وحدت نیوز(آرٹیکل)خوف آتا ہے  اگرچہ یہ سطور دوران پرواز لکھ رہا ہوں مگر وہ بات مجھے بھول ہی نہیں رہی ۔ میرا عرب دوست مجھ سے پوچھتا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے، ظلم و جبر پر ان کی مسلسل خاموشی سمجھ سے باہر ہے اور پھر خاص طور پر تمہارا ملک کیوں چپ ہے، کیا تم لوگ بھول گئے ہو کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل سے متعلق کیا کہا تھا، پہلے تو تمہارا ملک بولتا تھا، اسرائیلی تمہارے ملک سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے تھے، اس مرتبہ تمہارا ملک بھی خاموش ہےبلکہ میں نے سنا ہے کہ تمہارے ملک میں ایک جماعت نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کرنے چاہے تو اسے روک دیا گیا،ایک عورت نے اسرائیل مردہ باد کہا تو اسے گرفتار کرلیا گیا،اب اسرائیل تمہارے ملک سے خوفزدہ نہیں ،اب اسے صرف حماس اور حزب اللہ جیسے مزاحمتی گروپوں سے خوف آتا ہے، اسرائیل عرب ممالک سے بالکل بھی پریشان نہیں البتہ اسے ایران اور روس کی چالوں سے خوف آتا ہے، خوف سے یاد آیا کہ تمہارے ملک کے وہ لوگ کیوں چپ ہیں جو سارا سال مذہب کے نام پر دولت بٹورتے ہیں، تمہارے ایک بڑے سیاسی مذہبی رہنما نے تو حد ہی کرڈالی ،اس نے تو ظالم کی حمایت کی ہے، کیا ایسوں کو خدا کا خوف نہیں ،اس طرح کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کونسا چہرہ دکھائیں گے؟میں اس کے تمام سوالات توجہ سے سنتا رہا، میرے پاس کیا جواب ہوسکتا تھا،
میں تو خود مسلمانوں کے طرزِ عمل پر دکھی ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ امت نبی کریم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا چہرہ دکھائے گی؟ روز حشر یہ مسلمان کیا جواب دیں گے؟ دل میں تلاطم تھا، ہونٹوں پہ خاموشی اور نمناک آنکھوں میں حیرت کے سوا کچھ بھی نہ تھا، میں اسی خاموشی کے دوران گہری سوچوں میں اتر گیا بس سوچتا رہا، یہ منظر دیکھ کر عرب دوست بولا کہ بولتے کیوں نہیں ہو؟ تازہ سوال نے مجھے ہمت دی، میں نے اپنے دوست سے عرض کیا کہ تم بھی تو مسلمان ہو، کیا تمہارے ملک نے کوئی کردار ادا کیا ہے، میں تو برطانیہ میں ایک پردیسی کے طور پر چند روز کا مسافر ہوں، مسافر کو تو روزے میں بھی چھوٹ ہوتی ہے مگر میں تمہارے سارے سوالوں کے جواب دوں گا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد رہے سہے مسلمان بھی غلامی میں چلے گئے تھے بلکہ پچھلی صدی میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب کوئی مسلمان ملک آزاد نہیں تھا اس کے بعد جب مسلمان ملکوں کو نام نہاد آزادیاں ملیں تو پرانے آقاؤں نے کہیں بادشاہتیں بنوا کر تو کہیں افواج کے راستے اپنی خواہشات کو دوام بخشا، انہوں نے ایسا اہتمام کیا کہ حکم عدولی نہ ہو۔
اب حالت یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں سے پانچ چھ امیر ملک ہیں باقی پچاس تو حالات سے لڑ رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں لیکن اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کیا جائے کہ ان وسائل سے یا تو کوئی اور مستفید ہورہا ہے یاپھر حکمران لوٹ مارکر رہے ہیں، مجھے تو تم عربوں پہ زیادہ غصہ ہے کہ تمہارے حکمران دولت مند ہونے کے باوجود اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد نہیں کر رہے، اسرائیل کے ارد گرد کتنے بڑے بڑے اسلامی ممالک ہیں، کیا ان پر جہاد فرض نہیں ،کیا تم لوگ فلسطینیوں کی عملی اور مالی مدد نہیں کرسکتے، کیا تم لوگ چھوٹے سے اسرائیل کو نتھ نہیں ڈال سکتے؟ سچ یہ ہے کہ مسلمان قرآن سے دور ہوچکے ہیں، ان کے سینوں میں اہلِ بیت سے وہ محبت نہیں جس کا حکم رسول پاک ﷺنے دیا تھا، مسلمان اسرائیلی مظالم کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں، قراردادیں منظور کرتے ہیں اور صرف کہنے کی حد تک کہتے ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں، مسلمان ملکوں میں عوام بےچارے دعائیں کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں کرتے، اس مرحلے پر مجھے اکثر نوابزادہ نصر اللہ خان یاد آجاتے ہیں کہ’’ کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے‘‘ میں تو اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ یہ امت روز محشر اپنے رسول اور خدا کو کیسے چہرہ دکھائے گی، کیا دنیا میں سب کچھ مال ہی ہے، کسی مسلمان ملک کو یہ فکر ہے کہ فلسطین کی مدد کرنے سے اس کا بزنس تباہ ہو جائے گاتو کسی کو فکر لاحق ہے کہ فلسطین کی مدد کرنے سے فلاں فلاں عالمی طاقتیں ناراض ہو جائیں گی، کسی کو یہ فکر نہیں کہ کہیں خدا ناراض نہ ہوجائے،سچی بات تو یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں میں خوف خدا نہیں رہا،وہ اس جہان میں استعماری طاقتوں کے دم چھلے بنے ہوئے ہیں،انہیں اگلے جہان کی فکر ہی نہیں،جب خدا سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں تو پھر مسلمان حکمران کسی اور سے کیوں ڈرتے ہیں،یاد رہے کہ بزدلی مومن کی شان نہیں،جب مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے تو پھر یہ سب مسلمان ایسا محسوس کیوں نہیں کرتے،جب سارے مغربی خونخوار اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں تو پھر مسلمان حکمرانوں کو عقل کیوں نہیں آرہی، کیا بزنس اتنا ہی ضروری ہے،کیا مفادات کا کھیل اتنا ہی اہم ہے کہ اپنے چہروں پر دنیا کی کالک مل لی جائے،دنیا کی محبت میں گرفتار مسلمان ملکوں کے غلام حکمرانوں سے ایک ہی سوال ہے کہ کیا تمہیں خدا سے خوف نہیں آتا؟ اسلم گورداسپوری کا شعر سوئے ہوئے ضمیروں کو طمانچے مار رہا ہے کہ
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کیلئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کرلیں