وحدت نیوز(آرٹیکل)مجلس وحدت مسلمین کو بنے ہوئے ایک دھائی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، اگر اس تنظیم کی کارکردگائی کا منصفانہ جائزہ لیا جائے، تو یہ کہنا بے جاہ نہیں ہوگا، کہ ملکی سطح پر اب تک مجلس نے کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اٹھایا، جس سے ملک کی ساکھ، قومی مفادات اور سلامتی کو کوئی نقصان پہنچے، اس کی وجہ یہ ہے، کہ اس تنظیم کی بنیادی ترجیحات میں قوم وملت کی ترقی اور سلامتی شامل ہے، کیونکہ یہ تنظیم مادر ملت سے محبت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی ہے۔
اگر ملت کی حد تک دیکھا جائے، تو آپ مجلس کی گیارہ سالہ تاریخ میں کوئی بھی ایسا اقدام نہیں دیکھیں گے، جس سے اندرونی سطح پر کوئی خلفشار پیدا ہوا ہو، یا کسی جگہ مجلس دوریوں، نفرتوں اور تفرقے کا سبب بنی ہو، مجلس کی قیادت اور اس سے وابسطہ افراد کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے، کہ دوریاں ختم ہوں، قربتوں کو رواج دیا جائے، اختلاف کا سامنا حسن تحمل کے ساتھ ہو، اور کسی سے الجھاؤ کی کوئی صورت حال پیدا نہ ہو۔ یہ مجلس کے حوالے سے ایک کھلی حقیقت ہے، جس سے انکار شاید زیادتی کے سوا کچھ نہ ہو۔
سیاسی جدوجہد جو ایک مہذب معاشرے کی علامت اور دینی فریضہ ہے، اس اعتبار سے بھی مجلس کی کاوشیں قابل قدر ہیں، گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں مجلس سے وابسطہ افراد کی انتھک محنتوں کی وجہ سے پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں وہاں وہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں، جس کا وہ خواب دیکھ رہی تھیں، اس بات کی ایک واضح دلیل یہ ہے، کہ پیپلز پارٹی کی جیت یقینی بنانے کے لئے بلاول نے وہاں ایک مہینہ خوب جدوجہد کی، سیاسی جلسے کئے، اور مختلف سیاسی، سماجی اور معاشرے کے سرکردہ اور با اثر افراد سے متعدد ملاقاتیں کیں، لیکن ان سب کوششوں کے باجود بھی پیپلز پارٹی گلگت بلتستان میں حکومت نہ بنا سکی، اس شکست کی بنیادی اور اہم وجہ مجلس کی بہترین سیاسی جدوجہد اور وہاں پر تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ہے، اور اس بات کو پیپلز پارٹی کے رہنما بھی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
دوسری جانب گذشتہ مہینے سانحہ مچھ کے بعد مجلس وحدت کا مدبرانہ اور حکیمانہ رد عمل پاکستان دشمن قوتوں کے لئے بہت ہی حیران کن اور تشویشناک تھا، کیونکہ منظم اور پر امن دھرنے دے کر جہاں مجلس نے کوئٹہ کے مظلوموں کی آواز کو پوری دنیا تک پہنچایا اور دہشت گرد قوتوں کو یہ پیغام دیا، کہ مجلس ہمیشہ ملک دشمن اور انسانیت پر مظالم ڈھانے والوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی نظر آئی گی، وہیں ان دھرنوں میں کسی بھی جگہ حالیہ حکومت کے گرنے کا مطالبہ نہیں ہوا، یہ ایک ایسا دانشمندانہ اقدام تھا، جس نے دوست سے پہلے دشمن کو حیران کر دیا، کیونکہ مجلس کی قیادت یہ سمجھتی ہے، کہ پاکستان دشمن قوتیں عمران خان کی حکومت کو پسند نہیں کرتیں، اور حالیہ وقت میں اس حکومت کا گرنا دشمن کی ایک اہم چال کی کامیابی ہے، اور مجلس کوئی بھی ایسا اقدام نہیں اٹھاتی، جس کے نتیجے میں وہ ملک دشمن منصوبے کا حصہ بنے، اور ملک مزید خلفشار کا شکار ہو، یہ وہ بات تھی جس کو اس وقت کئی افراد نہ سمجھ سکے، البتہ وقت یہ ضرور بتائے گا، کہ مجلس کا یہ فیصلہ جہاں زمینی حقائق کے عین مطابق تھا، وہاں ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں ایک دانشمندانہ اقدام تھا۔
مجلس وحدت مسلمین کی ان پے درپے کامیابیوں اور ملک و ملت کے مفاد میں اس ابھرتی ہوئی قوت میں جہاں مجلس سے وابستہ کارکنوں کی شبانہ روز محنت کا عمل دخل ہے، وہیں ان سب چیزوں میں مجلس کی قیادت کا بنیادی کردار رہا ہے، ایک ایسی قیادت جو جہاں عالمی حالت پر گہری نظر رکھتی ہے، اور عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف اٹھنے والی سازشوں سے آگاہی رکھتی ہے، وہاں حکمت و بصیرت اور شجاعت اور بہادری جیسی عظیم نعمتوں سے بھی مالا مال ہے، یہی حکمت و بصیرت اور صبر و تحمل سبب ہے، کہ کبھی بھی مجلس داخلی سطح پر الجھاؤ کا شکار نہ ہوئی، اور اسی شجاعت اور بہادری کے سبب مجلس نے ہمیشہ ملت کے حقوق کا دفاع کیا ہے، چاہے وہ عزاداری کا مسئلہ ہو، یا لاپتہ افراد کی بات ہو، یا کوئی اور مسائل ہوں۔
اب چونکہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں ایک پر امن سیاسی اور اجتماعی قوت کے طور پر پہچانی جاتی ہے، تو یہ بات جہاں پاکستانی حکومت کے لئے واضح ہے، وہیں ملک دشمن طاقتیں بھی اس امر سے خوب واقف ہیں، یہی وجہ ہے، کہ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ گلگت بلتستان کی کامیابی اور سانحہ مچھ کے بعد پر امن اور منظم دھرنوں کے بعد کہیں نہ کہیں یہ سوچا جا رہا ہو، اور یہ سازش پنپ رہی ہو، کہ اب مجلس کی طاقت کو توڑا جائے، اس کو اندر سے کمزور کیا جائے، اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کرکے رائے عامہ میں اس کی ساکھ کو خراب کیا جائے، تاکہ نہ تو یہ ملکی سطح پر کوئی ایسا کردار ادا کر سکے، جس سے مادر ملت کو فائدہ ہو، اور نہ ہی اپنی ملت کے حقوق کے دفاع میں آواز بلند کر سکے، اور یہ احتمال بھی بعید نہیں کہ ان سازشوں میں کہیں نہ کہیں پیپلز پارٹی کا کردار ہو، کیونکہ پیپلز پارٹی شروع سے سمجھتی آرہی ہے، کہ شیعہ ووٹ بنک اسی پارٹی کا ہے، لہذا وہ ہر اس جماعت کو اپنا حریف سمجھتی ہے جو اس ووٹ بنک کو اپنے صحیح سیاق و سباق میں واپس لانے کی کوشش کرے، ماضی قریب میں پیپلز پارٹی کا رد عمل اس پر کھلی دلیل ہے۔ اور یہ بھی بعید نہیں ہے، کہ مجلس وحدت مسلمین کو کمزور کرنے کی کوششوں کا آغاز سندھ سے ہو، کیونکہ وہ صوبہ ہمیشہ سے اسی پارٹی کے زیر اثر رہا ہے، کسی اور جگہ بھی یہ کوششیں ہو سکتی ہیں، لیکن سندھ کی سرزمین شاید زیادہ کار آمد ہو۔
لیکن ایک بات تو طے ہے، کہ اجتماعی جدوجہد کی خاطر جتنی بھی تحریکیں اٹھی ہیں، آپ ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کہیں پر یہ نہیں ملتا، کہ ہر آدمی جو کسی بھی تحریک سے کبھی جوڑ گیا، وہ آخری منزل تک اس کے ساتھ رہا، کچھ لوگ ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں، اور یہ صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس تحریک کے نظریے کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں، اور اخلاص نیت کے ساتھ خدمت خلق کو اپنا انسانی اور شرعی فریضہ سمجھتے ہیں، اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو کسی منزل پر تحریک کے قافلے سے خوبخود جدا ہو جاتے ہیں،
اور جدا ہونے والے افراد میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جدا ہونے سے اس تحریک کو کوئی نقصان ہوگا، حالانکہ یہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ جب بھی کوئی بھی تحریک کسی مخلص قیادت کے ہاتھ میں ہو، اس سے جدا ہونے والے افراد ایسی تحریک کے لئے نقصان کا باعث نہیں بنتے، بلکہ وہ افراد خود اپنا نقصان کر بیٹھتے ہیں، اس کی مثال بالکل موج جیسی ہے، موج چاہے کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، اس کی طاقت کا راز یہ ہے کہ وہ سمندر سے متصل ہوتی ہے، مرکز سے جوڑی رہتی ہے، لہذا جہاں بھی کوئی موج سمندر سے جدا ہوئی، اس کی ساری طاقت ختم ہو جاتی ہے، البتہ سمندر کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ اس موج کے بدلے کوئی نئی موج آجاتی ہے۔
اس خوبصورت اور لازوال حقیقت کو شاعر مشرق نے ان دو مصرعوں میں بیان کیا ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں
لہذا یہ ایک کھلی حقیقت ہے، کہ اس وقت مجلس ایک ابھرتی ہوئی قوت بن چکی ہے، ایسی قوت جو پاکستان میں رنگ و نسل اور دین و مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر مظلوموں کے حقوق کی جنگ کو اپنا انسانی اور شرعی فریضہ سمجھتی ہے، اور اس کی قیادت اس وقت مخلص، با بصیرت، شجاع اور بہادر ہاتھوں میں ہے، اس کی اجتماعی اور سیاسی جدوجہد کا سفر جاری ہے، جو بحکم خدا کامیابی سے ہمکنار ہوگا، اور اپنی منزل پر پہنچے گا، لہذا ہم سب کی یہ ذمداری ہے، کہ ہم اپنی حیثیت کے مطابق اس تحریک کا ساتھ دیں، اسے مزید قوت دینے میں اپنا کردار ادا کریں، اور جہاں بھی کوئی غلطی، کوتاہی یا کمی نظر ائے، اس کو اچھالنے کے بجائے اس کی اصلاح کی کوشش کریں، کیونکہ غلطی کا امکان ہر جگہ موجود ہے، البتہ اس کا علاج شور شرابے یا تخریب میں نہیں، بلکہ خاموش کے ساتھ اصلاح میں ہے، کیونکہ شور شرابہ، پروپینگڈا اور تخریب خود ایک غلطی ہے۔
تحریر: محمد اشفاق
15 فروری 2021
دمشق