وحدت نیوز(آرٹیکل) شھید قائد عارف حسین الحسینی اکیسویں صدی کی عظیم شخصیت، مجدد اسلام اور پاکستان کی سرزمین میں ایک عظیم الہیٰ نعمت تھے آپ کا اخلاق، آپکی دعا ومناجات، آپکی شجاعت، بصیرت اور زمانہ شناسی ہر زبان پر زد عام ہے۔
مکتب اسلام کے مبلغ اور قائد ہونے کے ناطے آپ نے تمام شعبوں میں اسلامیان پاکستان کی رہنمائی کی۔
ان میں سے ایک اہم طرح شعبہ اور میدان سیاست کا تھا میدان سیاست میں آپ نے حجت شرعی ،فقیہ زمان امام خمینی رہ کے نمائندے ہونے کے ناطے اپنے قول فعل اور عمل سے عملی سیاست میں رہنمائی فرماکر لوگوں کو یہ باور کرایا کہ دین سیاست سے جدا نہیں ہے اور جو امام وامت کے نام پر جمہوری سیاسی نظام کو طاغوت کفر اور شرک قرار دیتے ہیں انہیں بھی بتایا کہ اسلامی جمہوریت کےلئے کوشش کرنا اور پاکستان کے موجودہ سیاسی سسٹم میں رول پلے کرنا عصری ضرورت ہے۔
قول کے اعتبار سے قرآن وسنت کانفرنس لاہور سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں منعقدہ کانفرنسز میں سیاسی طور پر انتخابات میں شرکت کا اعلان اور سیاسی ویژن کی تشریح ان لوگوں کےلئے جو قائد شھید کو رھبر اور قائد ماننے کے باوجود مقام عمل میں اپنی خود ساختہ تشریح کرتے ہیں سوالیہ نشان ہے اور مقام عبرت ہے۔
فعل اور عمل کے حوالے سے بھی قائد شھید نے عملی طور پر انتخابات میں شرکت کا اعلان کیا اور امت کی بھرپور رہنمائی کی اسی طرح تقریر کے عنوان سے بھی قائد شھید نے تمام تر سیاسی اکٹیوٹیز کی تائید کی اور بوقت ضرورت رہنمائی فرمائی۔
لہذا پاکستان کے محاذ میں مراجع عظام ،مجتھدین کرام جو دین مبین اسلام کے ترجمان ہیں۔ انکے نمائندے اور وکیل قائد شھید کی سیرت انکے اقوال ،افعال اور ویژن ہمارے لئے حجت اور آئیڈیل ہے۔
ہم ذیل میں پاکستان میں جمہوریت، انتخابات میں مشارکت اور انتخابات میں دیگر جماعتوں کیساتھ الحاق کے سلسلہ میں شھید قائد کے افکار ونظریات پر بات کرتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت:
پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے شھید قائد کے افکار بالکل واضح ہیں:
شہید عارف حسین الحسینی نے قرآن و سنت کانفرنسوں میں جمہوریت کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے اس کے چند اقتباسات کا مطالعہ فرمائیں:1۔ پاکستان بنانے والوں کے تین بڑے مقاصد بیان کرتے ہوئے شہید فرماتے ہیں: ان کا تیسرا مقصد یہ تھا کہ اس ملک میں جو بھی اقتدار میں آئے، بادشاہت، ڈکٹیٹرشپ کے عنوان سے نہیں بلکہ جمہوری طریقے سے آئے۔ پوری قوم کا نمائندہ بن کر حکومت کے تخت پر پہنچے۔ ان کا مقصد اسلامی نظام تھا اور ایسے قوانین کا نفاذ تھا جو قرآن و سنت سے لئے گئے ہوں۔۔۔۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بزرگ قائدین کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہو اور جو بھی اقتدار میں آئے عوام سے منتخب ہو کر آئے لیکن آج تک ہم صحیح طور پر ان کا یہ مقصد پورا نہیں کر سکے۔ 2۔ علی (ع) نے دنیا کو بتایا کہ ایک اسلامی نظام کیسا ہوتا ہے؟ علی (ع) نے صحیح ڈیموکریسی کے خطوط واضح کئے۔ اگر غریبوں اور محروموں کا درد ہے تو صرف اور صرف علی (ع) کے سینے میں۔ 3۔ "جمہوری عمل ملک میں ختم ہو گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جہاں جمہوریت کو ملک میں نقصان پہنچا ہے وہاں ہماری ملکی معیشت بھی مارشل لاء سے متاثر ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک میں ایک نمائندہ جمہوری حکومت برسراقتدار نہیں آتی تب تک ہمارا ملک مستحکم نہیں ہوگا۔ ملکی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ جنرل ضیاء الحق فوری طور پر جماعتی بنیادوں پر 73 کے آئین کے تحت انتخابات کروائے۔ جو بھی پارٹی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائے وہ حکومت بنائے۔ ہمیں امید ہے کہ انشاءاللہ اگر صحیح طور پر غیر جانبدارانہ انتخابات ہوئے اور ایک نمائندہ حکومت آئی تو ملک کی معیشت پر بھی اس کے اچھے اثرات ہوں گے اور اس سے ملکی استحکام بھی پیدا ہوگا
انتخابات میں شرکت:
انتخابات میں شرکت قرآن و سنت کانفرنسوں میں شہید عارف حسین الحسینی (رہ) نے دین اور سیاست کے ارتباط پر روشنی ڈالی، آپ نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے عزم کا اظہار فرمایا اور جمہوریت کی حقیقت اور اس کے دشمنوں کی نشاندہی فرمائی۔ قرآن و سنت کانفرنسز اور ان کے بعد ہونے والے آپ کے انٹرویوز کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اسلامی نظام کو جمہوریت کے قالب میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ آپ پاکستان میں اسلام اور حقیقی جمہوریت کے اجراء کے لئے انتخابات کا راستہ اپنانا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں شہید عارف حسین الحسینی کے رہنما فرمودات ملاحظہ فرمائیں: 1۔ تحریک سیاسی جماعت نہیں ہے۔ مثلاً ان موجودہ جماعتوں کا جو کردار ہے ان جیسی نہیں ہے لیکن یہ سیاست میں ضرور حصہ لے گی کیونکہ دین اسلام میں سیاست جزو دین ہے جو دین سے جدا نہیں۔2۔ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے لیکن وسیع معنوں میں۔ ہمارے مقاصد اور اہداف صرف چار یا پانچ دینی مطالبات نہیں ہیں۔ وہ بھی ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ مکی مسائل میں اپنا کردار ادا کرنا، بین الاقوامی مسائل سے غافل نہ رہنا اور زندگی کے دیگر جو شعبے ہیں ان میں اپنا کردار ادا کرنا۔ 3۔ تحریک کے انتخابی منشور کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے گذشتہ 6 جولائی کو مینار پاکستان پر ایک منشور عوام کو دیا تھا۔ اس منشور میں نظام کے حوالے سے، اقتصاد کے حوالے سے، اور جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں، ان کے حوالے سے ہم نے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ اب مزید دوسرے منشور کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ اس میں کچھ ترامیم کرنی ہیں یا ان میں کچھ چیزیں زیادہ کرنی ہیں تو یہ ہم کر سکتے ہیں لیکن منشور جو ہم نے 6 جولائی کو مینار پاکستان پر دیا تھا ہمارا وہی منشور ہے۔ اس میں ہم نے ایک منشور کمیٹی بنائی تھی۔ انہوں نے قرآن و سنت اور مراجع عظام کے فتاویٰ کو مدنظر رکھ کر یہ منشور بنایا ہے۔
انتخابات میں دیگر جماعتوں کیساتھ الحاق:
انتخابات میں دوسری جماعتوں سے الحاق کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا:
آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہماری تحریک جو ایک مذہبی تنظیم ہے اور ہماری منزل مقصود اسلام ہے۔ ہم انتخابات کے حوالے سے کسی بھی پارٹی سے الحاق کر سکتے ہیں۔ البتہ ابھی ہم نے طے نہیں کیا ہے۔ ہمارا انتخاب کے حوالے سے اتحاد ہو سکتا ہے۔ کسی کے ساتھ ہم مدغم ہو جائیں یہ بالکل ممکن نہیں ہے۔ ہماری تحریک ایک مستقل، علیحدہ اور اپنا ایک منشور رکھتی ہے۔ اپنے اہداف و اغراض ہیں اور اپنے ادارات ہیں الحمدللہ۔ انشاءاللہ پورے ملک میں چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں، شمالی علاقہ جات میں ہماری بھرپور نمائندگی ہے۔ ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہماری جماعت ملک گیر جماعت ہے اور ہر جگہ پر لاکھوں کی تعداد میں عوام کی حمایت اس تحریک کو حاصل ہے۔ 5۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ایک خاص فقہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ کیا الیکشن میں یہ امید ہے کہ دوسرے لوگ بھی آپ کو ووٹ دیں گے تو آپ نے فرمایا:اس سلسلے میں یہ ہے کہ اصل مسئلہ منشور کا ہے۔ ٹھیک ہے ہماری تحریک کا نام "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ" ایک فقہ کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے لیکن جو ہمارا منشور ہے وہ ہم نے ملک کے لئے بنایا ہے اس میں اسلام کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس میں پاکستانی ہونے کے حوالے سے پاکستان کے شہریوں کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی ہمارا منشور دیکھ لے گا، خواہ وہ سنی ہو، خواہ وہ شیعہ ہو، خواہ وہ غیر مسلم ہو، اگر انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے مسائل تحریک کے پلیٹ فارم سے حل ہو سکتے ہیں تو وہ ضرور تحریک کو ووٹ دیں گے۔
خلاصہ: اس مختصر تحریر میں قائد شھید کے افکار کی روشنی میں ان برادران کو دعوت فکر دینے کی کوشش کی ہے کہ جو جمہوریت ، انتخابات میں مشارکت، اور دیگر جماعتوں کیساتھ الحاق کو غیر صحیح سمجھتے ہیں انکی خدمت میں گزارش ہے کہ پاکستان میں ملت تشیع کے حقیقی رھبر، فرزند خمینی، فرزند راستین اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کریں اور انکے افکار ونظریات کی روشنی میں ملت کی رہنمائی کریں۔
اسکے علاؤہ سیاسی حوالہ سے دیگر زاویوں کی تشریح کے لئے مندرجہ ذیل حوالہ جات پر تحقیق کریں
حوالہ جات
۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔ اسلوب سیاست صفحہ 84 (دیگر تمام حوالہ جات بھی اسی کتاب سے ہیں لہذا ان میں صرف صفحہ نمبر نقل کیا جائے گا) 2۔ص 65۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔
3۔ ص 69۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 4۔ ص 120۔ کراچی میں انٹرویو۔
5۔ ص 82۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔ 6۔ص 61۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 7۔ ص 62۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔ 8۔ ص 64۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔9۔ ص 162۔ 10۔ ص 348۔11۔ ص 65 و 66۔ قرآن و سنت کانفرنس لاہور۔12۔ ص 100۔ قرآن و سنت کانفرنس، ڈیرہ اسماعیل خان۔13۔ ص 74۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔
14۔ ص 346۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔15۔ ص 105 و 106۔ قرآن و سنت کانفرنس، ڈیرہ اسماعیل خان۔16۔ ص 324۔17۔ ص 162۔ قرآن و سنت کانفرنس چنیوٹ۔ 18۔ ص 123۔ کراچی میں انٹرویو۔19۔ ص 119۔ کراچی میں انٹرویو۔20۔ ص 348 و 349۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔ 21۔ ص 337۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔ 22۔ ص 338۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔23۔ ص 121۔ کراچی میں انٹرویو۔24۔ ص 349۔ شہید کی آخری پریس کانفرنس۔25۔ ص 94۔ قرآن و سنت کانفرنس فیصل آباد۔ 26۔ ص 90۔ قرآن و سنت کانفرنس فیصل آباد۔27۔ ص 80۔ قرآن و سنت کانفرنس ملتان۔28۔ ص 162۔ قرآن و سنت کانفرنس چنیوٹ۔
تحریر: محمدجان حیدری
معاون سیکریٹری تربیت مجلس وحدت مسلمین پاکستان۔