آئمہ کي زندگي ميں سياسي جدوجہد کا عنصر۔۔خطابات ولی فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
آئمہ عليہم السلام کي زندگي کو ہميں درس حيات اور اسوہ عمل کے طور پر ديکھنا چاہئيے ، يہ مناسب نہيں کہ ہم صرف ايک شاندار قابل فخر يادگار کے عنوان سے اس کا مطالعہ کريں۔ يہ چيز اسي وقت ممکن ہے جب ان عظيم ہستيوں کي سياسي روش اور ان کے طريقہ کار پر بھي توجہ ديں۔
جہاں تک ميرا اپنا تعلق ہے مجھے آئمہ عليہم السلام کي زندگي کے اس رُخ نے خاص طور پر متاثر کيا ہے اور ميں اس حقيقت کے اظہار ميں کوئي مضائقہ نہيں سمجھتا کہ ميرے ذہن ميں يہ خيال ١٩٧١ کے سخت ترين امتحان و آلام کے ايام ميں پيدا ہوا۔ اگرچہ اس سے قبل بھي اعلائے کلمہ توحيد اور استقرار حکومت الہي کے سلسلہ ميں آئمہ کا مجاہدانہ کردار اور ان کي قربانياں و فداکارياں ميرے پيش نظر تھيں۔ پھر بھي وہ نکتہ جو اس دور ميں ناگہاني طور پر ميرے ذہن ميں روشن ہوا وہ يہ تھا کہيں ان بزرگواروں کي زندگي (اس ظاہري تفاوت کے باوجود جس کو ديکھ کر بعض لوگوں نے ان کے کردار ميں تضاد کا گمان کيا ہے(دراصل مجموعي طور پر ايک مسلسل طولاني تحريک ہے جو ١١ھ سے شروع ہو کر دو سو پچاس سال تک مسلسل جاري رہي اور ٢٦٠ ھ ميں جو غيبت صغريٰ کے شروع ہونے کا سال ہے ختم ہوئي۔ يہ تمام ہستياں ايک ہي زنجير کي کڑياں ہيں، ايک ہي شخصيت ہيں اور اس ميں کوئي شک نہيں کيا جاسکتا کہ ان سب کا راستہ اور مقصد ايک ہي ہے۔ پس امام حسن مجتبيٰ ٴامام حسين ٴ سيد الشہدا اور امام سجاد زين العابدين ٴ کي زندگيوں کا عليحدہ عليحدہ جائزہ لينے اور پھر لا محالہ اس خطرناک غلط فہمي کا شکار ہوجانے کے بجائے کہ ان تينوں آئمہ کي زندگيوں کا بظاہر باہمي فرق ان ميں ٹکراو اور تضاد کي نشاندہی کرتا ہے ہميں چاہئيے کہ ان سب کي زندگيوں کو ملا کر ايک ايسے انسان کي زندگي فرض کريں جس نے دو سو پچاس سال کي عمر پائی ہو اور جو ١١ ھ سے لے کر ٢٦٠ ھ تک ايک ہي منزل کي سمت مسلسل طور پر گامزن رہا ہو۔ اس طرح اس عظيم اور معصوم زندگي کا ايک ايک عمل قابل فہم اور لائق توجيہہ ہوجائے گا۔
ہر وہ انسان جو عقل و حکمت سے مالا مال ہوگا، چاہے وہ معصوم نہ بھی ہو، جب وہ اتنی طويل مدت طے کرے گا تو حتمی طور پر وقت اور حالات کے تحت مناسب حکمت عملي اختيار کرے گا۔ ممکن ہے وہ کبھي تيز رفتاري کو ضروري سمجھے اور شايد کبھي سست رفتاري ميں مصلحت جانے، حتيٰ ممکن ہے کبھي وہ کسي حکيمانہ تقاضے کے تحت پسپائي بھي اختيار کرے۔ ظاہر ہے وہ لوگ جو اس کے علم و حکمت اور ہدف و مقصد کے بارے ميں علم رکھتے ہيں اس کي عقب نشيني کو بھي پيش قدمي شمار کريں گے۔ اس نکتہ نظر سے اميرالمومنين علي ابن ابي طالب ٴ کي زندگي امام حسن مجتبی کي زندگي کے ساتھ اور ان کي زندگي سيد الشہدائ امام حسين ٴ کي زندگي کے ساتھ اور آپ ٴ کي زندگی ديگر آٹھ آئمہ کي زندگيوں کے ساتھ ٢٦٠ ھ تک ايک مسلسل تحريک کہی جاسکتي ہے۔
يہ وہ خيال تھا جس کي طرف ميں اس سال متوجہ ہوا اور پھر اسي نکتہ کے ہمراہ ميں نے ان عظيم ہستيوں کي زندگيوں کا مطالعہ شروع کيا اور جيسے جيسے ميں آگے بڑھتا رہا ميري اس فکر کو تائيد حاصل ہوتي گئي۔
البتہ اس موضوع پر تفصيلي گفتگو ايک نشست ميں ممکن نہيں ہے ليکن اس حقيقت کے پيش نظر کہ پيغمبر اسلام ۰ کي ذريت طاہرہ يعني آئمہ معصومين کي پوري زندگي ايک خاص سياسي موقف کے ہمراہ رہی ہے، بنابر ايں يہ اس قابل ہے کہ اس (سياسي موقف (کو جداگانہ طور پر مستقل عنوان کي حيثيت سے زير بحث لا يا جائے۔لہذا ميں يہاں اس سلسلہ ميں مختصر طور پر کچھ عرض کرنے کي کوشش کروں گا۔
ميں گزشتہ سال اپنے پيغام ميں آئمہ طاہرين ٴ کي زندگي ميں گرم جدوجہد کي طرف اشارہ کرچکا ہوں، آج ذرا تفصيل سے اس کا جائزہ لينا چاہتا ہوں۔پہلي چيز يہ عرض کرنا ہے کہ سياسي جدوجہد يا گرم سياسي جدوجہد جسے ہم آئمہ کي جانب منسوب کررہے ہيں اس سے ہماري مراد کيا ہے؟
مراد ي يہ ہے کہ آئمہ ٴ کي مجاہدانہ کوششيں محض ايسي علمي ، اعتقادي اور کلامي نہ تھيں جس طرح کي کلامي تحريکوں کي مثاليں اس دور کي تاريخ اسلام ميں ملتي ہيں جيسے معتزلہ و اشاعرہ وغيرہ کي تحريکيں۔ آئمہ کي علمی نشستيں، درسي حلقے ، بيان حديث و نقل معارف اسلامي اور احکام فقہي کي تشريح و توضيح وغيرہ فقط اس لئے نہ تھے کہ علم فقہ يا علم کلام سے متعلق اپنے مکتب فکر کي حقانيت ثابت کردي جائے بلکہ آئمہ کے مقاصد اس سے کہيں بلند تھے۔
اسي طرح يہ اس قسم کا مصلحانہ قيام بھي نہ تھا جيسا کہ جناب زيد شہيد اور ان کے بعد ان کے ورثا يا بني الحسن ٴ کے دوران نظر آتا ہے۔ حضرات آئمہ ٴ نے اس قسم کا کوئي مبارزہ نہيں کيا۔ البتہ اسي مقام پر يہ اشارہ کرديناضروري ہے (اگر ممکن ہوا تو بعد ميں تفصيل پيش کروں گ( کہ آئمہ معصومين ٴ نے قيام کرنے والے ان تمام لوگوں کي بطور مطلق مخالفت بھي نہيں کي، اگرچہ بعض کي مخالفت بھي کي ہے۔ البتہ اس مخالفت کا سبب ان کا مصلحانہ قيام کرنا نہيں تھا بلکہ کچھ اور دوسري وجوہات تھيں۔ بعض کي بھرپور تائيد بھي کي ہے بلکہ بعض ميں پشت پناہی اور مدد کے ذريعہ شرکت بھي کي ہے۔ اس سلسلہ ميں امام جعفر صادق ٴ کي يہ حديث قابل توجہ ہے، آپ ٴ فرماتے ہيں:
’’ لوددت ان الخارجي يخرج من آل محمد و علي نفقہ عيالہ۔‘‘
’’ مجھے يہ پسند ہے کہ آلِ محمد ۰و علي ٴ ميں سے کوئی خروج کرنے والا قيام کرے اور ميں اس کے اہل و عيال کے اخراجات کا کفيل بنوں۔‘‘
اس (کفالت و ذمہ داري( ميں مالي امداد، آبرو کي حفاظت ، مخفي جائے تحفظ مہيا کرنا يا اسي طرح کي دوسري مدد بھي شامل ہے۔ ليکن جہاں تک ميري نظر جاتي ہے، آئمہ نے بہ نفس نفيس خود امام وقت کي حيثيت سے مصلحانہ قيام ميں کبھي شرکت نہيں کي۔
چنانچہ آئمہ عليہم السلام کي گرم سياسي جدوجہد سے مراد نہ تو وہ مذکورہ پہلی علمی جدوجہدکي صورت ہے اور نہ ہی يہ دوسري نوعيت کا مصلحانہ قيام بلکہ اس سے مراد ايک سياسي ہدف اور مقصد کے تحت جدوجہد ہے۔۔۔۔ (جاری ہے