وحدت نیوز(آرٹیکل) مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے قائدین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور عمران خان نے سیاسی اشتراک عمل کے بنیادی اصول کے زیر عنوان 20 جون 2022ء کو جس اعلامیے پر دستخط کیے، اُسے ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بنی گالہ اسلام آباد میں دونوں جماعتوں کے مرکزی راہنمائوں کا جو اجلاس منعقد ہوا، اس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے علاوہ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر شیریں مزاری بھی شریک تھیں جبکہ مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے مجلس کے چیئرمین کے علاوہ وائس چیئرمین علامہ احمد اقبال رضوی، سیکرٹری جنرل ناصر شیرازی اور سیکرٹری سیاسیات اسد نقوی شریک ہوئے۔
اشتراک عمل کے اس سات نکاتی اعلامیے میں جو امور شامل کیے گئے ہیں، وہ پاکستان کے اہم ترین داخلہ و خارجہ امور اور آئندہ کی حکمت عملی پر محیط ہیں۔ بظاہر تو یہ چند سطروں کا ڈرافٹ ہے، لیکن اگر اس پر حقیقی معنی میں عمل کیا جائے تو پاکستان ایک عظیم، آزاد، خود مختار اور باوقار اسلامی ریاست کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ ہمیں ذاتی طور پر اس اعلامیے سے نہ فقط کامل اتفاق ہے بلکہ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ایک صفحے پر ہماری کئی دہائیوں کی جدوجہد کے اہداف کو الفاظ کی شکل دے کر منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ برادر ناصر شیرازی نے اس کے حوالے سے اپنی فیس بک پر پوسٹ لگائی اور ہماری نظر پڑی تو ہم نے اس پر مختصراً یوں اظہار خیال کیا: ’’ماشاء اللہ، تبریک، یہ سو فیصد ہمارے نظریات ہیں۔ ساری عُمر اِن خوابوں کی تعبیر کے لیے صرف کی۔ میں اس ڈرافٹ کی کھلے دل سے تائید کرتا ہوں۔ اس پر پہرہ دیجیے گا، قائم رہیے گا، دوسروں پر بھی ایفائے عہد کے لیے زور دیتے رہیے گا۔ اس اصول پر آپ کی تقویت اور کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔‘‘
ممکن ہے کہ ہمارے بعض قارئین نے سیاسی اشتراک عمل کے اس اعلامیے کا مطالعہ نہ کیا ہو، ان کے لیے ہم ذیل میں اسے نقل کیے دیتے ہیں:
۱۔ وطن عزیز پاکستان کی داخلی وحدت، سلامتی اور استحکام کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ اسلامی اقدار کا تحفظ، تحریک پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی حفاظت اور سیاسی، اقتصادی اور دفاعی خود انحصاری کے حصول کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔
۲۔ اسرائیل کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی دی ہوئی گائیڈ لائن سے کسی قسم کی روگردانی نہیں کی جائے گی اور کشمیر و فلسطین کے موضوع پر اپنے اخلاقی قانونی نقطہ نظر سے کسی قسم کا انحراف نہیں کیا جائے گا۔
۳۔ پاکستان دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد و وحدت کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔ ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو روکنا خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہوگا۔
۴۔ مسلم ممالک کے باہمی تنازعات میں مذاکرات کے ذریعے راہ حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی اور ان تنازعات میں فریق نہیں بنا جائے گا۔ دوست پڑوسی ممالک سے تعلقات کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگی۔
۵۔ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنایا جائے گا۔
۶۔ وطن عزیز پاکستان میں ظلم کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ پسماندہ اور استحصال شدہ طبقے کی بحالی اولین ترجیح ہوگی۔
۷۔ ہمیں غلامی قبول نہیں، پاکستانی سرزمین کسی بھی ملک کو فوجی اڈوں کے لیے نہیں دی جائے گی۔ پاکستان کے فیصلے اسلام آباد میں ہی ہوں گے۔ آزاد خارجہ پالیسی اور داخلی (خود)مختاری ہمارے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اس بیانیے سے کسی طرح بھی روگردانی نہیں کی جائے گی۔
اس سے پہلے کہ ہم اس اعلامیے کے نکات کا جائزہ لیں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی قیادت میں پاکستان میں اسلامی ریاست کے منشور کے لیے جو دستاویز ’’سبیلنا‘‘ یا ’’ہمارا راستہ‘‘ کے نام سے جاری ہوئی، اس میں سے چند عبارتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
’’خارجہ پالیسی‘‘ کے زیر عنوان اس میں ہے:
* کسی بھی طاقت کی اقتصادی، ثقافتی، فوجی اور سیاسی بالادستی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔
* استعماری اور سامراجی عزائم کی مزاحمت کی جائے گی۔
تمام ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک سے دو طرفہ بنیادوں پر قریبی خوشگوار اور دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ ماسوائے:
ان ممالک کے جو نسل پرستانہ، صہیونی، سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کے حامل ہوں یا اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسی اپنائے ہوں۔
* ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا اور نہ رو بہ عمل لایا جائے گا، جس کے تحت کوئی غیر ملکی طاقت ملک کے قدرتی وسائل پر تسلط یا تصرف حاصل کرسکے۔
* کسی سامراجی طاقت کو فوجی مقاصد کے لیے پاکستان کی زمین، فضا اور پانی استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
* دنیا بھر میں محروموں اور مظلوموں کی آزادی کی تحریکوں بالخصوص اسلامی تحریکوں کی حمایت کی جائے گی اور ان سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔
* مسلم اکثریت کے وہ علاقے جو اغیار کے زیر تسلط ہیں، ان کی آزادی کے لیے تعاون کیا جائے گا۔
* القدس اور دیگر مقامات مقدسہ کی حرمت و آزادی کو بنیادی اہمیت دی جائے گی۔
* کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان سے الحاق کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔(صفحہ ۲۹ تا۳۱)
سبیلنا کے صفحہ ۵۶ پر یہ عبارت بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
* ہمارا ایمان ہے کہ اسرائیل سے کسی قسم کے روابط کا قیام اسلام اور مسلمانوں سے غداری کے مترادف ہے۔
صفحہ ۵۹ پر امریکی مداخلت کے زیر عنوان آخری سطریں یوں ہیں:
* موجودہ حالات میں پاکستان کے تمام شعبے امریکہ کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کے ان استعماری ہتھکنڈوں سے نجات کے لیے پاکستان کے عوام کو پورے عزم و استقلال سے جہد مسلسل کرنا ہوگی۔ پاکستان کی بقاء اور ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ تمام طاقتوں سے مفاد اسلامی کی روشنی میں منصفانہ اور برابری کے تعلقات قائم کرے۔
صفحہ ۱۳ پر پسے ہوئے محروم طبقوں کو ان کے چھنے ہوئے حقوق واپس دلوانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ سبیلنا یا ہمارا راستہ کی ان عبارات کے مطالعے سے آپ کو محسوس ہوگا کہ اس کی روح کو نہایت خوبصورتی سے زیر نظر سیاسی اشتراک عمل کے بنیادی اصولوں میں سمو دیا گیا ہے۔ ہم دونوں جماعتوں کے اہل فکر و نظر کو ان کی وسعت نظری و قلبی پر ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ اس اعلامیے کے پہلے اصول کو مختلف انداز سے سبیلنا کے اندر شرح و بسط سے بیان کیا گیا ہے۔ البتہ یہاں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’اسلامی اقدار کا تحفظ‘‘ کے الفاظ ہماری ماضی کی فکر میں ایک پیش رفت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس میں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اقدار کو اگر اچھے انداز سے بیان کیا جائے تو پوری دنیا کے روشن فکر اور دانا افراد انھیں اپنی فطرت کی آواز جانیں گے اور کھلے دل سے تسلیم کرلیں گے، اس کے لیے اسلام کا لفظ استعمال کرنا بھی ضروری نہیں ہوگا۔
اسی طرح ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ اعلامیے کے سارے نکات میں اسلامی عقیدۂ توحید اور پیغامِ انبیاء کی روح دکھائی دے گی۔ کسی بھی اقدام کی اصل قیمت کو زمینی حقائق کو صرفِ نظر کرکے متعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس اعلامیے کو اسی پس منظر میں جانچنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مہیا شرائط، حقائق اور سطح فہم کی روشنی میں ہی کسی بات کو احسن انداز سے بیان کرنا اور اس پر اتفاقِ رائے قائم کرنا مذاکرات کا حقیقی حسن کہلا سکتا ہے، اسی طرح درپیش صورت حال میں ترجیحات کا تعین بھی ہوش و خرد کا امتحان ہوتا ہے، اس اعلامیے میں آپ کو ان خصوصیات کی جھلک بھی دکھائی دے گی۔ آخر میں ہم ایک مرتبہ پھر وہی بات کہیں گے جو ہم نے اس اعلامیے پر اپنے پہلے ردعمل میں کہی تھی: ’’ماشاء اللہ، تبریک، یہ سو فیصد ہمارے نظریات ہیں۔ ساری عُمر اِن خوابوں کی تعبیر کے لیے صرف کی۔ میں اس ڈرافٹ کی کھلے دل سے تائید کرتا ہوں۔ اس پر پہرہ دیجیے گا، قائم رہیے گا، دوسروں پر بھی ایفائے عہد کے لیے زور دیتے رہیے گا۔ اس اصول پر آپ کی تقویت اور کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔‘‘
تحریر: سیدثاقب اکبر نقوی