف تھا اور روایات کی روشنی میں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جو خدا کا خوف رکھتا ہوں کائنات کی ہر شئی اس سے خوف زدہ ہوتی ہے- اور اگر کسی کے دل میں خدا کا خوف نہ ہو وہ دنیا کی ہر شئی سے ڈرتا ہے- لہذا امام خمینی چونکہ خدا کی ذات پہ کچھ ایسا بھروسہ رکھتے تھے کہ انہیں دنیا کی کسی طاقت سے ذرا برابر خوف نہ تھا- جس زمانے میں انہیں قم۔سے گرفتار کیا گیا اس وقت کے بعض ساواک کے لوگوں سے نقل ہوا کہ جب وہ امام کو لے کر زندان جا رہے تھے تو ان کے اطمینان کو دیکھ کر انہیں خوف محسوس ہوتا تھا اور جب امام فرانس سے واپس آ رہے تھے تو طیارے میں ان کے ساتھ کچھ دوست تھے اور فرانس ائیر کا عملہ جبکہ تہران ائیر پورٹ بند کر دیا گیا تھا اور اطراف میں ٹینک نصب کر دئیے گئے تھے اور ایسی حالت میں امام خمینی طیارے میں اتنے اطمینان سے بیٹھے تھے کہ جیسے انہیں کوئی فکر ہی نہ ہو اور وہ پورے راستے نماز ،عبادت اور ذکر خدا میں مشغول رہے اور ان کے چہرے ذرا برابر پریشانی نہیں تھی-چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب امریکا ایران پہ حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا امام قوم کو تسلی دے رہے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کی-
صبر و استقامت:
حضرت امام رضوان اللہ علیہ صبر و استقامت کا ایک پہاڑ تھے کہ جس شخصیت پہ تحریک کے آغاز سے لے مسلسل مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے کبھی قید و بند کی صعوبتیں، کبھی ملک بدری اور ایک ملک سے دوسرے ملک بدری، کبھی جوان سال بیٹے کا قتل اور کبھی جنگ مسلط کر کے ہزاروں شہدا کی مصیبت، کبھی قریبی ترین شخصیات شہید مطہری اور بہشتی جیسی شخصیات کا قتل لیکن ہر موقعہ پہ یہ شخصیت استوار اور پر استقامت رہی اور ہر موقعے پہ خدا پہ مکمل بھروسہ کہ کبھی اگر مصطفی نیست مگر خدا نیست - یعنی اگر مصطفی خمینی نہیں رہے تو کیا خدا بھی نہیں رہا-اور جب پوری پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا گیا اور دشمن نے اپنے خیال میں امام کی کمر توڑ دی تو ایسے مرحلہ اس نفس مطمئنہ نے ایک ہی جملہ کہا اگر آج بہشتی اور رجائی نہیں تو کیا خدا نہیں- اور یہ اسوہ صبر و استقامت راہ اہل بیت پہ چلتے ہوئے ایک ایسے شجرہ طیبہ کی بنیاد رکھ گئے کہ جو آج پھل پھول رہا ہے اور دنیا بھر کے مستضعفین اس کے سائے میں سکون کی زندگی پاتے ہیں-
دنیا بھر کے مستضعفين کی پناہ گاہ :
امام خمینی بہت ہی تھوڑی مدت میں پورے عالم اسلام بلکہ تمام مستضعفین جہان کی امید کا مرکز بن گئے اور دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں نے امام کی وجہ سے اسلام قبول کیا اور کتنے ہی لوگ اس شخصیت کے طفیل مکتب تشیع کی طرف راغب ہوئے اور حقیقی اسلام لوگوں کی امیدوں کا مرکز بن گیا- ان کی محبوبیت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اپنی شخصیت کو بنانے یا سنوارنے میں مشغول رہتے تھے یا اپنی رہبری و قیادت کو دنیا میں زیادہ پروموٹ کرتے تھے- ان کی مقبولیت ان کی حق و حقیقت کے ساتھ وابستگی پروردگار کے حضور تسلیم اور ظلم کے خلاف مسلسل پیکار کی وجہ سے تھی- وہ خود بہت سادہ زندگی بسر کرنے والی شخصیت اقر ایک کرائے کے مکان میں زندگی گذارنے والا قائد کہ جو آفریقا میں اس قدر محبوب ٹھہرے کہ ہمارے ایک عالم بزرگوار جو افریقہ میں تبلیغات کے لئے تشریف لے گئے تو وہ چونکہ ایران سے گئے تھے- جب وہ وہاں سے واپس آنے لگے تو لوگوں نے کچھ رقوم جمع کیں لیکن چونکہ وہ خود غریب لوگ تھے تو کچھ سکے پیسے ایک تھیلے میں جمع کئے اور کہا یہ ہمارا ہدیہ امام کی خدمت میں پہنچا دیں اور وہ مولانا کہہ رہے تھے کہ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دنیا کے اس کونے میں لوگوں میں کیسی محبت ہے- اور وہ اسی طرح تھیلا لے کر آ گئے اور انہوں نے امام کے دفتر میں امانت پہنچائی- ابھی تک کتنے لوگ مجھے مختلف ممالک میں ملے جنہوں نے امام خمینی کی وجہ سے اسلام قبول کیا-اور کئی لوگ اپنی خوابوں کو نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں امام کو دیکھا اور انہوں نے اس کے اسلام کا مطالعہ کیا-
قیادت و رہبری :
اگرچہ امام خمینی میں قیادت و رہبری کی بہت زیادہ خصوصیات پائی جاتی تھیں کہ جس کی وجہ سے لوگوں نے ان کو امام کا لقب دیا- متاسفانہ ہمارے ہاں کئی لوگوں میں اسی پہ بحث ہوتی رہی کہ ان کو امام کیوں کہا گیا حالانکہ یہ کلمہ امام جماعت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور گذشتہ عرصے میں کتنے ہی علما و فقہا کے ساتھ امام لکھا جاتا رہا- یہ اور بات ہے کہ امام معصوم کے ساتھ ان کا موازنہ کسی طرح درست نہیں اور وہ آئمہ علیھم السلام کے مکتب کے ایک شاگرد کی حیثیت رکھتے ہیں-لیکن امام کی رہبری کی ایک خاصیت جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو امام خمینی کو رسول خدا ص کا حقیقی پیروکار بناتی ہے وہ یہ کہ اس شخصیت نے نظریہ ولایت فقیہ کو صدیوں بعد کتب فقہ سے نکال کر دنیا کے سامنے پیش کیا اور پھر اس نظریہ کو متعارف کرانے کے بعد نظام شہنشاہی کو گرا کر ایک حکومت اسلامی قائم کی اور خود اس حکومت پہ حاکم اسلامی کے طور باقی رہنے کے بعد یہ کہا کہ میں اپنی تمام ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے بعد مکمل اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں-
حقیقی اسلام کا تعارف:
امام خمینی نے اپنی زندگی میں ایک اور جو عظیم کارنامہ انجام دیا وہ حقیقی اسلام کو دنیا میں روشناس کروانا تھا- جسے وہ اسلام ناب سے تعبیر کرتے تھے- یہ اسلام ناب محمدی کی اصطلاح کو امام نے ہی استعمال کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ حقیقی اسلام جو پیامبر اسلام اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کا مذہب ہے-ایک وہ اسلام کی کا چہرہ بدل دیا گیا اور اس کی اصلی تصویر کو مسخ کر کے لوگوں کی تعبیرات کو اسلام کہا جانے لگا- اور اسلام میں تقدس کا معیار یہ ٹھہرا کہ جو شخص کسی معاملے میں کچھ رائے نہ رکھتا ہوں اور ہر معاملے میں خاموش تماشائی بنا رہے اسے سب سے بڑا متقی سمجھا جانے لگا اور اگر کوئی مسلمانوں کے معاملات پہ بات چیت کرے یا سیاسی امور سے متعلق بات کرے تو اس کو شجرہ ممنوعہ سمجھا جاتا تو امام نے اس بت کو توڑا اور فرمایا سیاست اسلام کا حصہ ہے اور ہماری سیاست کا محور ہمارا دین ہے البتہ بسا اوقات افراط و تفریط ہوتی ہے بعض لوگوں کے دین کا محور سیاست بن جاتی ہے جو دین سے انحراف ہے سیاست کا محور دین ہے اور ہم قران و سنت سے سیاست سیکھتے ہیں-دوسرا مقدس مآبی یا مقدس نماز کے طلسم کو توڑا اور مقدس نما کو معاشرے میں روشناس کروایا اور انہیں معاشرے کی سب سے بڑی مصیبت قرار دیااور امام خمینی اپنی تقاریر میں مسلمانوں اس طبقے سے آگاہ رہنے کی تاکید فرماتے تھے-
دعوت اسلام :
امام خمینی رح نے اپنی زندگی میں رسول اللہ کی راہ پہ عمل کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دی چنانچہ اس زمانے کے روس کے حکمران گوربا چوف کو اسلام کی دعوت دینے کے ایک عظیم مراسلہ لکھا اور اسے پہنچانے ایک عظیم شخصیت کہ جو آج بھی حوزہ علمیہ کے ایک ستون کی حیثیت سے موجود ہیں حضرت آیت اللہ جوادی آملی کا انتخاب کیا- جو آج ایک مرجع اور مفسر قرآن بھی ہیں اور ایک عظیم علمی شخصیت ہیں-ان کو تاکید کی کہ یہ خط گوربا چوف کو پڑھ کر سنانا ہے اس کے ہاتھ میں نہیں دینا اور پھر اپنے مترجم کے ذریعے ترجمہ بھی کرنا ہے- یعنی امام خمینی اس عظیم امانت کو امین ہاتھوں سے پہنچانا چاہتے تھےاور آیت اللہ نے بھی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تقریبا دو گھنٹے پیغام کو من و عن ایک سپر طاقت کے حکمران کو پڑھ کر سنایا اور اس کے بعد مجھے یاد ہے کہ کچھ مدت بعد گوربا چوف نے اس خط کے جواب کے لئے اپنے وزیر خارجہ کو امام خمینی کی خدمت میں بھیجا اور یہ وہ پہلا وزیر خارجہ تھا جسے امام سے خصوصی ملاقات کا شرف حاصل ہوا-اس واقعے کو چونکہ ہم نے لائیو نشر ہوتے ہوئے ٹی وی پہ دیکھا تھا کہ جس میں ایڈورڈ شیورڈ نادزے کو امام نے اپنے گھر ملاقات کے لئے بلایا جہاں جب وہ پہنچے تو ششدر رہ گئے کہ ایک بالکل ہی معمولی گھر جس میں داخل ہو نے کے لئے اسے جھک کر داخل ہونا پڑا اور بقول اس کے اسے اندر داخل ہونے کے لئے جوتے اتارنے پڑے- جب وہ اندر داخل ہوا تو امام کے کمرے میں جہاں ایک صوفہ جس پہ امام خود بیٹھے اور اطراف پہ کچھ کرسیاں رکھی تھیں جہاں اسے بیٹھنے کو کہا گیا اور مجھے یاد ہے اس روز امام عمامے کے بغیر ایک کالی ٹوپی پہن کر ملاقات کے لئے آئے اور صرف قبا پہنی تھی عبا بھی نہیں پہنی تھی- اب جب روسی وزیر خارجہ یہ سب دیکھا تو اس کی تو حالت خراب ہو گئی اور امام کی ھیبت کو دیکھ کر وہ کانپنے لگا اب ظاہر سی بات ہے خط بھی اسی نے پڑھنا تھا اب آپ ذرا سوچیں کہ ایک آدمی اگر اس کو کپکپی چھائی ہو تو وہ اگر کسی چیز کو اس حالت میں پڑھے گا اور وہ بھی کیمروں کے سامنے تو اس کی کیفیت دیکھنے والی تھی- اس نے کانپتے ہاتھوں کاغذ اٹھایا اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی اور اس نے پانی مانگا بس ایک جملہ کہہ کر ایک گھونٹ پانی پی کر اس نے یہ خط پڑھا- اب امام نے چونکہ گوربا چوف کو خط اسلام کی طرف دعوت کے لئے لکھا تھا جس کے جواب میں روسی صدر نے ایران روس تعلقات بڑھانے کو کہا اور وہ یہ سمجھا کہ ایران کو اب کسی سہارے کی ضرورت ہے تو جب امام نے اس جواب کو سنا تو ایک جملہ کہا کہ آپ گوربا چوف کو کہیں وہ میرا خط دوبارہ پڑہیں اور یہ کہہ کر امام کمرے سے اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چلے گئے تو روسی وزیر خارجہ دیکھتے ہی رہ گئے کہ کیا ہوا؟جب وہ نکلے تو ان سے رپورٹرز نے پوچھا تو اس نے کہا میں سب سے پہلا خوش نصیب وزیر خارجہ ہوں جس کی امام سے ملاقات ہوئی اور اس نے امام خمینی کو مسیح کی مانند تعبیر کیا-
بصیرت اور مستقبل پر عمیق نگاہ :
امام خمینی اس بات کی طرف بخوبی متوجہ تھے کہ ان کی رحلت کے بعد ان کا جانشین جو اس انقلاب کی حفاظت و بقا کا ضامن ہو کون ہونا چاہیے چنانچہ انہوں نے مشورہ کیا تو ایک نام پیش کیا گیا جس سے متعلق امام خود راضی نہیں تھے لیکن مشورے کی بنیاد پہ اور اطرافیوں کے اصرار پہ جس نام کا اعلان ہوا آیت اللہ منتظری تھے لیکن بہت تھوڑی مدت بعد سب کو یہ اندازہ ہو گیا کہ امام ایک عظیم بصیرت کے حامل ہیں اور ایت اللہ منتظری میں ائندہ رہبری کی صلاحیت نہیں پائی جاتی لہذا امام نے اپنی زندگی میں ہی انہیں اس منصب سے معزول کردیا اور آئندہ کے اپنی گفتگو میں رہبر انقلاب امام خامنہ ای کا نام پیش کیا اور امام اپنی زندگی اس شخصیت کو بہت اہمیت دیتے تھے اور انہیں ائندہ کے اپنی زندگی کی امید سمجھتے تھے اور یہ وہ شخصیت جو آج امام خمینی کے نائب بر حق کی حیثیت سے انقلاب اسلامی کے ستون کی حیثیت سے آج پوری دنیا کی رہبری کے فرائض انجام دے رہے ہیں-
منشور روحانیت:
امام خمینی چونکہ خود عالم دین اور ایک عظیم مرجع، عارف و فلسفی تھے- لیکن یہ بھی جانتے تھے کہ ہو سکتا ہے کہ بہت سے نا اہل اپنے آپ کو عالم
متعارف کروا کے دنیا بھر میں فساد پھیلائیں- اور ان کے لئے يه ضروری تھا کہ وه اپنی زندگی میں علمای حقیقی اور علما نماؤں میں امتیاز کو بیان کریں تاکہ لوگ ان کے دھوکے میں آکر ہر عمامہ بسر کو عالم نہ سمجھ بیٹھیں اور اس طرح وہ ایک معاشرے کی گمراہی کا سبب بنیں-
چنانچہ امام نے اپنی زندگی میں منشور روحانیت پیش کر کے رہتی دنیا کے لئے معیار چھوڑ دئیے- آج بھی یہ دستاویز موجود ہے اور پیروان خط امام کو چاہیے کہ اس عظیم منشور کو ضرور پڑہیں تا کہ کسی گرگٹ کے گروی نہ ہوں اور حقیقی علما کو ان کی خصوصیات سے پہچانیں چونکہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا- الحق لا تعرف باقدار الرجال- اعرف الحق تعرف اهله- حق كو کبھی بھی شخصیات کے ذریعے نہ پرکھو بلکہ پہلے حق کو پہچانو پھر اہل حق کو پہچانو- جہاں شخصیت حق کا۔معیار بنے وہاں شخصیت پرستی جنم لیتی ہے اور حق پرستی ختم ہو جاتی ہے-
نفس مطمئنہ کا اس عالم فانی سے کوچ کرنا:
امام خمینی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے شاید کئی بار وصیت نامہ لکھا لیکن دو بار کا ہمیں علم ہے کہ پہلے ایک وصیت نامہ حکومت کے پاس موجود تھا پھر اس کو تبدیل کرکے امام نے دوبارہ ایک وصیت امانت کے طور پہ رکھی-یہ وصیت نامہ بھی انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے ایک دستور کی حیثیت رکھتا ہے- اس وصیت نامے کی بہت سی خصوصیات ہیں جس میں امام نے اپنے عقائد سے لے کر زندگی کے ہر شعبے کے متعلق گفتگو کی اور یہاں تک کہ امام نے یہاں تک بیان کیا کہ اگر انہوں نے زندگی میں کسی شخص کی تعریف کی یا کسی کو کئی لقب دیا تو وہ ان کی اس وقت کی حیثیت کے اعتبار سے تھا- اور اگر بعد میں وہ حیثیت بدل جائے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں- اور اسی وصیت کے اختتام پہ یہ جملات کہے کہ میں پر سکون دماغ اور قلبی اطمینان کے ساتھ اپنے وظائف کی ادائیگی کے بعد اس دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں- یہ جملہ انکے اطمینان قلب میں ایک مہر کی طرح ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کچھ ایسے کام کر گئے جن کی وجہ سے وہ منزل اطمینان پہ فائز ہو گئے اور اپنے مولاو اقا کی راہ پہ چلتے ہوئے کہ جس نے سر پہ مسجد میں سجدے کی حالت میں تلوار لگنے پہ یہ فرمایا تھا فزت و رب الکعبہ-
موت العالم موت العالم:
حدیث شریف میں کہا گیا کہ ایک عالم کی موت پوری کائنات کی موت ہے اس کا مصداق ہیں امام خمینی کی رحلت پہ نظر آیا جہاں ان کی بیماری کے دوارن پوری دنیا میں ان کی صحت وسلامتی کے لئے دعائیں کی جارہی تھیں اور جب ان کی آنکھیں اس جہان فانی سے بند ہوئیں تو قران کریم کی اس ایت کا مصداق پتہ چلا کی قران کریم نے حضرت ابراہیم سے متعلق فرمایا کہ ان ابراھیم کانت امۃ قانتا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے مطیع اور فرمانبردار اور اپنے اندر ایک امت کی حیثیت رکھتے تھے- امام خمینی بھی راہ انبیاء و ایمہ پہ چل ایک امت کی حیثیت اختیار کر گئے کہ ان کی رحلت پہ ہر آنکھ اشکبار تھی اور لاکھوں کی تعداد میں عزادار ان کے جنازے کے لئے نکلے اور پوری دنیا وفود جنازے میں شرکت کے تہران آئے جن میں اس زمانے میں پاکستان کے مذہبی امور کے وزیر مولانا کوثر نیازی کے شعر پہ اس مقالے کو ختم کرتا ہوں- کہ انہوں نے فرمایا: حال ما در حجر رہبر کم تر از یعقوب نیست او پسر گم کردہ بود و ما پدر گم کردہ ایمکہ جس کا معنی یہ تھا کہ رہبر کی رحلت پہ ہماری کیفیت حضرت یعقوب سے کم نہیں فقط ان کے بیٹے ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے اور ہمارے باپ آج ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے-سلام اس ہستی جو اپنے نام میں اسم بہ مسمی تھی روح اللہ یعنی جس کی روح الہی ہو اور سلام اس ہستی پہ کہ جس نے اسلام کا علم اس دنیا میں اس قدر بلند کر دیا کہ آج ہر شخص کو اس کا یقین ہو گیا کہ فرزند زہرا علیھما السلام پوری دنیا میں عادلانہ نظام قائم کریں گے- سلام اس ہستی پہ جس فقیری میں امیری کو انتخاب کیا اور عرفان نظری کو عرفان عملی میں بدل کر خود اپنے پروردگار سے جا ملے-
ازقلم: علامہ غلام حر شبیری
وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ جہانزیب جعفری نے کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی منیر خان اورکزئی ،رُکن صوبائی اسمبلی میاں جمشید الدین اور سندھ کے صوبائی وزیر مرتضیٰ بلوچ سمیت دیگر قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے خلاف مضبوط ڈھال کا کردار ادا کرنے والے طبی عملے اور ڈاکٹروں کا اس وبا سے متاثر ہونا تشویشناک ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرے۔کورونا وائرس آئے روز بڑی تعداد میں قمیتی جانوں کو نگل رہا ہے اگر اس پر قابو پانے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا تو ملک میں سنگین المیہ جنم لے سکتا جس کے ہم کسی طور متحمل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے خلاف جنگ اجتماعی طور پر لڑ کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔ عوام کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔حکومت کی جانب سے جاری ہدایات اور ایس او پیز پر عمل وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں معاون ثابت ہو گا۔عوام اس سلسلے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔ انہوں نے مرحومین کی بلندی درجات اور اہل خانہ کے لیے صبر کی دعا کی ہے۔
وحدت نیوز(گلگت)حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے گلگت شہر میں کرونا خطرناک حد تک پھیل چکا ہے ۔ محکمہ صحت کے مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں پرونشل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ڈاکٹرز،پیرامیڈیکل سٹاف کے ساتھ ساتھ دیگر مریض بھی رسک پر ہیں ۔ کرونا کے مریضوں کیلئے بنائے گئے ہسپتالوں کو مزید فعال کرکے مشتبہ مریضوں کی بھی ان ہسپتالوں میں علاج معالجے کو یقینی بنایاجائے ۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ جس تیزی کے ساتھ گلگت بلتستان میں کرونا پھیل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ حکومت نے اپنی ذمہ داری کو عوام کے رحم وکرم پر چھوڑا ہے ۔ گلگت بلتستان حکومت کی کرونا ٹیسٹنگ میں سست رفتاری کے نتیجے میں کرونا کا پھیلاءو خطرناک حد پہنچ چکا ہے ۔ مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ رپورٹ آنے تک کرونا سے متاثر فرد کئی لوگوں کو کرونا ٹرانسفر کرچکا ہوتاہے ۔ مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ رپورٹ آنے کا انتظار کئے بغیر کرونٹائن کرکے دوسروں کو متاثر ہونے سے بچایا جاسکتا ہے لیکن نہ جانے حکومت عوام کو کس چیز کی سزا دے رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مشتبہ مریضوں کو جنرل ہسپتالوں سے دور رکھا جائے لیکن محکمہ صحت ہسپتالوں کو ضروری سازوسامان کی فراہمی اور انتظامی معاملات کو درست انداز میں چلانے سے قاصرہے ۔ کرونا میں مبتلا مشتبہ مریضوں کو جنرل وارڈ اور ونٹی لیٹرز میں رکھا جارہا ہے جس کی وجہ سے پیرامیڈیکل سٹاف اور ڈاکٹرز بھی تیزی سے کرونا میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بہتر حکمت عملی سے کرونا کے پھیلاءو کو نہ روکا گیا تو صورتحال خطرناک حد تک جاسکتی ہے ۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ اس حساس مسئلے کو سنجیدہ لیکر کوئی مناسب حل نکالے ۔ انہوں نے عوام الناس سے اپیل کی وہ افواہوں کی زد میں آکر اس خطرناک بیماری کو ہلکا نہ لیں اور اپنی جان کی حفاظت کو یقینی بنائیں ۔