اصول کافی کی کتاب الحجۃ اور دیگر کتب احادیث میں کثرت کے ساتھ ایسی روایات ذکر ہوئیں ہیں جن میں امامت اور ولایت کا تعارف کروایا گیا ہے اور امامت اور ولایت کی منزلت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح کی روایات پانچویں اور چھٹے امام سے نقل ہوئیں ہیں۔ان احادیث میں سے ایک روایت کی لفظیں یہ ہیں کہ معصوم ارشاد فرماتے ہیں:
{بنی الاسلام علی الخمس الصلواۃ و الزکاہ والصوم والحج والولایۃ وما نودی فی الاسلام بشی کما نودی بالولایۃ}
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے یعنی اسلام کے پانچ رکن ہیں۔ بعبارت دیگر اسلام کے پانچ ستون ہیں، نماز، زکواۃ، روزہ حج اور ولایت۔ معصوم ارشاد فرماتے ہیں ، اسلام میں جتنی ندا ولایت کے لئے دی گئی ہے اتنی کسی شی کے لئے نہیں دی گئی۔ اسلام میں جتنا ولایت کی طرف پکارا گیا ہے، ولایت کی طرف بلایا گیا ہے ، ولایت کی طرف دعوت دی گئی ہے ، اتنی کسی شی کی طرف دعوت نہیں دی گئی۔
بنا برایں، ولایت، اسلام کے اساسی اور بنیادی ارکان میں سے ہے جس پر دو پہلووں سے گفتگو ہوگی۔
1 . ولایت کی اہمیت
2 . ولایت کا معنی اور مفہوم
گفتگو کا پہلا پہلو یہ ہے ولایت کی اسلام میں بہت اہمیت ہے، ہمارے تمام کے تمام علماء نے عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر انسان کا اہل بیت علیہ السلام کی ولایت پر ایمان نہ ہو خدا اس کی عبادات قبول نہیں کرتا۔ پانچویں امام سے پوچھا گیا کہ مولاقرآن پاک اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے
{ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم } تم سے نعمت کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔
اس آیت میں {لتسئلنّ} کے ابتداء میں ’’لام‘‘ اور انتہاء میں ’’ نون شد کے ساتھ‘‘ تاکید کے لئے ہے یعنی قیامت کے دن تم سے نعمت کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ معصوم سے پوچھا گیا مولا یہ کس نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ امام نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں؟ پوچھنے والے نے کہا مولا لوگ یہ کہتے ہیں اللہ نے انسان کو جو پیسے دئے ہیں، چیزیں دی ہیں اس کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے کہاں خرچ کیا ، کیسا خرچ کیا ہے ، کیا کھایا ہے کیا پیا ہے ۔ امام نے کہا یہ تو کوئی عام سخی مانگنے والے کو دے دے تو نہیں پوچھتا کہ تو نے کہا ںخرچ کیا ہے ، اللہ تو سخیوں کا خالق ہے وہ پیسوں کے بارے میں نہیں پوچھے گا جس نعمت کے بارے میں سوال کرے گا وہ ہماری ولایت ہے ۔ ضروربہ ضرور تم سے پوچھا جائے گا{ عن النعیم }نعمت کے بارے میں اور وہ نعمت ہماری ولایت ہے ۔ {وقفوہم انّھم المسئولون} انہیں روکو، ٹہراؤ ، ان سے ہم نے پوچھنا ہے۔ بنا بریں،جب تلک لوگ ولایت کے باب میں امتحان میں کامیاب نہیں ہونگے ، کبھی بہشت تک نہیں جا سکتے۔اسلام میں ولایت کی بڑی اہمیت ہے یہاں تک آپ نے کثرت سے اس آیت کو سنا ہے کہ جب اللہ کے بنی ﷺ اپنی آخری حج کر کے آرہے تھے، وحی نازل ہوئی :{یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ}
اے میرے رسول ، پہنچا دے جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے تیرے رب کی طرف کی سے اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو گویا تو نے اللہ کی رسالت کو انجام ہی نہیں دیا ۔
اللہ کے کئی اسماء ہیں جیسے رحمن، رحیم ،قہار، جبار، عزیز، حکیم، غفار ، علیم ، قدیر ، مہیمن ، ودود ، حمید ، رازق، خالق۔۔۔ ہر اسم کا ایک خاص اثر ہے وہ رازق کی حیثیت سے رزق دیتا ہے ، خالق کی حیثیت سے خلق کرتا ہے رحمن اور رحیم کی حیثیت سے نعمتیں نازل کرتا ہے ، عزیز کی حیثیت سے عزت دیتا ہے ، حکیم کی حیثیت سے حکمت دیتا ہے، غفار کی حیثیت سے بخش دیتا ہے ، قہار کی حیثیت سے عذاب نازل کرتا ہے ، اسی طرح رب کی حیثیت سے وہ اس کائنات کو نظام دیتا ہے۔ کائنات کو سسـٹم دیتا ہے ، کائنات کو قانون دیتا ہے، ضابطے دیتا ہے ، یہ حکم رب کی طرف سے بنازل ہوا ہے اور خداوند، رب کی حیثیت سے کائنات کی پرورش کرتا ہے ، رب کی حیثیت سے ایسا نظام اور سسٹم دیتا ہے کہ دانہ کونپل بنے، کونپل تناول درخت بن جائے، رب کی حیثیت سے ایسا نظام دیتا ہے ہوائیں چلیں، بادل آئے، برسیں سبزہ ہو ہریالی ہو ، پانی میں روانی ہو کائنات کا نظام چلے، سورج اپنی جگہ پر زمین اپنی جگہ پر ، ہر شی اپنی جگہ پر رہے۔ خداوند ان تمام امور کو یہ رب کی حیثیت سے انجام دیتا ہے، رب کی حیثیت سے وحی بھیجتا ہے ، انبیاء بھیجتا ہے ، شریعتیں بھیجتا ہے، قوانین بھیجتا ہے تاکہ انسانوں کی پرورش ہو ،کائنات کی پرورش ہو ، انسان کمال کو پہنچے ، ہر شیء کمال کو پہنچے ۔
فرعون نے یہ بھی کہا تھا کہ میں تمہار خالق ہوں ، اس نے کہا تھا {انا ربکم الاعلی} تمہارا رب میں فرعون ہوں، یعنی قانون میرا ہو گا، نظام میرا ہو گا، سسٹم میرا ہو گا ، حکم میرا چلے گا۔ فرعون نے ربوبیت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا میں تمہارا رب ہوں۔ اس آیت مبارکہ میں خداوند تبارک و تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے:
{بلغ ما انزل الیک من ربک}
وہ چیز ، وہ حکم جو تیرے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اسے پہنچا دو، معلوم ہوتا ہے حکم ایسا ہے جس کا تعلق کائنات کے نظام سے ہے، اس عالم تکوین اور تشریع کی تربیت کے ساتھ ہے اسے کمال تک پہنچانے کے لئے ہے۔ بعبارت دیگر اس حکم کا تعلق ربوبیت کے ساتھ ہے۔
{و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ}
اگر تو نے یہ کام نہیں کیا تو گویا تو نے رسالت کو انجام ہی نہیں دیا۔
{واللہ یعصمک من الناس}
اللہ تجھے لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔
معلوم ہوتا ہے حکم بھی ایسا ہے کہ ممکن ہے لوگوں کو تکلیف پہنچے۔
استاد جوادی آملی کے نکات اور جملے اس منزل پر نہایت ہی غور طلب ہیں، اگر تو نے یہ نہیں کیا توگویا تو نے کار رسالت انجام نہیں دیا۔ کار رسالت کیا تھا؟
لوگوں تک اصول دین پہنچانا، فروع دین پہنچانا، اخلاقیات کا نظام پہنچانا، میراث کے احکام، طلاق کے احکام، زکواۃ کے احکام، حدود، دیات، قصاص سارے احکام کار رسالت تھے۔ لوگوں کو یہ بتلانا کہ لا الہ الا اللہ یہ بھی کار رسالت تھا، حتی یہ بتلانا کہ محمدکون ہوں، اللہ کا رسول ہوں، یہ بھی کار رسالت تھا،{ اقیموا الصلواۃ }کہنا، { آتوا الزکواۃ }کہنا،{ کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم} کہنا، {للہ علی الناس حج البیت من استطاع علیہ سبیلا}کہنا، یہ سب کچھ کہنا کار رسالت تھا، اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو گویا تو نے کار رسالت انجام نہیں دیا، یعنی اگر تو نے { علی ولی اللہ} کا اعلان نہ کیا تو نہ تو نے {لا الہ الا اللہ }کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی {محمد رسول اللہ }کا اعلان کیا ہے۔
حدیث معروف ہے ، آیت اللہ دستغیب نے بھی نقل کی ہے، اور علماء نے بھی نقل کی ہے، قرآن کی آیات بھی حدیث کی تائید میں ہے:
{ ان الحسنات یذہبن السئیات}
نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔
آیت اللہ دستغیب نے یہ روایت نقل کی ہے کہ مولا علی کا نام آنکھوں سے پڑھنا ایسی نیکی ہے خدا آنکھ کے گناہ بخش دیتا ہے ، مولا علی کا نام کان سے سنا یہ ایسی نیکی ہے کہ خدا کانوں کو طہارت دیتا ہے، مولا علی کا نام ہاتھ سے لکھنا یہ ایسی نیکی ہے کہ خدا ہاتھ کے گناہ بخش دیتا ہے، اگر دل میں نام علی اور یاد علی ہو تو خدا دل کو پاکیزہ کر دیتا ہے، اور اگر زبان پر ذکر علی ہو تو خدا زبان کو طہارت دے دیتا ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی کہتے ہیں اگر تو نے علی ولی اللہ کا اعلان نہ کیا تو گویا تو نے کار رسالت انجام نہیں دیا، نہ تو نے{ لا الہ الا اللہ }کہا ہے نہ تو نے محمد رسول اللہ کہا ہے، نہ {کتب علیکم الصیام}کہا ہے، نہ{اقیمواالصلواہ}کہا ہے، نہ {آتواالزکواۃ}کہا ہے، نہ {للہ علی الناس حج البیت} کہا ہے یعنی اگر تو نے یہ ولایت کا اعلان نہ کیا تو گویا تو نے کار رسالت انجام دیا ہی نہیںہے اور جب اعلان ہو گیا تو پھر آیت نازل ہو گئی:
{ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیم نعمتی}
آج دین کامل ہو گیا ہے اور نعمتیں تمام ہوئیں ہیں۔ اگر دین میں ولایت نہ ہو وہ کامل دین نہیں ہے۔خداوند قرآن میں کہتا ہے:
{ وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوا ھا}
اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا شروع کردو تم اس کا شمار نہیں کرسکتے۔ نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں مولا علی علیہ السلام نے کہا ہے: {ولا یحصی نعمائھا العادون}
العادون کا معنی ہے سارے گننے والے،مولا علی علیہ السلام کہتے ہیں اگر سارے گننے والے جو گن سکتے ہیں ، شمار کر سکتے ہیں، گننا شروع کر دیں، اللہ کی نعمتوں کا شمار نہیں کرسکتے، یہ ساری نعمتیں ہوں اور علی کی ولایت کی نعمت نہ ہو، یہ تمام نعمتیں نہیں ہیںبلکہ ناقص ہیں۔ ولایت کے بغیر جو بھی نعمت ہو ایسی ہی ہے جیسے روح کے بغیر بدن، جب نعمت ولایت آگئی نعمتیں تمام ہوئیں۔ پھر آیت نازل ہوتی ہے:
{ و رضیت لکم الاسلام دینا}
آج میں نے اسلام کو تمہارے لیے دین کے طور پر پسند کیاہے، جس اسلام اور دین میں ولایت علی اور اہل بیت علیہم السلام نہ ہو اللہ کا پسندیدہ دین نہیں ہے، وہ بش کا پسندیدہ دین ہوسکتا ہے، ڈیوڈ کیمرون کا پسندیدہ دین ہو سکتا ہے، نتن یاہو کا پسندیدہ دین ہوسکتا ہے، وہ کنگ عبداللہ کا پسندیدہ دین ہوسکتا ہے، وہ ظالموں کا پسندیدہ دین ہو سکتا ہے، لیکن جس میں ولایت نہ ہو اللہ کا پسندیدہ دین نہیں ہوسکتا۔