وحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) حزب اللہ دن رات مضبوط اور طاقتور ہو رہی ہے، اسرائیل کی جانب سے اپنے وطن کی سرحدوں کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے المیادین ٹی وی چینل کے میزبان غسان بن جدو کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ حزب اللہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوچکی ہے اور یہ سب کچھ حزب اللہ نے جولائی سنہ 2006ء میں غاصب اسرائیل کے ساتھ ہونے والی تینتیس روزہ جنگ کے بدلے میں سیکھا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے گذشتہ دنوں لبنان کے جنوبی علاقے لبونہ میں ہونے والے دو بم دھماکوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کے نوجوان اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں اور لبونہ میں دو دھماکوں کا ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جب غاصب اسرائیلی دشمن نے سرحد پار آکر جاسوسی انجام دینے کی کوشش کی تو پہلے سے نصب شدہ دو بم ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکے سے پھٹے جس کے نتیجے میں غاصب اسرائیلی دشمن کے کئی فوجی زخمی ہوئے جبکہ ہلاک بھی ہوئے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے بعد اسرائیلی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور ان کے حواس باختہ ہوگئے کیونکہ وہ اس کاروائی کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ سید حسن نصر اللہ نے بتایا کہ لبونہ ایک سرحدی علاقہ ہے اور حزب اللہ کے جوان ہر وقت وہاں پر موجود رہتے ہیں تاہم یہ حزب اللہ کے جوانوں کی ایک حکمت عملی کا حصہ تھا کہ انہوں نے اس مرتبہ زمین میں Land Mines نہیں لگائیں جبکہ اس کے بدلے میں IEDs کا استعمال کیا اور جیسے ہی اسرائیلی فوجی وہاں داخل ہوئے وہ اس کا نشانہ بنے۔
سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ جنوبی لبنان کے علاقے لبونہ میں اسرائیل کی طرف سے ہونے والی خلاف ورزی کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ اسرائیل نے پینسٹھ برس گزر جانے کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھا اور آج اقوام متحدہ کی افواج کا سہارا لیتا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ وہ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کرے اور ہمارے لوگوں کا قتل عام کرے تاہم لبونہ میں ہونے والی خلاف ورزی بھی اسرائیلی منصوبہ بندی کا ایک حصہ تھی اور حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کو یہ پہلا اور آخری جواب نہیں تھا، ہم اسرائیل کی طرف سے اپنی سرزمین کی خلاف ورزی پر ذرہ برابر بھی خاموش نہیں رہیں گے اور مزاحمت کرتے رہیں گے۔ ہم اسرائیل کے سامنے کھڑے رہیں گے اور اس کو اسی طرح جواب دیں گے جس طرح وہ ہماری زمین کی خلاف ورزی کرے گا، ہم اپنے وطن کی سرحدوں کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے۔ سید المجاہدین سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم تیار ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ ہر موقع پر اور ہر جگہ پر مقابلہ کریں لیکن اسرائیل کو کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہماری سرزمین کی خلاف ورزی کرے یا لبنان میں داخل ہو۔
سید حسن نصر اللہ نے لبنان کے سیاستدانوں اور فوج کی جانب سے اسرائیلی خلاف ورزیوں پر خاموشی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ لبنان کے سیاست دان اور فوج اس معاملے پر خاموش رہتی ہے، لبنان میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو اسرائیل کو اپنا دشمن ہی تصور نہیں کرتی ہیں، حتیٰ لبنانی صدر کی کی جانب سے اقوام متحدہ میں دی گئی اسرائیل مخالف درخواست بھی نہایت کمزور ہے۔ سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ہم مانتے ہیں کہ عالمی برادری ہمیں اور اسرائیل کو برابر دیکھے اور فیصلہ کرے کہ کون غلط ہے، اگر ہم غلط ہوں تو ہماری مذمت کی جائے اور اگر غلطی اسرائیل کی ہو تو پھر چشم پوشی نہیں ہونی چاہئیے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے وطن کا دفاع کریں اور اپنی سر زمین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر خاموش نہ رہیں اور ان کے خلاف اسی طرح کاروائی کریں جس طرح وہ ہمارے لوگوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ وہ ہمیں تنہاء نہیں چھوڑنا چاہتے تو ہم کیوں ان کے سامنے تر نوالہ بن جائیں، ہماری مزاحمت کا بنیادی مقصد امت کا مفاد اور امت کو متحد کرنا ہے اور ہم نے ہمیشہ لبنان کی حفاظت کی ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہم سے سب سے بڑا مسئلہ امریکہ اور مغرب کو یہ ہے کہ اور خطے کی عرب ریاستوں کو بھی کہ ہم ایک مزاحمتی تحریک ہیں جبکہ ان کا ہمارے ساتھ کوئی اندرونہ مسئلہ نہیں، بلکہ صرف یہی مسئلہ ہے کہ ہم ایک مزاحمتی تحریک ہیں اور اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے بتایا کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت کئی ممالک ایسے ہیں جو ہمیں ہمارے اسلحہ کے بدلے میں کئی مراعات دینے کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں مسئلہ فلسطین کا کیا ہوگا؟ اور پھر غاصب اسرائیلی دشمن ہمارے وطن کو تباہ و برباد کر دے گا۔ حزب اللہ کے عظیم مجاہد سید حسن نصر اللہ نے بتایا کہ ماضی میں امریکی صدر جارج بش کے نائب صدر ڈک چینی نے لبنان میں ایک امریکی کے ذریعے ہمیں مراعات دینے کی آفر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ حزب اللہ کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرے گا، امریکہ ہمارے اسلحے کی بات ترک کر دے گا، امریکہ حزب اللہ کو امریکہ کی بنائی گئی دہشت گردی کی فہرست سے بھی خارج کر دے گا لیکن ہم نے امریکیوں کی ڈیل کو یکسر مسترد کر دیا۔ ہم کچھ نہیں دیں گے، ہم امریکہ کے ساتھ کسی قسم کی ڈیل نہیں چاہتے۔ سید حسن نصر اللہ نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ مجھے بتائیں کہ ایسے اسلحے کی کیا قدر و قیمت ہوگی کہ جو اپنے وطن اور وطن کی حمیت و عزت کی حفاظت نہ کر سکے؟ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ جب ہم نے مزاحمت کی راہ کا انتخاب کیا ہے تو ہم یہ بات جانتے ہیں کہ یہ شہادت کا راستہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ معاملہ کسی مذاکرات کا محتاج نہیں ہے۔ عالم مغرب اور ہمارے خطے کی عرب ریاستوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حزب اللہ ایک مزاحمتی تحریک ہے اور مزاحمت کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ ایمان اور اصول کا معاملہ ہے۔
اسرائیل کے ساتھ تینتیس روزہ جنگ:
سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کو مئی 2000ء میں ایک تاریخی شکست سے دوچار کیا تھا اور ہم جانتے تھے کہ اسرائیل اس تاریخی اور ذلت آمیز شکست کے آثار سے مشکل سے باہر نکلے گا کیونکہ حزب اللہ نے سنہ 2000ء میں اسرائیل کے تمام تر دعووں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا تھا اور ایک عظیم الشان فتح اور لبنان کو آزادی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اسرائیل ضرور لبنان پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے حملہ آور ہوگا۔ سید حسن نصر اللہ نے 12 جولائی 2006ء کو اسرائیلی فوجیوں کے اغواء کا مسئلہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ حزب اللہ کے کامیاب آپریشنوں میں سے ایک کامیاب ترین آپریشن تھا اور حزب اللہ اس بات کے لئے آمادہ تھی کہ اسرائیل ان پر جنگ تھونپ دے گا، حزب اللہ اس وقت انتظار کر رہی تھی لیکن اسرائیل نے تھوڑی دیر کی، حزب اللہ بالکل پریشان نہ تھی اور نہ کنفیوز تھی۔
سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ سنہ 2006ء جولائی میں ہونے والی جنگ میں ہمارا سب سے اہم ترین کام یہ تھا کہ دشمن کے فوجیوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل کریں، اس کے لئے ہم نے اپنے ان جوانوں پر فیصلہ چھوڑ دیا کہ جنہوں نے اپنے خون کے آخری قطرے تک مارون الراس کے مقام پر اسرائیلیوں کے خلاف جہاد کیا۔ سید حسن نصر اللہ نے بتایا کہ ہمیں خبر ملی کہ ایتا الشعب کے مقام پر ہمارے بہت سے جوان شہید ہوگئے ہیں اور ہمارا رابطہ ان سے قطع ہو چکا تھا، تاہم اسی اثناء میں سید المجاہدین المقاومۃ شہید حاج عماد مغنیہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے تمام جوان ابھی تک محاذ پر موجود ہیں اور بفضل خدا زندہ و سلامت ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ بنت جبیل میں اسرائیلی دشمن بڑی تیزی دے اندر تک داخل ہوتا چلا گیا اور حزب اللہ نے اس وقت کئی مہینوں تک جنگ لڑنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
سید حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کئے جانے والے راکٹوں کی ایک قلیل تعداد استعمال کی گئی تھی جبکہ اس سے بڑھ کر ہمارے پاس موجود تھے اور ہم اس پوزیشن میں تھے کہ ہم اس سے کہیں زیادہ راکٹ اسرائیلیوں پر برسا سکتے تھے لیکن زیادہ لمبے عرصے تک جنگ لڑتے رہنے کے خیال سے ہم نے جنگ کی حکمت عملی اسی طرح وضع کی تاکہ کئی مہینوں تک جاری رہنے والی جنگ میں راکٹوں کا مسلسل استعمال جاری رہے۔ اسی طرح اس جنگ میں دیگر عناصر کی طرح ہمارے مرکزی اور نیچے بنائے گئے رابطے کے مقامات کا ایک دوسرے کے ساتھ مربوط رہنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے بتایا کہ اسرائیل کے ساتھ جاری اس جنگ میں حزب اللہ نے درجنوں اسرائیلی جاسوسوں کو گرفتار کرکے لبنانی سیکورٹی اداروں کے حوالے کیا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یاد رکھیں اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اسرائیل کی شکست کا ایک بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ان کے پاس معلومات کمزور اور ذرائع کمزور ترین تھے۔ خصوصاً اس وقت کہ جب اسرائیلی افواج نے بعلبک میں قائم دارالحکمہ اسپتال میں اپنے فوجی اتارنے کی غلطی کی۔
سید حسن نصر اللہ نے المیادین ٹی وی کے غسا ن بن جدو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسرائیلی دو فوجیوں کو اغوا کے بعد بعلبک لے جایا ہی نہیں گیا تھا جبکہ اسرائیل کے پاس معلومات یہ تھیں کہ دونوں اغوا شدہ اسرائیلی فوجی بعلبک میں موجود ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں نہیں تھا جبکہ ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا، اسرائیل نے بیروت شہر میں قائم دھایہ کے علاقے کو بمباری کرکے تباہ کر دیا، حزب اللہ یہ صلاحیت رکھتی تھی کہ وہ تل ابیب پر بمباری کرکے بڑا نقصان پہنچا دے لیکن ہم یہ دیکھ رہے تھے کہ اگر اسرائیل مزید کچھ دن اس طرح کے حملے جاری رکھتا تو پھر حزب اللہ بھی اسرائیل کی شہری آبادی تل ابیب کو نشانہ بناسکتی تھی اور ایسے موقع پر اسرائیل کے ہزاروں ٹینکوں کو تباہ کر سکتے تھے۔
شام نے حزب اللہ کے لئے بے پناہ اسلحہ کے ذخیرے فراہم کئے:
المیادین پر جاری طویل انٹرویو کے دوران حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یقین کریں کہ کوئی اسرائیل ٹینک سلامت نہیں رہ سکتا تھا جو ہمارے کورنٹ میزائل کی زد میں آتا تھا، اسی طرح اسرائیل کی طرف سے ہم پر بحری جہاز سے جاری حملے ہمارے لئے حیرت انگیز تھے اور اس کو نشانہ بنانا مشکل کام تھا۔ ہمارے مجاہدین نے اس کام کو بھی انجام دیا اور اسرائیل کے اس بحری جہاز کو نشانہ بنایا جو سمندر میں موجود تھا اور لبنان پر بمباری کر رہا تھا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میرے ایک فون میسج کے ختم ہونے سے بھی پہلے مجاہدین نے اس پر میزائل حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اسرائیل بحری جنگی جہاز بھی نابود ہوگیا۔ ایک سوال کے جواب میں سید حسن نصر اللہ نے بتایا کہ اسرائیل نے بیروت میں واقع دھایہ کے علاقے میں شہری عمارتوں کو یکے بعد دیگرے بمباری کا نشانہ بنایا، اس عمارت کے ہر کمرے میں حزب اللہ کا کوئی آدمی نہیں تھا اور نہ ہی پوری عمارتوں میں حزب اللہ کے رہنما رہتے تھے، یہ ایک غیر منطقی بات ہے کہ جنگ کے دوران حزب اللہ کی پوری قیادت ایک ہی علاقے میں جمع ہو جائے۔
سید حسن نصر اللہ نے بڑی وضاحت کے ساتھ بتایا کہ حزب اللہ نے جولائی 2006ء کی جنگ میں اور اس جنگ سے قبل شام سے بڑی تعداد میں اسلحہ وصول کیا ہے اور حزب اللہ نے اس جنگ میں شام سے ملنے والے اسلحے کے ساتھ بہت استفادہ کیا ہے۔ جنگ میں استعمال کئے جانے والے متعدد ہتھیار شامی ساختہ تھے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ جولائی 2006ء میں جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی شامی افواج نے اسلحہ ڈپو حزب اللہ کے لئے کھول دئیے تھے۔ ہم نے کورنٹ میزائل شام سے حاصل کیا اور ہم نے کئی ایک ہتھیار جو کہ جنگ میں استعمال کئے شام سے لئے تھے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ شام کے صدر بشار الاسد نے کہا تھا کہ وہ بھی اس جنگ میں شریک ہونا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جنگ صرف خطے یا کسی ایک مزاحمتی تحریک کے خلاف نہیں بلکہ اس جنگ کا مقصد پورے مشرق وسطیٰ پر اسرائیلی تسلط ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اگر صیہونی حسبیہ اور المسناء کے مقام پر شامی سرحدوں سے لبنان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے تو اس سے پہلے ہی شامی افواج نے اپنے یونٹس کو چاک و چوبند کر دیا تھا تاکہ اسرائیلی فوجیوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میں نے بشار الاسد کو بتایا کہ حزب اللہ کی پوزیشن مستحکم ہے اور ہم جنگ کو فتح کرنے کے قریب ہیں جبکہ اسرائیل اس جنگ میں ناکام ہو چکا ہے اور اس کے ناپاک عزائم بھی خاک میں ملا دئیے گئے ہیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ میں بالکل پریشان نہیں ہوں اور میں یہ نہیں سمجھتا کہ شام کو اسرائیل سے اب کوئی خطرہ ہے۔ میں نے بشار الاسد سے کہا کہ میں نے یہ فون آپ کو حوصلہ دینے کے لئے کیا ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ جنگ پوری خطے میں پھیلے بلکہ ہم اس جنگ کو فتح کرنے کے قریب ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہم نے جولائی 2006ء میں اسرائیل سے ہونیوالی تینتیس روزہ جنگ میں ایران سے کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں لیا کیونکہ ہمیں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
تینتیس روزہ جنگ کے بعد مذاکراتی عمل:
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ جنگ کے اختتام پر میں نے ہرگز فواد السینورا کو یہ اتھارٹی نہیں دی تھی کہ سیاسی سطح پر جنگ کے بارے میں مذاکرات کرے اور وہ بھی امریکی اور یورپی سیاست دانوں کے ساتھ۔ اگر ہم ان کو اپنی گردن پیش کریں تو وہ ذرا بھی دیر نہ کریں گے اور ہماری گردنوں کا کاٹ ڈالیں گے۔ سید حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ جولائی 2006ء میں جاری جنگ کے دوران اور اس کے بعد ہم سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا کہ ہم اپنا اسلحہ پھینک دیں، ہم سے یہ بھی کہا گیا کہ شامی اور فلسطین سرحدوں کے ساتھ کثیر ملکی افواج کے دستے نافذ کر دئیے جائیں گے تاہم حزب اللہ اسلحہ سے دستبردار ہو جائے اور ہم سے یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل کے دو فوجی جو حزب اللہ کی قید میں ہیں انہیں رہا کیا جائے لیکن ہم نے ان تمام مطالبات کو مسترد کر دیا۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہ عرب ممالک ہی تھے جو حزب اللہ کے خلاف جنگ چاہتے تھے، ہم نے واضح کر دیا تھا کہ ہم اس جنگ کو لبنانی مطالبات کے پورا ہونے پر ختم کریں گے نہ کہ کسی خیانت کا حصہ بنیں گے، البتہ اس موقع پر اندرونی سطح پر سیاست کی بڑی کشمکش جاری تھی۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ میں بالکل بھی حیرت زدہ نہیں تھا کہ لبنانی وزیر اعظم نے خود کو اس جنگ سے تنہا رکھا تھا، ان کا یہ فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ تھا۔
حزب اللہ کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی:
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ امریکی اور سعودی نہیں چاہتے کہ حزب اللہ لبنان میں حکومت کا حصہ رہے اسی لئے وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسی کوششیں کرتے رہتے ہیں جس سے وہ اس بات کے لئے تیار ہو جائیں کہ حزب اللہ سے ہٹ کر حکومت بنا لی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے بغیر لبنان میں کوئی حکومت نہیں بن سکتی کیونکہ حزب اللہ ایک حقیقت ہے اور اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ان تمام تر باتوں کے باوجود میں بتانا چاہتا ہوں کہ حزب اللہ مزید طاقتور ہو چکی ہے اور حزب اللہ کی موجودہ طاقت جولائی 2006ء جنگ کی طاقت سے کئی گنا زیادہ ہے۔