وحدت نیوز(چنیوٹ)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے صدر جناب حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید علی اکبر کاظمی نے چنیوٹ ضلعی شوری کے اجلاس میں شرکت کی اور ضلعی کابینہ سے حلف لیا ۔ اس موقعہ پر ضلعی کابینہ کے علاوہ صوبائی سیکرٹری تنظیم سازی جناب برادر مظہر حسین جعفری بھی ان کے ہمراہ تھے ۔
انہوں حلف برداری کی تقریب میں شرکاء سے خطاب میں ایک قرانی جوان کی خصوصیات بیان کیں کرتے ہوئے کہا کہ : معنویت ،ذمہ داری ،احساس، ایثار اور دین کے لئے قربانی کا جذبےایک تنظیمی فردکی خصوصیات ہیں ۔ظلم کے مقابل قیام کے لئے ایک تنظیمی کا جذبہ اور بزرگوں کی بصیرت درکار ہے ۔آج کے دور میں تنظیمی وہ نہیں ہے جوصرف تنظیم عہدہ رکھتا ہو بلکہ تنظیمی وہ ہے جو ان صفات کا حامل ہو اور معاشرے سے ظلم اور فساد کے خاتمہ کے عمل میں متحرک ہو قرآنی مومن وہ ہے جو مہدی آخرؑ کا عملی منتظر ہے ۔جو بین الاقوامی امور پر گہری نگاہ رکھتا ہے اور جو ملکی سطح پر مثبت اقدار کو فروغ دینے اور عدل کے قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہو۔اور اس الہی حکومت کے قیام اور زمینہ سازی کے لئے ہرروزسوچ وبچار کرے۔اس میں خالص بندگی کا احساس ہو ۔ احساسِ بندگی جس سے ہر فرد اور جماعت کو خبردار رہنا چاہیے جو خلوص کے ساتھ اصلاح کا مقصد لے کر اٹھے اور ایسے ہر شخص میں فرداً فرداً اور ایسی ہر جماعت میں اجتماعی عبدیت کا احساس نہ صرف موجود ہو بلکہ زِندہ اور تازہ رہنا چاہیے کہ کبریائی صرف خدا کی ذات کے لیے مخصوص ہے۔ بندے کا مقام عجز و نیاز کے سوا اور کچھ نہیں۔ کسی بندے میں اگر فی الواقع کوئی بھلائی پیدا ہو تو یہ اﷲ کا فضل ہے۔ فخر کا نہیں‘ شکر کا مقام ہے۔ اس پر اﷲ کے حضور اور زیادہ عاجزی پیش کرنی چاہیے اور اس تھوڑی سی پونجی کو خیر کی خدمت میں لگا دینا چاہیے تاکہ اﷲ اس میں مزید اپنے فضل خاص سے اضافہ کرے۔ بھلائی پاکر غرورِ نفس میں مبتلا ہونا تو دراصل اسے برائی سے بدل لینا ہے اور یہ ترقی کا نہیں بلکہ تنزُّل کا راستہ ہے۔احساسِ بندگی کے بعد جو انسان کو تکبُّر کے رُجحانات سے بچا سکتی ہے‘ وہ محاسبۂ نفس ہے۔
جو شخص اپنا ٹھیک ٹھیک حساب لگائے اور اپنی خوبیوں کو محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھے کہ وہ کن کمزوریوں اور خامیوں اور کوتاہیوں میں مبتلا ہے‘ وہ کبھی خود پسندی و خود پرستی کے مرض کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اپنے گُناہوں اور قصوروں پر کسی کی نگاہ ہو تو اِستغفار سے اس کو اتنی فرصت ہی نہ ملے کہ اِستکبار کی ہوا اُس کے سر میں سما سکے۔دوسرا بڑا عیب جو خیر کی جڑوں کو کھا جانے میں کِبر سے کسی طرح کم نہیں‘ یہ ہے کہ کوئی شخص بھلائی کا کام نمود و نمائش کے لیے کرے اور اس کام میں اُسےمخلوق خدا کی تحسین حاصل کرنے کی فکر یا اس کی پروا ہو۔ یہ چیز صرف خلوص ہی کی نہیں حقیقت میں ایمان کی بھی ضد ہے اور اسی بناء پر اسے چُھپا ہوا شرک قرار دیا گیا ہے۔ خدا اور آخرت پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف خدا کی رضا کے لیے کام کرے۔ اسی سے اَجر کی آس لگائے اور دنیا کی بجائے آخرت کے نتائج پر نگاہ رکھے‘ لیکن ریاکار انسا ن مخلوق کی رضا کو مقصود بناتا ہے۔ اللہ کی مخلوق ہی سے اَجر کا طالب ہوتا ہے۔ایک خالص تنظیمی ہمیشہ اس تگ ودائو میں رہتا ہے کہ دوسروں کا بھلا ۔منصب،عہدہ یعنی خدمت۔تنظیمی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے ۔