تحریر : (علامہ سید شفقت حسین شیرازی)
مغربی استعمار كی سرپرستی ،قبائلی تعصب و زور شمشیر ، مقدسات کی بیحرمتی اور بیگناه انسانیت کے قتل عام پر قائم هونے والی آل سعود کی فاشسٹ مملکت ، اب اپنے منطقی زوال کی طرف تیزی سے رواﮞ دواﮞ ہے. شرق وغرب میں پائی جانے والی نفرتیں ہوﮞ یا بد امنی ، آئے دن ٹارگٹ کلنگ ہوں یا دهماکے،ان سب کی ﺟﮍں تکفیریت کے محور و مرکز سعودی عرب میں جا پهنچتی ہیں. اب تو یه بات کسی سے پوشیده نهیں رهی ،بلکه روز روشن کی طرح عیان ہو چکی ہے اور پوری دنیا جانتی ہے کہ لیبیا کو تباه کرنا ہو یا مصری عوام کی خونریزی هو، بحرینی عوام پر ظلم وستم هو یا شام وعراق کی تباهی وبربادی ان سب سیاهکارناموں کو اسی صحرائی ملوکیت نے سر انجام دیا هی.پهر بهی اگر بیں الاقوامی معروف دہشت گرد دہشت کردی کا سرٹیفکیٹ صادر کریں تو یہ بذات خود دہشت گردی ہو گی۔
یهاں پر چند ایک سوالات پیدا هوتی ہیں کہ :
1- یہ سب کچھـ سعودی حکمران کیوں کر رہے ہیں؟
2- اس تباہی سے کس کو فائده پهنچ رہا ہے ؟
3- حزب الله اور اخوان المسلمین کو اس عالمی دهشت گردی کی سرغنہ مملکت نے دہشت گرد کیوں قرار دیا ہے؟
پہلے سوال کی جواب میں عرض خدمت هے که جب مغربی استعمار نے عالم اسلام کی دل یعنی فلسطین کی مقدس سرزمیں پر نجس صیہونی حکومت کا منصوبہ بنایا تو اسی وقت انہیں احساس تها کہ مسلم امہ اس اقدام پر خاموش نهیں رہے گی اور امت اسلامیہ اس وجود کی خلاف بهرپور مزاحمت کریگی. اس لئےضروری هو گا کہ:
1- امت کو توﮍنےاور اس کی وحدت کو پارا پارا کرنے کا ایک جامعہ منصوبہ بنانا چاہے۔
2- خطے میں ایک مسلمانوں کی ایسی حکومت بهی ہمارے ہاتھ میں ہو جو اس صہیونی حکومت کی بقا کی ضامن ہو اور اس کیخلاف متفقہ فیصلہ نہ ہونے دے۔
ان دونوں اهداف کی حصول کیلئے مغربی استعمار نے آل سعود کا انتخاب کیا. اور آل سعود نے اس زمہ داری کا عہد خوب نبهایا. آج آپ پورے عالم اسلام پر نظر دوﮍائیں تو آپکو مسلمان آپس میں ﻟﮍتے نظر آئیں گے. وه اسلام کہ جس نے عصر جاہلیت کی بکهری هوئی انسانیت کو وحدت واخوت کی ﻟﮍی میں پرویا تها اور انسانوں کو انسانی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرایا تها. جس نی قتل وغارت اور عصمت دری کو ختم کیا تها آج اسی تکفیری مملکت کی بدولت ، عصر علم ونور میں، دیں اسلام کی نام پر انسانیت کے قتل عام کا بازار گرم ہے. جہاد نکاح کی نام پر عصمت دری ہو رہی ہےاور کلمہ گو مسلمانوں کو غلام اور لونڈی بنایا جارہا ہے، سب کچھ دیکهتے ہوئی لوگ اندهے اور گنگے نظر آتے ہیں اور سب کچھ سنتے ہوئے بهی بهرے ہیں . کیونکہ بهیانک جرائم کے ارتکاب سے ایک رعب اور خوف کی کیفیت طاری کر دی گئی ہے۔
صہیونی حکومت آج مطمئن ہے کہ اس کی خلاف مقامت اور جهاد کرنے والے مسلمان آپس میں ﻟﮍ رهے ہیں. شام کی حکومت جو صہیونی (اسرائیلی) حکومت کی خلاف آزادی کی تنظیموں کا مرکز اور پناہ گاه تهی اسے آج جرم وفا کی سزا دی جا رہی ہے اور وه فلسطینی کہ جنکا اپنا وطن اور سرزمیں منحوس صہیونی قبضے میں ہے انهیں سعودیہ نے اپنی پنگاه شام کی تباہی پر لگا دیا ہے . تکفیری نیٹ ورک کے 83 ممالک کی مسلح دہشت گرد آل سعود کی سرپرستی اور مدد کےساتھ قلعہ مقاومت سوریا کی تباہی میں گذشتہ 3 سال سے ﻟﮍ رہے ہیں۔
دوسرے سوال کا جواب یہیں سے مل جاتاہے کہ ان جنگوں میں دونوں طرف سی ﻟﮍنے والے بهی مسلمان ہیں اور تباہی بهی مسلمانوں کی ہو رہی ہے. اور مسلمانوں کو قتل کرنے اور آباد وشاد شہروں کو تباه کرنے کیلئے اسلحہ بهی مسلمانوں کی پیسوں سے خریدا جا رہا ہے اور کهربوں ڈالرز کا اقتصادی نقصان بهی مسلمانوں کا ہو رہا ہےاور اس کا فائده فقط اور فقط صہیونیوں کو ہو رہا ہے. آج صہیونی غاصب حکومت (اسرائیل) خوش ہے، نام نہاد مجاہدین کو ٹریننگ بهی دے رہی ہے اور انکے زخمیوں کا علاج اور انہیں ہر قسم کی ٹیکنالوجی فراہم کر رہی ہے تاکہ یہ جنگ طولانی ہو. اور آج آل سعود اور صہیونی گٹھ جوﮍ بالکل کهل کر سامنے آ جکا ہے. آل سعود نے ان تکفیریوں کی اتنی بریں واشنگ کردی ہے، که وه نہ تو حقیقی روح اسلام کو سمجھ سکتے ہیں کہ جس کو لانے والے ہمارے پیارے نبی (ص)، (وما ارسلناک الا رحمة للعالمین) کا مصداق ہیں. اور اسلام محبت اور سلامتی کا دیں ہے (المسلم من سلم المسلمون من یده و لسانه). اور سب مسلمان آپس میں بهائی بهائی ہیں (انما المؤمنون أخوة).
تیسرے سوال کا پهلا حصہ کہ حزب الله کو کیوﮞ دہشت گرد قرار دیا گیا جبکہ طالبان جو ہزاروں بیگناه افراد کے قاتل ہیں انکی ہر لحاظ سے مدد کی جا رہی ہے اور انہیں محفوظ رکهنے کیلئے حکومت پاکستان کو ملینز ڈالرز کی رشوت دی جارہی ہے. انکے دفاتر کهولنے اور ان سے مذاکرات کیلئے پریشر ڈالا جاتا ہے. آل سعود کبهی اپنی نا جائز اولاد کو ختم ہوتا نہیں دیکھ سکتے. پاکستان رہے یا نہ رہے، وه پوری کوشش کریں گے کہ حکومت پاکستان انکے بچوں کی رکهوالی کرے. اور ویسی بهی ان دنوں حکومت ہی اپنی ہے. آخر 8 سال شریف برادران کو کیوں پالا پوسا تها. انہیں ایام کے لئے ہے تو پهانسی کی پهندوں سے بچایا تها. اور یہ بهی اپنی بهائیوں کی وفادار ہیں. انکا کام اگر عسکری دہشت گردی ہی تو انکا کام بهی سیاسی دہشت گردی اور عسکری دہشت گردوں کی سر پرستی. دونوں ایک ہی ریال (سکے) کی دو رخ ہیں. اسی لئے تو ایک مرتبہ عوامی پریشر میں آکر طالبان کیخلاف عسکری کاروائی کی حمایت کرتے ہیں اور اگلی دن مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کر دیتےہیں ۔
آل سعود کا حزب الله کو دہشت گرد قرار دینا ، پہلے نمبر پر اسرائیل کی خوشنودی و رضایت حاصل کرنا ہے. کیونکہ یہ حزب الله ہی تهی جس نے تنہا دو مرتبہ صہیونی (اسرائیلی) اور امریکی تکبر کو خاک میں ملایا تها. ایک مرتبہ سال 2000 میں اسے شکست دی اور جنوبی لبنان سے بهاگنے پر مجبور کیا اور دوسری مرتبہ سال 2006 میں اسے شرمناک شکست دی تهی . اور دوسرے نمبر پر اپنا ذاتی غیض وغضب بهی ہے. کیونکہ حزب الله کے مجاہدین نے اپنے ایمانی جذبے اور فنی مہارتوں سے قلعہ مقاومت شام حکومت کو سعودی ایجنٹوں (تکفیری مسلح گروہوں) کی ہاتهوں گرنے نہیں دیا. شامی عوام کی استقامت اور فوج کی جوانمردی اور محور مقاومت کی حکمت عملی نے عالمی سیاست کا رخ بدل کررکھ دیا ہے. اب شرق وغرب سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ اس تکفیریت کا قلع قمع کیا جائے . تکفیریت اورعالمی فتنوں کے محورومرکز ، امریکہ اور سعودی عرب بهی مجبورا اپنی واپسی کی قدم اٹها رہے ہیں. اور ہر روز سعودیہ میں نئے فرامین صادر ہو رہے ہیں. اب وه دن آ چکے ہیں کہ اسی عالمی بیداری اور اقوام عالم کی انتقام سے بچنے کیلئے اس زمانے کے یزید وں کو اپنے جرائم سے دست برداری کا اعلان کرنا ہو گا اور کهنا ہو گا کہ میں نے تو فرزند رسول حضرت امام حسین (ع) کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تها اس کا زمہ دار حاکم کوفہ عبید الله ابن زیاد ہے اور اسی طرح زمانے کا ابن زیاد کهے گا کہ اس کا زمہ دار عمر بن سعد ہے جس نے کربلا میں کمانڈ کی تهی اور عمر بن سعد شمر لعین کو قاتل قرار دیگا۔
اور اختتام تیسرے سوال کے جواب کے دوسرے حصہ پر کرتے ہیں ، کہ آخر اخوان المسلمین جوکہ فکری اور عقائدی اعتبار سے وہابیت اور سلفیت سے زیاده فاصلے پر نہیں آخر انہیں کیوں سعودی حکومت نے دہشت گرد قرار دیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اخوان المسلمین تعلیم یافتہ اور مفکرین کی جماعت ہے اور اس کی ظاہری تاریخ گواه ہے ک اس نے ہمیشہ استکباری قوتوں کیخلاف جدوجہد کی لیکن ایک طویل سیاسی وجہادی جدوجہد کےبعد جب پورے عالم اسلام میں نمونے کی ایک حکومت بهی بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی تو انهوں نے اپنے اسلاف کی اصولوں سے انحراف کیا. اور استعمار واستکبار سے جهاد کی بجائے افهام وتفهیم اور ساز باز کا راسته اختیار کیا جس کی مثال مصر میں محمد مرسی حکومت کا حصول ہے. اس حکومت کے حصول کے مقابلے میں کیمپ ڈیوڈ معاہدےکی مخالف جہادی وسیاسی پارٹی کو شمعون پیریز سے مخاصانہ اور دوستانہ خط وکتابت کرنا ﭙﮍی. اور امریکہ کا سہارا بهی لیا. لیکن اس انحراف سے نہ حکومت باقی رہے اور نہ ہی سنہری اصول۔
اور دوسرا انحراف تمام مسلمانوں کی حقوق کی بات کرنے والی پارٹی تعصب کی لہر کا شکار ہو گئی. تمام مسلمان سنی ہوں یا شیعہ انہیں قدر کی نگاه سے دیکهتے تهے ، لیکن عالم تسنن کی رهبری اور نمائندگی کی سرد جنگ میں وہابیت اور سلفیت (کہ جس کا مرکز سعودیہ ہے) کے مقابلے میں اخوان المسلمین تکفیری سوچ کے نفوذ کو نہ روک سکی بلکہ وه اسکا فقط شکار نہیں ہوئی بلکہ یوں نظر آنے لگا کہ اسکا باقاعده حصہ بن چکی ہے. اور اپنے اسلاف کی اعتدال کی راه کو چهوﮍ دیا هے. لیکن تکفیری محور سعودی عرب انہیں اپنا آلہ کار تو دیکھ سکتا ہے. لیکن انہیں اقتدار میں شریک نهیں دیکھ سکتا. اور اس کی وضاحت عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے اس جملے سے ہو سکتی ہےکہ جب اس نے اپنے بیٹے مامون الرشید سے کہا تها کہ اگر چہ تو میرا بیٹا ہے لیکن تو بهی میری خلافت اور حکومت کی لئے خطره بنے گا تو تمہاری جان لے لوں گا ( یا بنی ، ان الحکم لعقیم) کہ حکومت کا نشہ بےاولاد ہے۔
اخوان المسلمین کی کسی بهی ملک میں حکومت قائم ہونا آل سعود کی حکومت کےوجود کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے. اس لئے وه کهیں بهی انکی حکومت قائم نہیں ہونے دیں گے. کیونکہ اگر ایک جگہ پر حکومت مضبوط ہو گئی تو اس کا نفوذ پهیلے گا اور اس پهیلاؤ کی زد میں سعودی اور دیگر خلیجی حکومتیں عوامی انقلابات دیکهں گی. اسی لئے مصر کی مرسی منتخب حکومت کو گرانے میں سعودی عرب نے بهر پور حمایت اور مدد کی تهی۔
خلاصہ پوری دنیا کی مسائل سیاسی ہیں انہیں استکباری قوتوں کیطرف سے دینی اور مذہبی رنگ دینے کی کوشش کیجاتی ہے. شام حکومت اسرائیل کو قبول کر لی اور فلسطین کا فاتحہ پڑھ لےتو بشار الاسد قابل قبول ہے ، وگرنہ انہیں. یہ جنگ کا ایندہن رہی ہے . یہ سعودیہ کا پروپیگنڈا ہے . ایسی آمرانہ حکومت کہ جس نے نہ کبهی الیکشن دیکها ہے ، نہ وہاں پارلیمنٹ اور نہ ہے عوام کی رائے کا احترام وه شام میں جمہوریت پر اعتراض کر رہی ہے اور مختلف قسم کی باتیں کر رہی ہے۔