وحدت نیوز(رپورٹ عدیل زیدی) پاراچنار کو ملک میں شیعہ نشین علاقہ اور افغان سرحد سے متصل ہونے کی وجہ سے مذہبی و اسٹریٹیجک اہمیت حاصل ہے، گذشتہ دنوں خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد ہوا، ان اضلاع میں ضلع کرم بھی شامل تھا۔ پاراچنار اپر کرم میں شامل ضلع کا ہیڈکوارٹر شمار ہوتا ہے، اپر کرم کی میئر کی نشست پر بلدیاتی انتخاب غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا تھا، اس کی وجہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کیساتھ ساتھ شیعہ نمائندہ جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اس میدان میں وارد ہونا تھا، انتخابی مہم کے آغاز میں سیاسی پنڈت یہ پیشن گوئیاں کر رہے تھے کہ اصل مقابلہ روایتی حریف پی ٹی آئی اور پی پی کے درمیان ہوگا۔ واضح رہے کہ پاراچنار سے منتخب رکن قومی اسمبلی (ساجد حسین طوری) کا تعلق پیپلزپارٹی اور رکن صوبائی اسمبلی سید اقبال میاں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔
مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے میئر کی نشست کیلئے علاقہ کے نوجوانوں کی ہردلعزیز شخصیت مولانا مزمل حسین کا انتخاب کیا گیا، جبکہ دیگر اہم امیدواروں میں تحریک انصاف کی جانب سے سید جعفر حسین اور پیپلزپارٹی کی طرف سے ارشاد حسین امیدوار تھے، ان تین امیدواروں کے درمیان ہی اصل مقابلہ کی توقع کی جا رہی تھی۔ انتخابی مہم جوں جوں آگے بڑھتی گئی، مولانا مزمل حسین کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ پولنگ کے روز مولانا مزمل حسین نے اپنے مدمقابل مضبوط امیدواروں کو اپ سیٹ شکست دیتے ہوئے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ ایم ڈبلیو ایم کے نامزد امیدوار نے ریکارڈ ساز 34 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے، جبکہ ان کے مدمقابل تمام امیدوار ملاکر بھی اتنی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ایم ڈبلیو ایم کی پاراچنار جیسے اہم علاقہ میں اتنی بھاری لیڈ کیساتھ کامیابی نے ایک طویل عرصہ بعد علاقہ میں مذہبی و سیاسی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کی ایک روایت کو تقویت بخشی۔
واضح رہے کہ پاراچنار میں دہشتگردی، امن و امان اور زمینوں کے مسائل کیساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ داخلی سطح پر سادات و غیر سادات کے حوالے سے رہا ہے، تاہم علاقہ کے بزرگ و ذمہ دار علمائے کرام، مذہبی شخصیات اور عمائدین کی کوششوں سے کافی حد تک اس فتنے کا سر کچلا جا چکا تھا، تاہم مولانا مزمل حسین کی فتح نے اس ’’تعصب کے تابوت‘‘ میں آخری کیل بھی ٹھونک دی۔ مولانا مزمل حسین ایک غیر سادات مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم ان کو سادات قبائل نے دل کھول کر ووٹ دیکر دشمن کی اس داخلی تفریق کی کوشش کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا۔ اس کے علاوہ مولانا مزمل کی کامیابی ملک گیر شیعہ جماعت (مجلس وحدت مسلمین) پر علاقہ کے عوام کا اعتماد اس جانب واضح اشارہ ہے کہ اگر مذہبی جماعتیں واضح ویژن، مضبوط امیدوار اور اپنی ملی خدمات کے عوض سیاسی میدان میں اتریں تو انہیں بھی کامیابی مل سکتی ہے۔
پاراچنار میں میئر اپر کرم کی نشست پر کامیابی خود مجلس وحدت مسلمین کیلئے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتی ہے، اب علاقہ کی ترقی اور عوامی مسائل کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کو ثابت کرنا ہوگا کہ مذہبی، سیاسی جماعتیں بھی سیاسی میدان میں اپنا وہی رول ادا کرسکتی ہیں، جو ویژن اور خط شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) نے 80ء کی دہائی میں پاکستان کی ملت جعفریہ کو دیا تھا۔ لہذا جس طرح سیاسی میدان میں وارد ہونے سے قبل مولانا مزمل حسین نے علاقہ کے عوام کی بے لوث خدمت کی اور ملت کے اتحاد کیلئے کردار ادا کیا، بھاری اکثریت سے میئر منتخب ہونے کے بعد عوام کی ان سے توقعات میں دوگنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کردار کی کامیابی کی صورت میں ضلع کرم کے مستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں مجلس وحدت مسلمین اپنا ایک مستقل مقام بنانے میں بھی کامیاب ہوسکتی ہے۔