وحدت نیوز(اداریہ)یہ کتاب نہایت فکری تربیتی دروس پر مشتمل ہے فارسی کی دونوں جلدوں پر مشتمل ہے جسکو ایک جلد میں اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
فکری پاکیزگی کےلئے جوان اس کتاب سے استفادہ کریں۔
کتاب کے سے چند فکری اعتقادی اقتباسات۔
وہ اذان سے پہلے لوٹ آیا تھا۔ ایک شہید کا جسد بھی اس کے کندھوں پر تھا۔ تھکاوٹ اس کے چہرے پر موجیں مار رہی تھی۔ صبح اس نے چھٹی لی۔ اس کے بعد ہم شہید کے جسد کو لے کر چل دیے۔ ابراہیم تھکا ہوا تو تھا مگر بہت خوش تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ایک ماہ پہلے بازی دراز کی چوٹیوں پر ہماری ایک مہم تھی۔ فقط یہی شہید رہ گیا تھا۔ اب اس علاقے میں حالات ٹھیک ہونے کے بعد خدا نے کرم کیا کہ ہم اسے بھی لانے میں کامیاب ہو گئے۔ تہران بہت جلدی خبر پہنچ چکی تھی۔ سب لوگ شہید کے جسد کا انتظار کر رہے تھے۔ اگلے دن ایک بہت باشکوہ اور عظیم ہجوم نے خراسان چوک میں اس شہید کی تشییع جنازہ میں شرکت کی۔ ہم کچھ دن تک تہران میں ٹھہرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں اطلاع ملی کہ ایک اور حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ طے پایا کہ کل رات مسجد سے ہم اپنے سفر کا آغاز کریں۔
***
میں، ابراہیم اور کچھ دوسرے دوست مسجد کے سامنے کھڑے تھے۔نماز ختم ہونے کے بعد ہم خوش گپیوں اور قہقہوں میں مشغول تھے کہ ایک بوڑھا آدمی آگے آیا۔ میں اسے پہچانتا تھا۔ وہ اسی شہید کا باپ تھا جسے ابراہیم بازی دراز کی چوٹیوں سے نیچے لایا تھا۔ ہم نے اسے سلام کیا اور اس نے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ سبھی خاموش تھے۔ وہ ہمارے باقی دوستوں کے لیے اجنبی تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر! تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا: ’’آغا ابراہیم، تمہارا بہت شکریہ، تم نے بہت تکلیف اٹھائی مگر میرا بیٹا۔۔۔‘‘ وہ بوڑھا شخص تھوڑی دیر چپ رہا، پھر گویا ہوا: ’’میرا بیٹا تم سے ناراض ہے!!‘‘ ابراہیم کے چہرے پر ہمیشہ رہنے والی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ اس نے تعجب سے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا: ’’مگر کیوں؟‘‘ بوڑھا شخص روہانسا ہو گیا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔کانپتی ہوئی آواز میں کہنے لگا: ’’کل رات میں نے اپنے بیٹے کو خواب میں دیکھا۔ اس نے مجھ سے کہا: ’’جس وقت ہم محاذ کی سرزمین پر گمنام و بے نشان پڑے ہوئے تھے تو مادرِ سادات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ہر رات ہمارے پاس آتی تھیں۔ لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں رہا۔‘‘ میرے بیٹے نے یہ بھی کہا: ’’گمنام شہداء حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خاص مہمان ہوتے ہیں!‘‘ اس بوڑھے نے اپنی بات ختم کر دی۔ ہم سب کے لبوں پر خاموشی چھا گئی تھی۔ میں نے ابراہیم کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں سے پھسلتے ہوئے نیچے گر رہے تھے۔ میں اس کی سوچ کو پڑھ سکتا تھا۔ اس نے اپنی کھوئی ہوئی چیز ڈھونڈ لی تھی: ’’گمنامی!‘‘
اس واقعے کے بعد جنگ اور شہداء کے حوالے سے ابراہیم کا خیال کافی بدل گیا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’اب مجھے کوئی شک نہیں رہا کہ ہماری جنگ کے شہداء رسول خداﷺ کے اور امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب جیسا درجہ رکھتے ہیں۔ خدا کے ہاں ان کا مقام بہت بلند ہے۔‘‘ میں نے کئی بار اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا: ’’اگر کوئی یہ تمنا رکھتا ہےکہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی کرے تو اس کے امتحان کا وقت اب آن پہنچا ہے۔‘‘ ابراہیم کو پورا یقین تھا کہ دفاع مقدس سعادت و کمال انسانی تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جہاں بھی جاتا شہداء کی باتیں کرتا۔ جنگجوؤں اور مجاہدین کے واقعات بیان کرتا۔ اس کا اخلاق و رویہ بھی روز بہ روز تبدیل ہوتا جا رہا تھا اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ روحانی ہوتا جا رہا تھا۔ اندرزگو کیمپ میں اس کا معمول تھا کہ رات کے پہلے پہر دو تین گھنٹے سوتا اور اس کے بعد جاگ کر باہر چلا جاتا۔ اذان کے وقت واپس آ جاتا اور صبح کی نماز کے لیے جوانوں کو اٹھاتا۔ میں نے سوچا کہ کافی دن ہو گئے ہیں ابراہیم رات کو یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ ایک رات میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔میں نے دیکھا کہ وہ سونے کے لیے کیمپ کے باورچی خانے میں چلا گیا۔ اگلے دن باورچی خانے میں کام کرنے والے بوڑھے ملازم سے میں نے کھوج لگائی۔ مجھے معلوم ہوا کہ باورچی خانے میں کام کرنے والے تمام ملازمین نماز شب باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ ابراہیم اسی لیے وہاں چلا جایا کرتا تھا کیونکہ اگر وہ کیمپ کے اندر نماز شب پڑھتا تو سب کو پتا چل جاتا۔ ابراہیم کے ان آخری دنوں کے معمولات سے مجھے امام علی علیہ السلام کی وہ حدیث یاد آ گئی جو انہوں نے نوف بکالی سے ارشاد فرمائی تھی: ’’میرے شیعہ وہ ہیں جو رات کو عبادت گزار اور دن کو شیر ہوتے ہیں۔‘