وحدت نیوز(سکردو) میڈیا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے رہنمامجلس وحدت مسلمین و صوبائی وزیر زراعت گلگت بلتستان کاظم میثم نے کہا کہ جھوٹے الزامات اور تہمتوں نے سیاست کو اتنا متعفن کیا ہے کہ نئی پود اور عوام اس شعبے سے ہی متنفر ہوگئے ہیں جو کہ کسی صورت نیک شگون نہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا مذہبی جماعتوں پر الزامات اور مذہبی جماعتوں پر غصہ اور نفرت کی اصل وجہ یہ ہے کہ کئی بار انکے وزیراعلیٰ بننے کے خواب کو مذہبی جماعتوں نے ہی چکنا چور کیا تھا۔ جبکہ عوام جانتے ہیں کہ موصوف مذہبی جماعتوں سے زیادہ مذہب کا سہارا لینے میں مہارت رکھتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلک کی بیساکھی پر اسمبلی میں پہنچنے والا ہی مذہبی جماعتوں پر برستا ہے۔ مذہبی جماعتوں سے کمی کوتاہی ہوسکتی ہے لیکن ہمارا نظریہ سیاست مغربی افکار پر نہیں جس پر ہمیں فخر ہے۔
کاظم میثم نے مزید کہا کہ غلط بیانی کے ذریعے دوسروں پر کیچڑ اچھال کر زیادہ دیر عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرپائیں گے۔ عوامی خدمت اور خطے کی ترقی کی دم بھرنے والوں اور باریاں بدلنے والوں نے گلگت بلتستان اور پاکستان کو کس نہج پہ پہنچایا ہے سب کے سامنے ہے۔ ہنستا بستا اور پیشرفت کرتا ہوا وطن عزیز آج کسی بھی انٹرنیشنل رینکنگ پہ لیڈ نہ کرنے اور قرض تلے دب جانے کی ذمہ دار یہی باریاں بدلنے والی دونوں سیاسی جماعتیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امجدایڈووکیٹ سب کچھ جانتا ہے کہ حالیہ اسمبلی نے نہ شراب کے کاروبار کی اجازت دی ہے اور نہ ہی ریگولیٹری اتھارٹی میں اس پہ ٹیکس لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ ہوا ہے اس کے باوجود اس حساس ایشیو کو لے کر عوام کو گمراہ کرکے حکومتی مقبولیت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر حلفا بتائیں کہ کیا پورے پاکستان شراب کے کاروبار کو قانونی حیثیت ذوالفقار علی بھٹو نےنہیں دی۔ اور گلگت بلتستان میں 2018 میں ایکسائز ایکٹ میں نہیں دی۔ کیا اسکی حرمت صرف ایم ڈبلیو ایم اسلامی تحریک اور جے آئی کے لیے ہے۔ کیا جھوٹ اور تہمت بھی قبیح فعل اور گناہ کبیرہ نہیں ہے۔ اب وہ زمانہ گزر گیا کہ ایک بیان کو لے کر لوگ یقین کریں یہاں کے عوام سندھ کے غریب ہرکاروں اور مزارعین کی طرح نہیں ہے جن پر تشدد کرکے انپر اپنا دھونس اور تسلط قائم رکھے۔ یہاں کے عوام باشعور اور غیور عوام ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ویسٹ مینجمنٹ کی ریوائس ریٹ لسٹ کو ٹیکس بناکر پیش کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں کسی بھی وفاقی ٹیکس کی نہ صرف حمایت نہیں کرسکتے ہیں بلکہ نمائندگی تک گندم سسبڈی کے خاتمے پر بھی احتجاج کریں گے۔ ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے ریونیو کو بہتر بنانا ہے تاکہ خطے کی تعمیر و ترقی ممکن ہو۔ کسی بھی ایسے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں عام عوام متاثر ہو۔ جب تک ریگولٹری اتھارٹی کی طرف سے مدات طے نہ ہو اسکی مخالفت کسی طور درست نہیں۔ گندم سبسڈی پر وزیراعلیٰ وفاق کی بلا کو اپنے سر پہ لے رہے ہیں۔ امجد ایڈوکیٹ کو وزیراعلیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ گندم سبسڈی کے حوالے عوامی غیض و غضب کے آگے بند باندھا ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں گندم سبسڈی میں کمی اور کٹوتی پر عوام کے ساتھ ملکر صوبائی حکومت کو فیڈرل گورنمنٹ کے خلاف قیام کرنا چاہیے یا جسطرح کائرہ صاحب نے کہا ہے کہ سبسڈی کے لیے آٹھ ارب کافی ہے تو یہ سیکٹر فیڈرل گورنمنٹ کے حوالے کر دینا چاہیے کیونکہ سبسڈی فیڈرل سبجیکٹ ہے۔ گندم میں کٹوتی کرے وفاقی حکومت نعرے لگے ہمارے خلاف، گھلی سڑھی گندم بھیجے وفاق اور کیچڑ اچھالے ہمارے اوپر، مہینے میں تیس ہزار گندم کم کرکے وفاق اور عوام ہم سے ناراض یہ دوغلی سیاست چلنے نہیں دیں گے۔ ٹارگیٹیڈ سبسیڈی کرنی ہو، قیمتیں بڑھانا یا اسی مقدار پر گزارا کرنے کا فیصلہ قوم کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح گندم کی سبسڈی میں اضافہ کے لیے کوشش بھی قوم کیساتھ ملکر کرنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفاق کی طرف سے اس بار پی ایس ڈی پی کی سکیموں میں جی بی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے اس پر بھی اپوزیشن لیڈر غلط بیانی فرمائیں گے یا صوبائی حکومت پر برسیں گے۔ عوام کو واضح کر دوں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کی معیشت اور ترقیاتی سکیموں پر پے در پے وار جاری ہے۔ بجٹ کٹوتی کرنے کے بعد مکر جایا جاتا ہے کٹوتی کے ثبوت بھی فراہم کریں گے۔ اسی طرح اس سال بتائیں وفاقی حکومت نے ہنزہ کی ایک سکیم کے لیے علاوہ کتنی ارب کی سکیمیں گلگت بلتستان کو دیں جبکہ عمران خان کے دور میں پی ایس ڈی پی میں منظور شدہ سکیمیں علاقے کی ترقی کی ضامن تھیں۔ ہم مثبت سیاست کو ویلکم کریں گے لیکن منفی روش، جھوٹے الزامات اور تہمتوں کا جواب سچائی کے ساتھ دیں گے۔